قیصرانی
لائبریرین
پھر آہستہ آہستہ ایلی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے قرب کے لمحات بڑھتے گئے۔ کتاب کے مطالعہ سے تھک کر دفعتاً جاہ ایلی کی طرف دیکھتا ہے۔ "تو تم برٹرنڈر رسل کا مضمون پڑھ رہے ہو۔ اچھی چیز ہے۔ بڑی دیر کے بعد رسل نے اپنے انداز کی چیز لکھی ہے۔ معلومات کا ایک پٹارہ ہے یہ شخص حد ہو گئی۔" یہ کہہ کر وہ رسل کے متعلق ایک لمبی چوری تقریر جھاڑ دیتا جسے ایلی حیرت سے سنتا۔ وہ اس وقت یوں منہ کھولے بیٹھا ہوتا کہ دفعتاً جاہ رک جاتا۔ "اوہ تم۔۔۔؟" وہ انگلیاں جھٹکاتے ہوئے چلاتا اور پھر وہ گویا اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا۔ "تم میاں کوئی سیدھی چیز شروع کرو کوئی داستان کوئی کہانی اور وہ بھی مینس فیلڈ کی نہیں وہ تو اشاروں میں بات سمجھاتی ہے پلو مار کے دیا بجھاتی ہے۔ کیا چیز لکھتی ہے۔ واہ واہ واہ اور پھر یوں ساکت و جامد ہو جاتا جیسے پتھر کا بنا ہو۔ اور ایلی حیرت سے اس کی طرف دیکھے جاتا جاہ کی باتیں سن کر ایلی کو دفعتاً یہ احساس ہوتا جیسے کوئی کنویں کا مینڈک پھدک کر سمندر میں جا گرا ہو۔ جاہ کی مینس فیلڈ رسل ولز فرائیڈ شا اور برگسان کی دنیا عجیب دنیا تھی اور ایلی کے لیے یہ دنیا جاہ کے مرکز کے گرد گھومتی تھی۔
پھر جب ایلی واپس اپنے کمرے میں پہنچتا تو چھن سے شہزاد آسن جما کر سامنے آ کھڑی ہوتی۔ "کس بات پر بگڑے ہو مہاراج۔" وہ پوچھتی۔ "کب تک مانولزا میں کھوئے رہو گے میری طرف دیکھو مانو لزا میں ہوں میں۔"اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ جھلکتی "دیکھو نا۔ یلدرم نے میرے بارے میں لکھا ہے ماتھے پہ بندی اور آنکھ میں جادو" اس وقت شہزاد کے ماتھے کا تل ٹک سے یوں روشن ہو جاتا جیسے بجلی کا ہنڈا ہو۔ اور آنکھیں ناچتیں اور رسل ولزشا اور فیس فیلڈ از روئے ادب ایک طرف قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے اور پھر چپکے چپکے سے ایک ایک کر کے کمرے سے باہر نکل جاتے اور شہزاد وہاں اکیلی رہ جاتی اور اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی۔ ایک طرف میڈونا کا جمال اس کے گرد ہالہ بنا دیتا اور دوسری جانب ڈائن کا خٰال۔ اس میں وقار بھر دیتا۔ اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ سگ لیلٰی ہو اور وہ دم ہلاتا ہوا ڈائنا کے قدموں میں جا بیٹھتا۔
رازی اور زو
ایک روز جاہ کے کمرے میں کیوپڈ اور سائیکی۔ بولا کڈ آؤٹ، رینس ڈی مائیلو کی تصاویر دیکھنے کے بعد جب ایلی اپنے کمرے میں پیہنچا اور لحاف لے کر لیٹا اور حسب معمول چھن سے شہزاد رو برو آ کھڑی ہوئی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ارے کیا شہزاد کے ناچ میں آواز پیدا ہو گئی۔ وہ اٹھ کر سننے لگا۔ چھن چھن گھنگھرو کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ کوئی واقعی ناچ رہا تھا۔ ایلی ڈر گیا۔ کیا اس کے حواس اس حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔ اس کے تخیل کے ساتھ آواز کا عنصر کیسے شامل ہو گیا تھا۔ یا وہ ناچ کسی متکلم فلم کا ایک ٹکڑا تھا۔
اس زمانے میں متحرک تصاویر نے ایک نیا روپ بدلا تھا۔ انہی دنوں چند ایک ایسی نئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی جو پرانی قسم کی سیریل قسم کی نہ تھیں بلکہ کہانی ایک ہی نشست میں ختم ہو جاتی تھی۔ یہ ایک انوکھی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے فلمی کہانیاں اتنی لمبی ہوتی تھیں کہ ایک کہانی کئی ایک نشستوں میں ختم ہو جاتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی کے صرف تین ایپی سوڈ دکھائے جاتے تھے اور ہر کہانی عموماً پندرہ یا بیس ایپی سوڈ پر مشتمل ہوتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی ختم کرنے کی یہ نئی تحریک فلم دیکھنے والوں کے لیے ایک انوکھی بات تھی۔ اور فلم سازوں نے صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ان مختصر کہانیوں کے ساتھ ایسے ریکارڈ بھیجنا شروع کر دیئے تھے جو کہانی کے مناسب مقامات پر مناسب صوتی اثرات پیدا کرتے تھے۔ مثلاً بن حور فلم میں بحری لڑائیوں کے مناظر کے ساتھ ساتھ توپوں اور طبل جنگ کی آوازیں اور پس منظر موسیقی یہ صوتی کلیاں فلم دیکھنے والوں کے لیے عجیب تھیں۔ انہی دنوں میں جاہ کے ساتھ ایلی نے دو ایک ایسے فلم دیکھے تھے۔ فلم دیکھنے میں جاہ کو دلچسپی تھی لیکن جاہ چونکہ تمام زائد روپوں کی کتابیں اور رسائل خرید کر لیتا تھا اس لیے روز فلم چل رہا ہے اور میرے پاس صرف آٹھ آنے ہیں۔ وہ آٹھ آنے میز سے اٹھا کر کہتا "اگر دیکھنا ہو تو چلو میرے ساتھ۔"
اور وہ دونوں چپکے سے پیلس سینما کی طرف چل پڑتے جو میکلوڈ روڈ کے کونے پر نیا نیا بنا تھا۔ اکثر وہ دونوں بہت لیٹ پہنچتے جب کہ چار آنے والے درجے کی تمام تر سیٹیں بھر چکی ہوتیں۔ اور وہ حسب معمول اندھیرے میں چلتے چلتے ہال کی دوسری دیوار کے قریب پہنچ کر بند دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ اور انٹرول میں جب بتیاں جلی تھیں تو ایلی نے دیکھا کہ چار آنے کے درجے کی تمام سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ اور ہال میں گنڈیریاں بیچنے والے انہیں سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے "ارے" ایلی چلاتا۔ "جاہ سیٹیں تو تمام کی تمام خالی پڑی ہیں۔" "اچھا۔" جاہ بے اعتنائی سے کہا تھا۔ اور پھر اپنے خیال میں کھو جاتا تھا۔ جیسے سیٹوں کا خالی ہونا اور ان کا سیڑھیوں پر بیٹھنا کوئی قابل توجہ یا غور طلب امر نہ ہو۔
"تو چلو وہاں چل بیٹھیں۔" ایلی نے کہا تھا اور اس نے منہ بنا کر شانے جھٹک دیئے تھے اور جوں کا توں بیٹھا رہا تھا۔
ہاں تو اس روز اپنے کمرے میں گھنگھروؤں کی آواز سن کر ایلی چونک پڑا اس نے محسوس کیا جیسے فلم کی طرح اس کے تخیل کے ساتھ بھی کوئی ایسا ریکارڈ چل رہ اہے۔ لیکن بورڈنگ میں گھنگھرو۔۔۔ وہ اٹھ بیٹھا اپنے کیوبیکل کا دروازہ کھولا۔ باہر ہوسٹل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ لیکن گھنگھروؤں کی آواز وضاحت سے سنائی دے رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی سریلا مگر مدھم ساز بج رہا تھا۔ دیر تک وہ کھڑا اس آواز کو سنتا رہا اور پھر اس کے کھوج میں چل پڑا۔
آواز کونے کے کمرے سے آ رہی تھی۔ وہ کونے کے کمرے کے قریب کھڑا ہوا اور باہر کھڑا آواز سنتا رہا۔ اس کا جی تو چاہتا تھا کہ دروازے کے شیشے سے جھانک کر اندر دیکھے یا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہو جائے مگر اس میں ہمت نہ پڑی۔ اس لیے وہ وہیں بت بنا کھڑا رہا۔ وہ ساز کس قدر سریلا تھا اور دھن کس قدر جاذب پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ گھنگھرو۔
دفعتاً کمرے کا دروازہ کھلا کوئی شخص باہر نکلا۔
"کون ہو تم۔" وہ بولا۔
"میں میں۔" ایلی گھبرا گیا۔ "میرا نام الیاس ہے۔"
"اوہ" نووارد نے ماچس جلائی۔
روشنی میں ایلی نے اس کا چہرہ دیکھا اور سہم گیا۔ اس کا چہرہ کچھ ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے حبشی ہو۔
"یہیں کے ہو نا ہوسٹل کے۔"
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔ "لو بھئی پھر اندر کیوں نہیں آجاتے۔ چلو۔" وہ ایلی کو گھورنے لگا۔ اس کا قہقہہ سن کر ساز اور گھنگھرو بجنا بند ہو گئے۔ "کون ہے بھئی ذو۔" اندر سے آواز سنائی دی۔ ذو نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
"لڑکا ہے بورڈنگ کا۔" وہ بولا۔ "باہر کھڑا سن رہا ہے۔"
"کون ہے۔" پھر آواز آئی۔
ایلی مجرموں کی طرح کمرے میں جھانکنے لگا۔
"جی میں ہوں الیاس۔" وہ بولا۔
"تمہیں دیکھا نہیں کبھی میاں۔" اس نے پوچھا۔
"جی میرا نمبر سترہ ہے۔"
"سترہ۔" وہ ہنسنے لگا۔ "یہ ساتھ والا کمرہ۔"
"جی ہاں۔" الیاس بولا "یہ ساتھ والا چھوڑ کر دو سرا۔"
"اچھا" اس نے حیرانی سے کہا۔
"ارے یہ جاہ کے ساتھ پھرا کرتا ہے۔" ذو بولا۔
"تم چپ رہو جی۔" اندر والے نے پھر ذو کو ڈانٹا۔ "آجاؤ بیٹھ جاؤ۔ لیکن اب بات بتا دو میاں میاں کے سی آئی ڈی تو نہیں ہو۔"
"میاں میاں کے سی آئی ڈی۔" ایلی نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا "میں نہیں سمجھا۔"
"پھر ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔" اندر والے نے کہا "بیٹھ جاؤ۔" اور ایلی چپ چاپ کمرے میں بیٹھ گیا۔
"میرا نام رازی ہے۔" وہ بولا " اور یہ حضرت ذو ہیں۔"
رازی ایک دبلا پتلا خوبصورت لڑکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی جاذبیت تھی پیشانی فراغ تھی اور خدوخال نہایت موزوں اور تیکھے تھے اس کے سامنے ایک پاؤں کا ہارمونیم رکھا ہوا تھا۔ اور سامنے کونے میں بچھے ہوئے کمبل پر طبلوں کی جوڑی پڑی تھی۔
ایلی نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا لیکن کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ ایلی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ طبلہ اور ہارمونیم تو ٹھیک تھے لیکن وہ رقص وہ رقاصہ کیا ہوائی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ اسی لیے جھجھک رہا تھا کہ نہ جانے اندر کون ہے اور اب اندر داخل ہونے کے بعد اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
رازی نے اطمینان سے باجہ بجانا شروع کر دیا تھا۔ وہ بڑی پیاری دھن بجا رہا تھا ذو طبلے کی جوڑی کے قریب کمبل پر چادر میں لپٹا ہوا جھول رہا تھا جیسے حال کھیل رہا ہو۔
چھن۔۔۔ دفعتاً گھنگھرو بجا۔ ارے ایلی کے دل سے گویا ایک چیخ سی نکل گئی۔ "یہ آواز کہاں سے آئی۔" چھن چھنا چھن۔ گھنگھرو پھر بجے۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ لیکن وہاں رازی اور ذو کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ "شاید اسے چارپارئی تلے چھپا رکھا ہے۔" ایلی نے سوچا۔ "لیکن چارپائی تلے ناچنا کیسے ممکن ہے۔"
دفعتاً ذو نے گویا ایک چنگاڑ ماری۔ علی اور چادر پرے پھینک کر وہ طبلے کی جوڑی پر پل پڑا۔ دھا گدی گھنا دھا گدی گھنا دھا۔
ارے وہ چونکا۔ چھن چھنا نا نا چھن چھنا نا نا چھن رقاصہ گویا چارپائی تلے سے نکل کر میدان میں آگئی۔
"شاباش بیٹا۔" رازی ذو کی طرف دیکھ کر چلایا۔ کمرے میں موسیقی کی لہروں کا ایک طوفان امڈ آیا اور ایلی کے رہے سہے حواس بھی معطل ہو گئے۔
جی کے اور ایم کے
ذو اور رازی سے متعارف ہونے کے بعد ایلی کی زندگی میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ سارا دن وہ جاہ کے کمرے میں رسائل اور کتابوں کے صفحات پلٹتا رہتا یا جاہ کے لیکچر سنتا یا شام کے وقت وہ دونوں سینما ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر فلم دیکھتے اور رات کے وقت چپکے سے رازی کے کمرے میں جا پہنچتا اور وہاں بیٹھ کر گانا سنتا رہتا۔
یہ مشاغل اسے اس لیے پسند تھے کہ ان میں مصروف ہوکر وہ شہزاد کی دسترس سے دور ہو جاتا تھا یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ مشاغل شہزاد کو اس کے سامنے لا کھڑا کرتے تھے۔
جاہ کے کمرے میں رسائل کو دیکھتے ہوئے اس کی نگاہ کسی نہ کسی ایسے مشہور عمل پر پڑ جاتی جسے دیکھتے ہوئے انجانے میں شہزاد کےساتھ مناسبت کے اجرتی مونا لزا کو دیکھتا تو اس کے ہونٹوں کے کونوں میں شہزاد مسکراتی وینس کو دیکھ کر شہزاد کے جسم کے پیچ و خم ابھرتے۔ کیوپڈ اینڈ سائیکی کو دیکھ کر وہ محسوس کرتا جیسے شہزاد اپنی شریر آنکھیں موند کر بیٹھ گئی ہو۔ اور رازی کے کمرے پہنچ کر اسے محسوس ہوتا جیسے دھن کے ساتھ شہزاد ناچ رہی ہو۔
ان کے علاوہ اس کے دو نئے دوست بنے تھے ناک ہی ناک اور جلتی آنکھیں۔ ناک ہی ناک مشن کالج کا طالبعلم تھا۔ جو ان دنوں ایم اے ریاضی میں تعلیم پاتا تھا۔ ایلی کو اس سے جاہ نے متعارف کیا تھا۔ ایک روز جب وہ دونوں ورلڈ گریٹ پینٹنگنز کا نیا شمارہ دیکھنے میں شدت سے مصروف تھا۔ تو ایلی نے کہا۔
"یہ تصویر تو فریم کرنے کے قابل ہے۔"
اس پر جاہ بولا "ہاں ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے۔" اور پھر وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔
اس روز شام کو سینما جانے کی بجائے وہ دونوں مشن کالج کے بورڈنگ میں جا پہنچے۔ اندر جا کر جاہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جہاں ایک دبلا پتلا لڑکا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا۔ "یہ جی کے ہے۔" جاہ نے کہا "اور یہ ہمارے دوست الیاس صاحب ہیں۔" یہ کہہ کر وہ الیاس صاحب کی موجودگی کو قطعی طور پر بھول گیا۔ "ہم اس لیے آئے ہیں۔" جاہ بات کرتے ہوئے رک گیا۔ "دراصل میں سوچ رہا تھا کہ جو ورلڈ گریٹ پینٹنگز جریدے کی شکل میں آ رہی ہیں آج کل تم نے تو دیکھی ہی نہیں وہ۔"
"نہیں تو۔" جی کے جواب دیا۔
"میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم انہیں فریم کرلیں تو کیسا رہے گا۔ بازار سے تو بات نہ بنے گی۔ خود کیوں نہ فریم بنائیں۔"
"ٹھہرو۔" جی کے نے گویا اپنی تمام تر توجہ ناک پر مرکوز کر دی۔ اس کی ناک لمبی اور چونچ دار تھی۔ انداز میں بلا کی پھرتی تھی اور ذہانت میں تیزی تھی۔
جی کے قاعدے اور اصول کا آدمی تھا۔ وہ قاعدوں اور اصول میں سوچتا تھا۔ خشک اور کوری دلیلیں دینے کا عادی تھا۔ دوسروں کو خشک اصولوں پر پرکھنے کا متوالہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں بنیادی طور پر حزن و ملال کی گہرائی جھلکتی تھی۔ چہرے سے غم خوری ٹپکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر خوشی اور انبساط کے شدید لمحات طاری کر سکتا تھا۔ اور اپنی بے پناہ ذہانت کے بل بوتے پر نہایت چمکیلی اور جاذب توجہ باتیں کرنے کا اہل تھا۔
"ٹھہرو۔" کہہ کر جی کے یوں سوچ میں پڑ گیا جیسے کوئی بیوپاری لین دین کے حساب میں کھو گیا ہو۔ دیر تک اپنی ناک کو گھورتا رہا اور پھر سر اٹھا کر کہنے لگا۔ "ہاں چلے گا ضرور چلے گا۔ نو من تیل کے بغیر رادھا ناچے گی۔"
"اچھا" جاہ نے بچوں کی طرح تالی بجائی "کیسے۔"
"سانچہ ہم خود بنا لیں گے۔" وہ بولا۔ "آری مل جائے گی۔ بس فریم کی لکڑی شیشہ اور کیل خریدنے پڑیں گے۔"
"اگر کچھ خریدے بغیر فریم بنا سکیں ہم تو بہتر نہ ہوگا۔" جاہ نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جی کے کی ناک اور بھی کچھ لمبی ہو گئیں۔
"چلو یہ دھندا ابھی طے ہو جائے۔" جاہ اٹھ بیٹھا اور وہ تینوں انارکلی کی طرف چل پڑے۔ جب وہ واپس آئے تو جی کے کے کمرے سے باہر برآمدے میں ایک لڑکا بیٹھا تنہا شطرنج کھیل رہا تھا۔
"ارے۔" جی کے چلایا۔ "اپنے آپ ہی کھیل رہے ہو۔"
"تمہیں اعتراض ہے کیا۔" وہ چمک کر بولا۔
"ہم نے تو سنا تھا میاں۔" جاہ نے کہا "کہ یہ کھیل دو کے بغیر نہیں کھیلا جاتا۔"
"سنی سنائی بات کا کیا بھروسہ۔" لڑکا بولا۔
"یہ میرا دوست ایم کے ہے۔" جی کے نے ایلی سے کہا "بڑے معرکے کا آدمی ہے۔" دو کا کھیل اکیلا کھیلتا ہے۔ اکیلے کے کھیل کے لیے ساتھی ڈھونڈتا ہے۔" جی کے ہنسنے لگا۔
ایلی نے ایم کے کی طرف دیکھا وہ ایک اونچا دبلا پتلا نوجوان تھا اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ گویا ثبت ہو چکی تھی اور اس کی آنکھیں شرارت سے ابل رہی تھیں۔ "جو بھی آتا ہے اپنی بے عزتی کرتا ہے۔" ایم کے نے قہقہہ لگایا۔
"تمہیں کیا خطرہ" جی کے نے اپنی ناک کو گھورتے ہوئے کہا "تمہاری بے عزتی کیسے ہو سکتی ہے کوئی عزت ہو تو بے عزتی کا امکان ہوتا۔ لگاؤ یار اس سے کوئی بازی" جی کے نے ایلی اور جاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
"انہوں" جاہ نے انگلیاں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ "اپنے بس کا روگ نہیں۔ اس کھیل کے لیے وقت کہاں سے آئے قانونی طور پر جوانوں کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بوڑھوں کا کھیل ہے۔ جب انسان کو کوئی کام نہ ہو تب۔"
"اور تم کہاں کے جوان ہو۔" ایم کے نے جاہ سے کہا۔
"یہ تو ٹھیک ہے۔" جاہ بولا "جوان تو نہیں لیکن ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔ تم خود کیوں نہیں کھیلتے اس کے ساتھ۔" اس نے جی کے سے پوچھا۔
"اونہوں۔" وہ بولا "مجھ سے تو روز پٹتا ہے۔"
ایم کے نے قہقہہ لگایا اور سر کھجانے لگا "بات توٹھیک ہے۔"
تصویریں
جی کے اور ایم کے سے ملاقات کے بعد ایلی کے مشاغل بڑھ گئے جاہ کی سردمہری سے اکتا کر وہ سیدھا نیوٹن ہال چلا جاتا جہاں وہ دونوں رہتے تھے۔ یا تو ایلی جی کے کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر کے لیے فریم بناتا رہتا اور یا ایم کے کے ساتھ شطرنج کی بازی لگا لیتا۔ اسے ایم کے سے بے حد
پھر جب ایلی واپس اپنے کمرے میں پہنچتا تو چھن سے شہزاد آسن جما کر سامنے آ کھڑی ہوتی۔ "کس بات پر بگڑے ہو مہاراج۔" وہ پوچھتی۔ "کب تک مانولزا میں کھوئے رہو گے میری طرف دیکھو مانو لزا میں ہوں میں۔"اس کے چہرے پر ایک پراسرار مسکراہٹ جھلکتی "دیکھو نا۔ یلدرم نے میرے بارے میں لکھا ہے ماتھے پہ بندی اور آنکھ میں جادو" اس وقت شہزاد کے ماتھے کا تل ٹک سے یوں روشن ہو جاتا جیسے بجلی کا ہنڈا ہو۔ اور آنکھیں ناچتیں اور رسل ولزشا اور فیس فیلڈ از روئے ادب ایک طرف قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے اور پھر چپکے چپکے سے ایک ایک کر کے کمرے سے باہر نکل جاتے اور شہزاد وہاں اکیلی رہ جاتی اور اس کی شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی۔ ایک طرف میڈونا کا جمال اس کے گرد ہالہ بنا دیتا اور دوسری جانب ڈائن کا خٰال۔ اس میں وقار بھر دیتا۔ اور ایلی محسوس کرتا جیسے وہ سگ لیلٰی ہو اور وہ دم ہلاتا ہوا ڈائنا کے قدموں میں جا بیٹھتا۔
رازی اور زو
ایک روز جاہ کے کمرے میں کیوپڈ اور سائیکی۔ بولا کڈ آؤٹ، رینس ڈی مائیلو کی تصاویر دیکھنے کے بعد جب ایلی اپنے کمرے میں پیہنچا اور لحاف لے کر لیٹا اور حسب معمول چھن سے شہزاد رو برو آ کھڑی ہوئی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ارے کیا شہزاد کے ناچ میں آواز پیدا ہو گئی۔ وہ اٹھ کر سننے لگا۔ چھن چھن گھنگھرو کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ کوئی واقعی ناچ رہا تھا۔ ایلی ڈر گیا۔ کیا اس کے حواس اس حد تک مفلوج ہو چکے تھے۔ اس کے تخیل کے ساتھ آواز کا عنصر کیسے شامل ہو گیا تھا۔ یا وہ ناچ کسی متکلم فلم کا ایک ٹکڑا تھا۔
اس زمانے میں متحرک تصاویر نے ایک نیا روپ بدلا تھا۔ انہی دنوں چند ایک ایسی نئی تصاویر کی نمائش ہو رہی تھی جو پرانی قسم کی سیریل قسم کی نہ تھیں بلکہ کہانی ایک ہی نشست میں ختم ہو جاتی تھی۔ یہ ایک انوکھی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے فلمی کہانیاں اتنی لمبی ہوتی تھیں کہ ایک کہانی کئی ایک نشستوں میں ختم ہو جاتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی کے صرف تین ایپی سوڈ دکھائے جاتے تھے اور ہر کہانی عموماً پندرہ یا بیس ایپی سوڈ پر مشتمل ہوتی تھی۔ ایک نشست میں کہانی ختم کرنے کی یہ نئی تحریک فلم دیکھنے والوں کے لیے ایک انوکھی بات تھی۔ اور فلم سازوں نے صرف اسی بات پر اکتفا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے ان مختصر کہانیوں کے ساتھ ایسے ریکارڈ بھیجنا شروع کر دیئے تھے جو کہانی کے مناسب مقامات پر مناسب صوتی اثرات پیدا کرتے تھے۔ مثلاً بن حور فلم میں بحری لڑائیوں کے مناظر کے ساتھ ساتھ توپوں اور طبل جنگ کی آوازیں اور پس منظر موسیقی یہ صوتی کلیاں فلم دیکھنے والوں کے لیے عجیب تھیں۔ انہی دنوں میں جاہ کے ساتھ ایلی نے دو ایک ایسے فلم دیکھے تھے۔ فلم دیکھنے میں جاہ کو دلچسپی تھی لیکن جاہ چونکہ تمام زائد روپوں کی کتابیں اور رسائل خرید کر لیتا تھا اس لیے روز فلم چل رہا ہے اور میرے پاس صرف آٹھ آنے ہیں۔ وہ آٹھ آنے میز سے اٹھا کر کہتا "اگر دیکھنا ہو تو چلو میرے ساتھ۔"
اور وہ دونوں چپکے سے پیلس سینما کی طرف چل پڑتے جو میکلوڈ روڈ کے کونے پر نیا نیا بنا تھا۔ اکثر وہ دونوں بہت لیٹ پہنچتے جب کہ چار آنے والے درجے کی تمام تر سیٹیں بھر چکی ہوتیں۔ اور وہ حسب معمول اندھیرے میں چلتے چلتے ہال کی دوسری دیوار کے قریب پہنچ کر بند دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے تھے۔ اور انٹرول میں جب بتیاں جلی تھیں تو ایلی نے دیکھا کہ چار آنے کے درجے کی تمام سیٹیں خالی پڑی تھیں۔ اور ہال میں گنڈیریاں بیچنے والے انہیں سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے "ارے" ایلی چلاتا۔ "جاہ سیٹیں تو تمام کی تمام خالی پڑی ہیں۔" "اچھا۔" جاہ بے اعتنائی سے کہا تھا۔ اور پھر اپنے خیال میں کھو جاتا تھا۔ جیسے سیٹوں کا خالی ہونا اور ان کا سیڑھیوں پر بیٹھنا کوئی قابل توجہ یا غور طلب امر نہ ہو۔
"تو چلو وہاں چل بیٹھیں۔" ایلی نے کہا تھا اور اس نے منہ بنا کر شانے جھٹک دیئے تھے اور جوں کا توں بیٹھا رہا تھا۔
ہاں تو اس روز اپنے کمرے میں گھنگھروؤں کی آواز سن کر ایلی چونک پڑا اس نے محسوس کیا جیسے فلم کی طرح اس کے تخیل کے ساتھ بھی کوئی ایسا ریکارڈ چل رہ اہے۔ لیکن بورڈنگ میں گھنگھرو۔۔۔ وہ اٹھ بیٹھا اپنے کیوبیکل کا دروازہ کھولا۔ باہر ہوسٹل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ لیکن گھنگھروؤں کی آواز وضاحت سے سنائی دے رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی سریلا مگر مدھم ساز بج رہا تھا۔ دیر تک وہ کھڑا اس آواز کو سنتا رہا اور پھر اس کے کھوج میں چل پڑا۔
آواز کونے کے کمرے سے آ رہی تھی۔ وہ کونے کے کمرے کے قریب کھڑا ہوا اور باہر کھڑا آواز سنتا رہا۔ اس کا جی تو چاہتا تھا کہ دروازے کے شیشے سے جھانک کر اندر دیکھے یا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہو جائے مگر اس میں ہمت نہ پڑی۔ اس لیے وہ وہیں بت بنا کھڑا رہا۔ وہ ساز کس قدر سریلا تھا اور دھن کس قدر جاذب پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ گھنگھرو۔
دفعتاً کمرے کا دروازہ کھلا کوئی شخص باہر نکلا۔
"کون ہو تم۔" وہ بولا۔
"میں میں۔" ایلی گھبرا گیا۔ "میرا نام الیاس ہے۔"
"اوہ" نووارد نے ماچس جلائی۔
روشنی میں ایلی نے اس کا چہرہ دیکھا اور سہم گیا۔ اس کا چہرہ کچھ ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا جیسے حبشی ہو۔
"یہیں کے ہو نا ہوسٹل کے۔"
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
وہ قہقہہ مار کر ہنسا۔ "لو بھئی پھر اندر کیوں نہیں آجاتے۔ چلو۔" وہ ایلی کو گھورنے لگا۔ اس کا قہقہہ سن کر ساز اور گھنگھرو بجنا بند ہو گئے۔ "کون ہے بھئی ذو۔" اندر سے آواز سنائی دی۔ ذو نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
"لڑکا ہے بورڈنگ کا۔" وہ بولا۔ "باہر کھڑا سن رہا ہے۔"
"کون ہے۔" پھر آواز آئی۔
ایلی مجرموں کی طرح کمرے میں جھانکنے لگا۔
"جی میں ہوں الیاس۔" وہ بولا۔
"تمہیں دیکھا نہیں کبھی میاں۔" اس نے پوچھا۔
"جی میرا نمبر سترہ ہے۔"
"سترہ۔" وہ ہنسنے لگا۔ "یہ ساتھ والا کمرہ۔"
"جی ہاں۔" الیاس بولا "یہ ساتھ والا چھوڑ کر دو سرا۔"
"اچھا" اس نے حیرانی سے کہا۔
"ارے یہ جاہ کے ساتھ پھرا کرتا ہے۔" ذو بولا۔
"تم چپ رہو جی۔" اندر والے نے پھر ذو کو ڈانٹا۔ "آجاؤ بیٹھ جاؤ۔ لیکن اب بات بتا دو میاں میاں کے سی آئی ڈی تو نہیں ہو۔"
"میاں میاں کے سی آئی ڈی۔" ایلی نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا "میں نہیں سمجھا۔"
"پھر ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔" اندر والے نے کہا "بیٹھ جاؤ۔" اور ایلی چپ چاپ کمرے میں بیٹھ گیا۔
"میرا نام رازی ہے۔" وہ بولا " اور یہ حضرت ذو ہیں۔"
رازی ایک دبلا پتلا خوبصورت لڑکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی جاذبیت تھی پیشانی فراغ تھی اور خدوخال نہایت موزوں اور تیکھے تھے اس کے سامنے ایک پاؤں کا ہارمونیم رکھا ہوا تھا۔ اور سامنے کونے میں بچھے ہوئے کمبل پر طبلوں کی جوڑی پڑی تھی۔
ایلی نے حیرت سے چاروں طرف دیکھا لیکن کمرے میں ان دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔ ایلی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ طبلہ اور ہارمونیم تو ٹھیک تھے لیکن وہ رقص وہ رقاصہ کیا ہوائی۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ اسی لیے جھجھک رہا تھا کہ نہ جانے اندر کون ہے اور اب اندر داخل ہونے کے بعد اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
رازی نے اطمینان سے باجہ بجانا شروع کر دیا تھا۔ وہ بڑی پیاری دھن بجا رہا تھا ذو طبلے کی جوڑی کے قریب کمبل پر چادر میں لپٹا ہوا جھول رہا تھا جیسے حال کھیل رہا ہو۔
چھن۔۔۔ دفعتاً گھنگھرو بجا۔ ارے ایلی کے دل سے گویا ایک چیخ سی نکل گئی۔ "یہ آواز کہاں سے آئی۔" چھن چھنا چھن۔ گھنگھرو پھر بجے۔ اس نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ لیکن وہاں رازی اور ذو کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔ "شاید اسے چارپارئی تلے چھپا رکھا ہے۔" ایلی نے سوچا۔ "لیکن چارپائی تلے ناچنا کیسے ممکن ہے۔"
دفعتاً ذو نے گویا ایک چنگاڑ ماری۔ علی اور چادر پرے پھینک کر وہ طبلے کی جوڑی پر پل پڑا۔ دھا گدی گھنا دھا گدی گھنا دھا۔
ارے وہ چونکا۔ چھن چھنا نا نا چھن چھنا نا نا چھن رقاصہ گویا چارپائی تلے سے نکل کر میدان میں آگئی۔
"شاباش بیٹا۔" رازی ذو کی طرف دیکھ کر چلایا۔ کمرے میں موسیقی کی لہروں کا ایک طوفان امڈ آیا اور ایلی کے رہے سہے حواس بھی معطل ہو گئے۔
جی کے اور ایم کے
ذو اور رازی سے متعارف ہونے کے بعد ایلی کی زندگی میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ سارا دن وہ جاہ کے کمرے میں رسائل اور کتابوں کے صفحات پلٹتا رہتا یا جاہ کے لیکچر سنتا یا شام کے وقت وہ دونوں سینما ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر فلم دیکھتے اور رات کے وقت چپکے سے رازی کے کمرے میں جا پہنچتا اور وہاں بیٹھ کر گانا سنتا رہتا۔
یہ مشاغل اسے اس لیے پسند تھے کہ ان میں مصروف ہوکر وہ شہزاد کی دسترس سے دور ہو جاتا تھا یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ مشاغل شہزاد کو اس کے سامنے لا کھڑا کرتے تھے۔
جاہ کے کمرے میں رسائل کو دیکھتے ہوئے اس کی نگاہ کسی نہ کسی ایسے مشہور عمل پر پڑ جاتی جسے دیکھتے ہوئے انجانے میں شہزاد کےساتھ مناسبت کے اجرتی مونا لزا کو دیکھتا تو اس کے ہونٹوں کے کونوں میں شہزاد مسکراتی وینس کو دیکھ کر شہزاد کے جسم کے پیچ و خم ابھرتے۔ کیوپڈ اینڈ سائیکی کو دیکھ کر وہ محسوس کرتا جیسے شہزاد اپنی شریر آنکھیں موند کر بیٹھ گئی ہو۔ اور رازی کے کمرے پہنچ کر اسے محسوس ہوتا جیسے دھن کے ساتھ شہزاد ناچ رہی ہو۔
ان کے علاوہ اس کے دو نئے دوست بنے تھے ناک ہی ناک اور جلتی آنکھیں۔ ناک ہی ناک مشن کالج کا طالبعلم تھا۔ جو ان دنوں ایم اے ریاضی میں تعلیم پاتا تھا۔ ایلی کو اس سے جاہ نے متعارف کیا تھا۔ ایک روز جب وہ دونوں ورلڈ گریٹ پینٹنگنز کا نیا شمارہ دیکھنے میں شدت سے مصروف تھا۔ تو ایلی نے کہا۔
"یہ تصویر تو فریم کرنے کے قابل ہے۔"
اس پر جاہ بولا "ہاں ہو سکتا ہے ہو سکتا ہے۔" اور پھر وہ گہری سوچ میں پڑ گیا۔
اس روز شام کو سینما جانے کی بجائے وہ دونوں مشن کالج کے بورڈنگ میں جا پہنچے۔ اندر جا کر جاہ اسے ایک کمرے میں لے گیا جہاں ایک دبلا پتلا لڑکا مطالعہ کرنے میں مصروف تھا۔ "یہ جی کے ہے۔" جاہ نے کہا "اور یہ ہمارے دوست الیاس صاحب ہیں۔" یہ کہہ کر وہ الیاس صاحب کی موجودگی کو قطعی طور پر بھول گیا۔ "ہم اس لیے آئے ہیں۔" جاہ بات کرتے ہوئے رک گیا۔ "دراصل میں سوچ رہا تھا کہ جو ورلڈ گریٹ پینٹنگز جریدے کی شکل میں آ رہی ہیں آج کل تم نے تو دیکھی ہی نہیں وہ۔"
"نہیں تو۔" جی کے جواب دیا۔
"میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہم انہیں فریم کرلیں تو کیسا رہے گا۔ بازار سے تو بات نہ بنے گی۔ خود کیوں نہ فریم بنائیں۔"
"ٹھہرو۔" جی کے نے گویا اپنی تمام تر توجہ ناک پر مرکوز کر دی۔ اس کی ناک لمبی اور چونچ دار تھی۔ انداز میں بلا کی پھرتی تھی اور ذہانت میں تیزی تھی۔
جی کے قاعدے اور اصول کا آدمی تھا۔ وہ قاعدوں اور اصول میں سوچتا تھا۔ خشک اور کوری دلیلیں دینے کا عادی تھا۔ دوسروں کو خشک اصولوں پر پرکھنے کا متوالہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں بنیادی طور پر حزن و ملال کی گہرائی جھلکتی تھی۔ چہرے سے غم خوری ٹپکتی تھی لیکن وہ اپنے آپ پر خوشی اور انبساط کے شدید لمحات طاری کر سکتا تھا۔ اور اپنی بے پناہ ذہانت کے بل بوتے پر نہایت چمکیلی اور جاذب توجہ باتیں کرنے کا اہل تھا۔
"ٹھہرو۔" کہہ کر جی کے یوں سوچ میں پڑ گیا جیسے کوئی بیوپاری لین دین کے حساب میں کھو گیا ہو۔ دیر تک اپنی ناک کو گھورتا رہا اور پھر سر اٹھا کر کہنے لگا۔ "ہاں چلے گا ضرور چلے گا۔ نو من تیل کے بغیر رادھا ناچے گی۔"
"اچھا" جاہ نے بچوں کی طرح تالی بجائی "کیسے۔"
"سانچہ ہم خود بنا لیں گے۔" وہ بولا۔ "آری مل جائے گی۔ بس فریم کی لکڑی شیشہ اور کیل خریدنے پڑیں گے۔"
"اگر کچھ خریدے بغیر فریم بنا سکیں ہم تو بہتر نہ ہوگا۔" جاہ نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جی کے کی ناک اور بھی کچھ لمبی ہو گئیں۔
"چلو یہ دھندا ابھی طے ہو جائے۔" جاہ اٹھ بیٹھا اور وہ تینوں انارکلی کی طرف چل پڑے۔ جب وہ واپس آئے تو جی کے کے کمرے سے باہر برآمدے میں ایک لڑکا بیٹھا تنہا شطرنج کھیل رہا تھا۔
"ارے۔" جی کے چلایا۔ "اپنے آپ ہی کھیل رہے ہو۔"
"تمہیں اعتراض ہے کیا۔" وہ چمک کر بولا۔
"ہم نے تو سنا تھا میاں۔" جاہ نے کہا "کہ یہ کھیل دو کے بغیر نہیں کھیلا جاتا۔"
"سنی سنائی بات کا کیا بھروسہ۔" لڑکا بولا۔
"یہ میرا دوست ایم کے ہے۔" جی کے نے ایلی سے کہا "بڑے معرکے کا آدمی ہے۔" دو کا کھیل اکیلا کھیلتا ہے۔ اکیلے کے کھیل کے لیے ساتھی ڈھونڈتا ہے۔" جی کے ہنسنے لگا۔
ایلی نے ایم کے کی طرف دیکھا وہ ایک اونچا دبلا پتلا نوجوان تھا اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ گویا ثبت ہو چکی تھی اور اس کی آنکھیں شرارت سے ابل رہی تھیں۔ "جو بھی آتا ہے اپنی بے عزتی کرتا ہے۔" ایم کے نے قہقہہ لگایا۔
"تمہیں کیا خطرہ" جی کے نے اپنی ناک کو گھورتے ہوئے کہا "تمہاری بے عزتی کیسے ہو سکتی ہے کوئی عزت ہو تو بے عزتی کا امکان ہوتا۔ لگاؤ یار اس سے کوئی بازی" جی کے نے ایلی اور جاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
"انہوں" جاہ نے انگلیاں ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ "اپنے بس کا روگ نہیں۔ اس کھیل کے لیے وقت کہاں سے آئے قانونی طور پر جوانوں کو یہ کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ بوڑھوں کا کھیل ہے۔ جب انسان کو کوئی کام نہ ہو تب۔"
"اور تم کہاں کے جوان ہو۔" ایم کے نے جاہ سے کہا۔
"یہ تو ٹھیک ہے۔" جاہ بولا "جوان تو نہیں لیکن ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔ تم خود کیوں نہیں کھیلتے اس کے ساتھ۔" اس نے جی کے سے پوچھا۔
"اونہوں۔" وہ بولا "مجھ سے تو روز پٹتا ہے۔"
ایم کے نے قہقہہ لگایا اور سر کھجانے لگا "بات توٹھیک ہے۔"
تصویریں
جی کے اور ایم کے سے ملاقات کے بعد ایلی کے مشاغل بڑھ گئے جاہ کی سردمہری سے اکتا کر وہ سیدھا نیوٹن ہال چلا جاتا جہاں وہ دونوں رہتے تھے۔ یا تو ایلی جی کے کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر کے لیے فریم بناتا رہتا اور یا ایم کے کے ساتھ شطرنج کی بازی لگا لیتا۔ اسے ایم کے سے بے حد