نوید ملک
محفلین
سہی۔"
"بھئی وہ آندھرے فلم کمپنی کا مالک ہے۔"
"ارے اسے مجھ سے کیا کام؟"
"میں نے کہا تھا اس معاملے میں میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔البتہ میرا ایک دوست ہے ایلی۔"
"تو اس نے کہا مجھے اس سے ملا دو۔"
ایلی حیران تھا ناظم کیسی باتیں کر رہا ہے۔
"اب اس سے بات کر لو چل کر۔" ناظم مسکرایا۔
"لیکن کس سلسلے میں۔" ایلی نے چڑ کر کہا۔
"بھئی اسے اپنی فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔" وہ بولا
"آئیڈیا۔" ایلی کا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا۔
ناظم زبردستی اسے بریگینزا ہوٹل میں لے گیا۔جہاں پریتماں ٹھہری ہوئی تھی۔ انہوں نے اندر اپنا کارڈ بھیجا اور انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد پریتماں نے انہیں اندر بلا لیا۔
وہ ایک بنی سنوری ہوئی مٹیار عورت تھی۔ جیسے چینی کی گڑیا ہو۔ ان کے روبرو بیٹھے ہوئےوہ فلمی ادارے کی مالکہ کم دکھائی دیتی تھی۔عورت زیادہ ایلی کی طرف دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم لہرایا۔ جس میں طنز کی جھلک تھی۔
آپ الیاس آصفی ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیا آپ کو فلم سے دلچسپی ہے؟" اس نے پوچھا۔
"دیکھتا ہوں۔" وہ بولا۔" صرف۔"
"فلم سازی سے واقفیت ہے کیا؟" وہ بولی۔
"جی نہیں۔"
"فلمی کہانی لکھی ہے کبھی؟"
"جی نہیں۔"
"ناظم صاحب آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔" پریتماں طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ان کا حسن ظن ہے۔"
ناظم نے غصے بھری نگاہ ڈالی۔
آئیڈیا
""مجھے ایک آئیڈیا کی تلاش ہے۔" پریتماں بولی۔
"جی۔" وہ بولا۔
"ممکن ہے آپ میری مدد کر سکیں۔"
"اس وقت شاید یہ ممکن نہ ہو۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیوں۔" وہ بولی۔
" اس کی ایک وجہ ہے۔"
"اچھا۔" وہ بولی۔ " گزشتہ دو برس سے میں چار ایک اصحاب سے ملی ہوں لیکن بات نہیں بنی۔"
"کیا وہ لوگ آپ سے ملے تھے۔" ایلی نے پوچھا۔
"ہاں ہاں وہ مجھ سے ملے تھے۔"
"اور وہ آپ کو آئیڈیا نہیں سے سکے؟"
"بالکل نہیں دے سکے۔"
"وجہ ظاہر ہے۔" ایلی نے کہا۔
"کیا مطلب۔" وہ بولی۔ " میں سمجھتی نہیں۔"
"دیکھئے شریمتی۔" ایلی نے کہا۔ " آپ موجود ہوں تو کوئی دوسرا آئیڈیا نہیں آتا۔"
پریتماں کے چہرے پر رنگ پھیل گئے۔ ایک چمک لہرائی۔ "کیا مطلب؟" وہ بولی۔
"مطلب یہ۔" ایلی نے کہا کہ " آپ مرکز بن جاتی ہیں۔"
"عجیب بات کی ہے آپ نے۔" وہ مسکرائی اور پہلی مرتبہ طنز و تحقیر کے بغیر اس کی طرف دیکھا۔
"دراصل۔" وہ بولی۔ " مجھے اپنے نئے فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔"
"بھئی وہ آندھرے فلم کمپنی کا مالک ہے۔"
"ارے اسے مجھ سے کیا کام؟"
"میں نے کہا تھا اس معاملے میں میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔البتہ میرا ایک دوست ہے ایلی۔"
"تو اس نے کہا مجھے اس سے ملا دو۔"
ایلی حیران تھا ناظم کیسی باتیں کر رہا ہے۔
"اب اس سے بات کر لو چل کر۔" ناظم مسکرایا۔
"لیکن کس سلسلے میں۔" ایلی نے چڑ کر کہا۔
"بھئی اسے اپنی فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔" وہ بولا
"آئیڈیا۔" ایلی کا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا۔
ناظم زبردستی اسے بریگینزا ہوٹل میں لے گیا۔جہاں پریتماں ٹھہری ہوئی تھی۔ انہوں نے اندر اپنا کارڈ بھیجا اور انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد پریتماں نے انہیں اندر بلا لیا۔
وہ ایک بنی سنوری ہوئی مٹیار عورت تھی۔ جیسے چینی کی گڑیا ہو۔ ان کے روبرو بیٹھے ہوئےوہ فلمی ادارے کی مالکہ کم دکھائی دیتی تھی۔عورت زیادہ ایلی کی طرف دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم لہرایا۔ جس میں طنز کی جھلک تھی۔
آپ الیاس آصفی ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیا آپ کو فلم سے دلچسپی ہے؟" اس نے پوچھا۔
"دیکھتا ہوں۔" وہ بولا۔" صرف۔"
"فلم سازی سے واقفیت ہے کیا؟" وہ بولی۔
"جی نہیں۔"
"فلمی کہانی لکھی ہے کبھی؟"
"جی نہیں۔"
"ناظم صاحب آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔" پریتماں طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ان کا حسن ظن ہے۔"
ناظم نے غصے بھری نگاہ ڈالی۔
آئیڈیا
""مجھے ایک آئیڈیا کی تلاش ہے۔" پریتماں بولی۔
"جی۔" وہ بولا۔
"ممکن ہے آپ میری مدد کر سکیں۔"
"اس وقت شاید یہ ممکن نہ ہو۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیوں۔" وہ بولی۔
" اس کی ایک وجہ ہے۔"
"اچھا۔" وہ بولی۔ " گزشتہ دو برس سے میں چار ایک اصحاب سے ملی ہوں لیکن بات نہیں بنی۔"
"کیا وہ لوگ آپ سے ملے تھے۔" ایلی نے پوچھا۔
"ہاں ہاں وہ مجھ سے ملے تھے۔"
"اور وہ آپ کو آئیڈیا نہیں سے سکے؟"
"بالکل نہیں دے سکے۔"
"وجہ ظاہر ہے۔" ایلی نے کہا۔
"کیا مطلب۔" وہ بولی۔ " میں سمجھتی نہیں۔"
"دیکھئے شریمتی۔" ایلی نے کہا۔ " آپ موجود ہوں تو کوئی دوسرا آئیڈیا نہیں آتا۔"
پریتماں کے چہرے پر رنگ پھیل گئے۔ ایک چمک لہرائی۔ "کیا مطلب؟" وہ بولی۔
"مطلب یہ۔" ایلی نے کہا کہ " آپ مرکز بن جاتی ہیں۔"
"عجیب بات کی ہے آپ نے۔" وہ مسکرائی اور پہلی مرتبہ طنز و تحقیر کے بغیر اس کی طرف دیکھا۔
"دراصل۔" وہ بولی۔ " مجھے اپنے نئے فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔"