علی پور کا ایلی(696 - 702)

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جسے آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا۔

محلے والے جو ایلی اور شہزاد کے قصے پر اظہارِ خیال کرتے کرتے اکتا گئے تھے ، ایک بار پھر جوش میں آ گئے اور تازہ دم ہو کر اس پٹی ہوئی لکیر کو پیٹنے لگے۔

ایلی یہ حالت دیکھ کر اور بھی گھبرا گیا۔

محبت نامہ

ایک روز جب وہ سب چوبارے میں بیٹھے تھے۔ ایلی آلتی پالتی مارے دیوتا بنا بیٹھا تھا۔ شہزاد کے ہاتھوں میں پوجا کے پھول تھے اور وہ بنفسِ نفیس آرتی بنی ہوئی تھی۔

بیگم کے دل سے شعلے نکل رہے تھے جان کے ہونٹوں پر تحقیر تھی تو دروازہ بجا۔

”جا دیکھ جا کر‘‘۔ شہزاد جانو سے مخاطب ہوئی۔ ” نیچے ڈاکیہ کب سے محبت نامہ لیے کھڑا ہے۔‘‘ وہ حسب معمول مسکرائی۔

”محبت نامہ‘‘ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔

” ہاں ہاں وہ کہتے ہیں جادو برحق ہے‘‘

دوری مرتبہ دروازہ بجا تو جانو نیچے اتر گئی۔

شہزاد ہنسنے لگی۔ ” اماں اگر آج بھی محبت نامہ موصول نہ ہوا تو پھر چھوڑ دو ان تعویذ گنڈوں کو۔‘‘

” کیسے چھوڑوں‘‘ بیگم بولی۔ ”جس کا راج پاٹ لٹ گیا۔‘‘ وہ رک گئی اس کی آنکھیں ڈبڈبا چکی تھیں۔

شہزاد پھر ہنسی۔ ”تو اماں راج پاٹ کے لئے روتی ہو نا۔۔۔ میں سمجھتی پتی بھگتی کے لئے روتی رہی ہو۔‘‘

” جس پر بیتے وہی جانے ہے۔‘‘ بیگم نے کہا۔

” مجھ پر بیتے تو میں سمجھوں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘ شہزاد نے معنی خیز نگاہ ایلی پر ڈالی۔

” تیری نظر میں کوئی ہوگا۔‘‘ بیگم نے ایلی پر جلی کٹی نگاہ ڈالی۔

شہزاد نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں ہے۔ وہ بولی۔ نہ بھی ہوتا جب بھی یہی سمجھتی۔‘‘

جانو آئی تو اس کے ہاتھ میں خط تھا۔

”دیکھا نا میں نے کہا نہ تھا۔“ شہزاد بولی۔

”تمہارا ہی محبت نامہ ہوگا۔“ بیگم بولی۔

”مجھے کون لکھتا ہے جی اور پھر محبت نامہ۔“ وہ قہقہہ مار کر ہنسی ”محبت نامے“ میں زیادہ سے زیادہ یہ لکھا ہوتا ہے کہ روٹی کی تلکیف ہے۔ ان کا تو صرف روٹی کا مطالبہ ہے کھائی اور آنکھیں موند لیں۔ انھیں محبت سے کیا واسطہ!“

”یہ تو میرا ہے۔“ ایلی نے کہا

”شاید غلطی سے تمہارا نام لکھ دیا ہو۔ کھولو تو۔“ شہزاد بولی

ایلی نے اسے کھولا تو بھونچکا رہ گیا وہ سادی کا خط تھا۔

جانو چلاتی ہے ”یہ کیا خط ہے یہ تو اخبار معلوم ہوتا ہے۔“

”اور کیا محبت کی بات مختصر ہوتی ہے کیا“ شہزاد بولی۔

ایلی کا رنگ فق ہو گیا۔

”اور جس کے نام آیا ہو اس سے پوچھو وہ تو پیاسا ہی رہ جاتا ہے“ شہزاد مسکرائی۔

ایلی نے محسوس کیا جیسے شہزاد سادی کے تمام قصے سے واقف ہو۔

”یہ تو کالج کے متعلق ہے“ ایلی کہنے لگا۔

”جبھی خط نہیں دفتر ہے۔“ جانو بولی۔

ایلی خط اٹھا کر ایک طرف چلا گیا۔

سادی کا خط پڑھ کر ایلی ایک مرتبہ پھر اسی فضا میں پہنچ گیا۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ زینے والے کمرے میں کھڑا ہو اور سادی مسکرا رہی ہو مسکرائے جا رہی ہو سارے خط میں محبت کا تو کہیں نام ہی نہ تھا۔ وہ خود ہنستی تھی اور ایلی کو گدگداتی تھی۔ اور بہانے بہانے لگاؤ کی بات سمجھاتی تھی۔

ایلی نے وہ خط کئی ایک مرتبہ پڑھا۔ وہ قطعی طور پر بھول گیا کہ وہ علی پور میں ہے اور دیوتا سامنے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے سامنے آرتی۔۔۔۔۔ پڑی ہے پوجا کے پھول بکھرے ہوئے ہیں۔ بیگم میں غصے بھرا طوفان اٹھ رہا ہے محلے میں لوگ ہونٹوں پر انگلیاں رکھے بیٹھے ہیں۔

اس روز پہلی مرتبہ وہ باہر نکل گیا۔

محلے سے وہ جلدی جلدی نکل گیا تا کہ کوئی بات نہ چھیڑے پھر کھیتوں میں پہنچ کر وہ کوٹلی کی طرف چلا گیا۔

اس کے سامنے سادی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ”خط کا جواب کیوں دیں گے آپ“ وہ کہہ رہی تھی ”ان پیسوں کا بالائی کا برف کھائیے نہیں تو پتلون رفو کرا لیجئے“ وہ اپنے لکھے ہوئے جملے دہرا رہی تھی۔

دوسری طرف منصر کھڑا کہہ رہا تھا ”وعدہ کیجئے کہ آپ ان لوگوں سے براہ راست رابطہ پیدا نہ کریں گے۔“ تیسری طرف امان بندوق اٹھائے اس کی جانب آرہا تھا۔ اماں ہاتھ مل رہی تھی۔ ”ہئے اب کیا ہوگا؟“

سادی کے خط میں وہ باتیں امید افزا تھیں۔ اس نے لکھا تھا کہ جلد ہی کوئی صاحب علی پور آئیں گے تاکہ ایلی اور آصفی خاندان کے متعلق تحقیقی کریں۔ کرتے پھریں تحقیقی ہمیں کیا۔ دوسرے اس نے خط میں پتہ لکھا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ جواب ضرور دیا جائے۔ اور اس پتہ پر دیا جائے اور اس کی راس گوئی کا مضحکہ اڑایا تھا۔ جس سے ظاہر تھا کہ معاملہ کو راز رکھنا ضروری ہے۔

دیر تک ایلی بیٹھ کر اس کے خط کو ذہن میں دہراتا رہا پھر وہ اس کا جواب سوچنے میں منہمک ہوگیا۔ واپسی پر ایلی کو خیال آیا کہ کیوں نہ رضا سے مل لوں۔ وہ اپنی بے اعتنائی پر شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ رضا کی دوکان بند تھی اس لئے وہ اس کے گھر چلا گیا۔ ایلی کو گھر کے دروازے پر دیکھ کر رضا کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔

”تم یہاں!“ وہ چلایا۔ ”یار بڑے خوش نصیب ہو جو گھر آگئے ورنہ آج ہی میں نے بڑا خطرناک فیصلہ کیا تھا۔“


”کیا؟“ ایلی نے پوچھا۔

”اب بتانے کا کیا فائدہ۔ تم آ گئے ہو تو چلو معاف کردیا۔“ وہ ہنسنے لگا۔ ”آؤ بیٹھو اندر آجاؤ تمہیں ایک خبر سناؤں۔“

”کیا“ ایلی نے پوچھا۔

”شادی ہو رہی ہے۔“

”کس کی“

”اپنی اور کس کی۔“

”تمہاری“ ایلی نے حیرت سے اس کی لنگڑی ٹانگ کی طرف دیکھا۔

”بھئی شادی کو لنگڑے پن سے کیا تعلق“ رضا نے قہقہہ مار کر کہا۔ ”بلکہ لنگڑے کی پکڑ تو مشہور ہے۔“

” تعجب کی بات ہے۔“ ایلی بولا۔

”بھئی اپنا اللہ مالک ہے آج تک بھی روزی پہنچتی رہی ہے اب مستقل صورت پیدا ہو جائے گی۔“

اس کے بعد ایلی کا معمول ہو گیا کہ وہ روز کسی نہ کسی وقت رضا سے ملنے چلا جاتا۔ اور وہ دونوں یا تو دکان میں بیٹھے رہتے یا شیخ ہمدم کے ہاں چلے جاتے۔

شیخ ہمدم اسے دیکھ کر شور مچا دیتا۔

”لو بھی اب تو چھوڑو بھاؤ تاؤ ہمارے مہمان آئے ہیں، اب تو سودا ہو گیا ساڑھے دس آنے پر بس۔۔۔ ہاں تو الیاس صاحب آئے ہیں آئیے کیا پیو گے بھئی ہم سے بھی کچھ کھا پی لیا کرو حلال کا مال کھاؤ گے تو موٹے ہو جاؤ گے چلو ایک شطرنج کی بازی رہے او لڑکے دینا ہمیں شطرنج۔“

ہمدم کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے ایلی سب کچھ بھول جاتا کہ وہ دیوتا بنا بیٹھا ہے۔ سامنے شہزاد آرتی کے پھول اٹھائے کھڑی ہے اور محلے والے اس دیوتا کو شیطان سمجھتے ہیں۔ اور لاہور سے لوگ آرہے ہیں اور اسے علی احمد کو اس بات پر رضامند کرنا ہے کہ باقاعدہ طور پر پیغام لے کر جائے اور منصر سے ملے۔

ایلی بڑا ہو گیا تھا۔ لہٰذا کچی حویلی یا محلے کے میدان میں کھڑا ہونا یا کھیلنا اس کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ کچی حویلی اور میدان میں نئی پود نے جگہ لے لی تھی۔ اب یہ ممکن نہ رہا تھا چونکہ یہ محلے کی روایات کے منافی تھا۔

ایلی کے تمام ساتھی اپنے اپنے کام پر چلے گئے تھے۔ رفیق ، یوسف اور جمیل اب ملازم تھے اور مختلف مقامات پر متعین تھے ۔ محلے میں صرف رضا کا بھائی ضیاء تھا۔ رفیق کا بھائی صفدر اور چند ایک اور لڑکے تھے جن سے ایلی کے زیادہ تعلقات نہ تھے البتہ صفدر اب بھی اپنی بیٹھک میں ادویات کوٹنے چھاننے میں مصروف رہتا تھا اس نے تنگ آ کر اشتہاری حکیم کا کام شروع کر رکھا تھا۔

صفدر ایلی کو دیکھ کر مسکراتا۔ اس کی مسکراہٹ سے ظاہر ہوتا تھا جیسے وہ ایلی کے راز سے واقف ہو۔ ایلی کو دیکھ کر وہ اسے پکڑ لیتا۔ ”آؤ بھائی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کروگھڑی دو گھڑی ہنم بھی تو تمہارے چرنوں میں رہتے ہیں۔“ ایلی اسے دیکھ کر گھبرا جاتا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ صفدر ہمیشہ ایسے انداز سے بات کرتا کہ ایلی کو شہزاد کی یاد آجاتیاور اسے محسوس ہوتا جیسے صفدر جان بوجھ کر شہزاد کی بات چھیڑنا چاہتا ہے جیسے وہ ایلی کو زبردستی اس بات پر مجبور کر رہا ہو کہ ایلی اسے رازداں بنا لے اور رازداں بننے کے بعد وہ دونوں مل کر شہزاد سے محبت کریں۔

اے ہے

ایک روز جانو ہانپتی ہوئی آئے اور سیدھی ایلی کے روبرو آ کھڑی ہوئی اور پھر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر حیرت سے ایلی کی طرف دیکھنے لگی۔ ایلی اپنے ہی خیال میں مگن بیٹھا رہا۔ اس پر شہزاد ہنسنے لگی۔ ”کب تک کھڑی رہے گی تو وہاں۔ اسے تو اپنی بھی خبر نہیں کچھ۔“

”تو کیوں پتلی بنی کھڑی ہے؟“

”اے ہے میں تو حیران ہوں۔“ جانو نے کہا۔

”آخر بات کیا ہے؟“ بیگم نے پوچھا۔
”ہئے وہاں تو مبارکیں مل رہی ہیں۔“

”کسے مبارک مل رہی ہے؟“

”ہئے انھوں نے تو مجھے پکڑ لیا۔ تھانیدار کے گھر گئی تھی۔ یہی جو بری دیوڑھی کے باہر رہتا ہے۔ انھوں نے پکڑ لیا۔ مجھے کہنے لگیں۔ بڑا گھر تاکا ہے تم نے۔ اور اب تو سمجھ لو بات پکی ہو گئی۔ ہمارے گھر آئے تھے نا پوچھ گچھ کرنے۔ کیا پڑی تھی جانو جو اندر کی باتیں کرتے۔ ہم بات چھپا گئے۔ اب سمجھ لو معاملہ چل نکلا۔“

”تو کھل کے بات کرے گی یا نہیں؟“ بیگم نے اسے ڈانٹا۔

”صاف بات تو کر رہی ہوں۔“ جانو بولی۔

”خاک صاف ہے۔ اپنی تو سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔“ بیگم بولی۔

”ایلی۔۔۔“ بیگم بولی، ”وہ تو پہلے ہی سے نامزد ہو چکا ہے۔“

”اے ہے پتہ نہیں ان لڑکوں کا کیا اعتبار۔ وہ تو بڑی بڑی مبارکیں دیتے تھے کہتے تھے وہ لوگ اچھے ہیں گھرانا اچھا ہے اور لڑکی کا بھائی جو آیا تھا وہ تو مشہور آدمی ہے۔ یہی کہتے تھے بھئی۔۔۔ اب تو بھی کچھ بولے گا۔“ جانو نے ایلی کو جھنجھوڑ کر کہا۔

”اونہوں۔“ بیگم بولی، ”یہ مجنوں کہاں بولے گا۔ “

”تو کیا وہ لیلےٰ کا خط تھا جو اس روز آیا تھا“ شہزاد مسکرائی۔

”ہئے وہ اخبار؟“ جانو نے کہا۔

”چلو یہ بھی اچھا ہوا۔“ شہزاد بولی، ”اس کا گھر بھی بس گیا۔“

”بسے گا تو جانیں گے۔“ بیگم نے کہا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔


نخلستان

چار ایک دن کے بعد جب ایلی اکیلا بیٹھا ہوا تھا تو شہزاد چپکے سے دبے پاؤں اُوپر آ گئی اور ایلی سے کہنے لگی۔ ”آخر مجھے سے بھاگنے کی ضرورت ہے، تم کیوں خواہ مخواہ بھاگتے پھرتے ہو؟“

ایلی ہنسنے لگا۔ ”خطرناک لوگوں سے دور رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔“ اس نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔

”کب سے ہوئی ہوں خطرناک؟“ وہ بولی۔

”چروع سے ہی تھی۔ مجھے احساس اب ہوا ہے۔“

”ایلی“ وہ بولی ”بات مذاق میں نہ ٹالو۔“

”ایمان سے مجھے تو سن کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔ بے حد۔ تمہیں ایک ساتھی مل گیا۔ مجھے بے حد خوشی ہے ایلی۔“ وہ سنجیدہ ہو گئی۔ ”مجھے صرف یہ افسوس ہے کہ تم نے مجھے غلط کیوں سمجھا۔“ اس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں، ماتھے کا تل سرخ پڑ گیا۔ ”مجھے تم سے کوئی غرض نہیں ایلی۔ کوئی مقصد نہیں۔ میں راستے میں دیوار نہیں بننا چاہتی۔ میں تو بری طرح پھنسی ہوئی ہوں۔ ورنہ مجھے میں اتنی جرات ہے کہ سب کا چھوڑ کر تمہارے ساتھ چل پڑوں۔ لیکن ایلی میرے پاس تمہیں دینے کے لئے اب کیا دھرا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ میں اس قابل نہیں کہ تمہاری زندگی کو روشن کر سکوں۔“ وہ خوموش ہو گئی۔ اور ایلی کے پاس کھڑی ہو کر اس کے پاؤں سے کھیلنے لگی۔


”مجھ سے ڈرو نہیں گھبراؤ نہیں میں تمہاری وہی شہزاد ہوں مجھے سے کیا پردہ رکھو گے لیکن تمہیں مجھ پر اعتماد بھی ہو۔ تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ہر راہگیر سے آنکھیں لڑانے کی شوقین ہوں۔۔۔ تم سمجھتے ہو جس طرح تم نے میرے ہاتھ پکڑے تھے اسی طرح ہر کوئی میرے ہاتھ پکڑ لیتا ہے اور میں چپ رہتی ہوں۔۔۔“

ہچکی کی آواز سن کر ایلی نے تڑپ کر پیچھے دیکھا۔ لیکن شہزاد نے منہ موڑ لیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہی پھر بولی۔ ”یہ ٹھیک ہے کہ تم میری زندگی میں نخلستان ہو۔ اس صحرا میں صرف ایک نخلستان ہے۔“
 
Top