علی پور کا ایلی (1239 - 1247)

عمر دراز

محفلین
(صفحہ نمبر 1239)
ہے۔ شہزاد بھی جب دیکھو “چھن سے۔“ اس کی طرف آجاتی ہے۔ اس مبہم مگر دلچسپ محبت میں جنس داخل ہوئےبغیر نہیں رہتا اور ایک دفعہ جب شہزاد سامان کی الگ کوٹھری میں ہے تو ایلی اس پر حملہ کر دیتا ہے مگر ناکامیاب رہتا ہے۔ اس سے ان دونوں‌کے تعلقات میں فرق نہیں آتا اور آگے چل کر ایک دن طے ہو جاتا ہے کہ ایلی شہزاد کوبھگالے جائےگا۔ وہ اس کام کے قانونی پہلو پر ایک مشہور وکیل سے رائے لیتا ہے۔ اور وکیل یہ سن کر کے محبوبہ چھ بچوں کی ماں ہے۔ ایلی کوکسی دماغ کے ڈاکٹر سے رائے لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس عشق میں دماغی خلل کو بہت کچھ دخل ہے۔ شہزاد ایلی کے ذہن میں بس جاتی ہے اور ہر وقت اس کے تصور میں “چھن سے۔“ آجاتی ہے۔ وہ لاھور میں تعلیم کی غرض سے آکر رہتا ہے اور قریب کے گھر میں رہنے والی ایک اونچے خاندان کی لڑکی سے اس کی پینگ کافی بڑھتے ہیں۔ اس لڑکی کو سائیکل پر لئے ہو ئےوہ لاہور کے مختلف مقامات پر جاتا ہے۔ دونوں بہت قریب آجاتے ہیں اور یہ بھی امکان نظر آتا ہے کہ دونوں کی شادی ہو جائےمگر اس عشقیہ معاملے کے دوران بھی شہزاد اس کے تصور میں آتی رہتی ہے۔ ایلی کی ماں اس کی ایک جگہ منگنی کی رسم بھی پوری کر دیتی ہے۔ مگر اس سے بھی ایلی کی شہزاد کی طرف توجہ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ علی احمد جس کا خاص مشغلہ عورتوں سے لگاوءکرتے رہنا ہے ایلی کو رنڈیوں سے بھی متعارف ہونے کا موقعہ دیتا ہے۔ اور ایلی کو ایک رنڈی پھانس لینے کی بھی ناکام کوشش کرتی ہے۔ ایلی خود بھی ایک دن ایک گندے رنڈی خانہ کی گندگی میں کود ہی پڑتا ہے۔ مگر آخر میں ایسا کچھ ہوتا ہے کہ ایلی اپنی تعلیم ختم کر کے اسکول کی ملازمت پر آتا ہے اور شہزاد سے اس کی شادی ہو ہی جاتی ہے۔ دونوں کی زندگی بڑی خوشگوار نظر آتی ہے مگر آگے چل کر شہزاد کو اپنی پہلے شوہر کی لڑکی کی غلط شادی کی بنا پر ایلی کی توجہ اپنے شہزاد سے لڑکے عالی کی طرف رہتی ہے۔ وہ بمبئی میں صحافی کی حیثیت ملازم ہوتا ہے اور جب تقسیم ہند کے سلسلے میں لاہور میں فسادات ہوتے ہیں تو “عالی عالی۔“ کرتا ہوا لاہور بھاگ آتا ہے۔
یہ خاص پلاٹ بہت ہی زیادہ مختصر خلاصہ ہے اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے پلاٹ معاون کی طرح شامل ہوتے رہتے ہیں۔ علی احمد کے ٹیں‌ کا سپاہی بن کر متعدد معاشقے کرنے کا طویل قصہ ہے۔ ایلی کے تعلیم اور اس کے بعد ملازمت حاصل کرنے کا بھی ایک الگ پلاٹ ہے۔ اس کے مختلف عزیزوں کے بھی قصے ضمنا ساتھ ہوجاتے ہیں۔ ہر پلاٹ مناسب تفصیل
(صفحہ نمبر 1240)
کے ساتھ سامنے آتا رہتا ہے۔ ہر سلسلے میں درامائی سین بڑی مناسب اور موزوں مکالموں‌کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت میں اضافہ رہتا ہے مگر کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی جملہ کیا لفظ بھی بلا ضروری اور اسے ناول سے خارج کر کے ناول کو بہتر فارم دہا جا سکتا ہے۔ بنیادی طور پر ناول کرداری قسم کی ہے یعنی اس کا مقصد اہل فرد کو مختلف واقعات سے گزرتے ہوئے دکھانا ہے مگر اس میں ڈرامائی ناول یعنی ایسی ناول کے جو مختلف لوگوں کے درمیان کشمکش دکھائے اور وقت کے ساتھ اس کشمکش کے درجہ طے ہوں۔ عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ کہتے ہی بنتا ہے کہ یہ ناول زور کے ساتھ ڈرامائی بھی ہے۔ مقامات بھی بدلتے ہیں مگر یہ محسوس ہوتا ہے کہ علی پور اور اس کا آصفی محلہ اور اس میں بھی ایلی کا خاندانی محل ایک سٹیج ہے اور اسی پر سارا قصہ دکھایا جارہا ہے۔ امرتسر‘ لاہور اور دوسرے مقامات پر کچھ ضمنی سین ضرور دکھائے گئےہیں مگر یہ مرکزی اسٹیج سے اس قدر متعلق ہیں کہ اتحاد تاثر میں کسی طرح فرق نہیں آتا۔ آخر میں قاری کے تصور میں جو دنیا رہ جاتی ہے اس میں علی پور اس کے خاص قسم کے مکانات۔ آصفی محلہ اور اس کے خاص محل کے رہنے والے بڑے دلکش طریقہ پر زندہ نظرآتے رہتے ہیں۔ اتحاد کے ساتھ تو تنوع کو ہم آہنگ کرنے کی بڑی اچھی مثال قائم ہوتی ہے۔ مفتی صاحب فنکاری سے زیادہ زندگی کی طرف متوجہ ضرور ہیں اور اس کی اہمیت دیتے ہیں اور ناول کو ایک ڈھیر کہہ دینے میں کوئی سبکی محسوس نہیں ‌کرتے مگر ان کی ناول شاید لاشعوری اور قدرتی طور پر مواد کو اس طرح سمیٹتی اور ایک مستقل شکل یاہیت میں تبدیل کرتی جاتی ہے کہ ان کی غیر معمولی فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ ضخامت ڈرا دینے والی چیز ضرور ہے۔ اور بیشتر ضخیم ناولوں کا مواد ناول نگاری کی گرفت سے نکل ہی جایا کرتا ہے اس لئےسطحی نظر رکھنے والے لوگ ضخامت اور بے ترتیبی کو ہم معنے سمجھتے ہیں۔ :علی پور کا ایلی۔“ ایسے کلیوں‌کی صاف رو ہے۔ اتنے وسیع مواد کو ترتیب میں لے آنا۔ ایک مستقل فارم کا تاثر دینا اور دلچسپی کو قائم رکھنا ہی وہ کمال ہے جو مفتی صاحب کو ناول نگاروں‌کی صف اول میں کھڑا کردیتا ہے۔ طفیل صاحب نے ضخامت میں لطف پیدا کرنے کا خیال کرتے ہوئے “علی پور کا ایلی۔“ کا سرشار کے فسانہ آزاد سے مقابلہ کیا ہے۔ “علی پور کا ایلی“ فسانہ آزاد کا سا جنگل کا جنگل ضرور سامنے لاتا ہے مگر اس جنگل کی ایک بڑی اہم اور فنکارانہ ترتیب بھی ہے جو فسانہ آزاد ایسی بے تکان چیزوں کو بہت پیچھے چھوڑ آتی اور اردو ناول کو ایک کڑبڑ جھالے سے ایک دلکش تعمیر میں ارتقا کر
(صفحہ 1241)
کے پہنچ جاتی ہوئی دکھاتی ہے۔ فسانہ آزاد کو اگر اس سے مقابلہ میں لایا جاسکتا ہے۔ تو تضاد کے لئے یعنی یہ واضح کرنے کے لئے کہ محض ناول نما فسانہ اور صحیح معنوں‌میں ناول کے درمیان کیا فرق ہے “علی پور کا ایلی۔“ کے بعد شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ناول اپنے پورے رنگ و روپ کے ساتھ اردو ادب میں کھب گئی۔ مفتی صاحب اس کے لیے داستان سرگزشت‘ ڈھیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کریں۔ یعنی نقاد کی حیثیت سے اس کی بابت ناول کا لفظ استعمال کرنے سے پہچانیں مگر ان کے اندر جو فن کار ہے وہ تنقیدی شکوک سے بالا تر ہے۔ اور اس کی موج خرام نے گل کترے ہیں اور ایک بالکل نیا انفرادی اور دلکش چمن ایجاد کردیاہے۔
(3)
مفتی صاحب کی تخلیقی قوت کا سکہ ان کے افسانوں ہی سے جم چکاتھا مگر “علی پور کا ایلی۔“ اس کے بڑے پیمانہ پر عمل اور کامیاب عمل کی مثال سامنے لاتا ہے۔ تخلیق قصہ گوئی کے ذریعہ بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔ مگر اس کا خاص میدان باوجود کچھ جدید ناول نگاروں کے سخت اختلاف کے کرداری نگاری ہی رہا۔ “علی پور کا ایلی۔“ میں ہر جگہ کردار امنڈتے نظر آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنی منفرد زندگی کا واضح اور دلکش نقش ضرورچھوڑ جاتا ہے مگر ناول نگار کی عظیم تخلیقی قوت کا بیان بظاہر تین لافانی کردار کے ذریعہ خاص طور پر ہوتا ہے اور کردار پہلو بدلتے۔ ارتقا کرتے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے ہمکنار رہتے ہوئے حقیقت سے زیادہ حقیقی ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ اردو ادب میں ان کا کوئی ثانی نہیں نظر آتا۔
علی احمد کا کردار سب میں پہلے سامنے آتا ہے اور پوری ناول پر ایک مستقل نہ بدلنے والے شخص کی طرح چھایا رہتا ہے۔ اس کی زندگی ہر دلچسپی مقر ر ہوکرایک خاص ٹھپہ کی ہو گئ ہے۔ وہ اپنے کام میں چوکس ہے۔ اس کے ابا عام طور پر ایک چٹائی پر بیٹھےڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے مصروف رہتے تھے۔ وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے اور ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوتی تھی اور اس کے پلووءں کو ادھر ادھر سر کے رہنے کی عادت تھی جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی تھی۔
اس عالم میں وہ ہمیشہ بیٹھےنظر آتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے آواز لگاتے ہیں۔ “ایلی حقہ بھر دو۔“ حقہ بھی اس کے کردار کا ایک حصہ ہے اور پھر ان سب سے زیادہ دلچسپی عورتوں میں ہے ان کی ایک بیاہتہ بیوی ہاجرہ ایلی کی ماں‌ہیں۔ جو اب محض نوکرانی ہو کر رہ گئی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ
(صفحہ نمبر 1242)
ایک بنی ٹھنی بیوی صفیہ ہیں جو زیادہ تر ان کے کمرے کی زینت رہتی ہیں۔ مگر صفیہ ان انکے بے پناہ جنسی رحجان کی ایک مثال ہے ورنہ
“ دادا کی وفات کے بعد علی احمد نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ہاجرہ کو ہمشیہ کے لئےآلو چھیلنے اور آٹا گوندھنے پر مامور کر دیااور خود کمر ہمت باندھ کر اپنے جزبہ تسخیر کو مطمئن کرنے چل نکلے۔ وہ اپنی ایستادہ چال- ابھری ہوئی چھاتی۔ فراخ پیشانی اور رنگین متبسم نگاہوں سے مردانہ وار تسخیر کرتے پھر تخلیے میں ڈان کو ہٹے کی سی پر جوش لڑائی لڑنے کے بعد اس میدان کارزار کی دہلیز پر بچے کی طرح اس امید پر گر پڑتےکہ انہیں کوئی شفقت بھرا ہاتھ تھپک تھپک کر سلا دے گا۔ اس لحاظ سے ان کی شخصیت جنگجو سورماٹین کے سپاہی اور دودھ پیتے بچے کی دلچسپ آمیزش سے بنی تھی اور چونکہ ان کا جنسی پہلو شخصیت کے جملہ پہلووءں ‌پر حاوی تھا اس لئے یہ آمیزش در حقیقت ان کی تمام تر زندگی کا تار پود تھا۔ ٹین کا سپاہی جنگجو سورما۔“
علی احمد اس صفت کے تمام تر بندے ہونے کی وجہ سے یک طرفہ کردار یا کری کیچر بھی کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ان کی زندگی کے اور بھی پہلو ہیں۔ وہ ایلی کے محبت دار باپ ہیں اور اس کی ترقی کے لئے اپنی بساط بھر سب کچھ کرتے ہیں۔ وہ گھر کے اپنی حدتک اچھے خاصے منتظم بھی ہیں اور عام انسانی فرائض کی ادایئگی میں کوئی خاص کو تاہی نہیں‌کرے ہیں۔ مگر زیادہ تر ان کا ٹین کے سپاہی والا پہلو ہی سامنے آتا رہتا ہے اور بڑی والہانہ دلچسپی کے ساتھ وہ عورتوں‌کی فتح پر فتح حاصل کرتے ہیں۔ ایسے ہیرو کی طرح مصروف نظر آتے ہیں۔ جس کا ایک اور ایک ہی مقصد حیات ہو۔ ان میں مجلسی زندگی کی جملہ صلاحیتیں بھی موجود تھیں۔ انہیں‌لکھنے سے عشق تھا عشق۔ یہ عشق گھر کا حساب اور پیدائش اور موت کی تاریخوں کے نوٹ کرنے پر محدود تھا۔ ایک جنرل رجسٹر کے علاوہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کاایک رجسٹر کے علاوہ وہ گھر سے متعلقہ ہر فرد کا ایک رجسٹر کھولے ہو ئے تھے۔ پھر ان کے کردار میں روپے پیسے کی احتیاط کا پہلوبے حد اہم تھا۔
حتَی کہ وہ عورت پر روپیہ خرچ کرنے کے قائل نہ تھے اور انکا خیال تھا کہ عورت کو تسخیر کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز وعدے ہیں روپے کا تصرف نہیں ۔ ان کا ایمان تھا کہ عورت کی خوشی حقیقت سے تعلق نہیں‌رکھتی۔ بلکہ محض تخیل سے وابستہ ہے اور اسے روپے پیسے جیسی ٹھوس چیز سے کیا تعلق۔
ان کے کردار پورے طور پر پہلودار(Round) کرنے کی مفتی صاحب کوشش کرتے
(صفحہ نمبر 1243)
ہیں
 

عمر دراز

محفلین
(صفحہ نمبر 1243)
ہیں اور ہمیں یہ محسوس کرا دیتے ہیں کہ ان کی زندگی کے سب ہی انسانی پہلو میں اور ہرگز کریکچر نہیں کہے جاسکتے مگر ان کی جنسی زندگی کے مناظر ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہر ایک منفرد‘ نیا اور نہایت درجہ دلچسپ اور ان کے کردار کی تمام زندگی اس بات میں سمٹ آتی ہے۔ عورت دیکھتے ہی یہ ٹین کا سپاہی کس طرح زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ کمرہ ایک قلعہ ہے جس میں پکارے جانے پر بھی ایلی کو داخل ہو تے ہوئے بڑا ڈر لگتا ہے کیونکہ وہاں ہر وقت رجسٹر پر علی احمد کے قلم چلتے رہنے کے علاوہ کسی جنسی حرکت کے ہوتے رہنے کا بھی امکان ہے جس کو راز میں‌رکھنا رسم دنیا ہے۔
غرض علی احمد کا سارا قصہ اور اگر سارا نہیں تو اس کا اہم ترین اور دلچسپ حصہ ان کی مختلف عورتوں کو دون کوہٹے کی طرح تسخیر کرنے کے واقعات کا احاطہ کرتا رہتا ہے۔ یہ واقعات بہت ہیں اور ہر ایک کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے۔اس لئے ان میں سے کسی کا اقتباس کرنا طول عمل ہے اور ان کا خلاصہ کرنے سے ان کی زندگی ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ان میں ایلی بھی اسی طرح شریک نظر آتا ہے۔ جیسے ڈون کو ہٹے کے سات سانکوپائزامردانیٹر کے یہ دونوں‌کردار یورپ کی تمام ناول نگاری میں ڈکنس کے مسٹر بکوک اور سام ویلر تک ماحول کے حساب سے روپ بدل بدل کر آتے رہے ہیں۔ مفتی صاحب کے دھیان میں بھی وہ آفاقی اور دائمی ٹائپ ہیں‘ اور “علی پور کا ایلی۔“ میں وہ علی احمد اور ایلی کے ذریعہ پنجاب کے اس علاقے سے متعلق ہو کر جو ناول کا مخصوص ماحول ہے پیش ہوتے ہیں۔ علی احمد ہر قسم اور ہر طبقہ کی عورت کے آتے ہی ڈون کہوٹے کی طرح اپنا بھالا تان کر کھڑا ہو جاتا ہے اور ایلی سانکو پائزا کی طرح اس کی بیدلی سے مدد میں مصروف نظر آتا ہے۔ گھریلو لڑکیاں جیسے سارا صبورہ وضعدار عورتیں جو بیویاں‌بن کر رہنا چاہتی ہیں اور رہ جاتی ہیں۔ کسبیاں‌جو وقتی تعلق ہی کوکاری سمجھتی ہیں۔ ایک ہندو عورت جو علی احمد سے تعلق تو کر لیتی ہے مگر اس کے یہاں کا پانی نہیں پیتی اور ایلی کو اس کے لئے کنوئیں سے پانی نکال کر ایک بوتل میں بھر لانا پڑتا ہے۔ سب ہی ان کے دائرے میں آتی ہیں اور ان سے دم کے دم میں تسخیر ہو جاتی۔ اپنے سے رشتہ کی عزیز کی جوان بیوی شہزاد بھی ان کی توجہ کا مرکز ہو جاتی ہے اور وہ اس سے جس طرح لطف لیتے ہیں اس کا منظر بھی عجیب ہے وہ کھل کھلا کھل کھلا لگاوٹ کی ہنسی ہنستے ہیں اور شہزاد کا نام لیتے جاتے ہیں۔ خیر ان کا وار خالی جاتا
(صفحہ نمبر 1244)
مگر ان کی جنسی فطرت ایسی خوبی سے سامنے آجاتی ہے کہ جس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ مفتی صاحب نے جس تفصیل سے اور جتنے جزیات کے ساتھ ان کے حالات بیان کئے ہیں وہ کردار نگاری کے لئے بڑے ضروری ہیں۔ خاص طور سے مزاحیہ کردار نگاری کے لئے شیکسپئر نے فالسٹاف کو پورے طور پر جمانے کے لئے ایک نہیں تین تین ڈرامے لکھے۔ ڈکنس نے پکوک کو پر اثر بنانے کے لئے ہزار صفحے کے قریب کالے کئے۔ ہمارے یہاں‌سر شار کا خوجی بھی اب تک اردو کا سب سے زیادہ مزاحیہ کردار اسی وجہ سے ہے کہ وہ ہزارو صفحوں‌پر باربار آتاہے۔ علی احمد خوجی سے تو کم ہی جگہ گھیرتے ہیں اور اس سے کہیں‌زیادہ پہلودار اور واقعاتی ہیں۔ وہ اپنے ماحول کے عظیم مظحک نمائندہ ہیں اور افاقی مزاح کے بھی نمائندے ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اردو ناول نگاری میں ان سے بہتر مزاحیہ کردار اب تک نہیں‌پیش ہوا تو غلط نہ ہوگا۔
“علی پور کا ایلی۔“ کا کردار نگاری میں دوسرا اہم شاہکار شہزاد ہے۔ یہ حسن جوانی اور زندہ دلی کی صورت ہے اور حسین عورت کی بیباکی اس میں عجیب و غریب کرشمہ دکھاتی ہے۔ اس کا سب میں پہلے ذکر شریف سے اس کی شادی کے سلسلے میں آتا ہے۔ اس نے شریف پر تھیلی میں بند مینڈک پھینکا شریف بیان کرتا ہے۔
واقعی وہ شہزادی ہے۔ اسم بامسمی ہے۔ مجھے چھپ چھپ کر دیکھنے کے بعد ایک روز وہ مکان کی دہلیز سے باہر آگئی اور میرے روبرو اس نے ایک مینڈک کے ذریعہ اظہار محبت کر دیا۔
--------------- اس نے مینڈک کو ایک تھیلی ہی رکھاتھا اور جب میں سو رہا تھا تو وہ تھیلی میرے منہ پر پھینک دی اور ڈر کر اٹھ بیٹھا اور وہ ہنسنے لگی۔
اور پھر ایلی کی نگاہو تلے ایک شوخ حسینہ آکھڑی ہو اور پھر شادی میں رخصتی کے بعد ریل کے ڈبے میں ایک مونگیا گٹھڑی اسے دکھائی دیتی ہے۔
“مونگیا گٹھڑی میں جنبش ہوئی دو سفید خون میں بھیگے ہوئے ہاتھ ایلی کی طرف لپکے تازہ خون کی لوکا ایک ریلا آیا۔ ایلی بھاگنے کی سوچ رہا تھا۔ کہ گٹھڑی کے پٹ کھل گئے دو گلابی جھیلیں ‌جھلکیں جن میں سیاہ گلاب ابھر رہے تھے۔ مخملی بیر بہوٹیاں‌رینگ رہی تھیں۔ اور بالاخر ایک چمکدار تبسم اور ایلی یوں‌کھڑا تھا جیسے پتھر کا بن چکا ہو ڈبے کے دوسرے لوگ جھلملا کر معدوم ہو چکے تھے۔
شہزاد کی کردار نگاری اس کے دوسرے لوگوں پر تاثر کے ذریعہ ہوتی ہے۔ آصفی محلہ میں
(صفحہ نمبر 1245)
آتے ہی وہ ہر شخص کے لئے حسن و ناز کا عجیب کرشمہ ہو جاتی ہے۔ مگر ایلی اس سے سب سے زیادہ متاثر نظر آتا ہے۔ جسے اس کے حسن کی ہر ہر ادا رومانیت کا مظاہرہ نظر آتی ہے۔ اس کی چال چھم سے آجانا ۔ اس کا دوپٹہ اوڑھنے کا انداز اس کے ماتھے پر تل۔ اس کے گورے گورے کھلے بازو۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سنگ مر مر کے پیر۔ اس کا لگاوَ اس کی بے نیازی۔ وہ چیز جسے محلے والے بے شرمی کہتے ہیں۔ اور اس کی بے پناہ ذہانت جس کی بنا پر وہ سب کے باوجود ایلی سے شوخی کرنے گا بہانا نکال لیتی ہے بر بر بیان ہوتا ہے اور یہ سب ایک سچے عاشق کے نقطہَ نظر سے جس کی بنا پر اس میں حد درجہ کا حسن ٹپکنے لگتا ہے۔ مفتی صاحب شہزاد کو دنیا کی حسین ترین چیز کی طرح پیش کر دیتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایلی کے تاثرات ہی کی ترجمانی نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ شہزاد سے انہیں‌خود ویسا ہی دلی تعلق ہے۔ جیسے ایلی کو تھا۔ وہ ساری ناول ان کے تجربہ کی چیز ہے ہی مگر اس تمام تجربہ میں جس چیز نے ان کے دل کو سب سے زیادہ چھوا ہے اور جس چیز نے ان کے تخیل کو سب سے زیادہ آیا اور روشن کیاہے وہ شہزاد ہا شہزاد کی طرح کی کوئی محبوبہ ہے۔ ایلی کے شہزاد سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی نفسیاتی تحلیل اس طرح ہوتی ہے کہ قاری کو وہ اپنا خود کا حال معلوم ہونے لگتا ہے۔ یہی کردار نگاری کا کمال ہے اور ان تمام معاملات میں حد سے زیادہ واقعیت کے ساتھ جو رومانی پیچیدگی تعجب پیدا کرتی رہتی ہے اس کے انکشاف میں مفتی صاحب کردار نگاری کے اعلی ترین وجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ کتاب کے وہ مقامات جن میں شہزاد چھم سے آجاتی ہے عجیب طرح روشن اور دلکش ہو جاتے ہیں۔ ان کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ اور تکرار کے باوجود ان کا لطف کم نہیں ہوتا۔ شریف کی اجازت سے پہلے پہلے ایلی کو چائے پر بلانے آنا۔ پھر اکیلے میں ایلی سے بے باکانہ ملنا۔ مختلف ملا قاتوں میں ایک وقت اتنا قریب اور اس وقت اتنا دور ہو جانا عجیب کرشمہ قدرت کی طرح آنکھوں کے سامنے پھرتا رہتا ہے۔ ایلی کے عشق میں جسماین محبت کو دخل نہیں‌ہے۔ ایسی محبت سے اسے اپنے باپ کے معاشقوں کی وجہ سے نفرت ہو چکی ہے۔ اور قاری بھی شہزاد کے جسمانی حسین تاثرات کے باوجود اسے آسمانی چیز ہی کی طرح چاہنے لگتاہے۔ وہ اسے قبول بھی کرتی ہے مگر ٹالتی بھی ہے۔ وہ اسے ستاتی بھی رہتی ہے۔ اس کے گالوں کو سہلاتی ہے۔ اس کے چٹکی بھی لے لیتی ہے۔ مگر وہ شادی شدہ عورت ہے اور اپنے کو پسپا نہیں ہونے دیتی۔ ناول کا وہ سین جس میں ایلی بند بیٹھک میں چھپا بیٹھا ہے اور انتظار کر رہا لے شہزاد وہاں آئے تو اس پر حملہ آور ہو شہزاد
(صفحہ نمبر 1246)
کو پورے طور پر سامنے لے آنے کا کمال ہے:-
دروازہ کھلا شہزاد اندر داخل ہوئی۔
ایلی بجلی کی تیزی سے اپنی جگہ سے نکلا اور لپک کر اندر سے کنڈی لگادی۔شہزاد نے ڈر کر ایک ہلکی سی چیخ ماری۔
کنڈی لگانے کے بعد وہ شہزاد کے رو برو کھڑا ہو گیا۔
ایک ساعت کے لئے وہ گھبرا گئی مگر اسے پہچان کر مطمئن ہو کر بولی۔“ تم یہاں۔“ ایلی کی خاموشی اور اس کے وحشت بھرے انداز کو دیکھ کر وہ از سر نو گھبرا گئی۔ “ یہ سب کیا ہے؟“ وہ بولی “تمہیں کیا ہو گیاہے؟“
ایلی جواب دیئے بغیر اس کی طرف بڑھا۔
“پاگل ہو گئے ہو کیا۔“ وہ زیر لب چلا ئی۔
وہ سمجھتی تھی کہ ایلی اس پر حملہ کرنے والا ہے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ دراصل وہ اپنی شدید کمتری کی خفت مٹانے کی ناکام کو شش کر رہاہے اور اپنااصلی روپ چھپانے کے لئے اس نے شیر کی کھال پہننے کی مضحکہ خیز کوشش کی ہے۔
“خدا کے لئے۔“ وہ چلائی۔“ ہٹ جاوّ۔ یہ کیا دیوانگی ہے۔“
“ وہ چپ چاپ آگے بڑھتا گیا۔
“ضرور تم پاگل ہو گئے ہو۔“ وہ بولی۔“ تم اپنے حواس میں نہیں‌ہو۔“
“ہاں۔“ ------------ ایلی نے بھیانک آواز میں جواب دیا۔ “نہیں ہوں۔“
“ایلی کوئی سن لے گا۔ دیکھ لے گا۔ پاگل نہ بنو۔ وہ چلائی “ پاگل نہ بنو - پاگل نہ بنو- “
ایک رنگین دھندلکا ایلی کے قریب تر آتا گیا اور قریب اور وہ دیوانہ وار اس کی طرف بڑھتا گیا۔ اس کے ہونٹ شہزاد کا خون چوسنے کے لئے جونک کی طرح آگے بڑھے۔ ہاتھ بازو‘ منہ سر جسم وہ دیوانہ وار اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چوسنے لگا۔ پہلے تو شہزاد نے اپنے آپ کو اس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی پھر وہ تھک کر۔ ہار کر ایک لاش کی طرح میز پر گر پڑی۔ بھیانک خاموشی طاری ہو گئی۔
ایلی نے محسوس کیا جیسے اس کی وحشت ختم ہو جارہی ہو۔ اس نے دیوانہ وار بھٹی میں نیا ایندھن دھکیلنے کی کوشش کی۔ چرار چرار ۔ ریشمی کپڑے کے پھٹنے کی آواز آئی۔
(صفحہ نمبر 1247)
“ایلی پاگل نہ بنو۔“ ایک بار پھر مرمریں جسم کے اس تودے میں حرکت ہوئی “ پاگل نہ بنو۔“ مدھم آواز میں مبہم سا احتجاج دیکھ کر وہ اور بھی بھپرگیا۔
دھپ ----------- ایک ہوائی سی چھوٹ گئی اور معا گردوپیش تاریک ہو گئے۔ اس نے محسوس کیا جیسے وہ ڈوب گیا ہو چاروں طرف اندھیرا تھا۔ گھور اندھیرا۔ خفت ناکامی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا۔ خود ساختہ و حشت کا سہارا ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا ۔ وہ دیوانگی ختم ہو چکی تھی اور اس کے عقب میں معصیت اور شکست کی منفی احساسات کا ریلا اڑا آرہا تھا۔ ایلی نے محسوس کیا۔ جیسے اس کے منہ میں گھاس کا تنکا ہو۔ وہی تنکا جو پورس اپنے مین میں لے کر سکندر کے حضور میں حاضر ہوا تھا۔
اس نئی خفت کو مٹا نے کے لئے ایلی ایک بار پھر آگے بڑھا اور دیوانہ وار شہزاد کے بند بند چومنے لگا۔ اور بالاخر تھک کر بچے کی طرح اس کے قدموں میں سر رکھ کر گر پڑا ۔ “ مجھے تم سے محبت ہے شہزاد مجھے تم سے ۔“
اپنے پاوں پر آنسووں کے قطرے محسوس کر کے شہزاد اُٹھ بیٹھی اور اس گا بازو ایلی کی طرف بڑھا اور اسے تھپکنے لگا۔
اس کیفیت میں کتنا اطمینان تھا۔ ایلی نے محسوس کیا جیسے ماں کا ہاتھ سر زنش کرنے کی بجائے معاف کر دینے کے بعد تھپک رہا ہو۔
ماں کا ہاتھ عجیب نفسیاتی اشارہ ہے۔ شہزاد عورت کے تمام منصب بڑی پیچیدگی کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔ وہ ماں بھی ہے۔ بیوی بھی اور محبوبہ بھی۔ معشوقانہ انداز پوری بیباکی کے ساتھ اس میں شروع ہی سے دکھائی دیتے رہے۔ وہ ایک شخص کی قانونی بیوی بھی ہے اور بچہ پیدا کرنے میں زرخیز بھی کہی جاسکتی ہے۔ مگر ایلی کی طرف اس کا رحجان مادرانہ بھی ہے۔ ہمارے معاشرے کے لوگ عورت کے بابت ڈھرے سے اچھی یا بری رائے دے دینے کے عادی ہیں۔ مفتی صاحب ان لوگوں ‌سے کس قدر بالاتر ہیں اور عورت کی پیچیدہ اور غیر فطرت کا کتنا زبردست مشاہدہ رکھتے ہیں۔
شہزاد کا رویہ متضاد سوالات ایلی کے دل میں‌ لاتاہے اور ہم بھی ان سوالات میں پڑ کر تعجب کے عالم میں آجاتے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا شہزاد ایلی سے محبت کرتی ہے۔ اس سلسلے میں وہی معاملہ سامنے آتا ہے کہ نہ اعتبار مجھے ہے نہ اعتبار انہیں۔ مگر یہ صاف ہے کہ شہزاد کی اس
 
Top