علی پور کا ایلی 741 تا 755

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی
صفحہ 741 تا 755

قوال اور قریب آ گئے۔ “ ہمیں لڈو کھلاؤ، ہمیں لڈو کھلاؤ۔“

“ اپنی ماں سے مانگو اپنی ماں سے مانگو۔“ سادی تالی بجاتے ہوئے گانے لگی۔

ایلی گھبرا کر چل پڑا۔

ابھی دو چار ایک قدم ہی چلا تھا کہ قوالی کی آوازیں بند ہو گئیں۔

“ الیاس صاحب الیاس صاحب“ سادی کی آواز سنائی دی۔ “ یہاں آئیے۔“

جب ایلی قریب پہنچا تو وہ کہنے لگی۔ “ یہ بھائی صاحب آم دے رہے ہیں تحفتاً۔ کھائیں گے آپ۔“

“ آم دے رہے ہیں۔“

“ لڈو مانگنے سے بات شروع ہوئی تھی آم کھلانے پر ختم ہو رہی ہے۔ اچھے رہے نا۔“ وہ ہنسی۔

“ معاف کیجیئے وہ تو ویسے مذاق تھا۔“ ایک نوجوان جھینپتے ہوئے بولا۔

“ کہیں یہ آم والی بات بھی مذاق نہ ہو۔“ سادی نے کہا۔

وہ سب ہنسنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

حور اور لنگور

پھر وہ دونوں آم چوستے ہوئے باغ میں یوں گھومنے لگے جیسے میلے پر آئے ہوئے ہوں۔ اور بالاخر ایک بڑے سے پلاٹ میں بیٹھ کر گپیں مارنے لگے۔ سادی بات بات پر ہنستی، قہقہہ لگاتی، تالی بجا بجا کر ہنستی۔ وہ اپنے آپ میں اس قدر گم تھے کہ انہیں گردوپیش کا احساس ہی نہیں تھا۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ دور دور سے طلباء اس پلاٹ کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ وہ چپکے سے پودوں کی اوٹ میں بیٹھ جاتے اور پھر دور بیٹھے ہوئے ساتھیوں کو اشارے سے بلاتے۔ حتٰی کہ ان کی تعداد بیس پچیس تک پہنچ گئی۔ پھر وہ چپکے سے پودوں کی اوٹ سے نکل کر آئے اور انہوں نے سادی اور ایلی کے گرد چاروں طرف حلقہ بنا لیا اور گانے لگے۔

“ پہلوئے حور میں‌ لنگور خدا کی قدرت۔“

ایلی نے گھبرا کر ادھر دیکھا۔ اس کا دل ڈوب گیا۔

وہ جھوم جھوم کر گا رہے تھے۔ تالی پیٹ رہے تھے، آنکھیں مٹکا رہے تھے۔

“ ارے۔“ ساری نے مسکرا کر ایلی کر طرف دیکھا۔

“ یہ کیا بدتمیزی ہے۔“ ایلی نے زیرِ لب کہا۔

“ وہ تو ہے۔“ سادی نے کہا۔ “ لیکن سچ کہتے ہیں۔“

لڑکے سادی کی بات سن کر تالیاں پیٹنے لگے۔ “ ہیر ہیر۔“

پھر سادی نے دونوں بازو اونچے کر دیئے۔ “دیکھئے بھائی صاحب“ وہ یوں چلانے لگی جیسے بس میں مٹھائی فروش بات شروع کرنے سے پہلے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے چلاتا ہے۔ “ سنئے بھائی صاحب۔“ اس نے دہرایا اور پھر رک گئی۔

“ یہ بتا دیجیئے۔“ وہ بولی۔ “ کہ حور کون ہے اور لنگور کون؟“

لڑکوں نے دلچسپی اور تعجب سے سادی کی طرف دیکھا اور قہقہے مارنے لگے۔

“ اپنے ان سے پوچھیئے۔“ ایک شوخ نوجوان ایلی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔

“ کیوں میرے ان صاحب۔“ سادی ایلی سے مخاطب ہو کر بولی۔ “ آپ کے لیے نام تو اچھا تجویز کیا ہے۔ ان لوگوں نے۔“

“ لنگور، لنگور، لنگور“ چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں۔ ایلی نے محسوس کیا کہ سادی کے مقابل میں وہ واقعی لنگور تھا۔ اس کی ٹانگوں میں دُم لٹکنے لگی۔

“ لیکن لنگور ہے کون۔“ سادی نے پوچھا۔

لڑکوں نے دایاں ہاتھ اٹھایا، جس طرف سادی کھڑی تھی اور چلائے “ حور حور“ پھر بایاں اوپر اٹھایا اور چلانے لگے “ لنگور لنگور۔“ پھر وہ ایک ساتھ بار بار اپنے ہاتھ اٹھا کر چلاتے۔ “ لنگور“ دیر تک وہ شور مچاتے رہے۔ اور سادی قہقہے لگاتی رہی۔

پھر سادی ان کے ساتھ شامل ہر گئی۔ ان کے حلقے سے ذرا ہٹ کر ایلی کی طرف اشارہ کر کے گانے لگی۔

“ پہلوئے حور میں لنگور خدا کی قدرت۔“

لڑکے جوش میں اس کے ساتھ چلانے لگے۔ ایلی چپ چاپ گھاس پر بیٹھا ہوا دانتوں میں تنکا چلائے جا رہا تھا۔ اس نے دو ایک مرتبہ بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس کے تیور دیکھ کر لڑکوں نے حلقہ اور بھی تنگ کر دیا تھا۔ اس لیے بیٹھ رہنے کے سوا اس کے لیے چارہ کار نہ تھا۔

کچھ دیر کے بعد جب سادی رخصت ہو رہی تھی وہ بھول گئے تھے کہ سادی ایک لڑکی تھی، نوجوان اور خوب صورت لڑکی۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔

“ تو آپ جا رہے ہیں۔“ ایک نے حسرت بھری نگاہ ڈال کر کہا۔

“ ہاں دونوں حور اور لنگور۔“

وہ ہنسنے لگے۔ “ خدا حافظ۔“ سادی نے کہا۔

پلٹن نے جواب میں سلوٹ مارا اور تانگہ چل پڑا۔ لنگور پائیدان پر رکھے ہوئے سائیکل سے چمٹا ہوا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

اور وہ -------

تانگے میں وہ دیر تک چپ چاپ بیٹھی رہی۔ اس نے دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنا کر ان میں ٹھوڑی ٹیک رکھی تھی اور سڑک پر نگاہیں جمائے ہوئے تھی۔

“ کس سوچ میں پڑی ہو۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ کچھ نہیں۔“ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔

“ آخر بات کیا ہے؟“

“ کچھ بھی تو نہیں۔“

“ ڈرتی ہو کہ بھائی جان کو پتہ نہ چل جائے۔“

وہ ہنسی۔ “ کیا فرق پڑتا ہے۔“

“ پھر سوچ کیسی؟“

“ سوچ کے سوا اب ہے ہی کیا۔“ وہ بولی۔

“ کیوں؟“

“ خود کردہ راحلاجے نیست۔“

“ پشیمانی ہو رہی ہے۔“

“ اونہوں۔ پریشان ہوں۔“

“ کیوں؟“

“ بس ہوں۔“ وہ ہنسی۔

“ تم تو بات کہہ دیا کرتی تھی۔“ ایلی نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا۔

“ نہ کہنے والی بات حائل ہو جائے تو۔“ اس نے حسرت بھری نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔

“ نہ حائل ہونے دو۔“ ایلی بولا۔

“ اگر آپ نے حائل کر رکھی ہو تو۔“

“ میں نے۔“ ایلی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

دیر تک دونوں خاموش رہے۔

ایلی سوچ رہا تھا۔ نا جانے دفعتاً وہ اس قدر سنجیدہ کیوں ہو گئی تھی۔ ایسی تو اس کی عادت نہ تھی۔ وہ تو ایک انبساط کا دھارا تھی جو کبھی رکا نہ تھا۔

“ ضرور کوئی بات ہوئی ہے۔“ ایلی نے کہا۔

“ ہوئی تو نہیں“ وہ بولی “ پہلے ہی سے تھی ------ چلو چھوڑو۔“ دفعتاً وہ ہنسی۔ “ جاؤ معاف کیا۔“

“ ارے تو کیا یہ مذاق تھا۔“

“ ہاں “ وہ ہنسی۔ لیکن اس کی ہنسی میں خوشی کا عنصر نہ تھا۔

“ آپ نے اپنے والد صاحب سے بات کی؟“ سادی نے پوچھا۔

“ نہیں تو۔“ ایلی نے جواب دیا۔

“ کیا وہ مان جائیں گے؟“

“ پتہ نہیں۔“ وہ بولا۔ “ مجھے ڈر آتا ہے۔“

“ اچھا۔“ سادی نے آہ بھری۔

“ کیا یہ ضروری ہے۔“ ایلی نے پوچھا۔

“ ہاں“ وہ بولی۔ “ ان کی طرف سے رسمی پیغام کا آنا ضروری ہے۔“

“ کیوں؟“

“ بڑے خاندانوں کے بڑے بکھیڑے ہوتے ہیں۔ اس بات پر لوگ بضد ہیں۔“

“ اچھا۔“ ایلی نے کہا۔ “ اور ------ “

سادی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ “ میں نے غلطی کی۔“

“ کیا؟ “

“ میں نے ان سے وعدہ کر لیا کہ اس معاملے میں انہیں مجبور نہ کروں گی۔“

“ کیا دیواریں ہی کھڑی ہوتی جائیں گی؟“

“ اونہوں۔ یہ تو دیواریں نہیں۔“ وہ ہنسی “ دیوار تو ------ “ وہ رک گئی۔

“ کہو نا۔“

“ زبردستی ہے کیا۔“

“ ہاں “ ایلی جلال میں آ گیا۔

سادی نہ قہقہہ لگایا۔

“ تمہیں بتانا پڑے گا۔“ وہ غرایا۔

“ نہیں بتاؤں گی، نہیں بتاؤں گی۔“ سادی نے قہقہہ لگایا۔

“ تو جملہ ہی مکمل کر دو۔“

“ اونہوں۔“

“ تمہیں میری قسم“ ایلی نے منت کی۔ “ کیا کوئی دیوار ہے۔“

“ ہاں۔“ وہ ہنسی۔ “ ہے، آپ کی جانب سے۔“

“ میری جانب سے۔“

“ ہاں۔“

“ جھوٹ بکواس۔ کوئی دیوار نہیں۔“

“ اور وہ ------ “ سادی نے قہقہہ لگایا۔

“ وہ ------ “ ایلی سوچنے لگا۔ “ وہ کون؟ بتاؤ نا۔“ جوش میں وہ بھول گیا کہ اس نے دونوں ہاتھوں میں سائیکل تھام رکھا تھا۔ اس نے سادی کا بازو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ دھڑام سے سائیکل تانگے سے گر پڑی۔ ایلی تانگے سے اتر آیا۔

سادی نے ایک اور قہقہہ لگایا۔ اور پھر چلا کر بولی “ خدا حافظ۔“ اور تانگا چل پڑا۔ ایلی نے سائیکل سنبھالی اور تانگے کو جا لینے کے خیال سے اس پر سوار ہو گیا لیکن گرنے کی وجہ سے پیڈل خراب ہو گیا تھا۔ اور زنجیر جام ہو چکی تھی۔ وہ سائیکل سے اتر آیا۔ اور پیدل چلتے ہوئے سادی کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ الوداعی انداز میں ہاتھ ہلا رہی تھی۔ “ خدا حافظ، خدا حافظ۔“ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

تنکا تنکا

علی پور آتے ہوئے گاڑی میں ایلی مسلسل سوچتا رہا لیکن اسے سمجھ میں نہ آیا کہ کونسی دیوار اس کی اپنی جانب سے حائل تھی۔ “ وہ ------ “ سے سادی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ وہی ایک دیوار تھی جا سادی اور ایلی کے درمیان حائل تھی لیکن نہ جانے کیوں اس جذباتی تعلق کے باوجود جو وہ شہزاد کے متعلق محسوس کرتا تھا وہ اسے دیوار نہیں سمجھتا تھا۔ اگر وہ اس موضوع پر غور سے سوچتا تو محسوس کرتا کہ الٹا سادی تو بذاتِ خود شہزاد اور ایلی کے درمیان ایک دیوار بن چکی تھی۔ ایک ایسی دیوار جو راستے کی مشکل نہیں تھی بلکہ ایلی کے تحفظ سکون اطمینان اور خوشی کی دیوار تھی۔ یہ صحیح تھا کہ ایلی کو شہزاد سے بے حد وابستگی تھی لیکن ایلی محسوس کرنے لگا تھا کہ شہزاد کے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات صحت مند نہیں رہ سکتے تھے۔

بہرحال وہ سادی کے اس اشارے کو نہ سمجھ سکا۔ اسے خیال بھی نہ آیا کہ کسی نے سادی سے شہزاد کی بات کہہ دی تھی۔ اور پھر بیگم کہے یہ خیال اس کے دل میں نہ آیا۔ اگر وہ سادی کے اس اشارے کو سمجھ پاتا تو یقیناً وہ سادی سے مل کر اسے تمام روئیداد سنا دیتا اور سادی اپنی خلوص پسندی اور سادگی کی وجہ سے اس پھانس کو اپنے دل سے نکال دیتی جو بیگم نے انتقام کے جذبے کی وجہ سے اس کے دل میں پیدا کر دی تھی۔

لیکن حالات کا تقاضہ کچھ اور تھا۔ مستقبل کے بطن کے واقعات کا رخ کسی اور جانب متعین تھا۔ ہونے والے واقعات مستقبل کے بطن میں چلا رہے تھے، اپنی نمو کے لیے بلک رہے تھے۔

علی پور پہنچ کر جب ایلی شہزاد کے چوبارے میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ صفدر اور شہزاد ایک جگہ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ سادی کی باتوں کی وجہ سے اس قدر پریشان تھا کہ اسے خیال ہی نہ آیا تھا۔ اس نے صفدر کی آنکھ میں گرسنہ چمک کر طرف توجہ نہ دی اور اس نے بھی نہ دیکھا کہ شہزاد اس کی آمد پر گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی ہے۔

“ ایلی کو دیکھ کر بیگم قریب آ گئی۔ “ تو آ بھی گیا۔“ وہ بولی۔

“ ہاں “ ایلی نے جواب دیا۔

“ دو ایک روز بھی باہر نہ رہ سکا۔“ بیگم کی مسکراہٹ میں طنز کی دھار تھی۔

ایلی نے غصے سے بیگم کی طرف دیکھا۔

صفدر کے چہرے پر چمک ابھری۔

شہزاد جوں کی توں بیٹھی رہی۔

ایلی بیگم کی بات کو جواب دیئے بغیر فرحت کی طرف چل پڑا۔

علی پور آنے کے بعد ایلی پر صرف ایک دھن سوار بھی کہ جس قدر ممکن ہو وہ علی احمد سے رضامندی حاصل کر لے۔ اس کا خیال تھا کہ ابا اس معاملے میں ضد نہین کریں گے۔ اسے معلوم تھا کہ علی احمد ہر اس بات کے خلاف ہیں جس میں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے ------ ایلی کی شادی کی بات ان کے لیے ایک مصیبت تھی۔ زبانی بات چیت بھی ناگوار تھی۔ لیکن اخراجات سے ہٹ کر انہیں قطعی طور پر اس بات میں کوئی دلچسپی نہ تھی کہ ایلی کی شادی کہاں ہوتی ہے یا وہ خاندان کیسا ہے یا لڑکی کی ناک اونچی ہے یا بیٹھی ہوئی۔

اگر ایلی علی احمد سے کہتا ابا جان میرے شادی کر دیجیئے تو علی احمد اس بات پر ذرا بھی چیں بہ چیں نہ ہوتے۔ وہ ان بزرگوں کی طرح نہ تھے جو ایسی بات پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور کھنکار کر خاموش ہو جاتے ہیں یا آنکھیں نکال کرکہتے ہیں “ شرم کرو بیٹا اپنے منہ سے ایسی بات کہتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے۔“

ایسے وقت ان کا رویہ ایک تماش بین سا ہو جاتا۔

“ بہت اچھا۔“ بہت اچھا وہ نہایت خوش اخلاقی سے کہتے۔ اور پھر اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے کہتے۔ “ لو بھئی راجو شمیم سنا تم نے ایلی کہتا ہے میری شادی کر دو۔ ہی ہی ہی ہی۔ سن لیا تم نے۔“ وہ قہقہہ مار کر کہتے۔ اس قہقہہ میں تمسخر کا عنصر نمایاں ہوتا۔ پھر دفعتاً وہ سنجیدہ ہو جاتے۔ “ لیکن راجو بھئی کہتا ٹھیک ہے۔ اب اس کی شادی کی فکر کرنا ہی چاہیے۔ اب تو جوان ہوگیا ہے۔ اور ایلی سچ پوچھو تو شادی کیا ہے اک روگ ہے۔ راجو سن رہی ہے تو کیا کہہ رہا ہوں میں۔ لیکن تیرے سننے نہ سننے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سن بھی لے ت کیا سمجھ لے گی میری بات۔ ہی ہی ہی ہی۔ وہ ہنستے۔ لیکن واہ واہ کیا روگ ہے۔ ہزار روگ سے بچانے والا، ہزار بری عادتوں سے محفوظ رکھنے والا۔ بس ایک روگ لگا لو ہزار مصیبتوں سے محفوظ ہو جاؤ۔ سن رہی ہو راجو مثلاً تمہارا روگ لگا کر میں ہزار مصیبتوں سے بچا ہوا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔ “ ہاں بھئی۔“ وہ ایلی سے مخاطب ہو کر کہتے۔ “ ٹھیک کہتے ہو تم۔ تمہاری شادی فوراً ہو جانی چاہیے۔ لو بھئی راجو شمیم کر دو شروع تیاری ہم بھی کوئی مناسب لڑکی دیکھتے ہیں۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے۔ “ راجو اب میں کوئی اپنے لیے تھوڑے دیکھتا ہوں۔ اب تو مجھے مجبوراً ایلی کے لیے لڑکیوں کو دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔اور دیکھو نا ایلی شادی کوئی کھیل نہیں کہ آج تم کہو اور کل ہو جائے۔ بھئ یہ تو بہت بڑا بکھیڑا ہے۔ پہلے تنکا تنکا اکٹھا کریں۔ اتنے امیر تو ہم ہیں نہیں کہ ایک دم سب کچھ خرید لیں۔ کوئی زمانہ آیا ہے۔ دال روٹی نہیں چلتی۔ بس تنکا تنکا اکٹھا ہو گا پھر تمہارا آشیانہ بنے گا اور پھر کوئی فاختہ آ بیٹھے گی اللہ اللہ خیر سلا۔ لو بھئی راجو تو شروع کر دو آج ہی تنکا تنکا جمع کرنا۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنستے اور بات طاق پر دھری کی دھری رہ جاتی۔

ایلی سوچ رہا تھا کہ ابا سے اس انداز سے بات کی جائے کہ انہیں واضح طور پر محسوس ہو کہ اخراجات کا انتظام ہو چکا ہے۔ تنکا تنکا اکٹھا ہو چکاہے۔ فاختہ بھی موجود ہے اور ان سے صرف یہ توقع کی جا رہی ہے کہ رسم کے مطابق فاختہ کو اپنی انگلی پر بٹھا کر لے آئیں اور بنے بنائے گھونسلے میں بٹھا دیں۔ اس صورت میں شاید وہ اعتراض نہ کریں۔

ایلی نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ اخراجات کون پورے کرئے گا، روپیہ کہاں سے آئے گا، رسومات کیسے ادا ہوں گی۔ رکھ رکھاؤ کیسے قائم رہے گا۔ یہ باتیں بے حد تکلیف دے تھیں اور ایس ناخوشگوار اور تکلیف دہ باتوں پر سوچنا ایلی کو ناپسند تھا۔ طبعی طور پر وہ ذہنی فرار کا قائل تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طریقے سے ابا سے رضامندی حاصل کر لے اور وہ ایک بار سادی کے اقربا سے مل کر رسمی طور پر پیغام پیش کر دیں۔ پھر چاہے کچھ ہو یا نہ ہو۔ پھر کے متعلق سوچنے سے ایلی گریز کرتا تھا۔ غالباً وہ سمجھتا تھا کہ اس دوران میں اسے الٰہ دین کا چراغ مل جائے گا اور جملہ ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ یا ایسا نہ ہو سکا تو شائد منصر اسے ان رسمی اخراجات سے آزاد کر سکے یا شاید اماں اس کی مدد کرئے۔ آخر اس نے ایلی کی منگنی بھی تو کی بھی اور کی بھی بڑی دھوم دھام سے تھی۔ کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ بشرطیکہ ابا رضا مندی دے دیں۔

ماں کے متعلق ایلی نے سوچا ہی نہ تھا۔ اس کی دانست میں اماں تو اس بات پر بے حد مسرور بھی۔ وہ تو خوش تھی کہ اس کا بیٹا ایک بیاہتا عورت کے دام سے نکل رہا ہے۔ اور اماں تو سادی کے ہاں دو تین مرتبہ ہو آئی تھی۔ اگر وہ اس بات پر خوش نہ ہوتی تو بھلا وہاں جاتی ہی کیوں۔ لٰہذا یہ بات تو طے شدہ تھی کہ اماں اس امر میں اس کا ساتھ دے گی۔

لیکن جب ایلی نے ماں سے بات کی تو وہ حیران رہ گیا۔

“ نہ بھئی۔“ وہ بولی۔ “ میں اس معاملے میں نہیں آؤں گی۔“

“ کیا مطلب “ ایلی نے حیرت سے پوچھا۔

“ مجھے بڑی خوشی ہے کہ تیری شادی ہو لیکن میں اس معاملے میں کیسے آ سکتی ہوں۔“

“ کیوں “ وہ غصے میں غرایا۔

“ دیکھو نا۔ میں نے کتنے چاؤ سے تمہاری منگنی کی تھی۔ اب اگر اس رشتے کو چھوڑ کر میں دوسری جگہ جا ناطہ جوڑوں تو لوگ کیا کہیں گے۔ میرے عزیز کیا سمجھیں گے۔“ پھر وہ رونے لگی۔ “ ہئے ایلی تو نے تو میری ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کتنے چاؤ سے میں نے تجھے نامزد کیا تھا اور پھر بالا بالا ہی نہیں تجھے پوچھ کر میں نے بات پکی کی تھی۔ یاد ہے تجھے تو نے کس خوشی سے ہاں کہا تھا۔ لیکن اب۔“ وہ خاموش ہو گئی۔ اس کے گالوں پر آنسو یوں بہنے لگے جیسے جھڑی لگی ہو۔

“ تو کیوں جی برا کرتی ہے اماں۔“ فرحت بولی۔

“ جی برا۔“ وہ رونے لگی۔ “ میرا دل تو اس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ایک اس کی امید رچائے بیٹھی تھی۔ اس کو دیکھ کر جیتی رہی۔ خاوند کی بےرخی برداشت کی، سوکنوں کی خدمت میں لگی رہی۔ زندگی بھر محنت مزدوری کر کے اسے پالا۔“ ہاجرہ کی ہچکی بندھ گئی۔

ایلی نے محسوس کیا جیسے ہاجرہ کے آنسو اس کے آشیاں کے تنکے ہوں جو بہے جا رہے ہوں۔

گھبرا کر وہ اٹھا اور اپنا غصہ اور اضطراب چھپانے کے لیے سوچے سمجھے بغیر زینہ چڑھنے لگا۔

شہزاد کے چوبارے میں پہنچ کر وہ ٹھٹھکا۔ شہزاد کھڑکی میں تھی جس کے قریب ہی صفدر کے چوبارے کی کھڑکی تھی۔ اور وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ چپ چاپ وہ کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔

دفعتاً صفدر کی نگاہ ایلی پر پڑی۔ آئیے آئیے۔“ وہ چلایا۔ “ الیاس صاحب آئے ہیں۔“ شہزاد نے مڑ کر ایلی کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر صفدر سے باتیں کرنے میں مصروف ہو گئی۔

“ نہ “ وہ بولی۔ “ مجھے اس ڈیزائن کے بندے پسند نہیں۔ مجھے تو کوئی نئے فیشن کا نمونہ دکھاؤ۔ اتنے روپے بھی خرچوں اور پھر وہی دقیانوسی چیز۔ کام کرنا ہے تو دل سے کرو ورنہ کیا فائدہ۔“ وہ وہنسنے لگی۔

“ بہت اچھا۔“ صفدر نے دونوں بازو اٹھا کر یوں کہا جیسے حافظ خدا تمہارا گاتے ہوئے سٹیج سے باہر جا رہا ہو اور وہ چلا گیا۔

شہزاد فارغ ہو کر چوبارے میں ادھر ادھر گھومنے لگی جیسے کچھ تلاش کر رہی ہو۔ دودھ پیتی بچی پر کپڑا دیا۔ کارنس پر پڑی سرمے دانی کو ایک طرف رکھا۔ صندوق کھول کر تکیے کا غلاف نکالا۔ اسے سرہانے پر چڑھایا اور پھر تیل کی کپی اٹھا کر مشین کو تیل دینے لگی۔

ایلی چپ چاپ اسے دیکھتا رہا اور پھر مایوس ہو کر نیچے اتر آیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
علی پور کا ایلی

مسٹر گپتا

جن دنوں ایلی نے بے اے پاس کیا وہ مالی بحران کے دن تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے سانپ کو گزرے سالہا سال گزر چکے تھے۔ لیکن لکیریں اب ابھر رہی تھیں۔ ہر محکمے میں تخفیف کا کلہاڑا چل رہا تھا۔ نوکری حاصل کرنا ناممکن تھا۔

مجبوری میں ایلی نے ایک شارٹ ہینڈ کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ کہ کالج علی پور کے لاہوری دروازے کے قریب ایک چوبارے میں واقع تھا جس کے ملحقہ مکان میں مسٹر گپتا کالج کے مالک اور واحد انسٹرکٹر کی رہائش تھی۔ مسٹر گپتا پرانی وضع کے باعزت لالہ جی تھے۔

وہ صبح سویرے جاگتے اور چھڑی لے کر باہر چہل قدمی کے لیے نکل جاتے۔ مسٹر گپتا چھڑی سہارے کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔ ان کی چال اس قدر چست اور تیز تھی کہ چھڑی معاون ثابت ہونے کی بجائے الٹا رکاوٹ معلوم ہوتی۔ لیکن مسٹر گپتا چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کے قائل نہ تھے۔ وہ ایک پرانے باعزت خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے آباؤ اجداد میں کسی شخص نے چھڑی یا چھتری کے بغیر باہر نکلنے کی حماقت نہ کی تھی۔ سیر کرنے کے بعد وہ مندر سے ہوتے ہوئے سیدھے اپنے کالج میں پہنچتے۔ اپنے شاگردوں کو دونوں ہاتھ جوڑ کر پرنام کرتے اور پھر انہیں پڑھانے میں مصروف ہو جاتے۔

مسٹر گپتا اس بات پر ناز کرتے تھے کہ ہندوستان میں صوتی شارٹ ہینڈ کو چلانے کے لیے انہوں نے ساری عمر جدوجہد کی تھی۔

جب کوئی نیا لڑکا کالج میں معلومات حاصل کرنے کے لیے آتا تو مسٹر گپتا اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر اس کے پاس بہ کمال شفقت آ بیٹھتے اور اسے سمجھاتے کہ شارٹ ہینڈ کا مروجہ سسٹم جسے پِٹ مین کہا جاتا تھا بالکل بیکار ہے اور ان کے نئے سسٹم کا مقابلہ نہیں کر سکتا چونکہ ان کا سسٹم جائنٹ واول سسٹم ہے۔

مسٹر گپتا بڑی محنت سے نئے لڑکوں کو سمجھاتے کہ جائنٹ واول سسٹم کا کیا مطلب ہے اور فونٹیک سسٹم سے کیا مراد ہے۔ اور پھر جب لڑکا داخل ہو جاتا تو پھر بات بات پر اسے تاکید کرتے کہ لکھتے وقت وہ سپیلنگ کا خیال رکھے۔

ایلی ان کی اس بات پر بے حد محظوط ہوتا اور بڑی سنجیدگی سے پوچھتا۔

“ کیوں مسٹر گپتا یہ سسٹم صوتی ہے نا یعنی اس میں صرف آواز کا خیال رکھا جاتا ہے۔“

“ بالکل بالکل الیاس صاحب بس اس نکتے کو آپ ہی نے سمجھا ہے۔ لڑکے توجہ سے بات نہیں سنتے۔“

“ درست“ ایلی کہتا۔ لیکن ہمیں سپیلنگ کا خیال رکھنا چاہیے۔“ وہ طنزاً کہتا۔

“ بالکل“ وہ خوشی سے چلاتے۔ “ بس یہی ایک نکتہ ہے۔“ اور پھر وہ فوراً مثال دیتے صبح جو آپ نے جے او لکھا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے لفظ کے سپیلنگ کی طرف خیال نہ کیا۔ آپ کو خیال نہ رہا تھا کہ یہ لفظ جے او سے لکھا جاتا ہے۔ آپ نے یوں لکھا جیسے یہ لفظ جے سے لکھا جاتا ہو۔“

مسٹر گپتا سے باتیں کرنے میں ایلی کو بہت لطف آتا تھا۔ لٰہذا وہ اکثر مسٹر گپتا کے ہاں جا بیٹھتا۔ بلکہ سبق لیتے ہوئے بھی وہ مسٹر گپتا سے گپ بازی کیا کرتا۔ کالج میں ایلی واحد طالبعلم تھا جس سے مسٹر گپتا نے دوستانہ مراسم پیدا کر رکھے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایلی بی اے تھا اور مسٹر گپتا کے کالج میں تمام طلباء میٹرک پاس تھے۔

دفعتاً محلے میں شور اٹھا کہ ایلی کی منگیتر ثمرہ کی شادی ہو رہی ہے۔ ہاجرہ یہ سنکر حیران رہ گئی۔ وہ بھاگی گئی، پوچھ گچھ کی۔ بات کی تصدیق ہو گئی تو ٹھنڈی ہو کر بستر پر آ پڑی۔

اس پر ایلی اماں کے پاس آ بیٹھا، بولا ماں اب تو تمہارا یہ اعتراض بھی دور ہو گیا۔ چل اٹھ اب میرے ساتھ چل کہ مظفر آباد ابا سے ملیں۔ شاید وہ مان جائیں۔

ہاجرہ نے جب ایلی کی بات سنی تو پہلے تو وہ ادھر ادھر کے بہانے بناتی رہی لیکن ایلی نے بار بار اماں کی منتیں کیں۔ حتٰی کہ ایک روز اماں ایلی کے ساتھ مظفر آباد جانے کے لیے مان گئیں۔

ماں اور بیٹا ملتان پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ سیلاب کی وجہ سے مظفر آباد کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور وہ آگے نہیں جا سکتے۔ مجبوراً وہ ملتان ایک رشتہ دار کے ہاں ٹھہر گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب راستہ صاف ہو اور وہ منزل مقصود پر پہنچیں۔ ملتان کے قیام کے دوران میں ایلی روز ماں کو باہر لے جاتا اور کسی باغ یا میدان میں پہنچ کر دونوں کسی ویران کونے میں بیٹھ جاتے اور ایلی ماں کو سمجھاتا کہ علی احمد سے کس طرح بات کی جائے۔

“ دیکھو نا اماں۔“ وہ کہتا۔ “ اگر ابا نے محسوس کیا کہ شادی پر بہت خرچ اٹھے گا تو وہ کسی نہ کسی بہانے یہ رشتہ نامنظور کر دیں گے اور اگر یہ موقعہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید کبھی ایسا موقع نہ ملے اور اماں سادی ایک ایسی ناؤ ہے جو مجھے اس بھنور سے باہر نکال سکتی ہے جس میں میں غوطے کھا رہا ہوں اور اگر یہ ناؤ بھی نہ رہی تو پھر ------ پھر تم جانتی ہو۔“‌ ایلی وضاحت سے ہاجرہ کو سمجھا رہا تھا کہ اگر وہ ناکام رہا تو پھر وہ اپنے آپ کو از سرِ نو اسی بھنور کے حوالے کر دے گا جس میں وہ عرصہ دراز سے ڈبکیاں کھا رہا تھا۔

اس روز پہلی مرتبہ ایلی نے اپنے منہ سے یہ تسلیم کیا تھا کہ شہزاد ایک بھنور تھی اور وہ اس بھنور میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ درحقیقت وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا بلکہ اسے استعمال کر رہا تھا اور دھمکی کے طور پر بوڑھی ماں کا سامنے پیش کر رہا تھا۔

لیکن ہاجرہ بار بار کہتی اگر تمہارے ابا نے شادی پر خرچ نہ کیا تو کرئے گا کون اور بات کیسے بنے گی۔

“ تم اس بات کی پرواہ نہ کرو اماں۔ یہ بعد کی بات ہے۔ فی الحال ضروری بات یہ ہے کہ ابا جان چلیں اور ہمیں ان کی صرف اس قدر امداد حاصل ہو جائے کہ وہ سادی کے ابا سے ملکر پیغام پیش کر دیں۔ اس لیے بات اس انداز سے کرنا چاہیے کہ وہ سمجھیں خرچ ورچ کا سلسلہ نہ ہو گا۔“

“ لیکن پھر شادی کیسے ہو گی۔ کیا وہ تمہیں خانہ داماد بنا لیں گے۔“

“ نہیں اماں ------ “

“ ایسی بات ہے تو میں تو جیتے ہی مر جاؤں گی۔“ ہاجرہ چلاتی ------ اور بات جوں کی توں ادھوری رہ جاتی۔

چار ایک روز کے بعد بصد مشکل گھٹنے گھٹنے پانی سے گزر کر وہ مظفر آباد میں علی احمد کے مکان تک پہنچے۔ انہیں اس حالت میں دیکھ کر علی احمد کے گھر میں شور مچ گیا۔ راجو اور شمیم ہونٹوں پر انگلیاں رکھے حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگیں۔ شمیم کے دونوں بیٹیاں اور راجو کے پہلے خاوند کا بیٹا سب شور مچانے لگے۔

“ ہے آپ ہیں۔ یا میری انکھوں کو دھوکہ ہو رہا ہے۔“

“ خیر تو ہے۔“ راجو بولی۔

“ توبہ کیا حالت ہو رہی ہے تمہاری۔“ شمیم نے ایلی کی طرف دیکھ کر کہا۔

“ اے سنا آپ نے۔“ راجو نے علی احمد کو مخاطب کر کے کہا۔ “ سنتے ہیں کیا کہہ رہی ہوں میں۔ ہے آگ لگے اس حساب کے رجسٹر کو، ہر وقت اسی میں کھوئے رہتے ہیں آپ۔ نہ آئے کا پتہ نہ گئے کا ہوش۔ میں نے کہا اپ سے کہہ رہی ہوں۔“

“ مجھ سے کہہ رہی ہو کچھ راجو۔“ اندر سے علی احمد کی آواز سنائی دی۔

“ شکر ہے سن لیا آپ نے۔“ وہ بولی۔

“ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے۔ “ دیکھو نا راجو یا تو بیوی گونگی ہو اور یا خاوند بہرہ ہو جبھی نبھتی ہے ورنہ نہیں۔ تم تو طوطے کی طرح ٹیں ٹیں کرتی رہتی ہو اب میں بھی بہرہ نہ بنوں تو نبھے کیسے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ “ کیا کہتی ہے۔“

“ میں کہتی ہوں۔“ راجو چلائی۔ “ ذرا باہر تو دیکھو لو کون آیا ہے۔“

“ کوئی آیا ہے کیا؟“ وہ بولے۔

“ ہاں ہاں کہہ جو رہی ہوں۔“

علی احمد نے جلدی سے ٹنگی ہوئی قمیض کو اتارا اور اسے پہننے لگے۔ ان کی عادت تھی کہ ہمیشہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے اور جب کوئی آتا تو فوراً قمیض پہن لیتے۔

انہیں قمیض پہنتے دیکھ کر راجو ہنسی۔ “ اے ہے کوئی باہر سے تو نہیں آئی کہ قمیض پہننے لگے۔ ہاجرہ آئی ہے۔“

“ ایلی کی ماں ------ “ انہوں نے حیرت سے کہا۔

“ ساتھ ایلی بھی ہے۔ اچھا کیا۔ بہت اچھا کیا جو آ گئے۔ بھئی راجو انہیں بٹھاؤ نا کوئی چائے وائے پلاؤ، بسکٹ وسکٹ منگوا دو کالے کی دکان سے۔ لیکن بھئی تم نے پہلے اطلاع کیوں نہ دی۔ اور یہ سیلاب، کیسے پہنچے تم۔ سنا ہے ریل کی لائن ٹوٹی ہوئی ہے اور سارا شہر تو پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ دو دو فٹ پانی کھڑا ہے۔ پہلے اطلاع دیتے تو ہم کوئی انتظام کر دیتے ------ خیر خیر اچھا کیا تم نے جو آ گئے۔ راجو راجو ------ یہ دیکھا تم نے ایلی کی ماں کو۔ ذرا غور سے دیکھو۔ اب تو بالکل بوڑھی ہو گئی ہے۔ اور راجو تمہیں معلوم ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔ ایک مرتبہ ہماری پڑوسن نے کیا کہا تھا۔“ وہ ہنسنے لگے۔ ایلی کی ماں سے اللہ رکھے کل کتنے لڑکے ہیں تمہارے اور یہ بلوٹھی کا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسنے لگے۔ پھر میرے طرف اشارہ کر کے بولی اللہ رکھے۔ “ کیوں ایلی کی ماں یاد ہے تجھے۔ ہی ہی ہی ہی حد ہو گئی سنا تم نے راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“

جب علی احمد کو معلوم ہوا کہ وہ ان سے ایک اہم بات کرنے آئے ہیں تو دفعتاً وہ سنجیدہ ہو گئے۔ یہ علی احمد کی پرانی عادت تھی۔ اگر انہیں کسی بات میں خاص اہمیت دی جاتی تو وہ اس بات کو خاص اہمیت دینا شروع کر دیتے اور خود اپنی رائے کو اہمیت دینے لگتے۔ اور اس کے برعکس کسی مسئلے میں انہیں نظر انداز کر دیا جاتا تو وہ اس مسئلے کو قطعی طور پر اہمیت نہ دیتے اور اس نظر اندازی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔

علی احمد نے سوچا کہ یہ لوگ اتنی دور سے چل کر آئے ہیں۔ تاکہ مجھ سے بات کریں۔ ظاہر ہے کہ مجھ سے بات کرنے کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے تو بات اتنی آسانی سے طے نہیں ہو جانی چاہیے۔

“ ہاں ہاں ہاں ہاں۔“ وہ ہنسنے لگے “ بھئی اب جو تم یہاں آ پہنچے ہو تو اب باتیں ہی ہوں گی نا۔ باتوں کے سوا اور کیا ہوتا ہے اپنوں کے درمیان۔ ہی ہی ہی ہی۔ اب دیکھ لو راجو ہے تو سارا دن راجو سے باتیں کرتے ہیں ہم۔ کیوں راجو ٹھیک ہے نا۔ ہی ہی ہی ہی۔ یہ اور بات ہے کہ راجو کبھی جواب نہیں دے سکی۔ لیکن کمال یہ ہے کہ لاجواب بھی نہیں ہوتی۔ کیوں راجو۔ ہی ہی ہی ہی۔“

“ آپ میری بات چھوڑیں۔“ راجو بولی۔ “ ان سے بات کریں اتنی دور سے آئے ہیں یہ بات کرنے کے لیے۔“

“ ان سے بھی کریں گے، ان سے بھی کریں گے۔ لیکن ابھی یہ لوگ سفر کر کے آئے ہیں اور پھر اتنی تکلیف جھیل کے۔ انہیں چار ایک دن آرام کرنا چاہیے۔ آرام کرو، کھاؤ پیو پھر بات بھی ہو جائے گی ------ کیوں راجو تم نے چائے بنائی اور کیا کالے سے بسکٹ منگوائے پھر کوئی خاطر تواضع کرو ان کی تمہارے مہمان آئے ہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی صندوقچی سے ایک چونی نکالی اور راجو کو چیتے ہوئے بولے۔ “ منگواؤ بسکٹ۔ ذرا جلدی کرو نا بھئی ایلی کی ماں بیٹھ جاؤ نا۔ اچھا تو علی پور کا کیا حال ہے۔“

مسلسل چار روز ہاجرہ اور ایلی نے متعدد بار کوشش کی کہ علی احمد سے بات کی جائے لیکن وہ بات کی اہمیت سے اس حد تک واقف ہو چکے تھے کہ انہوں نے کسی نہ کسی بہانے بات ٹال دی۔ ایلی بات شروع کرتا تو علی احمد کہتے۔ “او ہو۔ میں بھول ہی گیا۔ دیکھو نا اتنے بکھیڑے ہیں کہ میں بھول جاتا ہوں۔ ہی ہی ہی ہی۔ سب سے بڑا بکھیڑا تو یہ راجو ہی ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ ہو نا تم بکھیڑا۔ بکھیڑے درد سر ہوتے ہیں اور درد دل والے بکھیڑے بھی ہوتے ہیں۔ اور راجو تم تو درد دل والا بکھیڑا ہو۔ ہی ہی ہی ہی۔ سنا تم نے کیا کہہ رہا ہوں میں۔ لیکن اب تم درد سر والا بکھیڑا بنی جا رہی ہو۔ پہلے خالص درد دل والا تھی۔ تمہیں درد دل والے بکھیڑے کا تجربہ نہیں ایلی۔ بڑا عظیم بکھیڑا ہوتا ہے یہ۔ توبہ ہے ------ اچھا اچھا ہے۔ ابھی یہ درد دل والا بکھیڑا نہ ہی ہو۔ ابھی ساری عمر پڑی ہے۔ کچھ دن اور سکھ کے گزار لو تو تمہاری خوش نصیبی ہو گی۔ یہ بیماری کچھ اور دیر نہ لگے تو بہتر ہے۔ کیوں راجو سنا تم نے ہی ہی ہی ہی۔“

اس طرح وہ مسلسل باتیں کیئے جاتے اور ایلی کی بات پسِ پشت پڑ جاتی۔

کسی وقت وہ جواب دیتے “ ہاں ہاں بھئی آج تو بات ضرور کرنی چاہیے۔ اتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں آئے ہوئے لیکن بھئی میں تو جا رہا ہوں ڈپٹی صاحب کو ملنے کے لیے۔ انہوں نے بلایا ہے۔ بے چارے بڑا خیال رکھتے ہیں۔ بات بات پر مشورہ کرتے ہیں۔ ان سے مل آؤں میں پھر اطمینان سے بات کریں گے۔“

اس کے بعد دیر تک وہ جوں کے توں بیٹھ رہتے۔ وہ ڈپٹی صاحب کی طرف جاتے ہی نہ تھے۔ اس لیے بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ اور اگر ایلی انہیں یاد دلاتا کہ آپ تو جا رہے تھے ڈپٹی صاحب کی طرف تو وہ ہنس کر کہتے ہاں ہاں بھئی جا رہا ہوں۔ اور پھر بیٹھے رہتے۔ اس طرح ایلی اور ہاجرہ کو وہاں رہتے آٹھ روز ہو گئے۔ اور ان آٹھ روز میں ایلی کا صبر و سکون ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا۔ ایلی طبعی طور پر مزاح اور مزاحیہ صورتِ حال کو محسوس کرنے سے کورا تھا۔ وہ علی احمد کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top