علی پور کا ایلی(420 - 425)

قیصرانی

لائبریرین
ہوتی گئیں۔ بند بند جوش سے تھرکنے لگا۔ اور وہ بھول گیا کہ وہ ایلی ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ ایسے حالات میں مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیئے اور مرد وہ ہوتا ہے جس میں وحشت او ربربریت ہو۔ وحشت اور بربریت عورتوں کو محبوب ہوتی ہے۔
دروازہ کھلا۔ شہزاد اندر داخل ہوئی۔
ایلی بجلی کی سی تیزی سے اپنی جگہ سے نکلا اور لپک کر اندر سے کنڈی لگا دی۔ شہزاد نے ڈر کر ایک ہلکی سی چیخ ماری۔
کنڈی لگانے کے بعد وہ شہزاد کے روبرو کھڑا ہو گیا۔
ایک ساعت کے لیے وہ گھبرا گئی مگر اسے پہچان کر مطمئن ہو کر بولیَ "تم یہاں۔"
ایلی کی خاموشی اور وحشت بھرے انداز کو دیکھ کر وہ از سر نو گھبرا گئی۔ "یہ سب کیا ہو رہا ہے۔" وہ بولی "تمہیں کیا ہو گیا ہے۔"
ایلی جواب دیئے بغیر اس کی طرف بڑھا۔
"پاگل ہو گئے ہو کیا؟۔" وہ زیر لب چلائی۔
وہ سمجھتی تھی کہ ایلی اس پر حملہ کرنے والا ہے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ دراصل وہ اپنی شدید کمتری کی خفت کو مٹانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور اپنا روپ چھپانے کے لئے اس نے شیر کی کھال پہننے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے۔
"خدا کے لئے۔۔۔" وہ چلائی۔ "ہٹ جاؤ۔ یہ کیا دیوانگی ہے۔"
وہ چپ چاپ آگے بڑھتا گیا۔
"ضرور تم پاگل ہو گئے ہو" وہ بولی۔ "تم اپنے حواس میں نہیں ہو۔"
"ہاں۔۔۔" ایلی نے بھیانک آواز میں جواب دیا۔۔۔ "نہیں ہوں۔"
"ایلی۔ کوئی سن لے گا۔ دیکھ لے گا۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔ پاگل نہ بنو۔"
ایک رنگین دھندلکا ایلی کے قریب تر آتا گیا۔ اور قریب اور قریب۔ اور وہ دیوانہ وار اس کی طرف بڑھتا گیا۔ اس کے ہونٹ شہزاد کا خون چوسنے کے لئے جونک کی طرح آگے بڑھے۔ ہاتھ بازو منہ سر جسم، وہ دیوانہ وار اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چومنے لگا۔ پہلے تو شہزاد نے اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ پھر وہ تھک ہار کر ایک لاش کی طرح میز پر گر پڑی۔ بھیانک خاموشی طاری ہو گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کی وحشت ختم ہوتی جا رہی ہو۔ اس نے دیوانہ وار بھٹی میں نیا ایندھن دھکیلنے کی کوشش کی۔
"چرار۔۔۔ چرار۔۔۔" ریشمیں کپڑے کے پھٹنے کی آواز آئی۔
"ایلی۔ پاگل نہ بنو۔" ایک بار پھر مرمریں جسم میں حرکت ہوئی۔ "پاگل نہ بنو۔"
مدھم آواز میں مبہم سا احتجاج دیکھ کر وہ اور بھی بپھر گیا۔
دھپ۔۔۔ ایک ہوائی سی چھوٹ گئی۔ اور معاً گردوپیش تاریک ہو گئے۔
اس نے محسوس کیا جیسے وہ ڈوب گیا ہو۔ چاروں طرف اندھیرا تھا۔ گھور اندھیرا۔ خفت، ناکامی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ خود ساختہ وحشت کا سہارا چھوٹ چکا تھا۔ وہ دیوانگی ختم ہو چکی تھی اور اس کے عقب میں معصیت اور شکست کے منفی احساسات کا ریلا امڈا چلا آ رہا تھا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کے منہ میں گھاس کا تنکا ہو۔ وہی تنکا جو پورس اپنے منہ میں لے کر سکندر کے حضور حاضر ہوا تھا۔
اس نئی خفت کو مٹانے کے لئے ایلی ایک بار پھر آگے بڑھا اور شہزاد کے بند بند کو چومنے لگا۔ اور بالآخر تھک کر بچے کی طرح اس کے قدموں میں گر پڑا:
"مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔ مجھے تم سے۔۔۔"
اپنے پاؤں پر آنسوؤں کے قطرے محسوس کر کے شہزاد اٹھ بیٹھی۔ اور اس کا بازو ایلی کی طرف بڑھا اور اسے تھپکنے لگا۔
اس کیفیت میں کتنا اطمینان تھا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے ماں کا ہاتھ سرزنش کرنے کی بجائے معاف کر دینے کے بعد اسے تھپک رہا ہو۔

فرار
پسپائی
جب وہ واپس گھر پہنچا تو وہ تھکا ہارا محروم و ناکام ایلی تھا۔ چپکے سے چور کی طرح وہ اندر داخل ہوا اور دبے پاؤں چلتا ہوا اپنی چارپائی پر گر گیا۔ اس نے اپنا منہ تکیے میں گاڑ دیا اور مایوسی کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا۔
اگر ایلی اس پہلی کوشش میں کامیاب ہو جاتا تو ممکن ہے کہ اس کی تمام تر زندگی کا رخ ہی بدل جاتا۔ ممکن ہے محبت اور عورت کے متعلق اس کے خیالات از سر نو ترتیب پاتے۔ جذبات میں توازن پیدا ہو جاتا لیکن ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ ایلی کا احساس کمتری اور بھی شدید ہو گیا۔ دل میں جسم کی نفرت اور بھی شدید ہو گئی۔ عورت کا ڈر اس کی روح پر خوفناک پراسرار سائے کی طرح مسلط ہو گیا۔ اور محبت کے تخیل میں چھوٹی روحانیت کی ایک اور کلی لگ گئی۔
نہ جانے کب تک ایلی اسی طرح تکیئے میں منہ گاڑے پڑا رہا۔
وہ سوچ رہا تھا۔ اس پر ثابت ہو چکا تھا کہ اس میں آرزوئیں پوری کرنے کی صلاحیت سرے سے ہی مفقود ہے اب شہزاد کا انتقام اور بھی یقینی ہو چکا ہے۔ اب وہ کس منہ سے شہزاد کے سامنے جا سکتا تھا۔ کس برتے پر اس سے محبت جتا سکتا تھا۔
"نہیں نہیں میں اس کے روبرو نہیں جاؤں گا کبھی نہیں جاؤں گا۔"
"مجھے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں مجھ میں کوئی ایسی خوبی نہیں جو محبت کا حق دار بنا سکے۔میری تمام تر زندگی ہی بیکار ہے۔"
آصف نے لٹھے کی سفید چادر کو منہ سے ہٹا کر ایلی کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ معنی خیز مسکراہٹ جیسے اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہو۔ اسے بلا رہا ہو۔ "آجاؤ ایلی آجاؤ۔"
وہ ڈر کر اٹھ بیٹھا۔ اور گھبرا کر گھر سے باہر نکل گیا۔
اس روز وہ پہلی مرتبہ باہر نکلا تھا۔ اب حالات بدل چکے تھے اس کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ وہ بھاگ جائے کہیں دور بھاگ جائے۔ شہزاد کے چوبارے سے دور اس بیٹھک سے دور جہاں وہ شکست کھا کر منہ میں گھاس پکڑے سکندر کے روبرو حاضر ہوا۔ اور اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔ حضور مجھ سے ایسا سلوک کیا جائے جو بادشاہ بھکاریوں سے کرتے ہیں۔
اسے چوگان سے گزرتے دیکھ کر محلے والیاں چلانے لگیں۔
"کون ایلی ہے بسم اللہ۔"
"شکر ہے تو بھی گھر سے باہر نکلا۔"
"نہ بیٹا۔" ایک بولی "اپنے باپ کے قدموں پر نہ چلنا۔ اسے ہی گھر میں بیٹھے رہنے کی عادت ہے۔"
دوسری بولی "لو ماں تم بھی حد کرتی ہو یہ آج کل کی لڑکیاں تو راہ چلتے کو بلاتی ہیں۔ جادو کر دیتی ہیں اس بیچارے کا کیا دوش ہے، بس پتھر بنا کر چولہے پر رکھ لیتی ہیں۔"
"نہ بیٹا تو نہ پڑنا ان کے فریب میں۔"
"اللہ تعالٰی کا فضل ہے بہن ابھی اس محلے کی لڑکیوں پر اللہ اپنا فضل ہی رکھے۔"
ایلی چوگان سے نکلا ہی تھا کہ سامنے رضا لاٹھی ٹیکتا ہوا آ نکلا۔
"نکل آئے تہہ خانے سے۔" وہ مسکرا کر بولا۔ "کیسے آنے دی ۔ اماں نے گود کے پٹ بند کر لئے کیا۔"
"بکو نہیں۔" وہ بناوٹی غصے میں چلایا۔
"بیٹا کچھ دن اور یونہی اندر رہے تو لاٹھی کےسہارے چلنا پڑے گا۔ تجربے کی بات کر رہا ہوں۔" رضا نے قہقہہ لگایا۔
"شرم تو نہیں آتی تمہیں۔" ایلی نے کھسیانے ہو کر کہا۔
"انہوں۔" رضا چلایا "شرم شروع شروع میں آتی ہے، جب لکڑی اٹھاؤ گے تو شرم نہیں آئے گی۔"
"جا کہاں رہے ہو؟۔" ایلی نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
"ابھی آتا ہوں۔ تمہیں فرصت ہو تو بیٹھنا ذرا دوکان پر۔" رضا بولا۔
رسوائی
رضا کی دوکان تک پہنچے پہنچے کئی ایک لوگ اسے ملے وہ سب درپردہ اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور باتوں ہی باتوں میں سبھی شہزاد کا طعنہ دے رہے تھے۔ اس نے اس روز پہلی دفعہ محسوس کیا کہ وہ راز جو وہ اپنے دل میں چھپائے بیٹھا تھا تمام محلے میں زبان زد خلق ہو چکا تھا۔ اس بات کو محسوس کر کے وہ لرز گیا لیکن اب کیا ہوگا اب تو سب ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ شہزاد کے رو برو نہیں جا سکتا تھا۔ اس خیال پر اس کے دل کو ڈھارس سی ہو گئی۔
کیپ کی کھڑکی کی طرف دیکھ کر اسے ارجمند یاد آگیا جو نہ جانے اس تیل کے کارخانے میں کیسے دن گزار رہا تھا۔ کھڑکی میں کیپ کھڑی نہ جانے کس سے باتیں کر رہی تھی۔ وہ رک گیا اور کیپ کو دیکھنے لگا۔ کیپ نے اسے دیکھتے ہی کھڑکی کے پٹ زناٹے سے بند کر دیئے۔
"اوہ۔" اس نے سوچا۔ "تو بات اس حد تک پہنچ چکی ہے۔"
کنوئیں کے قریب ہی دو منزلہ مکان کے دروازے میں اپنی منگیتر کو کھڑے دیکھ کر ایلی چونکا۔
"جوان ہو گئی ہے پچھلی مرتبہ جب دیکھا تو بچی سی تھی۔ لڑکیاں کتنی جلدی جوان ہو جاتی ہیں۔ رنگ کتنا نکھر گیا ہے اور اعضا میں نم جانے کیا بھر گیا ہے جیسے آٹے میں خمیر اٹھ گیا ہو۔ "ارے۔" وہ تعجب سے چلایا۔ اسے دیکھ لینے کے باوجود ثمرہ اسی طرح بازو اوپر اٹھائے ہوئے کھڑکی میں کھڑی رہی جیسے وہ ایلی کی حیثیت سے منکر ہونے کا اظہار کر رہی ہو۔ اس نے ایلی کی طرف دیکھ کر ناک سکوڑی۔ اس کے ہونٹوں کے کونوں میں طنز دبی ہوئی تھی ایلی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ پھر وہ گویا اکتا گئی۔ اس نے بے پروائی سے مگر بامعنی انداز سے تھوک دیا اور پھر اندر چلی گئی۔
"ہوں۔" ۔۔۔ ایلی نے مسکرانے کی کوشش کی "ہوں تو اب بات یہاں تک آ پہنچی۔"
اگرچہ ایلی نے بار بار چلا کر لوگوں سے کہا تھا کہ منگنی محض ایک بچوں کا کھیل ہے جو اماں نے صرف اس لیے رچایا تھا کہ اس کے دل کا چاؤ پورا ہو جائے۔ اور اعلان کیا تھا کہ وہ وہاں
 
Top