علی پور کا ایلی(366-391)

قیصرانی

لائبریرین
”اچھالڑکو۔“پرنسپل نے بات کارخ بدلا۔”مجھے تم سے سے کچھ کہناہے۔“اس پرچاروں طرف سے لڑکے بھاگ بھاگے آئے اورپرنسپل کے گردجمع ہوگئے۔
”آج تم امتحان سے فارغ ہوکراپنے اپنے گھرجارہے ہو۔تم میں سے کئی لڑکے واپس اس کالج میں نہیں اس کالج میں نہیں آئیں گے اسی لئے میں تم سب سے الوداع کہنے آیاہوں۔“
اس پرسب لڑکوں نے تالیاں بجائیں اورپھرپرنسپل سے مصافحہ کرنے کے لئے قطارمیں کھڑے ہوگئے ۔اس اثناءمیں بنگالی سپرنٹنڈنٹ بھی آگیااوروہ دونوں باری باری لڑکوں سے ہاتھ ملانے لگے۔
دوبھگوڑے
پرنسپل کے جانے کے بعدبنگالی بابوکے کہنے کے مطابق وہ سب اپنابستربوریاباندھے لگے اورپھرباری باری تانگوں میں بیٹھ کررخصت ہونے لگے۔ایلی کوبسترباندھتے دیکھ کرآصف نہیں چپکے سے اس کاہاتھ پکڑلیا۔
”ایلی۔“اس کی آوازمیںمنت تھی۔”تم چلے گئے تومیں کیاکروں گا۔ایلی۔“
ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
”ا ب تومجھے جاناہی ہوگا۔“وہ بولا۔
”کیوں یہاں رہنے میںکیاحرج ہے۔تمہاری تسلیم بھی تویہیں ہے۔“
”میری تسلیم۔“ایلی چونکالیکن جلد ہی سنبھل کربولا”ہاں وہ۔“
”تم پھرتم کیوں علی پورجاتے ہوفضول۔یہیں رہوایلی میرے ساتھ۔یہاں سے نوربے شبھ لگن ہے مہرہے سبھی تویہاں ہیں۔یہیں رہومیری خاطر۔ایلی۔“
”لیکن یہاں رہیں گے کہاں۔تمہارے گھرمیں؟“
”نئیں نئیں۔“وہ چلایا”گھرمیں میںکیسے جاسکتاہوں۔“
”توپھر۔“ایلی نے پوچھا۔
”ہم یہاں کوئی مکان کرائے پرلے لیں گے۔“آصف نے جواب دیا۔
ایلی امرتسرمیں رہنانہ چاہتاتھا۔اسے آصف اورسفینہ کی کہانی میں قطعی دلچسپی نہ تھی۔دلچسپی ہوتی بھی کیسے۔اگرآصف لڑکی میں اثباتی دلچسپی محسوس کرتا۔اگروہ اسے ملنے کے منصوبے باندھتا۔اگروہ خطوط لکھنے اوروہاں تک پہنچانے کی ترکیبیں سوچنے کے فکرمیں گھلتااورایلی سے ان امورمیں مددچاہتا۔توشایدایلی کواس رومان میں دلچسپی محسوس ہوتی۔سفینہ سے بچنے کی ترکیبیں سوچنے میں ایلی کوکوئی دلچسپی نہ تھی۔لیکن آصف سے انکارکرنابھی توممکن نہ تھااورویسے بھی شہزادکی کشش کے باوجودان حنائی ناگوں کے سحرکے باوجودوہ علی پورجانے سے ڈرتاتھا۔وہ شہزادکے قرب سے ڈرتاتھااوران لٹکتی ہوئی گوری بانہوں سے ڈرتاتھا۔جن میں الجھنے کی زبردست آرزواس کے سینے میں سلگ رہی تھی۔
درحقیت اس وقت وہ دونو ں آصف اورایلی ”بھگوڑے “تھے اوران کاوہ انوکھافراران الجھنوں کاحامل
تھاجو بندھنوں کی پیداوارہوتی ہیں۔وہ دونوں زندگی سے دوربھاگ رہے تھے۔
انسان کی بنیادی خواہشات سے منکرتھے اورزندگی کے دھارے سے ہٹ کرکنارے کے بنداورمتعفن پانیوں کے بھنورمیں ڈبکیاں کھارہے تھے۔وہ بھگوڑے دراصل مریض تھے۔جنہیں یہ احساس نہ تھاکہ وہ کیاکررہے ہیں جنہیں شعورنہ تھاکہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کاگلاگھونٹ رہے ہیں اورمستقبل کوتباہ کرےہ رہے ہیں۔زندگی کے ہاتھی کوٹٹولنے والے دواندھے۔
وہ چوبارہ جوانہیں رہنے کے لئے کرائے پرملا۔ایک چھوٹی سی گلی میں واقع تھاجوہال بازارسے نکل کررام باغ کے بازارمیں جاملتی تھی۔اس گلی کی نچلی منزل میں تمام تردوکانیں تھیں جوسرشام ہی بندہوجاتی تھیں۔اوپرکی منزل میں زیادہ ترگودام تھے جودن رات بندرہتے اس وجہ سے گلی ویران اورسنسان رہتی۔لیکن ان کے چوبارے کے جنگلے کی کھڑکیوں کے عین مقابل میں ایک نوجوان رقاصہ کی بیٹھک کاپچھلاحصہ تھا۔بیٹھک کی کھڑکیاں رام باغ کے بازارمیں کھلتی تھیں۔صدردووازبھی اسی بازارمیں تھامگر--پچھلے حصے کی کھڑکیاں اس چوبارے کے مقابل کھلتی تھیں۔
اس چوبارے میں دونوں بے سروسامان حالت میں جابیٹھے ۔ان کی پاس ایک ٹوٹے ہوئے ٹرنک اوردوبستروں کے سواکچھ نہ تھا۔کھڑکیوں کے پاس انہوں نے زمین پربستربچھائے اورموم بتیوں کاپیکٹ دیاسلائی سگریٹ سرہانے رکھ کردونوں بیٹھ گئے۔چندایک منٹ کے لئے وہ اجنبی ماحول کے متعلق باتیں کرتے رہے پھرخاموش ہوگئے۔خاموش گہری ہوتی گئی اورگلی کی ویرانی اوراس کے عقب میں بازارکادبادباشورخوفناک صورت اختیارکرتے گئے۔حتیٰ کہ رات کے اندھیرے نے اسے اوربھی بھیانک بنادیا۔
”ایلی۔“آصف نے لمبی آہ بھری۔
”ہاں۔“
”اب کیاہوگا؟“‘
”کیوں؟“ایلی نے پوچھا۔
”اب میں کیاکروں گا؟کیسے گھرجاوں گا؟“
”تم توخواہ مخواہ ڈرتے ہو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”توکیاگھرچلاجاوں۔“آصف نے پوچھا۔
”تمہارااپناگھرہے۔“ایلی بولا۔
”لیکن محلے والے کیاکہیں گے۔“
”پڑے کہیں تم کوئی جرم کیاہے کیا۔“ایلی نے چمک کرکہا۔
”لیکن میں اس سے نجاب کیسے پاوں گا۔“
”نجات پانے کی ضرورت ہی کیاہے۔دیکھتی ہے توپڑی دیکھے۔تمہاراکیالیتی ہے۔تمہاراکیابگڑتاہے۔“
”سچ “آصف اٹھ کربٹیھ گیا۔
”اورکیا“ایلی نے تن کرکہا۔
”اوراگروہ آوازے کسے تو؟“
”توکیاکسنے دو؟“
”مگراس کاانجام کیاہوگا؟“
”انجام اچھاچاہتے ہوتواس پرظاہرکروکہ تمہیں اس نے محبت ہے۔“
”لیکن کیسے ظاہرکروں۔“
”تم اس کی طرف دیکھو۔“
”بس اتنی سی بات ہے۔“آصف نے مسکراکرپوچھا۔
”اورکیاوہ مطمئن ہوجائے گی اورتمہیں تنگ نہ کرے گی۔“ایلی نے وثوق سے کہا۔
”سچ ۔میں نے کبھی نہیں سوچاتھا۔“
”اس کے بعدآصف خاموش ہوجاتااورکسی گہرے خیال میں کھوجاتااوردیرتک وہ دونوں چپ چاپ لیٹے رہتے۔پھردفعتاً آصف چونکتا۔
”مگرایلی“آصف مدھم آوازمیں کہتاجیسے اپنے آپ سے کہہ رہاہو۔”اس طرح توبات بڑھ جائے گی۔“
”ہاں بات توبڑھ جائے گی۔“
”توپھرکیاہوگا؟“
”توپھر--“ایلی سوچ میں پڑجاتا۔
”اگلے روزصبح سویرے ہی آصف نے ایلی کوجگایا۔
”ایلی ایلی۔“اس نے اسے جھنجھوڑا۔ایلی کے بیدارہونے پروہ مسکرانے لگااس کی آنکھوں میں عجیب سی پھوارپڑرہی تھی۔”ایلی۔“وہ چلایا۔“چلومیں تمہیں دکھاوں ۔چلواوپرکوٹھے پر۔“
”اوپر“ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں “وہ بولا۔وہ کوٹھے پرکھڑی ہے۔“
”وہ --؟یہاں کوٹھے پر۔“
”اپنے گھرکے کوٹھے پریہاں سے صاف نظرآتاہے۔آومیں تمہیں دکھاوں۔“
”لیکن وہ کون۔“ایلی کوکچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔
”بھئی وہی۔آونا۔“
”وہی تمہارے والی سفینہ ۔“
”ہاںہاں وہی۔کوٹھے سے صاف دکھائی دیتی ہے۔اپنے گھرکی چھت پرکھڑی ہے۔“
لیکن تمہارامحلہ تودورہے یہاں سے ۔“
”نہیںتواس چوبارے کے عین پچھواڑے میں ہے۔یہ ہال بازارکے پیچھے اس کٹڑے کے بائیں ہاتھ۔“
”لیکن --“ایلی کویقین نہ آتاتھا۔
”راستہ گھوم پھرکرجاتاہے ویسے یہاں سے قریب ہے چلونا۔بیچاری کھڑی میری راہ دیکھ رہی ہوگی ابھی تک ہمت نہیں ہاری،حالانکہ مجھے گھرسے نکلے اتنی دیرہوچکی ہے۔حدکردی اس نے یہ تومیری جان لے کرہی چھوڑے گی۔“
کوٹھے سے ایلی نے اس طرف نگاہ دوڑائی جدھر آصف اشارہ کررہاتھا۔چاروں طرف منڈیروں کوٹھوں اورچھتوں کاایک طوفان پھیلاہواتھااوروہ منڈیریں اورچھتیں ایک دوسرے سے شانے جوڑکرکھڑی تھیں۔جیسے ایک دوسرے کاسہارالے رہی ہوں ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے مکانات مسمارہونے کے بعدملبے کے ڈھیربن گئے ہوں اورڈھیروں میں چندبالشتئیے چل پھررہے ہوں۔
”وہ دیکھووہ“آصف شرماتے ہوئے بولا۔”وہ جونیلی برساتی کے پاس زردرنگ کی منڈیروں والی چھت ہے اوراس کے قریب میلے سے کوٹھے پروہ جس کے پیچھے بڑے بڑے سوراخ ہیں دیوارمیں ان پردوں کے پاس وہ سفیدکپڑوں میں ملبوس لڑکی ہے ناآئی نظربس وہی ہے دیکھا۔“
غورسے دیکھنے کے باوجودایلی کوچھتوں کے انبارکے سواکچھ دکھائی نہ دیا۔لیکن آصف کے اصرارسے بچنے کے لئے اسے کچھ دیر کے بعد”ہاں ہاں--ہو“کہناہی پڑا۔
”اب دیکھ لو۔“آصف بولا۔”یوں کھڑی رہتی ہے جیسے پتھرکابت کھڑاہو۔“
”ہاں۔“ایلی بولا۔”تم نے تواسے پتھرکابنادیا۔“
”سچ “آصف سے مسکراتے ہوئے ایلی کی طرف دیکھا۔”وہ بھی یہی کہتی ہے۔“
”سچ کہتی ہے وہ۔“ایلی نے جواب دیا۔
”تم بھی یہی سمجھتے ہوکیا۔“آصف نے آہ بھرکرپوچھا۔
”تم اسے خواہ مخواہ بربادکررہے ہوآصف۔“ایلی غصے میں بولا۔
”میں؟“آصف نے مظلوم نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”ہاں تم۔“ایلی چلایا۔
”نہیں نہیں ایسانہ کہو۔“آصف نے منت کی۔
”اسے تم سے محبت ہے۔“ایلی نے جواب دیا۔”اسی لئے تم اسے ذلیل کررہے ہو۔“
”کیاواقعی محبت ہے اسے؟“آصف نے پوچھا۔
”ظاہرہے اورکیا۔“ایلی نے جواب دیا۔
”میں توسمجھتاہوں کہ اس کامقصدصرف مجھے بدنام کرناہے۔“
”تم پاگل ہوآصف۔“
”کیوں؟“وہ چلایا۔
”کیااس طرح وہ خوبدنام نہیں ہوتی۔“
”اسے بدنامی کی پروانہیں۔“
”لڑکی ہوکربدنامی کی پروانہیں؟کتنی عجیب بات کرتے ہوتم۔“
”ہاں عجیب سی ہی معلو م ہوتی ہے۔“آصف سوچ پرپڑگیا۔
اس قسم کی بے ڈھنگی باتیں کرتے کرتے دفعتاًوہ دونوں خاموش ہوجاتے۔آصف نہ جانے کس سوچ میں پڑجاتااورایلی کاجی چاہتاکہ اس کابھی کوئی انتظارکرے اس کے لئے بھی کوئی چھت پرکھڑی رہے حتیٰ کہ صبح سے شام ہوجائے۔اس کے لئے وہ ساری دنیاکامقابلہ کرنے کوتیارتھا۔ساری دنیاکوٹھکرانے لے لئے بے تاب تھا۔
پھردفعتاً ایک دھندلی سی شکل ایلی کی نگاہوں تلے واضح ہونے لگتی۔دوسفیدبانہیں لٹکتیں۔دوشنگرنی ہاتھ بڑھتے اورماتھے کے عین درمیان میںایک سیاہ تل ابھرآتا۔شہزادمسکراتی اورکہتی ”ایلی تم کیاتم دنیاوالوں کی پرواکرتے ہو؟“اس وقت ایلی خاموش ہوجاتااورآصف کی آوازسن کرچونک پڑتااوراس کاوہ حسین خواب ٹوٹ جاتا۔
اس طرح ایک دوسرے سے دورایک دوسرے سے بیگانہ وہ دونوں قریب قریب بیٹھ رہتے اوردیوانوں کی طرح اس اجڑتے ہوئے منڈیروں کے ڈھیرکی طرف دیکھتے رہتے۔
نرالی تجویز
ایک روزآصف بولا۔”ایلی کوئی ایساطریقہ نہیں کیاکہ وہ جھوٹی ثابت ہوجائے اورمیں اسے طعنہ دے سکوں۔“
ایلی کوبات سمجھ میں نہ آئی۔”میں نہیں سمجھا۔“وہ بولا۔
”مطلب یہ ہے کہ میں اسے کوئی ایسی فرمائش کروں جو وہ پوری نہ کرسکے اورپھرمیں اس سے کہوں بس دیکھ لی تمہاری محبت ۔“
”یہ توسیدھی سادھی بات ہے۔“ایلی چلایا۔”اسے کہہ کریوں اعلانیہ تم سے اظہارمحبت نہ کرے۔“
”اونہوں“آصف نے نفی میں سرہلایا۔”یہ وہ نہیں مانتی۔کوئی اوربات ہو۔“
”کوئی اوربات “ایلی سوچ میں پڑگیا۔دیرتک وہ دونوں خاموش رہے پھردفعتاًایلی نے چٹکی بجائی۔بن گئی بات۔
”کیا؟“آصف نے پوچھا۔
”اس سے بہترتجویرنہیں ہوسکتی۔“ایلی نے خوشی سے اچھل کرکہا۔
”کیاتجویزہے؟“آصف شوق سے ایلی کے قریب ترہوگیا۔
”لیکن اس پرعمل کرنے کے لئے تمہیں گھرجاناپڑے گا۔“ایلی بولا۔
”ہاں۔“آصف بولا۔”میں چلاجاوں گا۔“بتاوتو۔“
”جب تم گھرجاو توکوٹھے پرچلے جانا۔“ایلی نے گرمجوشی سے کہا۔
”گھرجاتاہوں توکوٹھے پرتوضرورجایاکرتاہوں اگرچہ لوٹالے جاتاہوں۔ویسے ہی دکھانے کو۔“آصف بولا۔
”اوروہ کوٹھے پرآجائے گی۔آجائے گی نا۔“
”ہاں۔وہ تواکثرکوٹھے پرہی رہتی ہے اورمجھے دیکھتے ہی اعلانیہ سلام کرتی ہے جھک کربڑے ادب سے۔“آصف ہنسنے لگا۔
”اب کی مرتبہ وہ سامنے آئے تواسے اشارہ کرکے اپنی قمیض کے نچلے کونے کوپکڑکراوپراٹھانا۔یہاں تک کہ بازوکے اوپرانگڑائی کی صورت معلق ہوجائیں۔“
”اس سے کیاہوگا؟“آصف نے پوچھا۔
‘’اس سے قمیض کااگلاحصہ اوپراٹھ جائے گا۔“
”پھر؟“آصف اس کے قریب ترہوگیا۔
”تمہاراساراجسم ننگاہوجائے گا۔“
”لیکن اس کافاہدہ۔“
”پھراس اشارہ کرناکہ وہ بھی ایساکرے ۔اشارے سے کہنامیری خاطر۔“
”یوں کرنے سے تواس کاجسم بھی ننگاہوجائے گا۔“آصف گھبراکربولا۔
”ہاں ۔“ایلی نے بڑے فخرسے کہا۔
”لیکن وہاں کوٹھے پراسے ننگاکردینا“--آصف ہچکچاکربولا۔”نہیں۔نہیں۔“
”یہی توبات ہے۔“ایلی نے کہا۔”وہ عورت ہے حیامانع ہوگی۔وہ مجبورہوگی اورتمہاری فرمائش پوری نہ کرسکے گی۔“
”ہوں۔“آصف بولا--“لیکن اگراس نے قمیض اٹھادی تو--“
قمیض اٹھادی تو--ایک ساعت کے لئے ایلی گھبراگیااس نے اس امکان پرغورہی نہ کیاتوپھربولا۔”نہیں نہیں وہ ایسانہیں کرسکتی خصوصاً کوٹھے پرکھڑی ہوکرایسا نہ کرے گی پھرتم تمسخرسے ہنس دینابس یہی ہے تمہاری محبت۔“
”لیکن تمسخرسے کس طرح ہنسوں گامیں ۔“آصف نے پوچھا۔
”جیسے تمسخرسے ہنستے ہیں۔“ایلی نے جواب دیا۔
پھرو ہ دونوں تمسخرسے ہنسنے کی کوشش کرنے لگے۔
سنگ مرمرکامجسمہ
اگلے روزصبح سویرے ایلی نے بصدمشکل آصف کوگھرجانے پرمجبورکردیاتاکہ وہ گھرجاکراس کی نئی تجویزپرعمل کرسکے۔نئی تجویزپرعمل کرنے کے لئے آصف گھرجاچکاتھااورایلی ردعمل کی تفیصلات جاننے کے لئے اس کاانتظارکررہاتھا۔
اس کے ذہین کی عجیب کیفیت تھی۔اس کادل گواہی دے رہاتھاکہ وہ لڑکی آصف کے کہنے پراپنی قمیض نہیں اٹھائے گی۔وہ اپنے آپ کودنیاکے سامنے عریاں نہ کرے گی۔مگردفعتاًاس کاسلسلہ خیال ٹو ٹ جاتااوردل میں یہ خواہش ابھرتی کہ وہ قمیض اٹھالے تاکہ آصف واپس گھرجانے پرمجبورہوجائے اوراس ویران چوبارے میں رہنے سے نجات مل جائے۔پھروہ لاحول پڑھنے لگتااوراسے احساس ہوتاکہ وہ کمینہ ہے جواپنے فائدہ کے لئے آصف کوگھرجانے پراکسارہاہے۔پھروہ چلااٹھتا۔“نہیںنہیں ایسانہیں ہوسکتاایسانہیں ہوگا۔
اس نے اپنے پیچھے آہٹ سنی۔”آصف “وہ چلایا۔”تم آگئے ۔“آصف ایک بت کی طرح اس کے عقب میں کھڑاتھا۔چہرے پرمرونی چھائی ہوئی تھی۔ہونٹ لرزرہے تھے ۔بازولٹک رہے تھے۔
”آصف “ایلی اس کی طرف مڑا”کیاہواآصف؟“
آصف سے اثبات میں سرہلادیا۔اس کی آنکھیں آنسووں سے چھلک رہی تھیں۔
”لیکن وہ۔وہ“وہ رک گیا۔”وہ لڑکی۔“
آصف نے اثبات میں سرہلانے کی کوشش کی۔
”اس نے کیاکیابولو۔“ایلی اضطراب سے دیوانہ ہورہاتھا۔
آصف نے پھراثبات میں سرہلادیااوراس کاسرایلی کی چھاتی پرلٹک گیا۔
”خداکے لئے بولو۔“ایلی چلایا۔
”ہاں اس نے قمیض اٹھادی۔“آصف زیرلب بولااوراس کے گالوں پردوموٹے موٹے آنسوڈھلک آئے۔
”بالکل ہی اٹھادی؟“ایلی نے دیوانہ وارپوچھا۔
”ہاں۔بالکل۔“
”پھر؟“ایلی کاسربھڑکے ڈنک کی طرح بھن بھن کررہاتھا۔
”ڈرسے مرے ہاتھ پاوں پھول گئے۔“آصف نے جواب دیا”اورمیں بھاگاکہ مجھے کوئی وہاں دیکھ نہ لے۔“
”اوروہ۔“ایلی نے پوچھا
”وہ ویسے ہی کھڑی تھی جیسے سنگ مرمرکاکوئی مجسمہ ہو۔سرکٹامجسمہ۔“
وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ایلی تنکے سے زمین کریدنے لگااورآصف دیوارسے سہارالگاکرکھڑاہوگیااس کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے۔دیرتک دونوں خاموش رہے۔
”ایلی۔“دیرکے بعدآصف گنگنایا۔
”ہاں۔“ایلی چونکا۔
”اس کاجسم اتناخوبصورت--“شدت جذبات سے آصف کی آوازرک گئی۔
”آصف ۔“دفعتاًایلی اٹھ بیٹھا۔”تم اب جاو۔یہاں رہنے کاکوئی فائد ہ نہیں کوئی نہیں۔“
”ایلی“--آصف چلایا۔
”اب تمہیں جاناہی ہوگا۔میں شام کی گاڑی سے علی پورجارہاہوں۔“
”ایلی ۔ایسانہ کرو۔“آصف نے منت سے کہا۔”میں تباہ ہوجاوں گا۔“
”نہیں ۔“ایلی بولا”اب تمہیں اسے اپناناہی ہوگا۔“اوروہ نیچے اترکاسامان باندھنے لگا۔
”ایلی --“آصف نے آخری باراسے پکارا۔لیکن وہ زینہ میں پہنچ چکاتھا۔
”اگرتم سیدھے گھرنہ گئے آصف تومیں تم سے کبھی نہ بولوں گا۔“یہ کہہ کرایلی گلی میں اترگیا۔
آصف نے حسرت بھری نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھااوردیکھتارہاحتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
٭٭٭

دیوانگی
زندگی کاموڑ
اس روزآصفی محلے کی طرف جاتے ہوئے ایلی پہلی مرتبہ لوگوں کی نظریں بچاکرنکلنے کی کوشش کررہاتھا۔اسے خودبھی معلوم نہ تھاکہ کیوں ایساکررہاہے۔اگرچہ طبعی طورپروہ نگاہوں چڑھنے گھبراتاتھالیکن محلے کی اوربات تھی۔محلے میں اہمیت محسوس کیاکرتاتھا۔جب وہ محلے کے کسی لڑکے کی آوازسنتا!
”آگئے بابوبی۔“
توخوشی کی ایک لہر دوڑجاتی۔
محلے کے بازارمیں سب سے پہلے حکیم بوٹاکی دوکان تھی۔بوٹے کے اندازمیں سکنجبین کی سی ترشی تھی۔وہ ہمیشہ طنزبھری بات کرتا۔لیکن ایلی کوبری نہیں لگتی تھی۔بوٹے کے بعدچاندحلوائی کی دوکان تھی ایلی کودیکھتے ہی اس زرددانت نکل آتے۔
”آگئے بابوجی۔نمستے مہاراج۔“وہ دونوں ہاتھ جوڑکرماتھے پررکھ لیتا۔
اس روزنہ جانے ایلی کوکیاہواتھا۔ان جانے میں وہ چھپ چھپ کرگھرجارہاتھا۔کہیں حکیم نہ دیکھ پائے۔چانددکان پرموجودنہ ہو۔چانداورحکیم کے دیکھنے کاتوسوال ہی پیدانہ ہوتاتھاکیونکہ رات پڑچکی تھی۔لوگ دکانیں بڑھاچکے تھے۔بہرصورت نتھوتمباکوفروش کی دکان پرحسب معمول جھمگٹاتھااوروہ سب اندربیٹھے ہوئے چوپٹ کھیل رہے تھے۔انہیں دیکھ کرایک ساعت کے لئے وہ رکا۔پھرمنہ دوسری طرف موڑکرچپکے سے آگے نکل گیا۔نتھوکی دکان کی مشکل توحل ہوگئی اب سرداردودھ والے کی دکان سے گزرناتھا۔خوشی قسمتی سے اس روزاس کی دکان پرکوئی بھی نہ تھا۔پنچ خالی پڑاتھاجس پرمحلے کے لوگ اکثردیرتک بیٹھ کرادھرادھرکی گپ ہانکاکرتے تھے۔سردارخودبازارکی طرف پیٹھ کئے دودھ کی کڑاہی صاف کررہاتھا۔
مسجدکے قریب پہنچ کرایلی شاہ ولی کی خانقاہ کی چاردیواری کے سائے میں چلنے لگاتاکہ مسجدسے آتاہواکوئی بزرگ اسے نہ دیکھے۔چوگان ویران پڑاتھاجس کے اوپرمحلے کی کھڑکیاں یوں ٹمٹمارہی تھی جیسے قبرستان میں یہاں وہاں دئیے جل رہے ہوں۔ایک ساعت کے لئے وہاں رکااورپھرایک ہی جست میں چوگان کوپارکرکے چھتی گلی میں جاگھسا۔اتنی رات گئے فرحت کے گھرکی اندھیری ڈیوڑھی سے گزرناتوممکن نہ تھاکیونکہ وہ دروازہ توگھروالے سرشام ہی بندکرلیاکرتے تھے۔شہزادکی طرف سے جاتے ہوئے وہ گھبراتاتھاکیونکہ شہزادکے چوبارے کی نچلی منزلیں میں سعیدہ رہتی تھی اورسعیدہ کے سامنے اوپرجانا،یہ اسے گوارانہ تھا۔سعیدہ کے کہے گی۔منہ سے نہ بھی کہے تودل میں کہے گی۔اللہ کرے سعیدہ کادروازہ کھلاہوتاکہ اسے کھٹکھٹانانہ پڑے۔
دروازہ کھلادیکھ کراس نے اطمینان کاسانس لیااورپھرچندایک ساعت کے لئے نچلے منزل کاجائزہ لینے کے بعدوہ سائے کی طرح لپک کراوپرکے زینے میں جاپہنچا۔آہستہ آہستہ اس نے وہ سیڑھیاں نہ جانے کتنی دیرمیں طے کیں تاکہ سعیدہ یاشہزادکوپاوں کی چاپ سنائی نہ دے۔
سیڑھیوں میں چھپ کراس نے ایک نگاہ شہزادکے چوبارے پرڈالی۔چوبارے کے دروازے کے عین درمیان میں ایک چوکی پرسلائی مشین رکھے وہ کچھ سینے میں مصروف تھی۔شانے جھکے ہوئے تھے۔سیاہ تاروں والادوپٹہ ایک شان بے نیازی سے اس کے کندھوں پرلٹک رہاتھا۔سیاہ دوپٹے میں اس کاسفیدچہرہ کسی انجانی مسرت سے چمک رہاتھا۔سیاہ سرمگیں آنکھیں دواڑی ترچھی قندیلوں کی طرح چمک رہی تھیں۔اورماتھے کے عین درمیان میں سیاہ تلک آویزاں تھا۔آدھی آستینوں والے بھرے بھرے بازومشین پرلٹک رہے تھے۔
شہزادکودیکھ کراس کادل خوشی سے دھک سے رہ گیا۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ سنگ مرمرکامجسمہ ہو۔جیتاجاگتامجسمہ۔وہ ایک سپناتھی۔سندرسپنا۔ایساسپناجس کی تعمیر کے متعلق اسے خودبھی علم نہ تھا۔
آہستہ آہستہ وہ شہزادکی طرف بڑھااورچپکے سے آنکھ بچاکراس کے پہلو میں جابیٹھااورپھراس کے لٹکتے ہوئے بازوکوگرفت میں لے کردیوانہ وارچومنے لگا۔
شہزاداسے دیکھ کرڈرگئی۔
”ہائے تم ہو۔“وہ چلائی۔”تم نے تومجھے ڈرادیا۔“
ایلی نے اپنامنہ اس کے گورے ہاتھوں میں گاڑدیا۔
”یہ کیاحماقت ہے۔“ ہو اسے گھورنے لگی لیکن اس کی شیریں آوازمیں مسکراہٹ کی واضح جھلک تھی۔جیسے تیوری محض دکھلاواہو۔
”یہ کیاپگلاپن ہے۔“شہزادنے اسے گھورا۔
”ہے پھر۔“وہ بولا۔”کرلوجوکرناہے۔“
”وہ ہنس پڑی:”اب پاگلوں سے کون لڑے ۔“
”لڑکردیکھ لو۔اگرہمت ہے تو۔“ایلی نے کہا۔
”اونہوں۔“شہزادنے ہونٹوں پرانگلی رکھ کرکہا:”چپ وہ--“
”کون ہے۔“ایلی گھبرااٹھا۔”کون ہے؟“
”جانو۔“وہ زیرلب بولی اوراس نے صحن کے پرلے کونے کی طرف اشارہ کیا۔”وہ ابھی آجائے گی میں نے اسے گھرکاکام کرنے کے لئے پاس رکھ لیاہے۔“
ایلی کی تمام ترمسرت مفقودہوگئی اوروہ چپ چاپ یوں بیٹھ گیاجیسے اسے شہزادکی آڑی ترچھی آنکھوں اس کے سیاہ دوپٹے اورگورے بازووں سے کوئی تعلق نہ ہو۔
”آخر آہی گئے تم۔“شہزادزیرلب بولی۔
”آناہی پڑا“۔ایلی نے کہا۔
”اورجواتنی دیر وہاں ٹھہرے رہے۔امتحان کے بعدوہ--“شہزادمسکرائی۔”بولو--جواب دو۔“
”تم نے جوکہاتھا۔میں شکایت کردوں گی۔یادہے کہاتھاناں۔“ایلی ہنسا۔
شہزادنے مسکراکرسراثبات میں ہلادیا۔
”جھوٹ کہاتھاکیا۔“وہ آنکھیں چمکاکربولی۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے اس کے روبرودوشمعیں روشن ہوگئی ہوں۔
وہ نگاہ اس کے لئے ایک نئی چیز تھی جس میں چمک کے علاوہ عجیب سی گرمی تھی جس کے زیراثراس کے خون میں حدت پیداہوجاتی تھی۔کنپٹیاں تھرکنے لگتیں۔آنکھوں میں خمارامڈآتاورپلکیں بوجھل ہوکرجھک جاتیں۔اس ایک نگاہ سے ایلی نے محسوس کیاجیسے گردوپیش کوایک سہرے دھندلکے نے لپیٹ میں لے لیاہو۔جیسے تمام کائنات منورہوگئی ہو۔جیسے زندگی نے ایک نیاروپ دھارلیاہو۔وہ اس ایک بے پایاں نگاہ کے نشے میں سرشارنہ جانے کب تک بیٹھارہا۔حتیٰ کہ جانوہاتھ میں لوٹالئے باہرنکلی اوراسے دیکھ کرچلائی۔
”ایلی ہے۔کب آیا۔کیاسکول چھوڑدیایاویسے ہی چھٹی پرآیاہے۔اے ہے بولتانہیں۔“وہ پنجے جھاڑکراس کے پیچھے پڑگئی۔
”بولتاتوہوں۔کیاکہتی ہے تو۔“ایلی نے کہا۔
”کہاں بولتاہے توجیسے مدھک پی رکھی ہو۔آنکھیں تودیکھ اپنی۔“جانونے ہنس کرکہا۔
ایلی کوبات ٹالنے کی ترکیب نہ سوجھی،بولا:”تجھے دیکھ نہ جانے کیاہوگیاہے آنکھوں کو۔“
کسی کی جرات ہے میری طرف دیکھے۔“وہ غرائی ۔”دیدے نہ پھوڑدوں گی۔آج تک توجرات نہ ہوئی کسی کومیری طرف دیکھنے کی۔“
شہزادکی آنکھوں میں پھوارپڑنے لگی۔وہ ہنستے ہوئے بولی:”یہ تودیکھ رہاہے روک لے۔اسے ورنہ سرچڑھ جائے گا۔بات بڑھ جائے گی۔“
”ہوں ۔“وہ نفرت سی بولی۔”یہ کیاسرچڑھے گا۔“
”ناک نہ چڑھاجانو۔“ایلی قہقہہ مارکربولا:”پہلے ہی تیری ناک تلوارکی طرح تیزہے۔“
”لے کرلے بات۔“شہزادنے پھروہی نگاہ ایلی پرڈالی۔
”دفع کران آجکل کے چھوکروں کو۔جومنہ میں آتاہے بک دیتے ہیں۔“یہ کہتے ہوئے وہ کمرے کے پرلے کونے کی طرف چل پڑی اوربڑبڑاتی ہوئی کام میں مصروف ہوگئی۔
شہزادنے پھروہ نگاہ ایلی پرڈالی۔اس کی آنکھیں چمکیں ۔ہونٹوں میں نہ جانے کیسی مقناطیسی جنبش پیداہوئی اورپیشانی کاتلک دفعتاً منورہوگیا۔ایلی کے دل میں نہ جانے کیاہونے لگا۔اس کے جسم سے پھلجڑی کی طرح انگارے نکلنے لگے۔
ایلی کاسرشانوں پربھن بھن کررہاتھا۔شہزادیوں انہماک سے سوئی میں تاگاپرورہی تھی جیسے احساس ہی نہ ہوکہ پاس کون بیٹھاہے۔ایلی کی نگاہوں تلے شہزادکے سرکے گردایک سنہری ہالہ چمک رہاتھا۔دورجانونہ جانے کیابڑبڑارہی تھی۔
اس روزکواپنی گزشتہ زندگی ایک دھندلاخواب محسوس ہونے لگی۔اسے محسوس ہورہاتھاجیسے وہ ازسرنوپیداہواہے۔شہزادکے بطن سے پیداہواہواورایک نئی زندگی سے نوازاگیاہو۔
جیسے اس نے زندگی کاپہلاموڑطے کرلیاہواوراس کے طے کرتے ہی زندگی کی شکل کلیتہً بد ل گئی ہو۔اتنی سی بات نے اس کی زندگی بدل دی تھی۔صرف اتنی سی بات نے کہ اس نے دولٹکتے ہوئے بازووں کوتھام لیاتھااورخفت سے بچنے کے لئے محبت کاڈھونگ رچالیاتھا۔زندگی کس قدرعجیب تھی اوروہ زندگی کاموڑکس قدرحسین تھا۔
جانو
نہ جانے شہزادکاکیاہے۔ایلی سوچنے لگا۔نگاہ اٹھاکردیکھتی ہے تواس قدرقریب آجاتی ہے کہ نسوں میں تھرکتی محسوس ہوتی ہے۔پہلومیں دھڑکتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔گرمی کی روکی طرح بندبندمیں رینگتی ہے اورکبھی یوں دیکھتی ہے جیسے کوسوں دورہو۔جیسے اسے ایلی کے وجودکابھی شعورنہ ہو۔احساس ہی نہ ہوکہ ان دونوں میںکوئی بندھن ہے۔
صرف نگاہ ہی نہیں اس کی خاموشی بھی ایسے ہی اثرات کی حامل تھی۔کبھی وہ آنکھیں جھکاکرکام میں لگ جاتی توکبھی ایلی کومحسوس ہوتاجیسے وہ اس پرجکھی ہوئی ہوجیسے اس کے جسم کی گرمی اسے پگھلارہی ہو۔جیسے اس کانرم وگذارجسم اس سے مس ہورہاہو۔مگر کبھی جب وہ آنکھیں جھکائے کام میں مصروف ہوتی توگویاوہ برف کاایک تودہ بن جاتی۔اس کے انگ انگ سے نیگانگیت کی لہریں نکلتیں اورایلی کومنجمدکردیتیں۔اوروہ اضطراب اورگھبراہٹ سے پہلو بدلنے لگتا۔نہ جانے یہ خصوصیت صرف شہزادمیں ہے یاسبھی عورتوں میں ہوتی ہے--بیٹھے بیٹھے وہ سوچنے لگاکیاسبھی عورتوں کے کئی روپ ہوتے ہیں۔کیاوہ سب آن میں رادھابن جاتی ہیں۔اسے کچھ سمجھ نہیں آتاتھا۔جب شہزادسے قرب کااحساس حاصل ہوتاتوایلی کے لئے سانس لینابھی پرلذت ہوجاتالیکن جب وہ بیگانگیت کاروپ دھارتی توایلی کے دل میں ازسرنواحساس کمتری جاگ اٹھتااوروہ دیوانہ واراپنے آپ کوکوستا۔
”اب توچائے پئے بغیرنہ جائے گاکیا؟“جانونے اس کے قریب آکرکہاتھا۔
وہ چونکا۔
”توابھی تک یہیں ہے۔“ایلی نے پوچھا۔
دونوں ہاتھ کمرپررکھ کرجانوسرہلانے لگی۔
”توکیاچلی جاوں۔اچھی نہیں لگتی تجھے۔“
”نہیں نہیں۔اچھی لگتی ہے تو۔“ایلی نے پینترابدلا۔“بہت اچھی لگتی ہے۔“
”نہ مجھے نہیں اچھالگتایہ مذاق ۔“جانوبولی۔
”تجھ سے نہ کرے توکس سے کرے مذاق ۔“شہزادنے کہا۔
”کیوں۔کیاماں بہن سے کرے گامذاق۔سچ ہے آخر بیٹاکس کاہے۔علی احمدکاہی نا“
”کیوں۔“وہ چمک کربولا۔”علی احمدنے کیاکیاتھامذاق۔“
جانوگالیاں دینے لگی۔
شرم نئیںآتی جومنہ میں آیابک دیا۔“
”توپلادے اسے چائے توخاموش ہوجائے گا۔“شہزادنے ویسے ہی بے پرواہی سے کہا۔اورجانوچائے بنانے لگی۔
جانوعرصہ درازسے آصفی محلے میں مقیم تھی وہ آصفی نہ تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جوباہر سے آکرمحلے میں رہنے لگے تھے۔جانوکاخاوندعرصہ درازسے فوت ہوچکاتھا۔اوراب دونوں ماں بیٹی کاگزارہ محلے والوں کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے پرتھاکیونکہ اس کے علاوہ ان کاکوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا۔کام کاج نہ بھی ہوتاتوبھی محلے والے جانوکوکچھ نہ کچھ دیتے رہتے۔
جانوکارنگ کھلاکھلاتھا۔نقوش ستواں تھے۔اسے دیکھ کرخیال آتاتھاکہ جوانی کے دونوں میں بے حسین ہوگی۔اگرچہ لب اس کے حسین نقوش پرضبط کی کرختگی کی مہرلگی ہوئی تھی۔محلے والے جانوکی بے حدعزت کرتے تھے۔کیونکہ نوجوانی میں بیوہ ہوجانے کے باوجوداس نے تمام زندگی پاکبازی میں گزاری تھی۔محلے میں کسی شخص نے کبھی اس پرانگلی نہ اٹھائی تھی۔محلے والے اس کی شرافت کاتذکرہ اکثرکیاکرتے تھے اورجانواپنی اہمیت کااحساس اس پاک دامانی سے اخذکرتی تھی اوراسی وجہ سے ہرکسی سے پاک دامنی کامطالبہ کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔اس کی آوازمیں کرختگی پیداہوچکی تھی۔اس کے مزاج میں درشتی اورلاابالیت تھی۔محلے کے لوگ اس کی سخت مزاجی پرنکتہ چینی کرنے لگے تھے۔حالانکہ یہ خصوصیات انہوں نے بذات خوداس میں پیداکی تھیں۔بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے اپنے خیالات کے اظہارسے جانوپرعائد کردیاتھاکہ وہ کسی سے ملائمت اورالتفات سے بات نہ کرے کیونکہ اس کی تمامترعظمت اجتناب پرقائم کی جاچکی تھی۔بہرحال جانوکویہ احساس نہ تھاکہ لوگوں نے اس کے متعلق ایک رائے قائم کرکے دراصل اسے زندگی کے اثباتی پہلووں سے محروم کردیاہے۔
چونکہ جانوکی تمامتراہمیت ”دامن ترمکن ہشیارباش“پرمبنی تھی اس لئے وہ سمجھنے لگی تھی کہ وہ ”دامن ترمکن ہشیارباش“کی تلقین کرنے کے لئے دنیامیں بھیجی گئی ہے۔اپنی تمامترزندگی کوسنوارنے کے بعداب وہ دوسروں کی زندگی کوسنوارنااپنافرض سمجھتی تھی اوراسی وجہ سے ہرجوان لڑکی یامٹیارحسینہ کوبا ت بات پرہدایت کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔اس کی عادت کی وجہ سے محلے کی بوڑھیاں اسے بہت اچھاسمجھتی تھیں اورمحلے کی جوان عورتیں اس کی آمدپرمحتاط ہوجاتی تھیں۔اورایسابرتاواختیارکرلیتیں کروہ زیادہ دیران کے پاس نہ ٹھہرے لیکن ان واضح اشارات کاجانوپرکوئی اثرنہ ہوتا۔یہ کیسے ہوسکتاتھاکہ وہ ان خصوصیات کورکاوٹ سمجھتی جن پراس کی اہمیت کاتمام تردارومدارتھا۔
مطعون محبوبہ
شہزاداس محلے کی فضامیں پل کرجوان نہ ہوئی تھی اس لئے وہ محلے کی رسومات اورآصفی برتاوکی تفیصلات سے نہ توواقف تھی اورنہ انہیں اہمیت دیتی تھی ۔وہ طبعاً ان تفیصلات سے بے نیازتھی اوراپنی طبعیت کے مطابق زندگی بسرکرنے کی قائل تھی۔شہزادکی کبھی نہ سوجھی تھی کہ ماحول کاتقاضاکیاہے۔اس نے کبھی نہ سوچاتھاکہ لوگ کیاسمجھیں گے۔کیااندازہ لگائیں گے۔وہ لوگوں کی اہمیت کاشعورہی نہ رکھتی تھی۔رکھتی بھی کیسے اس کے اپنے میاں برائے نام ہی نہیں بلکہ طبعاً شریف واقع ہوئے تھے اورشریف خاونداسے کہتے ہیں جوبیوی کی ہربات پرسرتسلیم خم کردے۔
شریف نے سرتسلیم کرنے کاایک انوکھابہانہ ایجادکررکھاتھا۔وہ ظاہرکرتاتھاکہ عشق حقیقی میں ڈوب کراسے کسی بات میں دلچسپی نہیں رہی۔اسے اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ وہ بنیادی باتوں پرغورکرسکے۔اگرچہ شہزادکاحسن دیکھ کراس کی آنکھ میں چمک لہراتی اورہونٹوں سے لعاب ٹپکنے لگتاتھالیکن وہ توقطعی طورپراوربات تھی۔دلچسپی کے اس فقدان کے علاوہ شریف کی شخصیت میں کوئی ایسی بات نہ تھی جوشہزادکے دل میں اس کی عظمت کااحساس پیداکرتی اورشریف کی خوشنودی کے لئے ذاتی محسوسات کے چکرسے نکلنے پرمجبورکرتی یاشریف کوجیتنے پرابھارتی۔وہ توشہزادکی آمدسے پہلے جیتے جاچکے تھے اوراس حدتک جیتے جاچکے تھے کہ انہیں ازسرنوجیتنے کی کوشش سراسربے معنی ہوکررہ گئی تھی۔اگرچہ بظاہروہ یہ ظاہرکیاکرتے کہ وہ انورکے عادی ہوچکے ہیں مگر وہ محض ایک دل بہلاوہ تھا۔درحقیت وہ طبعاً سرجھکادینے کے عادی تھے اورعرصہ درازسے عملی طورپرشہزادکے سامنے بھی سرجھکاچکے تھے۔
ان حالات میں شہزادکی اپنی ذات سے ہٹ کرسوچنے یاسمجھنے کی ضرورت نہ تھی ۔اس لئے آصفی محلے میں آجانے کے باوجودوہ محلے کے تقاضوں سے بے نیازرہی۔محلے والوں کودیکھ کراس نے کبھی دوپٹہ یانگاہیں سنبھالنے کی کوشش نہ کی۔بات کرنے سے پہلے کبھی نہ سوچاکہ سن کرلوگ کیاکہیں گے اورغالباً اسی وجہ سے وہ محلے بھرکی محبوبہ بن چکی تھی۔
نوجوان حیرانی سے اس کی طرف دیکھتے اورسردھنتے۔وہ محسوس کرتے کہ شہزادمیں زندگی کوصحیح شکل میں دیکھ رہے ہیں۔دکھلاوے اوررسم سے آزادبے پروابلندوبے نیاز۔
محلے کی لڑکیاں حیرت سے اس کی طرف دیکھتیں اورمنہ میں انگلی ڈال کررہ جاتیں۔ابتدامیں تومحلے کی بوڑھیاں بھی اسے دیکھ کرحیران رہ گئی تھیں۔پھرآہستہ آہستہ انہیں احساس ہونے لگاکہ جوانی کے قائم اصولوں پرنہ چلے وہ اچھی کیسے کہلائی جاسکتی ہے۔اس کے باوجودشہزادکی معصومیت اس کے اخلاق اوراس کی طبعی فیاضی کی وجہ سے شہزادسے مل کران اصولوں کے باوجودخوشی محسوس ہوتی تھی۔جب وہ چلی جاتی توان کوغصہ آناشروع ہوجاتا۔
--توبہ کتنی بے پروالڑکی ہے--وہ محسوس کرتیں جیسے انہیں دھوکادیاگیاہواورفریب سے خوش کرلیاگیاہو۔پھران کی زبانیں حرکت میں آجاتیں اوردیرتک باتیں کرتی رہتیں۔کسی نہ کسی بہانے شہزادکی بے پروائی اورجرات پرنکتہ چینی کرتیں۔
”توبہ ۔کیازمانہ آیاہے۔اب توکل کی چھوکریاں ہرنیوں کی طرح قلانچیں بھرنے لگی ہیں۔ابھی یہاں تھی اوریہ لواب اوپرچوبارے سے بول رہی ہے جیسے پاوں تلے پہیے لگے ہوئے ہوں۔“
”اوربہن اللہ ماری یہ سیڑھیاں جوہیں۔انہیں گھٹنوں پرہاتھ رکھے بغیرچڑھنابھی توممکن نہیں۔“
”یوں چڑھ جاتی ہے جیسے پانی کاگلاس پی لیا۔“
”توبہ ماں یہ توبھلاسیڑھیاںہیں۔وہ تونگاہوں پرچڑھتی بیٹھی ہے۔آنکھیں میں آنکھیں ڈال کربات کرتی ہے۔ذرانہیں جھجکتی ۔“
”کوئی زمانہ آیاہے ماں۔پرشکرہے اپنے محلے کوہوانہیں لگی۔“
”اللہ بچائے لڑکی۔یہاں پربھی اللہ فضل ہے بس یہ باہر سے آنے والیاں ہی جل کوگنداکرتی ہیں ہاں میں توسچ کہوں گی۔“
نہ جانے شہزادکوان باتوں کاعلم تھایانہیں لیکن اس کے برتاو سے کبھی ظاہرنہ ہواتھا۔محلے کی عورتوں کودیکھ کروہ یوں کھل جاتی جیسے نوخیزکلی ہو۔ان کی ہرضرورت کوفراخدلی سے پوراکرتی لیکن اس کے علاوہ اسے ان سے کوئی تعلق نہ تھا۔صرف دوچارگھرانوں سے اس کامیل جول تھااوروہ بھی محض سرسری۔چوبارے کی کھڑکی میں کھڑی ہوکروہ کوئل کی طرح چیختی :
”کیوں چچی۔آج توبہت مصروف نظرآتی ہو۔کیاچچاامرتسرسے آگئے۔“
چچی منہ میں انگلی ڈال لیتی:
”ہائے اللہ۔اس لڑکی نے کیاکہہ دیا۔کوئی سنے گاتوکیاکہے گا۔“اس کے باوجوداس دبی دبی حقیقت سن کرچچی کے چہرے پرمسرت کی ایک رودوڑجاتی۔
محلے والیوں کے لئے شہزادکی باتیں انوکھی ہونے کی وجہ سے بے حدجاذب تھیںاوراسی جاذبیت کی وجہ سے وہ اس پرنکتہ چینی کرتی تھیں۔
جانوکے شہزادکے گھرمیں آنے کوایلی نے بہت برامانا۔جانوکی موجودگی کی وجہ سے اس کاشہزادکے پاس بیٹھنامشکل ہوگیا۔جانوکیاکہے گی۔یہ یہاں کیوں بیٹھ رہتاہے۔اپنے گھرکیوں نہیں جاتا۔اورپھرجانوتومنہ پرکہہ دینے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھیں۔وہ توبراہ راست شہزادسے کہہ دے گی۔اسے نہ لگایاکہ منہ ورنہ لوگ کیاکہیں گے۔اللہ رکھے اتنابڑاہوگیا۔اب کیابچہ ہے جوہروقت تجھ سے چپکارہتاہے،لیکن شہزادکویہ بات سوجھی تک نہ تھی۔شہزادجانوکی بات کواہمیت ہی نہ دیتی تھی جب وہ ایسے مسائل چھیڑلیتی توشہزادچپکے سے کسی کام میںمشغول ہوجاتی۔غالباً اس نے کبھی جانوکی بات کوسناہی نہ تھااگرچہ اس وقت وہ بے توجہی سے ہاںہاں کرتی رہتی۔
ادھرجانوجب سے شہزادکے پاس آئی تھی اس کی یوں رکھوالی کرنے لگی تھی جیسے شریف کی ایجنٹ ہواورشہزادکونظربدسے بچانے کے لئے متعین کی گئی ہو۔وہ شہزادکی آدھی آستینوںکودیکھ کرناک منہ چڑھاتی:
”اے ہے ۔یہ کیاننگی باہیں لئے پھرتی ہوتم خواہ مخواہ اپناگورارنگ چمکاتے پھرنا۔آستینیں توپوری ہونی چاہئیں جوعزت عورتوں کوسجتی ہیں۔“
اس پرشہزادمسکراکرکہتی:
”ہے نا۔اچھی لگتی ہیں نا۔وہ بھی کیاکہ آستینیں جوہاتھوں پرلٹکتی رہیں۔اچھااب چائے بناجاکر۔“
شہزادکے اس اندازکوپہلے پہل توجانوسمجھ نہ سکی۔شہزادکی باتیں سن کراسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ جواب میں کیاکہے۔پھرآہستہ آہستہ وہ شہزادکے اندازسے مانوس ہوتی گئی اورآپ ہی آپ بڑبڑانے میں وقت بسرکرنے لگی۔
ایلی حیران تھاکہ شہزادکی باتوں پرسیخ پاکیوں نہیں ہوتی۔اسے غصہ کیوں نہیں آتا۔وہ بات ہنس کرکیوں ٹال دیتی ہے۔پیشانی پرشکن تک نہیں آتابلکہ بسااوقات وہ اس کی بات سنتی ہی نہیں جیسے جانوجھک ماررہی ہو۔
دکھیامینا
چائے بنانے کے بعدجانواپناکھانابرتن میں ڈال کرگھرچلی گئی اوردونوں اس دالان میں اکیلے رہ گئے۔شہزادکے ساتھ اپنے آپ کواکیلے پاکرایلی کادل دھڑکنے لگالیکن اسی کے باوجودشہزادخاموشی سے اپنے کام میں یوں لگی رہی جیسے اسے ایلی کے وجودکاعلم ہی نہ ہو۔
”شہزاد۔“ہردومنٹ بعدایلی زیرلب اسے آوازدیتا۔”شہزاد۔“
”ہوں۔“وہ جھکی جھکی آنکھوں سے جواب دیتی۔”کہو۔کیاکہتاہے۔“اس کی آوازمیں عجیب سی بیگانگی ہوتی جیسے وہ شہزادہی نہ ہوجس نے اس پروہ نگاہ ڈالی تھی۔
”ادھردیکھوناں۔“وہ منت سے کہتا۔
”کیادیکھوں؟“وہ بے نیازی سے جواب دیتی۔“کیاہے دیکھنے کویہاں ؟“
”اخوہ۔ایلی چلاتا۔”اتنی بے پرواہی۔“
”کیاہے؟“کچھ دیرکے بعدشہزادنے سراٹھایااوراس کی طرف یوں دیکھاجسے وہ زمین میں گڑاہواایک پتھرہو۔“
”بتاوناکیاہے۔“
ایلی نے جھپٹ کراس کابایاں بازوتھام لیا۔
”بس یہی کام تھا۔“وہ خشک آوازسے بولی اوربائیں بازوکواس کے حوالے کرکے یوں کام میں منہمک ہوگئی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔حتیٰ کہ وہ محسوس کرنے لگاکہ اس کے ہاتھ میں کاٹھ کابازوہو۔بے کار۔بے جان
”یہ کیاحماقت ہے۔“وہ بولی۔
”کیاحماقت ؟“ایلی نے پوچھا۔
”اورکیاحماقت نہیں تو۔“شہزادنے بازوکھینچ لیا۔”بیٹھ کرباتیں کرونا۔“
”کیابات کروں؟“ایلی نے پوچھا۔
”کوئی بھی ہو۔“شہزادبولی۔
اچھا۔“ایلی کوسوجھی۔”تم اتنی پیاری کیوں ہوشہزاد؟“
”ہوں پھر۔کرلوجومیراکرناہے۔“وہ ہنسنے لگی۔
”کاش--میں کچھ کرسکتا۔“ایلی نے آہ بھری۔
”کچھ کربھی نہیں سکتے۔بس!“وہ ہنسنے لگی۔
”مجھے اکسارہی ہو۔“ایلی نے غصے میں بولا۔
”پیاریوں سے لڑابھی کرتے ہوتم؟“شہزادنے پوچھا۔
”لڑائی مجھے بڑی اچھی لگتی ہے۔تمہیں نہیں لگتی کیا؟“
”کس سے لڑوں ۔کوئی ہوبھی لڑنے کے لئے۔“
مجھ سے لڑونہ۔“
”تم سے کیالڑنا۔“شہزادمسکرائی۔
”اس سے لڑتی ہوکیا؟“ایلی نے پوچھا۔
”وہ۔“وہ قہقہہ مارکرہنسی۔اس کی ہنسی میں تحقیرکی دھارتھی۔”اسے آہیں بھرنے سے فرصت بھی ہو۔وہ کیالڑے گا۔اورآجکل تووہ اباجان کے پاس گیاہواہے۔“
”کیوں۔“ایلی نے پوچھا۔
”اب تمہیں کیابتاوں۔“وہ بولی”بکرے کی جان گئی پرکھانے کومزہ نہ آیا۔“
”میں نہیں سمجھا۔“وہ منت سے بولا۔
”وہ مسکرانے لگی:”تم کیاسمجھوگے؟“
”آخربات کیاہے۔خداکے لئے مجھے بتاو۔“ایلی نے محسوس کیاجیسے بات اس کی ذات سے متعلق ہو۔
”میںکیابتاوں۔انہیں سے پوچھ لیناکبھی۔“
”کس سے ؟“
”ان سے یاسانوری سے۔“شہزادنے ایک خصوصی اندازسے کہا۔
”سانوری سے ؟“
”ہاں ہاں اسی سے۔اب کیابھول گئے اسے۔ان دنوں جب وہ کوٹھے پرٹہلاکرتی تھی اورتم ادھرچھپ پرمنہ پرکتاب رکھے پڑھنے کے بہانے بیٹھے رہاکرتے تھے۔مجھے کیامعلوم نہیں۔“
”شہزاد۔“ایلی نے ندامت سے چلایا۔
”اس بے چاری کوکیاپتہ تھا۔وہ توتمہارے تھپڑپرہی مرمٹی۔“شہزادہنسنے لگی ۔”تمہاری دھنیں گاگاکررویاکرتی تھی۔“
”رویاکرتی تھی؟“ایلی حیران ہورہاتھا۔
”اپنی طرف سے تووہ محبت لگا بیٹھی تھی تم سے ۔اسے کیامعلوم تھاکیسے لگائی جاتی ہے محبت نہ جانے کونسی بات پسندآگئی تھی اسے تمہاری۔جب گھروالوں کومعلوم ہواتووہ سب اسے چھیڑنے لگے۔اس وجہ سے وہ اوربھی ضدمیں آگئی اوراس نے اماں سے صاف کہہ دیامیں ایلی سے شادی کروں گی۔“شہزادہنسنے لگی۔”ان دنوںمجھے کیاخبرتھی کہ ایلی۔“وہ بامعنی اندازسے رک گئی۔پھراس نے بامعنی نگاہ اس پرڈالی۔”کیاپتہ تھا۔“وہ ہنسنے لگی۔
ایلی نے شرم سے سرجھکالیا۔شہزادہنسنے لگی۔
”بے چاری نے بڑے بڑے طعنے سنے تمہارے لئے ۔سارے گھروالوں کی نکوبن کررہ گئی۔اماں تواسے آنکھیں دکھاتی تھی۔تمہارانام سن کراماں کی آنکھوں میں خون اترآتاتھا۔نہ جانے کیوں جیسے تم سے کوئی بیرہو۔“
”کیوں۔میں نے تمہاری اماں کابگاڑاتھا۔“ایلی نے کہا۔
”جب تونہیںبگاڑاتھامگراب تو--“اس نے ایک بارایلی کوپھراسی نگاہ سے دیکھا۔دوروشن دئیے اس کی طرف لپکے۔
”شہزاد۔“اس کے بازوکاسہارالینے کے لئے ایلی آگے بڑھا۔
”پھربات اباتک پہنچ گئی۔“شہزادنے دفعتاًاندازبدلا۔”اورانہوں نے فوراًمشورہ کرکے سانوری کارشتہ کردیا۔زبردستی۔“
”کس کے ساتھ۔“ایلی نے پوچھا۔
”نہ جانے کون ہیں۔کہتے ہیں کوئی ایس ڈی اوکالڑکاہے مگرمجھے تونہیں دکھتاایس ڈی او۔تمہارے شریف صاحب نے اباکی ہاں میں ہاں ملادی۔اب وہ بے چاری اپنی قسمت کورورہی ہے وہاں۔“
”میں تم سے کیامذاق کروں گی۔“وہ بولی۔”مذاق تواس بے چاری کااڑگیاجوتم سے دل کی بات بھی نہ کہہ سکی۔ بے چاری نے کئی ایک بارخط بھی لکھاتھامگرتمہاراپتہ معلوم نہ تھااوروہ ڈرتی تھی کہ کسی اورکے ہتھے نہ چڑھ جائے۔پھرجب اس نے سناکہ تم اس امرتسروالی لڑکی کے لئے پاگل ہورہے ہوتودل ٹوٹ گیا۔میرے پاس رویاکرتی تھی۔“
”شہزاد“ایلی نے اپناسراس کے بازووں پررکھ دیا۔
”اورآج تم میرے بازوسے لپٹے ہو۔“وہ قہقہہ مارکرہنسی۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ قہقہہ اسے چھری کی طرح چیرتاجارہاتھا۔
”مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔“وہ گڑگڑاکربولا۔
”تو پھرمیں کیاکروں؟“دفعتاًشہزادکااندازبدل گیا۔
”تمہیں میراکوئی خیال نہیں کیا۔“اس نے پوچھا۔
”مجھے کسی کابھی خیال نہیں۔“وہ بولی۔
”تمہیں شریف کاخیال ہے ناں۔میں جانتاہوں۔“ایلی کی آنکھیں سرخ ہوئی جارہی تھیں۔کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔وہ محسوس کررہاتھاجیسے کوئی اس کاکلیجہ چاٹ رہاہو۔
”تمہیں شریف سے محبت ہے نا؟“
”یونہی سمجھ لو۔“ایلی چلایا۔”میں بے وقوف ہوں بے وقوف ۔“
”سیانے بھی ہوتے توکیافرق پڑجاتا۔“شہزادبولی۔
”سیاناہوتاتوتمہارے لئے یوں پاگل نہ ہوتا۔“ایلی نے کہا۔
”سچ ایلی۔ایک بات پوچھوں۔“وہ سنجیدہ ہوگئی۔تمہیں مجھ سے محبت جتانے کی کیاسوجھی؟“
”تمہارامطلب ہے میں فریب کررہاہوں۔“ایلی نے بناوٹی غصے سے کہا۔
”نہیں نہیں۔“وہ چلائی۔”میرامطلب ہے۔“اورپھررک گئی۔
”میں سمجھتاہوں تمہارامطلب ۔“وہ اٹھ بیٹھااورفرحت کی طرف چل پڑا۔
”ایلی ۔“شہزادنے اسے آوازدے کرروکناچاہا۔
مگرایلی کے لئے واپس جاناممکن ہوچکاتھا۔
اتنے قریب اتنے دور
اس رات وہ دیرتک کروٹیں بدلتارہا۔اس کے دل میں عجیب وغریب قسم کے شکوک اورتواہم بھڑوں کے چھتے کی طرح بھنبھنارہے تھے۔سینہ سلگ رہاتھا۔ کلیجہ کوئی مسل رہاتھا۔چاروں طرف سے لہریں سی اٹھ رہی تھیں جوہرساعت مزیدشدت اختیارکرتی جارہی تھیں۔کیایہی محبت ہے جس کے لئے وہ اس قدربیتاب تھا۔کیایہی محبت ہے جس کی شریف اسے تلقین کیاکرتاتھا۔
”محبت کروایلی محبت۔“وہ اس کے روبروکھڑامسکرارہاتھا۔”محبت کروایلی چاہے کسی سے کرو۔“
لیکن شریف کی اپنی کیفیت توایسی نہ تھی۔وہ تو اس طرح کروٹیں نہیں بدلتاتھا۔وہ توبڑے اطمینان سے منہ میں حقے کی نے لیے چھت کوتکتاتھااوراس کے ہونٹوں پرمبہم مسکراہٹ کھیلاکرتی تھی۔اوراس کی آنکھیں گویاہروقت نشے میں رہتی تھیں۔--نہیں نہیں یہ محبت نہیں ۔نہ جانے کیاہے محبت۔نہیں محبت توایک خمارہوتی ہے۔ایک نشہ ،ایک کیفیت!
دراصل اسے شہزادکے برتاوکے متعلق کچھ سمجھ نہ آتاتھا۔کسی وقت تووہ ایلی سے اس قدرقریب آجاتی کہ وہ محسوس کرتاجیسے دونوں ایک جان دوقالب ہوں۔اس وقت اس کے دل میں ایک سنسنی سی دوڑجاتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ فاتح ہو۔جیسے اس نے دنیاکی بہترین نعمت ،بہترین لذت کوپالیاہو۔
لیکن جلد ہی منظربدل جاتااوردوسری ساعت میں شہزاداس سے کوسوں دورچلی جاتی۔جیسے اس کے وجودسے ہی بے خبرہو۔جیسے جانتی ہی نہ ہواوروہ دونوں ایک دوسرے سے قطعی طورپربیگانہ ہوں۔اس بیگانگیت کووہ روح کی گہرائیوں میں شدت سے محسوس کرتااوراس کاجی چاہتاکہ کسی کے گلے لگ کررودے۔چیخیں مارماکررودے اورپھرکوئی اکتارہ پکڑکردنیاکے کونے کونے میں بے وفائی کے گیت گاتاپھرے۔
اسے خیال آتاکہ شہزادکامحبت کاروپ محض ایک دکھلاواہے ۔ٹھیک توہے۔وہ سوچتا۔آخرشہزادکوکیاپڑی ہے کہ ایک بدصورت بے ڈھنگے چھوکرے سے محبت کرے۔کوئی محلے کی لڑکی ہوتی توبھی بات قابل قبول ہوتی۔لیکن شہزاد--وہ تو جس کوچاہتی اپنے روبروجھکاسکتی تھی۔شایداس کامقصدلوگوں کے سرجھکانے کے علاوہ کچھ نہ ہو۔لوگوں کوتسخیرکرنے کے علاوہ کوئی مقصدنہ ہو۔اس خیال پرایلی کے تصورمیں شہزادکرشن بھگوان کی طرح مرلی اٹھاکرایک اندازسے کھڑی ہوجاتی اوراس کے گردسینکڑوں سرجھکے دکھائی دیتے۔اورپھرایلی ان ان دیکھے سروں کوپہچاننے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا۔یہ خوش نصیب کون ہے۔وہ کون۔پھراس کے دل میں وہم اٹھتے اوروہ سوچنے لگتاشایدرفیق وہ خوش نصیب ہو۔جبھی توشہزاداسے دیکھ کرمسکرایاکرتی ہے اورگھنٹوں کسی کونے میں ،سیڑھیوں پر،منڈیریاجنگلے پراس کے سامنے کھڑی رہاکرتی ہے۔مگرکسی وجہ سے اسے یقین نہ پڑتاکہ رفیق شہزادکے لئے جاذب توجہ ہوسکتاہے۔اس کی جیب کے ریشمیں رومال،پریم شاستراورسینٹ کی شیشی اوراس کی آنکھوں میں پڑتی ہوئی بنفشی پھوارکے باوجودجاذب توجہ ہوسکتاہے۔رفیق میں تھاہی کیا--نہیں نہیں--توپھر؟--ایک سوالیہ نشان اس کے روبروآکھڑاہوتا۔پھروہ نشان شریف کی شکل اختیارکرلیتا۔ضروراسے شریف سے محبت ہے جبھی تواس پرمینڈک پھینکاگیاتھا۔جبھی تواس کی آمدپرشہزادکی چال تک بدل جاتی ہے اوروہ سیڑھیاں اترکرچم سے رک جاتی ہے۔
”ایلی وہ بیٹھے چائے پرانتظارکررہے ہیں۔“
اس پرایلی احساس رقابت سے لوٹنے لگتااوراس کے سینے میں ایک جلن سی ہونے لگتی۔رات بھروہ اسی طرح دیوانہ وارکروٹیں بدلتارہااورپھرصبح کے قریب تھک کرسوگیا۔پھرجب وہ چائے پی رہاہوتاتوسیڑھیوں میں--چھم کی آوازسنائی دیتی اورشہزادرقص کرتی ہوئی اس کے روبروآکھڑی ہوتی اورمسکراکرکہتی:
”وہاں کب سے چائے بنی ہوئی ہے اورایلی تم یہاں بیٹھے ہو۔آونا۔“
یہ کہہ کروہ مسکراکروہی نگاہ اس پرڈالتی اوروہ اپنے تمام وہم اورعزم بھول کرپالتو کتے کی طرح اس کے پیچھے چل پڑتا۔
اس پرفرحت چلاتی:
”لے توتوایلی کوانگلی سے پکڑکرلے چلی نا۔“اس کی بات میں دھارہوتی تھی۔
مگرشہزادگویابہری بن جاتی تھی جیسے سناہی نہ ہو۔”اپنی خیرمنا۔“وہ چلاتی۔”کسی روزتجھے انگلی سے پکڑکرنہ لے جاوں۔“
”مجھے کون انگلی پکڑکرلے جاتاہے جی۔“فرحت زیرلب کہتی۔
”تم توآنکھیں دکھاتی ہو ورنہ لے ہی چلوں کبھی۔“شہزادہنستی۔
اوربات ہنسی میں ٹل جاتی۔
پھرہاجرہ مظلوم اندازمیں شہزادکے چوبارے کی چوکھٹ پرآکھڑی ہوتی:
”کب آئے گاتوایلی؟“
”نہیں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔جلدی آجاناایلی۔فرحت کھانے پرانتظارکرتی رہتی ہے۔“
”ٹھیک توہے۔“شہزادہنس کرکہتی۔”یہاںقحط پڑاہے۔کھانے کوتوصرف وہیں ملتاہے فرحت کے ہاں۔“
اوروہ دونوں بچوں کی طرح بیٹھ کرگپیں مارتے اورہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہوجاتے۔اورجانوانہیں دیکھ کرباورچی خانے کے برتنوں کوگھورتی اورآخرزیرلب کہتی۔”لوبیٹھوگے بھی چھنومنو۔یوں بھاگے دوڑتے پھرتے ہیں جیسے میلے پرآئے ہوئے ہوں۔میں کہتی ہوں لوگ دیکھ کرکیاکہتے ہونگے۔“
”جو ان کے جی چاہے وہ کہیں۔جو ہماراجی چاہے گاہم کریں گے۔“شہزادایلی کی طرف وہی نگاہ ڈالتی اورایلی محسوس کرتاجیسے اس ایک نگاہ کے سہارے وہ ساری دنیاکے خل
 
Top