علی پور کا ایلی 156 تا 177

قیصرانی

لائبریرین
اس زمانے میں ایلی کوعلی احمد کی فنکاری کااحساس نہ تھا۔ ان خطوط سے محظوظ ہونے کی بجائے چڑجاتا۔اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ایلی کومضحکہ خیزباتوں پرہنسنانہیں آتاتھا۔وہ ایسی باتوں پراپناتوازن کھوبیٹھتاتھااس کی شخصیت میں توازن اوروضع داری سرے سے مفقودتھی۔
علی احمدایلی کوخرچ ضروربھیجاکرتے تھے اس کی ضروریات سے زیادہ بھیجتے مگرازلی طورپرانہیں تنک بخشی کی عادت تھی وہ خرچ اقساط میں بھیجتے جس کانتیجہ یہ ہوتاکہ وہ پہلی قسط کوجیب میں اس امیدپراٹھائے پھرتاکہ دوسری قسط آنے پرفیس اداکردے گا۔لیکن دوسری قسط موصول ہوتی توپہلی خرچ ہوچکی ہوتی اوراسے تیسری قسط کاانتظار کرناپڑتا۔اس کے علاوہ علی احمدکے خطوط سے جودھندلکاپیداہوجاتااسے صاف کرنے کے لئے بھی توکافی خرچ ہوجاتاتھا۔ان تمام باتوں کانتیجہ یہ ہوتاکہ اس کے مالی حالات ہمیشہ بگڑے رہتے اوراس کاسینمادیکھنا،گنڈیریاں چوسنامونگ پھلی اورریوڑیاں کھانااوربھی ضروری ہوجاتا۔
ان مسائل سے اکتاکروہ انورکے پاس جابیٹھتا۔انوربال کھولے آنکھیں بنائے دیوارکی طرف گھورتے ہوئے کہتی ”ہائے ایلی کیاہوگیا۔“ ایلی کادل چاہتاکہ وہ بھی کسی سے عشق کی لو لگاکربیٹھ جائے اورعلی احمد کے خطوط اورکالج کے دھندلکے سے نجات حاصل کرلے لیکن اس کی سمجھ میں نہ آتاکہ عشق میں انورکی یہ کیفیت دیکھ کرکیسے عشق لگائے اپنی کوششوں کے باوجودوہ کسی سے عشق نہ لگاسکاتھا۔کسی کے سامنے جاکرتواس کی نگاہیں جھک جاتی تھیں۔دل دھک دھک کرنے لگتاتھااورزبان بندہوجاتی تھی۔پھرعشق کیسے لگتااس کی سمجھ میں نہ آتاتھاکہ کیاکرے۔
پھراسے خیال آتاکیوں نہ نذیران سے عشق لگالوں۔وہ نذیراں جوعلی پورکی اندھیری ڈیورھی میں اس کاانتظارکیاکرتی تھی اورجب وہ داخل ہوتاتوکھلکھلاکرہنس پڑتی ”توڈرگیا۔میںہوں۔ایلی میں ہوں۔“ اورپھرایک خوشبودارجسم اس کی طرف بڑھتادوسیاہ آنکھیں ۔موٹے ہونٹ اوربھداچہرہ اوروہ گھبراکربھاگتا۔
نہ جانے اسے نذیراں سے عشق کیوں نہ ہوتاتھا۔نذیراں واحد لڑکی تھی جو اسے دیکھ کراس کی طرف ہاتھ بڑھایاکرتی تھی۔باقی لڑکیاں تو اس کے وجودہی سے منکرتھیں۔اسے تسلیم بھی کرتیں توصرف ایک نگاہ غلط اندازڈال کراپنے کام میں مصروف ہوجاتیں۔مصیبت یہ تھی کہ ایلی کوان لڑکیوں سے ڈرلگتاتھاجواسے دیکھ کربڑھتی تھیں اورتمام لڑکیاںاسے پیاری لگتی تھیں جواسے دیکھ کرفوراً منہ موڑلیاکرتی تھی۔عجیب مصیب تھی۔اس مسئلہ میں اسے مشورہ دینے والاتوکوئی نہ تھا۔صرف ایک ارجمندتھا۔لیکن وہ اس معاملہ میں ایلی کی بالکل مددکرسکتاتھا۔وہ توانکراینڈی ماہا وں کوایک کھیل سمجھتاتھااورلڑکیوں سے یوں کھیلتاتھا۔جیسے وہ کھلونے ہوں انہیں لبھاتا۔چھیڑتاان کامذاق اڑاتا۔
اس کے برعکس ایلی ان کی عزت کرتاتھا۔انہیں پاکیزہ سمجھتاتھااورخاموشی سے انکی پرستش کرناچاہتاتھا۔وہ عشق کوایک بلندوبالاچیزسمجھتاتھاایک ایساتعلق جسے جسم سے کوئی واسطہ نہ ہو۔لیکن وہ تعلق کیسے قائم کیاجائے اس کے بارے میں اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔
دوسال کالج گزارنے کے بعداسے معلوم ہواکہ حاضریوں کی کمی کی وجہ سے اسے امتحان میں نہیں بھیجاجاسکتا۔یہ خبرسن کرگھبراہٹ توضرورہوئی لیکن صرف اس خیال پرکہ علی احمدکوکیاجواب دے گا،ویسے دل ہی دل میں اس نے خوشی محسوس کی کہ امتحان کی مصیبت سے چھٹکاراہوااوروہ فوراً گاڑی میں سوارہوکرعلی پورروانہ ہوگیا۔امتحان کے لئے نام نہیں جاسکتاتوپھرلاہورمیں رہنے کافائدہ؟
واپسی
ایلی کے احاطے میں قدم رکھتے ہی محلے والیوں نے شورمچادیا--”کون آیاہے؟“
”اے ہے ایلی ہے ماں جی اپناہاجرہ کابیٹا۔“
”اچھاہاجرہ کابیٹاآیاہے اللہ زندگی درازکرے۔“
”اب توبہن بابوصاحب بن گیاہے۔“
”بڑالائق لڑکاہے یہ ہاں میں توپہلے سے ہی جانتی تھی۔اے ہے ادھرتوآلڑکے شرماتاکس سے ہے ۔تیری خالائیں اورپھوپھیاں بیٹھی ہیںکوئی غیرتونہیں۔“
”چاچی بڑاشرمیلالڑکاہے۔بڑااچھاہے اوریہ محلے کے چھوکرے ۔توبہ طوفان مچارکھاہے۔انہوں نے۔“
”ابھی پیداہوہی نہیں پاتے اورشرارتیں پہلے ہی شروع کردیتے ہیں۔“
”لیکن ایلی ان لڑکوں سانہیں۔“”اے ہے بہن“چاچی بولی۔”ماں کے گھرکاچراغ اوروہ علی احمدوہ توبہن اپنی ہی دھن میں لگاہے۔بس ہرسال نئی نویلی ملے پرانی توباسی ہوجاتی ہے نا۔“
نہ جانے محلے میں جب بھی ایلی کی بات شروع ہوتی توجلد ہی علی احمداوراس کے شوق کاتذکرہ کیوں چھڑجاتااورپھرلوگ مسلسل طورپرعلی احمدکی باتیں کرتے رہتے جیسے ایلی کاتذکرہ محض علی احمدکی بات چھیڑنے کیلئے ایک بہانہ یامحض ایک تمہید۔محلے کی عورتیں جب بھی علی احمد کی بات چھڑتیں توایلی ان کی بات اوراندازمیں عجیب تضادمحسوس کرتا۔کہنے کوتوعلی احمدکے خلاف شکایات کرتیں اوران کی بری عادت پرہاتھ دھرتیں مگر ان کے اندازسے معلوم ہوتا۔جیسے وہ علی احمدکوسراہ رہی ہوں جیسے ان کی وہ خصوصیت بے حد پیاری ہواورعلی احمد تذکرہ شروع کرنے کے بعدوہ اسے جاری رکھنے پرمجبورہوں۔اسے برابھلاکہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک لہراتی ہونٹ مسکراہٹ کی وجہ سے کھل جاتے اورہلکی سی سرخی نہ جانے کہاں سے ابھرکررخساروں پرجھلکتی ۔ایلی کی سمجھ میں نہ آتاتھاکہ یہ کیسی نکتہ چینی تھی۔کہتی کچھ اورکرتیں کچھ اورسمجھاتی کچھ تھیں۔اثرکچھ اورلیتی تھیں۔
ہاجرہ سے جب وہ ہمدردی جتاتیں توایلی کومحسوس ہوتاکہ ہمدردی کے پردے میں درحقیت اس پرترس کھارہی ہیں”ہائے بیچاری ہاجرہ۔“اماں کہتی”لیکن اس کوکیاپرواعلی احمدجوچاہے کرے ۔اس کی بلاسے لگاتاپھرے عشق جہاں اس کاجی چاہے۔“
”وہ تورنگیلاراجہ ہے۔“دوسری مسکراتی۔
اس پرایلی محسوس کرتاکہ جیسے وہ درپردہ ہاجرہ پرہنس رہی ہوں اورعلی احمد کی اس پیاری خصوصیت پرپھولے نہ سماتی ہوں۔اس مرتبہ ایلی نے پہلی دفعہ محلے والیوں کی اس دورخی کوشدت سے محسوس کیا۔ایلی کے احساسات میں عجیب قسم کی گہرائی پیداہورہی تھی۔روزبروزوہ زودحس ہوتاجارہاتھا۔ایسی باتیں اسے چبھنے لگی تھیں۔
پہلی مرتبہ اس نے محسوس کیاکہ محلے والیوں نے ان کامذاق بنارکھاہے۔انکاہاجرہ سے سستی ہمدردی جتانادرحقیقت اپنی عظمت کااظہارکرنے کاایک ذریعہ تھاوہ ہاجرہ کے لئے کچھ نہ کرسکتی تھیں نہ ی وہ علی احمدسے شکایت کرسکتیں۔شکایت کاسوال ہی پیدانہ ہوتاتھا۔انہیں توالٹاان کی عادت پسند تھی۔علی احمدکی شخصیت پسندتھی اوراخلاق کے متعلق تو وہ صرف وعظ فرماناجانتی تھیں۔یہ سوچ کراس نے محلے والیوں کی باتوں سے اپنی توجہ ہٹالی۔
شریف کی وہ
اتفاق سے انہیں دنوں رخصت لے کرشریف علی پورآگیااورپھرسے شریف میں کھوگیا۔شریف نے ایلی کی طرف دیکھااوراپنی نیم واآنکھیں ایلی کے چہرے پرگاڑدیں۔ایلی نے حیرانی سے شریف کی طرف دیکھا۔اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگروہ ویسے ہی چپ چاپ اس کے منہ کی طرف تکتارہا۔حتیٰ کہ ایلی محسوس کرنے لگا۔جیسے اس کی نگاہیں چیونٹیوں کی طرح اس کے جسم میں دھنسی جارہی ہیں۔اس کی نس نس میں رینگ رہی ہیں۔
شریف کے ہونٹوں پرتبسم چھلکا”گھبراگئے۔“وہ بولا”ابھی سے گھبراگئے۔“اورپھراس طرح ٹکٹکی باندھ کرایلی کی طرف دیکھنے لگااس کی نگاہوں میں عجیب سی مستی تھی۔
”مجھے جانا۔“ایلی نے گھبراکرایک مرتبہ پھراٹھنے کی کوشش کی۔
”تم نہیں جاسکتے ایلی۔“شریف مسکرایا”تم میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوسکتے ۔یہیں بیٹھے رہناہوگا۔میرے روبرومیری نگاہوں کے سامنے اورمیں تمہیں دیکھتارہوں گا۔حتیٰ کہ میری آنکھیں پانی ہوکربہہ جائیں۔تم نے اس کودیکھاہے؟تم اس کے پاس رہے ہو۔یوں ہی تم اس کے روبروبیٹھاکرتے ہوگے اوروہ تمہیں دیکھاکرتی ہوگی۔تم نے اس مکان میں دوسال بسرکئے جس میں وہ رہتی ہے ۔تم اس فضا میں سانس لیاکرتے تھے۔کتناخوش قسمت ہوں میں جوتمہیں دیکھ رہاہوں۔“ شریف کی آنکھوں سے پانی بہہ رہاتھا۔مگراس کی آنکھیں اسی طرح ایلی کوگھورے جارہی تھیں ۔اس کے منہ سے حسب معمول رال بہہ رہی تھی۔چہرے پرحسرت ویاس کی دبیزتہہ چڑھی تھی اوروہ اپنی روئیدادکہے جارہاتھا۔
”کیاوہ وہاں تن تنہارہتی ہے۔اتنی بھیڑمیں تن تنہارہتی ہے ظالموں نے اسے وہاں قیدکررکھاہے۔ انہوں نے اس کے بازوکاٹ دیئے اوروہ تڑپ تڑپ کے وقت گزاررہی ہے۔اس نے تم سے کچھ کہاتھامیرے بارے میں۔“شریف رک گیا۔
ایلی کونفی میں سرہلاتے ہوئے دیکھ کر شریف نے لمبی آہ بھری”وہ کسی سے بات سے نہیں کرے گی۔انہوں نے اسے اس قدرڈرادیاہے کہ وہ گھٹ کرمرجائے گی مگرکسی سے دل کی بات نہ کہے گی اور-اور-“وہ جوش میں اٹھ بیٹھا”یہ سب اس ڈائن کی شرارت ہے۔جسے تم دادای اماں کہتے ہو۔اس خبیث بڑھیاکی۔وہ ہم دونوں کے درمیان دیواربن کرحائل ہوگئی۔اس نے وہ کھڑکیاں کیلوں سے بندکروادیں جو اسطرف کھلتی تھیں۔وہ روزن اینٹوں سے بھروادیئے تھے۔جس سے اس کی آوازمجھ تک پہنچ سکتی تھی۔“شریف بولے جارہاتھااورایلی حیران اس کے سامنے بیٹھاتھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے ۔کیاکرے ۔کس طرح اپنی ہمدردی کااظہارکرے۔
دفعتاًسعیدہ داخل ہوئی۔”شرم نہیں آتی تجھے۔“اس نے حنامالیدہ ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔”اس بچے کوسامنے بٹھاکرروتے ہوئے شرم نہیں آتی۔اس بیچارے کوکیاسنارہاہے تواپناقصہ۔اسے کیامعلوم کیاہوتی ہیں یہ باتیں۔خواہ مخواہ کاپاکھنڈمچارکھاہے۔توتوعورتوں سے ہیٹاہوگیا۔اے ہے مردہزاروں جگہ آنکھیںلڑاتے ہیں اورپھراپنے اپنے دھندے میں لگ جاتے ہیں۔مگریہ میاں ہیں کہ مجنوں بنے ہوئے ہیں ۔چاہے دوسرے کوذرااحساس نہ ہو۔یہ اپنی جان ہلکان کئے جائے گا۔جاایلی تواپنے گھر۔“اس نے حنامالیدہ ہاتھ سے اس کامنہ سہلاتے ہوئے کہا”یہ میاں تومجنوں بننے کی قسم کھائے ہوئے ہیں۔“
اس وقت ایلی کوسعیدہ کے ہاتھ کالمس ناگوارگزرا۔اسے شریف کے پاس سے چلے آنے سے دکھ بھی ہوا۔لیکن اس دکھ میں خوشی کادبادباعنصربھی تھا۔کیونکہ شریف کی باتیں سن سن کراس کے دل میں جذبات کاایک طوفان اکٹھاہوچکاتھا۔جواسے مضطرب کئے جارہاتھا۔وہ چاہتاتھاکہ کہیں اکیلے میں جاکررودے۔شریف کے دکھ پرنہیں بلکہ اپنے دکھ پراپنی بدقسمتی پرکہ وہ کسی سے محبت نہ کرسکا۔
ماں کاآنسو
اگلے روزجب وہ شریف کی طرف جانے کوتیارہواتواماں نے اس کابازوتھالیا”ایلی ٹھہرجامجھے تجھ سے کچھ کہناہے۔“ایلی گھبراگیا۔کیااماں بھی شریف کے خلاف ہیں۔کیاوہ بھی نہیں چاہتیں ۔کہ میں اس سے ملوں۔
”ذراٹھہرجا۔“اماںبولی۔”بیٹھ یہاںابھی میں بھی چلتی ہوں تیرے ساتھ۔“وہاں بیٹھاسوچتارہانہ جانے اماں نے اسے وہاں کیوں بٹھایاتھانہ جانے وہ اس سے کیاکہناچاہتی تھیں۔لیکن وہ توہمیشہ بات کہہ دیاکرتی تھیں۔یوں توانہوں نے کبھی نہ کہاتھا۔ایلی ٹھہرجامجھے تجھ سے کچھ کہناہے۔
کچھ دیر کے بعداماں نے اس کاہاتھ پکڑلیااوراسے نیچے لے گئی۔نچلی منزل میں اس نے ایک کمرے میں جاکراندرسے کنڈی لگالی پھروہ ایلی کی طرف بڑھی۔ایلی کادل دھک دھک کررہاتھا۔نہ جانے وہ اس سے کیاکہنے والی تھیں۔
”ایلی۔“وہ بولی۔”میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے اگرتومیری بات مان لے تومیں سرخروہوجا وں گی اوراگرتو نے انکارکردیاتوبس سمجھ لے کہ آئندہ سے توماں کانہیں باپ کابیٹاہوگا۔“
ایلی حیران تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ اماں کی عزت کیسے بچاسکتاتھا۔آخروہ کونسی بات تھی۔جس پراماں کی عزت کادارومدارتھااوراس کی عزت ہی کیاتھی گھرمیں۔اس کی حیثیت تونوکروں کی سی تھی۔پھرعزت کی بات کرنااورعزت بچانے کاسوال،ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آرہاتھا۔
ہاجرہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑدیئے۔”پھرتم جوچاہے کرلیناایلی اپنی بات پرقائم رہنایابدل جانالیکن اس وقت ہاں کردواگرتم نے ہاں نہ کی توتمہارے اباتمہیں اپنے رشتہ داروں کی جھولی میں ڈال دیں گے اورتم مجھ سے دورہوجا و گے۔“
”لیکن اماں یہ سب کیاہے؟“ایلی نے گھبراکرپوچھا۔”کچھ بتا و تومجھے پتہ چلے۔“
”تمہارے بھلے کی کہتی ہوں بیٹا۔“بولی ”اگرمیں نے ابھی ابھی کچھ نہ کیاتو وہ نہ جانے کیاکردیںگے۔توتوانہیں جانتاہی ہے۔وہ اچھے لوگ نہیں توتوجانتاہی ہے بیٹا۔“یہ کہہ کروہ رونے لگی۔
”لیکن بات کیاہے اماں ۔“وہ گھبراگیا۔
”تووعدہ کرے گاتومیں بتا وں گی۔“اماںنے جواب دیا۔”بس سمجھ لے کہ تیری بہتری ہی کی بات ہے۔
بھلامیں کوئی ایسی بات کرسکتی ہوں جوتیرے لئے اچھی نہ ہو۔بس توایک بارہاں کہہ دے۔“
”اچھااماں جوآپ کی مرضی۔“اس نے بات سمجھے بغیر ہی کشمکش سے نجات حاصل کرنے کے لئے کہہ دیاجواس پرمسلط ہوئی جارہی تھی۔
”اللہ عمردرازکرے۔خوشیاں نصیب کرے۔“ہاجرہ کی باچھیں کھل گئیں۔”میں جانتی تھی تومیری بات ردنہ کرے گا۔میں جانتی تھی تومجھے چھوڑکراباکی طرف نہ جائے گا۔تودیکھ لیجوتیرے لئے ایسی اچھی دولہن چنی ہے میں نے جولاکھوں میں ایک ہے۔لاکھوں میں۔محلے میں اس سے بہترلڑکی نہیں مل سکتی ۔کل تیری منگنی ہوجائے گی اورتیرے اباکے لئے ناممکن ہوجائے گاکہ وہ تجھے اپنے رشتہ داروں کے باندھ دیں۔“
ایلی حیرانی سے اماں کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کی سمجھ میںنہ آرہاتھاکہ آخراماں اس بات کواتنی اہمیت کیوں دے رہی تھیں۔اتنی سی بات کواس قدراہم کیوں سمجھ رہی تھیں۔اس کے ذہن میں توان دنوں اس معاملے کی اہمیت نہ تھی۔اس کاذہن ایک سادہ ورق تھاجس پرمحبت اورازواجی زندگی کاکوئی مبہم نقش بھی مرقوم نہ تھا۔
”لیکن اماں۔“اس نے بصدمشکل کہا”میں مہندی نہیں لگا وں گا۔میں انگوٹھی نہیں پہنوں گا۔“اس کے ذہن میں منگنی اورشادی کے متعلق سب سے بڑی مشکل مہندی اورانگوٹھی تھی۔
”توکچھ بھی نہ کیجو۔جیسے تیرادل چاہے۔میں کوئی رسم بھی نہ ہونے دوں گی۔بس مجھے تو صرف تجھے نامزدکرناہے۔تیرے اباکے رشتہ داروں سے بچاناہے اورمیراکوئی مقصدنہیں۔“
چنددنوں کے بعدمحلے کے چوگان میں علی پورکابہترین بینڈبج رہاتھا۔ایلی اورکلثوم کے گھروں کے درمیان آنے جانے والیوں کاتانتابندھاہواتھا۔عورتیں مرصع اورریشمیں کپڑے پہنے ادھر سے ادھرمٹک رہی تھیں۔لڑکیاں لڑکوں کودیکھ کر”اوئی اللہ“کہہ کرگھونگٹ میں چھپ جاتیں۔بوڑھیوں نے شایدتبسم کوچھپانے کے لئے ہونٹوں پرانگلیاں رکھی ہوئی تھیں۔محلے کی چودھرانیاں مٹھائی کے تھال اٹھائے گھرگھرلڈوبانٹ رہی تھیں۔محلے میں منگنی پرپہلی مرتبہ بتاشوں کی بجائے موتی چورکے لڈوبانٹے جارہے تھے اورایلی اس ہنگامے سے دور رضاکی دوکان کے پچھلے حصے میں چھپ کربیٹھاہواتھا۔اسے لوگوں کے روبروجاتے ہوئے شرم آتی تھی۔اس کے باوجودآتے جاتے لوگ رضاکی دوکان پررک جاتے اورایلی کی منگنی کی بات چھیڑدیتے۔
منگنی
”بڑی دھوم سے منگنی کی ہے ہاجرہ نے کیوں نہ ہوبھئی اکلوتابیٹاہے ماں کی کوئی اپنی خواہش آج تک پوری نہیں ہوئی تواسی بہانے سہی۔ مطلب توخوشی دیکھناہے نابھئی۔“
اس پررضانے ہنستے ہوئے چھپے ہوئے ایلی کی طرف دیکھااوربظاہربڑی سادگی سے باآوازبلندکہا”اورچچاجی لڑکابھی توگدڑی میں لعل ہے۔“
”لیکن وہ چھپاکہاں ہے آج دکھائی نہیںدیتا۔“چچامسکرائے۔”تمہاری دوکان کی گدڑی میں تونہیں چھپاہوا۔“چچانے یہ کہتے ہوئے ہاتھ بڑھاکرپردہ اٹھادیااورایلی کو چھپادیکھ کرہنسنے لگے۔”بھئی واہ ایلی تم یہاں چھپے ہواورمحلے میں تمہاری منگنی کے چرچے ہیں۔واہ بھئی واہ عجیب معاملہ ہے باپ شادی کاشوقین ہے اوربیٹامنگنی پرشرم کے کے مارے چھپاہواہے۔“
ایلی کادل دھک دھک کرنے لگااوروہ سمٹ کرپرانے ڈبوں کے انبارکے پیچھے سرک گیااورچچاہنستے ہوئے چل پڑے۔
پھررضانے شورمچادیا۔”سن لیاگڈری کے لعل اب چھپے رہی رہو گے کیا۔“ایلی کاجی چاہتاتھاکہ رضاکوگالیاں دے لیکن گالی دینااس کے نزدیک جائزنہ تھا۔وہ گالی دینے کی جرات نہ رکھتاتھا”بہت برے ہوتم بہت برے جورازکھول دیتے ہو۔“وہ غصے میں چلایا
رضاقہقہہ مارکرہنسنے لگا”شرمیلومیاںرازتوہوتے ہیں اس لئے کہ انہیں کھولاجائے اورلڑکیاں ہوتی ہیں اس لئے کہ انہیں پھانساجائے آج توتمہیں مونچھوں پرتا ودے کرچلناچاہئے آج تم-لیکن تمہارے منہ پرمونچھ بھی ہو۔“
پھرکوئی محلے والی آنکلی ادھر”ہائیں تویہاں بیٹھاہے۔“اس نے رضاسے کہا”یہاں بیٹھاسے تواورتیرے دوست کی منگنی ہورہی ہے آج توتیری پانچوں گھی میں ہونی چاہیں”فی الحال توسرہی کڑھائی میں ہے۔اماں۔“رضانے سنجیدگی سے جواب دیا”اے ہے۔“ماں مسکراتے ہوئے بولی۔”بات کرنے سے نہ چوکے گاتو۔ایک رگ زیادہ نا۔سچ کہاہے کسی نے لنگڑے کی ایک رگ زیادہ ہوتی ہے۔“
”ایک نہیں ماں یہاں توکئی زیادہ ہیں۔“رضانے جواب دیااوربڑھیاہاتھ چلاتی آنکھوں سے گھورتی اورہونٹوں سے مسکراتی چلی گئی۔
پھرارجمندآکرچلانے لگا”ارے لنگڑے کہاں چھپایاہے اس گدڑی کے لعل کو۔نہیں بتائے گاسالے تودوسری بھی لنگڑی کردوں گا۔“
”یہ تواوربھی اچھاہے۔لپٹنے کے لئے لنگڑی لاجواب ہے۔“رضانے جواب دیا۔
”یہ لپٹن وپٹن سب نکال دوں گابتاکہاں ہے۔“
”یہیں کہیں ہوگاشرم سے منہ چھپائے ہوئے۔“رضانے اشارہ کیا۔
”یہ لپٹن وپٹن سب نکال دوں گابتاکہاں ہے۔“
”ابے تویہاں ہے۔“ارجمنداندرآکربولا”بس ناس کردیاتونے یہ لیبل لگاکرستیاناس ہوگیا۔اینٹ الجرکی قسم تمہاری اس حرکت نے ساراانکراینڈی ختم کرکے رکھ دیا۔اب نہ پریم ٹوٹاکام آئے گانہ پریم سندیس اورنہ پریم پترسب بدک کربھاگ جائیں گی تیری لیبل کودیکھ کر۔ دوست توہمیں بھی لے ڈوباآٹے کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔چل میاں چھپ کے کیوں بیٹھاہے۔چل وہ کپ کیپ اورہکوری ڈکوری جمع ہیں۔بھئی واہ کیاپھبن ہے چل اب پھنس گئی توپھڑکن کیسا۔جوہوگادیکھاجائے گا۔“
عین اس وقت جمیل آگیا”چلو بھائی۔“وہ چلایا”کیایادکروگے کہ دوست کی منگنی پرکچھ نہ کھلایا۔آج جوجی چاہے کھا و۔چلوتنگ گلی کے حلوائی نے تازہ پیڑے بنائے ہیں۔“
”ارجمندکوتوکیپ کپ کی لگی ہے۔چلوہم تینوں چلتے ہیں۔“رضانے شرارت سے لنگڑی ٹانگ کی ہاکی جھلاکرکہا۔
”اچھابھئی اگرپنچوں کی یہی مرضی ہے توآج کے دن ہم بھی پیڑے کھاکرگزارہ کرلیں گے کیاکیاجائے۔“ارجمندبولا۔
مجبوراًایلی ان کے ساتھ چل پڑامگر اسے رہ رہ کرخیال آتاکہ اگر کسی نے اسے مٹھائی کھاتے ہوئے دیکھ لیاتوکیاکہیں گے لوگ اپنی منگنی کی خوشی منارہاہے۔بہانہ بناکراس نے جست لگائی تاکہ رستے میں وہ اس کامذاق نہ اڑائیں۔
ارجمندہنسا”بڑی بے صبری ہے بھئی آج-بیچارے کوکیامعلوم کہ ابھی توصرف سیٹ ریزروہوئی ہے۔ریشمیں گٹھڑی تونصیب سے ملے گی۔“
رضا-ارجمنداورجمیل سے کئی کاٹ کروہ چھپتاچھپاتاسیدھاشریف کے پاس جاپہنچاتاکہ وہاں اطمینان سے بیٹھ سکے۔ شریف اسی طرح منہ میں حقے کی نے لئے چھت کی طرف گھوررہاتھا۔گھرکے سب افرادکلثوم کے یہاں تقریب منانے کے لئے جاچکے تھے۔اس لئے مکان سنسان پڑاتھا۔
”آگئے تم۔“شریف مسکرایا”مجھے معلو م تھا۔تم آ و گے۔ان ظالموںنے تمہیں بھی جکڑدیا۔تمہاری قسمت پربھی مہرثبت کردی۔“اس نے لمبی آہ بھری”ان کی خوشی اسی میں ہے کہ لوگوں کی تقدیروںسے کھیلیں ۔“ایلی کی سمجھ میں نہ آیاکہ وہ کیاکہہ رہاہے۔منگنی کرنے میں تقدیرسے کھیلنے کی کیابات تھی۔
”نہیں۔نہیں۔“وہ دبی آوازسے بولا”اماں نے تومجھے صرف نامزدکیاہے کہ تاکہ ابااپنے رشتہ داروں کی جھولی میں نہ ڈال دیں۔“
”وہ یونہی کہاکرتے ہیں۔ایلی وہ یونہی کہاکرتے ہیں۔وہ یونہی بھولے نوجوانوں کودام میں پھنسایاکرتے ہیںاورتم ان کے دام میں پھنس گئے ہو۔“
”نہیں۔نہیں۔“ایلی چلایا۔اسے یہ جان کرصدمہ ہواکہ شریف اسے بچہ سمجھتاہے۔ایلی کی خواہش تھی کہ شریف اسے دوست سمجھے اورکھل کراس سے باتیںکرے ۔اوراپنی زندگی کے رازبتائے۔یوں مشورے دے جیسے کہ دوستوں کودیئے جاتے ہیں۔
”نہیں۔نہیں“وہ بولا”اماں نے میرے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔“
شریف قہقہہ مارکرہنس پڑا۔حقے کی نے اس کے منہ سے نکل کرنیچے گرپڑی-”ماں کے آنسو۔“وہ ہنساقصائی کی چھری تومفت میں بدنام ہے۔وہ ذبح کرتی ہے ایلی مگراس نے کبھی روپ نہیں بدلا۔اپنے آپ کوکسی اورشکل میں پیش نہیں کیا۔لیکن ما وں کے آنسو۔“اس نے دانت بھینچ کرکہا”وہ اسی طرح ہاتھ جوڑتی ہیں۔آنسوبہاتی ہیںاورپھرجب شکارپھنس جاتاہے تواس پرسواری کرتی ہیں۔ماں کے آنسو۔“شریف نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا۔
عین اس وقت سعیدہ آگئی۔”ہائیں تویہاں بیٹھاہے ایلی۔“وہ چلائی۔”خداکے واسطے۔“
اس نے شریف کے آگے ہاتھ جوڑے۔”خداکے لئے اب ایلی کی زندگی کوتباہ نہ کر۔اپنی توبربادکرلی۔اب اس پررحم کر۔تجھے نہیں معلوم خالہ کی تمام امیدیں اورامنگیں ایلی سے وابستہ ہیں۔“سعیدہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔”میری طرف دیکھ۔“شریف نے ایک دیوانہ وارقہقہہ لگایا۔کہنے لگا۔”ماں کی آرزوئیں پوری ہوں۔بہنوں کی امنگیں پوری ہوں مگر۔“بات ختم کئے بغیروہ خاموش ہوگیااورچھت کی طرف گھورنے لگا۔
”تم نے اس کی ماں کے آنسونہیں دیکھے۔“سعیدہ غصے میں چلائی۔
”تمہارے بھی دیکھ رہاہوں۔“شریف نے مسکراکرکہا”کیافرق پڑتاہے۔“
”ادھرآایلی۔“سعیدہ نے ایلی کابازوپکڑکراسے کھینچ لیا”جاگھرجا۔ماں تیراانتظارکررہی ہے۔یہاں بیٹھ کرکیاحاصل ہوگاتجھے۔جاگھرجا۔“
ایلی چپ چاپ گھرکی طرف روانہ ہوگیا۔اندھیری ڈیوڑھی میںوہ رکاباہرعورتیں باتیں کررہی تھیں ۔
”اچھاہی کیاکیاچاچی ہاجرہ نے جو بیٹے کوابھی سے جکڑلیاورنہ بڑے ہوکریہ قابومیں آتے ہیںکیا۔“
”توبہ کرلڑکی کوئی زمانہ آیاہے۔“
”پرمیں کہتی ہوں چچی بات بگڑتی ہوتوبگڑکرہی رہتی ہے۔چاہے جوکرلوآخراس کے اباکابیاہ بھی توچھٹپٹن میں ہی ہواتھا۔ہاجرہ سے۔اب دیکھ لواس نے کیاکردکھایا۔“
”ٹھیک کہتی ہے توغیب کی بات کون جانے پرمیں کہتی ہوں آخرہے اسی کابیٹا۔یہ کیاکم گل کھلائے گا۔“
ایلی سوچ رہاتھا۔نہ جانے کونسی بات سچی تھی۔اماں کے آنسویاشریف کاقہقہہ۔
ڈیوڑھی سے نکل کروہ چپکے سے دادی کے پاس چلاگیا۔دادی نے اسے دیکھ کرتیوری چڑھائی۔
”اے ہے کہاں بھٹکتاپھرتاہے تو۔ادھرتیری ماں اپناچا وپوراکررہی ہے۔آخروہ تمہاراباپ ہے۔اس کی رضامندی تولی ہوتی تیر ی ماںنے۔رضامندی نہ سہی اس سے بات ہی کی ہوتی آخرگھرکے مردسے بات کرنی ہی چاہیے تھی۔ہاجرہ کی سینہ زوری توبہ کیازمانہ آگیاہے۔یہ دیکھ لوعلی احمد کی چٹھی ۔میرے خط کے جواب میں کیالکھاہے اسنے ۔“دادی اماں نے تخت سے چٹھی اٹھاکراسے دی۔”وہ لکھتاہے ہمیں معلوم نہیں کہ ایلی کی منگنی ہورہی ہے۔کہاں ہورہی ہے۔ایلی کی ماں ہی جانتی ہوگی۔“وہ اپنی مرضی کررہاہے یہ اپنی مرضی کررہی ہے اورتومیرے لال توخواہ مخواہ ان چکی کے پاٹوں میں پساجارہاہے۔آبیٹھ یہاں میرے پاس۔دیکھ تومیں نے تیرے لئے کیامنگوایاہے۔غضب خداکاادھرعلی احمدآنکھیں دکھارہاہے ادھریہ بی بی آنسوچھلکارہی ہے۔آبھی جااب۔“
یہ پہلادن تھاجب اس نے محسوس کیاکہ دادی اماں پریشان ہے ۔اس کے ماتھے پرتیوری چڑھی ہوئی تھی ۔ویسے وہ گھورتی تووہ روزہی تھی۔جب محلے کے لڑکوں پرگرجتی تھی تووہ سب بھاگ کرچھپ جایاکرتے تھے۔مگرایلی کے لئے گویاوہ تیوری محض دکھاوے کی ہوتی تھی۔تیوری ہونے کے باوجودوہ تیوری تلخی کی حامل نہ ہوتی تھی اورایلی اسے دیکھ کرہنس دیاکرتاتھا۔لیکن اس روزدادی اماں تیوری چڑھانے کے بغیر ہی گھوررہی تھی۔جیسے اپنے آپ کوگھوررہی ہو۔اپنی بے بسی پرتلملارہی ہو-
باہر بینڈبج رہاتھا۔دورکلثوم کے گھرمیں لڑکیاں دھولک پرگیت گارہی تھیں۔
”نی متھاتراچندورگابودی کنڈلاں والی او۔“
ایلی کی منسوبہ ثمرہ اس کی خالہ زادبہن کلثوم کی لڑکی تھی۔کلثوم کے گھروہ اکثرجایاکرتاتھااوردیرتک وہاں بیٹھ کرباتیں کیاکرتاتھا۔اس دوران کئی بارثمرہ بھی وہاں آتی یاادھرادھرکام میں مصروف رہتی۔اس کے باوجوداسے ثمرہ کی شکل وصورت کے متعلق کچھ اندازنہ تھا۔منگنی کے روزایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ کہ اس نے ثمرہ کوکبھی دیکھاہی نہیں۔اس کے دل میں آرزوپیداہوئی کہ ثمرہ کوغورسے دیکھے۔کیسی ہے۔لیکن کسی کے گھرجاکرلڑکی کوغورسے دیکھناایلی کے لئے ممکن نہ تھا۔اسے نگاہ اٹھاکردیکھنے کی جرا ت نہ ہوتی تھی اورلڑکیاں بھی توعجیب پاس جاکردیکھوتویوں چنری سنبھال کربیٹھ جاتی ہیں جیسے بے جان گڑیاں ہوں۔دور سے کھڑکی میں کھڑے ہوکردیکھوتومورنیوں کی طرح دم پھیلاپھیلاکرناچتی ہیں۔چڑیوں کی طرح پھدکتی ہیں۔دورسے دیکھنے میں کس قدرلطف آتاتھا۔لیکن قریب سے اب ثمرہ کوقریب سے دیکھنابالکل ہی ممکن نہ رہاتھا۔اب تواس گھرمیں پا وں دھرنامشکل تھا۔
ایلی کی نظرمیں کلثوم کے گھرکے مناظریوں چلنے لگے جیسے فلم چلتی ہے۔دم پھیلاکرناچتی ہوثمرہ سرخی اورپا وڈرسے تھپے ہوئے چہرے والی کلثوم جس کے گلے میں پھولوں کاہارلٹکاکرتے تھے۔اورمرجھائے ہوئے چہرے والارحم علی جو کلثوم کاخاوندتھا-جسے دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے وہ مظلوم ہو۔جیسے وہ کلثو م کامیاں نہیں بلکہ نوکرہو۔دفعتاًایلی کی نگاہوں تلے روغنی چہرے والی ثمرہ گلے میں ہارڈالے آکرچوکی پربیٹھ گئی۔اس اپنے چہرے میں تبدیلی رونماہوئی۔گال پچک گئے منہ پرجھریاں پڑگئیں اورصورت رحم علی کی طرح کی سی ہوگئی اورثمرہ کی چوکی کے قریب یوں جاکھڑاہواجیسے رحم علی ہو۔ایک مظلوم فرد’نوکر‘ایلی چونکااورگھبراکراٹھ بیٹھا۔
”کیاہے تجھے ۔“دادی اماں چلائی”اتنابے قرارکیوں ہے تو۔لیٹ جاآرام سے ۔لیٹ جا“
پھرایلی کی نگاہوں تلے چچاہنسنے لگے”بڑی دھوم سے منگنی کی ہے ہاجرہ نے۔“
”ستیاناس کردیا۔سواستیاناس۔“ارجمندچلایا۔”لیبل لگاکے کیوں مری مٹی خراب کی ۔ساری انکراینڈی ملیامیت ہوگئی۔“
پھرہاجرہ اس کے روبروآکھڑی ہوئی۔اس کے آنکھوں میں آنسوتھے۔”میری عزت تیرے ہاتھ ہے۔“
اچھاکیاچھٹپٹن میں جکڑلیا۔”ایک عورت بولی۔“
ماں کے آنسو۔ہاہاہا۔شریف کاقہقہہ سنائی دیا۔ماں کے آنسووہ تڑپ کراٹھ بیٹھا۔
”کچھ بھی نہیں۔کچھ بھی نہیں۔“دادی اماں نے گویاشریف کی ہاں میں ہاں ملادی۔”کیاہے تجھے “وہ بولی۔
دورلڑکیاں گارہی تھیں۔”بیٹھی ہنجواں دے ہارپروواں۔“
تھیلی میں مینڈک
اگلے روزہاجرہ ایلی کواکیلے میں لے گئی۔کہنے لگی ”شریف کی باتوں میں نہ آناایلی وہ توخواہ مخواہ تجھے گمراہ کررہاہے۔لوکوئی بات ہے بڑااپدیشک دیکھ لو۔شادی کے خلاف پرچارکرتاہے۔بھلاخودکیوں اپنی شادی کروارہاہے۔سعیدہ سے منتیں کیوں کرتاہے۔کیوں اس کے سامنے ہاتھ جوڑتاہے۔“
”ہاتھ جوڑتاہے؟“ایلی نے حیرانی سے پوچھا”وہ کس لئے؟“
”کہتاہے میرابیاہ کرادو۔میں اپناگھربسا وں گا۔دیکھ لو۔خودتواتناچا وہے دوسرابیاہ کرے گا اورتمہیں منگنی کے خلاف اکسارہاہے۔توبہ کوئی حدہوتی ہے زمانہ سازی کی۔“
زمانہ سازی اورشریف ۔ایلی کویقین نہیں آرہاتھا”نہیں نہیںایسانہیں ہوسکتانہیں ہوسکتا۔“وہ اٹھ بیٹھا’‘نہیں اماں یہ کیسے ہوسکتاہے۔“وہ چلایا”پوچھ دیکھ تواس سے ۔“ہاجرہ چمک کربولی۔”میں کیاغلط کہہ رہی ہوں۔“
ہاجرہ کے جانے کے بعدوہ سیدھاشریف کے گھرپہنچااورجاتے ہی بات چھیڑدی۔”آپ کی شادی ہورہی ہے کیا“ا س نے شریف سے پوچھا۔
شریف کے ہونٹوں پرزہرخندپھیل گیاچھت کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے آہ بھری۔”شادی“۔وہ ہنسنے لگا۔عجیب سی ہنسی تھی وہ اس میں مسرت کی بجائے دھمکی تھی خوفناک دھمکی جیسے وہ شادی کی بجائے انتقام لے رہاہو۔اس کے قہقہے میں ایک تسلسل پیداہوتاگیاخوفناک تسلسل اورآوازبتدریج بلندہوتی گئی۔اس قدربلندہوگئی کہ گھرکے سب لوگ بھاگ کراس کے گردجمع ہوگئے۔”کیاہوا۔کیاہوا۔کیابات ہے۔“مگرشریف کسی کوجواب دیئے بغیراسی طرح قہقہہ مارکرہنسے جارہاتھا۔اس کی آنکھوں سے پانی پہنے لگا۔منہ سے رال کے تارنکل رہے تھے۔چہراسرخ ہورہاتھا۔
”اب کیامحلے والوں کوتماشادکھاناہے۔“سعیدہ چلائی۔”یاکوئی نیاکھیل ہے۔“
”اللہ رکھے اگلے ہفتہ برات لے کے جاناہے۔بہن شادی کی خوشی ہے ہنس لینے دو۔“
رابعہ نے بات ٹالنے کے لئے کہااورپھرایلی کاہاتھ پکڑکربولی”آتجھے دکھا وں کیسے اچھے کپڑے بنوائے ہیں اس کی دولہن کے لئے۔“ وہ گھسیٹ کرایلی کودوسرے کمرے میں لے گئی۔
”لیکن خالہ۔“اس نے رابعہ اورسعیدہ سے پوچھا“کہاں ہورہی ہے شریف کی شادی؟“
”بہت دور“رابعہ نے کہا”بہت دورجہاں نوکرہے وہاں نہ جانے کیانام ہے اس جگہ کا۔“
”مگربہن۔“سعیدہ نے کہا”ہیں تووہ خرم آبادکے رہنے والے نوکری نورپورمیں کرتے ہیںنالڑکی کے ابابہت بڑے افسر ہیں۔غلام علی نام ہے۔“دوسرے کمرے میں شریف کاقہقہہ ختم ہوچکاتھااوراب وہ کھانس رہاتھاجیسے تھک کرہارگیاہو۔
”دیکھا“رابعہ نے زیرلب مسکراکرکہا”اکیلے میں سب ٹھیک ہوگیا۔اب وہ کھانس رہاہے تم تو بہن اس کی دیوانگی کواوربھی ہوادیتی ہو۔“
”لومجھے کیامعلوم کہ ایسی ہوتی ہیں یہ باتیں۔“سعیدہ بولی”میں ذراجاکردیکھوں۔“ایلی نے دبی زبان سے کہااورپھرچپکے سے شریف کے پاس جابیٹھا۔شریف آنکھیں موندے ٹیک لگائے چپ چاپ بیٹھاتھا۔ پھردفعتاًاس کی نگاہ ایلی پرپڑی۔ہونٹوں پرتبسم لہرایا”شادی“وہ مدھم آوازمیں بولا”اب شادی کیاہوگی۔جب شادی کی آرزوتھی۔تب تویہ سب میرے راستے میں دیواربن کرکھڑے ہوگئے تھے۔یہ نہیں ہوسکتا۔انوراورشریف کی شادی ہوسکتی نہیں ہوسکتی۔ظالموں نے مجھے قیدکرلیااوراسے شہرسے دورنہ جانے کہاں لے گئے ۔اب کیاہے۔“ا س نے لمبی آہ بھری۔”یہ سمجھتے ہیں میں شادی کررہاہوں۔ان کوکیا معلوم ایلی۔ان میں احساس نہیں۔یہ کیاسمجھیں گے۔“پھروہ ایلی کے قریب ترہوگیااوررازدارانہ اندازمیں بولا”انہیںنہیں معلوم ایلی کے میں صرف اس لئے شادی کررہاہوں کہ اس کادل نہ ٹوٹے۔اس کی زندگی تباہ نہ ہو۔جیسے میری زندگی تباہ ہوئی تھی اوروہ کتنی معصوم ہے تم دیکھوگے تواندازہ ہوگاتمہیں اس بیچاری کوکیامعلوم کہ محبت کسے کہتے ہیں۔“شریفنے جھرجھری لی۔”نہ جانے اسے کیانظرآیاہے مجھے میں۔نہ جانے اسے کیاخوش فہمی ہے۔کاش وہ کسی جیتے جاگتے نوجوان کوچنتی۔مجھ ایسے مردہ شخص میں اب کیارہ گیاہے۔جوتھاوہ لوگوں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گیاہے۔اب کیادھراہے ۔لیکن اسے کون سمجھائے جوابھی دہلیزپرکھڑی مسکرارہی ہو اسے کیامعلوم کہ زندگی کیاچیزہے ۔نہ جانے محبت نے اس پرکیاجادوکردیاہے۔واقعی ہی وہ شہزادی ہے۔اسم بامسمیٰ ہے۔مجھے چھپ چھپ کردیکھنے کے بعدایک روزوہ مکان کی دہلیزسے باہرآگئی۔میرے روبرواوراس نے ایک مینڈک کے ذریعہ اظہارمحبت کردیا۔“
”مینڈک کے ذریعے محبت۔“ایلی نے حیرت سے پوچھا۔
”مینڈک کے ذریعہ اظہارمحبت۔“شریف ہنسنے لگا۔”اس نے مینڈک کوایک تھیلی میں ہی رکھاتھاجب میں سورہاتھاتواس نے وہ تھیلی مجھ پرپھینک دی۔میں ڈرکراٹھ بیٹھاوہ ہنسنے لگی۔“شریف نے ہنستے ہوئے کہا”محبت بھی اظہارکے انوکھے طریقے پیداکرتی ہے۔انوکھے۔“وہ رک گیااورطویل خاموشی کے بعدبولا”مجھے اس کی محبت کااحترام ہے اسے توشایدمیں ٹھکرادیتا۔مگرمحبت کوکیسے ٹھکراسکتاہوں۔میںنے خودمحبت کی ہے۔میں جانتاہوں کہ محبت کیاہوتی ہے۔عجیب چیز ہے محبت۔عجیب‘تم محبت کروایلی۔کسی سے کرومگرمحبت کرو۔“اس نے ایک طویل آہ بھری اورخاموش ہوگیا۔
آٹھ روزکے بعدوہ سب برات لے کرنورپورجارہے تھے۔اس انوکھی لڑکی کودولہن بناکرلانے کے لئے جس میں اتنی جرا ت تھی کہ گھرکی دہلیزسے باہر نکل کرشریف پرمینڈک پھینک سکتی تھی۔وہ لڑکی جسے ایساانوکھااظہارمحبت سوجھ سکتاتھا۔
محلے میں توایک بھی لڑکی ایسی نہ تھی جس میں مذاق کرنے کی صلاحیت ہویاجس میں جرا ت ہو۔انہیں تودبے پا وں چلنے۔چھپ چھپ کرجھانکنے اورمنہ پرپلولے کرمسکرانے کے سواکچھ نہ آتاتھا۔
لڑکے چوگان میں کھڑے ہوکرریشمیی رومال ہلاتے ہلاتے اوربال ٹھیک کرنے کے بہانے سلام کرتے کرتے تھک جاتے مگروہ یوں بے حس وحرکت کھڑی رہتیں۔جیسے پتھرکی بنی ہوئی ہوں چندایک جن پرمحلے کااثرزیادہ نہ تھالڑکوں کودیکھ کردوڑتیں بھاگتیں۔ایک دوسری کوپکڑتیں۔پلوجھٹکتیں۔اسے سنبھالتیں سبھی کچھ کرتیں مگر اظہارمحبت کرناتوکیاانہیں پیغامات محبت کومناسب طورپروصول کرنے تک کاشعورنہ تھا۔
جس دن سے شریف نے ایلی کواپنارازبتایاتھااسی دن سے بیٹھے بٹھائے ایلی کی نگاہوں تلے ایک شوخ متبسم حسینہ آکھڑی ہوتی۔اس کی طرف دیکھ دیکھ کرمسکراتی اورایلی کاجی چاہتاکہ وہ دہلیزسے باہرنکل آئے اورپھرتھیلی میں سلاہوامینڈک دھپ سے اس کے سینے پرآگرے اوروہ گھبراکراٹھ بیٹھے اورفضامیں ایک مدھم مگررنگین قہقہہ یوں گونجے جیسے گھنٹیاں بج رہی ہوں۔
اس روزبرات کے ساتھ نورپورجاتے ہوئے وہ غیرمعمول طورپرخاموش تھا۔کھڑکی سے باہرمٹیالے ٹیلے دوڑرہے تھے۔کبھی کوئی گہراکھڈمنہ پھاڑے آنکلتاجس کے تلے دورپانی کی ندی ناچتی۔پھروہی ٹیلے اوران پریہاں وہاں خشک ٹنڈمنڈدرخت۔ایلی کی نگاہیں اس گلابی افق میں کھوئی ہوئی تھیںجواس کے اندازے کے مطابق ان کی منزل تھااوروہاں گلابی متبسم چہرہ اسے دیکھ دیکھ کرمسکرارہاتھا۔
ڈبے میں بیٹھے ہوئے براتی اپنی باتوں میں مگن تھے۔ہرچندمنٹ کے بعدایک قہقہہ گونجتا۔کسی پرآوازہ کساجاتااورایلی چونک کرادھردیکھتا۔
ایک طرف محلے کے بزرگ تھے دوسری طرف جوان اورتیسری طرف اس کے اپنے ساتھی۔ارجمند،رضااورتفیق ۔ہرگروہ اپنے اپنے مشاغل میں مہمک تھا۔صرف دوفرداکیلے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ایک کونے میں شریف تھاجومسلسل گاڑی کی چھت کوگھورے جارہاتھا۔دوسری طرف ایلی تھا۔جوکھڑکی سے باہر کسی رنگین افق کودیکھنے میں کھویاہواتھا۔ممکن ہے۔ریل کی چھت میں شریف بھی وہی رنگین افق دیکھ رہاہو۔ان دونو ں کومنزل کاخیال لگاہواتھا۔دونوں کے سینوں میں مینڈک کودرہے تھے دونوں کی نگاہوں میں رنگین تبسم جھلملارہے تھے۔
ہرچندمنٹ کے بعدغالباً اپنے تخیل اورمحسوسات کی نوعیت سمجھ کرایلی احساس ندامت سے گھبراجا۔اس خیال پرندامت محسوس کرتاکہ اپنے دوست کی بیوی کوتاک رہاہے۔ محسوس کرتاکہ وہ مجرم ہے پھرگھبراکرلاحول پڑھتااورکسی اوربات کی طرف متوجہ ہونے کی ناکام کوشش کرتا۔پھردفعتاً اس کے تخیل میں شہزادی پیچھے ہٹ جاتی اوراس کی چھوٹی بہن آگے بڑھتی۔شاید اس میں بھی دہلیزپارکرنے کی جرا ت ہو۔شایداسے بھی مینڈک پھینکنے سے دلچسپی ہو۔اس خیال پروہ اطمینان کاسانس لینااورپھراپنے رنگین خواب میں کھوجاتا۔
ایلی کے ذہن میں ایک نئی امیدکروٹ لے رہی تھی۔ایک نئی دنیاابھررہی تھی۔دورسامنے ٹیلے کی اوٹ میں مینڈکوں کی جھیل کے کنارے ایک دوشیزہ اسے دیکھ کرمسکراتی اسے اشارے کرتی ایلی کے جسم پرچیونٹیاں رینگتیں سینے میں مینڈک پھدکتے اوردل میں نہ جانے کیاکیاہوتا۔
شریف بھی باربارچونکتاجیسے وہ بھی خودکومجرم سمجھ رہاہو۔جب وہ اس رنگین منزل کے خیال میں کھویاہواہوتاتوایک سوگوارچہرہ اس کے روبروآکھڑاہوتا۔ستاہوامنہ کھلے پریشان۔ہونٹوں پرزہرخند۔اسے دیکھ کرشریف کواحساس ہوتاکہ وہ انورسے بے وفائی کررہاہے۔انورکی زندگی تباہ کرکے خودرنگین افق آبادکررہاہے۔اس خیال پروہ گھبراجاتا۔پھراس کی آنکھوںمیں حزن وملال کی گھٹائیں ابھرنے لگتیں دل سے آوازبلندہوتی ۔نہیں نہیں میراکیاہے۔یہ سب تواس لئے ہے کہ اس کادل نہ ٹوٹے۔اس کی زندگی تباہ نہ ہو۔
براتی دولہامیاں حالت دیکھ کرمسکراتے۔
”دیکھولوبھئی یہ دولہامیاںہیں یوں اپنی برات لئے جارہے ہیں۔جیسے کوئی دارپرچڑھ رہاہو۔“
علی احمدقہقہہ لگاتے۔”میاں دارہی توہے ۔اس حقیقت کوئی کوئی سمجھتاہے۔“
جوان قہقہہ لگاتے”جبھی توعلی احمددارپرچڑھتے چڑھتے نہیں تھکتے۔“
نوجوان چھپ چھپ کرمسکراتے سرگوشیاں کرتے اورپھرارجمندباآوازبلندکہتا”میاں ایلی تم تویوں بیٹھے ہوجیسے کوئی دارپرچڑھنے والاہو۔“
”کیوں میاں اسے شوق نہیںکیا۔بیٹاکس کاہے۔“
اورسب علی احمدکی طرف دیکھ کرہنستے اورگاڑی چیختی چلاتی ہوئی دوڑے جاتی۔
بالآخرایک وسیع وعریض پلیٹ فارم پرگاڑی رک گئی۔”لوبھئی نورپورآگیا۔“کوئی چلایاایلی کادل اچھل کرحلق میں آپھنسا۔
وہ ایک عجیب ساسٹیشن تھا۔جیسے ایک وسیع وعریض ریس کورس ہو۔پلیٹ فارموں کی چوڑائی اورلمبائی عام پلیٹ فارموں سے کئی گنازیادہ تھی۔سٹیشن کے احاطے کے چاروں طرف قدآدم فصیل تھی۔جس میں ایک پھاٹک لگاتھا۔جس سے ریل اندرداخل ہوتی ایک طرف سرخ رنگ کاایک اونچہ قلعہ بناہواتھاجس کی دیواروں میں بندوق کی نالیوں کے لئے سوراخ چھوڑے ہوئے تھے۔دوسری جانب سٹیشن کے سٹاف کے رہائشی کوارٹرتھے۔ بیٹھے بیٹھے سے معمولی کوارٹر اورقلعہ کے پیچھے اونچے سیاہ پہاڑ۔استادہ تھے۔
ایلی نے تعجب سے چاروں طرف دیکھا۔پھرا س کی نگاہیں ان کوارٹروں کی طرف مرکوزہواسے ایسے محسوس ہورہاتھاجیسے کھڑکیوں اوردروازوں کے پیچھے مینڈکوں سے بھری ہوئی تھیلیاں رکھی ہوں۔
باہرسٹیشن کے احاطے میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں سے مینڈک دستیاب ہوسکتے ہوں۔مینڈک کیاوہاں توتالاب کانام ونشان تک نہ تھا۔
پھروہ ایک بہت بڑے کمرے میں کھاناکھارہے تھے۔بھنے اورتلے ہوئے مرغ مسلم رکابیوںمیںپڑے تھے۔قسم قسم کے چاول اورگوشت ۔وہ حیرانی سے ان بھر قابوں کی طرف دیکھ رہاتھاجوگوشت سے لدے ہوئے تھے۔علی احمد قہقہہ مارکرہنس رہے تھے۔محلے والوں کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں اورشہزادکے والدکی آنکھوں میں گویاپھلجڑیاں چل رہی تھیں۔
”کیاجوڑی ہے۔“چچاچلانے لگے۔”بھائی غلام علی اورعلی احمدکی واہ وا۔“
”وہ کہتے ہیںنا“کسی نے آوازہ کسا”ساجن سے ساجن ملے کرکرلمبے ہاتھ۔“
”بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کربھائی غلام علی۔“علی احمدہنسے اورپھرمسلم مرغ پرپل پڑے۔
پھرایک نوکرانی آکرچلانے لگی“ایلی کواندربلایاہے۔“اندربلارہے ہیں ایلی کو۔ایلی کواندربلایاہے۔چاروں طرف آوازیں سنائی دینے لگیں۔ایک بھیانک دف بجنے لگی۔ایلی کی رگوں میں کوئی دھمکی بجانے لگانگاہوں میں اردگردکی چیزیں دھندلاگئیں۔
اندرجاتے ہی نہ جانے اسے کیاہوااس کی آنکھیں جھک گئیں۔حلق آوازسے خالی ہوگیا۔بازولٹکنے لگے۔چاروں طرف سے بھنبھناہٹ سی سنائی دے رہی تھی مگروہ گردن نہ اٹھاسکتاتھا۔”اپنے علی احمدکاایلی ہے“ محلے والی کی مکروہ آوازسنائی دی۔
”اچھابہن جیتارہے ۔“دوبڑے بڑے ہاتھوں نے اس کے سرپرگرفت میں لے لیااورپھروہ بھاگا۔
نہ جانے ایساکیوں ہوتاتھا۔کیوں جب وہ منزل پرپہنچتاتواس کے پا وں میں چلنے کی سکت نہ رہتی ۔اس کے بازوشل ہوجاتے۔نگاہیں ندامت سے دھندلاجاتیں۔ایساکیوں تھا۔پھرجب وہ تخیلے میں اپنے تخیل کی دنیامیں واپس پہنچتاتواندھے کی طرح منزل سے چمٹ جاتا۔ اس کی گرفت میں دیوانگی کاعنصرپیداہوجاتاتھا۔
مونگیاگٹھڑی
پھروہ نورپورسے واپس آرہے تھے اورایلی احسان ناکامی کی وجہ سے خاموش تھا۔اس کے تخیل کے پرگویاکٹ چکے تھے۔بازو وں میں طاقت پروازنہ رہی تھی۔ اس کے سامنے کوئی افق نہ تھا۔مٹیالے ٹیلے۔ٹنڈمنڈدرخت اورپھیلی ہوئی ویرانی۔
پھرارجمنداسے جھنجھوڑرہا۔”ابے اومردے۔“وہ چلایا۔”توپہلے ہی فوت ہوگیابڑااچھاہوا۔ورنہ آج ہماری طرح حرام موت مرنابچ گیایار۔توہمیشہ ہی بچ جاتاہے۔“
ارجمندکی بات سن کرایلی حیران ہوا۔ارجمندنے توکبھی ایسی بات نہ کی تھی۔اس کے اندازمیں کبھی مایوسی نہ دیکھی تھی ۔پھراسے کیاہواوہ یوں سرکوہاتھ سے تھامے بیٹھاتھا۔جیسے قطعی طورپرتباہ ہوچکاہو۔
”بیٹاہماراتوکلیان ہوگیا۔“وہ دبی آوازمیں بولا۔
”آخربات کیاہے۔“ایلی نے پوچھا۔
”بات۔“ارجمندہنسا۔“دیکھ لورفیق کی آنکھوں میں۔دیکھ لووہ بات۔دیکھ لوکیابیتی ہم پر۔
یارہم اس لائق تونہ تھے۔”ایلی نے رفیق کی طرف دیکھا۔اس کی آنکھوں میں گویابیربہوٹیاں رینگ رہی تھیں۔
”ہے ہے۔“ارجمندبولا“بس سمجھ لووہ منظرجوکپ نے چھ سال کے بعدچھلک کردکھاناتھاآج دیکھ لیاہے میں کیاکروں۔“اس نے لمبی آہ بھری۔”اب تویہی ہے کہ چوہے کی طرح اس ٹکڑے کوکترتے رہیں۔“یہ کہہ کراس نے جیب سے سوکھے ہوئے کیک کاایک ٹکڑانکالااوراسے کترنے لگا۔پھرایلی کی طرف دیکھ کرکہنے لگا”ہے ہے دے تودوں تجھے بیٹامگرجوڈال سے توڑکرکھانے میں بات ہے وہ کہاں اورپھراپن کے یہ ہاتھ بھی دیکھ لے جیسے کوہڑی کے ہوں اوروہ ہاتھ جن سے اس بھکاری کویہ ٹکڑاملاہے۔ہے ہے۔اچھاچل توبھی کرے دیوی کے درشن۔کیاچیزہے خداکی قسم۔آتوبھی کیایادکرے گا۔“وہ اسے گھسیٹ کرڈبے سے باہرلے گیااورپھرملحقہ زنانہ ڈبے میں اسے زبردستی ٹھونس کرچلانے لگا”یہ آیاہے ایلی خالہ سعیدہ کہتاہے میں خالہ سے ملوں گا۔“
”آایلی “خالہ بڑے تپاک سے بولی ”میں توکب سے تیراانتظارکررہی تھی۔یہ ایلی ہے۔میری خالہ ہاجرہ کابیٹا۔“اس نے مونگیاگٹھڑی سے کہاجو پاس ہی سیٹ پردھری تھی۔
مونگیاگٹھڑی میں جنبش ہوئی دوسفید خو ن میں بھیگے ہوئے ہاتھ ایلی کی طرف لپکے ۔تازہ تازہ خون کی بو کاایک ریلاآیا۔ایلی بھاگنے کی سوچ رہاتھاکہ گٹھڑی کے پٹ کھل گئے۔دوگلابی جھیلیں چھلکیں جن میں سیاہ گلاب ابھررہے تھے۔سارے منہ پر مخملی بیربہوٹیاں رینگ رہی تھیں۔پھرایک چھلکاہوتبسم۔ایلی کھڑے کھڑے کاکھڑارہ گیا۔گردوپیش جھلملاکرمعدوم ہوگیا۔
سعیدہ نہ جانے ہاتھ ہاتھ ہلاکرکیاکہہ رہی تھی۔باہر پلیٹ فارم پرارجمندآنکھ بچاکرچھاتی پیٹ رہاتھا۔رفیق ریشمیں رومال ہلارہاتھا۔اس کی آنکھوں میں بونداباندی ہورہی تھی۔پرے علی احمدحسب دستورکولہوں پرہاتھ رکھے ڈبے پرنگاہیں گاڑے کھڑے تھے جیسے کوئی چیل پرتول رہی ہو۔ان کے قریب ہی صفدرانگلیوں میں سگریٹ تھامے چٹکی بجابجاکرگنگنارہاتھا۔”اے دلربامیں ہوفدا۔“ایلی خاموش کھڑاتھا۔نہ جانے کب تک ویسے ہی کھڑارہا۔اسے معلوم نہ تھاکب مونگیاگٹھڑی کے پٹ بندہوئے۔
پھراسے کچھ پتہ نہ تھاکہ کھڑکی کے باہر ٹیلے بھاگ رہے تھے۔یاسرسبزمیدان پھیلے ہوئے تھے۔اس معلوم نہ تھاکہ لوگ باتیں کررہے ہیں یاہنس رہے ہیں۔دل میں ایک شوربرپاتھا۔رگوں میں لہریںاٹھ رہی تھیں۔سینے میں دھنکی بج رہی تھی۔سامنے ایک لق ودق ویرانہ پھیلاہواتھااوراس ویرانے میں ایک مونگیاگٹھڑی پڑی تھی۔اوردوخون آلودہاتھ۔اورگاڑی ہونکتی ہوئی جارہی تھی۔
شہزاد
محلے میں شہزادکی آمدیوں اثراندازہوئی جیسے جوہڑمیں پتھرگرتاہے۔محلے کے بندپانی میں چاروں طرف چھینٹے اڑے جیسے سوڈے میںکسی نے نمک کی چٹکی ڈال دی ہو۔پھرلہریں جوہڑکے طول وعرض تک دوڑگئیں ۔
عورتوں نے اسے دیکھااورہونٹوں پرانگلیاں رکھ کرخاموش ہوگئیں۔بوڑھوں نے آنکھیں پھاڑپھاڑکردیکھا۔مردوں کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔بوڑھے اسے دیکھ کرچپ چاپ مسجد کی طرف چل پڑے اوروہاں جاکرسبحان اللہ کاوردکرنے لگے۔
محلے کے بڑوں میں صرف دورنگیلے آدمی تھے جو عمرمیں بڑے ہونے کے باوجودشوقین مزاج تھے اورزندگی میں لہریں پیداکرنے کے قائل تھے۔علی احمداورمحمداعظم ،انہیں لاحول پڑھنے۔گردن جھکاتے کھانسنے یامسجد میں جاکرسبحان اللہ کاوردکرنے سے قطعاً دلچسپی نہ تھی۔منہ سے گنگنانے کی بجائے سبحان اللہ،ان کی آنکھوں میں منعکس ہوجاتا۔جھجک کرپیچھے ہٹ جانے کی بجائے وہ آگے بڑھ کرکوئی بات چھیڑدیتے۔
”لڑکی تواداس تونہیں ہوگئی یہاں آکر۔“محمداعظم مسکراتے۔”گھبرانہیں دل لگ جائے گا۔“اورپھران کی نگاہوں سے ظاہرہوتاکہ دل لگ کرسب ٹھیک ہوگیاہے۔
صبح سویرے ہی محمداعظم آپہنچے۔”کیوں شہزادکچھ پکانے کھانے کابھی فکرہے یانہیں۔خالی خولی شہزادگی نہیں چلے گی یہاں ،بول کیامنگواناہے بازارسے۔ہائیں بینگن کھائے گی۔آج پھربینگن اونہوں بینگن نہیں کھایاکرتے گرمی ہوجاتی ہے۔اچھاشریف کوکھلائے گی بینگن۔لیکن اسطرح کب تک گزارہ ہوگا۔“اوروہ قہقہہ مارکرہنستے۔”اچھاچائے کاپیالہ توپلاایک سوداکمیشن اداکرنے کے بغیرنہیں جاتاسمجھی،ہائیں توبروک بانڈپیتی ہے۔اونہوں لڑکی چائے لپٹن کی۔“اوران کی متبسم نگاہیں کسی رنگین پیالی سے لپٹ جاتیں اوراندازسے معلوم ہوتاجیسے بینگن کھاکے آئے ہوں۔
محمداعظم کاطریق کارگھریلواندازکاحامل تھا۔ان کی باتوں میں اپنالینے کاپہلوواضح ہوتا۔بات کرتے اوراس دوران میں نگاہوں سے چانچتے۔اکساتے۔علی احمدچل کرجانے کے قائل نہیں تھے ان کی باتوں میں اشاریت کاپہلو ہوتاتھا۔وہ دورکھڑے پہلے توچیل کی طرح منڈلاتے پھرآوازدیتے۔باتوں سے رجھاتے اورتمام تربات زبان کی مددکے بغیرنگاہوں ہی میں طے کرلیتے اوربالآخربرسبیل تذکرہ آوازدیتے۔”میں نے کہاچاچی۔ابھی آجائیں گے چچا۔مسجد ہی میں گئے ہیں توکیوں پریشان ہورہی ہے۔“اورجب چاچی ہنس کرجھاڑجھپٹ کرتی توکہتے میں نے کہا۔یہ شریف کے گھرکی کھڑکی میں کون کھڑی ہے۔کوئی اندھی بہری معلوم ہوتی ہے نہ سلام نہ دعانہ بات نہ چیت-اچھاتوتوہے شہزادمیں سمجھاشایداندرگیس جلارکھاہے۔توآئی نہیں کبھی ۔دکھائی نہیں دیتی۔نہ جانے کن مشاغل میں کھوئی رہتی ہے۔“
علی احمد شہزادکوآوازسنتے توشمیم کے چوبارے سے ملحقہ جنگلے میں نکل آتے اورشمیم کویوں آوازدیتے جیسے شمیم سے بے حدضروری کام پڑگیاہو۔جب سے شہزادنے محلے میں قدم رکھاتھاعلی احمدکوباربارشمیم سے کام پڑرہاتھا۔گھرکے تمام لوگ ان کے اس ضروری کام کی نوعیت سے واقف تھے۔ایسے وقت سیدہ گھٹنوں میں منہ دے کرہنستی۔دادی اماں مسکراکرکہتی۔”توبہ اس لڑکے کوتواپنی سدھ بدھ نہیں رہتی۔“شمیم چوبارے میں ان کی آوازیں سنتی اورتیوری چڑھاکراپنے آپ سے کہتی ۔”میں جانتی ہوں ان کے ضروری کام کواچھی طرح معلوم ہے مجھے۔کون نہیں جانتا۔“شہزادجنگ

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
276-305

ہی نہ ہوباہرمحلے والیوں کاجھمگھٹالگ گیا۔
”ایلی“۔علی احمد نے آوازدی۔”ایلی بھئی یہ راجوتم سے ملنے آئی ہے۔ہی ہی ہی کہتی تھی کہ علی پوردیکھوں گی۔اب یہ کام تمہاراہے ایلی کواسے گھماوپھراو۔ایلی توعلی پورکے چپے چپے سے واقف ہوانا۔ہی ہی ہی ۔کیوں ایلی۔اچھاتوہاجرہ کہاں ہے اسے راجوسے ملائیں ۔“
”سیدہ ۔کیاکررہی ہے ۔تو۔ادھرآناادھردیکھ یہ راجوتجھ سے ملنے آئی ہے اورتووہاں چولہے کے پاس بیٹھی ہے۔ یہ دولت پورکے رہنے والے ہیں۔راجپوت ہیں۔ اپنی دوکانیں ہیں۔زمینیں ہیںسبھی جانتے ہیں انہیں وہاں دولت پورمیں مشہورخاندان کے ہیں۔راجپوت وہاں عزت والے سمجھے جاتے ہیں۔آجاو۔آجاوبیٹھ جاو۔سیدہ راجویہ سیدہ ہے میری بہن کی بیٹی۔میری بیٹی ہی سمجھو۔اپنے یہاںہی رہتی ہے۔اورکہوسیدہ کیاحال چال ہے۔ہاجرہ نہیں آئی۔وہ شمیم کیاہوئی۔سفرکی وجہ سے تھک کرجاپڑی ہوگی اپنے کمرے میں ہی ہی ہی۔اچھابھائی سیدہ ذراچلم میں دوکوئلے تورکھ دینا۔واقعی سفرمیں انسان تھک جاتاہے۔“
وہ مسلسل بولتے گئے جیسے خاموشی سے ڈرتے ہوں جیسی آواز کے تنکے کاسہارالے کرڈوبنے سے بچناچاہتے ہوں اورپھرہربات پران کاقہقہہ گونجتارہاکھوکھلاکھسیانہ قہقہہ جیسے وہ راجوکولانے پرمعذرت کررہے ہوں۔علی احمد“بڑھیانے جواب دیا”ذرادم کی تکلیف ہے ۔رک جاتاہے۔“
”پھرتوبہت تکلیف ہوئی۔“
”اب یہی کچھ ہوناہے نا۔کچھ وقت بیت گیاکچھ بیت جائے گامگر علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔“دادی اماں نے آہستہ سے کہا۔
”اوہواماں۔“وہ ہنسے ”بہت دبلی ہوگئی ہو۔کوئی دواداروکررہی ہو۔“ علی احمدکویوں بات بدلتے دیکھ کروہ مسکراکربولی ”علی احمدتیری عادت نہ بدلی اوردواکاکیاپوچھتے ہو۔اب تودعاکرو۔“
”نہیں نہیں۔“وہ بولے”میں ڈاکٹرکوبلاوں گااس سے پوچھوں گا۔“اورپھرراجوکے پاس یوں جابیٹھے جیسے وہ خودمریض ہوں اورڈاکٹران کی طرف دیکھ کرمسکرانے لگی اورپھرعلی احمدکے کمرے کادروازہ بندہوگیا۔
گورودیومہاراج
راجوکے آنے پرایک دن محلے میں یہی شغل رہاایک مسکراکرپوچھتی ”علی احمدیہ توکیالے آیاہے۔“
علی احمدمسکراکرجواب دیتے ”چچی یہی تومجھے تم سے پوچھناہے یہ میں کیالایاہوں۔خسارہ کاسودانہیں۔“
دوسری پوچھتی” علی احمدیہ کیالے آیاتودیکھنے میں توکچھ بھی نہیں۔“
علی احمدہنس کرکہتے ”ہاں بہن دیکھنے میں کچھ نہیں۔“
پھرکوئی محلے والاچلاتا۔”علی احمداب تمہارے دن نہیںرہے۔“
”ہاں بھئی صاحب۔“وہ ہنستے ”جبھی توراتیں منارہاہوں۔“
ایلی جوراجوکودیکھ کرحیران تھااس میں وہ بات ہی نہ تھی۔کوئی بھی توبات نہ تھی اس میں۔بالکل چلاہواپٹاخہ نہ جانے کیاہوگیاتھااسے۔جیسے کچھ ہوگیاہو۔
اگلے روزجب ایلی نے ارجمندسے بات کی تووہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔”بھئی وا ہ ایلی تم تیلی کے تیلی ہی رہے صرف علی احمدہی سیانے آدمی ہیں باقی تو سب الوکے پٹھے رہتے ہیں۔یہاں وہ ہاتھی کے دانت نہیں پالتے جوکھانے کے نہیں بلکہ دکھانے کے ہوں سمجھے میاں۔پیٹ کی بھوک آنکھیں سیراب کرنے سے نہیں مٹتی۔سمجھے مگرتم کیاسمجھوگے۔تم توہوئے تیلی کے تیلی۔مطلب یہ ہے بیٹاوہ کہاہے سیانوں نے کہ عورت دیکھنے کے لیے نہیںلائی جاتی گھرمیں۔پھرصورت پرکیاجاتا۔تمہارے اباتوگردویومہاراج ہیں۔دھن ہیں گردویومہاراج وہ انکراینڈی سیکھ رکھاہے کہ واہ وا۔یوں اڑی چلی آتی ہیںجیسے شمع پرپروانہ آتاہے۔آہاکیاگرسیکھ رکھاہے تمہارے ابانے بیٹااپنے اباکی قدرومنزلت اس خاکسارسے پوچھو۔اپنے خادم سے پوچھو۔خاکسارپرانی کھلاڑی ہے۔خاکسارنے یہ کھیل ڈسپنری کی میزوں پرسیکھاتھااورآج اتنے سال کے بعدجب خاکسارشاہ کاکوگیااورجناب یوں سمجھولوکہ ایک طرف شاہ گاوں ہے اوردوسری طرف کاکوگاوں اوردرمیان میں بروزے کی فیکٹری ہے جہاں خاکسارسٹورکیپرہے ۔ادھرسے شاہ کی شہزادیاں آتی ہیںاورادھرسے کاکو کی کراریاں۔خاکسارایک نظرادھررکھتاہے۔دوسری ادھر۔ اس قدرچاق وچوبندرہنے کے باوجودنتیجہ کیاہے۔بالکل فیل۔چھ ماہ میں صرف دوپھنسی تھیں اوروہ بھی سمجھ لومجبوری سے۔لیکن تمہارے ابا۔سبحان اللہ گرودیوجی مہاراج وہ انکراینڈی چلاتاہے بڈھاکہ دولت پورسے علی پورچلی آتی ہیں۔واہ وا۔بیٹابڑے ہوکرفخرکیاکروگے اس بڈھے کے کارناموں پر۔مگریاراس سے وہ نسخہ تولے لوجووہ استعمال کرتاہے۔ بیٹاہمارایہ کام کروگے توسداسکھی رہوگے۔“
اب تومحلے کے سبھی لوگ اس بارے میں ایلی سے کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے بے تاب ہورہے تھے۔
ایک کہتا”میاں ایلی مبارک ہو۔“
دوسراکہتا”کہونئی ماں پسندآئی۔“
تیسراکہتا”کیوں ایلی تم کب تک دیکھتے رہوگے میاں اب توتمہارے دن آگئے۔“
کوئی کہتی ”ایلی تیرے اباکاچناوکیساہے۔“
ایک بولتی ”ایلی تونہ اس راہ پرپیلوچھوڑاس کو۔اس نے تواپنی جندگی تباہ کرلی۔“
پھراتفاق سے محلے میں دوایک شادیوں کااہتمام شروع ہوگیااورلوگوں کی توجہ علی احمداورراجوسے ہٹ کرشادیوں کی طرف مبذول ہوگئی۔

سفینہ اورنور
میراثین
انہی دنوں علی پورمیں میراثنوں کاایک نیاٹولہ آیاتھا۔ان میں ایک میراثن زہرہ غضب کی رسیلی تھی۔جب وہ گاتی اس کاحلیہ ہی بدل جاتا۔اس پرایک عجیب کیفیت چھاجاتی ایسی کیفیت کہ دیکھنے والے مبہوت ہوکررہ جاتے۔
محلے کہ جوان بیچارے انتظارمیں رہتے تھے کہ کوئی بہانہ ہاتھ آئے تووہ میراثنوں کوبلائیں اورچھت پرچاندی بیٹھ کرزہرہ کوگاتے دیکھیں۔
کوٹھے پرایک طرف عورتیں بیٹھ جاتیں۔درمیان میں میراثنوں کے لئے جگہ مقررکردی جاتی۔دوسری طرف محلے کے جوان بیٹھ کرزہرہ کی طرف متبسم نگاہوں سے دیکھتے ۔جب وہ عورتوں کی طرف دیکھتی تواس کے چہرے پرمردنی چھائی ہوتی۔لیکن جب وہ جوانوں کی طرف آنکھ اٹھاتی تودفعتاًگویاسوکھاہواپھول ازسرنوتازہ ہوجاتااس پرجوانوں کے ہاتھ چپ چاپ جیبوں میں کچھ ٹٹولنے لگتے۔زہرہ کے ساتھیوں کے چہروں پرمسرت کی لہردوڑجاتی اوران کی تانوں میں جوش پیداہوجاتا۔
محلے کی عورتیں میراثنوں کوپسندنہ کرتی تھیں اگرچہ وہ اس بات کوتسلیم کرنے پرمجبورتھیں کہ ان کے آنے سے محلے میں رونق کی لہر دوڑجاتی ہے اورتقریب میں چہل پہل پیداہوجاتی ہے۔مگرنوجوانوںکامسکرامسکراکرزہرہ کی طرف دیکھنااورروپے پرروپے دیتے جاناانہیں بے حدناپسندتھا۔
محلے میں صرف چندایک لڑکیاں ایسی تھیں جومحلے کی عام عورتوں کے برعکس ایسے مواقع پرخوش دکھائی دیاکرتی تھیں ان میں شہزادپیش پیش تھی۔ڈھولک کی آوازسن کراس کی آنکھوں میں گلابی چھینٹے اڑنے لگتے شانوں پرریشمیں ڈوپٹے کاسنبھالنامشکل ہوجاتا۔بازویوں بات بات پرلہراتے جیسے کتھاکلی کے مندرااداکررہی ہو۔اس کی آوازبھی بدل جاتی تھی۔گلے کے سرچڑھ جاتے اوربات میں تھا۔لوچ پیداہوجاتا۔
ہرنی ہے ہرنی
شہزادکی اس بات پرمحلہ والیوں میں چہ میگوئیاں ہوتی ۔دبی دبی آوازیں سنائی دیتیں۔
”آخرخاندان کااثر نہیں جاتابہن۔“
”خودبھی توگاتی ہے۔سناتھا۔جب دولہن بن کرآئی تھی خوداپنے بیاہ پرگانے لگی تھی۔توبہ ذرانہ جھجھکی۔“
”میں کہتی ہوں چاچی یہ چیزیں خون میں ہوتی ہیں ہاں کہے دیتی ہوں۔“
”ابھی تودیکھتی جاوچاچی۔ابھی دیکھاکیاہے۔“
”نہ اللہ نہ کرے۔اب توخدااٹھاہی لے تواچھاہے بہن۔“
”ہے اوروہ میراثن توبہ یوں دیکھتی ہے ۔جیسے آنکھوں کی جگہ میخیں ہوں۔بس گاڑدیتی ہے نگاہیں۔“
”آج کل کے نوجوانوں کوتویہی پسندہے بہن۔“
”توبہ وہ توان میخوں پربچھے جاتے ہیں۔“
جب سے شہزادمحلے میں آئی تھی۔محلہ والیاں اسے حیرانی سے دیکھتی تھیں اورمنہ میں انگلی ڈال کرکھڑی کھڑی رہ جاتیں۔مگرشہزادنے کبھی اس تفیصل کواہمیت نہ دی تھی۔اسے محسوس ہی نہ ہواتھا کہ وہ اس کی طرف حیرانی سے دیکھتی ہیں اوراس کی حرکات کابغورجائزہ لیتی ہیں۔
وہ چلتے چلتے چاچی کی طرف دیکھ کرشورمچادیتی۔”سناچاچی کس کاانتظارکررہی ہے۔فکرنہ کرواب آتے ہی ہوں گے ۔چچا۔“اورپیشتراس کے کہ چاچی جواب دیتی وہ اس کے پاس سے نکل جاتی اورکسی اورسے جاکربات کرنے لگتی۔
”باباعمروہیں۔سلام کہتی ہوںبابا۔نمازپڑھ کرآئے ہو۔یہ کس وقت کی نمازہوئی ۔دن میں نونمازیں پڑھتے ہوکیا۔“اورپیشتراس کے باباکچھ کہیں وہ کسی بچے سے بات شروع کردیتی۔
”شہزادکی عادتیں انوکھی تھیںجومحلے والیوں کی نگاہوں میں کھٹکتیں مگر اس کی ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے ۔
رفیق اورسکینہ
محلہ والیاں خاموش رہتی تھیں۔پھربھی دبی دبی رہنے کے باوجودبات نہ دبی اورمحلہ والیوں کی شرگوشیاں جاری رہیں۔”ہرنی ہے ہرنی۔“وہ اسے دیکھ کرکہتیں ۔”کلیلس بھرتی ہے۔“شایدسرگوشیوں میں لذت پیدانہیں ہوتی۔
اس لئے آہستہ آہستہ ان سرگوشیوں میں شہزادکے ساتھ رفیق کانام شامل کرلیاگیااورمحلے والیاں رفیق کی طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔شایدرفیق کی طرف انگلیاں نہ اٹھتیں مگرمشکل یہ تھی کہ رفیق کی شادی ہوچکی تھی اوروہ بچپن ہی سے سکینہ کاخاوندبن چکاتھاجو اس کی ہرحرکت پرکڑی نگاہ رکھتی تھی اوراس کی ہرجنبش میں مقصدڈھونڈتی تھی۔رفیق کی آنکھوں میں بونداباندی ہوتی دیکھ کراس کے کپڑوں میں عطرکی خوشبومحسوس کرکے وہ ایک گہری سوچ میں پڑجاتی۔
رفیق اورسکینہ ایک قدامت پسندگھرانے کے افرادتھے۔ خاوندبیوی ہونے کے باوجودایک دوسرے سے آزادانہ طورپرمل نہ سکتے تھے۔ایک دوسرے سے بات کرنے کے لئے بھی انہیں بہانوں کاسہارالیناپڑتاتھااورپھرموقعہ اورمحل کودیکھناپڑتا۔رفیق کورومال دھلواناہوتاتووہ اسے دھوڈالناآج۔“یہ کہتے ہوئے وہ سکینہ کی طرف قطعی طورپرنہ دیکھتااورچولہے کے قریب بیٹھی ہوئی،سکینہ ہنڈیامیں جھانکتے ہوئے گنگناتی”رکھ دیجئے۔“پھررفیق رومال کوجھاڑکریوں گرادیتاجیسے مداری تماشادکھارہاہو۔پھروہ باہرنکل جاتااورسکینہ لمباگھونگٹ سنبھالے آتی اورگراہوارومال اٹھالیتی اوراس سمت قطعی طورپرنہ دیکھتی۔جس سمت کورفیق گیاہوتا۔ان حالات میں سکینہ اپنے شوہرکونیچی نظروں سے دیکھنے کے سوااورکرہی کیاسکتی تھی۔اس کے برعکس رفیق شہزادسے سراٹھاکرملتاتھا۔اگرچہ بات عزت سے کرتاتھا۔لیکن اس کابہانے بہانے شہزادسے ملنا”چچی کچھ منگواناتونہیں۔میں بازارجارہاہوں۔چچی ایسے اچھے چاول آئے ہیں۔بنواری لال کی دوکان پرمنگوانے ہیں کیا۔چچی چائے سستی ہوگئی ہے۔چچی بڑااچھاکپڑامنڈی میں آیاہے۔“
دن میں رفیق دوبارشہزادکی طرف جاتااورپھردیرتک آہستہ آہستہ اس سے باتیں کرتارہتااورباتوں کے دوران میں سی سی کرنے کے علاوہ جھجکتااورگھبراگھبراکرادھرادھردیکھتا۔اس وقت اس کی آنکھوں سے پھلجھڑیاں چلتیں اورکانوں پرسرخ چیونٹیاں رینگتیں۔
رفیق کی بیوی سکینہ اسے شہزادکی طرف آتے دیکھ کراپنے لمبے گھونگٹ سمیت کوٹھے پرچڑھ آتی اوران کی طرف کھڑکی چھت یاطاق سے چوری چوری جھانکتی۔انہیں قریب قریب کھڑے دیکھ کررفیق کے متعلق نہ جانے کیاکیااندازے لگاتی۔پھراکیلے میں بیٹھ کرآنسوبہاتی اورمحلے والیاں اسے اداس دیکھ کرچہ میگوئیاں کرتیں اوران کی سرگوشیوں میں رفیق اورشہزادکے نام سنائی دیتے۔
ایلی نے بھی کئی ایک بارانہیں یوں قریب کھڑے باتیں کرتے ہوئے دیکھاتھااورخواہ مخواہ اس کے دل میں بھی جلن پیداہوئی تھی۔پھرتنہائی میں بیٹھ کرسوچتارہاتھا”رفیق اثر پیداکرسکتاہے توکیاہے۔“اس نے لاحول پڑھ کراس خیال کودل سے نکال دیاتھا۔لیکن یہ تواس زمانے کی بات تھی جب اسے تسلیم سے محبت نہ ہوئی تھی۔اب توجب بھی شہزادکی طرف دیکھتاتواس کی نگاہوں میں شہزادکے خدوخال دھندلے پڑجاتے اوراس رنگین دھندلکے میں سفیددھبے چمکتے اورگنگھریالے بالوں کی لٹ لہراتی اوروہ محسوس کرتاجیسے وہ شہزادنہیں بلکہ تسلیم ہوجیسے تسلیم نے بھیس بدل رکھاہو۔
ڈبل اینٹ
علی پورکے ان مشاغل میں ایلی کی چھٹیاں گویاچشم زون میں ختم ہوگئیں ۔اوروہ علی پورسے امرتسرچلاآیاکالج جانے سے پہلے آصف کے گھرگیااوردیرتک اسے آوازیں دیتارہابالآخران کانوکرنیچے آیا۔”آصف صاحب ہیں۔“اس نے پوچھا۔”جی میں دیکھتاہوں۔“وہ بولا”آپ کانام کیاہے؟“آصف نے توکبھی ایسانہ کیاتھا۔جب بھی ایلی اس تنگ گلی میں کھڑاہوکرآوازدیتاتوکھڑکی سے آصف جھانکتااورمسکراکرکہتا”آیاابھی۔“اس سے پہلے تونوکرنے کبھی نیچے آکرنہ کہاتھا”جی میں دیکھتاہوں۔آپ کانام کیاہے۔“
نوکردوسری بارآیا”جی آئیے۔“وہ بولا۔وہ اسے بیٹھک میں لے گیا۔”بیٹھے وہ ابھی آتے ہیں۔“وہ بیٹھک بہت ہی مختصرساکمرہ تھاجس کے کونے میں پلنگ پڑاتھااوردوسری جانب ایک میزاوردوکرسیاں رکھی ہوئی تھی،دوبڑی کھڑکیاں اورروشندان گلی میں کھلتے تھے۔ایلی نے آصف کی بیٹھک کودیکھ کرمحسوس کیاجیسی وہ بدلی بدلی سی ہو۔پہلے تواس میں اتنااندھیرانہ ہوتاتھانہ ہی وہ اس قدرویران تھی۔پہلے روشندانوں میں شیشے لگے ہوئے تھے لیکن اب ان پرٹاٹ لگاکربندکردیاگیاتھا۔
کچھ دیرکے بعدآصف داخل ہوااس کاچہرہ زردتھاآنکھیں روئی روئی نظرآتی تھیں اوراندازمیں جھجک تھی۔ایلی طرف دیکھ کراس نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن اس کی مسکراہٹ بے حداداس تھی۔
”تم آگئے ۔“وہ بولا”میں محسوس کررہاتھاکہ تم کبھی نہیں آو گے اورکالج ہمیشہ بندپڑارہے گااور--اور--”اس کی آنکھیں بھرآئیں۔
”تم بیمارہوکیا؟“ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
”نہیں ۔ہاں بیماری سمجھ لو۔“وہ بولا۔
”کیاتکلیف ہے۔؟“ایلی نے پوچھا۔
”تکلیف ۔“آصف مسکرایا”تکلیف نہیں روگ لگاہے۔“وہ ایلی کے قریب ترہوکرزیرلب باتیں کررہاتھا۔جیسے اپنی آوازسے ڈررہاہو۔
”آخربات بھی توبتاونا؟“ایلی نے چیخ کرکہا۔
آصف گھبراگیا۔”خداکے لئے آہستہ بولو۔کوئی سن نہ لے۔“
”کون سن رہاہے تمہاری بات۔“ایلی نے پوچھا
”سن رہاہے۔سن رہاہے۔“ اس نے روشن دانوں کی طرف اشارہ کیا۔
عین اس وقت گلی میں کسی نے قہقہہ لگایا۔ایلی چونکا:”یہ کون ہنس رہی ہے؟“
چلویہاں سے چلیں ۔وہ گھبراکربولا:”لیکن ایسے نہیں تم پہلے جاو میں آجاوں گا۔بازارمیں ملوں گا۔جلدی کرو جلدی۔“
اس کارنگ ہلدی کی طرف زردہورہاتھا۔”کھڑکی کھول دو۔“قریب سے پھروہ عجیب وغریب آوازآئی۔
”یہ ہے کون؟“ایلی نے پوچھا۔آصف کاچہرہ اوربھی زردپڑگیا۔ہونٹ کانپنے لگے۔”خداکے لیے بازارمیں میراانتظارکرنا۔شایدمجھے دیرہوجائے۔“
عین اس وقت ایک ڈبل اینٹ روشندان کے ٹاٹ سے ٹکراکردھڑام سے گلی میں گری۔
باہرنکلتے ہوئے ایلی نے چوری چوری ایک نظرمقابل کے چوبارے پرڈالی۔کھڑکی میں کوئی کھڑاتھا۔اس کے سیاہ لمبے بال کھلے ہوئے تھے اورچہرہ سرخ ہورہاتھا۔
”اس سے کہوباہر نکلے۔“وہ چلائی۔
ایلی ڈرکربھاگاکہ کوئی اینٹ اس کے سرپرنہ گرجائے۔
کوئی نہیںکسی سے نہیں
بازارمیں وہ دیرتک ٹہلتارہامگرآصف نہ آیااس کاجی چاہتاتھاکہ پھرسے گلی میں داخل ہوجائے اورجاکراسے آوازدے مگرجرا¿ت نہ پڑتی تھی۔نہ جانے وہ اینٹ کس نے ماری تھی نہ جانے وہ ڈانٹ کیوں رہی تھی۔نہ جانے وہ کون تھی اورحالات کیاتھے۔دیرتک وہ کھڑاسوچتارہااورپھران جانے میں اس نے اپنارخ آغاکے گھرکی طرف موڑلیااورپھرجواس نے نگاہ اٹھاکردیکھاتووہ تسلیم کی سیڑھیوں میں کھڑاتھا۔غیرازمعمول اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔لیکن گھرگویاویران پڑاتھاکوئی آوازنہیں آرہی تھی ڈیوڑھی زینہ اوربیٹھک سب ویران پڑے تھے۔اس نے پھردروازہ کھٹکھٹایا۔دورسے پاوں کی چاپ سنائی دی۔اس کادل دھڑکنے لگا۔
”کو ن ہے؟“تسلیم کی آواز سن کراس کے اوسان خطاہوگئے۔دروازے میں تسلیم کاسفیدڈوپٹہ لہرایااورپھرایک گھنگھریالی لٹ جھلکی۔
”تسلیم۔“ایلی نے زیرلب کہا۔
”اوئی اللہ۔“وہ چلاپیچھے ہٹ گئی اورپھرہنسنے لگی۔
”گھرکوئی نہیں۔“وہ ہنستی ہوئے بولی۔اس کی ہنسی میں واضح اشارہ تھا۔
”مجھے کوئی نہیں سے ملتاہے۔“ایلی نے کہا۔
”کوئی نہیں۔کسی سے نہیں ملتے ۔“وہ پھرہنسی۔
”ہاں ہاں۔“ایلی نے کہا۔”میں کسی سے نہیں ہوں۔“
”پڑے ہو۔“وہ تنک کربولی۔”ہم کیاکریں۔“
”یہی توتمہیں بتانے آیاہوں۔“وہ بولا۔کہ تم کیاکرو۔“
”نہ جی۔“ وہ کہنے لگی۔”ہمیں نہ بتائیے کچھ ۔ہم نہیں سنتے ایسی ویسی بات۔کہوکام کیاہے؟“
”کام وہ آن پڑاہے۔“ایلی گنگنانے لگا”خداکے لئے ذرادروازے میں توآو۔“
”نہ میں نہیں آتی۔“
”ضروری بات ہے۔“وہ منتیں کرنے لگا۔
”پڑی ہو۔“وہ بولی۔
ایلی نے دروازہ کھول دیا۔”اچھاتومیں آتاہوں۔“خداکے لئے ۔خداکے لئے۔“وہ چلائی ۔”وہ آنے ہی والے ہیں۔“
”توپھروعدہ کروکہ تم مجھ سے ملوگی۔“ایک فاتح کی طرح باچھیں کھل گئیں۔
”ملنے سے مطلب !“وہ بولی۔
”تمہیں دیکھناہے۔“ایلی نے جواب دیا۔
”دیکھناہے۔“وہ قہقہہ مارکرہنسی ”دیکھ کرکیالیں گے۔“
”کیالینے دینے کے بغیردیکھانہیں جاسکتا۔“
”بس جی بس۔“وہ چڑکربولی۔”اب جانے دوورنہ ۔“
”ورنہ ۔“وہ چلایا۔”میں اندرآرہاہوں۔۔۔۔۔۔۔
”نہیں نہیں۔“اس نے منت کی ۔
توپھرملنے کاوعدہ کروجلدی ۔“
”ملوں گی،ملوں گی۔“
”کب؟“
”کہہ جودیاملوں گی۔جاونااب۔جاوبھی۔“وہ چڑکربولی۔
ایلی سیڑھیاں اترتے ہوئے سوچنے لگا۔اگروہ اوپرسے ایک ڈبل اینٹ مارے یاپتھرہی سہی توزندگی کتنی دلفریب ہوجائے۔وہ چاہتاتھاکہ کچھ ہوجائے کوئی شرارت ۔کوئی شرارت۔کوئی حرکت جس سے زندگی زندگی بن جائے چاہے جو کچھ بھی ہویہ سوچتاہواوہ چپ چاپ آموں کی کوٹھی کی طرف طرف چل پڑا۔
پٹھو
جونہی وہ بورڈنگ میں پہنچا۔اللہ دادنے لپک کراسے پکڑلیااوراسے شانوں پراٹھاکرناچنے لگا۔ایلی نے شورمچایا۔ٹانگیں چلائیں۔لیکن بے کار۔اللہ دادنے اسے اٹھائے رکھا۔”شفیع اوشفیع اب بن گئی بات۔اب تووہ باونڈری لگائیں گے کہ یہ مہاشے یادکریں گے۔“شفیع کوتلاش کرنے کے بعدوہ دونوں ویسے ہی ایلی کواٹھائے ہوئے جلوس کی صورت میں ہرکمرے میں گھومنے لگے۔
”لوبھئی ہوجاوتیارہرنام سیاں اورگوبندرام ذراآجاومیدان میں ہماراپٹھوبھی پہنچ گیاہے وہ باونڈری لگے کی کہ یادرکھوگے۔“
ہرنام سنگھ نے انہیں دیکھ کرمونچھ مروڑی ”واہ گرو۔“وہ دھاڑنے لگا۔”وہ ہتھ دکھاوں گا کہ یادکروگے۔۔۔“
اللہ دادنے طنزبھراقہقہہ لگایا”توآجاومیدان میں میرے یار۔“
پھروہ رام گوپال کے کمرے میں جاگھسے ”نکل آبے رامو۔“اللہ دادچلایا”دیکھیں گے آج تیرے ہاتھ ابے مسلوں کے سامنے کیاٹھہروگے تم۔آدم خورہوتے ہیں ہاں۔
رام گوپال نے ایک نعرہ لگایاجسے کاتی ماتابجرنگ بلی اورچھلانگ مارکرباہرنکل آیا۔
یونہی جلوس بڑھتاگیا۔وہ ہرکمرے میں داخل ہوتے اورپھرباہرنکل کرنعرے لگاتے اورلڑکوں کونکال کرآگے چل پڑتے۔سب سے آخرمیں وہ بنگالی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں پہنچے۔
”علی --مولاعلی“اللہ دادنے نعرہ لگایا۔بنگالی بابوگھبراکرباہر نکل آیااورلڑکوں کے جلوس کودیکھ کراس کی گھبراہٹ نے مضحکہ خیزصورت اختیارکرلی۔
”ارے یہ کیاگڑبڑہے بھئی۔“بنگالی بولا۔
”باہرنکلئے صاحب۔“لڑکے ایک زبان ہوکرچلائے وقت ہوچکاہے وہ مقابلہ ہوگاآج کہ رہتی دنیاتک یادرہے گا۔“
”وہ ہاتھ دکھاوں گاصاحب کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔“رام گوپال چلایا۔
”واہ گرو۔“ہرنام سنگھ کی آوازگونجی۔
”علی ۔حیدر“اللہ دادچیخنے لگا۔
’‘شورنہ مچاو۔“بنگالی بابومسکرانے لگا”چلوہم آتاہے۔“لڑکے جانے لگے تواس نے انہیں روک لیا۔
”ٹھہرو“
”ہاں بھئی۔“بنگالی سپرنٹنڈنٹ نے کہا”تم سب کورولوں کاکھبرہے۔“
”مسلمانوں کوگوشت منگانے کی اجازت دی جائے۔“شفیع بولا۔
”نو۔نو۔نہیں نہیں۔“چاروں طرف سے آوازیں بلندہوئیں۔”نہیں نہیں۔“سپرنٹنڈنٹ نے کہا۔اس کی اجازت نہیں ہوسکتی۔“
”کچھ پروا نہیں۔“اللہ دادبولا”لیکن ہم تین مسلمان ہیں۔ہم مل کرمقابلہ کریں گے۔ہماراحساب اکٹھارکھاجائے۔بعدمیں اسے تین پرتقسیم کردیاجائے۔“
”نو۔نو۔“لڑکے چلائے۔
”اس میں کوئی حرج نہیں۔“سپرنٹنڈنٹ بولا”ہرے۔ ہرے۔“شفیع اوراللہ دادچیخنے لگے۔
”آدھ گھنٹے کے بعدمقابلہ شروع ہوجائے گااب تیاری شروع کرو۔“بنگالی بابونے کہا۔
مقابلہ
سپرنٹنڈنٹ کی اس بات پرنعروں اورچنگھاڑوں کے بعدجلوس بکھرگیا۔اللہ دادایلی کوشانوں پراٹھائے ہوئے اپنے کمرے میں آیا۔
”ابے کیسامقابلہ ہوگا۔مجھے بتاو توسہی۔“ایلی نے اللہ دادسے پوچھا۔
”ہائیں تمہیں معلوم نہیںکیا۔“اللہ دادنے غصے میں دھم سے ایلی کوچارپائی پرپھینک کرپوچھا۔
”ارے بدھوآج مسلمانوں کے امتحان کادن ہے۔آج انہیں کفارکونیچادکھاناہے۔بیٹاآج تمہیں ہماری لاج رکھنی ہے ۔اگرمسلمانوں کے ہوتے ہوئے”پیٹو“کاخطاب کسی اورکومل گیاتوبھئی کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔“اللہ داد بولا۔
”اتناکھاو آج۔اتناکھاوکہ اس اسلامی پیٹ کے صحرامیں بندوکے پھلکے ریت کے ذرے بن جائیں ۔“شفیع نے اپناادبی اندازدکھایا۔
”ارے چھوڑویہ صحرادہرا۔“اللہ دادبولا”یوں کہہ کراتناکھاواتناکھاوکہ میزسے اٹھانے کے لئے چارآدمی بلانے پڑیں۔یہ بنگالی بابوکیایادکرے گاسالاکہ مسلے کبھی آکرٹھہرے تھے بورڈنگ میں۔“
کالج کے بورڈنگ کی رسم کے مطابق ہرسال ایک مرتبہ کھانے کامقابلہ ہواکرتاتھا۔شام کے کھانے پرباہرمیزیں لگادی جاتیں ۔تمام امیدواراپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتے۔درمیان میں سپرنٹنڈنٹ کی کرسی رکھ دی جاتی تاکہ وہ فیراورفاول کافیصلہ کرسکے۔
کچن میں اس روزدوچاراچھے اچھے سالن پکائے جاتے۔اتنی مقدارمیں پکائے جاتے کہ امیدواروں کے لئے کافی ہوں کیونکہ مقابلے کے روزہرامیدوارکوئی ساسالن طلب کرسکتاتھا۔جب مقابلہ شروع ہوجاتاتوہرامیدوارکے پاس دوریفری کھڑے ہوجاتے جوپھلکوں کی تعدادگنتے جاتے اورہرنئے پھلکے پرآوازدیتے ”رام گوپال بارہواں۔“لیناسیاں پندرہواں۔“اوردرمیاں میں بیٹھے ہوئے منشی ہرامیدوارکے نام کے سامنے تعدادلکھتے جاتے۔ان ریفریوں کے ساتھ مختلف پارٹیوں کے لڑکے کھڑے رہتے تاکہ تعدادلکھنے والے شرارت نہ کریں اورہربے ضابطی پرسپرنٹنڈنٹ کوپکاراجاتا۔”پوائنٹ آف شکایت لالہ جی۔“جولڑکااس مقابلے میں سب سے زیادہ پھلکے کھاتااسے ”پیٹو“کاخطاب دیاجاتااورگلے میں ہارڈال کراس کاجلوس نکالاجاتا۔جس کی ساتھ مناسب قسم کے نعرے لگائے جاتے۔
مقابلے کے دن کے لئے باورچی بندوپہلے ہی پھلکے پکارکھتاتاکہ پھلکوں کی کمی کی وجہ سے میچ میں خلل نہ پڑجائے پھرمقابلے کے وقت بندو۔رامو‘ہرنامہ اورکرشارسوئی میں بیٹھ کر پکے ہوئے پھلکے سینکنے میں مصروف ہوجاتے اوررامو۔کھمیااوربڈھاچوکیدارباہرمیزوں پرچیزیں مہیاکرنے کے لئے تیاررہتے۔
مقابلہ شروع ہوا۔رسوئی کی کھڑکیو ں اوردروازے سے پھلکوں کی بوچھاڑشروع ہوگئی اورایلی کویوں محسوس ہونے لگاجیسے رسوئی اورمیزوں کے درمیاں سفیدکبوتراڑرہے ہوں۔”بندوپھلکا“ہرنام سنگھ چیختا”آٹھ“اس کے سرپرکھڑاریفری چلاتااورپھرادھرسے رام گوپال شورمچادیتا۔”بندوادھر“پندرہ‘بندو”پھلکی“اللہ دادچیختاساتھ ہی شفیع اورایلی چیخنے لگتے۔”پھلکاری پھلکاری۔“ستاسٹھ ۔ستاسٹھ ۔“کی آوازسن کررام گوپال چونک جاتا۔ارے پھردفعتاًاسے یادآتاکہ اللہ دادشفیع اورایلی کے پھلکوں کاحساب اکٹھاہورہاہے اورستاسٹھ کامطلب تھاستاسٹھ بٹاتین یعنی بائیس فی کس۔اسی قسم کی چاروں طرف سے آوازیں آرہی تھیں۔چاروں طرف سے شاباش رام گوپال اشکے اوے ہرنامے۔علی حیدرکے نعرے گونج رہے تھے اورہرلحظہ سکوربڑھتاجارہاتھا۔مقابلے میں صرف سات امیدوارتھے۔رام گوپال،ہرنام سنگھ،امرت لال،گوچرن سنگھ،ان کے علاوہ مسلمانوں کاایک گروپ تھا۔جس میں اللہ دادشفیع اورایلی تھے۔صحن میں پانچ چھ میزیں لگی ہوئی تھیں۔ہرمیزپرامیدواروںکے سروں پرریفری اورلڑکے کھڑے گنتی میں مشغول تھے۔درمیان میں چھ لڑکے؟کی حیثیت سے حساب کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔جن کے پاس ہی آرام کرسی پربنگالی بابوسپرنٹنڈنٹ جج کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔
تین پیٹو
”ایک توستاون۔“مسلمانوں کے گروپ کے ریفری نے آوازدی۔
”علی حیدر۔“اللہ دادچلایا۔”بندوچٹنی۔“
”پوائنٹ آف آرڈر۔“رام گوپال کھڑاہوگیا۔”سپرنٹنڈنٹ صاحب اللہ دادصرف چٹنی کھارہاہے۔“
”علی حیدر۔“اللہ داددہاڑنے لگا۔چاروں طرف شورمچ گیا۔
”ٹھہرو،ٹھہرو۔“بیزجی بولے۔”چٹنی پرکوئی پابندی نہیں۔“
”علی حیدر۔“اللہ دادغرایااوررام گوپال میزسے اٹھ کراندرچلاگیا۔اس کے جانے کے بعدشفیع اوراللہ داددیر تک چنگھاڑتے رہے پھرآہستہ آہستہ گوچرن نے بھی ہاتھ روک لیااورسب سے آخرمیں ہرنام سنگھ کی طبیعت مالش کرنے لگی”علی حیدر۔“تینوں مسلمان ہیروایک ستاون پراٹھ بیٹھے اوربورڈنگ والوں پرگویااوس پڑگئی۔
”اجی یہ فاول ہے یہ مسلے چٹنی سے روٹی کھاتے رہے ہیں یہ اصول کے خلاف ہے“لیکن ان کی ہربات پراللہ داد”علی حیدر“کانعرہ لگاکران کامنہ چڑاتااوربیزجی مسکراکرکہتے ”چٹنی کھانااصولوں کے خلاف نہیں۔“اوراللہ دادپھرسے تازہ دم ہوکرچنگھاڑتا۔”علی حیدر“
پیٹوکالقب توانہوں نے حاصل کرلیا۔لیکن رات بھران تنیوں کی بری حالت رہی۔چارپائیوں پرپڑے وہ دیرتک کروٹیں بدلتے رہے اورپھراللہ داداٹھ بیٹھااورکان پرہاتھ رکھ کرگانے لگااورپھردفعتاًچلاکربولا۔
”ارے یارو۔کیوں اپنے آپ کودھوکادے رہے ہو۔نیندتوآج تمہارے باپ کوبھی نہیں آئے گی۔بیکارپڑے ہو۔آو چلوامرودوں کے باغ سے امرودتوڑکرلائیں۔بڑے ہاضم ہوتے ہیں۔تمہاری قسم۔“
صبح سویرے اللہ دادنے پرنسپل کے نام ایک درخواست لکھی کہ حضورچھٹی لینے کانہ توہماراارادہ ہے ۔اورنہ چھٹی میں کوئی دلچسپی ہے ازراہ چارآدمی بھیج دیجئے جوہمیں اٹھاکرکالج لے آئیں۔
دوپہرکے وقت پرنسپل اپنی لینڈومیں آیااس کے ساتھ آصف تھا”ہیلو“پرنسپل بولا۔مبارک ہوتمہیں ۔پیٹوبولوکیاحال چال ہے تمہارا۔“اللہ داد نے ہاتھ جوڑے ”حضورآپ کادیاسب کچھ ہے صرف اتنی ارج ہے کہ چاردن کے لئے چارآدمی مقررکردیئے جائیں جوہمیں اٹھاکرگھماپھرالایاکریں۔“پرنسپل نے ایک قہقہہ لگایااورپھر”شابش ویل ڈن“کہتاہوارخصت ہوگیا۔
اداس شام
پرنسپل کے جانے کے بعدآصف نے ایلی کواشارہ کیا۔ذرایہاں تک چلنامیرے ساتھ۔اس وقت اللہ اورشفیع اپنی ہی دھن میں لگے ہوئے تھے۔اس لئے ایلی چپکے سے آصف کے ساتھ چل پڑا۔آصف کارنگ زردہورہاتھا۔اس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ توتھی مگرمسکراہٹ میں تازگی نہ تھی۔اسے ملتے ہی ایلی نے ایک سانس میں کئی سوال کرڈالے۔
”کل تم کیوں نہ آئے وہ کون تھی جس نے ڈبل اینٹ ماری تھی۔وہ تمہیں گھورتی کیوں تھی۔تم سہمے ہوئے کیوں ہو۔کیاہے تمہیں آصف بولوبھی نا۔“
لیکن آصف چپ چاپ کھڑاتھااس کے ہونٹوں پرکھسیانی مسکراہٹ تھی اوررنگ زردہورہاتھا۔پھرایلی بھی خاموش ہوگیااوردیرتک وہ درختوں تلے خاموش بیٹھے رہے ۔ہرچندمنٹ کے بعدآصف ایلی کی طرف دیکھ کربے بسی بھرے اندازسے مسکرادیتا۔
آخربولا۔کہنے لگا”ایلی اگرمیں زہرکھالوں توتم براتونہ مانوگے۔“
”زہر۔“ایلی نے پوچھا”آخرکیوں؟“
”یہ نہ پوچھو۔“آصف نے کہا”اب زندگی بیکارہے۔بے عزتی کی زندگی سے مرجانابہترہے۔“
”اگرمیں کہوں کھالوتوکیاکھالوگے تم۔“ایلی نے شرارت سے پوچھا”ہاں ۔“وہ بولا”کھالوں گا۔“
ایلی سوچ میں پڑگیا۔آصف چپ چاپ نہرکے پانی کوگھورنے لگا۔دورکوئی رہٹ رورہاتھا۔سامنے ندی کاپانی گویاچلتے چلتے رک گیاتھا۔اردگردپھیلے ہوئے کھیتوں میں پودے سرجھکائے کھڑے تھے اوروہ دونوں خاموش بیٹھے تھے۔
وہ یونہی خاموش بیٹھے رہے ۔حتیٰ کہ سورج مغرب میں جاڈوبااورآسمان پرسرخ دریاں پھیل گئیں اوررہٹ روروکرچپ ہوگیا۔کتنی اداس شام تھی وہ ۔
ایلی اٹھ بیٹھا”نہیں“وہ بولا”ابھی تم زہرنہ کھاو۔“
”کیوں ۔“آصف نے پوچھا”کیوں نہ کھاوں۔“
”بس ابھی نہیں کہہ جودیاہے میں نے۔“
”اچھا۔“آصف نے آہ بھری۔”پھرمیں کیاکروں۔“
”انتظارکرو۔“ایلی بولا۔
اچھاکہہ کرآصف خاموش ہوگیااورپھربورڈنگ میں جانے کی بجائے شہرکوچل پڑا”میں اب چلتاہوں۔“
”اچھا۔“ایلی بولا“کل پھرملیں گے۔۔۔۔۔
ساری رات ایلی سوچتارہاکہ آصف زہرکھانے پرکیوں آمادہ تھاوہ کونسی بات تھی جس کی وجہ سے دکھی تھا۔وہ لڑکی کون تھی وہ چلاکیوں رہی تھی اس روزکیاآصف کواس سے محبت تھی۔پھراس نے آصف کی بیٹھک پراینٹ کیوں پھینکی تھی اورچلاکرکیوں کہاتھا۔سامنے بلاواسے اگرانہیں محبت تھی تو۔لیکن محبت ایسے تونہیں کی جاتی محبت تھی توپھرزہرکھانے کی کیاضرورت تھی۔انہیں خیالات میں کھویاہواوہ سوچتے سوچتے سوگیا۔
آصف
آصف ایک خاموش اورشرمیلانوجوان تھا۔نہ جانے اس کی بے پناہ جاذبیت کاکیارازتھا۔شایداس کی وجہ اسکی خاموشی اورشرمیلاپن ہویاشایداس کاسفیدرنگ جھکی جھکی آنکھیں اوررخساروں پرجھلکتی ہوئی سرخی کواس سے کوئی تعلق ہوبہرصورت یہ امرمسلمہ ہے کہ محلے کی لڑکیاں اس کے لئے بے قراررہتی تھیں۔قرب وجوارمیں رہنے والیاں باربارکوٹھے پرچڑھتیں کہ شایدایک نظرآصف کودیکھنانصیب ہوجائے۔کئی گھنٹوں کوٹھے پرٹہلتی رہیتں یاجب کالج جانے یاوہاں سے لوٹنے کاوقت ہوتاتووہ گلی کی کھڑکیوں میں کھڑی ہوتیں۔کئی ایک اسے چھپ کردیکھتیں۔کئی ایک ایسی بھی تھیں جوبے پروائی کے پردے میں اپنی نمائش کرتیں کہ ایک نظرآصف انہیں دیکھ لے اورچندایک تودیوانہ وارچقیں اٹھالیتیں یاکھڑکیوں سے لٹکتیں شوخ لڑکیوں نے کئی باراعلانیہ طورپراسے سلام بھی کئے تھے۔اس کے علاوہ اعلانیہ بات بھی کی تھی۔مگرگلی میں چلتے ہوئے آصف نے کبھی گردن نہ اٹھائی تھی۔وہ چپ چاپ زمین پرنظریں گاڑے جلدی جلدی گلی میں سے گزرجانے کی کوشش کرتاتھا۔
کوٹھے پراس کارویہ مختلف ہوتاتھااوراوپرچڑھتے ہی نیچی نظرسے چھتوں کاجائزہ لیتااگرکوئی بزرگ صورت مردیاعورت قرب وجوارمیں نہ ہوتے تو وہ لڑکی پربھرپورنظرڈالتااورپھرچپکے سے سامنے سے ہٹ جاتاغالباًاس کی یہ بھرپورنظراس کی تمام ترمشکلات کی وجہ تھی۔
اسے لڑکیوں سے دلچسپی ضرورتھی ۔لیکن اس ہروقت یہ ڈرلگارہتاکہ لوگ کیاکہیں گے۔والدین کیاسمجھیں گے نہ جانے والدین کوخوشی کرنے کے لئے یااپنے زہدوتقویٰ کارعب جمانے کے لئے۔یاشایداس کی یہ وجہ ہو کہ وہ اپنی برتری کاعملی طورپراظہارکرناچاہتاہو۔چاہے اس کی وجہ سے کچھ بھی ہواورہواکثرکوٹھے سے اترکرماں کی طرف جاتااورکسی نہ کسی لڑکی کی شکایت کرتا”دیکھ لوماں آج اس نے مجھے سلام کیاہے۔“اوراس کی ماں نہ جانے کس غلط فہمی یاحمایت کی وجہ سے جھٹ نوکرکوبھیج کرلڑکی کے والدین تک شکایت پہنچادیتی۔
ایسی شکایت محلے کی کئی ایک لڑکیوں کے والدین تک پہنچ چکی تھی اوروہ سب آصف کی اس عادت سے نالاںتھیں۔والدین توپہلے ہی اپنی بچیوں کی معصومیت پریقین رکھنے کے خوہشمندہوتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اپنی اولادبے حدمعصوم اورپاکبازہے البتہ دوسروں کے بچے انہیں گمراہی کی طرف راغب کرنے پرادھارکھائے بیٹھے ہیں۔آصف کی ان شکایات کانیتجہ یہ ہوا کہ لڑکیوں نے آنسوبہابہاکروالدین کویقین دلادیاکہ ان کاقصورنہیں اورمحلے والوں کے دلوں میں آصف کے خلاف بغض پیداہوگیا۔
اگلے روزجب وہ کالج میں ملے توآصف کے چہرے پرحقیقی انبساط کی جھلک تھی اوراس کے تبسم میں شگفتگی تھی۔ایلی کو دیکھ کرحسب معمول اس کی طرف بڑھااورہاتھ اٹھاکراس کی طرف دیکھ کربولا”تسلیم۔“ایک ہی نظرمیں ایلی کومحسوس ہوگیاکہ یہ آصف کل والاآصف نہیںتھاوہ آصف جوتین گھنٹے یوں چپ چاپ بیٹھارہاتھاجیسے پتھرکابناہو۔
”زہرتونہیں کھالیاتم نے۔“ایلی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں۔“وہ وبولا“تم نے جوکہاتھاانتظارکرو۔“
”توانتظارکررہے ہو۔“ایلی نے اسے چھیڑا۔
”نہیں ۔“وہ بولا“اب اس کی ضرورت نہیں۔آوتنہائی میں گھومیں یہاں لڑکے آجاتے ہیں۔اکیلےمیں بتاوں گاتمہیں۔“اوروہ دونوں میدان کی طرف نکل گئے۔
سفینہ
آصف نے بات شروع کی۔”اس لڑکی نے مجھے بہت تنگ کیاہے ایلی ۔“آصف نے مسکراتے ہوئے کہا”وہی جو اس روزمقابل کے چوبارے میں کھڑی تھی۔جس روزتم آئے تھے۔جس نے روشن دان پراینٹ پھینکی تھی۔پھرنہ جانے اسے کیاہوگیاہے۔ایلی کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔وہ عام لڑکیوں کی طرح کوٹھے پرچڑھ کرہمارے گھر کی طرف جھانکاکرتی تھی۔میں نے دوایک مرتبہ اماں کی معرفت شکایت بھی بھجوائی۔لیکن اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔الٹااس نے گھنٹوں اعلانیہ کوٹھے پرٹہلناشروع کردیا۔سارادن کوٹھے پردھوپ میں کھڑی رہتی ۔
خیروہ دن بھی گزرگئے پھرگرمیاں آئیں توہم کوٹھے پرسونے لگے۔ان کے کوٹھے پرہماری طرح پردے بہت چھوٹے چھوٹے ہیں۔صبح سویرے وہ اٹھ بیٹھتی اورآنکھوں پرہاتھ رکھے ہمارے کوٹھے کی طرف منہ کرکے بیٹھ رہتی۔ جب تک میں نہ جاگتاوہ اسی طرح بیٹھی رہتی پھرجب میں بیدارہوجاتاتووہ منہ سے ہاتھ ہٹاتی اورمجھے سلام کرکے مسکراتی۔ایسے معلوم ہوتاجیسے اس نے صبح سویرے مجھے دیکھنے اورسلام کرنے کی قسم کھارکھی تھی۔مجھے دیکھنے سے پہلے وہ منہ سے ہاتھ نہ ہٹاتی تاکہ کوئی اس کے روبرونہ آئے۔گھروالوں نے اس بات پراسے ماراپیٹا۔مگراپنی ہٹ سے بازنہ آئی۔آخرگھروالے ہارگئے۔
اس کی یہ کیفیت دیکھ کرمیرے تواوسان خطاہوجاتے ہیں۔محلے والے کیاکہیں گے۔میں سوچتارہتا۔محلے کے لوگوں کودیکھ کرسرجھکالیتا۔مجھے شرم محسوس ہوتی۔ایسے محسوس ہوتاجیسے وہ مجھ پرہنس رہے ہوں۔میرامذاق اڑارہے ہوں۔لیکن اب۔اب نہ جانے اسے کیاہوگیاہے ۔گویاوہ اپنے بس میں نہیں رہی اب اسے ہسٹریاکادورہ پڑتاہے یاوہ پاگل ہوچکی ہے۔ چندایک دن سے اس کی آنکھیں سرخ ہیں۔منہ سوجاہواہے اوراسے قطعی پروانہیں کہ وہ کیاکررہی ہے اسے کسی بڑے چھوٹے کی پروانہیں۔وہ کوٹھے پرچڑھ کرباآوازبلندمیرانام لے لے کرپکارتی ہے۔آوازیں دیتی ہے۔آصف آصف جی۔لوگ سن کرہنستے ہیں۔میرامذاق اڑاتے ہیں۔پھروہ مقابل کے چوبارے میں آجاتی ہے اورکھڑکی میں کھڑے ہوکرباآوازبلندباتیں کرتی ہے۔اگرمیں سامنے نہ جاوں توپتھرپھینکتی ہے۔“آصف نے آہ بھری اس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں اوروہ خاموش ہوگیا۔ایلی یہ روئیدادسن کرخوشی کی ایک لہر محسوس کررہاتھا۔کتناخوش نصیب ہے اف۔وہ سوچ رہاتھا۔جسے کسی کی محبت حاصل ہے۔جسے دیکھنے کے لئے کوئی منہ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہتی ہے۔اس کی سمجھ نہ آرہاتھاکہ آصف اس بات پرآبدیدہ کیوں ہورہاتھا۔اس بات پرزہرکھانے کاکیامطلب۔
”اور-اور۔“آصف نے پھربات شروع کی۔”اس نے اپنانام بدل لیاہے۔اب وہ سفینہ کی بجائے اپنے آپ کو آصفہ کہتی ہے۔آصفہ توبہ کتنی جرات ہے۔لیکن اب وہ چلی گئی ہے۔“آصف نے کہا”اس کے والدین زبردستی اسے لے گئے ہیں۔ نہ جانے کہاں۔تاکہ بدنامی نہ ہو۔اللہ کرے وہ کبھی واپس نہ آئے۔
”کیاواقعی اسے تم سے محبت ہے۔“ایلی نے حسرت ناک اندازسے پوچھا۔
آصف ہنسنے لگا”مجھے کیامعلوم۔“وہ بولاکہ محبت کیاہوتی ہے اگریہی محبت ہے تواللہ بچائے توبہ کتنی بدنامی ہوئی ہے۔کتنی رسوائی۔”کیاتمہیں بھی اس کاخیال ہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”مجھے نہیں معلوم۔“وہ متبسم نگاہوں سے ایلی کودیکھنے لگا۔اس کی نگاہ میں تسخیرکی مسرت تھی۔
”کیاوہ خوبصورت ہے آصف؟“ایلی نے پوچھا۔
”خوبصورت “آصف سوچنے لگااورپھرہنس کربولا”یہ سبھی خوبصورت دکھائی دتی ہیں۔“
اس روزایلی آصف کی باتوں کے متعلق سوچتارہا۔کس قدرعجیب باتیں تھیں آصف کی۔شریف سے کس قدرمختلف۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ آخرمحبت کے متعلق ہرایک کانظریہ مختلف کیوں تھااورمحبت کی حقیت کیاتھی۔وہ تواس بات پرفخرکیاکرتاتھاکہ اسے تسلیم سے محبت ہے اورمحلے والوں کے سامنے اسے تسلیم کرنے میں ذرانہ ہچکچاتاتھا۔لیکن آصف۔
دن بھرایلی بورڈنگ میں بیٹھے ہوئے سوچتارہا۔اس کے سرپرآموں کے درختوںکی ٹہنیاں ہوامیں جھولتی رہیں۔کھیت گویابال پھیلائے سوگ مناتے رہے اوردوررہٹ کراہتارہا۔یونہی دوپہرسے شام ہوگئی اورمغرب میں بادل کسی ان جانے غم سے سلگنے لگے۔آگ کے شعلے لپکنے لگے۔ایک اضطراب ۔دکھ بھری بے قراری۔خاموش غم فضاسے چھنتارہا۔
بادلوں کے ان ٹکڑوں میں تسلیم اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔اس کی لٹیں الجھی ہوئی تھیں۔پھردفعتاًایک حرکت سی ہوئی اورتسلیم نے گول مٹول صورت اختیارکرلی۔جیسے گٹھڑی ہو۔پھرسبزگٹھڑی کے پٹ کھل گئے اورچھم سے کسی نے جھانکا۔”مجھے تم نے ڈرآتاہے ایلی۔“ایک متبسم آوازسنائی دی اورپٹ پھرسے بندہوگئے۔وہ چونک پڑا۔توبہ ہے۔وہ زیرلب بولااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے لگا۔لیکن جلدہی ایک بدلی نے کرشن کنہیاکاروپ دھارلیا۔ٹک ٹک قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ دوبڑی بڑی سیاہ کشتیاں ڈول رہی تھیں۔دورکوئی بانسری بجارہاتھا۔کتنی اداس تھی۔وہ شام۔اداس اورخاموشی۔
پگلی بہن
اگلے روزتسلیم کے گھرجاتے ہوئے وہ سوچ رہاتھااگرتسلیم کوبھی کچھ ہوجائے توجیسے آصفہ کوہواتھااوروہ کھڑکی سے چق اٹھاکرسامنے آکھڑی ہوجیسے اس روزآصفہ کھڑی تھی اورپھراسی طرح کہے”تم سامنے کیوں نہیں آتے توکیازندگی بن جائے۔یاجب وہ وہاں پہنچے توتسلیم آنکھوں پرہاتھ رکھے بیٹھی ہواسے دیکھ کرہاتھ اٹھاکرمسکرائے ”سلام“اورپھرہنس کراندربھاگ جائے ۔صرف ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ۔روزنہ سہی صرف ایک بار۔صرف ایک بارصرف ایک بارکاوردکرتاوہ ان کے گھرپہنچ گیااوروہاں پہنچ کردفعتاًاسے خیال ہواکہ وہ منزل پرپہنچ چکاہے۔مگرمنزل ویران پڑی تھی۔کھڑکیاں بندتھی۔سیڑھیاں خالی تھیں۔دیر تک وہ وہاں کھڑامایوس ومحروم نگاہوں سے دیکھتارہا۔پھراس کاجی چاہاکہ چپکے سے لوٹ آئے اورنہروالی کوٹھی میں آموں کے درختوں تلے بیٹھ کرجی بھرکرروئے۔حتیٰ یا کہ اس کے جسم کے بندبندمیں وہ چلچلاتاہوادردختم ہوجائے جوان دنوں وہ محسوس کرنے لگاتھا۔
”ہائیں۔“تم ایلی۔‘ حنی اسے دیکھ کرچلایا۔”یہ کیاصورت بنارکھی ہے۔جیسے پٹ کے آئے ہو،آو۔آو۔تمہارادل بہلاوں۔اس کے پاس جاکرسب دکھ بھول جاتے ہیں۔نہیں نہیں گھبراونہیں۔اس کے یہاں کوئی نہیں آتاجاتا۔اس نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔کیسے کرے دھندہ۔ہمارے عشق میں مری جارہی ہے اورایلی ایمان سے وہ توازلی طورپرگھریلوعورت ہے خالص پدمنی۔اس کے پاس بیٹھ کرایسے محسوس کرتاہوں۔جیسے ماں کی گودمیںبیٹھاہوں اتناآرام وسکون ملتاہے وہاں،آو۔آولے چلوں تمہیں۔“
”آہاایلی۔“آغابال بناتاہواباہرنکلا۔”بھئی اب توآتے ہی نہیں تم اس طرف۔کون سے نئے مشاغل پیداکرلئے ہیں اوروہاں۔“
”کیوں ایلی چلوگئے؟“حئی نے آغاکی بات کوکاٹ کرکہا۔
”نہ ۔نہ بھئی۔“آغا نے حئی نے کہا”اس پرتوکرم ہی کر۔“اس پرحئی منہ بناکرچل پڑااورایلی آغاکے ساتھ اکیلارہ گیا۔لیکن اسکا جی چاہتاتھاکہ حئی اسے وہاں لے جائے جہاں ماں کی آغوش کاساسکون میسرہوتاہے۔جہاں وہ ہوجومحبت کے لئے دھندہ چھوڑنے کی جرات رکھتی ہے۔جوروپوں کوجھنکارکومحبت پرقربان کرسکتی ہے۔
”کس سوچ میں کھوئے ہوئے ہوآج؟“آغابولا”بہت اداس ہو۔“
جواب میں ایلی ہنس دیا”نہیں تواداس تونہیں۔“اس نے اہ بھرکرکہا۔
توکوئی بات سناو۔“آغانے کہا۔
”کوئی بات ہوبھی۔“
”اوہ --“آغامسکرادیااورپھردانت صاف کرنے لگا۔
ایلی نے چوری چوری اوپرکی طرف نظردوڑائی مگروہاں کوئی پلودکھائی نہ دے رہاتھا۔نہ جانے اس قدرخاموشی کیوں چھائی ہوئی تھی۔
”حئی کی بات سنی تم نے ؟“آغانے بات شروع کی”حدہوگئی اس کانام الماس ہے۔نئی نئی آئی ہے۔یہاں اچھی خاصی ہے ۔نوجوان ہے۔نہ جانے حئی نے کیاکردیاہے۔بیچاری نے دھندہ چھوڑرکھاہے۔اس کے جواری میراثی بھوکے مررہے ہیں اورحئی کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔لیکن یہ کسی سے ڈرے۔توبہ کرو۔ڈرتواس کی گھٹی ہی میں نہیں۔سارادن وہاں جاکربیٹھ رہتاہے۔وہ اس کی جرابیں دھوتی ہے پتلونیں استری کرتی ہے۔چائے بنابناکرپلاتی ہے۔عجیب جذبہ ہے محبت کا۔“آغاہنسنے لگا۔دھندہ کرنے والیوں کی بھی نہیں چھوڑتا۔کوئی معصوم نہیں ہے وہ اناڑی نہیں۔سب کچھ سمجھتی ہے ۔جانتی ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔حئی محض وقت کٹی کررہاہے۔پھربھی وہ فریب کھائے جاتی ہے۔عجیب بات ہے۔“آغاہنسنے لگا۔”آوآج تمہیں سیرکرالائیں،آو۔“
جب وہ چلنے لگے تودفعتاًاوپر سے نیم کی آوازآئی”بھائی جان میں آرہی ہوں۔“
”توپھرمیں کیاکروں۔“آغانے ہنس کرکہا۔
”میں آجورہی ہوں۔“وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے بولی۔
”خواہ مخواہ ۔مجھ سے کام ہے کیا۔“
”نہیں تو۔“وہ دروازے میں کھڑی ہوگئی۔
”توپھرمیں کیاکروں ۔“
”کچھ بھی نہیں۔“وہ ہنسنے لگی۔
”توپھرچلاکیوں رہی تھی تو۔“
”بس چلارہی تھی۔یونہی۔“
”اچھاشورنہ مچاہم جارہے ہیں۔آوایلی ۔“
آغابات کررہاتھاتوچھوٹی نیم اس کی پشت کے پیچھے سے یوں ہونٹ ہلارہی تھی جیسے کچھ کہہ رہی ہوجیسے کوئی پیغام دے رہی ہو۔لیکن ایلی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
جب آغاچلنے لگاتووہ پھرچلائی۔”کہتی ہوں کوٹھے پربلارہے ہیں آپ کو۔“
”بلارہے ہیں کیوں۔“
”کیامعلوم ۔“وہ پھرہونٹ ہلاکرایلی کواشارہ کرنے لگی۔
”اس وقت نہیں۔ہم جارہے ہیں۔“آغانے گھورکرکہا۔
”اچھاتواچھے بھائی جان ہمیں ایک پان لے دو۔“
”اوہ-تویہ بات ہے۔“آغاہنسنے لگا۔”خودلے لینایہ لوپیسے ۔“
”ہم توپان لیں گے پیسے نہیں۔“وہ لاڈسے بولی۔
”پاگل ہوگئی ہے کیا۔“آغاہنسا۔
”ہاں۔“نیم نے سنجیدگی سے کہا”پاگل ہوگئی ہوں۔“
آغاقہقہہ مارکرہنس پڑا۔”یہ بہنیں بھی بہت مہنگی پڑتی ہیں۔اچھامیں لاتاہوں پان۔تواب بھاگ نہ جائیو۔“
”نہیں بھاگتی۔“وہ مسکرائی۔
آغاباہرنکلاتووہ ایلی کے قریب ترہوکربولی”اپنابائیسکل نہ لے جانایہیں چھوڑجانااورکل شام کوتین بجے آکرکہنابائیسکل دو۔“اس نے ایلی کی طرف یوں دیکھا۔جیسے وہ ایک بچہ ہو۔اس روزپہلے دن ایلی نے محسوس کیاکہ وہ ننھی سی معصوم بچی ایک مکمل عورت تھی جس کے پلومیں کئی آغوش مادرچھپی ہوئی تھیں۔یہ کہہ کروہ اوپرکی طرف بھاگی۔
”ہائیں۔“ایلی چلایا”اوروہ پان۔“
”پان۔“وہ ہنسی ۔”میں نہیں کھاتی پان وان۔نہ بھئی۔“
عین اس وقت آغاداخل ہوا۔”ہائیں چلی گئی اوریہ پان۔“اس نے پھرقہقہہ لگایا”ہی ہی ہی۔یہ بہنیں بالکل ہی پگلی ہوتی ہیں۔“اوروہ پان منہ میں ڈال کرہنسنے لگا۔
”سائیکل لے لوچلیں۔“آغانے ایلی سے کہا۔
”نہیں ۔“ایلی نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔”یہاں ہی پڑارہے گاکل لے لوں گاکسی وقت-”اچھایوں ہی سہی۔“آغانے بے پرواہی سے کہااوروہ دونوں چل پڑے۔
اتنی ساری
اس روزجب ایلی بورڈنگ میں پہنچاتووہ بے حد تھکاہواتھا۔کئی دنوں سے ایک بے نام سادرداس کے بندبندمیںچیونٹیوں کی طرح رینگ رہاتھا۔وہ محسوس کرنے لگاتھاجیسے اس کاوجودایک تکلیف دہ چیزہو۔اسکے گردنیلاآسمان روزبروزپھیکاپڑتاجاتاتھااوردنیایوں دکھائی دینے لگی تھی جیسے ایک ویرانہ ہو۔طویل وعریض ویرانہ ۔بے مقصدپھیلاو۔ایک اذیت دہ ٹھہراوچاروں طرف ٹھاٹھیں مارتھا۔اس صحرامیں وہ خودایک ناو تھا۔جس کے گردریت کی لہریں بھتنوں کی طرح ناچ رہی تھیں۔
جب بھی ایلی کی توجہ اپنی جانب مبذول ہوتی وہ اس ٹھہراوکوشدت سے محسوس کرتالیکن جب اس کی توجہ ریت کی لہروں کی طرف منعطف ہوتی تواسے حرکت کااحساس ہوتا۔جب وہ بستر پرلیٹاتواس کاخیال نیم کے پیغام پرمرکوزہوگیا۔نہ جانے نیم کامطلب کیاتھا۔مطلب تھا بھی یامحض تفریح یاکچھ اورپھربائیسکل رکھنے سے کیامقصدہوسکتاہے اوراسے واپس لانے کی سکیم سے کیافائدہ پہنچ سکتاہے۔دیرتک وہ اس پگلی لڑکی کی باتوں پرغورکرتارہا۔لیکن گتھی نہ کھلی ۔وہ سوچ سوچ کرہارگیا۔حتیٰ کے اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلے روزکئی دفعہ اسے خیال آیاکہ سائیکل وقت مقررہ پرلانے کی آخرکیاضرورت ہے۔کسی وقت بھی لے آوں گا۔کیافرق پڑتاہے۔پھراس کے ذہن میں امیدکی ایک کرن روشن ہوجاتی۔شایدفرق پڑجائے پھرجلدہی وہ کرن بجھ جاتی اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔لیکن اس کشمکش کے باوجودوہ مقررہ وقت پرآغاصاحب کے گھرجاپہنچا۔وہاں پہنچ کراس نے چوبارے کی کھڑکیوں پرنگاہ دوڑائی۔سیڑھیوں کی طرف مکان گویاویران پڑاتھا۔بے دلی سے اس نے دروازہ کھٹکھایا۔
”کون ہے؟“بڑھیانے آوازدی۔
”میں ہوں ایلی“وہ چلایا۔
”کوئی گھرمیں نہیں ہے نہ آغاہے نہ حئی۔“بڑھیانے رونے کے اندازمیں کہا۔
”اپناسائیکل لینے آیاہوں۔“وہ بولا
”سائیکل؟“بڑھیاخاموش ہوگئی۔ پھرمدھم سی سرگوشی سنائی دی۔”سائیکل ساتھ والے گھر میں کھڑاہے۔یہ جوادھرہے ۔پنواڑی کے پیچھے والاسمجھ گیانا۔لے لے جاکرادھرسے۔“
یہ انتہاتھی۔اتنی بے رخی تواجنبی کے ساتھ بھی نہیں برتی جاتی۔خیربڑھیاکی عادت ہی ایسی تھی۔لیکن وہ نیم کیاہوئی۔کم ازکم اسے توموجودرہناچاہیے تھا،کچھ دیرتووہ ڈیوڑھی میں کھڑاسوچتارہا۔اس امیدپرکہ شایدابھی دروازہ کھل جائے اورنیم جھانکے۔لیکن دروازہ بندہی رہا۔پھروہ مایوس ہوگیا۔اورسوچنے لگا۔اب کون پتہ لگائے کہ وہ مکان کونساہے۔جس میں بائیسکل پڑاہے۔چھوڑوبائیسکل لیکن اس نے محسوس کیاکہ وہ تھکاہواہے اوراتنی دورآموں کی کھوٹھی تک واپس پیدل جانا۔اس خیال پروہ پنواڑی کی دوکان پرجاکھڑاہوا۔”کیوں صاحب۔“وہ بولا”آپ کے پچھلے مکان کی طرف کونساراستہ جاتاہے۔“
”یہ ہے۔“پنواڑی نے قریب ہی ایک ڈیوڑھی کی طرف اشارہ کیا۔
”انہوں نے کہاہے۔میرابائیسکل وہاں رکھاہے۔اس مکان میں کون رہتاہے؟“اس نے پنواڑی سے ملتجیانہ اندازسے پوچھاپنواڑی نے غورسے ایلی کی طرف دیکھاپھربولا“کوئی نہیں رہتاخالی پڑاہے۔“
جھجکتے ہوئے اس نے ڈیوڑھی سے اندرجھانکا۔اندرکوئی دکھائی نہ دیا۔آوازتک بھی نہ آرہی تھی ۔پھرجرات کرکے وہ اندرداخل ہوگیا۔صحن کے عین درم
 

قیصرانی

لائبریرین
306-335

اجراہوگیا۔اورچندہی دنوں میں کالج میں شکنتلاکے کھیل کی ریہرسل شروع ہوگئی۔
شبھ لگن
ایلی کوموسیقی سے بے دلچسپی تھی۔گانے کی آوازسن کراس کے دل میں چوہے سے دوڑے لگتے۔دل بیٹھ جاتاایک رنگین اداسی اسے چاروں طرف سے گھیرلیتی۔جب سے جب سے شکنتلاکی ریہرسل شروع ہوئی تھی،اس کے لئے بورڈنگ میں جانامشکل ہوگیاتھا۔لیکن مصیبت یہ تھی کہ عام لڑکوں کوریہرسل دیکھنے کے لئے نہیں چناگیاتھا۔اس لئے جب ریہرسل شروع ہوتی تووہ ہال سے باہردروازے کے شیشے سے لگ کردیکھتارہتااورجب سازندے حمدکی دھن بجاتے تواس پرعجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔چندیوم میں ایلی کوتین چارمرتبہ ریہرسل سنتے پکڑلیاگیااورآخرکارڈرامے کے انچارج اسے پرنسپل کے پاس لے گیا۔پرنسپل نے پہلے تواسے ڈانٹاڈپٹا۔پھردفعتاًنہ جانے اسے کیاسوجھی بولا۔”ہوں اگرتمہیں ڈرامے میں دلچسپی ہے توعملی طورپرہماری مددکیوں نہیں کرتے۔“
”عملی طورپر“ایلی سوچنے لگا۔
”تم گاسکتے ہو؟“پرنسپل نے پوچھا۔
”جی نہیں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”ناچ سکتے ہو؟“
”جی نہیں۔“
”یہ اچھی دلچسپی ہے۔“وہ ہنسنے لگے”گانہیں سکتے۔ناچ نہیں سکتے مگرڈارمے سے دلچسپی ہے۔“
نتیجہ یہ ہواکہ ایلی کوپروفیسرانچارج کے حوالے کردیاگیاجومناسب کام کرسکتاہو،اس سے لیاجائے اورایلی کوریہرسل کے دوران ہال میں بیٹھنے کی اجازت مل گئی۔
جب ”حمد“کی مشق شروع ہوتی اورمیراثی طبلے پرہاتھ چلاتے توایلی کادل ڈوب جاتااوراس کے جسم پربیربہوٹیاں رینگنے لگتیں۔خاص طورپرجب ربابیوں کاوہ چھوٹاسالڑکانوراپنی بیٹھی بیٹھی سی آوازمیں ”توجگ کاہے۔“کہتاتواس کادل دھک سے رہ جاتاوہ سب کچھ بھو ل جاتا۔تمام تلخ یادیں محوہوجاتیں یہاں تک کہ وہ بائیسکل والاواقعہ بھی بھول جاتاجب وہ کپڑوں کی گٹھڑی کے بل کھولنے سے قاصررہاتھا۔اس وقت اسے شہزادکاچھم سے آنابھی بھول جاتا۔
پہلی مرتبہ اسے احساس ہواکہ موسیقی اسے تلخ یادوں سے آزادکرسکتی ہے۔خصوصاًجب نورکیسی شبھ لگن سے بہارآئی گاتاتوایلی یہ بھی بھول جاتاکہ وہ ایلی ہے کہ وہ علی احمد کابیٹاہے اورعلی احمدکوٹین کاسپاہی بننے سے دلچسپی ہے اسے سبھی کچھ بھول جاتااوروہ حیرانی سے اس سانورے سے چھوٹے سے نورکی طرف ٹکٹکی باندھ کردیکھتا۔دیکھتے چلاجاتا۔اس وقت نورکے چہرے کے گردایک ہالاسانمودارہوتاآنکھوں میں چمک لہراتی۔بازورقص کرنے لگتے۔اس وقت اسکی آنکھیں باتیں کرتیں اس کے چتون اظہارسے چھلکتے۔ان کاپیغام کس قدرحسین ہوتا۔
نورکودیکھ کرپہلی مرتبہ ایلی کونزہت کی عظمت کااحساس ہوا۔اس کاگیت سن کراس نے محسوس کیاجیسے واقعی بہارآگئی ہواوروہ شبھ لگن جس کی وجہ سے بہارآئی تھی۔نوربذات خودہو۔
اس کے بعدایلی کئی ایک دن شبھ لگن اوربہارمیں کھویارہا۔انتظارکرتے کرتے وہ تھک جاتا۔لیکن کالج کاوقت ختم ہونے میں نہ آتا۔خداخداکرکے ریہرسل کاوقت ہوتااورنورٹھمکتاہواہال میں داخل ہوتااورایلی کے لئے بہارآتی۔
معصوم فاحشہ
لیکن چندہی دن کے بعدایلی پریہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اس پتلے دبلے سانورے لڑکے میں دوشخصیتیں کام کررہی ہیں۔دومختلف متضادشخصیتیں ۔ایک وہ نورجوگاتے وقت اس میں بیدارہوتا۔وہ نورجس کی حرکات میں حسن کی جھلک دکھائی دیتی۔جس کے گلے میں سے گویاپگھلی ہوئی چاندی کاایک فوارہ چھوٹتا۔لیکن یونہی وہ گاناختم کردیتاتواس کی آنکھوں میں عریانی بھراپیغام جھلکتااوراس کی حرکات سے ستے پن کامظاہرہ ہوتا۔
نورکی چال توبالکل ان عورتوں کی طرح تھی۔جوکٹڑارنگین میں دوسرے درجے کے چوباروں میں بیٹھتی تھیں۔نورکی ان باتوں کو دیکھ کرایلی کودکھ سامحسوس ہوتااورجلدہی کسی اوربات کی توجہ منعطف کرلیتاتاکہ خیال بٹ جائے۔مگر اس کے باوجوداس کے دل میں کانٹاساچبھارہتا۔پھروہ شدیدکوشش سے تصورکے زورپراس نورکوگانے والے نورمیں بدل دیتااوریوں وہ عریاںمنظرشبھ لگن میں تبدیل ہوجاتااوربہارآجاتی۔
جب آصف کوایلی کی اس نئی دلچسپی کاعلم ہواتووہ بہت ہنساکہنے لگا”اچھابھئی آج دیکھیں گے تمہارانور۔“اس شام کوآصف گال ہتھیلی پررکھے بیٹھانورکاگاناسنتارہا حتیٰ کہ اس کی آنکھیں شفاف پانی کی مچھلیوں میں بدل گئیں اس کے ہونٹوں کی وہ تمسخرآمیزسلوٹ دورہوگئی اورپاوں انجانے میں تال دینے لگے۔
اس کے بعدآصف اورایلی فارغ وقت میں نورکولے کرآموں والی کوٹھی کے قریب نہرکے کنارے چلے جاتے۔ایلی کسی پیڑتلے بیٹھ جاتا۔آصف ندی میں پاوں لٹکالیتااورنورگاتااوراس شبھ لگن میں ایلی کی نگاہوں تلے گھنگھریالی لٹ لہراتی اورآصف کی آنکھیں جھیلوں میں تیرتیں اورسوکھے ہوئے درختوں پرہربادل یورش کرتی اورندی کاپانی ناچتااورآسمان پرندے رقص کرتے۔
گانے کے اختتام پرنورکی آنکھ میں وہ نورانی چمک بجھ جاتی ایک رنڈی کپڑے اتارنگلی ہوکران کے روبروآکھڑی ہوتی اورنمائش کرنے میں مصروف ہوجاتی۔ہونٹ جونکوں کی طرح ان کی طرف بڑھتے اوردونوں گھبراکروہاں سے چل دیتے اورسوچتے کہ کس طرح اس سے اپناپیچھاچھڑائیں اس وقت انہیں یہ فکردامن گیرہوجاتاکہ کوئی انہیںنورکے ساتھ دیکھ نہ پائے۔لیکن جونہی وہ نورسے جداہوتے تووہ اس خیال میںکھوجاتے۔شبھ لگن پھرکب آئے گا۔
اتفاق سے ایک روزشیخ ہمدم بھی آگئے اوران تنیوں نے مل کرشبھ لگن منائی لیکن شیخ عمدم خاموش ہوگئے اورپھراپنے مخصوص اندازمیں کہنے لگے:”یہ سب ٹھیک ہے ۔الیاس صاحب!لیکن امرتسرکے ربابیے لڑکے سے نہر کے کنارے پرگاناسننااورپھرماشااللہ گانے والے جناب نورصاحب ہوں بات ذراخطرناک ہے۔“
”خطرناک ہے۔“ایلی کی سمجھ نہ آیاکہ آخربات خطرناک کیوں تھی ۔اس میں خطرے کی کیابات تھی۔نوران کے ساتھ بے حدمانوس ہوچکاتھااوراب تواس پرواضح ہوچکاتھاکہ ان کامقصدموسیقی کے سواکچھ نہیں اوراس کاپاوں ٹھمکانا‘آنکھیں مٹکانااورہونٹ نکالناقطعی طورپربے کاتھا۔ایلی نے اب سے پہلے کبھی اتنے چھوٹے بچے کوایسی عریاں حرکات کرتے ہوئے نہیں دیکھاتھا۔
نورچندایک روزکے لئے توان کامنہ تکتارہاپھرجب اسے یقین ہوگیاکہ اس کایہ نیاتعلق اپنی نوعیت کابالکل انوکھاتعلق ہے تووہ حیران رہ گیا۔یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔سمجھ میں آتی توبھی اسے یقین نہیں پڑتاتھا۔پھرنہ جانے اسے کیاہواکہ ایک روزپھوٹ پھوٹ کررونے لگا۔
”خداکے لئے مجھے بچالو۔مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔میں یہ زندگی بسر نہیں کرناچاہتا۔“اس کی آنکھوں میں آنسوتیررہے تھے۔پتلے پتلے ہونٹ لرزرہے تھے اوروہ امیدبھری نگاہوں سے ایلی اورآصف کی طرف دیکھ رہاتھا۔ندی کے کنارے پرسوکھے ہوئے درخت جوشبھ لگن سے ہرے ہوچکے تھے۔پھرسے سوکھ گئے۔ ندی کے پانی کی روانی تھم گئی۔جیسے وہ ایک جوہڑبن گئی ہواوران کے اردگردایک وسیع ویرانہ پھیلاہواتھا۔
بیگانے دوست
ایک روزآصف بھاگابھاگاایلی کے پاس آیااوراس کارنگ زردہورہاتھا۔
”ایلی“وہ بولا۔”وہ ۔وہ سفینہ پھریہاں آرہی ہے۔اگروہ آگئی توپھرمیں کیاکروں گا۔چلوہم امرتسرسے بھاگ چلیںایلی۔“
”لیکن جائیں کہاں۔“ایلی نے پوچھا۔
”کہیں بھی ۔“اس نے آہ بھرکرکہا۔
”نہیں آصف۔“ایلی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”اگروہاں بھی لڑکیوں نے تمہیں سلام کرنے شروع کردیئے تو۔“
”تو-تو-“آصف سوچنے لگا۔”تومیں کیاکروں ۔“اس نے بے بسی سے ہاتھ چلایا۔
”تم ان کی شکایت کرناچھوڑدو۔“ایلی نے سوچ کرکہا”شکایتوں کی وجہ سے وہ چڑجاتی ہیں۔ضدپیداہوتی ہے ۔ تم خودانہیں سلام کرناشروع کردوتاکہ وہ خودتمہاری شکائتیں کریں۔“
”میری شکائتیں۔“آصف گھبراکربولا۔”نہیں نہیںیہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔“
”اگرتم انہیں سلام کرناشروع کردوگے توان کابرتاومحبوب کاساہوجائے گا۔“ایلی نے کہا۔”اوروہ تم سے دوربھاگنے لگیں گی۔انہیں دوربھگانے کی یہی ایک ترکیب ہے۔“
”اچھا۔“آصف نے تالی بجائی۔”کیایہ چلے گی۔پھرتوبہت اچھاہے۔“
آصف سمجھ رہاتھاکہ ایلی اسے مشورہ دے رہاتھا۔حالانکہ درحقیت مشورے کے پردے میں وہ اپنی مشکل بیان کررہاتھاوہ محسوس کررہاتھاکہ کوئی لڑکی ایسی نہ تھی جوصبح سویرے اٹھ کراسے سلام کرتی ہو۔کوئی بھی تونہ تھی جو اس کے لئے بیقرارہو۔بلکہ قریب آکربھی وہ گٹھڑی کی طرح سمٹ جاتی تھیںاورکوشش کے باوجودبھی کھل نہ سکتی تھیں۔
”لیکن لیکن آصف ۔“ایلی نے کہا”ایساکویں ہوتاہے اگرتم ان کی تلاش میں سرگردان ہوجاو تووہ دوربھاگتی ہیں اوراگرتم ان سے دوربھاگوتووہ تمہاراپیچھاکرتی ہیں۔“
”ہاں “آصف گنگنایا‘”مگرمیں ان کی تلاش میں کیسے کھوجاوں۔“
اس کے برعکس ایلی سوچ رہاتھاکہ وہ انہیں اپنی تلاش میں کیسے سرگرداںکرے۔کس طرح انہیں تلاش پرمائل کرے۔
وہ دونوں بہترین دوست تھے لیکن ایک دوسرے سے اس قدرقریب ہونے کے باوجودایک دوسرے سے کس قدر دورتھے۔کس قدربیگانہ ۔ان کی مشکلات ایک دوسرے سے کس قدرمختلف اورمتضادتھیں۔
”اچھا۔“آصف نے کہا۔تومجھے بتاوکہ میں کس طرح ان پرظاہرکروں کہ میں ان کامتلاشی ہوں۔“
”تم صبح اٹھ کران کوسلام کرناشروع کردو۔“ایلی نے سوچتے ہوئے کہا۔”اورکبھی کبھی دوپہریاشام کوکوشش کرکے کوٹھے یاکھڑی سے اسے دیکھ لیاکرو۔“
”اچھا۔میں کوشش کروں گا۔“آصف بولا۔
اورایلی نے دل میں سوچااچھامیں کوشش کروں گاکہ کسی کواپنے لئے سرگرداں کروں۔مائل جستجوکروں۔
وہ کوچہ
ایلی اب محسوس کرنے لگاتھاجیسے وہ سمندرمیں بہتاہواتنکاہو۔خصوصاًجب وہ اس کوچے میں جاتاتویہ احساس اس کی رگ وپے میںبس جاتا۔وہاں پہنچ کروہ محسوس کرنے لگتاجیسے زندگی ایک گرداب ہوجس میں افرادکی چھوٹی چھوٹی قندیلیں اپنی اپنی دھن میں سلگ رہی ہوں اورگرداب کے بہاو کے ساتھ ساتھ دیوانہ وارگھوم رہی ہوں۔
جب کبھی شام کے وقت ایلی آغاسے ملنے ان کے یہاں جاتاتوآغاایلی کولے کرڈیوڑھی کے باہرکھڑے ہوجاتے تاکہ کٹڑے میں چلتے پھرتے لوگوں کاتماشاکرسکیں۔کٹڑے میں لوگ پان کھاتے،سگریٹ کے کش لیتے اورنگاہوں کی انگلیوں سے چوباروں میں بیٹھی ہوئی رقاصاوں کوچھیڑتے۔اشارے کرتے۔تماشین تانگوں پربیٹھ کرچوباروں کی طرف گرم نگاہیں ڈالتے ہوئے گزجاتے۔مزدوروں کے گروہ کوچے میں ٹہلتے ۔تاجرنگاہیں جھکائے قدم اٹھاتے ہوئے نکل جاتے ۔شوقین مزاج دوکانداروں کی نگاہیں گاہکوں اوررقاصوں کے درمیان یوں گھومتیں جیسے گھڑی کاپنڈولم چلتاہے۔
ہرچندگھنٹوں کے بعدکٹڑے میں کوئی ایساشخص بھی آنکلتاجیسے دیکھ کرلوگوں کی نظروں چوباروں سے ہٹ کراس کی طرف منعطف ہوجاتیں۔بازارمیں ایک مدھم سی سرگوشی ابھرتی۔
”کون ہے۔“
”ہائیں یہ ہے وہ۔“
”یارانہ ہے اس سے کیا؟“
اوروہ سرگوشی برف کی گیندکی طرح لڑھکتی ۔لڑھکتے جاتی۔حتیٰ کہ ساراکٹڑااس کی لپیٹ میں آجاتا۔رقاصائیں بھی اپنے بے نیازانہ اندازکوچھوڑکربچوں کی طرح بازارکی طرف دیکھنے لگتیں اورچندساعت کیلئے انہیںیادنہ رہتاکہ وہ دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ اپناآپ دکھانے کے لئے وہاں بیٹھ ہیں۔اس وقت رقاصاوں میں نسائیت کی جھلک نمودارہوجاتی اورمحسوس ہونے لگتاکہ وہ گڑیاںنہیں بلکہ جیتی جاگتی عورتیں ہیں۔
لکھنو الہ آبادیامدارس کاکوئی مشہورسازندہ آجاتایاکوئی پیرانوکھالباس پہنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کٹڑے میں داخل ہوتا۔وہاں مشہورڈاکواورلیٹرے آیاکرتے تھے۔کروڑپتی اورگویے تواکثرآتے۔لیکن کٹڑے میں سب سے زیادہ دھوم انسپکٹرروف کی تھی۔
انسپکٹرروف
اگرانسپکٹرروف آجاتاتوفوراًبازارپرسناٹاچھاجاتا۔پنواڑی سہم کرپیچھے ہٹ جاتے۔دوکاندارچوباروں کی طرف دیکھناموقوف کردیتے ۔راہ گیرنگاہیںجھکالیتے ۔ادھرچوباروں میں سرخی بھرے چہرے زردپڑجاتے۔نگاہوں میں شوخی کی جگہ گھبراہٹ دوڑجاتی ۔رقاصائیں یوں چپ چاپ گردن جھکائے بیٹھ جاتیں جیسے طبیعت ناسازہو۔
اس زمانے میں کٹڑے پرروف کی حکومت تھی۔وہ کٹڑااس کی ریاست تھی۔جب شام کے وقت وردی پرسیٹی پیٹی لگائی۔سرپرطرے دارپگڑی باندھے اپنے باڈی گارڈکے ساتھ وہ کٹڑے میں نکلتاتوایک سرگوشی ابھرتی اورتیزی سے یہاں سے وہاں تک دوڑجاتی اوراپنے عقب میں بھیانک خاموشی چھوڑجاتی۔
پنواڑی چوباروں کی طرف تاڑنے کاشغل چھوڑکرشدت سے پان بنانے میں مصروف ہوجاتے۔دوکان پرکھڑے شوقین نظریں لڑانے کاخیال موقوف کردیتے۔جنرل مرچنٹس کے سلیزمین حساب کتاب کے رجسٹرکھول کرمصروف ہوجاتے۔
انسپکٹرروف کی آمد کی خبرسن کرچوباروں میں سازندوں کے ہاتھ لرزکرممنوع سروں پرجاپڑے دکھ بھری سروں پرقیام لمبے ہوجاتے۔سارنگیاں ناچناچھوڑکرروناشروع کردیتیںاورمسکراتی ہوئی رقاصائیں گھبراکرگاناچھوڑدیتیں اورکھوئے ہوئے اندازمیں پان لگانے بیٹھ جاتیں۔
انسپکٹرروف تمہیدکے طورکٹڑے کے دوتین چکرلگاتے ۔پھرکسی چوبارے کی دروازے پراپنے سپاہی کومتعین کردیتے اورخودسیڑھیاں چڑھ کراوپرجاپہنچتے۔ان کے سیڑھیاں چڑھتے ہی وہ طلسم گویاٹوٹ جاتا۔اس وقت کوئی پنواڑی نعرہ لگاتا”علی “اس کاوہ نعرہ کن بن کرکٹڑے میں گونجتااورکٹڑے میں رکی ہوئی زندگی پھرسے حرکت میں آجاتی۔تماش بینوں کی نگاہیں بے باکی سے کھڑکیوں پرمنڈلاناشروع کریتیں۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرکھڑے شرفاپھرسے رقاصاوں کوتاڑنے لگتے۔رقاصاوں کے ہونٹوں پرایک بارپھرتبسم لہراتااوران کے دل سے بوجھ اترجاتا۔
البتہ جس چوبارے پرانسپکٹرروف چڑھ جاتے تھے وہاں لوگ کی حالت بد سے بدترہوجاتی۔محفل برخواست ہوجاتی۔سیٹھ اورتاجرچپکے سے نیچے اترآتے۔میراثی ہاتھ دھرکربیٹھ جاتے۔
پھراگرروف کے حکم کے مطابق وہاں راگ رنگ ہوتابھی توسارنگیاں گانے کی بجائے بین کوتین طبلہ سرپیٹتا۔پھرکچھ دیرکے بعدچوبارے سے انسپکٹرروف کے دھاڑنے کی آوازیں آتیں جوسارے کٹڑے میں گونجتیں۔وہ نشے میں چیختاچلاتااوردھمکیاں دیتا۔غلیظ گالیاں دیتااورپھرایسے لگتاجیسے چوبارے میں دنگافسادہورہاہو۔وہ بالآخربتیاں بجھ جاتیں اورسکوت چھاجاتااورکٹڑے والے محسوس کرتے جیسے اس گہری خاموشی سے کراہوں کی آوازآرہی ہو۔
انسپکٹرروف کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت جوکٹڑے پراثراندازہوتی تھی،پیرسبزپوش کی تھی۔جب بھی وہ کٹڑے میں داخل ہوتے توایک تعجب اورخاموشی بھری سرگوشی بلندہوتی۔پنواڑی پان لگاناچھوڑدیتے۔تماش بینوں کی نگاہیںچوباروں سے ہٹ کرپیر صاحب کے چہرے اور لباس پرمرکوزجاتیں۔سیزمین دوکان کے اندرونی حصے سے دوڑکرباہرآکھڑے ہوتے اوررقاصائیں جنگلوں پرکھڑی ہوکرنیچے دیکھنے لگ جاتیں۔
پیرصاحب کے سبزریشمیں پیراہن پران کی لابنی سیاہ زلفیں لٹکتیں ان کے سرپرریشمیں سبزرومال عربی اندازسے بندھاہوتااوران کاحسین نسائی چہرہ چمکتااوررسیلی سیاہ آنکھیں جھکی رہتیں۔ان کے خدوخال ستواں تھے۔ان کی آنکھیں دیکھنے والی نہیں بلکہ دکھنے والی تھیںاورانہیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھا۔جیسے کوئی حسین عورت جوگی لباس پہنے چوبارے سے اترکرتفریحاًکٹڑے کے بازارمیں گھوم کراپنی نمائش کررہی ہو۔
آنچل اورگٹھڑیاں
اس کوچے کودیکھ کرنہ جانے ایلی کوکیاہوجاتا۔اس کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگتیں اورپھرایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اوراس کاجی چاہتاکہ وہ وہیں کھڑادیکھتارہے ۔دیکھتارہے۔
اب اس کے لئے آغاکے ملاقاتی کمرے میں بیٹھناناممکن ہوچکاتھا۔جب بھی وہ وہاں بیٹھتاتواسے محسوس ہوتاکہ کوئی اس پرہنس رہاہے۔اس کامذاق اڑارہاہے۔ایک رنگین آنچل لہراتااورکوئی ہنستاجیسے مذاق اڑاتا۔ایلی گھبراکراٹھتااورزینے کی طرف بھاگتازینے میں کھڑی نیم کے ہونٹوں پرپراسرارتبسم ہوتا”آگئے ،آگئے ۔“وہ آنکھیں مٹکاکرکہتی ۔ایلی کواس کی آوازمیں بلاکاطنزمحسوس ہوتاپھروہ باہرنکل جاتااوربازارکے کسی کونے میںکھڑاہوکرلوگوں کی طرف دیکھنے میں کھوجاتا۔
کالج میںجب آصف مسکراکراس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا”ایلی تسلیم۔“توایک ریشمیں گٹھڑی دھم سے ان کے درمیان آگرتی اوراس کارازکھول دیتی۔وہ محسوس کرتاکہ آصف اس کے رازسے واقف ہے ۔ وہ جانتاہے کہ ایلی ایک ریشمیں گٹھڑی کھولنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا۔
پھرشام کودودونوں آموں کی کوٹھی قریب نہرکے کنارے نورسے ملتے اورنورکسی پیڑکے نیچے بیٹھ کرگاتااورشبھ لگن سے بہارآجاتی۔لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نورکے لئے شہرسے اتنی دورچل کرآموں کی کوٹھی تک پہنچنامشکل تھااورنورکوگھرسے بلاناممکن نہ تھا۔کیونکہ نورمحلے کے لڑکوں سے اس قدرخوف زدہ تھاکہ اسے یہ گوارانہ تھاکہ کوئی جاکرگھرسے اسے بلائے ۔نورسے ایک جگہ مقررکرلی جاتی اورایلی مقرروقت پروہاںجاکرنورکواپنے بائیسکل پربٹھاکربورڈنگ میں لے آتا۔ایلی کویہ احساس نہ تھاکہ نورکویوں بائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں۔اسے معلوم نہ تھاکہ نورکویوںبائیسکل پرلاناخطرے سے خالی نہیں اسے معلوم نہ تھاکسی لڑکے سے دوستی کی وجہ سے عداوت بھی پیداہوسکتی ہے۔
ایک روزجب ایلی سفیدچوک میں کھڑانورکاانتظارکررہاتھاتوایک پہلوان قسم کاشخص آگیااوربڑی بے تکلفی سے بولا۔”دیکھ بابوتونورکاپیچھاچھوڑدے ورنہ خون بہہ جائے گااورتیری کھلڑی اترجائے گی۔“یہ کہہ کراس نے غصے میں نل پرایک گھونسہ مارا۔پانی کاایک فوارہ چھوٹااورایلی کے کپڑے بھیگ گئے۔
اس روزآصف اورایلی تن تنہانہر کے کنارے خاموش بٹیھے رہے حتیٰ کہ سورج کی سرخ دھاریاں دھندلی پڑگئیں۔اوردورشہرکی بتیاں روشن ہوکرناچنے لگیں۔مگرشبھ لگن سے بہارنہ آئی۔دیرتک وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔
پھرایلی نے کہا۔”آصف میراجہاں جی نہیں لگتا۔“
”توپھرمیں علی پورسے ہوآوں کیا۔“ایلی نے کہا۔
”اس سے کیاہوگا۔“
”پتہ نہیں۔“ایلی بولاشاید-“
”اچھا۔“آصف نے آہ بھری۔”لیکن میں کہاں جاوں۔“
”کیوں ۔تم تویہاں خوش ہو۔“
”ہاں خوش ہوں۔بڑاخوش ہوںلیکن ۔“آصف نے آہ بھری”لیکن کیا۔“ایلی نے کہا۔”معلوم نہیں۔“آصف نے سرجھکالیاایسے معلوم ہوتاہے جیسے اب یہ شہرویران ہوگیاہے۔جیسے کچھ باقی نہیںرہاجیسے کچھ کھوگیاہے۔“
”اب تووہ یہاں نہیں۔اب توتمہیں کوئی تنگ نہیں کرتی۔“ایلی نے طنزاًکہا۔”ہاں۔“آصف نے آہ بھری۔”اب مجھے کوئی تنگ نہیں کرتی۔“
”پھربھی تم اداس ہو۔عجیب بات ہے۔“ایلی بولا۔
”ہاں-“آصف نے اثبات میں سرہلایا۔”عجیب بات ہے۔اچھاتم ہوآو علی پورسے۔“اس نے آہ بھری۔”کاش کہ میرابھی کوئی علی پورہوتا۔“
اس روزوہ دونوں دیرتک اندھیرے میں نہرکے کنارے بیٹھے رہے حتیٰ کہ اللہ دادلکڑی اٹھائے ان کی تلاش میں آپہنچا۔
”ارے یہاں بیٹھے ہوتم دونوں۔“وہ چلایا۔”اورمیں سمجھاشایدنہر میں ڈوب گئے جوابھی تک نہیںآئے۔”ہاں ۔“وہ انہیں خاموش دیکھ کرچلایا”کیاکررہے ہومیاں۔یوں چپ چاپ بیٹھنے سے مطلب چلوایلی چلو۔“
رات کے وقت لیٹے ہوئے ایلی نے شدت سے محسوس کیا جیسے شبھ لگن گزرگئی اوربہارکے بعدچاروں طرف خزاں کی ویرانی چھاگئی ہو۔چاروں طرف ایک لٹی ہوئی دنیاتھی۔دورندی کادھارااداس آوازمیں گنگتارہاتھا۔لہریں ہچکیاں لے رہی تھی۔درخت شائیں شائیں بھررہے تھے۔رسوئی میں راموبھدی آوازمیں کچھ گنگنارہاتھااورچاروں طرف گپ اندھیرالہریں ماررہاتھا۔
اس کاخیال نیم کی طرف منعطف ہوگیا۔ایک گٹھڑی سی لپٹ گئی۔ایک قہقہہ بلندہوااورزرداداس چہرے ستونوں کی اوٹ سے نکل کرجھانکنے لگے۔بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تمسخرسے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
گھبراکراس نے باورچی خانے کے نل کوگھورناشروع کردیا۔--کتناغلیظ نل ہے۔اس نے جھرجھری لی۔نہ جانے راموکہاں ہے کس کام میں لگاہے۔شایدبرتن صاف کررہاہو۔شایدرسوئی میں بیٹھاہو۔اسکی نگاہیں پھرنل پررک گئی۔اگراس کے گرداینٹوں کاچبوترابنادیاجائے تواس کی نگاہ میں نل کے گردایک صاف ستھراچبوترہ بن گیا۔”اوربابو۔“ایک بدمعاش اس کی طرف لپکا“کھلڑی اترجائے گی تیری۔ہاں۔“ایلی نے گھبراکرآنکھیں بندکرلیں۔اسے محسوس ہونے لگاکہ نل سے چھینٹے اڑرہے ہیں اوروہ شرابورہوچکاتھا۔
رینگتی دیواریں
اگلے روزایلی گاڑی میں علی پورجارہاتھا۔
بخارکی وجہ سے اس کی کنپٹیاں تھرک رہی تھیں۔دل میں دھنکی بج رہی تھی۔گاڑی ہرے بھرے کھیتوں میں جارہی تھی۔یہاں وہاں سبزگٹھڑیاں پڑی تھیں۔
ایک گٹھڑی قریب آتی۔دفعتاً اس میں سے دوحنامالیدہ ہاتھ ایلی کی طرف لپکتے اورپھرشمیم کی ہنسی کی آوازسنائی دیتی۔”ہی ہی ہی“علی احمدقہقہہ مارتے۔”کشمیرکے سیبوں پرپلی ہے ہاں۔“
دوسری گٹھڑی کے پٹ کھل جاتے۔بھووں کے عین درمیان ایک تارہ چمکتا۔جیسے وہ روشن بندی ہو۔پھرسیاہ جھیلوں میں دودئیے روشن ہوجاتے۔
”رے رے رے۔“ارجمندچھاتی پیٹتا۔”جب سے اس پنڈوراکی گٹھڑی کے پٹ کھلے ہیں ایک قیامت لوٹ پڑی محلے پر۔“
لڑھکتی ہوئی ایک اورگٹھڑی قریب آجاتی اورکھلنے کی بجائے مزیدلپٹے جاتی۔پٹ اوربھی بندہوجاتے۔پھرچاروں طرف سے حسین چہرے جھانکتے۔ایک قہقہہ ابھرتا۔”بے چارہ بے چارہ۔“
ایلی چونک جاتا۔وہ اپنے آپ کوجھنجھوڑتا۔لیکن گذشتہ خفت کااحساس اس کے دل پرمسلط ہوجاتا۔پھرسبزگٹھڑی قریب آکرکہتی۔
”اسے بھول جاوایلی۔بھول بھول جاو۔میری طرف دیکھو۔میری طرف۔“
گھبراکروہ لاحول پڑھنے لگتا۔”یہ میں کیاسوچ رہاہوں!یہ کیسے ہوسکتاہے؟“پھرشریف اس کی طرف دیکھ کرمسکراتا۔”تم امتحان میں پاس ہوگئے ہوایلی۔تم میں جرات ہے۔جاذبیت ہے۔“”ہاں ہاں“شہزادکہتی۔”اب توایلی سے ڈرآنے لگاہے۔“اوروہ گھبراکرپیچھے ہٹتی اوردفعتاًایلی دیکھتاکہ وہ اس پرجھک گئی ہے اورسیاہ جھیلوں پرکنول سے دیئے روشن ہوگئے ہیں۔
جب وہ محلے میں پہنچاتوشام پڑچکی تھی۔بڑی ڈیوڑھی ویران پڑی تھی چوگان میں کوئی نہ تھا۔چپکے سے وہ گھرکی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
گھر پرخاموش چھائی ہوئی تھی۔صرف دادی اماں کے کمرے میں مٹی کادیاجل رہاتھا۔وہ چپکے سے دروازے میں جاکھڑاہوا۔دادی اماں کاتخت جہاں وہ نمازپڑھاکرتی تھی،خالی پڑاتھا۔دادی اماں چارپائی پربے حس وحرکت پڑی تھی اورسیدہ اس کے اوپرجھکی ہوئی تھی۔حمیدہ اوررشیدہ چپ چاپ ایک کونے میں سہمی ہوئی بیٹھی تھیں۔
دیر تک وہ چپ چاپ کھڑارہا۔پھراس نے آہستہ سے آوازدی۔”دادی اماں“سید ہ نے مڑکراس کی طرف دیکھااورہونٹوں پرانگلی رکھ کرچپ رہنے کااشارہ کیادادی اماں میں حرکت پیداہوئی۔اس نے نحیف ونزارآوازمیں کہا۔”ایلی ہے اچھااچھا۔“اورپھرخاموش ہوگئیں۔
اس پرایلی سیدہ سے چمٹ گیا۔”تم اس طرح سے کیوں بیٹھی ہو۔دادی اماں کوکیاہے وہ لیٹی ہوئی کیوں ہیں۔بولتی کیوں نہیں۔بولو۔بولو۔تم سب خاموش کیوں ہو۔“سیدہ نے ایلی کے منہ پرہاتھ رکھ دیا۔اوراشارے سے بولی۔”چل کمرے میں یہاں نہیں۔“
جب وہ کمرے میں پہنچاتووہاں ماں کودیکھ کراوربھی گھبراگیا۔
”ایلی آیاہے۔“ہاجرہ چلائی۔”کب آیاتو۔“
”دادی اماں کوکیاہواہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”اس کی حالت اچھی نہیں۔“
”بیمارہے؟“
”ڈاکٹروں نے جواب دے دیاہے۔توجاادھر فرحت کی طرف۔ادھرسوجاکے ۔یہاں ہم جوہیں۔“
”لیکن مجھے دادی اماں۔“
”اسے اپناہوش نہیں ۔بہت تکلیف میں ہے جاشاباش۔“ہاجرہ نے منت کی ۔”سیدہ“وہ اس کے داخل ہونے چلاکربولا۔جواب میں سیدہ نے ہونٹوں پرانگلی رکھ کراشارہ کیا-
”شورنہ مچاہوش آتاہے تووہ مچھلی کی طرح تڑپتی ہے۔تین دن ہوچکے ہیں۔بڑے عذاب میں مبتلاہے۔اللہ اس کی مشکل آسان کرے۔“سیدہ نے آنسوپونچھتے ہوئے کہا۔
”آوایلی -“ہاجرہ بولی۔”آوادھر چلیں ۔“اوروہ دونوں چپ چاپ فرحت کے گھرکی طرف چل پڑے۔
”تیری دادی کی حالت اچھی نہیں۔کیامعلوم کب آنکھیں بندکرلے۔“ہاجرہ نے کہا۔
”لیکن ۔“ایلی نے پوچھا۔”کیابیماری ہے؟“
”بیماری؟اب میں اس کاکیاجواب دوں۔“ہاجرہ مسکرائی۔”عمرکاتقاضہ ہے آخرایک نہ ایک دن جاناہی ہے سب کو۔“
ایلی خاموش ہوگیا۔وہ جانتاتھاکہ دادی بہت ضعیف ہے لیکن اس کے مرنے کے متعلق اسے کبھی خیال نہ آیاتھااوراب اس کے دل پرچوٹ لگی تھی۔
”سب انتظامات کرچکی ہے اپنے ہاتھوں سے وہ“-ہاجرہ نے کہا۔”کپڑالتاغریبوں کوبانٹ چکی ہے۔قل کے لئے چنے منگواکررکھ لئے ہیں۔کل خودہی ختم دیا۔کفن کاکپڑابھی منگواکررکھاہواہے۔بس اب توگھڑی پل کی بات ہے۔جبھی تومیں رات کوادھرہی رہتی ہوں۔لیکن ایلی توادھرفرحت ہی کی طرف سوئیو۔میں تمہیں وہاں چھوڑکرواپس آجاوںگی۔“
”ہوں۔“ایلی خاموش ہوگیا۔
”تودادی کے پاس سوکرکیاکرے گا۔“ہاجرہ نے کہا۔”اسے تواپناہوش نہیں اس کاسانس بگڑتاہے۔توبڑی تکلیف ہوتی ہے اسے۔توکیاخدمت کرے گااس کی۔اس نے توکبھی کسی سے خدمت نہیں کرائی آج تک۔“
ایلی نے محسو س کیاجیسے وہ علی پورنہیں بلکہ امرتسر ہی میں ہو۔چاروں طرف اداسی ہوئی تھی۔محلے کے اونچے لمبے مکانات خاموش کھڑے تھے۔نانک چندی اینٹوں کی دیواریں رینگ رہی تھیں۔دیواروں پرچمکاڈریں منڈلارہی تھیںوہ یوں چیخ رہی تھیںجیسے اس کی بیچارگی پرقہقہے لگارہی ہوں۔کھڑکیاں ویران پڑی تھیں۔جن پرسیاہ تیلیوں کے پردے جھول رہے تھے دورکچی حویلی میں کڑی لال ٹین سرجھکائے سوچ رہی تھی۔
فرحت کی طرف جاتے ہوئے ایلی محسوس کررہاتھاجیسے علی پورایک ویرانہ ہواس کے گردایک دھندلی اورلٹی ہوئی دنیاتھی۔جس میں کوئی بات بھی جاذب نظرنہ تھی وہ محسوس کررہاتھاجیسے جینے کے لئے کوئی جوازباقی نہ رہاہو۔جیسے زندگی اپنی تمام رنگینی اوردلچسپی کھوچکی ہو۔
گلال پچکاری
ہائیں۔وہ گھبراکررک گیااس کے روبروچوبارے میں شہزادبیٹھی اس کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔تخت پرسینے کی مشین پڑی تھی۔جس کے ایک جانب دوبلوریں پاوں قرینے سے رکھے تھے۔سیاہ جالی کے ڈوپٹے سے دوسفید بازونکل کر مشین کوتھامے ہوئے تھے۔ریشمیں ملبوس کے اوپرایک متبسم چہرہ،دونوکیلی آنکھیں اوران پرپیشانی کاسیاہ تل۔گھبراکرایلی نے نگاہ جھکالی۔
شہزادکے سرخ حنامالیدہ ہاتھوں نے جیسے اس کے منہ پرطمانچہ ماردیا۔سرخ بوندیاں ناچنے لگیں۔ایلی لڑکھڑاگیا۔
”توآگیاایلی؟“شہزادنے مسکراکرپوچھا۔دادی کی بیماری کی خبر سن کرآیاہے؟“
”نہ ۔نہ نہیں تو۔“ایلی نے اپنے آپ کوسنبھالنے کی کوشش کی ۔”آپ یہاں ہیں۔“دفعتاً اس غیرمتحرک تصویر میں جنبش ہوئی۔ایک چمک لہرائی چبھتی ہوئی چمک”ہاں۔“شہزادمشین چلاتے ہوئے بولی۔”اب کی بارمیں ان کے ساتھ نہیں گئی۔ میں نے کہاکچھ دیریہاں رہ لوں بیٹھ جاتو-“
”کھڑاکیوں ہے تو؟“
ایلی بیٹھ گیااورشہزادکی طرف دیکھ کرسوچنے لگا۔شہزادسراٹھاکردیکھتی تواس کے ہونٹوں پرایک مسکراہٹ چمکتی عجیب سی مسکراہٹ ایسے محسوس ہوتاکہ کہ گلال بھری پچکاری چل گئی ہوجیسے شہزادبہت قریب آگئی ہوبہت قریب ۔اتنی قریب کہ قرب کی وجہ سے ایلی کے بند بندمیں بتیاں سی روشن ہوگئی ہوںجیسے اس نے نہ جانے کیاپالیاہولیکن شہزادآنکھیں جھکالیتی توایلی محسوس کرتاجیسے گھٹاٹوپ اندھیراچھاگیاہوچاروں طرف ویرانی اوراداسی چھاجاتی اس وقت ایلی کوشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں سے گھن آنے لگتی اس وقت محسوس کرتاجیسے وہ ننگاہو۔جیسے اس کاوجودباعث ننگ ہو۔احسان ندامت سے اس کاسرجھک جاتااوروہ دل ہی دل میں لاحول پڑھنے لگتا۔لیکن اس کے باوجوداس کے دل میں شدت سے آرزوپیداہوتی کہ شہزادایک بارپھرنگاہ اٹھاکردیکھے۔اس منورپیشانی سے بجلی چمکے چھوٹی چھوٹی بتیاں یوں روشن ہوجاتیں جیسے گلال بھری پچکاری چل گئی ہواورشہزادکے حنامالیدہ ہاتھوں کی پچکاری سے گلال کی پھوارپڑے ۔شہزادکااندازعجیب ساتھا۔جب وہ مسکراتی توفضامیں اثبات کی پھلجھڑیاں چل جاتیں۔لیکن جب وہ سنجیدہ ہوجاتی توبے نیازی کادبیزپردہ پڑجاتااورپھروہ گویاایلی کی موجودگی اورگویاوجودسے بھی بے تعلق ہوجاتی۔نہ جانے یہ کیاسحرتھایوں لمحہ بھرمیں اس قدرقریب آجاتااورپھردوسرے لمحے میں جیسے کوسوں دورہو۔
ایلی اکثرسوچتاتھاکہ وہ خصوصی مسکراہٹ کیاتھی جوقرب کااحساس دیتی تھی۔نہ جانے اس کی مسکراہٹ میں کیاجادوتھا۔جیسے کوئی ان جانی شبھ لگن آگئی ہو۔اس نے کئی باررفیق کی بیوی کے ہونٹوں پروہ مسکراہٹ دیکھی تھی مگررفیق پراس کاذرابھی اثرنہ ہوتاتھا۔گلال کی اس پچکاری تلے کھڑے ہوکر بھی وہ ویسے ہی خشک رہتااورپھرتیوری چڑھاکرخشک آوازمیں اسے ڈانٹتا”ڈوپٹہ سنبھالو۔سرننگاہواجارہاہے۔“اورپھرباہر نکل جاتا۔
کئی بارشریف کے پاس بیٹھے ہوئے اس نے محسوس کیاتھاکہ شہزادکی آنکھوں میں وہی تبسم کی لہر چمک رہی ہے اوراس نے محسوس کیاتھاجیسے شہزادواضح الفاظ میں اپنے خاوندسے کچھ کہہ رہی ہو۔جیسے دورکھڑے رہنے کے باوجوداس کے قریب آگئی ہو۔اس کی گودمیں بیٹھ گئی ہو۔شریف اس کے جواب میں گھورتاتونہیں تھا۔لیکن اس کی آنکھوں مسرت کی جگہ اداسی جھلکتی حسرت اوراداسی،اورپھرشہزاداس کی حسرت بھری اداسی کومحسوس کرکے چونکتی۔وہ بتی بجھ جاتی،اورگھٹاٹوپ اندھیراچھاجاتا۔ایسی چمک اس نے مردوں کی آنکھوں میں کبھی نہ دیکھی تھی۔ہاں عورتوں کی آنکھوں میں کئی باردیکھی تھی،لیکن عورتوں میں نہ جانے کیاہوتاتھا۔نہ جانے وہ نگاہ کیاتھی،مسکراتی تووہ ویسے بھی تھیں لیکن ہرمسکراہٹ میں وہ بات پیدانہ ہوتی تھی۔
شہزاداکثرمسکرامسکراکرایلی سے باتیں کیاکرتی تھی۔لیکن اس کے باوجودایلی کومحسوس ہوتاجیسے وہ مسکراہٹ محض سطحی ہو لیکن شریف کی طرف دیکھ کرمسکراتی توایلی تڑپ اٹھتا۔وہ مسکراہٹ عام مسکراہٹ سے کس قدرمختلف ہوتی تھی۔ایلی کوجی چاہتاکہ کوئی اس کی طرف بھی وہی مسکراہٹ لہرائے۔ویسی ہی مسکراہٹ سے دیکھے۔ان دنوں ایلی کی سب سے بڑی آرزواورحسرت وہ مسکراہٹ تھی۔
ایلی کے جسم کابندبنداس نگاہ کابھوکاتھااورپھرشہزادسے”میرے ایسے نصیب کہاں“۔وہ سوچتاکہ شہزادمیری طرف وہ نگاہ ڈالے ۔پھربھی کبھی کبھاروہ محسوس کرتاکہ وہ گلال بھری پچکاری چلاہی چاہتی ہے اورشہزاداوروہ شرابورہواہی چاہتاہے۔لیکن دفعتاًنہ جانے کیاہوجاتا۔بات بگڑجاتی،گلال کی جگہ دوایک پھول پتیاں برستیں اورپھرمطلع غبارآلودہوجاتا۔پھول پتیوں کاکیاتھاوہ توہرتبسم پراڑاکرتی تھیں۔
کچھ دیرایلی شہزادکے سامنے بیٹھارہا۔پھراس کے لئے وہاں بیٹھے رہناناممکن ہوگیا۔شہزادنہ جانے کہاں تھی۔اس کے چہرے پرایک وقارتھی۔بے حسی تھی۔
ایلی اٹھ بیٹھا۔”اچھااب میں جاتاہوں فرحت انتظارکررہی ہوگی۔“
”اچھاتومل آاسے ۔“اس نے سراٹھائے بغیرکہا۔”لیکن چائے یہاںپینانیچے جانوبنارہی ہے۔“
”اچھاتومیں ابھی۔“یہ کہہ کروہ فرحت کی طر ف چل پڑا۔
احساس عظمت
نیچے صفدراندھیری کوٹھری کے ساتھ والاکمرہ صاف کررہاتھا۔
”ہائیں ایلی ہے۔“صفدراسے دیکھ کرچونکا”چھٹی لے کرآئے ہو؟“
”دادی اماں ۔“صفدرنے دانت پیسے۔”وہ نہیں مرے گی وہ کبھی نہیں مرے گی وہ مرے تومیں پارٹی دوں گا۔ضروردوں گاایمان سے مذاق نہیں۔“
ایلی کوصفدرکی بات اچھی نہ لگی۔
”آو۔آو۔بیٹھ جاوایلی۔“صفدرنے اس کابازوپکڑلیا۔”بیٹھ جاو۔“
ایلی بہت خوش تھاکہ محلے کاایک بڑالڑکااسے اتنی اہمیت دے رہاتھااورپھروہ لڑکاجیسے تھیٹرکی پارسی لڑکی سے عشق تھا۔
”تم مجھ سے کبھی ملتے ایلی۔میرے پاس بھی آکربیٹھاکرو۔اوروں کے پاس بیٹھتے ہوتوہمارے پاس بیٹھنے میں کیاحرج ہے۔“
ایلی کوصفدرکی باتیں سمجھ میں نہ آرہی تھیں نہ جانے کیاکہہ رہاتھاوہ اس کے بازوعجیب اندازسے پھیلے ہوئے تھے۔دائیں بازوپرنیلے حروف میں کچھ کھداہواتھا۔شایداس پارسن کانام ہوایلی کوجی چاہتاتھاکہ وہ ان نیلے حروف کے متعلق صفدرسے پوچھے لیکن اس میں ہمت نہ پڑی۔
اگرچہ صفدراس وقت کمرے کی صفائی کرنے میں مشغول تھا۔لیکن کبھی کبھاروہ رک جاتااوراس کی آنکھوں میں چمک لہراتی۔سرخ بوندیاں اڑتیں۔لیکن جلدہی وہ چمک ماندپڑجاتی اورمحرومیت کے بادل چھاجاتے وہ ایک آہ بھرتا۔اس کے ہونٹوں میں وہی جنبش ہوتی۔”حافظ خداتمہارا۔“کی جنبش پھروہ تڑپ تڑپ کرمڑتااورایلی سے کہتا”ایلی تم شریف کے پاس بیٹھاکرتے ہو۔لیکن میرے پاس تم کبھی میرے پاس تم کبھی نہیں آئے۔کبھی نہیں۔حالانکہ ہم دونوں کارشتہ زیادہ قریب ہے۔اچھا۔اچھاآج چائے اکٹھے پئیں گے۔“
عین اس وقت چوبارے سے شہزادکی آوازآئی۔”ایلی“-شہزادکی آوازسن کرصفدرچونک پڑااس کی آنکھوں میں چمک لہرائی اورایلی نے محسوس کیاجیسے اس کابندبندرقص کررہاہو۔
”ایلی چائے تیارہے آو بھی نا-“شہزادکی آوازگونجی۔
شہزادکی آوازسن کرسبھی چونک جاتے تھے۔نہ جانے اس کی آوازمیں کیااثرتھا۔اس کی آوازمحلے والیوں کی آوازسے قطعی طورپرمختلف تھی جسے سن کریوں محسوس ہوتاجیسی ویرانی میں کوئی اڑتاہواپنچھی تان اڑاگیاہو،یاجیسے گھورگھٹامیں سورج کی کوئی کرن چمک گئی ہو۔اس کی آوازسن کرمحلے کے بزرگ بھی چونک پڑتے تھے اورپھرکسی سے پوچھتے۔”یہ شہزادہے نا؟“
صفدرنے ایلی کی طرف محروم نگاہ سے دیکھا۔”ہاں بھئی۔“وہ بولا”اب میں کیاکہہ سکتاہوں۔کچھ بھی نہیں۔کون کچھ کہہ سکتاہے۔“اس نے ایلی سے یااپنے آپ سے کہا”اچھا۔“
وہ بولا”کبھی توہم دونوں اکٹھے چائے پئیں گے۔“
ایلی صفدرکے کمرے سے باہرنکلاتوفرحت کھڑیتھی۔”ایلی توکب آیا؟مجھے توپتہ ہی نہیں تھاکہ توآیاہے۔“وہ حسرت بھری مسکراہٹ سے بولی۔”اگرمیں شہزادکی آوازنہ سنتی تومجھے معلوم ہی نہ ہوتاکہ توآیاہے چلو شکرہے کہ ہم تیرانام توسن لیتے ہیں شہزادکی زبان ہی سے سہی۔چائے توہمارے یہاں بھی تیارہے۔“
”مگر--“اس نے شہزادکے چوبارے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کرکہا”تجھے فرصت مل جائے توآئیوآئے گانا۔ضرورآنا۔“فرحت کی آنکھوں میں نمی نمی سی دیکھ کرایلی لرزگیا۔وہ حیران تھاکہ وہ سب ایلی کی طرف سے اس قدرمایوس کیوں تھے۔وہ سوچ رہاتھاکہ ان کی ان کہی شکایات کاکیاجواب دے مگران جانے میں ایلی میں ایک احساس برتری لہریں لے رہاتھا۔اسے اپنی عظمت کااحساس ہواجارہاتھااگرچہ اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ وہ احساس عظمت کس وجہ سے ہے اوروہ سب اس سے مایوس کیوں تھے اوران کااندازحسرت زدہ کیوں تھا۔یہ سوچتاوہ شہزادکی طرف چل پڑا۔
بے نیازدرزن
جب وہ داخل ہواتوشہزاداسی طرح بیٹھی مشین چلارہی تھی اوراس کی نگاہ ریشمیں کپڑے پرجمی ہوئی تھی۔
”آگئے تم۔“اس نے نگاہ اٹھائے بغیرکہا۔”دیکھوتوکب سے چائے پڑی ٹھنڈی ہورہی ہے۔“
میزپرچائے کے برتن رکھے ہوئے تھے۔چندایک ساعت توایلی منتظررہاکہ ابھی شہزادآنکھ اٹھاکراس کی طرف دیکھے گی لیکن وہ جوں کی توں کام کرتی رہی۔آخروہ سوچنے لگاکہ آنکھ اٹھاکردیکھنانہ سہی لیکن اٹھ کرچائے توبنائے گی مگرجلدہی اس کی غلط فہمی دورہوگی۔
”اب پی بھی لوناچائے۔“وہ بولی ۔”مجھے بھی ایک پیالہ بنادو۔“ایلی کے تمام سہانے خیال صابن کے بلبلوں کی طرح پھوٹ گئے۔
اس نے محسوس کیاجیسے گردوپیش دھندلارہے ہوں۔جیسے وہ گراجارہاہو۔بلندیوںسے نیچے کی طرف لڑھک رہاہووہ احساس برتری کافورہوچکاتھا۔وہ سوچنے لگا”میں چائے کابھکاری تونہیںجومیزپررکھی ہے۔“اس کاجی چاہاکہ اٹھ کربھاگ جائے اوراپنے آپ کو برتراوربے نیازدرزن سے محفوظ کرلے،لیکن اٹھ کربھاگنے کی بھی ہمت نہ تھی۔پھردفعتاًاسے یادآیاکہ اس نے کہاتھاکہ میرے لئے بھی بنادوایک پیالہ،ڈوبتے کوتنکے کاسہارامل گیا۔میرے لئے بھی بنادو۔اس ایک فقرے میں جادوتھاکتنی اچھی ہے شہزاد--وہ محسوس کرنے لگااورپھرچائے بنانے میں مصروف ہوگیا۔
اگلے روزصبح سویرے ہی شہزادچھم سے آنمودارہوئی۔”چلوایلی۔“وہ بولی۔”میں کب سے انتظارکررہی ہوں۔چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔“
”یہاںجو بنی ہوئی ہے۔“فرحت بولی۔”دونوں بیٹھ کریہیں کیوں نہیں پی لیتے۔“فرحت کے اندازمیں طنزتھی۔
”یہاں نہیں۔“شہزادتن کربولی۔“چائے کامزااکیلے میں آتاہے۔“
”توجبھی ایلی کوبلانے آئی ہو۔“فرحت نے پھروارکیا۔
”ہاں ۔“شہزادنے قہقہہ لگایا۔
”مجھے بھی ساتھ لے چلو۔“فرحت بولی۔
”نہ بھائی۔“شہزادنے جواب دیا۔
”معلوم ہوتاہے کہ شریف جاتے ہوئے ایلی کوتمہیں سونپ گیاہے۔“
”ہاں۔“شہزادمسکرائی۔“وہ کہہ گئے ہیں ایلی کوچائے پرضروربلایاکرنا۔“
”اوہ“فرحت شہزادکی دلیر ی پرگھبراگئی اورایلی چپ چاپ شہزادکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔جب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچے توشہزادحسب معمول مشین کے سامنے بیٹھ کر بولی۔
”ایک پیالہ مجھے بھی بنادو۔“اورخودکام میں مصروف ہوگئی۔
دیرتک وہ چپ چاپ بیٹھاچائے پیتارہااورشہزادکپڑے سینے میں مہنمک رہی۔چائے پی کرجب وہ نیچے اتراتواندھیری کوٹھڑی میں صفدرکھڑاحسرت سے اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے جیسے ”حافظ خداتمہارا۔گنگنانابھول چکے ہوں۔ایلی کودیکھ کر اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ہونٹوں پرایک حسرت بھری مسکراہٹ آگئی۔نہ جانے وہ کیوں اس کی طرف حسرت سے دیکھتے تھے۔اس کاجی چاہاچلاکرکہے۔”نہیں۔نہیں۔میں نے خوداپنے ہاتھ سے چائے بناکرپی ہے۔میرے ساتھ میزپرکسی نے چائے نہیں پی۔“لیکن اس میں اتنی جرات نہ تھی۔چوگان میں عورتوں نے اس کی طرف معنی خیزنگاہوں سے دیکھا۔
”اے ہے۔“ایک بولی ”ایلی آیاہے۔“
”میں کہہ رہی ہوں۔یہ کیاگورکھ دھندہ ہے۔“چاچی بولی۔”دادی تیری اس طرف بیمارپڑی ہے۔بہن تیری ادھر تواس ڈیوڑھی سے باہرنکل رہاہے۔“
”ہائے چاچی۔“دوسری نے کہا۔”آج کل کے لڑکے گھرپرکہاں بیٹھتے ہیں۔“
”نہ لڑکی۔“چاچی نے پنترابدلا۔”ہماراایلی ایسانہیں۔ہوگاکوئی کام آخرپڑجاتاہے اوروہ لڑکی ۔“اس نے کان سے منہ لگاکرکچھ کہااورہنسنے لگی۔
”دیکھ لوزمانے کے رنگ ہیں چاچی۔“
”یہی تودیکھ رہی ہوں۔توبہ کیازمانہ آیاہے مگرہماراایلی ایسانہیں۔“
کیاکروں
پھررضاآگیا--”ٹھیک ہے بابواب کیوں ہمارے پاس آنے لگے تم۔اب توبس چوباروں میں بیٹھ کرچائے اڑتی ہے۔لوگ بلابلاکرپلاتے ہیں۔مگربابوجب اونچے چوباروں سے کوئی گرے توہڈی پسلی ایک ہوجاتی ہے ہاں۔“اس نے اپنی لنگڑی ٹانگ دکھاتے ہوئے کہا۔
”یقین نہ آئے تویہ دیکھ لو۔“
”بکواس بندکرو۔“ایلی نے مذاق میں ٹالنے کی غرض سے کہا۔
”کیسے کروں بند۔“رضاہنسنے لگا”اپناتوکام ہی بکناہے۔سناامرتسروالوں کاکیاحال ہے۔اب تومزے ہیںنا۔“
رضااسے چھیڑنے لگا۔
”بیٹھ جا۔“بولا”بیٹھ جامیاں ۔“
”اونہوں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”کیوں ؟“
بیٹھنے کوبھی نہیں چاہتاچل کہیں گھومیں پھریں ۔واہ دل خوش کردیارضانے لاٹھی پکڑی اورچل پڑا۔دیرتک دونوں فصیل سے باہرگھومتے رہے پھرایک درخت تلے بیٹھ گئے۔
”رضا۔ایلی بولا؟“”میراجی نہیں لگتا۔“
”جی لگ جائے بابوتوپھربھی لگتا“۔
”کیامطلب ؟“ایلی نے پوچھا۔
”سارے محلے میں تیری تسلیم کی باتیں ہورہی ہیں۔“
”لیکن رضاتسلیم تومیرے سامنے نہیں آتی کئی جتن کردیکھے۔“
”تسلیمین سامنے نہیں آیاکرتیںایلی۔سامنے آکھڑی ہوں توپھربات ہی کیاہے۔“رضانے کہا۔یہ توہوتاہی ہے۔“پھرایلی امرتسرکی باتیں سناتارہااوررضاقہقہے مارکرہنستارہا۔
سیرکرکے جب وہ واپس آئے تورضاسے رخصت ہوکرایلی دادی اماں کی طرف گیادروازے میں ہاجرہ کھڑی تھی۔”تویہاں کیاکررہاہے۔“وہ بولی۔“جافرحت کی طرف دوڑجایہاں سے۔“”کیوں؟“ایلی نے پوچھا۔
”کہاجوہے تم سے ۔“بولی ۔”وہ اسی طرح بے ہوش پڑی ہے۔آنکھیں کھولنے کی سکت نہیں رہی۔اس کے پاس بیٹھ کراپنادل براکرے گاتو۔جافرحت تیراانتظارکررہی ہوگی۔“
وہ چپ چاپ فرحت کی طرف چل پڑا۔
شام کوجب وہ شہزادکے چوبارے میں پہنچاتوچوبارے سے ملحقہ چھپ پرپانچ چھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اورفرحت اورشہزادچارپائی پربیٹھی باتیں کررہی تھیں۔
”توآگیاایلی۔“فرحت اس کی طرف دیکھ کرمسکرائی۔”اچھاکیاتونے کہ چلاآیا۔دادی اماں کی حالت اچھی نہیں۔نہ جانے کب۔“
--وہ رک گئی۔”اماں توکئی راتوںسے ادھرہی رہتی ہیں‘آج کی رات-شایدمجھے بھی جاناپڑے اسی لئے میں نے یہاں چارپائیاں بچھوادی ہی ںتاکہ بچے اکیلے نہ رہیں۔ ٹھیک ہے ناشہزاد-“وہ ہے تیری چارپائی ایلی وہ کونے والی۔“
٭٭٭

شہزاد

سانپ اورسپیرا
رات کوشہزادکی طرف دیکھے بغیرایلی اپنی چارپائی پرچپ چاپ لیٹ گیااورسوچ میں غرق ہوگیا۔صحن میں چاندی۔چنکی ہوئی تھی روپہلی چاندنی میں شہزادکے دوبلوریں پاوں کہیں رکھے ہوئے تھے اورسیاہ جالی داردوپٹے میں اس کی دودھیاپیشانی پرایک سیاہ بیربہونی چمٹی ہوئی تھی۔دونوکیلی آنکھیں ڈول رہی تھیں۔گھبراکرایلی نے دیوارکی طرف منہ موڑلیااورکسی اوربات کے متعلق سوچنے کی کوشش کرنے لگا۔
کچھ دیرکے بعددادی اماں کی طرف سے ہاجرہ نے فرحت کوآوازدی۔”ادھرآنا۔جلدی۔“
”خداخیرکرے ۔“فرحت نے گھبراکرکہااورملحقہ کوٹھاپھلانگ کردادی کی طرف چلی گئی۔فرحت کے جانے کے بعددیرتک خاموشی چھائی رہی۔نہ جانے شہزادبیٹھی کیاکررہی تھی۔
ایلی نے شہزادکی طرف نہ دیکھنے کاعزم کررکھاتھامگراس کے باوجوداس کی نگاہوں تلے سیاہ جالی دارڈوپٹے کاپلواڑرہاتھا۔شفاف پیشانی پرسیاہ بیربہوٹی رینگ رہی تھی۔ہرپانچ منٹ کے بعداسے احساس ہوتاکہ وہ شہزادکے متعلق سوچ رہاہے پھروہ گھبراکراپنی توجہ کسی اورطرف مبذول کرنے کی کوشش میں لگ جاتا۔
”سوگئے ایلی۔“قریب ہی شہزادکی آوازسن کروہ چونک پڑااورگھبراکراٹھ بیٹھا”نہیں توجاگ رہاہوں۔“
”اوہ--میں سمجھی سوگیاہے۔لیکن یوں چپ کیوں پڑاہے تو“وہ بولی ”اورکیااٹھ کرناچوں ۔“ایلی نے جل کرکہا۔
وہ بچوں کی طرح ہنسنے لگی”ناچ تجھے کون منع کرتاہے۔“
”اکیلے میں توناچا بھی نہیں جاتا۔“وہ بولا۔
”توکیااکیلاہے۔“شہزادنے اشارتاً“اسے امرتسریاددلانے کی کوشش کی۔
”اکیلاہی توہوں۔“ایلی نے لمبی آہ بھری۔
وہ قہقہہ مارکرہنس پڑی۔“اوہ میں سمجھی امرتسریادآرہاہے تجھے۔“
”امرتسر؟“-وہ گھبراگیا۔
”تسلیم۔“شہزادنے جھک اسے آداب کیااورپھرہنسنے لگی۔
ایلی کامنہ فق ہوگیا۔نہ جانے کیوں وہ سمجھتاتھاکہ شہزادامرتسراورتسلیم کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔
”کبھی تسلیم سے ملاقات بھی ہوئی ہے؟“شہزادنے اس کے قریب آکرپوچھااورپھراس کی چارپائی پربیٹھ گئی۔
ایلی کے جسم پرچیونٹیاں رینگنے لگیں اسے محسوس ہونے لگاجیسے گرمی کی ایک لہراس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ان جانااضطراب اس پرچھائے جارہاتھا۔ایک سرخ دھندلکااس کی کنپٹیوں میں تھرک رہاتھا۔صحن میں زردچاندنی اورگدرے سایوں کی عجیب سی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔پاس ہی چوبارے میں اندھیرارینگ رہاتھا۔مسجد کے گنبدکے اوپرچمگادڑیں چیخ رہی تھیں۔
”یادآتی ہے تمہیں۔“شہزادنے ایلی کی طرف دیکھ کرپوچھا”جبھی یوں چپ چاپ پڑارہتاہے تو۔“
”نہیں تو۔“وہ وبولا۔
شہزاداپنے حنامالیدہ ہاتھوںسے کھیل رہی تھی۔سفیدہاتھوں پرحنائی رنگ اسے صاف دکھائی دے رہاتھا۔
”نہیں۔نہیں۔“وہ بولا
”اچھا۔“وہ ہنسی ”اگر وہ یادبھی نہیں آتی توپھرفائدہ ہی کیاہوا؟“
”فائدہ--“اس نے شہزادکی اڑتی ہوئی لٹ کی طرف دیکھا۔
”اچھی محبت ہے یہ۔“وہ بولی۔
”ایلی کاجی چاہتاتھاکہ اٹھ کربھاگ جائے وہ قرب نہ جانے کیاکررہاتھاجیسے اسے چھیڑرہاہو۔اس کی قوت عمل دھندلائی جارہی تھی،نہ جانے قرب کی وجہ سے یاکسی ان کہے ڈرسے جواس کی نسوںمیںدھنکی کی طرح بج رہاتھا۔وہ محسوس کررہاتھاکہ اگراس نے بات کرنے کی کوشش کی تواس کی آوازکی لرزش رازفاش کردے گی۔
”میں پانی پی لوں۔“ایلی نے گھبراکرکہا۔
”میں پلاتی ہوں تمہیں پان۔“شہزاداٹھ کھڑی ہوئی۔
ایلی کابھاگ جانے کایہ بہانہ بھی بے کارہوکررہ گیا۔اس نے چاروں طرف دیکھاگھڑے کے پاس شہزادگلاس میں پانی ڈال رہی تھی۔اس کے گردچاندنی اوراندھیرے کی بساط بچھی ہوئی تھی اوراس بساط پرملکہ بیٹھی تھی۔اس کے سرپراڑتے ہوئے بالوں کاتاج تھا۔”یہ لو۔“شہزادکاحنامالیدہ ہاتھ اس کی طرف بڑھا۔ناگ نے پھن اٹھایا۔ایلی جھجک کرپیچھے ہٹا۔
”لوبھی“ہاتھ اورقریب آگیاایلی کاجی چاہتاکہ پانی کے گلاس کی بجائے اس کاہاتھ پکڑے اورپھر پھر--مگرپھرکے متعلق اسے کچھ معلوم نہ تھا--ایک سرخ دھندلکا--چیخ چیخ --ایک چمگادڑکہیں قریب سے ایلی کی طرف لپکی۔ وہ گھبراکرپیچھے ہٹا۔شہزادنے گلاس چھوڑدیاایلی شرابورہوگیا۔شہزادکی سریلی ہنسی سے فضاگونجنے لگی۔
”بالکل ہی مجنوں بن گئے۔“وہ چلائی۔”لاو میں پونچھ دوں۔“وہ ہنستی ہوئی آگے بڑھی۔سرخ ناگ پھن پھلائے پھراس کی طرف لپکابوکاایک ریلاآیا۔پھرنہ جانے کیاہوا۔سرخ دیوانگی اس پرمسلط ہوگئی۔اس نے لپک کراس رنگین سانپ کوہاتھوں میں پکڑلیا۔جسے وہ سپیراہو۔اسے اپنی طرف کھینچا۔نہ جانے محض جنون کی وجہ سے۔محبت سے۔نفرت سے یااس خوف کی وجہ سے جواس پرمسلط ومحیط تھا۔اس کی دیوانگی اوربھی شدیدہوگئی۔اس نے ایک تازہ جھٹکادے کردیوانہ واراسے اپنی طرف کھینچا۔یوں بے دردی سے کھینچا۔جیسے شہزادمحض ایک رنگین گڑیاہو۔شایدوہ اسے دانتوں سے کاٹناچاہتاتھاتاکہ کاٹے اورجانے سے پہلے اس کی گردن چبالے اوراپنے آپ کومحفوظ کرے لیکن اس کے گرم لمس سے ایلی کے ہونٹ جلنے لگے اوران جانے میں اس نے اسے دیوانہ وارچومناشروع کردیا۔شہزادچارپائی پریوں گرچکی تھی جیسے ایک بارپھر مونگیاگٹھڑی میں تبدیل ہوگئی ہو۔
”ایلی تم --؟“وہ ہونک رہی تھی۔
ایلی کی نگاہ میں وہ زردچاندنی سرخ ہوئی جارہی تھی۔جیسے فضامیں گلال کی پچکاریاں چل رہی ہوں۔
عین اس وقت ملحقہ کوٹھے سے پاوں کی چاپ سنائی دی۔فرحت چلاتی ہوئی آرہی تھی--”تم سوگئے کیا؟“
فرحت کی آوازسن کروہ خونین طلسم ٹوٹ گیا۔ایلی کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔گٹھڑی لپک کرکھڑی ہوگئی اورایلی لیک یوں چپ چاپ پڑگیا۔جیسے عرصہ درازسے سورہاہو۔
”تم آبھی گئی۔“شہزادنے کہا۔
”اماں نے بھیج دیا۔“فرحت بولی۔
”کیاحال ہے اب۔“
”اچھانہیں۔شایدآج کی رات-“
”بیچاری کی جان چ
 

قیصرانی

لائبریرین
335-365

رچانے کے خیال ہی سے گویااس کی جان نکلتی تھی۔
اگر اس مٹیالی چاندنی میں وہ تنہائی میں اس کے قریب نہ بیٹھتی یااس کے ہاتھوں پرحنائی رنگ نہ ہوتایاحنامیں وہ بونہ ہوتی جوایلی کومشتعل کردیاکرتی تھی یاوہ ہاتھ ازراہ اتفاق ناگ کی طرح پھن نہ اٹھاتااورایلی کویہ محسوس نہ ہوتاکہ اسے اپنی حفاظت کرنی ہے تووہ کبھی شہزادکواپنی گرفت میں نہ لیتا۔
اگرشہزادبارباراسے نہ بلاتی تو اس کی گردن جھکی ہی رہتی اورآہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنی حماقت کااحساس ہوجاتایااگرشہزادتنہائی میں اس سے اس کے احمقانہ رویہ کے متعلق استفارکرکے اسے لاجواب نہ کردیتی تووہ اپنی گزشتہ حماقت کااعادہ نہ کرتااوراس کی زندگی میں شہزادکارنگین بھنورپیدانہ ہی ہوتااوراس کی داستان حیات سراسرمختلف ہوتی۔
ان چھوٹی چھوٹی تفصیلات نے مل کرایلی کی زندگی کے دھارے کارخ پھیردیا۔ڈوبتے کی طرح ایلی کے لئے وہ رنگین ہاتھ تنکابن گئے اوروہ ان رنگین ناگوں سے دیوانہ وارچمٹ گیاان ہاتھوں سے چمٹنے کے لئے صرف ایک جوازہوسکتاتھا۔صرف ایک”مجھے تم سے محبت ہے۔“مجھے تم سے مجبت ہے۔“اپنی لغزش پرپردہ ڈالنے کے لئے وہ اس جملے کودہراتاگیاحتیٰ کہ وہ کمرہ وہ مکان اس کے جملے سے گونجنے لگا۔”مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔“نہ جانے ان الفاظ نے یااس بڑھتی ہوئی شدت نے جس سے وہ اداکئے جاتے تھے یاان کی ادائیگی کے تواترنے شہزادکی عقل وخردکومغلوب کردیایاممکن ہے کہ اس میں قوت دماغ باقی نہ رہی ہو۔ممکن ہے شہزادان الفاظ کی بھوکی ہواورشریف نے ہمیشہ اسے اس جملے سے محروم رکھاہو۔اس لئے شہزادنے انجانے میں ایلی کووہ الفاظ کہنے پرمجبورکردیاہو۔شایدشہزاداپنے خاوندکے رویے سے اکتاچکی ہو،جوہروقت ٹکٹکی لگائے چھت کی طرف دیکھتارہتاتھا۔جوکبوترکی سی آنکھیں بناکرلیٹارہتاتھاجوہربات پرآہ بھرتاتھااورانورکی محبت کے خودساختہ فریب میں ڈبکیاں لینے میں لذت محسوس کرتاتھااورشہزاداس کے قریب اس بات کی تمنامیں گھلتی رہتی تھی کہ وہ ایک نظراس کی طرف دیکھے۔ایک بارماضی کے دھندلکے سے نکل کرحال کی طرف متوجہ ہو۔ممکن ہے کہ شہزادشریف کی سچی محبت کے اکتادینے والے تسلسل سے بیزارہوگئی ہواوراس کے دل میں یہ آرزوان جانے میں بیدارہوگئی ہوکہ وہ بھی کسی کی انوربن جائے۔بہرصورت اس کی کوئی بھی وجہ ہونتیجہ یہ ہواکہ شہزادکوفریب دینے کے بعدایلی نے ان جانے میں اپنے آپ کوفریب دیناشروع کردیااس نے حقائق کواپنے خودساختہ جذبات کے ایندھن میں جلاجلاکرسرخ کرلیااوراسے یقین ہوگیاکہ اسے شہزادسے محبت ہے۔
گودی کاگیند
اس روزوہ سارادن شہزادکے قدموں میں بیٹھاروتارہا۔”مجھے تم سے محبت ہے شہزاد۔مجھے تم سے عشق ہے۔میں نے باربارچاہاکہ اظہارمحبت نہ کروں۔تمہیں ناراض نہ کروں ۔مجھے ڈرتھاکہ تم ناراض ہوجاوگی اورتم ناراض ہوجاو توپھرزندگی میں باقی کیارہ جاتاہے۔شہزادتم ناراض تونہیں۔شہزاد۔بولوتم خاموش کیوں ہو۔میں تمہارے قابل نہیں شہزادمیں تمہارے قریب آجاوں توتم میلی ہوجاتی ہو۔تم چاندہوشہزاداورمیں بے وقوف بچہ۔میں تمہارے قابل کہاں۔مجھے برداشت کروگی شہزاد۔بولوشہزاد۔“
شہزادحیرانی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ابتدامیں تواس کی حیرانی میں بیگانگی کاعنصرغالب تھا۔مگرآہستہ آہستہ وہ بے تکی باتیں وہ احمقانہ شدت۔وہ بے مصرف پگلاپن جو ایلی کی باتوں اورچہرے سے ہویداتھا۔“اس کے دل پرنہ جانے کیااثرپیداکرگیا۔ایلی کی بے تکی باتیں اس کے کانوں سے داخل ہوکرچہرے پررینگنے لگیں گالوں پرسرخی بن کرجھلکنے لگیں آنکھوں سے پرنم مستی بن کرجھانکنے لگیں۔
”تم میری حماقت کسی کوبتاوگی تونہیں شہزاد۔میری دیوانگی اپنے تک محدودرکھوگی نا۔وعدہ کروشہزاد،اگرتم نے کسی سے کہہ دیاتومیراکیاہوگا۔پھرمیں اس گھرمیں کیسے آسکوں گااور--تم سے دوررہ کرزندگی کیسے کٹے گی۔شہزادغصہ نہ کرنا۔میں مجبورہوں شہزاد۔“
شہزادکے چہرے پرحیاکی سرخی جھلکنے لگی۔اس کی آنکھیں جھکنے لگیں۔اس کی ناک پرپسینہ آنے لگااورپھراس کے بازوبے جان ہوکرلٹکنے لگے جیسے سپردگی کے شدیدجذبے سے شل ہوچکے ہوں۔
مگرایلی کویہ احساس نہ تھاکہ اس کے منہ پرحیاکیوں جھلک رہی ہے۔اس کی ناک پرپسینہ کیوں موتیوں کی طرح ابھرتاآرہاہے اوراس کے بازولٹک کیوں رہے ہیں۔وہ ابھی تک زینے کی پہلی سیڑھی پرہی قدم جمانے کی جدوجہدمیں دیوانہ وارمصروف تھا۔
”تم بتاوگی تونہیں شہزاد--تم مجھے معاف کرسکوگی۔میں تمہیں دورسے دیکھاکروں گا۔دورسے بس۔اتناتم برداشت کرلوگی۔نا۔“
ایلی عورت سے واقف نہ تھااسے معلوم نہ تھاکہ اس کی بے تکی باتوں نے شہزادکوکھوکھلاکردیاہے۔اسے احساس نہ تھاکہ تمام کاتمام زینہ گرکراس کے قدموں میں ڈھیرہوچکاہے اورپہلی سیڑھی پرقدم جمانے کی کوشش میں کھوئے رہنابیکارہے۔اسے احساس نہ تھاکہ وہ لٹکتے ہوئے رنگین ناگ اس کی الٹرگرفت کے لئے منتظرتھے۔بے تاب تھے اوروہ ڈولتی ہوئی پرنم شربتی آنکھیں اس انتظارمیں کھلی تھیں کہ کوئی لمس انہیں بندکرکے راحت بھراسکون بخش دے اوروہ رنگین گٹھڑی جوہرلمحہ بندہوئی جارہی تھی اس بات کی خواہشمندتھی کہ کوئی اسے اٹھاکرگودی کاگیندبنالے۔
اسے ان باتوں کااحساس بھی کیسے ہوسکتاتھا۔وہ بیچارہ عورت اورمحبت کی دنیاکی دہلیزسے بھی واقف نہ تھا۔اس کامقصدتوصرف اس قدرتھاکہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کوبچالے اپنی حماقت کونشرنہ ہونے دے اپنے خودساختہ رازکومحفوظ کرے۔
عین اس وقت اگرہاجرہ نہ آجاتی تونہ جانے وہ دونوں کب تک یونہی ہی بیٹھے رہتے ۔ہاجرہ کے پاوں کی چاپ سن کراس منتظرمونگیاگٹھڑی کاطلسم ٹوٹ گیا۔وہ اچھل کراٹھ بیٹھی۔
”اچھاتوچائے ۔بناوں تیرے لئے ۔“وہ بولی
”چائے ۔“ وہ گھبراگیا۔چائے کی توبات ہی نہیں ہورہی تھی۔
”نہیں۔نہیں۔“شہزادبولی۔”اب توچائے پی کرہی جانا۔“
ہاجرہ کے آنے پرشہزادکااندازہی بدل گیاوہ یوں ہنس ہنس کراس سے باتیں کرنے لگی جیسے کوئی بچی انتہائے معصومیت میں اظہارمسرت کرتی ہے۔ایلی چپکے سے اٹھ بیٹھااوربن بتائے چوری سے باہرنکل گیاتاکہ کوئی اسے روک نہ لے۔جو ں جوں وہ شہزادکے چوبارے سے دورہوتاگیاتوں توں اس کے دل میں ازسرنویہ ڈرپیداہوتاگیاکہ شہزاداماں کووہ بات نہ بتادے شکایت نہ کردے۔اگراس نے شریف سے کہہ دیاتونہ جانے اس نے اس نے اسے معاف بھی کیاہے کہ نہیں۔
فرار
باہرجاکراس نے فیصلہ کرلیاکہ وہ واپس امرتسرچلاجائے گاتاکہ پھرشہزادکے سامنے جانے کاخدشہ نہ رہے۔
گھرپہنچ کراس نے اپنی تمام چیزیں اکٹھی کیں اورپھرسوٹ کیس اٹھاکرباہرنکلا۔صحن میں فرحت ہنڈیاپکارہی تھی۔”میں جارہاہوں فرحت۔“وہ بولا۔
”جارہاہے توکیاواقعی جارہا ہے۔“وہ بولی۔”کہاں جارہاہے تو؟--ہائیں۔اتنی جلدی۔“وہ حیران رہ گئی۔“تمہیں توابھی چاردن اوررہناتھا۔“
”نہیں ۔میں جارہاہوں۔ابھی ۔“ایلی نے بولا۔
”آخربات کیاہے؟فرحت نے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔“ایلی نے جواب دیا۔
”کسی بات سے ناراض ہوگیاہے کیا؟“
”اونہوں۔“
”نہ جانے توہم سے کیوں ناراض رہتاہے۔ایلی۔ہماراکیاقصورہے؟“
”نہیں تو۔“وہ گھبراکربولا۔
”توکیاشہزادنے کہاہے کچھ؟“
”میں کہتاہوں۔“وہ چڑکربولا۔”کچھ بھی نہیں۔کسی نے کچھ نہیں کہامجھ سے۔“
”تومیں شہزادکوبلاوں۔وہی تمہیں روک سکتی ہے۔“فرحت نے مخلصانہ طورپرکہا۔
”نہیں۔نہیں۔“شہزادکانام سن کروہ ڈرگیا۔”مجھے امرتسرسے خط آیاہے۔“
”خط آیا؟“
”ہاں میرادوست بیمارہے۔“
”اوہ ۔“اس نے اطمینان کاسانس لیا۔”توپہلے کہاہوتامجھ سے ۔“
”اچھاتومیں چلتاہوں۔“
”لیکن اماں سے تومل کرجااورتیری دادی اماں۔وہ بھی توبیمارہے اس کی حالت۔“
”یہ کہہ کروہ چپکے سے سیڑھیاں اترنے لگا۔اسے ڈرتھاکہ راستے میں اس کادوست نہ مل جائے۔اگررضامل گیاتوغضب ہوجائے گا۔وہ اسے تنگ کرے گا۔لیکن خوش قسمتی سے چوگان میں بچوں کے سواکوئی نہ تھااوررضاسے بچنے کے لئے وہ ایک اورراستہ اختیارکرسکتاتھا۔
--ریل میں بیٹھے ہوئے وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہاتھا۔اس روزدنیاہی بدلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔سبزہ گویانئے اندازمیں لہرارہاتھا۔بوٹے عجیب شان سے کھڑے تھے۔پھول بہت شوخ تھے۔جیسے رنگین دیئے ٹمٹارہے ہوں۔کھیتوں میں کام کرتے ہوکسان انوکھی رومان بھری فضامیں ڈوبے ہوئے تھے۔گاڑی یوں چلی جارہی تھی جیسے مورچھاتی پھلاکرپروازکررہاہو۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ مناظرکے حسن پررودے۔
امرتسر پہنچ کراس نے محسوس کیاجیسے وہ کسی نئے شہرمیں آپہنچا،جسے اس نے سپنے میں دیکھاہو۔سٹیشن کے گنبدالف لیلےٰ کے کسی پراسرارمنظرکی یاددلارہے تھے۔سڑکیں خوشی سے ادھراودھردوڑرہی تھیں لوگ آرہے تھے۔جیسے کسی تقریب پراکٹھے ہورہے ہوں۔
لیکن بورڈنگ میں وہی ویرانی چھائی ہوئی تھی۔راموبیٹھابرتن صاف کررہاتھا۔بندوآٹے کی بوریاں میں سردئیے بیٹھاتھا۔ہرنام سنگھ،گورچرن سنگھ اورجیون ایک درخت کے نیچے بیٹھے اپنے کیس سکھارہے تھے۔کمرے میں اللہ دادکرسی پراپنی قمیض پھیلائے خودفرش پربیٹھاسرپرآم کی خشک گٹھلی رگڑرہاتھا۔
”ارے ۔“اللہ داداسے دیکھ کرچلایا۔”توآگیا۔بیٹاچارروزپہلے ہی ماں کی گودچھوڑآیاتو۔اونہوں یہاں تیراجی نہیں لگے گا۔“
”بک نہیں۔“ایلی نے بناوٹی غصے سے کہا۔
”اچھابھئی۔“اللہ دادچلایا۔”ایک تم ہوکہ ماں کی گودنہیں چھوڑتے ایک وہ شفیع ہے ۔جوساراسارادن یوں سانپ مارنے میں لگارہتاہے۔جیسے کالج میں سانپ مارناسیکھنے کے لئے داخل ہو۔بس ایک میں رہ گیاہوں۔محنت کرنے کے لئے۔“یہ کہہ کراس نے مظلومانہ اندازسے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنی شروع کردی جیسے امتحان پاس کرنے کے لئے سرپرآم کی گٹھلی رگڑنالازم ہو۔
ایلی دھم سے چارپائی پرگرپڑا۔اسے اللہ دادکی باتوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی نہ جانے کیاہواتھااسے،دفعتاًاسے اس بورڈنگ ،کالج اورشہرسے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔وہ کمرہ بیگانہ محسوس ہورہاتھااوراللہ دادیوں لگ رہاتھاجیسے اجنبی ہو۔
دیرتک کمرے میں خاموشی چھائی رہی ۔گٹھلی رگڑتے رگڑتے اللہ دادنے ایک نظرایلی کی طرڈالی اورپھرچپکے سے بولا۔”ارے بھائی پہلے توہم سمجھتے تھے کہ ایلی بابوںماں کی گودکے لئے بے تاب رہتاہے۔اس لئے باربارگھرکوبھاگتاہے۔“یہ کہہ کروہ خاموش بیٹھارہاپھرآپ ہی آپ بولا”لیکن آخروہ بھی توگودہے۔دونوںمیں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا۔“اللہ دادنے ایک لمبی آہ بھری۔”وہ بھاگاں بھری تھی اپنی۔اللہ جانتاہے اس کی گودمیں پڑکرمجھے بے بے بھول جاتی تھی۔“ایلی یہ سن کربھونچکارہ گیااس کم بخت کوکیسے معلوم ہوگیا-کسے غصہ آنے لگا۔لیکن وہ کرہی کیاسکتاتھااوراللہ دادکی معصوم مسکراہٹ کے جواب میں غصہ کرنابالکل ہی بے معنی معلوم ہوتاتھا۔چپ چاپ اٹھ بیٹھااورٹہلتاٹہلتانہرکے کنارے پرجاپہنچادراصل اس کاجی چاہتاتھاکہ اچانک نورسے ملاقات ہوجائے اورشبھ لگن آجائے۔اس کے دل کے نچلے پردوں میں ایک شبھ لگن جھلک رہی تھی اوروہ چاہتاتھاکہ دل کی گہرائیوں سے نکل کر وہ اس پرمسلط ومحیط ہوجائے اورپھروہ پودوں کی اوٹ میں بیٹھ کرچپکے چپکے رو دے۔آنسو اس کے گالوں پرڈھلکیں اورنورپوچھے۔”کیاہے جی۔“جیسے اس کی عادت تھی اوروہ جواب دے۔“کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔“
”ہائیں۔“نہرکے کنارے آصف کوبیٹھے دیکھ کروہ حیران رہ گیااس کی آنکھوں میں وہی پھوارپڑرہی تھی لیکن یہ ظاہرنہ ہوتاتھاکہ وہ آیاوہ خوشی سے سرخ ہورہی ہیں یاغم کی وجہ سے۔
”آگئے تم--“اس نے دبی دبی اداس مسکراہٹ سے کہا۔
”ہاں۔“ایلی نے آہ بھری۔”تم یہاں کیاکررہے ہو۔نورکاانتظارکررہے ہوکیا؟“
”اونہوں۔“آصف نے نفی میں سرہلایا۔
”توپھر“ایلی نے پوچھا۔”سیرکرنے آئے تھے۔“
”سیر--“آصف نے زہرخندسے کہا۔”میں کہاں جاوں ایلی۔“
”کیوں۔“ایلی نے گھبراکرپوچھا۔
کوئی جگہ بھی تونہیںرہی۔“
”کیوں ۔“ایلی چلایا۔
دیس نکالا
”وہ--وہ واپس آگئی ہے۔“آصف نے آہ بھرکرکہا۔
”واپس آگئی ہے۔“
”ہاں۔“--وہ بولا۔“”جیسے انتقام لینے آئی ہو۔“
”انتقام ۔“ایلی نے دہرایا۔
”اب وہ کسی کالحاظ نہیں کرتی اورایلی اب تووہ اعلانیہ کھڑکی میں کھڑی رہتی ہے گھروالے بیچارے ہارگئے ہیں۔محلے میں کہرام مچاہواہے اورمیں گھرسے بھاگاپھرتاہوں۔اب ہوگاکیاایلی۔کیاکروںمیں۔“
--ایلی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ اس میں مشکل کونسی تھی۔یہ توبلکہ اس کی خوشی نصیبی تھی۔عجیب آدمی تھاآصف بھی۔
”دیوانوں کی طرح آنکھیں پھاڑپھاڑکردیکھتی رہتی ہے۔“
”دیکھتی ہے تودیکھنے دو۔“ایلی نے جواب دیا۔
”اتنی رسوائی اتنی بدنامی ہورہی ہے کہ۔“آصف سے جھرجھری لی۔”میراتماشابنارکھاہے اس کے گھروالے کہتے ہیں ہم کیاکریں۔لڑکی ہوش وحواس کھوچکی ہے اوراگراس پر--“وہ خاموش ہوگیااورپھرحسرت ویاس بھری نگاہ سے اس نے ایلی کی طرف دیکھا۔
”میری طرف محلے والے یوں دیکھتے ہیں جیسے کوئی مجرم ہوں۔جیسے اس کی دیوانگی میری وجہ سے ہو۔وہ توپاگل ہوکرآزادہوگئی ایلی مجھ سے تووہی اچھی ہے۔لیکن میں کیاکروں میرااپنے گھرمیں آناجانابندہوچکاہے۔مجھے تودیس نکالامل گیاہے۔“
”اچھا۔‘ایلی سوچ میں پڑگیا۔
”اگرتم کہوتومیں تمہارے بورڈنگ میں آرہوں۔“آصف سے پوچھا۔
”ہاں۔ہاں۔“ایلی نے کہا۔”یہ تواوربھی اچھاہے۔“
”تومیں کل آجاوں۔“آصف کے منہ پرمسکراہٹ پھیل گئی جیسے وہ ایلی کاسہاراپاکرخوش ہوگیاہو۔
”آجاو۔“ایلی خوشی سے چلایا۔”کتنااچھارہے گا۔ہم صبح وشام اکٹھے رہیں گے۔“”سچ“آصف نے اس کاہاتھ دبایااورنہ جانے کب تک وہ اسی طرح ہاتھ میں ہاتھ پکڑے نہرکے کنارے بیٹھے رہے۔آصف اپنے خیالات میں مگن تھامگرایلی کے روبروکچھ اورہی تھاایک گوراگورابازواس کی طرف بڑھتااورحنامالیدہ ہاتھ اسے اپنی گرفت میں لے لیتا۔”ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟“--دو گلابی آنکھیں اس کی طرف دیکھتیں ،گلال بھری پچکاری چلتی اوراسے شرابورکرجاتی۔وہ ایک نگاہ کس قدرمدہوش کن تھی۔ایک نگاہ--اس نگاہ کوحاصل کرنے کے لئے ایلی دنیاکی بڑی سے بڑی مشکل کامقابلہ کرنے کوتیارتھا۔ساری دنیاکے خلاف جہادکرنے پرآمادہ تھا۔ایلی کاجی چاہتاتھاکہ آصف سے وہ رازکہدے کسی سے کہدے اوراپنے آپ کومحفوظ کرلے مگروہ شہزادکارازتھاوہ اسے کس طرح افشاکرسکتاتھااورپھرآصف سے وہ رازکہتاجواس غم میں گھل رہاتھاکہ ایک حسینہ اس کے لئے پاگل ہورہی ہے۔بھلاشہزادکی مست کن نگاہ آصف کیسے سمجھ سکے گا۔ایلی بات کہتے کہتے رک جاتااورپھرآسمان پرپھیلی ہوئی سرخی کودیکھنے میں کھوجاتااسے ایسامحسوس ہوتاجیسے شہزادکے گالوں سے اترکروہ سرخی آسمان پرپھیل گئی ہواوراس کاہرچھوٹے سے چھوٹادھبہ کہہ رہاہو۔”تم لوگوں کی پرواکرتے ہو۔تم ایلی۔“اگلے روزصبح سویرے وہ دونوں پرنسپل کے گھرچلے گئے اوراس سے درخواست کی کہ وہ آصف کوایک ماہ کے لئے بورڈنگ میں رہنے کی اجازت دے دے۔
پرنسپل نے ان کی بات سن کرحیرت سے ایلی طرف دیکھا۔
”آصف کیابات ہے۔“ وہ مسکرایا۔
”بات توکوئی نہیںپرنسپل صاحب--“آصف کے چہر ے پرگھبراہٹ کاطوفان آگیاجواس کی بات کواعلانیہ جھٹلارہاتھا۔پرنسپل مسکرانے لگا۔”بھئی ایک بات کرو۔زبان سے کہہ رہے ہوکہ کچھ نہیں اورنگاہیں کہہ رہی ہیں بہت کچھ ہے۔“ایلی نے گھبراکرسچی بات کہہ دینے کی غرض سے منہ کھولا”جی بات یہ ہے ۔“آصف نے بھرپورنگاہ ایلی پرڈالی اس نگاہ میں ایک طوفان تھا۔غصہ تھا۔بے بسی تھی۔منت تھی۔دھمکی تھی۔ایلی سہم کرخاموش ہوگیا۔
پرنسپل نے ان دونوں کی طرف تعجب سے دیکھااس کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل گئی ”نہیں۔نہیں۔“وہ ہنس کربولا”پڑھائی کابہانہ نہ کرنا۔ادھرادھرکی باتیں کرنے کاکیافائدہ ہے توبہتر ہے کہ صاف کہہ دیاجاتاکہ اس کی وجہ بتانے سے ہم قاصر ہیں۔بہرصورت مجھے یقین ہے کہ تم شرارت کے درپے نہیں ہواورکوئی ایسی بات سرزدنہ ہوگی جوکالج کے لئے باعث بدنامی ہو۔“
”جی نہیںایسی کوئی بات نہ ہوگی۔“آصف بولا
”اچھاتواجازت ہے۔“پرنسپل نے کہا۔”اب تم جاواورآرام کرومجھے صورت حال اچھی نہیں دکھتی اگرمجھے دوست سمجھ کربتادیتے توشایدمیں کچھ مددکرسکتا۔لیکن خیر--“
جب وہ بورڈنگ میں پہنچاتولڑکوں نے اسے دیکھ کرشورمچادیا۔”ایلی،ایلی۔ارے تیراتارآیاہے۔“
دادی اماں
تار--ایلی کادل ڈوب گیا۔تارآیاہے ۔اسے زندگی بھرکبھی تارنہ آیاتھا۔بس شہزادکارازکھل گیا۔نہ جانے اب کیاہوگا۔شہزادنے وہ بات بتادی۔اس روزکہتی جوتھی۔ایلی مجھے تم سے ایسی توقع نہ تھی۔تم نے یہ کیاکیاایلی ۔ہائے تم نے یہ کیاکیا--ایلی کے پاوں تلے کی زمین نکل گئی۔اب کیاہوگااوربرآمدے میں کھڑاہوکرسوچنے لگا۔
”ارے جاکرپتہ بھی لگائے گاکہ نہیں۔“شفیع چلانے لگا۔
اللہ دادبولا”بھئی تاروالاادھرہی توگیاہے تمہیں دیکھنے کے لئے۔“
ایلی کاجی چاہتاتھاکہ چپکے سے بھاگ جائے ۔جہاں تاروالااسے تلاش نہ کرسکے تاکہ وہ اس خفت سے بچ جائے مگراسے تاروالے کی تلاش کرناہی پڑی۔اللہ دادکیاکہے گا۔لڑکے کیاسمجھیں گے اس کے باوجودوہ دعائیں مانگ رہاتھاکہ تاروالاجاچکاہو۔
تاروالے کودیکھ کراس کادل ڈوب گیا۔پیشانی پرپسینے کے قطرے ابھرآئے۔اسے یوں بت بنے دیکھ کراللہ دادنے تاراس کے ہاتھ سے چھین لیااورتارکھولتے ہوئے بولا۔“ماں اپنے لاڈلے کی فرقت میں اداس ہوگئی ہوگی۔“دفعتاًاللہ دادخاموش ہوگیا۔اس کی انگلیاں اضطراب سے تارکوپھرتہہ کرنے میں مصروف ہوگئیں۔”ابے“شفیع نے اس سے پوچھنے کے لئے کچھ کہناچاہامگراللہ دادکاچہرہ دیکھ کراس میں ہمت نہ پڑی دیرتک برآمدے میں خاموشی چھائی رہی ۔پھرآصف آہستہ سے بولا۔”ایلی تمہاری دادی--“
”دادی اماں۔“ایلی نے حیرانی سے دہرایا۔
”ہاں۔تمہاری دادی اماں چلی گئیں۔“آصف نے کہا۔
”چلی گئیں؟--“ایلی نے گھبراکرتارکی طرف دیکھااس کے منہ سے ایک ہچکی سی نکلی اورپھردورسے آوازآئی۔“نہیں ایلی۔کچھ بھی نہیں کچھ بھی تونہیں۔“
جب وہ محلے کے چوگان میں پہنچاتواس کادل ڈوب گیا۔چوگان کے عین درمیان میں جنازہ پڑاتھا۔چاروں طرف محلے والے کھڑے تھے۔محلے والیاں پنکھے چلاتے ہوئے کچرکچرباتیں کررہے تھے۔محلے والے جنازے کے متعلق یون تفصیلات طے کررہے تھے۔جیسے کوئی عام سی تقریب ہو۔جس میں غم یادکھ کاکوئی عنصرنہ ہو۔
ایلی کودیکھ کرکوئی چلائی ”اے ہے لڑکے کوتوآلینے دواپنی دادی کے قریب۔“
”ہائیں آگیاتوایلی۔شکرہے آگیاتو۔“
”ہائے بہن اس کے بغیرتودم نکلتاتھااس کی دادی اماں کا“---“
”اس کے سوااورتھاہی کون اس کا۔علی احمدنے توکبھی پوچھاہی نہیں۔“
”آخری دم تک یادکرتی رہی تجھے۔لے دیکھ لے اس کامنہ۔“
ایلی دادی اماں کی طرف دیکھنے سے ڈررہاتھاوہ نہیں چاہتاتھاکہ مری ہوئی دادی کی طرف دیکھے ۔نہیں نہیں وہ جیتی ہے مری نہیں۔اس کے تخیل میں وہ ابھی تک جیتی تھی۔وہ نہیں مرسکتی۔وہ کبھی نہیں مرسکتی ایلی نے نگاہ پھیرلی اوردادی اماں کی طرف دیکھے بغیرہی وہاں کھڑارہا۔
جنازہ
چاروں طرف لوگوں کاجھمگٹالگاہواتھاہرکوئی دوسرے سے بات کررہاتھا--ان کی باتوں پرایلی کوغصہ آرہاتھا۔کیاانہیں دادی اماں کی موت کاغم نہیں۔کیاانہیں اس کی موت پردکھ نہیں ہوایوں شوخی سے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ناگاہ ایلی کی نگاہ علی احمدپرپڑی۔وہ چپ چاپ بت بنے کھڑے تھے۔
ایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاجیسے وہ دکھ محسوس کررہے ہوں۔پہلی مرتبہ ایلی کوخیال آیا۔کہ ان کے دل میں بھی جذبات ہیں۔انہیں بھی کسی کے مرنے پردکھ ہوتاہے۔انہیں بھی عزیزوں کے دکھ سکھ کااحساس ہے۔یہ احساس ایلی کے لئے بالکل نیاتھااوراتناعجیب تھاکہ اس نے جلدہی اس سے مخلصی پانے کی کوشش کی۔پھرچاربزرگوں نے بڑھ کرجنازے کواٹھالیااوروہ سب ان کے پیچھے قبرستان کی طرف چل پڑے۔
علی پورکے بازارمیں جنازے کودیکھ کرراہ چلتے چلتے لوگ رک جاتے تھے۔دوکاندارسوداسلف تولناچھوڑکرایک طرف ادب سے کھڑے ہوجاتے گاہک بازارسے ہٹ کرکسی بنددوکان کے تختے پرچڑھ جاتے۔کھیلتے ہوئے بچے سہم کررک جاتے اورمنہ میں انگلیاں ڈال کرحیرانی سے اس جلوس کی طرف دیکھتے۔
بازارسے نکل کروہ کھیتوں میں جاپہنچے ۔کھیتوں پرکام کرنے والے کسان انہیں دیکھ کرکام چھوڑکران کے ساتھ چل پڑے۔
”کیوں بھائی کس کاجنازہ ہے۔“
”مائی کس کی والدہ تھی۔“
”اچھاوہ جودفترکے بابوہیں۔“
”آیاکرتے ہیں کبھی اس طرف۔“
”کیاتکلیف تھی۔“
”جی ہاں۔“وہ توبہانے ہوتے ہیں۔اصل میں توتقدیرکالکھاہوتاہے جوہوکررہتاہے۔“
جنازے کے آگے محلے کے بوڑھے آخ تھوآخ تھوکرتے کھانستے چلے رہے تھے۔کبھی کبھارکوئی کھانستے کے علاوہ مدھم آوازمیں چلاتے ”یارب العزت یااللہ“--”قادرمطلق --“ان کے پیچھے پیچھے محلے کے جوان تھے اورسب سے آخرمیں محلے کے نوجوان جوچلتے ہوئے ایک دوسرے کوکہنیاں مارتے تھے،چٹکیاں بھرتے تھے،پھریوں سنجیدگی اختیارکرلیتے تھے۔جیسے وہ ایسی حرکت کے اہل ہی نہ ہوں۔کبھی کبھی نوجوانوں کی قطاروں سے دبے دبے قہقہے بلندہوتے جس پرمحلے کے بوڑھے آخ کہہ کررک جاتے اورتھوکرنے کی بجائے غضب آلودنگاہوں سے پیچھے کی طرف دیکھتے۔
لیکن اس روزایلی سب سے پہلی قطارمیں چل رہاتھااسے احساس نہ تھاکہ بوڑھے مضحکہ خیزاندازمیں تھوآخ تھوکررہے ہیں یاجوان وزدیدہ نظروں سے کھیتوں میںبنے ہوئے گھروندوں سے جھانکتی ہوئی سیاہ فام مگرنوجوان لڑکیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں یانوجوان کہنیاں مارمارکرایک دوسرے کوکسی قابل توجہ منظرکی طرف دیکھنے کااشارہ کررہے ہیں۔اس روزایلی کاذہن ایک وسیع خلامیں تبدیل ہوچکاتھا۔اس پرایک پریشان کن تعطل مسلط اورمحیط تھا۔نہ گھبراہٹ تھی نہ پریشانی نہ خوشی تھی نہ غم۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھاکہ کیاہوگیاہے--دادی اماں کی موت کامفہوم کیاہے۔اس کے نتائج کیاہوں گے۔اس کی سمجھ میں نہ آرہاتھا۔وہ چلے جارہاتھاخاموش بے حس!
وہ مرگئی
جنازے کی نمازکے بعدقبرستان میں دیرتک وہ اس جگہ بیٹھارہاجہاں کھڑے ہوکراس نے نمازپڑھی تھی اورجہاں پاس ہی چادرسے ڈھکی ہوئی چارپائی پردادی اماں پڑی تھیں۔وہاں بیٹھے ہوئے اس نے اللہ سے بڑی عجزبھری دعائیں مانگی تھیں۔”یااللہ یہ کیاہوگیایااللہ دادی اماں اب مجھ سے کبھی نہ ملیں گی۔یااللہ“اس نے بن سوچے سمجھے یہ سب دعائیں مانگی تھیں۔اسے یہ خیال بھی نہ آیاتھاکہ دعائیں مانگ رہاہے یاوہ دعائیں نہ تھیں بلکہ سوالات تھے۔عجیب سوالات تھے۔ایسے سوالات جن کاکوئی جواب نہ تھا۔دعائیں مانگ کروہ وہیں بیٹھ کرزمین کریدتارہاتھا۔حتیٰ کہ اسے اس مقام سے وحشت ہونے لگی۔دورلوگ قبرکھودنے میں مصروف تھے۔قبرستان میں یہاں وہاں محلے والے ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے دبی دبی آوازوں میں باتیں کررہے تھے۔جوان دورپختہ تالاک کی طرف نکل گئے تھے اورنوجوان نہ جانے کہاں تھے۔
وہ اٹھ کربیٹھااورپھرتاپھراتاان کچی قبروں میں جاپہنچاجہاں محلے کے عام آدمی دفنائے جاتے ہے۔وہ گھبراکررک گیا۔سامنے صفدرایک پیڑکے نیچے چپ چاپ بیٹھاتھا۔نہ جانے وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھاکیاسوچ رہاتھا۔اس وقت اس کی آنکھوں میں چمک نہ تھی۔بازولٹک رہے تھے اورہونٹوں پرکوئی بول نہ تھا--
”تم ایلی--وہ اسے دیکھ کرگھبراکراٹھ بیٹھا۔”آوآو۔تالاب کی طرف چلیں۔آو۔ابھی قبرمیں اتارنے میں دیرہے ۔آو۔“اس کی آوازروئی تھی۔
وہ دونوں چپ چاپ تالاب کی طرف چل پڑے ۔“تم آگئے--“وہ بولاتم توچلے گئے تھے نااچھاکیاآگئے۔“وہ بولا۔”بہت اچھاکیا۔میں بھی جارہاتھامگرنہ گیا۔محض اتفاق ہے ورنہ چلاجاتا۔“اس کاگلاخشک ہوگیا۔
دیرتک صفدرخاموش رہا۔پھرزیرلب بولا۔”مرگئی--“اورچپ ہوگیاجیسے گلاآوازسے خالی ہو۔پھردفعتاًاس کے ہونٹ ہلے اوراس نے مٹی کاایک ڈھیلااٹھاکردورپھینک دیا۔ایلی نے محسوس کیاجیسے وہ کہہ رہاہوحافظ خداتمہاراجیسے دادی اماں پارسی لڑکی ہواوراس کے چلے جانے پرصفدرکاگلاآوازسے خالی رہ گیاہو۔
”تم کہتے تھے وہ مرتی بھی نہیں ۔“ایلی نے گلوگیرآوازمیں کہا۔
”ہاں۔“صفدربولا۔”کہتاتھا۔مگروہ مرگئی۔مرگئی۔“
ایسامعلوم ہوتاتھا۔جیسے صفدرکاوہ لفظ داستان کوچھپائے ہوئے ہو۔
”ہاں مرگئی۔“
صفدرکے کہنے کااندازایساتھاکہ ایلی کی آنکھوں میں پھرآنسوآگئے مگرصفدراپنی ہی دھن میں گنگنائے چلاجارہاتھااورہردس قدم کے بعدچپکے سے کہتا”مرگئی۔“
بھیانک اداسی
دادی اماں کودفنانے سے فارغ ہوکروہ محلے میں واپس پہنچے چوگان میں چاروں طرف کھڑکیوں اورمنڈیروں پرعورتیں کھڑی تھیں اسے علم نہ تھاکہ شہزادبھی وہیں کھڑی ہے۔اس کے سیاہ ڈوپٹے میں ستارے چمک رہے تھے بازوڈوپٹے سے الجھے ہوئے ہیں۔لمبی ترچھی آنکھوں پرمثرگاں ڈھلکی ہوئی ہیں۔اسے شہزادکے وجودکااحساس نہ تھا۔وہ اسے بھول چکاتھا۔اسے یادہی نہ تھاکہ شہزادنے اس کے ہاتھ تھام کراس سے کہاتھا:۔
”ایلی تم لوگوں کی پرواکرتے ہو!--تم ایلی ؟“
چوگان سے وہ ان جانے میں گھرکی طرف چل پڑا۔لیکن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دفعتاًاس نے محسوس کیاکہ وہ کہاں جارہاہے۔کیوں جارہاہے۔گھرمیں اب کیادھراتھا۔کچھ بھی نہیں۔تخت ویران پڑاہوگا۔چولہے کے پاس گھٹنوں میں سردیئے کوئی بیٹھانہ ہوگا۔کوئی اس سے نہیں کہے گا۔
”توآگیا۔میں نے تیرے لئے کچھ رکھاہواہے۔ہنڈیامیں۔“
کوئی نہیں چیخے گا”ہے تونے میری ہڈیاں توڑدیں۔“
کسی کاجھریوں بھراہاتھ اسے تھپکے کانہیں۔”کچھ بھی توانہیں ایلی۔“وہ رک گیااورسیڑھیاں اترنے لگا۔
”دادی اماں۔دادی اماں۔“وہ قبرپربیٹھارہو رہاتھا۔”دادی اماں یہ کیاہوگیا۔کیاہوگیاہے یہ۔“ایک بوڑھاچہرہ اس کی طرف دیکھ کرمسکرایادوجھلی داربازواس کی طرف بڑھے۔”کچھ نہیں ایلی۔کچھ بھی تونہیں۔“چاروں طرف سے بھیانک اداسی چھائی تھی۔قریب ہی کوئی کنواں کراہ رہاتھا۔دورچکی ہونک رہی تھی۔مغرب میں سورج غروب ہورہاتھا۔
قبرستان سے اٹھ کرابھی اس نے چندایک قدم اٹھائے تھے کہ رضاآگیا۔”تم“ایلی نے رضاکی طرف تعجب سے دیکھا۔
”چل۔“رضا”تیرے ابابلارہے ہیں۔“وہ خاموشی سے ایلی کے ساتھ چلنے لگا۔ایلی کاجی نہیں چاہتاکہ گھرجائے لیکن وہ چپ چاپ رضاکے ساتھ چل پڑا۔
جب وہ گھرپہنچاتوعلی احمدنے اسے اپنے پاس بٹھالیا۔”بیٹھ جاوایلی۔تم کہاں آوارہ گھوم رہے ہو۔فضول--ایلی کی ماں۔“انہوں نے ہاجرہ کوبلایا”اس کابستربچھادویہاں۔آج یہ یہیں رہے گا۔ہمارے پاس--“
ایلی تم ۔تم ایلی
اگلے روزصبح سویرے ایلی چپکے سے علی پورسے امرتسرچلاآیا۔نہ جانے اس کے لئے علی پورمیں رہناکیوں ناممکن ہوچکاتھا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ علی پورسے چلاجائے اس مکان سے دوربھاگ جائے اس کے لئے تخت کی طرف دیکھناناممکن ہوچکاتھاجہاں دادی اماں بیٹھ کرنمازپڑھاکرتی تھی۔
وہ رات علی پورمیں اس نے یوں کاٹی جیسی کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہیں پڑتاتھاکہ دادی فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے کانٹوں پرپڑاہو۔اسے یقین نہ پڑتاتھاکہ دادی اماں فوت ہوچکی ہے۔ایسے محسوس ہوتاتھاجیسے وہ اپنے تخت پربیٹھی نمازپڑھ رہی ہواورابھی وہ نمازسے فارغ ہوکرچارپائی پراس کے سرہانے آبیٹھے گی اوراپنے جھلی دارہاتھوں سے اسے تھپکنے لگے گی۔“سوجاایلی سوجا۔کچھ بھی تونہیں۔“
اس خیال پرایلی کوخوف سامحسوس ہوتاکہ دادی مرچکی ہے اوراب وہ کبھی آکراس تخت پرنمازنہیں پڑھے گی ۔اسی بے نام ڈرکی وجہ سے اب کی بارعلی پورمیں رہنااس کے لئے ناممکن ہوگیاتھا۔علی الصبح وہ اٹھ بیٹھا۔سیدہ کھڑی کے پاس بیٹھی قرآن کریم پڑھی رہی تھی۔
”خالہ۔“اس نے سیدہ کی طرف دیکھے بغیرکہا۔”میں جارہاہوں۔“
”کہاں جارہاہے تو۔“سیدہ نے سرسری طورپرپوچھا”جارہاہوں۔“اس نے سرکی جنبش سے ظاہرکرنے کی کوشش کی ۔”میں پوچھ رہی ہوں کہاں جائے گاتواس وقت “سیدہ چڑگئی۔
”امرتسر“وہ یوں بولاجیسے امرتسراس مکان کے کسی کمرے کانام ہو۔
”امرتسر؟“وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
”ہاں۔“ایلی نے کہا”مجھے جاناہی چاہیے ۔“
”اباسے توپوچھ لے۔“وہ جھنجھلاکربولی۔
”نہیں۔“وہ بولا”پوچھنے کی کیابات ہے اس میں۔“
”نہیںنہیں یہ مناسب نہیں۔“وہ بولی۔”بڑوں سے بات کرنااچھاہوتاہے۔“
ایلی نے گویاسیدہ کی بات سنی ہی نہیں۔وہ سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔
سیدہ نے شورمچایا۔”ایلی امرتسرجارہاہے میںکہتی ہوں سناآپ نے ایلی جارہاہے۔“اورسیدہ اسے آوازدیتی رہ گئی۔
علی احمدکی آوازسن کروہ رک گیااوراسے ان کے روبروحاضرہوناپڑا۔
”مجھے امتحان کے لئے تیاری کرنی ہے۔“اس نے کہا”مجھے جاناہی چاہیئے۔“
یہ بات سن کرعلی احمدخاموش ہوگئے۔
”یہ توبلکہ اچھاہی ہے۔“سیدہ بولی:”پڑھائی میں لگ جائے گا۔“
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیاجیسے اس کے دل کابوجھ اترگیاہو۔وہ خلاجواس پرمسلط اورمحیط تھااب ختم ہواجارہاتھا۔لیکن اب غم بوندبونداس کے بندبندمیں سرائت کررہاتھا۔
ایلی کی نفسیات کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ کسی تکلیف دہ واقعہ پراس کے دل کوغم کادھچکانہیں لگتاتھابلکہ ایسے واقعہ کی خبرسن کراس کے ذہن میں ایک خلاپیداہوجاتاجواس کے تخیل اوراحساسیات کوشل کردیتا۔دیرتک اس پریہ کیفیت طاری رہتی۔جیسے وہ عالم خواب میں گھوم پھررہاہو۔پھربوندبوندغم اس کے دل میں سرائت کرتااداسی چاروں طرف سے یورش کرتی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ایلی نے محسوس کیا۔جیسے ساری دنیاایک بے معنی پھیلاوہوچاروں طرف سے اداسی امڈی آرہی تھی۔دوردرختوں کے جھنڈمیں دادی اماں اس کی طرف دیکھ کرمسکررہی تھی۔اس کاہاتھ ایلی کی طرف بڑھ رہاتھا۔”اے ہے کیاہے تمہیں۔کچھ بھی تونہیںہوا۔کچھ بھی تونہیں۔“لیکن اس کے باوجودایلی محسوس کررہاتھاجیسے کچھ ہوگیاہو۔کچھ کھوگیاہو۔ایلی نے آہ بھری۔”اب مجھے کون تھپک کرسلائے گا۔“
دفعتاًاس کی نگاہ گھاس کی سبزگٹھڑی میں حرکت ہوئی۔شہزادکامتبسم چہرہ نمودارہوا۔پھولداردوپٹے سے گوراچٹابازوبرآمدہوا۔”میں جوہوں۔“وہ مسکرائی۔“میں جوہوں۔“تم مجھے بھول گئے کیا۔“
شہزادکودیکھ کروہ ششددرہ گیا۔”ہائیں“گھبراکراس نے شہزادکی طرف دیکھاشہزادتوبالکل اس کے ذہن سے مفقودہوچکی تھی۔اسے اس کے وجودکااحساس ہی نہ تھا۔پورے چوبیس گھنٹے علی پورمیں رہنے کے باوجوداس کے ذہن میں شہزادکاخیال نہ آیاتھااس نے محسوس کیاگویاوہ بہت بڑے گناہ کامرتکب ہواہو۔علی پورایک دن رہنے کے باوجوداسے شہزادکاخیال بھی نہ آیاتھا۔جیسے شہزاداس کے لئے ایک دم معدوم ہوگئی ہو۔شہزادکے گھرکی دیواروں کی طرف دیکھنے کے باوجوداس کی کھڑی کے سامنے کھڑے ہونے کے باوجوداس کااحساس ہی نہ ہواتھا۔اپنی اس دیوانگی پروہ بوکھلاگیا۔نہ جانے وہ دل میں کیاکہتی ہوگی ہوسمجھتی ہوگی کہ اس روزاس کے بازوپکڑکرجوکچھ ایلی نے کہاتھاوہ سب جھوٹ تھا۔فریب تھامحض وقتی دل بہلاواتھا۔اس پراس کے سینے پرسانپ لوٹ گیا۔شہزاددل میں کیاکہتی ہوگی۔اف ایلی نے دونوں ہاتھوں سے سرتھام لیا۔
پھراس کے دل میں شبہات پیداہونے لگے۔شایدشہزادکواس کی آمدکااحساس ہی نہ ہواہو۔شایداس نے ایلی کوقابل توجہ ہی نہ سمجھاہو۔شایداس کی وہ مسکراہٹ وہ جملہ۔”تم لوگوں کی پرواکرتے ہو؟“ایلی تم؟“محض ایک مذاق ہواایک اداہو۔پھراسے اس تمام واقعہ کی حقیقت پرشک پڑنے لگا۔شایدیہ سب کچھ میرے دماغ کی اختراع ہو۔ورنہ شہزادمیری پرواکرے؟نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتاہے۔شہزادسی رنگین حسینہ مجھے دنیاکے روبروکھڑے ہونے کی شہہ دے۔نہیں نہیںیہ سب خوش فہمی ہے۔محض خوش فہمی!
یہ سوچ کرایلی گھبراگیا۔اس کی گردوپیش سرسبزکھیت ویران ہونے لگے سرسوں کے پھول خزاں زدہ پتے دکھائی دینے لگے۔پھردورایک ٹیلے پرکھڑی ہوکرکوئی مسکرانے لگی۔اس کے بازوایلی کی طرف بڑھنے لگے۔حنامالیدہ ہاتھوں کی مٹھیاں کھلیں ۔”ایلی تم؟“وہ مسکراکربولی۔”تم ایلی؟“وہ آوازگاڑی کے پہیوں میں گونجنے لگی۔ایلی تم،تم ،تم ایلی۔“گاڑی کی رفتارتیزہوتی جارہی تھی۔ساری کائنات پھولدارآنچل میں لپٹی جارہی تھی۔
اکتاہٹ
بورڈنگ کی سڑک پرنہرکے قریب اسے مہراورنورملے وہ دونوں بورڈنگ سے واپس آرہے تھے۔
وہ دونوں ایلی کے قریب سے گزرگئے۔چارایک قدم چلنے کے بعدوہ رک گئے مہرکھڑاہوگیااورنورایلی کی طرف بڑھا۔اس کے ہونٹوںپروہی خم تھا۔آنکھوں میں وہی نگاہ تھی۔جسے دیکھ کرایلی ندامت سے زمین میں گڑگیامہرکیاکہے گا۔وہ ایلی کے متعلق کس قدرغلط اندازہ لگائے گا۔
”آگئے۔“نورنے ترچھی نگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
”ہاں۔“
”کب آئے۔“نورکی نگاہوں نے ایلی کے چہرے پرپنجے گاڑدیے۔
”ابھی۔“
”وہ مجھے ادھرآنے نہیںدیتے۔“اس نے شکایت کی۔
”کون؟“
”وہی۔“وہ مسکرایا’‘محلے والے۔“
”کیوں؟“
”پتہ نہیں۔“نورنے ہونٹ بٹوہ سے بنائے ۔
”اچھا۔“ایلی چل پڑا۔
”وہ شک کرتے ہیں۔“اس نے راستہ روک لیا۔
”ہوں۔“ایلی نے بے پروائی سے کہا۔
”پھر؟“نورنے یوںاس کی طرف دیکھاجیسے کہہ رہاہوتم ان کے شکوک کوپوراکیوں نہیںکرتے۔
”پھرکچھ نہیں۔“ایلی نے جواب دیااوربورڈنگ کی طرف چل پڑاجیسے نورکی با ت سمجھاہی نہ ہو،نہ چاروں طرف اکتاہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
آموں کی کوٹھی کے میدان میں بہت سے لڑکے بیٹھے کھاناکھارہے تھے۔رسوئی سے پھلکوں کی بارش ہورہی تھی۔
”آگئے بابوجی۔“رامواسے دیکھ کرمسکرایا۔اس نے غلیظ دانت چمکے۔
کمرے میں آصف ہاتھوں میں سردئیے بیٹھاتھا۔”تم آگئے۔“وہ ایلی کودیکھ کربولااللہ دادنے سراٹھایااورتہہ بندجھاڑکرکہنے لگا۔”یہ توجاتاآتاہی رہتاہے۔“
شفیع نے اللہ دادکوڈانٹا”بک نہیں ۔دادی اماں کی موت کوتوکیاجانے۔“
”یہ بھی ٹھیک ہے۔“اللہ دادنے زیرلب کہا”نہ اپنی کوئی دادی اورنہ اماں۔وہ جوکٹڑے میں رہتی ہے ناخورشیدبائی اس کے پاس گیاتھا۔بہتیری منتیں کیں کہ مجھے بیٹابنالولیکن سالی نے بات سنی ہی نہیںالٹامیراثیوں سے کہہ کرمجھے باہرنکلوادیا۔لوبولو۔اب میں کیاکروں توکیاکروں۔“
شفیع ہنسنے لگا۔”میں بتاوں۔“وہ بولا۔”بس چپ چپ بیٹھارہ تو۔“
اللہ دادآہ بھرکرخاموش ہوگیا۔
رات کوکھاناکھانے کے بعدآصف اورایلی چہل قدمی کے لئے باہرنکل گئے۔فضابے حداداس تھی۔چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اندھیرے میں دھندلی سڑک ڈارونامنظرپیش کررہی تھی۔چپ چاپ وہ دونوں کمپنی باغ کی طرف چلے جارہے تھے۔دفعتاًآصف گویااس خاموشی سے اکتاکربولا”ایلی“
”جی۔“ایلی نے اپنے خیالات میں ڈوبے ہوئے کہا۔
”میراکیاہوگاایلی۔“
”کیوں؟“
”میراانجام کچھ اچھامعلوم نہیں ہوتا۔“وہ بولا
”خواہ مخواہ ۔“
”خواہ مخواہ نہیں۔“آصف نے کہا۔”میں محسوس کرتاہوں۔“
”کیامحسوس کرتے ہو۔“
”جیسے جیسے نہ جانے کیاہونے والاہے۔“
”آخربات تواتنی ہے ناکہ وہ آگئی ہے۔“
”نہیں یہ نہیں۔“آصف نے آہ بھری۔
”پھر؟“
”اس کی بات نہیں۔“
”توپھرکس کی بات کررہے ہو؟“
”میں کہتاہوں۔یہ لڑکیاں مجھے تنگ کیوں کرتی ہیں؟“اس نے آہ بھرکرپوچھا۔
”تنگ تم خودہوتے ہوآصف ۔“ایلی نے کہا“وہ نہیں کرتیں۔“
”تمہیں نہیں معلوم۔“آصف نے جواب دیا“اب دیکھوناکتنی بدنامی ہورہی ہے میری نہ جانے اس نے وہاں گھرمیں کیاطوفان بپاکررکھاہے۔اماں کیاکہتی ہوں گی اورمحلے والے وہ توپہلے ہی کہتے تھے۔تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔“
”توانہیں کہنے دوتمہاراکیاجاتاےہ۔“ایلی نے کہا۔
”نہیں نہیں۔“آصف چلایا۔“تم ایسانہ کہاکرو۔“
”توبتاو کیاکہوں میں۔“
”یہ بتاوکہ میراکیاہوگا؟“آصف پھرآہ بھری۔
”مجھے کیامعلوم ۔“ایلی چڑگیا۔
”نہ جانے کیاہوگا؟“آصف نے ہاتھ مل کرکہا۔کچھ دیر کے لئے وہ دونوں خاموشی سے چلتے رہے پھرآصف نے بات بدلی۔
”ایلی۔“و ہ بولا”تم نیم سے نہیں ملے؟“
”نیم۔“ایلی چونک پڑا۔وہ نیم کوقطعی طورپربھول چکاتھا۔
”مجھ سے چھپاتے ۔“آصف ہنسا۔
”نہیں تو۔“ایلی نے کہا۔ایک ساعت کے لئے اس کے آئی کے آصف سے شہزادکی بات کہہ دے لیکن اس میں جرات نہ ہوئی۔آصف سے یہ بات کرناممکن نہ تھاایلی محسوس کرتاتھا۔جیساطبعی رنگینی کے باوجودآصف ایک ملاتھا۔جس سے دل کی بات نہ کہی جاسکتی تھی۔
اگلے روزکالج سے فارغ ہوکرایلی آغاکی طرف چل پڑا۔اسے اس کوچے سے بے حددلچسپی تھی،ان چہروں سے تواسے ڈرلگتاتھاجوکھڑکیوں اورجنگلوں میں بنے سنورے دکھائی دیتے تھے۔لیکن کٹڑے والیوں کی لوچدارآوازیں سن کرایلی کے دل پرسانپ جاتا۔اسے محسوس ہوتاجیسے کوئی کلیجہ مسل رہاہو۔اس میٹھی جلن میںکس قدرلذت تھی۔پھرجب سارنگی کسی ایک چوبارے میںبین کرتی اورطبلہ سرپیٹتاتوایلی پرایک کیفیت طاری ہوجاتی۔
ابھی وہ چوک میں ہی تھاکہ حئی نہ جانے کہاں سے آدھمکا۔”ارے تم ایلی؟“وہ چلایا“تم توجیسے کھوگئے۔کیاہواتمہیں۔“
”دادی اماں فوت ہوگئیں تھیں۔“ایلی نے رونی آوازمیں کہا۔
”اوہ ۔“ایک ساعت کے لئے حئی خاموش ہوگیا۔پھروہ مخصوص اندازسے مسکرانے لگا۔”دادی مائیں ایساہی کیاکرتیںہیں۔ان کی توعادت ہی ایسی ہے اب چھوڑوبھی۔تم نے توایساحال بنارکھاہے۔جیسے دنیاتیاگ دوگے۔آوتمہیں اپنی عاشق کے پاس لے چلوں۔اسے دیکھ کرسب کچھ بھول جاوگے۔شرط لگالو۔نہ بھولو۔تواپناذمہ۔میں اپنے دکھ وہاںاٹھاکرلے جاتاہوںاوروہ ایسی اچھی ہے کہ ایک نظردیکھ لے توسب بھول جاتاہے آو۔“ایلی کاجی چاہتاتھاکہ حئی اسے زبردستی ساتھ لے جائے لیکن اس کے باوجوداس کے دل کے کسی کونے میں ڈرچھپاہواتھا۔
”نہیں نہیں۔“وہ جھجک کرپیچھے ہٹا۔ساتھ ہی وہ ڈررہاتھاکہ کہیں حئی اس کے احتجاج کوتسلیم نہ کرلے۔اسے اکیلاچھوڑکرنہ جائے۔لیکن حئی اسے کھینچتاہواچوبارے پرچڑھنے لگا۔
بائی۔اور”ہے نا۔“
پھرزینے میں حئی نے آوازدی۔”ہے نا۔ادھرآوبھاگ کرمیں ایک شخص کوپکڑلایاہوں۔بھاگ نہ جائے دوڑکرآونا۔وہ چلاتاگیا۔
”ہے نا۔“کودیکھ کرایلی حیران رہ گیا۔اس کاخیال تھاکہ وہ رقاصہ کی طرح بنی سنوری ہوئی عورت ہوگی ،اس کے کپڑوں میں وہی بھڑک ہوگی۔اس کے بال ویسے ہی بنے ہوں گے۔ان سے خوشبوکی لپٹیں آتی ہوںگی۔لیکن وہ توگویاباورچی خانے سے دال بھگارتی ہوئی اٹھ کرآئی تھی۔کپڑے عام سے تھے۔جن میں اجلاپن نام کونہ تھا۔بال الجھے ہوئے تھے۔آستینیں یوں اوپرچڑھی ہوئی تھیں۔جیسے روزکپڑے دھوتی ہواورچہرے پرجوانی کی شگفتگی کے سواسنگارکاکوئی عنصرنہ تھا۔وہ بھاگی بھاگی آئی اورسوچے سمجھے بغیرایلی کابازوپکڑکراسے کھینچنے لگی۔ایلی نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا۔وہ یوں مسکرارہی تھی جیسے صدیوں سے اسے جانتی ہواوراس کاجسم یوں بے تکلفی سے ایلی کوچھورہاتھاجیسے وہ عورت ہی نہ ہو۔
پھرچندمنٹوں میں ایلی کے پاس ایک چارپائی پربیٹھی ہوئی بلاتکلف باتیں کررہی تھی۔“حئی نے مجھے کئی بارتمہارے متعلق بتایاہے۔حئی کہتاہے تم اس کے دوست ہو۔مجھے حئی کے سبھی دوست پیارے ہیں۔“وہ مسکرائی اورپھرہم۔ہم نام بھی توہیں۔توالیاس ہواورمیںالماس کچھ زیادہ فرق تونہیں۔ہے ناحئی مجھے پیارسے کہتاہے میرااصلی نام توالماس ہے۔“
”بکتی ہے یہ۔“حئی چلایا۔”الماس ولماس کوئی نہیں یہ۔وہ تونمائشی چیزہوتی ہے۔یہ ہے نا۔توخالص گھرکی رانی ہے ۔کیوں ایلی؟“
”ہاں۔“ایلی نے اثبات میں سرہلایا۔
”کیوں ایلی۔“حئی نے پوچھا۔“ہے ناالماس بائی ہوسکتی ہے کیا؟“
”ہے نا۔“کی آنکھیں پرنم ہوگئیں--وہ مسکرائی۔”گھرکی رانی کوسبھی کچھ میسرہے ایک گھرنہیں۔اورنہ ہوگا۔“اس کے گالوں پرآنسوڈھلکنے لگے۔
”پاگل پاگل۔“حئی غصے سے چیخنے لگا۔”پھروہی حماقت۔“
’‘مجھے معلوم ہے۔ہے نانے آنسوپیتے سوئے کہا۔”میرادل گواہی دیتاہے کہ گھرنصیب نہ ہوگاتم چاہے لاکھ کہو۔“
”میں کہتاہی کیاہوں۔“حئی ہنسا۔
”چاہے کہوبھی۔لیکن جولکھاہے ہوکررہتاہے یہ چنددن تومیں گھربناکررہ لوں گی پھرچاہے کچھ ہوجائے۔یہ روڈ۔“اس کی آوازبھرآئی۔”ایلی تم بھی یہاں میرے پاس رہو۔رہوگے؟چندروزتوہیں۔صرف چندروزپھرایک دن الماس بائی کوچوبارہ میںجاناہی پڑے گا۔“
ہے نانے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔”وہ وہیں جابیٹھے گی جہاں سے آئی ہے۔“ہے نانے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔
ایلی بت بنااس کی طرف دیکھ رہاتھا۔
”پاگل ۔“حئی چلایا۔
”کیوں ایلی رہوگے میرے ساتھ؟جب حئی چلاجاتاہے تویہ گھرویران ہوجاتاہے،پھرمیں اکیلی بیٹھی گھبراجاتی ہوں۔تم آجاوتوہم اکٹھے رہاکریں گے تمہیں بہت سی باتیں سنایاکروں گی میں--بہت سی آوگے نا؟“
”میں میں۔“ایلی گھبراگیا۔لیکن اس کاجی چاہتاتھاکہ ہمیشہ کے لئے ہے ناکے پاس آرہے ہروقت چارپائی پراس کے پاس بیٹھ کراس سے باتیں کرتارہے لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس کی باتیں سن کرایلی کاجی چاہتاتھاکہ اس کے قریب ہوجائے اورقریب اورقریب اورپھراپناسراس کے زانوپررکھ کرسوجائے۔اسے اپنی اس خواہش پرندامت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس کے باوجودوہ خواہش اس کے دل سے نکلتی نہ تھی۔
دفعتاًکٹڑے میں شورسنائی دیا۔حئی تڑپ کراٹھا۔”کیاہے کیاہے؟“وہ چلایا۔
”ہوناکیاہے۔“ہے نابولی۔”وہی جواس بازارمیں ہوتارہتاہے اورکیا۔“
”کیاہوتارہتاہے یہاں۔“ایلی نے پوچھا۔
”دیکھ لوچل کر۔“وہ بولی۔ ”چلو۔“
”یہاں توبھیڑلگی ہے۔“ایلی نے بازارمیں جھانک کرکہا۔
”وہ تولگی رہتی ہے۔یہ بازاربوتل کی طرح چڑھ جاتاہے۔“وہ بولی۔
”ہے ناہے۔“حئی دوسری کھڑی میں سے چلایا۔”سناتم نے روف گرفتارہوگیا۔“”ہائیں“ہے نانے سینہ تھام لیا۔”وہ سیٹی پیٹی والاراجاگرفتارہوگیاکیا۔“”ہاں “حئی سیڑھیوں کی طرف بھاگتے ہوئے بولا۔”وہی ۔میں ابھی آیا۔“اورپھرزینہ اترنے لگا۔
ہے ناکھڑی میں ایلی پرجھک گئی حتی ٰ کہ اس کاتمام ترجسم ایلی سے چھونے لگاایلی نے حیرانی سے ہے ناکی طرف دیکھامگروہ اپنی دھن میں نیچے دیکھ رہی تھی اسے احساس ہی نہ تھاکہ اس کاجسم ایلی سے مس ہورہاہے۔اس کے چہرے پروہی پاکیزگی وہی گھرکی دیوی پن واضح تھالیکن ایلی کی حالت غیرہورہی تھی۔وہ محسوس کررہاتھا۔جیسے وہ اس جھکی ہوئی عورت کادودھ پیتابچہ ہوجسے اس نے چھاتی سے لپٹارکھاہو۔
دفعتاً‘ہے نانے محسوس کیاکہ ایلی سمٹاجارہاہے۔
”ہیں یہ تم سمٹے کیوں جارہے ہو۔“اس نے پوچھا۔
”تم بہت قریب ہونااس لئے۔“ایلی نے ڈرتے ڈرتے اسے چھیڑا۔
”توپھرکیاہوا۔“وہ ہنسی اوراس نے ایلی کودونوں ہاتھوں سے آغوش میں لے کربھینچ لیا۔”تم توہمارے اپنے ہو۔“وہ یوں بولی جیسے کوئی ماں اپنے بچے کوآغوش میں لے کراس کامنہ چوم لیتی ہے۔
یہ محسوس کرکے ایلی احساس ندامت میں ڈوب گیااورہے ناپھرسے اس کے وجودسے بے خبرہوگئی۔
”یہ سیٹی والی پیٹی والاکلمونہہ میرے پاس بھی آیاتھا۔سمجھتاتھاکہ ڈرجائے گی۔مگرمیں کیاسمجھتی ہوں ایسوں کو۔وہ ڈانٹامیں نے کہ پھرمیرے گھرکارخ نہیں کیا۔“
”لیکن اسے قیدکیوں کرلیاگیاہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”کچھ کردیاہوگانشے میں۔“و ہ بولی۔”کسی کاقتل نہ کردیاہو۔“
اسی وقت ایک ساعت کے لئے ”ہے نا“کی جگہ بائی کھڑکی میں آکھڑی ہوئی اس نے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پررکھ لئے۔ہونٹ بٹوہ سے بن گئے اورآنکھ میں چمک لہرائی۔
”سمجھتاتھا۔“وہ بولی۔“کہ اسے بھی دھمکی دے کرگرالوں گا۔بڑابنتاتھا۔“
ایلی الماس کودیکھ کرگھبراگیا--”ہے نا“وہ بولا۔”پانی پلاو گئی۔“
”پانی ۔“وہ چونک پڑی اوردفعتاًبائی کی جگہ ہے نامسکرانے لگی۔”تم مجھے تنگ کرنے لگے ہو۔“وہ چلائی اوراندرجاداخل ہوئی۔
”ایلی یہاں آو۔یہاں نیچے بازارمیں۔“حئی چلانے لگا۔اس کی آوازسن کرایلی نے پہلی مرتبہ محسوس کیاکہ وہ الماس کے چوبارے میں تھا۔اسے شرم آنے لگی۔گھبراکرکھڑکی سے پیچھے ہٹ گیااورپھردفعتاًاسے خیال آیاکہ حئی کوخاموش کرنے کے لئے اسے نیچے جاناہی پڑے گا۔جب وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچاتوہے نابھاگی بھاگی آگئی۔
”یہ لواپناپانی۔“وہ بولی اوراپنے آپ کویوں سنبھالنے لگی۔جیسے گاوں کی الڑگوریاں بھاگنے کے بعدتھک کرآنچل اوراپناآپ سنبھالتی ہیں۔
”میں جارہاہوں۔“ایلی نے کہااورزینہ اترنے لگا۔
”پھرآوگے نا۔“وہ بولی ۔”ضرورآنا۔میں یہاں اکیلی بیٹھے بیٹھے تھک جاتی ہوں۔ضرورآنا۔ضرور۔“ اس کی آوازگونج رہی تھی اورایلی بازارمیں پہنچ چکاتھا۔
انوکھی تحقیق
کٹڑے میں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔لوگ جگہ جگہ گروہوں میں کھڑے باتیں کررہے تھے۔پنواڑیوں کی دوکانوں پرلوگ جمع تھے۔پان کی پیک تھوک کریاسگریٹ کالمباکش لگاکروہ باربارسبزجنگلے والے چوبارے کی طرف دیکھتے اورپھرچہ میگوئیاں کرنے لگتے۔
چوباروں میں رقاصائیں منہ میں انگلیاں ڈالے کھڑی تھیں اس وقت انہیں بناوسنگارکاہوش نہ تھا۔انہیں معلوم نہ تھاکہ ان کے بال پریشان ہورہے ہیں۔چہروں پرتھکن کی جھریاں پڑی ہیں۔گال پاوڈراورروغن سے خالی ہیں یاپاوں ننگے ہیں ۔غالباً اس وقت انہیں یہ احساس نہ تھاکہ وہ رقاصائیں ہیں۔اس وقت تمام بائیاں ہے ناہوئی تھیں۔جیسے دفعتاً باورچی خانے سے کام کرتے کرتے بھاگ کر جنگلے میں آکھڑی ہوں۔
وہ سب حیرانی سے سبزجنگلوں کے مکان کی طرف دیکھ رہی تھی۔سبزجنگلہ ویران پڑاتھا۔بازارمیں لوگ حیرانی سے چلارہے تھے:
”بھئی حدہوگئی۔وہی سیٹی پیٹی والاراجہ--حدہوگئی۔“ایک بولا۔
”سالہ مخومت کرتاتھایاں کٹڑے پر۔“
”حکومت سی حکومت سناہے سیٹھ جمناداس نے ہاتھ جوڑے تھے۔اس کے روبرو۔“بھئی کیوں نہ جوڑتا۔دل کامعاملہ تھا۔“
”سیٹی پیٹی والاچاہتاتوسالہ چارموٹرکاریں مانگ لیتا۔سیٹھ سے۔“
”موٹرکیاہے جوچاہتاسولیتاہاں۔“
”پراسے تومیاں ”شادی “کے سواکچھ سوجھتاہی نہ تھا۔وہ اس کے سرپرسوارتھی۔“
 
Top