محب علوی
مدیر
ایلی کے گھر میں تیاریاں ہونے لگیں۔ نہ جانے کیا ہونے والا تھا۔ بات سمجھ میں نہ آتی تھی۔ لیکن کچھ ہونے والا ضرور تھا۔ اسی لیے تو علی احمد چھٹی لے کر علی پور آگئے تھے اور دادی اماں کو پاس بٹھا کر اس سے پوچھ پوچھ کر نہ جانے رجسٹر میں کیا لکھ رہے تھے اور ہاجرہ کوٹھڑی میں کھڑی رو رہی تھی۔ نہ جانے اسے کیا ہوا تھا وہ یوں رونے کی عادی نہ تھی۔
علی احمد نے تو کبھی دادی اماں سے بات نہ کی تھی۔ ماں بیٹے اس مکان میں اجنبیوں کی طرح زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ دادی اماں سارا دن سیدہ کے قریب اکڑوں بیٹھی رہا کرتی تھی اور علی احمد اندر بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے اور رجسٹروں میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ دونروں کی آپس میں کبھی بات نہ ہوتی تھی۔ ایلی اکثر حیران ہوا کرتا کہ یہ کیسے ماں بیٹے ہیں ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی دادی اماں سے علی احمد کی شکایت کرتا تو وہ اطمینان سے جواب دیتیں۔ “ علی احمد کی تو عادت ہی ایسی ہے۔ “ اور مسکرا دیتیں جیسے اظہار ناراضگی کے باوجود انہیں علی احمد کی وہ بات پسند ہو اور علی احمد کبھی دادی اماں کو بلاتے بھی تو پوچھتے ۔ “ بھئی وہ فلاں کام کرنا ہے کیا کیا رسمیں ادا کرنی ہوں گی۔ “ اس کے سوا انہوں نے کبھی دادی اماں کو نہ بلایا تھا۔
اندر دادی اماں کپڑوں اور زیور کی بات کر رہی تھی نہ جانے کس کے کپڑوں اور زیور کی بات ہورہی تھی لیکن اماں ان کی بات سن سن کر رو کیوں رہی تھی۔ کپڑے اور زیور کی بات پر رونے کا کیا مطلب ۔۔ پھر اتفاق سے سعیدہ آ گئی اور اماں پھوٹ پڑیں۔
“ لو لڑکی کی قسمت ہی پھوٹ گئی میں تو جانتی ہی تھی وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میری بچی پھینک دے گا۔ سو وہی ہوا میری بچی فیروز کے بیٹے اجمل کے پلے باندھ رہے ہیں۔ ہائے میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ “
اجمل ایلی کی پھوپھی کا لڑکا تھا وہی اجمل جو روہتک میں چند ایک ماہ کے لیے ان کے ہاں ٹھہرا تھا جسے علی احمد نے بال بنانے اور بن ٹھن کر رہنے پر مار کر نکال دیا تھا۔ ایلی کو جبھی سے اجمل سے ہمدردی تھی۔ اس کی شکل و صورت بھی ایلی کو بہت بھاتی تھی اور پھر اس کا لڑکوں سے میل جول اور باہمی ربط بھی ایلی کو بے حد پسند تھا اور اب تو وہ بہت بڑا ہو چکا تھا اور وہ ایک سال ایران میں نوکری کرنے کے بعد لوٹا تھا۔ نہ جانے اماں کو اجمل کیوں ناپسند تھا نہ جانے اماں کیوں روتی تھیں۔ آخر اجمل میں کیا برائی تھی ۔ اماں کا مسلسل روئے جانا ایلی کے لیے باعث حیرانی تھا! اماں بھی تو عجیب باتیں کیا کرتی تھیں۔ ایک طرف تو اس بات پر اس قدر ناخوش تھی اور دوسری طرف انتظامات میں مشغول تھی۔ جیسے بہت دلچسپی لے رہو ہو ، فرحت کے کپڑے سیتی دولہا کی چیزیں بھی تیار کرتی جاتی۔ علی احمد کے احکامات بھی دوڑ دوڑ کر سنتی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی چھلکائے جاتی۔ عجب عادت تھی اماں کی پھر ہر آتی جاتی سے شکایت بھی کرتی جاتی کہ فرحت کا بیاہ زبردستی کیا جارہا ہے۔
ادھر فرحت کو بھی احساس نہ تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ فرحت کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اس نے آٹھویں جماعت مدرسے میں تعلیم پائی تھی علی احمد نے دفعتا اعلان کر دیا تھا کہ اسے سکول جانے کی اجازت نہیں بچیوں کے لے اتنے ھی تعلیم کافی ہے۔اس پر فرحت پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور حاجرہ اس کے ساتھ مل کر آنسو بہاے تھے۔
مگر علی احمد کا حکم اٹل تھا ان دونوں کے آنسو کام نہ آئے اور فرحت کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔آٹ سال سکول مے پڑھنے کے باوجود پرحت ابھی بچی حی تو تھی وہ اکثر محلے کے چوگان مٰٰٰی جا کر ککلی کلیر دی ناچتی رحتی۔ساتھ ساتھ کچھ گنگناتی اور محلے کے بزرگ اس کی ترف دیکھ کر مسکراتے۔“فرحتو گھومنی۔“اور بوڑھیاں مسکرا کر کہتیں فرحت تو فرحتو ہی رہی۔“ ایلی نے کبھی محسوس نا کیا تھا کے فارحت بڑی ہو گئی ہے اسے بھی وہ فرحتو ہی دکھائی تھی۔اس میں عورت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پھر وہ دن آپہنچا جب ان کے گھر کے سامنے باجے بجنے لگے اور گھر میں مہمان آ جمع ھوے اور حاجرہ کام کاج میں اس قدر مصروف ھو گی کے آنسو بہانا بھی بھول گی اور مہلے کے لڑکوں میں بہانے بہانے ان کے گھر آنا شروع کر دیا اور برتن بجنے لگے۔حنای ہاتھ ریشمی دوپاٹوں میں سے باہر نکلنے چھپنے لگے اور گھر میں ایک ہنگاما برپا ہو گیا اور بلا آّّّّّٰٰخر فرھت کو ڈولی میں بٹھا دیا گیا اور ایلی اور حاجرہ دولی کے ساتھ ایک نے گھر میں چلے گے۔ے نیا گھر اجمل کا گھر تھا۔چونکے اجمل کی ماں مدت سے فوت ہو چکی تھی۔اور بہنیں سب اپنے اپنے گھر اور بچوں والی تھیں یس لیے فرحت کی خدمت کرنے کے لیے کود ہاجرہ کو اجمل کے ہاں جانا پڑا۔
اجمل کا گھر ایلی کے گھر کے پاس ہی تھا- چوگان کے شمال کی طرف ایک چھتی گلی جسے گلیارہ کہتے تھے سے گزر کر ایک اندھیری ڈیوڑھی کو پار کر کے اس گھر کی سیڑھیاں آتی تھیں لیکن اس اندھیری ڈیوڑھی کو پار کرنا آسان نہ تھا- کیوں کہ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بھی اس ڈیوڑھی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہتا تھا- اس گھر کے ایک طرف ایلی کے ماموں حشمت علی رہتے تھے اور دوسری طرف اس کی خالہ کا کنبہ آباد تھا- یہ تینوں گھر دراصل ایک ہی بڑی حویلی کے حصے تھے جسے کسی زمانے میں آصفی بزرگوں نے تعمیر کیا تھا- اگر چوراہے سے دیکھا جائے تو یہ نیا گھر علی احمد کے مکان سے ملحق تھا- درمیان میں صرف ایک چھت پڑتی تھی- اس لیے ایلی عام طور پر ملحقہ کوٹھے سے گزر کر دیوار پھاند کر نئے گھر چلا جایا کرتا تھا تاکہ اس اندھیری ڈیوڑھی سے نہ گزرنا پڑے -
اجمل کے والد کسی زمانے میں انکم ٹیکس کے دفتر میں افسر تھے اب بھی ان کے بشرے اور انداز سے تحکمانہ جاہ و جلال کے آٰٰٰٰٰثار ہویدا تھے ان کے چہرے پے حکومت اور صحت کی سرخی جھلکتی تھی-اگرچہ انہیں عہدہ چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے- کہا جاتا تھا کہ انہیں ایک طوائف جانکی سے محبت تھی- جس کے عشق میں انہوں نے سبھی کچھ کھو دیا تھا اور نوکری سے فارغ ہو کر جانکی کے یہاں جا مقیم ہوئے تھے- اجمل کی والدہ بھی عرصہ دراز سے لقمہ اجل ہو چکی تھیں- اجمل کی تین بہنیں بقید حیات تھیں۔ سیدہ ، رابعہ اور انور ، سیدہ نہ جانے کس سے بیاہی ہوئی تھی مگر دادی کے پاس رہتی تھی۔ رابعہ ایلی کے خالہ زاد بھائی پرویز کی بیوی تھی اور انور کی شادی ہمدانی سے ہو چکی تھی جو کسی دور دراز مقام پر کسی مدرسے میں اتالیق تھے۔ ان حالات میں اجمل کا گھر ویران پڑا تھا۔ اس کے بیاہ پر اس کے والد آئے۔ بہنیں بھی اکھٹی ہوئیں لیکن جلد ہی وہ سب اپنے اپنے گھر لوٹ گئے اور اجمل کے گھر میں صرف فرحت ہاجرہ اور ایلی رہ گے تھے۔اس لے الی نے محسوس نا کیا کے وہ گھر بیگانہ ہے۔اکثر وہ والد کے ساتھ وہیں رہتا۔ رابعہ سے باتیں کرتا یا پڑوس میں رفیق کے گھر چلا جاتا یا دوسری طرف پرویز کے والد محسن علی کے پاس جا بیٹھتا۔ “آو ایلی آو۔“ محسن اسے دیکھ کر چلاے ۔“کہو علی احمد کیسے ہئں۔کوئی نئی شادی کرنے کی تو نہیں سوچ رہے۔“ اور وہ ھنسنے لگتے۔
ایلی کو محسن علی بے حد پسند تھے ان کی باتوں سے سچائی اور خلوص ٹپکتا تھا۔بزرگ ہونے کے باوجود ان میں تصنع نام کو نہ تھا۔ محسن علی کے مکان سے ملحق دالان میں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات شریف سے ہوئی تھی۔
شریف
شریف ایک پتلا دبلا کمزور اور اداس شخص تھا۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کر حقہ پینے کا عادی تھا۔ دیوار سے سر لگائے کمبل اوڑھے وہ حقہ پینے میں مصروف رہتا۔ اس کی آنکھیں نہ جانے کہاں لگی رہتی تھیں جیسے کہیں لگی ہوں اور وہ خلا کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتا رہتا۔ کچھ دیر کے بعد ایک موہوم سی آہ بھر کر ایک نگاہ غلط انداز سے گرد و پیش کی طرف دیکھتا اور پھر اپنی دنیائے خیال میں لوٹ جاتا۔ اس کا سر دیوار پر ٹک جاتا اور نگاہیں اسی طرح خلا کو گھورنے لگتیں۔
“آؤ ایلی۔ “ شریف نے اسے سرسری طور پر بلایا۔ “بیٹھ جاؤ۔“ ایک نظر اس نے ایلی کی طرف دیکھا اس کی نگاہ میں عجیب سی چمک تھی جو آن کی آن میں لہرا کر غائب ہو جاتی تھی۔ اس ایک ہی چمک میں سب کچھ تھا۔ خلوص ، محبت ، سادگی ۔ ناکامی ، وہ چمک کبھی کبھی عیاں ہوتی تھی جیسے ابر آلود رات کو کبھی کبھار چاند ایک ساعت کے لیے مسکرا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ وہ ایک چمک نہ جانے ایلی سے کیا کہہ گئی ۔ جیسے ہمیشہ کے لیے محبت کا پیمان کر گئی ۔ ایلی بیٹھ گیا۔ شریف بیگانہ ہونے کے باجود بیگانہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا اسے جیسے وہ شریف سے مدتوں سے واقف ہو۔ جیسے وہ دونوں پرانے دوست ہوں۔
“ایلی۔“ شریف نے آہ بھری “کیا وہ ڈائن ابھی تک جیتی ہے بتا۔“ اس کے ہونٹوں پر زہر خند تھا۔
“ ڈائن “ ایلی نے حیرانی سے دہرایا “ہاں وہ بڑھیا۔ تمہاری دادی۔ “ شریف نے کہا۔ ایلی کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔
“کیا وہ ڈائن کبھی نہ مرے گی ۔ کیا وہ اسی طرح دوسروں کی زندگی تباہ کرتی رہے گی“۔
شریف کے چہرے سے حسرت و بربادی ٹپکتی تھی۔ ایلی کے دل میں شریف کے لیے جذبہ ہمدردی ابھی آیا۔ اس نے ان جانے میں میں محسوس کیا کہ شریف مظلوم تھا۔ اس پر ظلم توڑے گئے تھے۔ نہ جانے لوگ دادی اماں کو ڈائن کیوں کہا کرتے تھے نہ جانے صفدر اس کے سینے میں پٹاخے کیوں پھینکا کرتا تھا اور محلے کے تمام لڑکے اس سے خائف کیوں تھے۔ یہ تو ایک حقیقت تھی کہ وہ بچوں کا شور سن کر کھڑکی میں آ بیٹھتی اور انہیں جھاڑ جھپاڑ کیا کرتی تھی ۔ لیکن صرف اس بات پر اسے ڈائن کہتا تو روا نہ تھا وہ اس کے کردار کے دوسرے پہلو سے کیوں واقف نہ تھے۔ انہیں اس کی بناوٹی تیوری کے نیچے دبی دبی مسکراہٹ کیوں نہ دکھائی دیتی تھی۔ ایلی کے لیے وہ بوڑھی ڈائن گھر کے پھیلے ہوئے صحرا میں واحد نخلستان تھی۔ محبت کا چھوٹا سا ڈھکا چھپا چشمہ جو شور مچا کر اپنے وجود کے اعلان کرنے کا عادی نہ تھا بلکہ چپ چاپ بے آواز بہے جاتا تھا۔
“نہیں ۔ نہیں وہ نہیں مرے گی۔“ شریف نے یاس بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ابھی اسے نہ جانے کن کن کے درمیان دیوار بننا ہے۔ “ شریف کی باتوں سے ظاہر تھا جیسے شریف کی زندگی تباہ کرنے میں دادی اماں کا ہاتھ ہو مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ شریف کی زندگی کس اعتبار سے برباد ہوچکی تھی اس نے صرف یہ محسوس کیا کہ شریف اس چینی کی پیالی کی مانند تھا ، جس میں بال آچکا ہو۔
پہلی ہی نشست میں ایلی شریف کا دوست بن گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ شریف کا راز دان ہے اگرچہ اسے شریف کے راز کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔
شریف سعیدہ کا دیور تھا اور جب کبھی علی پور آتا تو وہ سعیدہ کے یہاں ٹھہرتا کھیل و تفریح کی اس محفل میں جو اکثر سعیدہ کے یہاں لگتی تھی۔ شریف کی موجودگی عجیب سی لگتی جیسے طربیہ راگ میں بے برجت سر لگا ہو۔ ایک بات بہرطور واضح تھی کہ شریف عشق کا مارا ہوا تھا۔ ایلی کو عشق کے مفہوم سے پوری طور واقفیت نہ تھی۔
عشق بھی عجب چیز ہے ۔ ایلی سوچتا جو شریف کی آنکھوں سے حزن و ملال بن کر جھلکتا ہے ۔ صفدر کی آنکھوں سے رنگ کے چھینٹے بن کر اڑتا ہے اور ارجمند کی آنکھوں میں شرارت بن کر کوندتا ہے۔ آخر یہ چیز کیا ہے؟
پھر احاطے کی بند کھڑکی سے دادی اماں کی آواز گونجتی ۔ “اے ہے آج تم نے یہ کیا محفل لگا رکھی ہے۔ “ اور شریف سرد آہ بھر کر کہتا “ وہ گدھ بولی ۔ چلا رہی ہے۔ اسے زندگی بھری آوازیں اچھی نہیں لگتیں اسے ویرانہ پسند ہے۔ “ اس پر ہاجرہ خود کھڑکی کھول کر کہتی “ سعیدہ نے آج مولود شریف کروایا ہے۔ “ یہ سن کر دادی اماں بڑبڑاتی ہوئی چلی جاتی۔ پھر سب کے اصرار پر سعیدہ ٹوپی پہن لیتی اور گانے لگتی۔ مدینے میں مورے سیاں بالا ہے رے۔ نہ جانے اس نے یہ بول کہاں سے سن رکھے تھے ۔ ایلی کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر بغور سننے میں منہمک رہتا مگر بار بار اس کی توجہ شریف کی طرف منعطف ہوجاتی جو چارپائی پر بیٹھا حقہ تھامے بار بار آہیں بھرتا کروٹیں بدلتا اور محروم نگاہوں سے چھت کی طرف دیکھے جاتا۔
بکھری ہوئی کہانی
نئے گھر میں آنے سے ایلی کا دائرہ ملاقات وسیع ہوگیا تھا اس لحاظ سے وہ نیا گھر اس کے لیے باعث فرحت ثابت ہوا تھا۔ وہاں اسے بہت سے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے تھے۔ سعیدہ اور شریف سے تو وہ روزانہ ہی ملتا تھا۔ اسے شریف کے متعلق عجیب و غریب تفصیلات کا علم ہوتا جارہا تھا۔ اکھڑے اکھڑے واقعات بکھری بکھری تفصیلات ۔ محلے کی عورتیں بھی تو شریف کے متعلق دبی دبی آواز میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ اگرچہ شریف میں وہ خصوصی دلچسپی نہیں لیتی تھیں پھر بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکل ہی جاتی۔ سانپ تو گزر چکا تھا لیکن لکیر ابھی باقی تھی اور محلہ والوں کو سانپ کی نسبت لکیر سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب ایلی کسی کے منہ سے شریف کے متعلق کوئی بات سنتا تو اس کے کان کھڑے ہوجاتے اور وہ اس بات کو احتیاط سے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتا اور پھر جب وہ رات کے وقت بستر پر لیٹتا تو سنی ہوئی باتوں کے ٹکڑے جوڑنے میں مصروف ہوجاتا۔
سعیدہ آہ بھر کر بولی “شریف نے تو جان بوجھ کر اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ جوانی کو روگ لگا رکھا ہے۔ ایسا بھی کیا کہ کوئی اپنا آپ تباہ کرے۔ لو خالہ بھلا اس بڑھیا سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ ہماری تکلیف کا احساس کرے وہ تو بلکہ ہماری بربادی میں خوش ہے۔ اسے تو موقع ہاتھ آیا تھا اور اب کان پھڑوا کر میاں رانجھا بنا بیٹھا ہے۔ ہر وقت اپنی ہیر کے خیال میں غرق رہتا ہے اور کھیڑے ہیر کو کب سے لے بھی گئے بات ختم ہوچکی۔ لیکن اس نے اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ اسے کون سمجھائے۔ “
رابعہ بولی “ ویسے نام کا شریف ہے لیکن کرتوت تو دیکھو ۔ خواہ مخواہ اس بھولی بھالی لڑکی کو بھرما لیا۔ بیچاری معصوم کو کیا پتہ تھا کہ یہ چال صرف اسنے بدنام کرنے کے لیے چلی جا رہی ہے۔ بیچاری کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ توبہ ہے ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ وہ تو دادی اماں نے بچا لیا ورنہ جانے کیا ہوتا۔ “
چچی کہنے لگی ۔ “ بہن آہستہ بات کر۔ یہاں تو عشق لگا ہوا ہے۔ اس شریفے کو دیکھا ہے تم نے یہ تو پاگل ہو رہا ہے اس کے عشق میں۔ اس لڑکی نے پاگل کردیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو ہو کے۔ دیوانی ہورہی تھی وہ تو نہ کسی کی شرم نہ لحاظ اور اب اب یہ لڑکا کسی کا گھر بسائے گا کیا اونہوں توبہ ہے بہن دیکھ لو اپنی بیوی کو رلا رلا کے مار دیا۔ بیچاری کی خبر تک نہ پوچھی۔ اب اسے کون دے گا اپنی لڑکی ۔ اسے تو انوری کی دھن لگی ہے۔ سارا دن آہیں بھرتا رہتا ہے اور آنکھیں موند کر پڑا رہتا ہے اسے تو انوری کھا گئی اے ہے کیسا جوان نکلا تھا۔ پر اب تو دیکھا ہی ہے نہ تو نے۔ “
دادی اماں نے ایلی کو پاس بٹھا لیا “ اے ہے ایلی اب تو ادھر آتا ہی نہیں ایسا ہی جی لگ گیا ہے تیرا اس گھر میں۔ اللہ رکھے یہ تیرا اپنا گھر ہے۔ لوگ اپنے ہی گھر میں رہتے اچھے لگتے ہیں۔ ایلی تو ادھر نہ جایا کر۔ شریف کی بری صحبت میں نہ بیٹھا کر سنا تو نے۔ چھوڑ اس کلموہے کو۔ مرتا بھی نہیں ۔ وہ تو دشمن ہے ہمارا ۔ دشمن نے ہماری عزت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ “
شریف نے آہ بھر کر کہا “ لاہور جاؤگے ایلی ۔ “ اس نے چھت کی طرف دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری۔ “ اس شہر میں رہو گے تم جہاں وہ رہتی ہے۔ آہ اس کے قریب رہو گے۔ اس سے ملنے جایا کرو گے کتنے خوش نصیب ہو تم۔ انہوں نے اسے زبردستی ہمدانی سے بیاہ دیا۔ زبردستی اسے ڈولی میں ڈال دیا۔ روتی چیختی چلاتی ہوئی کو ڈولی میں ڈال دیا۔ ایلی ان ڈائنوں نے اسے جیتے جی مار دیا۔ لیکن پھر بھی وہ میری ہے اس کی منور روشنی میرے ہی مخصوص ہے ۔ کتنی وفا ہے اس میں ، کتنی پاکیزگی ہے۔ تم وہاں رہو گے جہاں وہ رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہو تم۔ “ اس نے لمبی آہ بھری اور آنکھیں موند لیں۔
محلے میں شریف کی داستان کے ٹکڑے جا بجا بکھرے تھے اور ایلی انہیں جوڑنے میں مصروف تھا۔ نہ جانے انوری کون تھی۔ جس سے شریف کو عشق تھا نہ جانے وہ حسینہ کون تھی۔
جس نے خاندان کے ننگ و ناموس کو تباہ کر دیا تھا۔ بہرحال اسے شریف سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ شریف اسے اپنا قصہ سنائے مگر شریف کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ بہرحال شریف کی آنکھوں کی چمک اور اس کا دکھی انداز اسے بے حد پیارے معلوم ہوتے تھے۔
ظاہر تھا کہ شریف اپنے گزشتہ ناکام عشق کی محرومی میں ابھی تک ڈوبا ہوا تھا اس نے شادی بھی کی تھی مگر اس کی بیوی شریف کے گھر کے ویرانے میں رہ کر تپ دق کا شکار ہو کر مر گئی تھی یہ کوائف تو ایلی کو معلوم تھے مگر ان کی جزئیات سے کیا ہوتا ہے اسے تو کل سے دلچسپی تھی۔
ہر وقت حقے کی نلی منہ میں دبائے شریف دیوار سے ٹیک لگائے چھت کو گھورتا رہتا اور ساتھ ساتھ موہوم آہیں بھرتا اس کی آنکھیں ایک عجیب و غریب خمار سے چھلکتیں اور اس کے منہ سے رال گرتی رہتی۔ “آؤ ایلی آؤ بیٹھ جاؤ۔ “ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر اسی محروم انداز سے کہتا اور پھر ایلی کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر اسی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے میں کھو جاتا۔ ایلی بیٹھے بیٹھے کسی نامعلوم جذبہ کی شدت سے بھیگ جاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے وہ کمرہ شریف کے خلوص سے بھرا ہوا ہو۔ جیسے کمرے کی دیواریں احساس احترام سے کھڑی ہو گئی ہوں۔ جیسے کھڑکیاں منہ کھولے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہوں۔
شریف کی آمد سے ایلی کو انکراینڈی ماباؤں سے خاص دلچسپی نہ رہی تھی وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ زندگی کی سب سے بڑی عظمت عشق ہے ۔ پاکیزہ عشق۔ محروم عشق اور چلتی لڑکیاں دیکھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ عشق کا مطلب کیا ہے۔ مرد عورت سے کیوں محبت کرتا ہے مگر نہ جانے کیسے اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عشق سے بڑھ کر اور کوئی چیز قابل حصول نہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کس سے عشق کرے۔ کیسے عشق کرے لیکن ان دنوں اس کی سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ وہ کسی سے عشق شروع کردے اور پھر ناکام ہو کر شریف کی سی جاذبیت پیدا کرلے اور دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کو گھورنے میں زندگی صرف کردے۔ اسے شریف کی زندگی کا یہ پہلو بے حد پیارا لگتا تھا لیکن اس سے ہٹ کر شریف کی باقی ماندہ شخصیت سے اسے گھن آتی تھی۔ مثلا شریف کا ڈھیلا ڈھالا پن۔ اس کی چال ڈھال اسے قطعی پسند نہ تھی اور اس کے منہ سے رال سی ٹپکتی دیکھ کر تو وہ کراہت سے منہ موڑ لیتا تھا۔ اس کے لیے شریف کی تین خصوصیات بے حد پیاری تھیں۔ شریف کی محبت بھری نگاہیں ، غمناک نگاہیں جن میں ایک مٹھاس اور محرومیت بھرا نشہ رواں دواں رہتا تھا۔ شریف کا بے پناہ خلوص اور شریف کی دوست نوازی۔
حاجی شریف کی رخصت ختم ہوگئی اور وہ واپس اپنی نوکری پر چلا گیا۔ شریف کے جانے کے بعد ایلی کئی ایک دن اکھڑا اکھڑا رہا۔ ارجمند کے اصرار کے باوجود کیپ اور کپ کی طرف متوجہ نہ ہوا نہ ہی اس نے انکر اینڈی ماباؤں کے کھیل میں حصہ لیا۔ اسے صرف ایک دھن لگی تھی کہ وہ
علی احمد نے تو کبھی دادی اماں سے بات نہ کی تھی۔ ماں بیٹے اس مکان میں اجنبیوں کی طرح زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ دادی اماں سارا دن سیدہ کے قریب اکڑوں بیٹھی رہا کرتی تھی اور علی احمد اندر بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے اور رجسٹروں میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ دونروں کی آپس میں کبھی بات نہ ہوتی تھی۔ ایلی اکثر حیران ہوا کرتا کہ یہ کیسے ماں بیٹے ہیں ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے۔ اگر کوئی دادی اماں سے علی احمد کی شکایت کرتا تو وہ اطمینان سے جواب دیتیں۔ “ علی احمد کی تو عادت ہی ایسی ہے۔ “ اور مسکرا دیتیں جیسے اظہار ناراضگی کے باوجود انہیں علی احمد کی وہ بات پسند ہو اور علی احمد کبھی دادی اماں کو بلاتے بھی تو پوچھتے ۔ “ بھئی وہ فلاں کام کرنا ہے کیا کیا رسمیں ادا کرنی ہوں گی۔ “ اس کے سوا انہوں نے کبھی دادی اماں کو نہ بلایا تھا۔
اندر دادی اماں کپڑوں اور زیور کی بات کر رہی تھی نہ جانے کس کے کپڑوں اور زیور کی بات ہورہی تھی لیکن اماں ان کی بات سن سن کر رو کیوں رہی تھی۔ کپڑے اور زیور کی بات پر رونے کا کیا مطلب ۔۔ پھر اتفاق سے سعیدہ آ گئی اور اماں پھوٹ پڑیں۔
“ لو لڑکی کی قسمت ہی پھوٹ گئی میں تو جانتی ہی تھی وہ اپنے رشتہ داروں کے گھر میری بچی پھینک دے گا۔ سو وہی ہوا میری بچی فیروز کے بیٹے اجمل کے پلے باندھ رہے ہیں۔ ہائے میری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ “
اجمل ایلی کی پھوپھی کا لڑکا تھا وہی اجمل جو روہتک میں چند ایک ماہ کے لیے ان کے ہاں ٹھہرا تھا جسے علی احمد نے بال بنانے اور بن ٹھن کر رہنے پر مار کر نکال دیا تھا۔ ایلی کو جبھی سے اجمل سے ہمدردی تھی۔ اس کی شکل و صورت بھی ایلی کو بہت بھاتی تھی اور پھر اس کا لڑکوں سے میل جول اور باہمی ربط بھی ایلی کو بے حد پسند تھا اور اب تو وہ بہت بڑا ہو چکا تھا اور وہ ایک سال ایران میں نوکری کرنے کے بعد لوٹا تھا۔ نہ جانے اماں کو اجمل کیوں ناپسند تھا نہ جانے اماں کیوں روتی تھیں۔ آخر اجمل میں کیا برائی تھی ۔ اماں کا مسلسل روئے جانا ایلی کے لیے باعث حیرانی تھا! اماں بھی تو عجیب باتیں کیا کرتی تھیں۔ ایک طرف تو اس بات پر اس قدر ناخوش تھی اور دوسری طرف انتظامات میں مشغول تھی۔ جیسے بہت دلچسپی لے رہو ہو ، فرحت کے کپڑے سیتی دولہا کی چیزیں بھی تیار کرتی جاتی۔ علی احمد کے احکامات بھی دوڑ دوڑ کر سنتی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی چھلکائے جاتی۔ عجب عادت تھی اماں کی پھر ہر آتی جاتی سے شکایت بھی کرتی جاتی کہ فرحت کا بیاہ زبردستی کیا جارہا ہے۔
ادھر فرحت کو بھی احساس نہ تھا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ فرحت کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اس نے آٹھویں جماعت مدرسے میں تعلیم پائی تھی علی احمد نے دفعتا اعلان کر دیا تھا کہ اسے سکول جانے کی اجازت نہیں بچیوں کے لے اتنے ھی تعلیم کافی ہے۔اس پر فرحت پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی اور حاجرہ اس کے ساتھ مل کر آنسو بہاے تھے۔
مگر علی احمد کا حکم اٹل تھا ان دونوں کے آنسو کام نہ آئے اور فرحت کی تعلیم کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔آٹ سال سکول مے پڑھنے کے باوجود پرحت ابھی بچی حی تو تھی وہ اکثر محلے کے چوگان مٰٰٰی جا کر ککلی کلیر دی ناچتی رحتی۔ساتھ ساتھ کچھ گنگناتی اور محلے کے بزرگ اس کی ترف دیکھ کر مسکراتے۔“فرحتو گھومنی۔“اور بوڑھیاں مسکرا کر کہتیں فرحت تو فرحتو ہی رہی۔“ ایلی نے کبھی محسوس نا کیا تھا کے فارحت بڑی ہو گئی ہے اسے بھی وہ فرحتو ہی دکھائی تھی۔اس میں عورت کا نام و نشان تک نہ تھا۔
پھر وہ دن آپہنچا جب ان کے گھر کے سامنے باجے بجنے لگے اور گھر میں مہمان آ جمع ھوے اور حاجرہ کام کاج میں اس قدر مصروف ھو گی کے آنسو بہانا بھی بھول گی اور مہلے کے لڑکوں میں بہانے بہانے ان کے گھر آنا شروع کر دیا اور برتن بجنے لگے۔حنای ہاتھ ریشمی دوپاٹوں میں سے باہر نکلنے چھپنے لگے اور گھر میں ایک ہنگاما برپا ہو گیا اور بلا آّّّّّٰٰخر فرھت کو ڈولی میں بٹھا دیا گیا اور ایلی اور حاجرہ دولی کے ساتھ ایک نے گھر میں چلے گے۔ے نیا گھر اجمل کا گھر تھا۔چونکے اجمل کی ماں مدت سے فوت ہو چکی تھی۔اور بہنیں سب اپنے اپنے گھر اور بچوں والی تھیں یس لیے فرحت کی خدمت کرنے کے لیے کود ہاجرہ کو اجمل کے ہاں جانا پڑا۔
اجمل کا گھر ایلی کے گھر کے پاس ہی تھا- چوگان کے شمال کی طرف ایک چھتی گلی جسے گلیارہ کہتے تھے سے گزر کر ایک اندھیری ڈیوڑھی کو پار کر کے اس گھر کی سیڑھیاں آتی تھیں لیکن اس اندھیری ڈیوڑھی کو پار کرنا آسان نہ تھا- کیوں کہ دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں بھی اس ڈیوڑھی میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا رہتا تھا- اس گھر کے ایک طرف ایلی کے ماموں حشمت علی رہتے تھے اور دوسری طرف اس کی خالہ کا کنبہ آباد تھا- یہ تینوں گھر دراصل ایک ہی بڑی حویلی کے حصے تھے جسے کسی زمانے میں آصفی بزرگوں نے تعمیر کیا تھا- اگر چوراہے سے دیکھا جائے تو یہ نیا گھر علی احمد کے مکان سے ملحق تھا- درمیان میں صرف ایک چھت پڑتی تھی- اس لیے ایلی عام طور پر ملحقہ کوٹھے سے گزر کر دیوار پھاند کر نئے گھر چلا جایا کرتا تھا تاکہ اس اندھیری ڈیوڑھی سے نہ گزرنا پڑے -
اجمل کے والد کسی زمانے میں انکم ٹیکس کے دفتر میں افسر تھے اب بھی ان کے بشرے اور انداز سے تحکمانہ جاہ و جلال کے آٰٰٰٰٰثار ہویدا تھے ان کے چہرے پے حکومت اور صحت کی سرخی جھلکتی تھی-اگرچہ انہیں عہدہ چھوڑے کئی سال گزر چکے تھے- کہا جاتا تھا کہ انہیں ایک طوائف جانکی سے محبت تھی- جس کے عشق میں انہوں نے سبھی کچھ کھو دیا تھا اور نوکری سے فارغ ہو کر جانکی کے یہاں جا مقیم ہوئے تھے- اجمل کی والدہ بھی عرصہ دراز سے لقمہ اجل ہو چکی تھیں- اجمل کی تین بہنیں بقید حیات تھیں۔ سیدہ ، رابعہ اور انور ، سیدہ نہ جانے کس سے بیاہی ہوئی تھی مگر دادی کے پاس رہتی تھی۔ رابعہ ایلی کے خالہ زاد بھائی پرویز کی بیوی تھی اور انور کی شادی ہمدانی سے ہو چکی تھی جو کسی دور دراز مقام پر کسی مدرسے میں اتالیق تھے۔ ان حالات میں اجمل کا گھر ویران پڑا تھا۔ اس کے بیاہ پر اس کے والد آئے۔ بہنیں بھی اکھٹی ہوئیں لیکن جلد ہی وہ سب اپنے اپنے گھر لوٹ گئے اور اجمل کے گھر میں صرف فرحت ہاجرہ اور ایلی رہ گے تھے۔اس لے الی نے محسوس نا کیا کے وہ گھر بیگانہ ہے۔اکثر وہ والد کے ساتھ وہیں رہتا۔ رابعہ سے باتیں کرتا یا پڑوس میں رفیق کے گھر چلا جاتا یا دوسری طرف پرویز کے والد محسن علی کے پاس جا بیٹھتا۔ “آو ایلی آو۔“ محسن اسے دیکھ کر چلاے ۔“کہو علی احمد کیسے ہئں۔کوئی نئی شادی کرنے کی تو نہیں سوچ رہے۔“ اور وہ ھنسنے لگتے۔
ایلی کو محسن علی بے حد پسند تھے ان کی باتوں سے سچائی اور خلوص ٹپکتا تھا۔بزرگ ہونے کے باوجود ان میں تصنع نام کو نہ تھا۔ محسن علی کے مکان سے ملحق دالان میں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات شریف سے ہوئی تھی۔
شریف
شریف ایک پتلا دبلا کمزور اور اداس شخص تھا۔ وہ چپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کر حقہ پینے کا عادی تھا۔ دیوار سے سر لگائے کمبل اوڑھے وہ حقہ پینے میں مصروف رہتا۔ اس کی آنکھیں نہ جانے کہاں لگی رہتی تھیں جیسے کہیں لگی ہوں اور وہ خلا کو حسرت بھری نگاہوں سے گھورتا رہتا۔ کچھ دیر کے بعد ایک موہوم سی آہ بھر کر ایک نگاہ غلط انداز سے گرد و پیش کی طرف دیکھتا اور پھر اپنی دنیائے خیال میں لوٹ جاتا۔ اس کا سر دیوار پر ٹک جاتا اور نگاہیں اسی طرح خلا کو گھورنے لگتیں۔
“آؤ ایلی۔ “ شریف نے اسے سرسری طور پر بلایا۔ “بیٹھ جاؤ۔“ ایک نظر اس نے ایلی کی طرف دیکھا اس کی نگاہ میں عجیب سی چمک تھی جو آن کی آن میں لہرا کر غائب ہو جاتی تھی۔ اس ایک ہی چمک میں سب کچھ تھا۔ خلوص ، محبت ، سادگی ۔ ناکامی ، وہ چمک کبھی کبھی عیاں ہوتی تھی جیسے ابر آلود رات کو کبھی کبھار چاند ایک ساعت کے لیے مسکرا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ وہ ایک چمک نہ جانے ایلی سے کیا کہہ گئی ۔ جیسے ہمیشہ کے لیے محبت کا پیمان کر گئی ۔ ایلی بیٹھ گیا۔ شریف بیگانہ ہونے کے باجود بیگانہ محسوس نہ ہوتا تھا۔ ایسے محسوس ہورہا تھا اسے جیسے وہ شریف سے مدتوں سے واقف ہو۔ جیسے وہ دونوں پرانے دوست ہوں۔
“ایلی۔“ شریف نے آہ بھری “کیا وہ ڈائن ابھی تک جیتی ہے بتا۔“ اس کے ہونٹوں پر زہر خند تھا۔
“ ڈائن “ ایلی نے حیرانی سے دہرایا “ہاں وہ بڑھیا۔ تمہاری دادی۔ “ شریف نے کہا۔ ایلی کو یہ بات سخت ناگوار گزری۔
“کیا وہ ڈائن کبھی نہ مرے گی ۔ کیا وہ اسی طرح دوسروں کی زندگی تباہ کرتی رہے گی“۔
شریف کے چہرے سے حسرت و بربادی ٹپکتی تھی۔ ایلی کے دل میں شریف کے لیے جذبہ ہمدردی ابھی آیا۔ اس نے ان جانے میں میں محسوس کیا کہ شریف مظلوم تھا۔ اس پر ظلم توڑے گئے تھے۔ نہ جانے لوگ دادی اماں کو ڈائن کیوں کہا کرتے تھے نہ جانے صفدر اس کے سینے میں پٹاخے کیوں پھینکا کرتا تھا اور محلے کے تمام لڑکے اس سے خائف کیوں تھے۔ یہ تو ایک حقیقت تھی کہ وہ بچوں کا شور سن کر کھڑکی میں آ بیٹھتی اور انہیں جھاڑ جھپاڑ کیا کرتی تھی ۔ لیکن صرف اس بات پر اسے ڈائن کہتا تو روا نہ تھا وہ اس کے کردار کے دوسرے پہلو سے کیوں واقف نہ تھے۔ انہیں اس کی بناوٹی تیوری کے نیچے دبی دبی مسکراہٹ کیوں نہ دکھائی دیتی تھی۔ ایلی کے لیے وہ بوڑھی ڈائن گھر کے پھیلے ہوئے صحرا میں واحد نخلستان تھی۔ محبت کا چھوٹا سا ڈھکا چھپا چشمہ جو شور مچا کر اپنے وجود کے اعلان کرنے کا عادی نہ تھا بلکہ چپ چاپ بے آواز بہے جاتا تھا۔
“نہیں ۔ نہیں وہ نہیں مرے گی۔“ شریف نے یاس بھری نگاہ ایلی پر ڈالی۔ “ ابھی اسے نہ جانے کن کن کے درمیان دیوار بننا ہے۔ “ شریف کی باتوں سے ظاہر تھا جیسے شریف کی زندگی تباہ کرنے میں دادی اماں کا ہاتھ ہو مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ شریف کی زندگی کس اعتبار سے برباد ہوچکی تھی اس نے صرف یہ محسوس کیا کہ شریف اس چینی کی پیالی کی مانند تھا ، جس میں بال آچکا ہو۔
پہلی ہی نشست میں ایلی شریف کا دوست بن گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ شریف کا راز دان ہے اگرچہ اسے شریف کے راز کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔
شریف سعیدہ کا دیور تھا اور جب کبھی علی پور آتا تو وہ سعیدہ کے یہاں ٹھہرتا کھیل و تفریح کی اس محفل میں جو اکثر سعیدہ کے یہاں لگتی تھی۔ شریف کی موجودگی عجیب سی لگتی جیسے طربیہ راگ میں بے برجت سر لگا ہو۔ ایک بات بہرطور واضح تھی کہ شریف عشق کا مارا ہوا تھا۔ ایلی کو عشق کے مفہوم سے پوری طور واقفیت نہ تھی۔
عشق بھی عجب چیز ہے ۔ ایلی سوچتا جو شریف کی آنکھوں سے حزن و ملال بن کر جھلکتا ہے ۔ صفدر کی آنکھوں سے رنگ کے چھینٹے بن کر اڑتا ہے اور ارجمند کی آنکھوں میں شرارت بن کر کوندتا ہے۔ آخر یہ چیز کیا ہے؟
پھر احاطے کی بند کھڑکی سے دادی اماں کی آواز گونجتی ۔ “اے ہے آج تم نے یہ کیا محفل لگا رکھی ہے۔ “ اور شریف سرد آہ بھر کر کہتا “ وہ گدھ بولی ۔ چلا رہی ہے۔ اسے زندگی بھری آوازیں اچھی نہیں لگتیں اسے ویرانہ پسند ہے۔ “ اس پر ہاجرہ خود کھڑکی کھول کر کہتی “ سعیدہ نے آج مولود شریف کروایا ہے۔ “ یہ سن کر دادی اماں بڑبڑاتی ہوئی چلی جاتی۔ پھر سب کے اصرار پر سعیدہ ٹوپی پہن لیتی اور گانے لگتی۔ مدینے میں مورے سیاں بالا ہے رے۔ نہ جانے اس نے یہ بول کہاں سے سن رکھے تھے ۔ ایلی کو اس کا گانا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر بغور سننے میں منہمک رہتا مگر بار بار اس کی توجہ شریف کی طرف منعطف ہوجاتی جو چارپائی پر بیٹھا حقہ تھامے بار بار آہیں بھرتا کروٹیں بدلتا اور محروم نگاہوں سے چھت کی طرف دیکھے جاتا۔
بکھری ہوئی کہانی
نئے گھر میں آنے سے ایلی کا دائرہ ملاقات وسیع ہوگیا تھا اس لحاظ سے وہ نیا گھر اس کے لیے باعث فرحت ثابت ہوا تھا۔ وہاں اسے بہت سے لوگوں سے ملنے کے مواقع میسر آتے رہتے تھے۔ سعیدہ اور شریف سے تو وہ روزانہ ہی ملتا تھا۔ اسے شریف کے متعلق عجیب و غریب تفصیلات کا علم ہوتا جارہا تھا۔ اکھڑے اکھڑے واقعات بکھری بکھری تفصیلات ۔ محلے کی عورتیں بھی تو شریف کے متعلق دبی دبی آواز میں باتیں کیا کرتی تھیں۔ اگرچہ شریف میں وہ خصوصی دلچسپی نہیں لیتی تھیں پھر بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکل ہی جاتی۔ سانپ تو گزر چکا تھا لیکن لکیر ابھی باقی تھی اور محلہ والوں کو سانپ کی نسبت لکیر سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جب ایلی کسی کے منہ سے شریف کے متعلق کوئی بات سنتا تو اس کے کان کھڑے ہوجاتے اور وہ اس بات کو احتیاط سے اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا کرتا اور پھر جب وہ رات کے وقت بستر پر لیٹتا تو سنی ہوئی باتوں کے ٹکڑے جوڑنے میں مصروف ہوجاتا۔
سعیدہ آہ بھر کر بولی “شریف نے تو جان بوجھ کر اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ جوانی کو روگ لگا رکھا ہے۔ ایسا بھی کیا کہ کوئی اپنا آپ تباہ کرے۔ لو خالہ بھلا اس بڑھیا سے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ ہماری تکلیف کا احساس کرے وہ تو بلکہ ہماری بربادی میں خوش ہے۔ اسے تو موقع ہاتھ آیا تھا اور اب کان پھڑوا کر میاں رانجھا بنا بیٹھا ہے۔ ہر وقت اپنی ہیر کے خیال میں غرق رہتا ہے اور کھیڑے ہیر کو کب سے لے بھی گئے بات ختم ہوچکی۔ لیکن اس نے اپنی زندگی تباہ کر رکھی ہے۔ اسے کون سمجھائے۔ “
رابعہ بولی “ ویسے نام کا شریف ہے لیکن کرتوت تو دیکھو ۔ خواہ مخواہ اس بھولی بھالی لڑکی کو بھرما لیا۔ بیچاری معصوم کو کیا پتہ تھا کہ یہ چال صرف اسنے بدنام کرنے کے لیے چلی جا رہی ہے۔ بیچاری کو کیا پتہ تھا کہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کے لیے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ توبہ ہے ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ وہ تو دادی اماں نے بچا لیا ورنہ جانے کیا ہوتا۔ “
چچی کہنے لگی ۔ “ بہن آہستہ بات کر۔ یہاں تو عشق لگا ہوا ہے۔ اس شریفے کو دیکھا ہے تم نے یہ تو پاگل ہو رہا ہے اس کے عشق میں۔ اس لڑکی نے پاگل کردیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو ہو کے۔ دیوانی ہورہی تھی وہ تو نہ کسی کی شرم نہ لحاظ اور اب اب یہ لڑکا کسی کا گھر بسائے گا کیا اونہوں توبہ ہے بہن دیکھ لو اپنی بیوی کو رلا رلا کے مار دیا۔ بیچاری کی خبر تک نہ پوچھی۔ اب اسے کون دے گا اپنی لڑکی ۔ اسے تو انوری کی دھن لگی ہے۔ سارا دن آہیں بھرتا رہتا ہے اور آنکھیں موند کر پڑا رہتا ہے اسے تو انوری کھا گئی اے ہے کیسا جوان نکلا تھا۔ پر اب تو دیکھا ہی ہے نہ تو نے۔ “
دادی اماں نے ایلی کو پاس بٹھا لیا “ اے ہے ایلی اب تو ادھر آتا ہی نہیں ایسا ہی جی لگ گیا ہے تیرا اس گھر میں۔ اللہ رکھے یہ تیرا اپنا گھر ہے۔ لوگ اپنے ہی گھر میں رہتے اچھے لگتے ہیں۔ ایلی تو ادھر نہ جایا کر۔ شریف کی بری صحبت میں نہ بیٹھا کر سنا تو نے۔ چھوڑ اس کلموہے کو۔ مرتا بھی نہیں ۔ وہ تو دشمن ہے ہمارا ۔ دشمن نے ہماری عزت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ “
شریف نے آہ بھر کر کہا “ لاہور جاؤگے ایلی ۔ “ اس نے چھت کی طرف دیکھ کر ایک لمبی آہ بھری۔ “ اس شہر میں رہو گے تم جہاں وہ رہتی ہے۔ آہ اس کے قریب رہو گے۔ اس سے ملنے جایا کرو گے کتنے خوش نصیب ہو تم۔ انہوں نے اسے زبردستی ہمدانی سے بیاہ دیا۔ زبردستی اسے ڈولی میں ڈال دیا۔ روتی چیختی چلاتی ہوئی کو ڈولی میں ڈال دیا۔ ایلی ان ڈائنوں نے اسے جیتے جی مار دیا۔ لیکن پھر بھی وہ میری ہے اس کی منور روشنی میرے ہی مخصوص ہے ۔ کتنی وفا ہے اس میں ، کتنی پاکیزگی ہے۔ تم وہاں رہو گے جہاں وہ رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہو تم۔ “ اس نے لمبی آہ بھری اور آنکھیں موند لیں۔
محلے میں شریف کی داستان کے ٹکڑے جا بجا بکھرے تھے اور ایلی انہیں جوڑنے میں مصروف تھا۔ نہ جانے انوری کون تھی۔ جس سے شریف کو عشق تھا نہ جانے وہ حسینہ کون تھی۔
جس نے خاندان کے ننگ و ناموس کو تباہ کر دیا تھا۔ بہرحال اسے شریف سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ شریف اسے اپنا قصہ سنائے مگر شریف کے سامنے اس خواہش کا اظہار کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ بہرحال شریف کی آنکھوں کی چمک اور اس کا دکھی انداز اسے بے حد پیارے معلوم ہوتے تھے۔
ظاہر تھا کہ شریف اپنے گزشتہ ناکام عشق کی محرومی میں ابھی تک ڈوبا ہوا تھا اس نے شادی بھی کی تھی مگر اس کی بیوی شریف کے گھر کے ویرانے میں رہ کر تپ دق کا شکار ہو کر مر گئی تھی یہ کوائف تو ایلی کو معلوم تھے مگر ان کی جزئیات سے کیا ہوتا ہے اسے تو کل سے دلچسپی تھی۔
ہر وقت حقے کی نلی منہ میں دبائے شریف دیوار سے ٹیک لگائے چھت کو گھورتا رہتا اور ساتھ ساتھ موہوم آہیں بھرتا اس کی آنکھیں ایک عجیب و غریب خمار سے چھلکتیں اور اس کے منہ سے رال گرتی رہتی۔ “آؤ ایلی آؤ بیٹھ جاؤ۔ “ وہ ایلی کی طرف دیکھ کر اسی محروم انداز سے کہتا اور پھر ایلی کی موجودگی سے بے نیاز ہو کر اسی طرح دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے میں کھو جاتا۔ ایلی بیٹھے بیٹھے کسی نامعلوم جذبہ کی شدت سے بھیگ جاتا۔ وہ محسوس کرتا جیسے وہ کمرہ شریف کے خلوص سے بھرا ہوا ہو۔ جیسے کمرے کی دیواریں احساس احترام سے کھڑی ہو گئی ہوں۔ جیسے کھڑکیاں منہ کھولے حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہوں۔
شریف کی آمد سے ایلی کو انکراینڈی ماباؤں سے خاص دلچسپی نہ رہی تھی وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ زندگی کی سب سے بڑی عظمت عشق ہے ۔ پاکیزہ عشق۔ محروم عشق اور چلتی لڑکیاں دیکھنا تو بچوں کا کھیل ہے۔ اگرچہ اسے معلوم نہ تھا کہ عشق کا مطلب کیا ہے۔ مرد عورت سے کیوں محبت کرتا ہے مگر نہ جانے کیسے اب وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ عشق سے بڑھ کر اور کوئی چیز قابل حصول نہیں۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کس سے عشق کرے۔ کیسے عشق کرے لیکن ان دنوں اس کی سب سے بڑی تمنا یہی تھی کہ وہ کسی سے عشق شروع کردے اور پھر ناکام ہو کر شریف کی سی جاذبیت پیدا کرلے اور دیوار سے ٹیک لگا کر چھت کو گھورنے میں زندگی صرف کردے۔ اسے شریف کی زندگی کا یہ پہلو بے حد پیارا لگتا تھا لیکن اس سے ہٹ کر شریف کی باقی ماندہ شخصیت سے اسے گھن آتی تھی۔ مثلا شریف کا ڈھیلا ڈھالا پن۔ اس کی چال ڈھال اسے قطعی پسند نہ تھی اور اس کے منہ سے رال سی ٹپکتی دیکھ کر تو وہ کراہت سے منہ موڑ لیتا تھا۔ اس کے لیے شریف کی تین خصوصیات بے حد پیاری تھیں۔ شریف کی محبت بھری نگاہیں ، غمناک نگاہیں جن میں ایک مٹھاس اور محرومیت بھرا نشہ رواں دواں رہتا تھا۔ شریف کا بے پناہ خلوص اور شریف کی دوست نوازی۔
حاجی شریف کی رخصت ختم ہوگئی اور وہ واپس اپنی نوکری پر چلا گیا۔ شریف کے جانے کے بعد ایلی کئی ایک دن اکھڑا اکھڑا رہا۔ ارجمند کے اصرار کے باوجود کیپ اور کپ کی طرف متوجہ نہ ہوا نہ ہی اس نے انکر اینڈی ماباؤں کے کھیل میں حصہ لیا۔ اسے صرف ایک دھن لگی تھی کہ وہ