علی پور کا ایلی (126- 140)

ایلی کے گھر میں تیاریاں ہونے لگیں۔ نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔ بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ لیکن کچھ ہونے والا ضرور تھا۔ اسی لیے تو علی احمد چھٹی لے کر علی پور آگئے تھے اور دادی اماں کو پاس بٹھا کر اس سے پوچھ پوچھ کر نہ جانے رجسٹر میں کیا لکھ رہے تھے اور ہاجرہ کوٹھڑی میں کھڑی رو رہی تھی۔ نہ جانے اسے کیا ہوا تھا وہ یوں رونے کی عادی نہ تھی۔
علی احمد نے تو کبھی دادی اماں سے بات نہ کی تھی۔ ماں بیٹے اس مکان میں اجنبیوں کی طرح زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ دادی اماں سارا دن سیدہ کے قریب اکڑوں بیٹھی رہا کرتی تھی اور علی احمد اندر بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے اور رجسٹروں میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ دونروں کی آپس میں کبھی بات نہ ہوتی تھی۔ ایلی اکثر حیران ہوا کرتا کہ یہ کیسے ماں بیٹے ہیں ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی دادی اماں سے علی احمد کی شکایت کرتا تو وہ اطمینان سے جواب دیتیں۔ “ علی احمد کی تو عادت ہی ایسی ہے۔ “ اور مسکرا دیتیں جیسے اظہار ناراضگی کے باوجود انہیں علی احمد کی وہ بات پسند ہو اور علی احمد کبھی دادی اماں کو بلاتے بھی تو پوچھتے ۔ “ بھئی وہ فلاں کام کرنا ہے کیا کیا رسمیں ادا کرنی ہوں گی۔ “ اس کے سوا انہوں نے کبھی دادی اماں کو نہ بلایا تھا۔
اندر دادی اماں کپڑوں اور زیور کی بات کر رہی تھی نہ جانے کس کے کپڑوں اور زیور کی بات ہورہی تھی لیکن اماں ان کی بات سن سن کر رو کیوں رہی تھی۔ کپڑے اور زیور کی بات پر رونے کا کیا مطلب ۔۔ پھر اتفاق سے سعیدہ آ گئی اور اماں پھوٹ پڑیں۔
“ لو لڑکی کی قسمت ہی پھوٹ گئی میں تو جانتی ہی تھی وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میری بچی پھینک دے گا۔ سو وہی ہوا میری بچی فیروز کے بیٹے اجمل کے پلے باندھ رہے ہیں۔ ہائے میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ “
اجمل ایلی کی پھوپھی کا لڑکا تھا وہی اجمل جو روہتک میں چند ایک ماہ کے لیے ان کے ہاں ٹھہرا تھا جسے علی احمد نے بال بنانے اور بن ٹھن کر رہنے پر مار کر نکال دیا تھا۔ ایلی کو جبھی سے اجمل سے ہمدردی تھی۔ اس کی شکل و صورت بھی ایلی کو بہت بھاتی تھی اور پھر اس کا لڑکوں سے میل جول اور باہمی ربط بھی ایلی کو بے حد پسند تھا اور اب تو وہ بہت بڑا ہو چکا تھا اور وہ ایک سال ایران میں نوکری کرنے کے بعد لوٹا تھا۔ نہ جانے اماں کو اجمل کیوں ناپسند تھا نہ جانے اماں کیوں روتی تھیں۔ آخر اجمل میں کیا برائی تھی ۔ اماں کا مسلسل روئے جانا ایلی کے لیے باعث حیرانی تھا! اماں بھی تو عجیب باتیں کیا کرتی تھیں۔ ایک طرف تو اس بات پر اس قدر ناخوش تھی اور دوسری طرف انتظامات میں مشغول تھی۔ جیسے بہت دلچسپی لے رہو ہو ، فرحت کے کپڑے سیتی دولہا کی چیزیں بھی تیار کرتی جاتی۔ علی احمد کے احکامات بھی دوڑ دوڑ کر سنتی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی چھلکائے جاتی۔ عجب عادت تھی اماں کی پھر ہر آتی جاتی سے شکایت بھی کرتی جاتی کہ فرحت کا بیاہ زبردستی کیا جارہا ہے۔
ادھر فرحت کو بھی احساس نہ تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ فرحت کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اس نے آٹھویں جماعت مدرسے میں تعلیم پائی تھی علی احمد نے دفعتا اعلان کر دیا تھا کہ اسے سکول جانے کی اجازت نہیں بچیوں کے لے اتنے ھی تعلیم کافی ہے۔اس پر فرحت پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور حاجرہ اس کے ساتھ مل کر آنسو بہاے تھے۔
مگر علی احمد کا حکم اٹل تھا ان دونوں کے آنسو کام نہ آئے اور فرحت کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔آٹ سال سکول مے پڑھنے کے باوجود پرحت ابھی بچی حی تو تھی وہ اکثر محلے کے چوگان مٰٰٰی جا کر ککلی کلیر دی ناچتی رحتی۔ساتھ ساتھ کچھ گنگناتی اور محلے کے بزرگ اس کی ترف دیکھ کر مسکراتے۔“فرحتو گھومنی۔“اور بوڑھیاں مسکرا کر کہتیں فرحت تو فرحتو ہی رہی۔“ ایلی نے کبھی محسوس نا کیا تھا کے فارحت بڑی ہو گئی ہے اسے بھی وہ فرحتو ہی دکھائی تھی۔اس میں عورت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پھر وہ دن آپہنچا جب ان کے گھر کے سامنے باجے بجنے لگے اور گھر میں مہمان آ جمع ھوے اور حاجرہ کام کاج میں اس قدر مصروف ھو گی کے آنسو بہانا بھی بھول گی اور مہلے کے لڑکوں میں بہانے بہانے ان کے گھر آنا شروع کر دیا اور برتن بجنے لگے۔حنای ہاتھ ریشمی دوپاٹوں میں سے باہر نکلنے چھپنے لگے اور گھر میں ایک ہنگاما برپا ہو گیا اور بلا آّّّّّٰٰخر فرھت کو ڈولی میں بٹھا دیا گیا اور ایلی اور حاجرہ دولی کے ساتھ ایک نے گھر میں چلے گے۔ے نیا گھر اجمل کا گھر تھا۔چونکے اجمل کی ماں مدت سے فوت ہو چکی تھی۔اور بہنیں سب اپنے اپنے گھر اور بچوں والی تھیں یس لیے فرحت کی خدمت کرنے کے لیے کود ہاجرہ کو اجمل کے ہاں جانا پڑا۔
اجمل کا گھر ایلی کے گھر کے پاس ہی تھا- چوگان کے شمال کی طرف ایک چھتی گلی جسے گلیارہ کہتے تھے سے گزر کر ایک اندھیری ڈیوڑھی کو پار کر کے اس گھر کی سیڑھیاں آتی تھیں لیکن اس اندھیری ڈیوڑھی کو پار کرنا آسان نہ تھا- کیوں کہ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بھی اس ڈیوڑھی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہتا تھا- اس گھر کے ایک طرف ایلی کے ماموں حشمت علی رہتے تھے اور دوسری طرف اس کی خالہ کا کنبہ آباد تھا- یہ تینوں گھر دراصل ایک ہی بڑی حویلی کے حصے تھے جسے کسی زمانے میں آصفی بزرگوں نے تعمیر کیا تھا- اگر چوراہے سے دیکھا جائے تو یہ نیا گھر علی احمد کے مکان سے ملحق تھا- درمیان میں صرف ایک چھت پڑتی تھی- اس لیے ایلی عام طور پر ملحقہ کوٹھے سے گزر کر دیوار پھاند کر نئے گھر چلا جایا کرتا تھا تاکہ اس اندھیری ڈیوڑھی سے نہ گزرنا پڑے -
اجمل کے والد کسی زمانے میں انکم ٹیکس کے دفتر میں افسر تھے اب بھی ان کے بشرے اور انداز سے تحکمانہ جاہ و جلال کے آٰٰٰٰٰثار ہویدا تھے ان کے چہرے پے حکومت اور صحت کی سرخی جھلکتی تھی-اگرچہ انہیں عہدہ چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے- کہا جاتا تھا کہ انہیں ایک طوائف جانکی سے محبت تھی- جس کے عشق میں انہوں نے سبھی کچھ کھو دیا تھا اور نوکری سے فارغ ہو کر جانکی کے یہاں جا مقیم ہوئے تھے- اجمل کی والدہ بھی عرصہ دراز سے لقمہ اجل ہو چکی تھیں- اجمل کی تین بہنیں بقید حیات تھیں۔ سیدہ ، رابعہ اور انور ، سیدہ نہ جانے کس سے بیاہی ہوئی تھی مگر دادی کے پاس رہتی تھی۔ رابعہ ایلی کے خالہ زاد بھائی پرویز کی بیوی تھی اور انور کی شادی ہمدانی سے ہو چکی تھی جو کسی دور دراز مقام پر کسی مدرسے میں اتالیق تھے۔ ان حالات میں اجمل کا گھر ویران پڑا تھا۔ اس کے بیاہ پر اس کے والد آئے۔ بہنیں بھی اکھٹی ہوئیں لیکن جلد ہی وہ سب اپنے اپنے گھر لوٹ گئے اور اجمل کے گھر میں صرف فرحت ہاجرہ اور ایلی رہ گے تھے۔اس لے الی نے محسوس نا کیا کے وہ گھر بیگانہ ہے۔اکثر وہ والد کے ساتھ وہیں رہتا۔ رابعہ سے باتیں کرتا یا پڑوس میں رفیق کے گھر چلا جاتا یا دوسری طرف پرویز کے والد محسن علی کے پاس جا بیٹھتا۔ “آو ایلی آو۔“ محسن اسے دیکھ کر چلاے ۔“کہو علی احمد کیسے ہئں۔کوئی نئی شادی کرنے کی تو نہیں سوچ رہے۔“ اور وہ ھنسنے لگتے۔
ایلی کو محسن علی بے حد پسند تھے ان کی باتوں سے سچائی اور خلوص ٹپکتا تھا۔بزرگ ہونے کے باوجود ان میں تصنع نام کو نہ تھا۔ محسن علی کے مکان سے ملحق دالان میں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات شریف سے ہوئی تھی۔

شریف
شریف ایک پتلا دبلا کمزور اور اداس شخص تھا۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کر حقہ پینے کا عادی تھا۔ دیوار سے سر لگائے کمبل اوڑھے وہ حقہ پینے میں مصروف رہتا۔ اس کی آنکھیں نہ جانے کہاں لگی رہتی تھیں جیسے کہیں لگی ہوں اور وہ خلا کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتا رہتا۔ کچھ دیر کے بعد ایک موہوم سی آہ بھر کر ایک نگاہ غلط انداز سے گرد و پیش کی طرف دیکھتا اور پھر اپنی دنیائے خیال میں لوٹ جاتا۔ اس کا سر دیوار پر ٹک جاتا اور نگاہیں اسی طرح خلا کو گھورنے لگتیں۔
“آؤ ایلی۔ “ شریف نے اسے سرسری طور پر بلایا۔ “بیٹھ جاؤ۔“ ایک نظر اس نے ایلی کی طرف دیکھا اس کی نگاہ میں عجیب سی چمک تھی جو آن کی آن میں لہرا کر غائب ہو جاتی تھی۔ اس ایک ہی چمک میں سب کچھ تھا۔ خلوص ، محبت ، سادگی ۔ ناکامی ، وہ چمک کبھی کبھی عیاں ہوتی تھی جیسے ابر آلود رات کو کبھی کبھار چاند ایک ساعت کے لیے مسکرا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ وہ ایک چمک نہ جانے ایلی سے کیا کہہ گئی ۔ جیسے ہمیشہ کے لیے محبت کا پیمان کر گئی ۔ ایلی بیٹھ گیا۔ شریف بیگانہ ہونے کے باجود بیگانہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا اسے جیسے وہ شریف سے مدتوں سے واقف ہو۔ جیسے وہ دونوں پرانے دوست ہوں۔
“ایلی۔“ شریف نے آہ بھری “کیا وہ ڈائن ابھی تک جیتی ہے بتا۔“ اس کے ہونٹوں پر زہر خند تھا۔
“ ڈائن “ ایلی نے حیرانی سے دہرایا “ہاں وہ بڑھیا۔ تمہاری دادی۔ “ شریف نے کہا۔ ایلی کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔
“کیا وہ ڈائن کبھی نہ مرے گی ۔ کیا وہ اسی طرح دوسروں کی زندگی تباہ کرتی رہے گی“۔
شریف کے چہرے سے حسرت و بربادی ٹپکتی تھی۔ ایلی کے دل میں شریف کے لیے جذبہ ہمدردی ابھی آیا۔ اس نے ان جانے میں میں محسوس کیا کہ شریف مظلوم تھا۔ اس پر ظلم توڑے گئے تھے۔ نہ جانے لوگ دادی اماں کو ڈائن کیوں کہا کرتے تھے نہ جانے صفدر اس کے سینے میں پٹاخے کیوں پھینکا کرتا تھا اور محلے کے تمام لڑکے اس سے خائف کیوں تھے۔ یہ تو ایک حقیقت تھی کہ وہ بچوں کا شور سن کر کھڑکی میں آ بیٹھتی اور انہیں جھاڑ جھپاڑ کیا کرتی تھی ۔ لیکن صرف اس بات پر اسے ڈائن کہتا تو روا نہ تھا وہ اس کے کردار کے دوسرے پہلو سے کیوں واقف نہ تھے۔ انہیں اس کی بناوٹی تیوری کے نیچے دبی دبی مسکراہٹ کیوں نہ دکھائی دیتی تھی۔ ایلی کے لیے وہ بوڑھی ڈائن گھر کے پھیلے ہوئے صحرا میں واحد نخلستان تھی۔ محبت کا چھوٹا سا ڈھکا چھپا چشمہ جو شور مچا کر اپنے وجود کے اعلان کرنے کا عادی نہ تھا بلکہ چپ چاپ بے آواز بہے جاتا تھا۔
“نہیں ۔ نہیں وہ نہیں مرے گی۔“ شریف نے یاس بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ابھی اسے نہ جانے کن کن کے درمیان دیوار بننا ہے۔ “ شریف کی باتوں سے ظاہر تھا جیسے شریف کی زندگی تباہ کرنے میں دادی اماں کا ہاتھ ہو مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ شریف کی زندگی کس اعتبار سے برباد ہوچکی تھی اس نے صرف یہ محسوس کیا کہ شریف اس چینی کی پیالی کی مانند تھا ، جس میں بال آچکا ہو۔
پہلی ہی نشست میں ایلی شریف کا دوست بن گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ شریف کا راز دان ہے اگرچہ اسے شریف کے راز کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔
شریف سعیدہ کا دیور تھا اور جب کبھی علی پور آتا تو وہ سعیدہ کے یہاں ٹھہرتا کھیل و تفریح کی اس محفل میں جو اکثر سعیدہ کے یہاں لگتی تھی۔ شریف کی موجودگی عجیب سی لگتی جیسے طربیہ راگ میں بے برجت سر لگا ہو۔ ایک بات بہرطور واضح تھی کہ شریف عشق کا مارا ہوا تھا۔ ایلی کو عشق کے مفہوم سے پوری طور واقفیت نہ تھی۔
عشق بھی عجب چیز ہے ۔ ایلی سوچتا جو شریف کی آنکھوں سے حزن و ملال بن کر جھلکتا ہے ۔ صفدر کی آنکھوں سے رنگ کے چھینٹے بن کر اڑتا ہے اور ارجمند کی آنکھوں میں شرارت بن کر کوندتا ہے۔ آخر یہ چیز کیا ہے؟
پھر احاطے کی بند کھڑکی سے دادی اماں کی آواز گونجتی ۔ “اے ہے آج تم نے یہ کیا محفل لگا رکھی ہے۔ “ اور شریف سرد آہ بھر کر کہتا “ وہ گدھ بولی ۔ چلا رہی ہے۔ اسے زندگی بھری آوازیں اچھی نہیں لگتیں اسے ویرانہ پسند ہے۔ “ اس پر ہاجرہ خود کھڑکی کھول کر کہتی “ سعیدہ نے آج مولود شریف کروایا ہے۔ “ یہ سن کر دادی اماں بڑبڑاتی ہوئی چلی جاتی۔ پھر سب کے اصرار پر سعیدہ ٹوپی پہن لیتی اور گانے لگتی۔ مدینے میں مورے سیاں بالا ہے رے۔ نہ جانے اس نے یہ بول کہاں سے سن رکھے تھے ۔ ایلی کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر بغور سننے میں منہمک رہتا مگر بار بار اس کی توجہ شریف کی طرف منعطف ہوجاتی جو چارپائی پر بیٹھا حقہ تھامے بار بار آہیں بھرتا کروٹیں بدلتا اور محروم نگاہوں سے چھت کی طرف دیکھے جاتا۔

بکھری ہوئی کہانی
نئے گھر میں آنے سے ایلی کا دائرہ ملاقات وسیع ہوگیا تھا اس لحاظ سے وہ نیا گھر اس کے لیے باعث فرحت ثابت ہوا تھا۔ وہاں اسے بہت سے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے تھے۔ سعیدہ اور شریف سے تو وہ روزانہ ہی ملتا تھا۔ اسے شریف کے متعلق عجیب و غریب تفصیلات کا علم ہوتا جارہا تھا۔ اکھڑے اکھڑے واقعات بکھری بکھری تفصیلات ۔ محلے کی عورتیں بھی تو شریف کے متعلق دبی دبی آواز میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ اگرچہ شریف میں وہ خصوصی دلچسپی نہیں لیتی تھیں پھر بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکل ہی جاتی۔ سانپ تو گزر چکا تھا لیکن لکیر ابھی باقی تھی اور محلہ والوں کو سانپ کی نسبت لکیر سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب ایلی کسی کے منہ سے شریف کے متعلق کوئی بات سنتا تو اس کے کان کھڑے ہوجاتے اور وہ اس بات کو احتیاط سے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتا اور پھر جب وہ رات کے وقت بستر پر لیٹتا تو سنی ہوئی باتوں کے ٹکڑے جوڑنے میں مصروف ہوجاتا۔
سعیدہ آہ بھر کر بولی “شریف نے تو جان بوجھ کر اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ جوانی کو روگ لگا رکھا ہے۔ ایسا بھی کیا کہ کوئی اپنا آپ تباہ کرے۔ لو خالہ بھلا اس بڑھیا سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ ہماری تکلیف کا احساس کرے وہ تو بلکہ ہماری بربادی میں خوش ہے۔ اسے تو موقع ہاتھ آیا تھا اور اب کان پھڑوا کر میاں رانجھا بنا بیٹھا ہے۔ ہر وقت اپنی ہیر کے خیال میں غرق رہتا ہے اور کھیڑے ہیر کو کب سے لے بھی گئے بات ختم ہوچکی۔ لیکن اس نے اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ اسے کون سمجھائے۔ “
رابعہ بولی “ ویسے نام کا شریف ہے لیکن کرتوت تو دیکھو ۔ خواہ مخواہ اس بھولی بھالی لڑکی کو بھرما لیا۔ بیچاری معصوم کو کیا پتہ تھا کہ یہ چال صرف اسنے بدنام کرنے کے لیے چلی جا رہی ہے۔ بیچاری کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ توبہ ہے ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ وہ تو دادی اماں نے بچا لیا ورنہ جانے کیا ہوتا۔ “
چچی کہنے لگی ۔ “ بہن آہستہ بات کر۔ یہاں تو عشق لگا ہوا ہے۔ اس شریفے کو دیکھا ہے تم نے یہ تو پاگل ہو رہا ہے اس کے عشق میں۔ اس لڑکی نے پاگل کردیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو ہو کے۔ دیوانی ہورہی تھی وہ تو نہ کسی کی شرم نہ لحاظ اور اب اب یہ لڑکا کسی کا گھر بسائے گا کیا اونہوں توبہ ہے بہن دیکھ لو اپنی بیوی کو رلا رلا کے مار دیا۔ بیچاری کی خبر تک نہ پوچھی۔ اب اسے کون دے گا اپنی لڑکی ۔ اسے تو انوری کی دھن لگی ہے۔ سارا دن آہیں بھرتا رہتا ہے اور آنکھیں موند کر پڑا رہتا ہے اسے تو انوری کھا گئی اے ہے کیسا جوان نکلا تھا۔ پر اب تو دیکھا ہی ہے نہ تو نے۔ “
دادی اماں نے ایلی کو پاس بٹھا لیا “ اے ہے ایلی اب تو ادھر آتا ہی نہیں ایسا ہی جی لگ گیا ہے تیرا اس گھر میں۔ اللہ رکھے یہ تیرا اپنا گھر ہے۔ لوگ اپنے ہی گھر میں رہتے اچھے لگتے ہیں۔ ایلی تو ادھر نہ جایا کر۔ شریف کی بری صحبت میں نہ بیٹھا کر سنا تو نے۔ چھوڑ اس کلموہے کو۔ مرتا بھی نہیں ۔ وہ تو دشمن ہے ہمارا ۔ دشمن نے ہماری عزت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ “
شریف نے آہ بھر کر کہا “ لاہور جاؤگے ایلی ۔ “ اس نے چھت کی طرف دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری۔ “ اس شہر میں رہو گے تم جہاں وہ رہتی ہے۔ آہ اس کے قریب رہو گے۔ اس سے ملنے جایا کرو گے کتنے خوش نصیب ہو تم۔ انہوں نے اسے زبردستی ہمدانی سے بیاہ دیا۔ زبردستی اسے ڈولی میں ڈال دیا۔ روتی چیختی چلاتی ہوئی کو ڈولی میں ڈال دیا۔ ایلی ان ڈائنوں نے اسے جیتے جی مار دیا۔ لیکن پھر بھی وہ میری ہے اس کی منور روشنی میرے ہی مخصوص ہے ۔ کتنی وفا ہے اس میں ، کتنی پاکیزگی ہے۔ تم وہاں رہو گے جہاں وہ رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہو تم۔ “ اس نے لمبی آہ بھری اور آنکھیں موند لیں۔
محلے میں شریف کی داستان کے ٹکڑے جا بجا بکھرے تھے اور ایلی انہیں جوڑنے میں مصروف تھا۔ نہ جانے انوری کون تھی۔ جس سے شریف کو عشق تھا نہ جانے وہ حسینہ کون تھی۔
جس نے خاندان کے ننگ و ناموس کو تباہ کر دیا تھا۔ بہرحال اسے شریف سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ شریف اسے اپنا قصہ سنائے مگر شریف کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ بہرحال شریف کی آنکھوں کی چمک اور اس کا دکھی انداز اسے بے حد پیارے معلوم ہوتے تھے۔
ظاہر تھا کہ شریف اپنے گزشتہ ناکام عشق کی محرومی میں ابھی تک ڈوبا ہوا تھا اس نے شادی بھی کی تھی مگر اس کی بیوی شریف کے گھر کے ویرانے میں رہ کر تپ دق کا شکار ہو کر مر گئی تھی یہ کوائف تو ایلی کو معلوم تھے مگر ان کی جزئیات سے کیا ہوتا ہے اسے تو کل سے دلچسپی تھی۔
ہر وقت حقے کی نلی منہ میں دبائے شریف دیوار سے ٹیک لگائے چھت کو گھورتا رہتا اور ساتھ ساتھ موہوم آہیں بھرتا اس کی آنکھیں ایک عجیب و غریب خمار سے چھلکتیں اور اس کے منہ سے رال گرتی رہتی۔ “آؤ ایلی آؤ بیٹھ جاؤ۔ “ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر اسی محروم انداز سے کہتا اور پھر ایلی کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر اسی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے میں کھو جاتا۔ ایلی بیٹھے بیٹھے کسی نامعلوم جذبہ کی شدت سے بھیگ جاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے وہ کمرہ شریف کے خلوص سے بھرا ہوا ہو۔ جیسے کمرے کی دیواریں احساس احترام سے کھڑی ہو گئی ہوں۔ جیسے کھڑکیاں منہ کھولے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہوں۔
شریف کی آمد سے ایلی کو انکراینڈی ماباؤں سے خاص دلچسپی نہ رہی تھی وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ زندگی کی سب سے بڑی عظمت عشق ہے ۔ پاکیزہ عشق۔ محروم عشق اور چلتی لڑکیاں دیکھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ عشق کا مطلب کیا ہے۔ مرد عورت سے کیوں محبت کرتا ہے مگر نہ جانے کیسے اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عشق سے بڑھ کر اور کوئی چیز قابل حصول نہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کس سے عشق کرے۔ کیسے عشق کرے لیکن ان دنوں اس کی سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ وہ کسی سے عشق شروع کردے اور پھر ناکام ہو کر شریف کی سی جاذبیت پیدا کرلے اور دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کو گھورنے میں زندگی صرف کردے۔ اسے شریف کی زندگی کا یہ پہلو بے حد پیارا لگتا تھا لیکن اس سے ہٹ کر شریف کی باقی ماندہ شخصیت سے اسے گھن آتی تھی۔ مثلا شریف کا ڈھیلا ڈھالا پن۔ اس کی چال ڈھال اسے قطعی پسند نہ تھی اور اس کے منہ سے رال سی ٹپکتی دیکھ کر تو وہ کراہت سے منہ موڑ لیتا تھا۔ اس کے لیے شریف کی تین خصوصیات بے حد پیاری تھیں۔ شریف کی محبت بھری نگاہیں ، غمناک نگاہیں جن میں ایک مٹھاس اور محرومیت بھرا نشہ رواں دواں رہتا تھا۔ شریف کا بے پناہ خلوص اور شریف کی دوست نوازی۔
حاجی شریف کی رخصت ختم ہوگئی اور وہ واپس اپنی نوکری پر چلا گیا۔ شریف کے جانے کے بعد ایلی کئی ایک دن اکھڑا اکھڑا رہا۔ ارجمند کے اصرار کے باوجود کیپ اور کپ کی طرف متوجہ نہ ہوا نہ ہی اس نے انکر اینڈی ماباؤں کے کھیل میں حصہ لیا۔ اسے صرف ایک دھن لگی تھی کہ وہ
 

قیصرانی

لائبریرین
برائے معلومات

مندرجہ بالا پوسٹ جو کہ صفحہ نمبر 126 تا 133 پر مشتمل ہے، وکا وکی پر منتقل کر دی گئی ہے
 
کسی سے باقاعدہ عشق کرے کسی سے عہد و پیمان کرے اور پھر اسے نبھانے کے لیے زندگی وقف کردے لیکن کوئی بھی تو نہ تھی جو اس سے عہد و پیمان کرنے پر مائل نظر آتی ہو کوئی اسے خاطر میں نہ لاتی تھی ۔ بڑی عورتیں اسے قابل التفات نہ سمجھتی تھیں اور چھوٹی لڑکیوں میں اسے خود کوئی دلچسپی نہ تھی۔
بہرحال کچھ دیر کے بعد ہی شریف کا وہ اثر معدوم ہوگیا اور ایلی پھر سے ارجمند کے ساتھ کھیل میں حصہ لینے لگا لیکن یہ شمولیت محض ایک فریب تھا ایک دکھاوا تھا دراصل ایلی کی عشق کرنے کی خواہش سمٹ کر اس کے دل کی گہرائیوں میں بیٹھ گئی تھی۔

میٹریکولیشن

پھر دسویں کے امتحانات قریب آگئے اور ایلی کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی اور وہ پھر بام آباد کیلئے عازم سفر ہو گئے۔ بام آباد پہنچ کر آہستہ آہستہ شریف اس کے ذہن سے خارج ہو گیا۔ بام آباد میں اب وہ اکیلے نہ تھے۔ ان کے ساتھ شمیم تھی۔ اس کے حنا مالیدہ ہاتھ۔ فیروزی چادر اور چٹے سفید چوڑے چہرے سے سارا گھر بھرا ہوا تھا کبھی کبھار اس کے حنا مالیدہ ہاتھوں کو دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے صفیہ پھر سے جی اٹھی ہو۔ اس خیال پر وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ شمیم کے خوابیدہ چہرے کو دیکھ کر۔ اس کی نیم مردہ آنکھوں کو دیکھ کر جن میں عجیب سی بے ربطی تھی، ایلی مایوس ہوجاتا “ نہیں یہ صفیہ تو نہیں۔ اس میں وہ بات ہی نہیں۔“ اس احساس کو شدت سے محسوس کرکے ایلی کی نگاہ میں شمیم کے ہاتھوں کا رنگ اڑ جاتا اور اسے محسوس ہوتا جیسے وہ ہاتھ سفید نہیں بلکہ پیلے ہیں اور وہ پیلا پن رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ بے جان ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا اور وہ باہر گھنشام اور ایشور لال کی طرف نکل جاتا اور پڑھنے کے بہانے ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتا رہتا اور یہ محسوس کرنے کی کوشش کرتا کہ اسے ان سے عشق ہے ، عشق پیارا ۔ دن وہ ایشور لال یا گھنشام کے پاس گزارتا اور پھر شام کو کتابیں اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑتا۔
گھر کے قریب پہنچتے ہی وہ رک جاتا۔ کہیں علی احمد نہ دیکھ لیں کہیں وہ نہ پوچھ لیں کہ تم نے آج کیا پڑھا ، علی احمد کا ڈر اس کے دل پر بوجھ بن جاتا۔ حالانکہ گھر میں علی احمد نے اسے کبھی کچھ نہ کہا تھا۔ کبھی چلم بھرنے کے لیے اسے بلاتے یا بازار سے سودا لانا ہو تو اسے آواز دیتے اور یا کبھی مہربان ہوتے تو دونوں انگلیوں میں گوشت کا ٹکڑا یا کوئی اور کھانے کی چیز پکڑ کر چلاتے “ ایلی یہ لے ۔ ایلی۔ “ اس کے علاوہ کبھی ایلی کی طلبی نہ ہوئی تھی اور نہ ہی انہوں نے محسوس کیا تھا کہ وہاں ان کے قریب چند ایک گز کے فاصلے پر ایک لڑکا ایلی بھی رہتا تھا۔
شمیم کے آنے کے بعد چند ایک دن کے لیے تو علی احمد کے کمرے میں شمیم شمیم کی آوازیں گونجتی رہیں اور شمیم کی آواز مدہم سرگوشیاں کرتی رہی۔ پھر وہ سرگوشیاں معدوم ہوتی گئیں اور بالاخر ایلی کو اس کمرے سے سسکیاں سنائی دینے لگیں اور شمیم کا انداز محرومیت کا غماز ہوتا گیا۔ اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑتی گئی اور علی احمد کی کھنکھار میں درشتی کا انداز واضح ہوتا گیا۔ جلد ہی کور پھر سے آ موجودہ ہوئی اور بند کمرے کے پیچھے اس کے دانت چمکنے لگے۔ “بابو جی کے مزاج ٹھیک ہونے والے ہیں۔ “ وہ پنکھے کی رسی گھما کر کہتی اور شمیم باورچی خانے میں حیران نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتی جیسے کہیں کھو گئی ہو۔ جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس پر دوسرے کمرے میں ہاجرہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی رفیقاں مسکراتی اور اپنا بدن سکیڑ کر ہاجرہ سے کہتی “ ہائے اب کیا ہوگا۔ “ اور ایلی غصے سے کھولتا اور اس کا جی چاہتا کہ چلا چلا کر کہے “اب میں دسویں جماعت میں ہوں۔ اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ اب میں دیکھوں گا کہ یہاں کون آتی ہے۔“
“ایلی کور کے لیے پانی لاؤ۔ ایلی “ علی احمد کی کھنکھار سن کر اس پر سکتے کا عالم چھا جاتا۔ جسم پر سوئیاں سی جلنے لگتیں اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔“ آیا جی۔ “ اس وقت وہ یہ حقیقت بھول جاتا کہ وہ دسویں میں ہے اور گھر میں عورتوں کا آنا جانا برداشت نہیں کر سکتا اور وہ بوتل اٹھا کر باہر نکل جاتا۔
کنوئیں کے پاس پہنچ کر اس کے حواس درست ہوتے۔ دھندلکا دور ہوجاتا اور شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ فضا میں لٹکتے دکھائی دیتے اور اس کی آنکھوں کا فرق اس قدر نمایاں ہو جاتا کہ وہ چونک پڑتا اور محسوس کرتا۔ جیسے وہ ایلی کی مدد مانگ رہی ہو۔ جیسے وہ ایلی کی پناہ لے رہی ہو۔ اس خیال پر وہ کنویں پر بوتل رکھ کر سیدھا کھڑا ہو جاتا۔ “ میں دسویں جماعت میں ہوں۔ میں اب بچہ نہیں میں دیکھوں گا اس گھر کو کون ناپاک کرتا ہے۔ “ پاؤں کی ٹھوکر سے وہ بوتل کو گرا دیتا جو کنویں کی منڈیر پر لڑھک لڑھک کر نیچے جا گرتی “ مجھے دسویں پاس کرنا ہے۔ مجھے ضرور دسویں پاس کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ گھر کبھی پاک صاف نہ ہوسکے گا۔ مجھے دسویں پاس کرنا ہی ہوگا۔ “

اگر ایلی کو گھر کی ناپاکی کا خیال نہ ہوتا اگر شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ اس کے سامنے فضا میں محرومیت سے نہ لٹکتے اگر کور کے سفید دانتوں اسے شدید نفرت نہ ہوتی تو شاید ایلی کبھی دسویں پاس کرنے میں کامیاب نہ ہوتا۔ سکول میں وہ ایک نالائق لڑکا تھا نہ تو اسے پڑھنے کا شوق تھا نہ وہ ذہین تھا جماعت کے لڑکے اس کی باتوں پر ہنسا کرتے تھے اور استاد اس کی نالائقی پر قہقہے لگایا کرتے تھے۔
جوں جوں امتحان قریب آتا گیا ، شمیم کی نگاہیں اور بھی محروم ہوتی گئیں۔ کور کے دانت اور بھی چمکیلے ہوتے گئے۔ علی احمد کی کھنکھار میں اور بھی درشتی پیدا ہوتی گئی اور ایلی کا عزم اور بھی تقویت حاصل کرتا گیا۔ اب وہ رات کو چپکے سے کتاب لے کر بیٹھ جاتا اور چوری چوری اسے یاد کرتا رہتا۔ علی احمد کی الماری میں بہت سی کتابیں تھیں۔ گرائمر یوسیج، پریپوزینشنز ، ہر چیز پر علیحدہ کتاب تھی اور وہ باری باری انہیں الماری میں سے نکالتا اور چوری چوری پڑھتا۔
اس کے باوجود وہ امتحان کا نتیجہ سن کر حیران رہ گیا اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ پاس ہو چکا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ اس نے پرچے بھی تو اچھے نہ کیے تھے لیکن زیادہ تعجب کن بات یہ تھی کہ دسویں جماعت پاس کرنے کے باوجود وہ ہی ایلی تھا جیسے پہلے تھا۔ اس میں ذرا بھی تو فرق نہ آیا تھا کوئی تبدیلی نہ ہوئی تھی۔ علی احمد کی کھنکھار سن کر اس کا حلق ویسے ہی سوکھ جاتا تھا اور جسم پر ویسے ہی چیونٹیاں رینگنے لگتی تھیں اور جی ہاں کہہ کر وہ اسی طرح بوتل اٹھا کر کنویں کی طرف چل پڑتا تھا۔ اس کی آنکھوں تلے شمیم کے حنا مالیدہ ہاتھ اسی طرح بے بسی سے لٹکتے تھے۔ اس کے سوا وہ کیا کرسکتا تھا کہ کور کی بوتل کو ٹھوکر مار کر گرا دے اور کور کی بوتل میں تھوک دے۔
دسویں پاس کرنے کے بعد وہ علی پور آگیا اور پھر دادی اماں کے پاس رہنے لگا۔ دادی اماں کے پاس رہنے میں کس قدر آرام تھا ۔ اسے نماز پڑھتے اور تسبیح کے دانے پھیرتے دیکھ کر اس کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ دادی اماں کا گھر کس قدر پاکیزہ تھا۔
دادی اماں کے گھر کی پاکیزگی پر مسرور ہونے کے باوجود وہ ارجمند سے انکر اینڈی ماباوں میں مصروف ہوجاتا اور جب وہ کنویں کے پاس جا کر ریشمی رومال ہلاتے اور بانسری بجاتے تو کیپ کی کھڑکی کی چق میں ہلکی سی لرزش پیدا ہوجاتی۔ ایک آنکھ ابھرتی مگر ایلی کو نہ جانے کیوں کیپ سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ اس کے ذہن میں تو حنائی ہاتھ رقصاں تھے۔ اگرچہ حنا کا رنگ دیکھ کر اور اس کی بو محسوس کرکے اس کی طبیعت مالش کرنے لگتی تھی اور جسم کا بند بند لرز جاتا تھا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں حنائی ہاتھ لٹکتے تھے۔ اس کی جانب بڑھتے ۔ وہ گھبرا کر سمٹتا اور پھر ایک جھرجھری اسے جھنجھورتی ایک ہوائی سی چل پڑتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں۔ اس کا دل چوری چوری خواہش کرتا کہ وہ ہاتھ اسے تھپک تھپک کر سلادیں اور ایک بھرا ہوا جسم اس پر جھک جائے۔
اس کا جی چاہتا تھا کہ کیپ کی بجائے کوئی بڑے سے جسم اور گدے جیسے گول گول رنگین ہاتھوں والی اس چق کے پیچھے کھڑی ہو اور وہ محسوس کرے کہ ایلی اس کی طرف دیکھ رہا ہے لیکن بھرے جسم والیں تو اسے خاطر ہی میں نہ لاتی تھیں نہ جانے کیا سوچتی رہتی تھیں وہ ویلی ۔ چوری چوری ان کی طرف دیکھتا اور پھر گھبرا کر ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھتا اور بالاخر ان کے پاؤں کو گھورتا لیکن انہیں احساس ہی نہ ہوتا کہ کوئی دیکھ رہا ہے کن نظروں سے دیکھ رہا ہے انہیں کام کاج سے اتنی فرصت ہی نہ ہوتی کہ ایلی کی نگاہوں یا اس کی موجودگی کو محسوس کریں۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کریں۔ ایلی چاہتا تھا کہ وہ اس کی نگاہوں کو محسوس کرکے لے جائیں۔ اپنا آپ سمیٹیں۔

ہاکی سٹک

اسے چپ دیکھ کر دادی اماں چلائی۔ “ ایلی کیا ہے تجھے یوں گم سم بیٹھ رہتا ہے تو نہ جانے کیا ہو گیا ہے تجھے یا تو سارا دن اللہ مارے لڑکوں کے ساتھ لگا رہتا ہے یا گھر میں آکر یوں گم سم بیٹھ رہتا ہے ۔ “ ایلی یہ سن کر دادی اماں سے لپٹ جاتا۔ انہیں دیکھ کر سر گھٹنوں میں دے کر مسکراتا اور دادی جیختی ۔ “اے ہے اب تجھ سے لڑائی کون لڑے توبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا بڑا ہو گیا ہے تو ۔۔۔۔۔۔ ابھی کل اتنا سا تھا اور آج دیکھو ۔۔۔ شرم تو نہیں آتی۔ تجھے بوڑھی جان کی ہڈیاں توڑے ہوئے۔ جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھیل جا کے اس تو کھیلنا ہی اچھا۔ “
دادی اماں کو چھوڑ کر وہ سیدھا رضا کی دوکان پر محلے کے اونچے بازار میں تھی میلے سے دروازوں کے پاس دھندلی دیواروں کے درمیان کئی ایک گتے کے ڈبے رکھے ہوئے تھے ، جن میں مختلف اشیاء پڑی تھیں۔ ایک میں ربڑ کے گیند تھے، ایک میں بچوں کے چوسنے کی مٹھائی۔ ایک میں لڑکیوں کے بالوں کے لیے پنیں اور کلپ تھے۔ دو ایک گتوں پر چمکدار بٹن لگے ہوئے تھے۔ ایک گتے پر لوہے کی چیونٹیاں چمٹی ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں مٹی اور ربڑ کے چند کھلونے رکھے ہوئے تھے ۔ ان ڈبوں کے پاس رضا بورئیے پر بیٹھا رہتا تھا۔ جس کے قریب ہی اس کا پکڑ کر چلنے والا سونٹا پڑا ہوتا تھا اور سونٹے کے پاس اس کا مضحکہ خیز جوتا۔ اس جوتے کو دیکھ کر خواہ مخواہ ہنسی آجاتی کیونکہ اس کا ایک پاؤں تو عام جوتے کے سائز کا تھا اور دوسرا ٹیڑھا اور بچگانہ ۔ رضا کی ٹانگوں کو دیکھ کر ایک سماعت کے لیے ہر نوارد چونکتا۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اپنی ٹانگ کے پاس اس نے لکڑی کی ایک مڑی ہوئی کھونٹی ڈال رکھی ہو۔ لوگوں کو اپنی ٹانگ کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کر وہ چلاتا۔ “ میری طرف دیکھئے بابو جی۔ میری طرف۔ یہ کھونٹی بکاؤ نہیں۔ “ اور پھر منہ پکا کر لیتا یا ہنس کر کہتا “ پسند ہے یہ تو ایک تم کو بھی لادوں۔ “ رضا اپنی لنگڑی ٹانگ پر شرمندگی محسوس کرنے کے بجائے فخر محسوس کرتا “ یار “ وہ دوستوں کے درمیان کھونٹے کے سہارے کھڑا ہو کر لنگڑی ٹانگ کو گھما کر کہتا “ اللہ میاں نے مجھے تو ایک ہاکی دے رکھی ہے کیا سمجھا ہے تم نے اسے کسی سے لڑتے وقت رضا کو اپنے حریف کو پچھاڑتے ہوئے دیکھ کر ایلی محسوس کرتا جیسے لنگڑا ہونا خصوصی نعمت ہو۔ رضا یوں حریف سے چمٹ جاتا۔ جیسے جزیرے کا بڈھا پیر تسمہ پا ہو اور پھر اسے مڑی ہوئی کھونٹی سے واقعی یوں کام لیتا گویا وہ ہاکی سٹک ہو۔
لیکن رضا طبعا لڑنے سے گریز کرتا تھا ہر بات کو مذاق میں اڑا دینے کی قابلیت گویا اس نے ورثے میں پائی تھی اور پھر اس کی باتیں سن سن کر محلے کے لڑکے ہنس ہنس کر پاگل ہوجایا کرتے تھے۔
ایلی رضا کے پاس جاتا تو وہ اٹھ بیٹھتا “ آؤ ایلی آؤ ۔ میاں بیٹھو “ دکان کے اندر ایک بوریا بچھا دیتا۔ “ تاش کھیلیں۔ سیر کروگے تو چلتے ہیں دکان بند کرکے چلتے ہیں۔ چلو۔“
“نہیں۔ نہیں ۔ “ ایلی چلاتا “ میں تو ویسے ہی آیا تھا بیٹھنے کے لیے۔ “
“ اچھا تو ٹھیک ہے۔ “ اور وہ دونوں بیٹھ جاتے انہیں پاس بیٹھ کر باتیں کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ چپ چاپ دونوں بیٹھے رہتے اور رضا حسب معمول ساتھ والے حکیم تمباکو فروش اور بیڑی فروش پر پھبتیاں کستا رہتا اور ایلی ہنستا رہتا۔ پھر جمیل ادھر نکلتا۔
“ اے بھائی جمیل ۔ جمیل ۔ کہاں جا رہے ہو۔ “ رضا چلاتا۔ “ کچھ مٹھائی فنڈ ہے نا آج چلو ہم بھی چلتے ہیں۔ ایلی بھی بیٹھا ہے ۔ میاں اندر دکان میں ہے۔ “
مٹھائی فنڈ کا نام سن کر جمیل غصے سے گھونسہ گھماتا۔ “ لنگڑے دوسری ٹانگ کی خیریت نہیں چاہیے۔ “ جمیل اندر داخل ہوتا۔
پھر وہ تاش کی بازی شروع کردیتے اور دیر تک تاش کھیلتے رہتے۔ حتی کہ کوئی آ کر ایلی کو خبردار کر دیتا کہ دادی اماں کھڑکی میں بیٹھی ہر آتے جاتے سے اس کے متعلق پوچھ رہی ہے اور محلے کے تمام لڑکوں کو گالیاں دے رہی ہے۔ پھر ایلی چپ چاپ اٹھ کر گھر کی طرف چل پڑتا۔
راستے میں کنویں کے قریب یا لالٹین کے پاس ارجمند اسے دیکھ کر چلاتا۔
“ارے یار غضب ہو گیا۔ ایلی آج تو وہ ہمارے گھر آگئی۔ ظالم نے نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ نیلا سوٹ اور سفید رنگ ۔ توبہ ہے۔ “
“ میں ذرا گھر جارہا ہوں۔ “ ایلی جواب دیتا۔
“پاگل ہو۔“ ارجمند چلاتا “آج ۔۔۔۔۔۔۔۔اور گھر وہی بات ہوئی آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔ بھئی آج خاص دن ہے۔ آج نہیں جا سکتے تم تمہیں پتہ نہیں اس کی سہیلی آئی ہوئی ہے۔ وہ دیکھو وہ ۔۔۔۔۔۔ سبحان اللہ کیا سہیلی ہے۔ کمبخت ۔ اندر کا اکھاڑا بنا ہوا ہے۔ یہ گھر آج آیا۔ وہ دیکھو چاند سا مکھڑا نکل آیا۔ ذرا چق اٹھا کر میری جان ۔ منہ دھوئے بغیر کیا پھبن ہے “ جلم کریں توری اکھیاں۔ “
نہ جانے کیوں ایلی محسوس کرنے لگا تھا کہ ارجمند محض گڑیوں کو کھیل کھیل رہا ہے۔ بے جان گڑیاں جو لجاتیں جھنپتیں ، ظاہر ہوتیں اور چھپ جاتیں او رپھر کھلکھلا کر ہنستیں اور چلا چلا کر باتیں کرتیں۔ اس وقت ایلی کی نگاہوں تلے دو بھرے بھرے بازو لٹکتے ۔ مخروطی بانہوں کی جاذبیت فضا پر چھا جاتی۔ اور بھرے بھرے جسم میں خاموش بجلیاں سی رواں دواں ہوتیں۔
یوں محلے میں صبح سے شام ہو جاتی اور رات کو بستر پر پڑے پڑے وہ سوچتا۔ کس سے وشق کروں ۔ کس سے۔


شہزاد

لاہور
ایلی کو علی پور میں رہتے ہوئے ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ علی احمد آگئے اور آتے ہی بولے “ ایلی کالج میں داخل ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ کل ہم جارہے ہیں۔ “ ایلی کے جسم میں ایک ہوائی سی چھوٹ گئی۔ لاہور وہ لاہور جہاں وہ اپنے ماموں قیوم کے ساتھ گیا تھا وہاں پیسہ اخبار محلے میں جہاں قیوم رہتا تھا۔
شام کے وقت جب قیوم اسے ٹانگے میں بٹھا کر سیر کو لے گیا تھا۔ سفید گھوڑی والا تانگہ جس کا کوچوان بوڑھا ہونے کے باوجود اس قدر زندہ دل تھا “ موتی بیٹی ۔ آج بابو جی کو سیل کرانا ہے۔۔۔۔۔۔۔ چل بیٹی دولہن کی چال چلیو۔ چل “ اور موتی یوں چلنے لگی تھی جیسے اس کی ٹانگوں تلے چھوتے چھوتے پہئے لگے ہوئے ہوں۔ گردن کے بال لہرا رہے تھے۔ نیچے سڑک پانی کے دھارے کی طرح بہہ رہی تھی اور یہ دھارا چوڑا ہوتا جا رہا تھا اور چوڑا۔ اور چوڑا ۔ سڑک کے دونوں کناروں پر سر سبز درخت اور اونچی عمارتیں ناچ رہی تھیں۔
پھر مکانات اور عمارتیں کم ہوتے گئے۔ ان کی جگہ دونوں طرف گھاس کے سبز قطعے پھیل گئے جن میں سے رنگ رنگ کے پھول سر اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگے۔ سر سبز درخت جھوم رہے تھے۔ خاکستری ٹیلے لڑھک رہے تھے۔ سڑک بھورے فیتے کی طرح چل رہی تھی۔ سبز خمیدہ کھمبوں پر بتیاں یوں ٹمٹا رہی تھیں جیسے جگنو چمک رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لاہور!
لاہور کا نام سنتے ہی وہ اٹھ بھاگا۔ “ دادی اماں میری قمیض کہاں ہے دادی اماں میرا جوتا
 
Top