علی پور کا ایلی 576-605

قیصرانی

لائبریرین
نہیں بھئی۔ ایلی چلایا۔ جب انہیں دخل اندازی نا پسند ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
اونہوں۔جمال بولا۔ انہیں کیا پتہ کہ یہ دخل اندازی نہیں وہ تمہارے قدر کیا جانیں مجھ سے پوچھو یار۔ اپنی قدر و منزلت مجھ سے پوچھو۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
نہ جانا۔ خدا کے لئے۔ جمال نے اس کی منتیں کرنا شروع کر دیں۔ کچھ دن ٹھہر جاؤ پھر چلے جانا۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔
سیڑھیوں میں شہزاد امید بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ چپ چاپ کھڑی تھی۔ چپ چاپ۔ اس کی نگاہ میں حسرت کی جھلک تھی۔ ہونٹوں میں گویا سسکی دبی ہوئی تھی۔
جمال کی نگاہ میں منت تھی۔ عین اس وقت بھا اوپر سے آگیا۔ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے سرسری طور پر جمال سے پوچھا۔
ایلی گھر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ بولا۔ میں کہتا ہوں نہ جا۔

بھا ہنسنے لگا۔ مجھے بھی یہی خیال پیدا ہوا تھا۔ میں سمجھا ایلی جا رہا ہے۔ لیکن وہ نہیں جا رہا۔ چاہے توپوچھ لو۔
ارے۔ جمال چلایا۔تم نہیں جا رہے۔
نہیں۔ ایلی نے کہا۔
اچھا یار؟۔ جمال نے فرط انبساط سے ایلی کے شانے پر زور سے ہاتھ مارا۔ تم تو کہ رہے تھے۔ جا رہا ہوں۔
ویسے مذاق میں کہا ہوگا۔ بھا مسکرایا اور سیڑھیاں اترنے لگا۔
تمہارا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا، جمال خوشی سے چلانے لگا۔ تم بڑے ہی پیارے ہو لیکن مجھے تنگ کرتے ہو۔ یار بہت تنگ کرتے ہو۔ میں پہلے ہی تنگ ہوں۔ وہ کھجانے لگا۔ تم جلتی پر تیل چھڑک کر تماشہ دیکھتے ہو۔ ہے نا۔ اس نے قہقہہ لگایا۔ بڑے تماش بین ہو۔
ارے۔ وہ دفعتا چلایا۔ ہمیں تو ان کے خط کا جواب دینا ہے۔
تو دو نا۔ ایلی نے کہا۔ اب میں کال کلوٹے کے بارے میں کیا لکھوں۔
یار تم اپنی طرف سے ایک خط کیوں نہیں لکھتے۔
کیا فائدہ۔۔
بڑا مزہ رہے گا اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ گے۔
مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ پھر کس حیثیت سے لکھوں۔
برادرانہ طور پر لکھ دو۔
کیوں؟ ایلی نے غصے سے کہا جیسے جمال نے اس کی توہین کر دی ہو۔
میں بھی لکھتا ہوں۔ تمہارے متعلق وضاحت کر دوں گا۔ لیکن یار تم میرا لکھا صحیح کر دینا مجھے نہیں آتا خط لکھنا۔ ٹھیک ٹھاک کر دینا۔ بے عزتی نہ ہو جائے کہیں۔
اگرچہ بظاہر ایلی خط لکھنے پر آمادہ نہ تھا لیکن دل میں شاید اسے بہت خوشی ہو رہی تھی کہ اپنی طرف سے خط لکھنے کا موقعہ ملا۔ رومانی خط تو وہ لکھ نہیں سکتا تھا چلو مزاحیہ ہی سہی۔ کسی نہ کسی طور پر وہ اپنی شخصیت کا اظہار تو کر سکے گا۔ شاید اس کے دل کی گہرائیوں میں کال کلوٹا کا کانٹا لگا ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ان پر اس حد تک اثر انداز ہو کہ اس کانٹے کا گھاؤ بھر جائے یا شاید یہ کہ انہیں بھی کانٹا لگ جائے۔
بہر حال پہلا خط جو ایلی نے لکھا بے حد مختصر تھا گوری سانورے کنائی توری سدھ بسرائی۔
جمال نے اپنے خط میں ایلی کی عظمت کے گن گائے ہوئے تھے۔ ایلی کے بغیر میں ادھورا ہوں اس کی مدد کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خدا کے لئے اس سے ایسا سلوک نہ کرو۔ وہ میرا دوست ہے۔ بہت گہرا دوست۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو گوارا کر لیا گیا اور گوارا بھی نہیں بلکہ ہر بار دو چھٹیاں موصول ہوتیں۔ ایک سنہرے بالوں کے نام اور دوسری میں کال کلوٹے سے مذاق کیے جارے اور آج کی فلموں کی طرح اس پریم کتھا میں جو چوباروں اور چھتوں پر کھیلی جا رہی تھی۔ ہیرو کے ساتھ ایک مسخرا بھی شامل کر لیا گیا۔ لیکن ادھر وہ دونوں گوریاں ہیروئن ہی رہیں۔ بلکہ جمال اور ایلی پر یہ عقدہ نہ کھلا کہ ان کو خطوط کون لکھتی ہے اور وہ خطوط دونوں کی جانب سے لکھے جاتے تھے یا ایک کی۔
البتہ اتنا ضرور ہوا کہ جمال کو معلوم ہو گیا کہ کون کون سی ہے۔ اسے یہ بھی علم ہو گیا کہ چھوٹی بے حد شریر ہے۔ اس کا چہرہ ہنستا چہرا ہے اور بڑی کی شکل کتابی ہے اور اس کے انداز میں غم کی جھلک ہے۔
کوٹھے پر ان کے روبرو آزادانہ آنے جانے کے باوجود ایلی کے لئے وہ دونوں دھندلے سے دھبوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ کوشش کے باوجود وہ ان کے خدوخال نہ دیکھ سکا تھا نہ ہی اسے معلوم تھا کہ کون کونسی ہے نہ ہی اسے اس میں کوئی دلچسپی تھی۔ کئی مرتبہ جب ایلی یہ سمجھتا کہ ان میں سے ایک سامنے آئی ہے تو جمال شور مچا دیتا۔
اونہوں مت دیکھو۔ ہٹ جاؤ۔ یہ تو کوئی اور ہے۔ شاید ان کا بھائی ہے۔ اس پر ایلی گھبرا جاتا اور کئی بار جب وہ سامنے آتیں تو ایلی سمجھتا کہ ان کا بھائی آگیا ہے۔ غالبا اسی وجہ سے وہ سامنے کھرا نہ ہوتا تھا کہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے ان جانے میں کوئی فتنہ نہ کھڑا کردے اور ویسے بھی اس کی حیثیت کال کلوٹے کے سوا کیا تھی۔
شاید اس ایک لقب یعنی کال کلوٹے کی بنا پر۔ گوریوں کو روزانہ محبت بھرے خطوط لکھنے کے باوجود اور ان کے رنگین اور رومان بھرے خطوط موصول کرنے کے باوجود وہ ان سے کوئی خاص دلچسپی محسوس نہ کر سکا۔

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ مالم نہیں

پھر دفعتا ایک عجیب واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے ناؤ گھر میں ہلچل مچ گئی۔ ایک روز جب وہ کالج سے لوٹنے کے بعد کھانا کھانے میں مصروف تھے تو ان کا نوکر گاما اندر داخل ہوا۔ حسب معمول اس کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں آنکھوں میں وہی خصوصی بے بسی تھی۔
جی جی۔ وہ بولا۔
جی جی۔ جاہ نے ازراہ مذاق دہرایا۔
یعنی۔ پال بولا۔ یہ تمہید ہے اور گاما میاں بات کرنے کے موڈ میں ہیں۔
جی جی۔۔۔۔۔۔گاما نے دانت نکالے جیسے پال کی بات پر خوشی کی لہر دوڑ گئ ہو۔ اسے دیکھ کر مجھے ڈکنز یاد آتا ہے۔ جاہ نے کہا۔
کیوں گامے کیا بات ہے۔۔؟ بھا نے پوچھا
جی۔۔۔۔۔گاما کی باچھیں از سر نو کھل گئیں۔
اتنی جلدی بات بتانے کا قائل نہیں ہے یہ۔ بھا ہنسنے لگا۔ سسپنس پیدا کرنے میں صاحب کمال ہے۔ گویا دور حاضر کا شیکسپئر ہے۔
جی۔ گاما پھر ہنسا۔
اسے بات بھی کرنے دو۔ بھا نے کہا۔ ہاں گامے۔
جی وہ آئے تھے۔ جی ہاں۔۔
کون آئے تھے۔۔؟ بھا نے پوچھا۔
وہ، اور کون۔۔پال بولا۔
کون آئے تھے؟ بھا نے اپنا سوال دہرایا۔
جی مالم نہیں کون۔ گاما نے کہا۔
ہے اس کا کوئی جواب۔ جاہ ہنسنے لگا۔
کس سے ملنے آئے تھے۔؟بھا نے پوچھا۔
جی۔ گاما شرما کر بولا۔ جی مالم نہیں۔
حد ہوگئی۔ بھا ہنسی ضبط نہ کر سکا۔
سیدھی سی بات تو ہے معلوم نہیں آئے تھے معلوم نہیں کس سے ملنے آئے تھے۔
وہ کہتے تھے۔ گامے نے کہا۔ ہمیں اس سے ملنا ہے۔
کس سے۔؟بھا نےپوچھا۔
سنہرے بالوں سے۔گاما نے جواب دیا۔
سنہرے بالوں سے۔ بھا کے منہ کا نوالہ اڑ کر باہر نکل آیا۔
جی وہ کہتے تھے۔ گاما نے بات کی وضاحت کی۔ جن کے بال سنہرے ہیں، ان سے ملنا ہے۔ ایلی کا منہ فق ہوگیا۔
کیوں بھئی کس کے بال سنہرے ہیں؟ جاہ نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا۔ میرے تو بھئی گہرے بھورے ہیں پال کے سیاہ ہیں اور ایلی تمہارے۔اونہوں تمہارے بھی سنہرے نہیں اور وہ جمال۔
ہاں۔ بھا نے کہا۔ اس کے شاید سنہرے ہوں۔
وہ آیا نہیں آج۔ جاہ نے ایلی سے پوچھا۔
میٹنگ میں بیٹھا تھا۔ ابھی آجائے گا۔ ایلی نے جواب دیا۔
اچھا بھئی۔ جاہ پھر ہنسنے لگا۔ اگر اس کے بال سنہرے ہوں تو اسے بتا دینا کہ معلوم نہیں اس سے ملنے آئے تھے۔
جی وہ پھر آئیں گے۔ گاما بولا۔ کہتے تھے ہم پھر آئیں گے۔
اس معلوم آنے والے کا واقعہ سن کر جمال بے حد مضطرب ہو گیا۔
کیا واقعی۔ وہ چلایا۔ یار حد ہو گئی۔ مگر وہ تھا کون؟
مجھے کیا معلوم۔ ایلی نے کہا۔
شاید انہوں نے بھیجا ہو۔ جمال نے کھجاتے ہوئے کہا۔
سنہرے بالوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
لیکن یار۔ جمال مضطربانہ انداز سے کہنے لگا۔ یہ لوگ کیا کہیں گے۔ انہیں شک نہ پر گیا ہو۔ تمہارے جاہ سے تو ڈر لگتا ہے۔ تو کیا وہ پھر آئے گا۔
ہاں۔ا یلی نے جواب دیا۔گاما نے تو یہی کہا تھا۔
تو پھر کیا کریں ایلی۔ جوش میں جمال اس سے لپٹ گیا۔
اس روز شام کو برساتی میں کھڑے ہو کر جمال نے گوریوں سے پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا انہوں نے کسی کو بھیجا تھا۔ لیکن اشارہ کرنے میں جمال اس قدر بھونڈا دکھائی دیتا تھا کہ ہاتھ ہلاتے وقت وہ سرکس کا جوکر معلوم ہوتا۔ وہ دیوانہ وار اشارے کرتا رہا اور ساتھ ہی ایلی سے پوچھتا تھا۔
ارے یار یہ اشارہ تو بہت مشکل معلوم ہوت اہے۔ کیسے پوچھوں ان سے۔ ادھر گوریاں اس کے اضطراب پر ہنسے جا رہی تھیں، مسلسل ہنسے جا رہی تھیں۔
مغرب کے وقت نیچے دروازے پر دستک سن کر ایلی چونک کر اٹھ بیٹھا۔ کبھی کسی نے ناؤ گھر کے دورازے پر دستک نہ دی تھی۔ دستک نہ دی تھی۔ دستک دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہاں کیا پردہ دار لوگ بستے تھے۔ وہ تو ایک لاج تھا۔ جو بھی آتا دستک دیئے بغیر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آجاتا۔

قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
ایلی نے کھڑکی سے نیچے جھانکا۔ دروازے پر کوئی کھڑا تھا۔ پھر وہ دیوانہ وار سیڑھیاں اترنے لگا۔ کہیں گاما نہ جا پہنچے اور سنہری بالوں کا بھید نہ کھل جائے ایلی جاہ سے ڈرتا تھا۔ اس کی طنز آمیز بات سے ڈرتا تھا۔ جاہ کہے گا۔ ہوں تو کوتھے پر پریم ودیا کھلی پری ہے۔ سنہرے بالوں اور گوریوں کا میل ہوتا ہے اور ایلی تم مسخرے کا پارٹ ادا کر رہے ہو۔ رازداں مسخرا بھئی واہ کیا رول ہے۔ بھئی ہمیں تو کھیل کھیلنا نہ آیا کبھی۔ بہتیرا سر پٹخا۔ اونہوں اپنے دماغ میں یہ خانہ سرے سے خالی ہے۔ یہ تو صبر اور تحمل کا کھیل ہے کنڈی پر کینچوا لگایا اور ڈوری پھینک کر بیٹھ رہے۔ نہ بھئی اپنے میں اتنا صبر کہاں۔ اونہوں۔
شام کے دھندلکے میں ایلی اچھی طرح سے اجنبی کا جائزہ نہ لے سکا جو ناؤ گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ سر پر ٹوپی تھی۔ ایک بے ڈھب کا کوٹ پہن رکھا تھا اور ساتھ شلوار۔ انداز سے ظاہر تھا جیسے وہ کھو گیا ہو۔ اس لئے مضطرب ہو۔ جی فرمائیے۔ ایلی نے کہا۔
اجنبی نے ماتھے پر ٹوپی سرکا لی اور پھر دونوں ہاتھ کولہوں ہو رکھ کر کھڑا ہوگیا اور ایلی کی طرف دیکھے بغیر خالی سیڑھیوں کی طرف گھورنے لگا۔
آپ کس سے ملیں گے۔ ایلی نے پوچھا۔
جواب میں وہ دیر تک خاموش رہا۔ پھر دفعتا بولا۔ ہم ملیں گے۔
کس سے ملئے گا۔۔؟ ایلی نے دوبارہ پوچھا۔
وہ۔ وہ۔ گھبرا کر وہ ٹہلنے لگا۔ وہ اسی گھر میں رہتے ہیں۔ پھر اس نے ایک نظر چوبارے کی طرف دیکھا اور بولا۔ ہاں یہیں تو رہتے ہیں۔
یہاں تو کئی ایک لوگ رہتے ہیں۔ ایلی نے کہا۔
ہاں ہاں۔ وہ بولا۔ وہ کئی ایک لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
مگر وہ ہیں کون؟۔
وہ۔ وہ۔ اجنبی رک گیا۔ اپنے عزیز ہی ہیں۔ قریبی رشتہ ہے۔
کیا رشتہ ہے؟
رشتہ؟۔ وہ چونکا۔۔ کہا جو ہے قریبی رشتہ ہے۔ وہ رک گیا۔
وہ جو سنہرے بالوں والے ہیں۔ وہ۔ اس نے چوبارے کی طرف اشارہ کیا۔
ہاں ہاں وہی۔ دفعتا وہ جوش میں بولا۔
دیکھئے۔ ایلی نے کہا۔ آپ ذرا ادھر آجائیے۔ دروازہ سے ہٹ کر۔ یہاں انتظار کیجئے میں ابھی بھیجتا ہوں انہیں۔
ہاں ہاں بھیج دیجئے۔ کہنا تمہارے رشتہ دار آئے ہیں ملنے کے لیئے۔ پیغام دینا ہے ایک۔
جمال کو نیچے بھیج کر ایلی خود جاہ کے کمرے کی جانب چل پڑا تاکہ جاہ بھا اور پال کو باتوں میں مصروف کر لے اور وہ نیچے نہ اترنے پائیں۔ لیکن جب وہ کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ خالی تھا۔ بھا جاہ اور پال تینوں سینما دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر ایلی نے اطمینان کا سانس لیا اور پھر مطمئن ہو کر نیم چھتی میں جا بیٹھا اور جمال کا انتظا رکرنے لگا۔
پون گھنٹے بعد جمال فاتح کی طرح نیم چھتی میں داخل ہوا۔
کیوں کیا ہوا۔ کون تھا وہ۔؟ ایلی نے چلایا۔
ہوں ہوں ہوں۔ جمال گنگنایا اور پھر سیڑھیوں میں منہ ڈال کر باآواز بلند چلایا۔ بھئی یہیں لے آؤ اوپر۔ ہاں ہاں۔ یہاں نیم چھتی میں۔

اتنے سارے پھل

اس پر گاما ایک بڑا سا ٹوکرا اٹھائے ہوئے داخل ہوا۔
یہیں رکھ دو۔ جمال نے کہا اور پھر ٹوکرا اتارنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ گامے کے جانے کے بعد ایلی نے پھر سے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
اس ٹوکرے میں کیا ہے۔؟
پھل ہیں۔ جمال نے کہا۔
اتنے سارے پھل۔
ہاں۔ انہوں نے بھیجے ہیں۔ جمال نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہائیں۔
جمال قہقہہ ما رکر ہنسنے لگا۔ وہ تو مسخریاں معلوم ہوتی ہیں۔ اتنا بڑا ٹوکرا بھیج دیا جیسے ہم نے پھلوں کی دوکان کھولنی ہو۔
لیکن وہ رومی ٹوپی والا کیا ہوا۔
وہی تو لایا ہے۔ اس نے کہا۔ ذرا ٹھہریئے میں ابھی آیا۔ میں انتظار کرتا رہا پھر جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ ایک مزدور نے یہ ٹوکرا اٹھایا ہوا تھا۔
ارے اور وہ تھا کون رومی ٹوپی والا۔
جمال نے ہنستے ہوئے تالی بجائی۔ یار اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ عجیب باتیں کرتا تھا۔ پہلے تو بہت دیر تک میرے بالوں کی طرف دیکھتا رہا۔ تم ہی ہو نا۔ وہ بولا۔ ہمارے رشتہ دار جو چوبارے میں رہتا ہے۔ وہ وہاں اوپر۔ سنہرے بالوں والا۔ عجیب باتیں کرتا رہا۔ جمال نے قہقہہ مارا۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ ہے کون۔
لیکن کیا وہ انہیں کی طرف سے آیا تھا۔
ہاں ہاں۔
لیکن یار۔ شاید۔۔۔۔۔
ارے۔ جمال چلایا۔ ان کا خط بھی تو لایا تھا۔ میں تو بھول ہی گیا۔
خط۔۔۔۔
ہاں۔ یہ کہ کر جمال نے وہ خط ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رنگین کاغذ پر دو مختصر سے فقرے لکھے ہوئے تھے۔ آپ بھی کیا کہیں گے کہ اپنے جنم دن پر کچھ کھلایا ہی نہیں۔ خوب کھائیے۔ بے فکر ہو کر کھائیے۔ ڈاکٹر کی ضرورت پڑی تو وہ بھی بھجوا دیں گے۔
ارے۔ا یلی ہنسنے لگا۔ کیا شے ہیں یہ اور کیا دونوں کا جنم دن ایک ہی ہے۔
کچھ پتہ نہیں چلتا یار۔ لیکن چھوڑو اس بات کو۔ جمال نے ٹوکرے میں ہاتھ ڈالا۔
پہلے پھل تو کھا لیں۔
ارے۔ پھل کھاتے ہوئے ایلی چلایا۔ یہ تم نے غحب کر دیا۔
کیا۔
یہ ٹوکرا گاما سے اٹھوایا تھا نا۔
ہاں ہاں۔
اور اس وقت وہ رومی ٹوپی والا وہیں تھا نا۔
ہاں۔
بس غضب کر دیا۔
کیوں۔
گاما انہیں بتا دے گا کہ وہی معلوم نہیں پھل کا ٹوکرا دے گیا تھا۔
اگلے روز جب ایلی کالج سے لوٹا تو وہ سب دالان میں بیٹھے پھل کھا رہے تھے اور پھلوں کا ٹوکرا ان کے سامنے پڑا تھا۔
ارے بھئی جلدی آؤ۔ جاہ ایلی کو دیکھ کر کہنے لگا۔ تمہیں بھی آج ہی لیٹ آنا تھا کیا، قسم ہے اگر مجھے اس ٹوکرے کے وجود کا علم ہوتا تو آج سرے سے کالج جاتا ہی نہ۔ آجاؤ آجاؤ روٹی ووٹی کا خیال چھوڑو۔ بس اسی پر گزارا کر لو۔
اتنا سارا پھل۔ ایلی نے بناؤٹی تعجب سے کہا۔
جمال نے چچا معلوم نہیں کو دعائیں دو۔ جاہ بولا۔ اگر وہ گاؤں سے چل کر شہر میں نہ آتا تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ کیوں بھئی۔ اس نے جملہ لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔
کون چچا۔ ایلی نے پوچھا۔
یہ تو نہ بھتیجے کو معلوم ہے اور نہ خود چچا کو اور ہم بیچارے کس شمار میں ہیں۔ میاں ہمیں پیڑ گننے سے واسطہ۔ چچا معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔ کوئی بھی ہو۔ بہرحال یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہم پھل کھا رہے ہیں۔
اور پیٹ بھر کر کھا رہے ہیں۔
ویسے۔ بھا نے ہنس کر کہا۔ معاملہ گڑ بڑ معلوم ہوتا ہے۔
کوئی تعجب نہیں ہوگا۔ پال نے کہا۔ اگر ابھی ناؤ گھر کا دروازہ بجے اور وہ میاں نامالم آکر کہیں کہ بھئی اب جو ہمیں یاد آیا تو ہمارے بھتیجے کے بال سنہرے نہیں بلکہ کالے ہیں۔ کچھ پروا نہ کرو اگر ایسا ہوا۔ جاہ بولا۔ تو ظاہر ہے کہ جمال نہیں بلکہ تم اس کے بھتیجے ہو۔ چونکہ تمھارے بال کالے ہیں۔
بھئی جمال۔ بھا نے کہا۔ تم نے ان سے نہیں پوچھا نہیں کہ وہ پھر کب شہر میں آئیں گے۔۔۔
پوچھنے کی کیا بات ہے۔ پال بولا۔ مہینے میں دو مرتبہ تو آئیں گے ہی۔۔۔۔
چونکہ ہر معقول چچا کو ایسا کرنا چاہیئے۔ جاہ ہنسنے لگا۔
پھر وہ سب دیر تک پھل کھانے میں مصروف رہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جاہ نے کہا۔ جیسے یہ گھر اپنا گھر نہ ہو۔
کیوں۔۔۔؟پال نےپوچھا۔
یہاں عجیب سے واقعات ہونے لگے ہیں۔ جو اپنے گھر میں نہیں ہو سکتے۔
مثلا۔ بھا نے پوچھا۔
مثلا۔ جاہ بولا۔ یہ پھل ہی لو اتنا پھل ہمارے گھر میں دکھائی دے سکتا ہے کیا۔ یعنی۔ جاہ قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ گویا پھل نہ ہوا کتابیں ہو گئیں۔
بات تو درست ہے۔ پال نے کہا۔
مثلا اور۔ ایلی نے پوچھا۔
وہ میں سوچ رہا تھا آج۔ جاہ نے مخصوص انداز میں کہا۔ سوچ رہا تھا کہ یا تو یہ اپنا گھر نہیں اور یا یہ عورت جو سیڑھیاں چڑھ رہی ہے وہ عورت نہیں جو پہلے یہی سیڑھیاں اترا کرتی تھی۔
عورت؟۔
ہاں ہاں بھئی۔ جاہ بولا۔ تم چاہے اسے جمعدارن کہ لو لیکن ہے تو عورت وہ عورت۔
کیا مطلب ہے۔ پال نے کہا۔
مطلب۔ جاہ بولا۔ وضاحت سے مجھے خود بھی نہیں معلوم لیکن کچھ ہے ضرور پہلے وہ آیا کرتی تھی تو جیسے تھکی ہوئی اکتائی ہوئی ہو اور ماتھے پر یوں کڑی تیوریاں ہوتی کہ کچھ کہا تو نتائج کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ وہ ہنسنے لگا۔ لیکن اب آتی ہے تو اک تازگی سے ہوتی ہے۔ دلچسپی سی۔ یعنی جیسے کہ رہی ہو جو جی چاہے کہ لو جی چاہے۔
مطلب یہ ہوا کہ گھر سے تازگی لاتی ہے۔ ایلی نے نکتہ پیدا کیا۔
شاید گھر سے ہی لاتی ہو۔ جاہ بولا۔ لیکن شاید اوپر سے لاتی ہو۔ جاہ ہنسا۔
میاں الزام نہیں دھر رہا میں ویسے ہی بات کر رہا ہوں اور پھر مجھے ایلی اور جمال بھی کچھ کچھ بدلے دکھائی دیتے ہیں۔
میں۔ جمال ہنس کر بولا۔
تم تو خیر پہلے ہی سے بدلے ہوئے تھے لیکن ایلی۔
یہ کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایلی نے جواب دیا۔ میں خود محسوس کر رہا ہوں۔
اگرچہ مجھے خود نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ دنیا بدلی بدلی سی دکھنے لگی ہے۔ ایلی نے بات کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے کہا۔
ہاں بھئی اس عمر میں ایسے حادثات ہو جاتے ہیں۔ جاہ نے کہا۔
رات کے وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوئے تو جمال کہنے لگا۔ یار ایلی ان گوریوں میں اس قدر جرآت ہے۔ مجھے تو ڈر آنے لگا ہے۔
اس میں ڈر کی کیا بات ہے۔ ایلی نے پوچھا۔
لیکن یار اس قدر جرآت۔ آخر وہ ٹوکرا گھر منگوایا گیا ہوگا۔ پھر اسے بھجوا دینا اور ایک معمر آدمی کے ہاتھ۔ مجھے تو وہ گھر کا آدمی معلوم ہوتا تھا۔
شاید وہ گھر اکیلی ہوں اس وقت۔ ایلی نے کہا۔
نہیں تو۔ جمال بولا۔ گھر میں میں نے ان کی والدہ اور ایک ضعیف عورت کو دیکھا ہے۔
اچھا۔ ایلی سوچ میں پڑ گیا۔
جبھی تو میں سوچتا ہوں اپنے بس کا روگ نہیں معلوم ہوتا اور پھر ان کے خطوط۔ خط کیا لکھتی ہیں پورے جواب مضمون ہوتے ہیں۔ جمال ہنسنے لگا۔
یہ تو ٹھیک ہے۔ ایلی نے کہا۔ لیکن الٹا یہ بات تو تمھارے حق میں ہے۔
وہ کیسے۔ جمال نے پوچھا۔
اگر ان میں اس قدر جرآت ہے تو خود ہی ملاقات کی صورت پیدا کریں گی۔
اچھا یار؟ جمال نے تعجب آمیز مسرت سے ایلی کے شانے پر ایک بھرپور ہاتھ مارا۔ تو لکھ دو یار۔ اب کی بار خط میں لکھ دو۔
کیا لکھ دوں۔۔؟
لکھدو کہ ہم ملنا چاہتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی لکھ دو۔
گوریوں کا جواب پڑھ کر وہ دونوں بھونچکے رہ گئے۔ لکھا تھا۔ جسے ملاقات کا شوق ہے وہ کرے کوشش اللہ کار ساز ہے۔ ہمیں تو ملاقات سے کوئی دلچسپی نہیں۔
بھئی بڑی تیز ہیں۔ جمال قہقہہ مار کر ہنسا۔
ایلی چپ چاپ بیٹھا سوچتا رہا۔
دیر تک وہ دونوں خاموش رہے۔

باقی ملاقات پر

اس چند منٹ کی خاموشی کے بعد گویا ایک طوفان امڈ آیا۔ ایلی نے اعلان کر دیا کہ ہڑتال کر دی جائے اور گوریوں کو کوئی خط نہ لکھا جائے جب تک وہ ملاقات پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ اس کا تو بلکہ یہ خیال تھا کہ احتجاج کے تحت جمال کوٹھے پر ان کے روبرو کھڑا ہونا بھی موقوف کر دے۔ جمال کو ایلی کے خیال سے اتفاق نہ تھا۔
نہیں یار ایسا نہ کرو۔ وہ بار بار چلا رہا تھا۔ کہیں اس ضد میں بات ہی نہ ٹوٹ جائے۔ جمال اس کی منتیں کر رہا تھا ہاتھ جوڑ رہا تھا مگر ایلی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
یہ میرا فیصلہ ہے اٹل فیصلہ۔ وہ کہ رہا تھا۔ اگر تمھیں میرا فیصلہ منظور نہیں تو ملاقات کرنے کی میری ذمہ داری نہیں۔ وہ جمال پر یوں دھونس جما رہا تھا۔ جیسے اس کی ذمہ داری ختم ہو جانے کے بعد گوریوں سے رسم وراہ ختم ہوجانا ایک طے شدہ امر تھا۔
ایلی کے فیصلے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ جلد از جلد اس معاملے سے کنارہ کش ہو جائے۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ اس پتلیوں کے کھیل کو چھوڑ کر اپنی دیوی کے پاس چلا جائے۔ اسے وہ یار آرہا تھا جو کرسی سے لٹکا کرتا تھا۔ وہ پیشانی جس کے عین درمیان میں تلک لگا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں جو کشتیوں کی طرح ڈولتی تھیں۔
چونکہ ایلی جذباتی طور پر اس رومان سے بے تعلق تھا۔ اس لئے وہ اس معاملے میں بڑی سے بڑی جرآت کر سکتا تھا اور اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ محبت میں ذہنی لاتعلقی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے اور انسان جس قدر متائثر ہوتا ہے اسی قدر ناکام رہتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عورت فطری طور پر اس مرد کی تسخیر پر شدت سے آمادہ ہوتی ہے جو ناقابل تسخیر نطر آئے اور جو جی جان سے اس کا ہو چکا ہو اس میں کوئی دلچپسی محسوس نہیں کرتی۔
اسی وجہ سے جمال ہرایسے اقدام سے ڈرتا تھا چونکہ اسے ان کے قرب کی آرزو تھی۔ وہ ڈرتا تھا کہ گوریاں بگڑ نہ جائیں۔ اس کے برعکس چونکہ ایلی آرزو سے مبرا تھا اسے کوئی خدشہ نہ تھا اس لئے وہ چاہتا تھا کہ ان کو مجبور کر دے ان پر چھا جائے۔
اس روز رات گئے تک وہ دونوں لڑتے جھگڑتے رہے کئی مرتبہ جمال طیش کھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اچھا تو میں خود خط لکھوں گا انہیں۔ میں خود با ت چلاؤں گا۔۔۔۔لیکن جلدی ہی وہ واپس آجاتا اور ایلی کی منتیں کرنے لگتا۔
آخر جمال ہار گیا۔ اچھا بھئی۔ وہ بولا۔ جو جی میں آئے کرو لیکن یار میرے ان کے روبرو جانے پر کوئی بندش نہ ڈالو یہ مجھے سے نہ ہو سکے گا۔
اس روز کے بعد ایلی ان کے ہر خط کے جواب میں باقی ملاقات پر لکھ بھیج دیتا۔ پہلے تو وہ یہ الفاظ دیکھ کر ہنسیں انہوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی۔ باقی ملاقات پر صاحب کوئی بات کیجئے کچھ کہیئے کچھ سنیئے۔ آپ تو گریمو فون کی اٹکی ہوئی سوئی بن کر رہ گئے۔ پھر انہوں نے روٹھ جانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں لیکن ایلی نے جواب میں اسی جملے کی رٹ لگائے رکھی۔ دھمکیوں سے اکتا کر وہ پھر مذاق اڑانے لگیں۔ میاں مٹھو دریں چہ شک کے علاوہ بھی کوئی آتی ہے کیا۔ اور آخر میں وہ ملاقات پر رضامند ہو گئیں۔
اس روز جمال کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ وہ بات بات پر قہقہہ لگاتا اور جوش مسرت میں دوسروں سے بغل گیر ہوتا اور پیار سے دھول مارتا اور پھر بے اختیار کھجاتا۔ کھجاتا ہی چلا جاتا۔ جمال کے اس جوش انبساط کو سب سے پہلے بھا نے محسوس کیا کیونکہ بھا اکثر اوپر نیم چھتی اور چوبارے میں آیا کرتا تھا۔
کیوں بھئی کیا بات ہے۔ ؟ بھا نے پن کا نب ٹھیک کرتے ہوئے جمال کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔ کیا تمھارے چچا پھر تونہیں آرہے شہر۔۔؟
نہیں تو۔ ایلی ہنسا۔
میں سمجھا شاید۔ بھا مسکراتے ہوئے بولا۔ بہرحال کوئی بات ضرور ہے۔
گھر سے خط آیا ہے۔ ایلی نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
لیکن جاہ کے سامنے ایلی کو کوئی بات نہ سوجھی۔ جاہ نے ایک ساعت کے لئے غور سے جمال کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ آج تو جمال یوں مسکرا رہا ہے جیسے جمعدارن مسکراتے ہوئے سیڑھیاں اترا کرتی ہے۔ اب تو کایا پلٹ گئی ہے اس کی۔
ہوں۔ جاہ نے کہا۔ ان عورتوں کی کایا پلٹ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایک نگاہ ایک جملہ کتنی مغرور اور محتاج ہے یہ مخلوق جس کی ایک نگاہ سے کایا پلٹ ہو جاتی ہے۔
کیوں ایلی۔ پال نے چمک کر پوچھا۔ تمھاری ہی نظر تو نہیں۔
ہاں۔ ایلی ہنسنے لگا۔ میری ہی تو ہے۔
جاہ نے غور سے ایلی کی طرف دیکھا اور شانے جھٹک کر کہا۔ بہرحال اپنی نہیں اپنی نظر تو الٹا اثر کرتی ہے۔ وہ ہنسا۔ اگر کبھی ڈال دوں ایک نظر، تو جھاڑو نہ اٹھائے تو اپنا ذمہ۔
اس روز تو جمال فرط انبساط سے بات بات پر قہقہے لگاتا رہا لیکن اگلے روز صبح سویرے اتنا لمبا چہرہ لئے نیم چھتی میں آگیا۔
یار ایلی۔ وہ بولا۔ مجھے ساری رات نیند نہیں ائی۔
کیسے آتی۔ ایلی نے کہا۔
مذاق نہیں کر رہا۔ جمال سنجیدگی سے بولا۔
میں کب کہتا ہوں کہ۔۔۔۔
یار ساری رات کروٹیں بدلتے بدلتے پہلو چھل گئے ہیں۔
عشق و محبت میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ ایلی نے چھیڑا۔
لیکن یار میں سوچتا رہا ہوں۔
کیا۔؟
خالی یہ کہ دینے سے اچھا ملاقات ہوگی ملاقات ہو تو نہیں جاتی۔
بھئی بور آیا ہے تو پھل بھی لگے گا۔ ایلی نے فلسفہ بگھارنا شروع کیا۔
لیکن ملاقات ہوگی کیسے؟ جمال نے پوچھا
جب ہوگی تو کوائف خود بخود معلوم ہو جائیں گے۔
شاید ان کا مطلب ہو کہ ہم انتظام کریں۔ جمال نے کہا۔
بیوقوف نیہں ہیں وہ۔ ایلی بولا۔
شاید وہ انتظام نہ کر سکیں۔
جو اتنا بڑا ٹوکرا بھیجنے کا انتظام کر سکتی ہیں وہ۔۔۔۔ایلی ہنسنے لگا۔
لیکن یار یہ ٹوکرا بھیجنے کی بات تو نہیں اور شاید انہوں نے بات ٹالنے کے لئے کہ دیا ہو۔
سارا دن جمال نے اپنے شکوک و شبہات اور وہم سے ایلی کا سر کھا لیا۔ ہر آدھ گھنٹے بعد وہ نیم چھتی میں آموجود ہوتا۔ یار ایلی اگر انہوں نے دفعتا بلا لیا تو ہمیں تیار رہنا چاہیئے۔ دیکھو تو یہ رومال کیسا رہے گا۔ یار یہ کچھ اچھا نہیں اور یہ خوشبو میں نے بھائیوں کی دوکان سے لی تھی۔ لیکن یار بہت ہی مدھم ہے۔
پھر آہستہ آہستہ جمال بات کا رخ بدلتا۔ یار ایلی اگر ہم یہاں تیار بیٹھے رہیں اور کوئی ہمیں بلائے ہی نہیں تو کیا ہوگا۔۔
جمال کی باتوں سے ایلی چڑ گیا۔ شام کے وقت جب جمال نے آکر اپنے شکوک کوہوا دی تو ایلی نے اس کے شکوک کو رفع کرنے کی بجائے انہیں تقویت دینے کی کوشش۔
شاید وہ مذاق کر رہی ہوں۔ جمال نے کہا۔ ہیں تو وہ بلا کی مسخریاں۔
ہاں یار۔ ایلی نے جواب دیا۔ میں سمجھتا ہوں مذاق کیا ہے انہوں نے۔
سچ۔؟ جمال کی آنکھیں ابل آئیں۔
ہاں۔ ایلی نے کہا۔
لیکن تم تو کہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
بکواس کرتا تھا میں۔ ایلی نے سنجیدگی سے کہا۔
نہیں۔ جمال بولا۔ اب بکواس کر رہے ہو تم۔ وہ ملیں گی ضرور ملیں گی جو اتنا بڑا ٹوکرا بھیج سکتی ہیں وہ ضرور کوئی انتظام کریں گی۔
ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ جمال نے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ یار تم نے تومیری جان ہی نکال لی یہ کہ کر۔
تو کیا کہوں؟ ایلی چلایا۔ یہ کہوں تو وم بحث کرنے لگتے ہو وہ کہوں تو تم چیختے ہوں۔
یار میں پاگل ہو رہا ہوں۔ جمال ہنسا۔
وہ تو ظاہر ہے۔ ایلی بھی ہنسنے لگا۔
جمال کا یہ پگلا پن تین دن جوں کا توں قائم رہا چوتھے روز گوریوں کا بلاوا آگیا اور ایک بار پھر جمال کی باچھیں کھل گئیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سفید منزل

گوریوں کے سہ منزلہ مکان کا نام سفید منزل تھا۔ سفید منزل کا پچھواڑا ناؤ گھر کی جانب تھا ناؤ گھر کے عین مقابل ایک مختصر سی مگر فراغ گلی تھی۔ جس کے بائیں بازو میں چار مکانات اور دائیں بازو میں صرف سفید منزل تھی جو گلی کے پرلے سرے پر واقعی تھی۔ اسے سے پرے ایک مختصر سے قبرستان سے ملحقہ کچھ زمین خالی تھی اور بازاقر میں دو ایک ایک منزلہ دکانیں تھیں۔ اسی وجہ سے سفید منزل کا پچھواڑہ ناؤ گھر کے چوبارے اور نیم چھتی سے پورے طور پر دکھائی دیتا تھا۔ سفید منقزل کے پچھواڑے میں صرف دو کھڑکیاں تھیں۔ پہلی منزل میں کھلتی تھیں باقی دونوں منزلوں میں ان اینٹوں کے سوراخوں کے سوا جو سفید منزل کی سیڑھیوں میں بنے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑکی یا روشن دان نہ تھا۔ گوریوں نے جمال کو ان دونوں میں سے ایک کھڑکی میں آنے کی دعوت دی تھی۔ یہ کھڑکی گلی کے عین قریب تھی۔ انہوں نے وضاحت سے لکھا تھا کہ مغرب کے وقت آپ اس کھڑکی کی طرف دیکھتے رہیں۔ جب کھڑکی میں روشنی دکھائی دے تو گلی سے ہوتے ہوئے کھڑکی تک پہنچ جائیں۔ لیکن آپ کی آمد پر کھڑکی کی روشنی بجھ جائے گی۔
اس روز سارا دن جمال تیاری میں مصروف رہا اس نے دو ایک ریشمیں رومال خریدے دو ایک عطر کی شیشیاں حاصل کیں پھر وہ اپنے لباس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ بار بار ایک جوڑا نکالتا پھر اسے رد کر دیتا اور دوسرا نکال کر بیٹھ جاتا شام کے قریب وہ بن ٹھن کر ایلی کے پاس آبیٹھا۔ یار ایلی۔ وہ کہنے لگا۔ کوئی مجھے وہاں کھڑا دیکھ نہ لے۔ تم چوکس رہنا اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو میری امداد کو آنا کہیں میں اکیلا ہی نہ پٹ جاؤں۔
عین مغرب کی نماز کے وقت کھڑکی میں بجلی سے چمکتی۔ ارے۔ ایلی چلایا۔ دیکھا۔ ہاں۔ جمال نے کہا۔ عجیب سی روشنی تھی۔ چکا چوند کر دینے والی روشنی۔ اچھا تو میں جاتا ہوں۔
نیچے والوں سے خبردار رہنا۔ ایلی بولا۔ اگر انہوں نے دیکھ لیا تجھے تو خیر نہ ہوگی۔
جمال نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کے چہرے پر فکر اور پریشانی کے آثار تھے جیسے وہ گوریوں سے ملنے نہیں بلکہ دیوار پر چڑھنے کے لئے جا رہا ہو۔
جمال کے جانے کے بعد فورا ہی سیڑھیوں میں شہزاد آکھڑی ہوئی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا بال کھلے تھے۔ ایلی اسے دیکھ کر چونکا۔ وہ واقعی شہزاد کو بھولا ہوا تھا۔
یہ کیا حال بنایا ہے۔ ایلی نے پوچھا۔
دیکھ لو۔ وہ بولی۔ اس کی آنکھ سے ایک آنسو ڈھلک کر گال پر بہہ گیا۔
ایلی کے دل پر ٹھیس لگی۔ لیکن وہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔
وعدہ تو پورا ہو گیا۔ وہ بولی۔
وعدہ؟۔
جو تم نے کیا تھا۔ اب تو ملاقات ہوگی نا۔ یہ کہ کر وہ مڑی اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
شہزاد شہزاد۔ ایلی تڑپ کر اٹھا لیکن وہ جا چکی تھی۔
ہاں وہ اپنے آپ سے کہنے لگا اب تو ملاقات ہوگی۔ وعدہ پورا ہو گیا۔ چلو جان چھٹی۔ مجھے کیا لینا دینا ہے۔ خوامخواہ مجھے تو کوئی دلچسپی نہیں۔ اب میں علی پور جا سکتا ہوں۔ وہ اٹھ بیٹھا سوٹ کیس سے ٹائم ٹیبل نکالا۔ ارے۔ وہ چلایا۔ نو بجے بھی تو جاتی ہے ایک گاڑی۔ اس وقت سات بجے تھے۔ ایلی نے جلدی میں سوٹ کیس میں چیزیں رکھیں۔ پھر ایک رقعہ جمال کے نام لکھا۔ میں علی پور جا رہا ہوں۔ ملاقات مبارک ہو۔ یہ رقعہ چوبارے میں رکھ کر ایلی نے سوٹ کیس اٹھایا اور نیچے اتر گیا۔

بے معنی بے مصرف

سٹیشن کی طرف جاتے ہوئے اس کے چاروں طرف دھندلے دھندلے نقوش خلا میں تیر رہے تھے۔ جیسے اداس آسمان پر بادل تیر رہے ہوں گردوپیش ان دھندلے دھبوں سے بھرا ہوا تھا۔ بے معنی بے مصرف دھبے جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو گردوپیش کی ہر چیز مفہوم سے خالی تھی وہ خود محسوس کر رہا تھا۔ جیسے کھو گیا ہو اور اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے لئے سرگرداں ہو۔
پھر وہ ریلوے سٹیشن میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں علی پور کا ٹکٹ تھا مگر وہ سمجھ رہا تھا۔ جیسے علی پور کروڑوں میل دور آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں سے دور ثریا کی دودھیا سفیدی سے دور۔
ایلی۔ ایلی۔
اپنا نام سن کر وہ چونکا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک بڑا سا دھبہ تیرتا ہوا اس کے قریب آیا۔ ایلی تم ہو۔ اس نے ایک جانی پہچانی آواز سنی۔ پھر اس میلے سے دھبے نے واضح شکل اختیار کر لی۔ اپنے روبرو چچا عماد کو دیکھ کر وہ ٹھٹھکا۔ آپ ہیں چچا۔ وہ بولا۔
میں نے اتنی آوازیں دیں۔ چچا نے کہا۔ لیکن تم تو قدرے اپنے آپ میں مگن تھے۔
میں میں۔ ایلی گھبرا گیا۔ دراصل میں جلدی میں تھا مجھے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔
گاڑی میں۔ چچا عماد نے دوہرایا۔
علی پور جا رہا ہوں۔ ایلی نے جواب دیا۔
اوہ۔ چچا بولے۔ خیر تو ہے۔
ایک ضروری کام ہے۔ ایلی نے کہا۔
اچھا۔ چچا عماد نے کہا۔ میں تو اسی گاڑی سے آیا ہوں علی پور سے۔
اسی گاڑی سے۔ ایلی نے پوچھا۔
ہاں ہاں۔
محلے کا کیا حال ہے چچا۔ ایلی نے پوچھا۔
ویران پڑا ہے۔ چچا بولے۔ شادیوں کے بعد سب لوگ چلے گئے اور محلہ سنسان ہوگیا۔
اوہ۔ ایلی بولا۔
ادھر علی احمد کا مکان ویران پڑا ہے۔ ادھر تیری ماں اور بہن ابھی کابل سے نہیں آئیں پھر شریف بیوی بچوں کو ساتھ لے گیا ہے۔ اب کی بار۔
ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔ لیکن وہ مصلحت کی وجہ سے خاموش رہا۔
شریف آیا تھا نا۔ اس کی گھر والی کہتی تھی۔ میں ساتھ نہیں جاؤں گی مگر اسے کھانے کی تکلیف تھی۔ اس لئے منتیں ونتیں کرکے وہ بیوی بچوں کو ساتھ لے گیا۔
ابھی وہ پل پر کھڑے بات کر رہے تھے کہ نیچے سے گاڑی کی کوک سنائی دی۔ ارے۔ چچا بولے۔ تمھاری تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔
اچھا چچا۔ وہ بولا۔ تو پھر ملوں گا۔ یہ کہ کر ایلی بھاگا۔
پل سے نیچے اترے ہی جب وہ پلیٹ فارم کی طرف مڑا تو اس کے روبرو سٹیشن کی گھڑی تھی۔ ارے سوا آٹھ۔۔۔۔ وہ رک گیا۔ ابھی تو پون گھنٹہ باقی ہے۔ وہ ایک خالی بینچ پر بیٹھ گیا۔ سامنے گاڑی میں لوگ اور سامان گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ قلی بھاگ رہے تھے۔ بابو سلو مارچ کر رہے تھے۔ دیر تک وہ وہاں اس خیال میں بیٹھا رہا کہ اسے علی پور جانا ہے۔ چچا کی بات اس کے ذہن سے یوں نکل چکی تھی۔ جیسے کسی نے کہی ہی نہ ہو۔ وقت رینگ رہا تھا۔ گھڑی کی سوئیاں رکی ہوئی تھیں۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ ناؤ گھر سے بھاگ کر آیا ہے کہ جمال قبرستان کے عقب میں گوریوں کی کھڑکی کے سامنے کھڑا شدت سے کھجا رہا ہے۔ وہ یہ بھی بھول چکا ہے کہ وہ کھو گیا ہے اور اپنے آپ کو تلاش کرنے علی پور جا رہا ہے۔ وہ علی پور جا رہا ہے اور وہ علی پور جہاں شہزاد رہتی ہے۔ جس کا بازو کھڑکی سے نیچے لٹکتا ہے آنکھیں ڈولتی ہیں اور ماتھے کی بندی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے۔
ایلی نے سر اٹھایا۔ سامنے دیوار پر سائن بورڈ لگا ہوا تھا۔ شہزاد سنو۔ا رے وہ چونکا۔ شہزاد سنو۔ محلہ ویران پڑا ہے۔ شریف بیوی بچے لے کر چلا گیا ہے۔ چچا عماد چلانے لگا۔ ایلی یوں تڑپ کر اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اسے تھپڑ مار دیا ہو۔ شہزاد چلی گئی شہزاد چلی گئی۔ انجن نے کوک ماری۔ محلہ ویران پڑا ہے۔ ویران پڑا ہے۔ ویران پڑا ہے۔ گاڑی چلنے لگی۔ ایلی نے ان جانے میں سوٹ کیس اٹھالیا اور نہ جانے کس طرف چل دیا۔
کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو وہ ٹی سٹال پر کھڑا چائے پی رہا تھا۔
سٹیشن کے باہر پہنچ کر وہ بکنگ آفس کے سامنے رک گیا۔ ایک ٹکٹ علی پور۔ ایک شخص چلا رہا تھا۔ ایک ٹکٹ علی پور۔ ایلی نے مٹھی کھولی۔ ٹکٹ پر حسرت بھری نظر ڈالی پھر اس نے چپکے سے ٹکٹ اس آدمی کی مٹھی میں تھما دی اور باہر نکل گیا۔
تانگوں کے اڈے کے قریب وہ سٹیشن کے چھوٹے سے باغیچے میں پہنچ کر بیٹھ گیا اردگرد طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ جس میں بتیاں ٹمٹمانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ قریب ہی دو اونچے لمبے درخت اداس کھڑے تھے۔ سامنے ایک ویران مسجد کے مینار گویا محو حیرت کھڑے تھے۔ دور کوئی چکی ہونک رہی تھی۔
دیر تک وہ وہیں بیٹھا رہا۔ آہستہ آہستہ سڑک ویران ہو گئی۔ دوکانیں بند ہو گئیں سٹیشن بھیڑ سے خالی ہو گیا۔ کتے بھونکنے لگے۔
بابو جی چلو گے؟ ایک تانگے والا اس کے قریب آکر کہنے لگا۔ کہاں جاؤ گے بابوجی۔؟ وہ چونکا۔ کہاں جاؤ گے بابوجی۔ ؟کتا رو رہا تھا۔ دفعتا اسے خیال آیا کہ اسے جانا ہے۔ کہیں نہ کہیں جانا ہی ہوگا۔
ہاں۔ اس نے تانے والے سے کہا۔ تانگے والے نے بڑھ کر اس کا سوٹ کیس اٹھا لیا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔

ملاقاتیں

اگلے روز جب ایلی بیدار ہوا تو جمال اس کے سرہانے بیٹھا تھا۔
مارلے یار تم نے حد کر دی۔ وہ چلا رہا تھا۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ شکر ہے تم علی پور نہیں گئے یار مجھے منجدھار میں چھوڑ کر تو نہ جاؤ۔ وہ چلائے جا رہا تھا۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ کیا ہوا ہے تمھیں۔
جمال مسلسل چلائے جا رہا تھا لیکن ایلی خاموش تھا۔ ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے اسے سنہری بالوں اور گوریوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے زندگی میں اسے کوئی دلچسپی باقی نہ رہی ہو۔ اس کے روبرو آصف کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔آجاؤ آجاؤ ایلی۔ وہ اسے اپنے مخصوص انداز میں بلا رہا تھا۔
اس روز کئی مرتبہ جمال اس کے پاس آیا۔کئی مرتبہ ایلی جمال نے کوشش کی کہ ایلی اس سے کہ ملاقات کیس رہی۔ لیکن ایلی نے ہر بار اسے یہ کہ کر ٹال دیا۔ یار میری طبیعت اچھی نیہں۔ لیکن رات کے وقت جب ایلی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا تو جمال نے آکر خودبخود قصہ چھیڑ دیا۔
یار ایسی ملاقات کا کیا فائدہ۔ وہ سلاخ دار کھڑکی کے اندر رہیں اور میں باہر اور پھر ہر آہٹ پر یہ خطرہ کہ کوئی دیکھ نہ لے پوچھ نہ بیٹھے کہ میاں یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو۔ادھر وہ اندھیرے میں کھڑی تھیں۔ اندر بتی بھی نہیں تھی۔ گھپ اندھیرا کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن یار ان کی آوازیں اتنی پیاری ہیں اور ان کی باتیں اتنی رنگین ہیں کہ میں تمھیں کیا بتاؤں۔ بڑی تیز ہیں وہ اور بڑی نڈر اور یار انہوں نے مجھے سیگرٹ پلائے پان کھلائے میں نے بہتیری کوشش کی کہ سیگرٹ دیتے وقت ہاتھ سیخوں سے باہر نکالیں۔ لیکن وہ بڑی چالاک ہیں فورا بھانپ لیتیں اور قہقہہ مار کر ہنستیں۔ ہم سے یہ چالاکی نہیں چلے گی صاحب۔ وہ مسلسل باتیں کیے جا رہی تھیں۔ اور میں حیران کھڑا تھا۔ بت بنا کھڑا تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہوں اور وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ گونگے ہیں یا بات کیجئے کوئی یوں تصویر بن کر کھڑے رہنے سے کیا فائدہ۔ ہاں یار۔ جمال چلانے لگا۔ انہوں نے کئی بار مجھ سے کہا ہاں صاحب تو وہ باقی ملاقات پر جو لکھتے تھے آپ بار بار اب بتائیے نا وہ باقی کیا ہے اب کیا ہو گیا ہے آپ کو۔
چار روز بعد پھر بلاوا آیا اور جمال نئی امیدیں لے کر نئے جوش اور نئی تیاریوں کے بعد کھڑکی پر جا کھڑا ہوا۔
جب وہ واپس آیا تو اس کے شانے اندر دھنسے ہوئے تھے۔ گردن لٹکی ہوئی تھی۔ اس روز وہ چپ چاپ آکر بیٹھ گیا اور گہری فکر میں کھو گیا۔ یار وہ طعنے دیتی ہیں۔ وہ کچھ دیر بعد بولا۔ کہتی ہیں خطوں میں تو بڑی باتیں بگھارتے ہیں آپ۔ برے نکتے پیدا کرتے ہیں لیکن سامنے آکر کیا ہو جاتا ہے منہ سے بات نہیں نکلتی۔
اور یار۔ کچھ دیر بعد وہ پھر جوش میں کہنے لگا۔ اب تو سارا راز فاش ہو گیا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ ملاقات ہی نہ ہوتی۔
ایلی خاموش بیٹھا رہا۔
چار روز بعد جب پھر بلاوا آیا تو جمال خوش ہونے کی بجائے برا سا منہ بنا کر کہنے لگا۔میں نہیں جاؤں گا۔ جانے کاکیا فائدہ۔ البتہ تم ساتھ چلو تو ٹھیک ہے چلو گے۔
اونہوں۔ ایلی نے جواب دیا۔ میرا وہاں کیا کام اور پھر جس کو بلایا جاتا ہے وہی جاتا ہے نا۔
لیکن میں ان سے کہ دوں گا کہ میں اسے زبردستی لایا ہوں۔ جمال نے کہا۔
اگر وہ پوچھیں کہ زبردستی لانے کا مطلب۔ ایلی نے پوچھا۔
کہ دوں گا کہ باتیں کرنے کے لئے۔
ایلی کی ہنسی نکل گئی۔ بھئی واہ۔ وہ بولا۔ خط میں لکھوں۔ باتیں میں کروں۔ پھر تم کیا کرو گے۔
ہاں یار بات تو درست ہے۔
میں بتاؤں۔ ایلی بولا۔
بتاؤ۔
تمھارا مطلب ہے کہ سودا خرید کر ہنڈیا پکا کر برتن میں ڈال کر میں تمھارے سامنے رکھوں اور پھر تم اسے کھاؤ۔
جمال نے قہقہہ لگا کر کھجانا شروع کر دیا۔ یار بات تو کچھ ایسی ہی ہے۔
ایلی دفعتا سنجیدہ ہوگیا۔ دیکھو جمال اس کھیل میں سودا لانے اور ہنڈیا پکانے کی ہی دلچسپی ہوتی ہے کھانا اہم نہیں ہوتا۔
لیکن یار۔ جمال بولا۔ میں کیا کروں میرا دل جو چاہتا ہے۔
اس وقت ایک ساعت کے لئے ایلی نے جمال سے نفرت کا جذبہ محسوس کیا۔ لیکن خاموش رہا۔ شام کے وقت جب کھڑکی میں چمکدار روشنی نظر آئی تو ایلی نے زبردستی جمال کو اٹھایا اور پھر دھکیل کر نیچے لے گیا تاکہ ان سے ملے نیچے جا کر جمال نے ایلی کی منتیں شروع کر دیں۔
اب آبھی جاؤ یار۔ دس قدم تو ہے یہاں سے تیرا کیا بگڑ جائے گا۔ اپنی بات بن جائے گی۔ جمال کو ابھی تک احساس نہیں ہوا تھا کہ ایلی کو اپنے معاملے میں ڈال کر وہ بات بگاڑ رہا ہے۔ لیکن ایلی کو پورے طور پر احساس ہو چکا تھا کہ جمال بات بنانے کا خواہشمند نہیں وہ صرف ملاپ کا متمنی ہے۔ خصوصی ملاپ ایسا ملاپ جس میں لوہے کی سلاخیں حائل نہ ہوں۔ اسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ گوریاں اس کی اس خواہش سے کما حقہ واقف ہو چکی ہیں۔
اس کے باوجود نہ جانے کیوں ایلی نے جمال کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
اس روز ان کی ملاقات کافی مختصر رہی۔ واپس آکر نہ تو جمال نے کوئی بات کی اور نہ ہی خوشی یا تعجب کا اظہار کیا۔
اگلے روز گوریوں کا جو خط موصول ہوا وہ سارا کال کلوٹے کے نام تھا۔ جس میں اسے بار بار تاکید کی گئی تھی کہ ان سے ملنے کے لئے سنہری بالوں کے ہمراہ آئے اور اس سے پہلے وہ کیوں نہ آیا تھا اور کال کلوٹا ہونے پر جلتا کیوں ہے۔ منہ کیوں چھپائے پھرتا ہے۔ روتا کیوں ہے اور نہیں روتا تو شکل ایسی کیون ہے۔
اس خط پر ایلی حیران ہوا اتنا لمبا چوڑا خط اسے کبھی موصول نہ ہوا تھا اور پھر سارے کا سارا اسی کے نام اس سے پہلے تو کبھی کبھار اس کے نام کا رقعہ ملفوف ہوتا تھا اور اس رقعے کی حیثیت ضمنی ہوتی تھی۔ حیرت کی بات تھی۔
ایلی سارا دن اس بارے میں سوچتا رہا پھر اسے قرائن سے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ جمال کے کہنے پر ہوا ہے۔ پچھلی ملاقات میں اس نے اس کے سوا کوئی اور بات ہی نہ کی تھی۔
شام کے وقت جمال اس کے پاس آبیٹھا اور سفید منزل کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ مغرب کے وقت کھڑکی میں تیز روشنی دیکھ کر وہ اچھلا۔
لو وہ بلا رہی ہیں۔ اس نے ایلی سے کہا۔
ابھی تو تم کل ہی مل کر آئے ہو۔ ایلی نے کہا اور آج کے خط میں تو اس ملاقات کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
انہوں نے زبانی بتایا تھا مجھے۔ جمال بولا۔ کہ شام کو اگر روشنی جلے تو آجانا ورنہ نہیں۔ پھر وہ ایلی کی منتیں کرنے لگا۔ ایلی حقیقتا وہاں جانا نہیں چاہتا تھا۔ غالبا وہ کال کلوٹے نے اس کی انا کو صدمہ پہنچایا تھا۔ اس واسطے ایلی ان میں کوئی دلچسپی محسوس نہ کرتا تھا۔ یا شاید اس کی کوئی اور وجہ ہو بہرحال اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ جمال اس کے بغیر اکیلا ہی چلا جائے لیکن جمال گویا اسے ساتھ لے کر جانے کی قسم کھائے ہوئے تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی کو جمال کے ساتھ جانا پڑا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انڈر کانسیڈریشن

گلی سنسان تھی۔ قبرستان کے پیچھے کھڑکی کے پاس کھڑے ہونا خصوصی طور پر خطرناک نہ تھا۔ اول تو اس گلی میں آمدورفت بہت کم تھی دوسرے گلی میں گزرتا ہوا شخص اگر ادھر دیکھتا بھی تو اسے اندھیرے کی وجہ سے وضاحت سے کچھ دکھائی نہ دیتا۔
وہ دونوں چپ چاپ قبرستان میں داخل ہو گئے اور پھر کھڑکی کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ ایلی نے دو ایک مرتبہ کھڑکی کی طرف دیکھا لیکن وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ جگہ سنسان معلوم ہوتی تھی۔ اس نے سمجھا ابھی گوریاں نہیں آئیں اس لیے وہ جمال سے کہنے لگا۔
میں نہیں سمجھتا آخر مجھے یہاں لانے سے کیا فائدہ۔
حرج بھی کیا ہے۔ جمال نے کہا۔
واہ۔ ایلی چمک کر بولا۔ تم تو بھلا عشق لڑاؤ گے۔ میں کیا کروں گا۔
آپ دیکھئے عشق کس طرح سے لڑایا جاتا ہے۔ کھڑکی سے آواز آئی۔
ارے۔۔۔۔ایلی چونکا۔ یہ تو اندر ہی ہیں۔
اندر سے کسی کے ہنسنے کی آواز آئی۔
یہ تو بڑی بے انصافی ہے۔ ایلی نے کہا۔ کہ آپ تو سلیمانی ٹوپی ہنے رہیں اور ہم دونوں سر سے پاؤں تک بیوقوف بنے کھڑے رہیں۔
تو کیا آپ یہاں انصاف کے لئے آئے ہیں یہ کیا جہانگیر کا مقبرہ ہے۔ آواز آئی۔
نورجہاں بھی تو دکھائی نہیں دیتی۔ ایلی نے کہا۔
آپ ملنے آئے ہیں یا لڑنے کے لیے۔ اندر کوئی ہنسی۔
ہاں پہلے یہ طے کر دیجئے کہ مجھے کس حیثیت سے بلایا گیا ہے۔ کیا اس لیے کہ میں ہیرو اور ہیروئین کا تماشا دیکھوں۔ یا مسخرے کی طرح آپ لوگوں کو محظوظ کریں یا گورے کے لئے نظر بٹو کا کام دوں؟
چلئے ہم نے آپ کو بھائی کا مرتبہ بخشا۔ آواز آئی۔
سوچ لیجئے۔ ایلی نے کہا۔
سوچ لیا۔ آواز آئی۔
تو بھئی دونوں اپنی اپنے کان ننگے کرو اور میرے ہاتھ میں دے دو۔
کیوں۔ کوئی ہنسی۔
تاکہ میں انہیں کھینچوں اور کہوں کہ تم دونوں یہاں کھڑی کیا کر رہی ہو چلو کوٹھے پر گھر کی عزت کا خیال ہے یا نہیں اور یہ سنہری بالوں والے ہمیشہ معصوم بچیوں کو پہلے ورغلاتے ہین اور پھر دھوکا دیتے ہیں۔
ارے۔ وہ ہنسنے لگی۔ نہ صاحب ہم آپ کو بھائی نہیں بتاتے۔
تو پھر پہلے یہ فیصلہ کیجئے کہ میں کس حیثیت سے بلایا گیا ہوں۔
کچھ دیر وہ دونوں کھی کھی کر کے ہنستی رہیں۔
پھر ایک بولی۔ چلئے آپ انڈر کانسیڈریشن سہی۔ یہ سن کر ایلی کو پسینہ آگیا اور اسے کوئی جواب نہ سوجھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ اب مطمئن ہو گئے ہیں۔ کوئی ہنسی۔
دیکھئے۔ غصے میں ایلی نہ جانے کیا کہنے لگا۔
ٹھہریئے جی۔ وہ بولی۔ انہیں بھی کوئی بات کرنے دیجئے اب۔۔۔۔۔یہ نہیں کہ آپ ہی چہکتے رہیں باری باری موقعہ دیا جائے گا۔ ایلی کا غصہ یخ ہو گیا۔
انہیں باتوں سے دلچسپی ہوتی۔ ایلی نے کہا۔ تو مجھے نہ بلایا جاتا۔
اب آپ اس کا ناجائز فائدہ حاصل نہ کیجئے۔ اندر سے آواز آئی۔
ایلی خاموش ہو گیا محفل پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری رہی۔
کرونا کوئی بات بھئی۔ ایلی نے جمال سے کہا۔
لیجئے اب تو سفارش کردی آپ کے دوست نے۔ کوئی ہنسی۔
میں تو جدائی کا مارا ہوں۔ میں کیا بات کروں۔ جمال کھجانے لگا۔
دیکھ لیجئے۔ وہ بولی۔ یہ پاس آکر بھی جدائی کے مارے رہتے ہیں۔
یہ کیا ملاقات ہے۔ جمال نے آہ بھری۔ اور ملاقات کسے کہتے ہیں جی۔ وہ بولی۔
جمال لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا۔
میں نے کہا۔ ایلی نے بات شروع کی۔ اس کمرے کا دروازہ باہر گلی میں بھی تو کھلتا ہے یہ والا۔ جس کے باہر تالا پڑا ہے۔
تو پھر اسے کھول لیجئے نا۔ وہ ہنسیں
سچ۔ ایلی نے پوچھا۔
ہاں ہاں۔
لیکن اندر کی چٹخنی۔ ایلی نے پوچھا۔
وہ نہیں کھل سکتی۔
کیوں؟۔
بس نہیں کھل سکتی۔ لیجئے سگرٹ۔ انہوں نے ایک سگرٹ سلاخون سے باہر نکالی۔
اونہوں۔ ایلی چلایا۔ ہاتھ اندر کیجئے ہاتھ اندر کیجئے ورنہ نظر آجائے گا۔
وہ ہنسنے لگیں۔
جمال نے سگرٹ پکڑ لیا۔
پھر جب انہوں نے دوسرا سگرٹ باہر نکالا تو ایلی نے انکار کر دیا۔ میں نہیں پیتا۔
جھوٹ کیوں بولتا ہے۔ جمال بولا۔
وہ تو کبھی کبھار تفریحا پیتا ہوں۔
یہ بھی تو تفریحا دیا جا رہا ہے۔ وہ بولی۔ دوا کے طور پر نہیں۔
اچھا۔ ایلی بولا۔ ضرور ہی پلانا ہے تو سلگا کر دیجئے۔
وہ ہنسنے لگی۔ جی نہیں۔ وہ بولی۔ خود ہی تکلیف فرمائیے۔
ہم نہیں پیتے۔ ایلی کہنے لگا۔ ایک تو تمھارے کہنے پر سیگرٹ بھی پیوں اور دوسرے سلگاؤں بھی خود ہی یہ مہنگا سودا ہے۔
ارے۔ وہ چلائیں۔ یہ باتوں کے دھنی معلوم ہوتے ہیں۔
خالی باتوں کا ہی ہوں۔ ڈریئے مت۔ ایلی نے کہا۔
دیکھا میں نے کہا نہ تھا۔ جمال ہنسنے لگا کہ اسے ضرور بلائیے۔
آپ نہ جانیں کیا کیا کروائیں گے ہم سے۔ انہوں نے جمال سے کہا۔ لیجئے پان کھایئے۔
جمال نے لپک کر پان لے لیا۔ ایلی نے انکار کر دیا۔
اب آپ کہیں گے کہ پان بھی چبا کر دیجئے۔
اگر تم انڈر کانسیڈریشن ہوتیں تو ضرور کہتا۔
یعنی آپ انتقام لے رہے ہیں۔ چھی چھی۔ وہ ہنسیں۔
لیکن آپ ہیں کتنی۔ ایلی نے بات کا رخ بدلا ایک ہیں دو ہیں تین ہیں کتنی ہیں آپ۔ یہ راز نہیں بتایا کرتے۔ وہ بولی۔
بولتی تو ایک ہی ہے۔ ایلی نے کہا۔
لیکن ہیں دو۔جمال نے کہا۔
دوسری کہاں ہے۔
دوسری ہی تو بولتی ہے۔ کسی نے ہنس کر کہا۔
یوں نہیں، دونوں ایک ساتھ بولو تو یقین آئے۔ ایلی بولا۔
عین اس وقت سڑک پر قریب ہی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔
بھائی جان۔ اندر کوئی زیرلب چلائی۔ اچھا اب آپ جائیے۔۔۔۔۔کھڑکی کے پٹ بند ہوگئے۔ اگلے روز جمال بے حد خوش تھا۔ یار تم نے تو حد کردی۔ جبھی تو میں کہتا تھا کہ ضرور چلو تھمارے جانے کے بغیر وہاں کوئی بات نہیں چلے گی۔
یار۔ ایلی نے کہا۔ وہ تو بے حد تیز ہیں۔ وہاں تو اپنی دال بھی نہیں گلتی۔
دیکھا نا۔ جمال نے کہا۔ جبھی تو میں وہاں اکیلا جانے سے گھبرایا کرتا تھا۔
لیکن جمال۔ ایلی نے کہا۔ میرا وہاں جانا ٹھیک نہیں۔
کیوں۔
آخر کیوں۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
اس روز سارا دن اسی بات پر ان کا جھگڑا ہوتا رہا۔ جمال اسے کہ رہا تھا کہ اب تو جانا ہی پڑے گا۔ لیکن ایلی جانے پر تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔
دن میں چار ایک بار جمال نے ایلی نے بحث کرنے کی کوشش کی لیکن ایلی نے اسے روک دیا۔ نہیں جمال میں نہیں جاؤں گا۔ اس میں بحث کی کوئی بات نہیں۔
شام کے وقت ایلی چپکے سے نیچے اتر گیا اور جمال کے پاس جا بیٹھا۔ جمال نے باہر کھڑے ہو کر اشارات کئے لیکن ایلی نے سر ہلا کر انکار کر دیا۔ اس لیے جمال کو اکیلے ہی جانا پڑا۔

باتیں ہی باتیں

اگلے روز جمال کی حالت غیر تھی۔ اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا۔ دوپہر تک وہ ایلی کے پاس نہ آیا تو ایلی چوبارے میں گیا۔ کیوں بھئی کیا ہوا کل۔ اس نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔ وہ بولا۔
کچھ نہیں کا کیا مطلب۔۔۔ایلی نے پوچھا۔
انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کھڑکی بند کر لی اور کہنے لگیں جب تک اسے ساتھ نہیں لائیں گے۔ اب کھڑکی نہیں کھلے گی۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئیں اور میں حیران کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
ایلی یہ سن کر حیران رہ گیا اس نے محسوس کیا جیسے اس کا رنگ دھل کر گورا ہو گیا ہو۔ اب تم کیوں جانے لگے۔ جمال نے کہا۔ نہ جانے جمال کی حالت دیکھ کر یا اس لئے کہ اس کا رنگ گورا ہو چکا تھا۔ اس نے جمال کا ہاتھ تھام لیا۔ مجھے معلوم نہ تھا جمال۔ وہ بولا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ ایسا کریں گی۔
میں جاؤں گا ضرور جاؤں گا۔ تم دل برا نہ کرو۔ ایلی نے کہا۔
جمال کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اچھا۔ وہ بولا۔ تو تم جاؤ گے نا۔
ہاں۔ ایلی نے کہا۔
پھر کبھی انکار نہ کرو گے نا۔
نہیں۔
شام کو وہ جب دونوں کھڑکی کےقریب پہنچے تو آواز آئی۔ آپ کس حیثیت سے آئے ہیں جی۔
انڈر کانسیڈریشن کی حیثیت سے۔ ایلی نے جواب دیا۔
اوہ۔ اور کل کیوں نہیں آئے تھے جی۔
اس لیے کہ کل میں اپنے آپ کو ابھی کانسیڈریشن سمجھتا تھا۔
تو کیا سزا ملنی چاہئے آپ کو۔ وہ بولی۔
سزا تو ضرور ملنی چاہئے۔ ایلی نے کہا۔ ایک تھپڑ کافی ہوگا کیا۔
ہاں۔ وہ بولی اور پھر جمال سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔ آپ انہیں ایک تھپڑ ماریئے۔
جی نہیں۔ ایلی نے کہا۔ آپ کو خود تکلیف کرنی ہوگی۔
کیوں کیا اس لئے کہ ہمارے ہاتھ سے چوٹ نہیں لگےگی۔ بتائیے۔
اونہوں۔ ایلی نے سر ہلایا۔
تو پھر۔
بازو تو منظر عام پر آئے گا۔ ایلی نے کہا۔
ارے۔ وہ ہنسی۔ انہیں بازو دیکھنے کا شوق ہے۔ بچوں کی سی بات کرتے ہیں۔
جی ہاں۔ ایلی نے جواب دیا۔
کیا آپ بچہ ہیں؟۔وہ بولی۔
ہوں تو نہیں لیکن بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ایلی نے کہا۔
کیوں۔ وہ بولی۔
کہ شاید آپ میں مامتا جاگ اٹھے۔
ارے۔ وہ قہقہہ مار کر ہنسی اور اندر کسی سے کہنے لگی۔ یہ بھی انہی کے ہم خیال معلوم دیتے ہیں۔
کن کے۔؟ ایلی نے پوچھا۔
اپنے دوست کے اور کن کے آپ کے دوست کا خیال ہے کہ درمیان میں لوہے کی سلاخیں ہوں تو ملاقات نہیں ہو سکتی اور ہمیں معلوم ہے کہ اگر سلاخیں ہٹا دی جائیں تو یہ کیا مطالبہ کریں گے۔
پھر تو میں اپنے دوست کا ہم خیال نہیں ہوں۔
کیوں۔
میں تو کہتا ہوں کہ ان سلاخوں کو ڈبل کر دیا جائے تاکہ میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھوں اور آپ کی قسم، اگر یہ سلاخیں نہ ہوں تو مجھ سے بات بھی نہ ہو سکے۔
کیا مطلب۔ انہوں نے پوچھا۔
آپ نے وہ قصہ سنا۔ ایلی کو معا ایسپ کی کہانی یاد آگئی۔
کونسا۔
ایلی نے کہانی سنانی شروع کر دی۔ بھیڑیا گھوم رہا تھا۔ ایک سو فٹ اونچی دیوار کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ دیوار کے اوپر ایک بھیڑ کا بچہ بیٹھا ہے۔ بھیڑ کے بچے نے چلا کر کہا چچا جان سلام عرض کرتا ہوں۔ بھیڑیئے نے جواب دیا بیٹا یہ تو نہیں بول رہا یہ سو فٹ اونچی دیوار بول رہی ہے۔ ایلی نے کہا۔ محترمہ یہ میں نہیں بول رہا۔ بلکہ لوہے کی سلاخیں بول رہی ہیں۔
یہ تو بکواس کر رہا ہے۔ جمال نے کہا۔
تو پھر آپ بات کیجئے نا۔ وہ ہنس کر بولی۔
انہیں بکواس کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایلی نے کہا۔ یہ تو انڈر کانسیڈریشن نہیں ہیں۔ وہ ہنسیں۔ یہ آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے جمال کو مخاطب کرکے کہا۔ نہ جانے آپ انہیں ساتھ کیوں لے آتے ہیں۔
آپ نے تو خود ہی کھڑکی بند کر دی تھی کل۔ جمال نے کہا۔ اور کہا تھا جب تک اسے ساتھ نہیں لائیں گے کھڑکی نہیں کھلے گی۔
وہ تو اس لئے کہا تھا کہ آپ پر صرف ایک دھن سوار ہے۔ چونکہ آپ کے عزائم خطرناک ہیں۔ اس لئے تیسرے آدمی کا ہونا ضروری ہے۔
نہیں نہیں خدا کے لئے ایسا مت کہئے۔ جمال کھڑکی کے قریب تر ہو گیا۔
اندر ہاتھ نہ ڈالئے۔ وہ بولی۔ منہ زبانی بات کیجئے آپ کو تو کشتی کا شوق معلوم ہوتا ہے۔ ذرا انہیں پیچھے ہٹا دیجئے نا۔ انہوں نے ایلی سے اپیل کی۔
ایلی خاموش کھڑا رہا۔
خدا کے لئے ذرا دیا سلائی تو جلائیے۔ جمال نے منت کی۔
کیوں۔؟
یہاں بہت اندھیرا ہے۔ وہ بولا۔
بس ان کو یہی ایک بات کہنی آتی ہے۔ وہ ایلی سے کہنے لگی۔
خدا کے لیے۔ جمال نے اپنا بازو سلاخوں کے اندر ڈال دیا اور ٹارچ جلا دی جو وہ چھپا کر ساتھ لایا تھا۔ کمرے سے دو ایک ہلکی ہلکی چیخوں کی آوازیں آئیں اور دو ملفوف سی اشکال چلاتی ہوئی بھاگیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔
دیر تک وہ دونوں وہاں چپ چاپ کھڑے رہے۔
بھاگ گئیں آخر۔ جمال بولا۔ وہ یونہی بھاگ جایا کرتی ہیں۔
لیکن یہ ٹارچ تم کیسے لے آئے تھے۔ ایلی نے پوچھا۔
چھپا کر لایا تھا۔ وہ ہنسنے لگا۔ یار اتنی دیر ہو گئی ہے ابھی تک ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھیں۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
اس کے بعد ان کا معمول ہو گیا کہ شام کے وقت جب کھڑکی میں تیز روشنی دکھائی دیتی وہ دونوں قبرستان کی طرف چل پڑتے۔ ان کی آمد پر وہ پوچھتیں آپ کے پاس ٹارچ ہے تو اسے رکھ دیجئے ورنہ کھڑکی نہیں کھلے گی۔ یقین دہانی پر کھڑکی کھل جاتی اور کوئی نہ کوئی بات چل نکلتی اور وہ ہنستے ہنستے باتیں کرتے حتٰی کہ ان کے جانے کا وقت ہو جاتا اور وہ شب بخیر کہ کر کھڑکی بند کر لیتیں۔
ان ملاقاتوں میں ایلی باتوں میں پیش پیش رہتا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ابھی تک وہ جذباتی طور پر ان گوریوں سے وابستہ نہ ہوا تھا۔ اس لئے جو جی میں آئے کہ سکتا تھا اس کے علاوہ اسے مزید قرب کی آرزو نہ تھی۔ حتٰی کہ اسے یہ بھی خواہش نہ تھی کہ ان کو روشنی میں دیکھے۔ لیکن اس کا مطلب نہیں کہ ایلی ان کی شخصیتوں سے متائثر نہ ہوا تھا۔
وہ ان کی ذہانت، جرآت اور علم پر حیران تھا۔ ان کی باتیں رنگین ہونے کے علاوہ پر معنی ہوتیں۔ ان کی زبان شستہ تھی۔ مذاق لطیف اور خیالات بلند تھے۔
ایلی نے اچھی طرح جان لیا تھا کہ وہ صرف باتوں کی دلدادہ ہیں اور ان ملاقاتوں کا مقصد محفل آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ رنگین باتیں کرنے اور سننے کی شوقین تھیں اور انہیں بھونڈی باتوں سے نفرتی تھی۔
ماہ رمضان کی آمد پر ملاقات کا وقت بدل گیا۔ اب شام کی بجائے وہ سحری کے وقت ملنے لگے۔ رات کے دو بجے کے قریب سفید منزل کے چوبارے میں روشنی چمکتی۔ جسے دیکھ کر دونوں گوریوں سے ملنے کے لئے چل پڑتے۔ اس تبدیلئی اوقات پر جمال چلا اٹھا۔
یار یہ بہت مشکل کام ہے رات کے دو بجے کون جاگے۔
چونکہ ناؤ گھر کے رہنے والے سب کے سب امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔ بھا کے سوا ان میں سے کوئی روزہ نہ رکھتا تھا اس لئے سحری کے وقت ناؤ گھر میں کوئی نہیں جاگتا تھا۔ بھا نے بھی خصوصی انتظام کر رکھا تھا۔ شام کے وقت وہ دو انڈے بنوا لیتا جو صبح ڈبل روٹی کے ساتھ کھا کر روزہ رکھ لیتا تھا۔ بھا سے یہ کہنا کہ ہمیں دو بجے جگا دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا تھا۔ گھڑی کو دو بجے کا الارم لگانے سے بھی وہ ڈرتے تھے۔ تاکہ گھر والوں کو شک نہ پڑے۔ رات کے دو بجے آپ ہی آپ جاگنا بہت بڑی مشکل تھی۔
ان دنوں کالج امتحان کی تیاری کی چھٹیوں کی وجہ سے بند ہو چکا تھا اور بی اے کے امتحان
 
Top