علی پور کا ایلی(1206-1235 )

نوید ملک

محفلین
سہی۔"
"بھئی وہ آندھرے فلم کمپنی کا مالک ہے۔"
"ارے اسے مجھ سے کیا کام؟"
"میں نے کہا تھا اس معاملے میں میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔البتہ میرا ایک دوست ہے ایلی۔"
"تو اس نے کہا مجھے اس سے ملا دو۔"
ایلی حیران تھا ناظم کیسی باتیں کر رہا ہے۔
"اب اس سے بات کر لو چل کر۔" ناظم مسکرایا۔
"لیکن کس سلسلے میں۔" ایلی نے چڑ کر کہا۔
"بھئی اسے اپنی فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔" وہ بولا
"آئیڈیا۔" ایلی کا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا۔
ناظم زبردستی اسے بریگینزا ہوٹل میں لے گیا۔جہاں پریتماں ٹھہری ہوئی تھی۔ انہوں نے اندر اپنا کارڈ بھیجا اور انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیر کے بعد پریتماں نے انہیں اندر بلا لیا۔
وہ ایک بنی سنوری ہوئی مٹیار عورت تھی۔ جیسے چینی کی گڑیا ہو۔ ان کے روبرو بیٹھے ہوئےوہ فلمی ادارے کی مالکہ کم دکھائی دیتی تھی۔عورت زیادہ ایلی کی طرف دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم لہرایا۔ جس میں طنز کی جھلک تھی۔
آپ الیاس آصفی ہیں؟" اس نے پوچھا۔
"جی ہاں۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیا آپ کو فلم سے دلچسپی ہے؟" اس نے پوچھا۔
"دیکھتا ہوں۔" وہ بولا۔" صرف۔"
"فلم سازی سے واقفیت ہے کیا؟" وہ بولی۔
"جی نہیں۔"
"فلمی کہانی لکھی ہے کبھی؟"
"جی نہیں۔"
"ناظم صاحب آپ کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔" پریتماں طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ان کا حسن ظن ہے۔"
ناظم نے غصے بھری نگاہ ڈالی۔

آئیڈیا
""مجھے ایک آئیڈیا کی تلاش ہے۔" پریتماں بولی۔
"جی۔" وہ بولا۔
"ممکن ہے آپ میری مدد کر سکیں۔"
"اس وقت شاید یہ ممکن نہ ہو۔" ایلی نے جواب دیا۔
"کیوں۔" وہ بولی۔
" اس کی ایک وجہ ہے۔"
"اچھا۔" وہ بولی۔ " گزشتہ دو برس سے میں چار ایک اصحاب سے ملی ہوں لیکن بات نہیں بنی۔"
"کیا وہ لوگ آپ سے ملے تھے۔" ایلی نے پوچھا۔
"ہاں ہاں وہ مجھ سے ملے تھے۔"
"اور وہ آپ کو آئیڈیا نہیں سے سکے؟"
"بالکل نہیں دے سکے۔"
"وجہ ظاہر ہے۔" ایلی نے کہا۔
"کیا مطلب۔" وہ بولی۔ " میں سمجھتی نہیں۔"
"دیکھئے شریمتی۔" ایلی نے کہا۔ " آپ موجود ہوں تو کوئی دوسرا آئیڈیا نہیں آتا۔"
پریتماں کے چہرے پر رنگ پھیل گئے۔ ایک چمک لہرائی۔ "کیا مطلب؟" وہ بولی۔
"مطلب یہ۔" ایلی نے کہا کہ " آپ مرکز بن جاتی ہیں۔"
"عجیب بات کی ہے آپ نے۔" وہ مسکرائی اور پہلی مرتبہ طنز و تحقیر کے بغیر اس کی طرف دیکھا۔
"دراصل۔" وہ بولی۔ " مجھے اپنے نئے فلم کے لئے ایک آئیڈیا چاہئے۔"
 

نوید ملک

محفلین
"کس قسم کا آئیڈیا۔"
"میں مرد اور عورت کی زندگی کا کمپیریزن کرنا چاہتی ہوں۔"
"آپ کا مطلب ہے موازنہ۔" ناظم نے کہا۔
"ہاں ہاں۔" وہ بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ "موازنہ۔"
"تو کیجئے۔" ایلی نے کہا۔ "آئیڈیا تو آپ کے پاس موجود ہے ۔آئیڈیا تو آپ ہی کا ہوا۔"
اس نے پھر ایلی کی طرف دیکھا بولی۔ " لیکن کس طریق سے اسے پیش کیا جائے؟"
"اس میں تو کوئی مشکل نہیں۔" ایلی نے کہا۔
"مثلاً۔" وہ بولی۔
"مثلاً۔" ایک ساعت کے لئے اس نے توقف کیا۔ " دنیا میں تبدیلی جنس کے واقعات تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ایک لڑکی کے خیالات اور جذبات پیش کیجئے۔پھر لڑکی کی جنس تبدیل کر دیجئے اور بحثیت مرد اس کے خیالات اور جذبات پیش کیجئے۔"
"واہ واہ اکسیلنٹ۔" وہ اچھل پڑی۔ " واہ آصفی صاحب۔"
ناظم نے فخریہ انداز سے ایلی کی طرف دیکھا۔
"ایک صورت اور بھی ہے۔" ایلی بولا۔
"کہئے۔" وہ پھر سے بیٹھ گئی۔
ایک ڈاکٹر تبدیلی جنس کا راز پا لیتا ہے۔پھر وہ باری باری عورت اور مرد بن کر جیتا ہے۔تفریحاً۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح موازنہ بہتر ہوگا۔"
"بہت خوب۔" وہ بولی۔
"پھر اسے ایک مشکل میں ڈال دیجئے۔ اور اسے فیصلہ کرنا پڑے کہ آیا اسے ہمیشہ کے لئے عورت بن کر جینا ہے یامرد۔"
"اکسیلنٹ۔" وہ مسکرائی۔
اس کے بعد دیر تک وہ بیٹھے چائے پیتے رہے۔
چائے کے دوران میں پریتماں نے اپنے بیگ میں سے ایک فارم نکالا۔ اس کے نیچے دستخط کئے اور ایلی کے ہاتھ میں تھما دیا۔
"یہ آفر ہے۔" وہ بولی۔ " جب بھی آپ چاہیں میرے سٹوڈیو میں آ جائیں۔ فی الحال میں آپ کو پانچ سو روپے ماہوار دے سکتی ہوں۔"
ناظم خوشی سے جھوم اٹھا۔
میری رائے مانئیے تو یہ آفر منظور کر لیجئے۔" پریتماں نے کہا۔ " آپ کی آمد کا کرایہ میرے ذمے رہا۔" اس نے سو سو کے پانچ نوٹ بٹوے میں سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیئے۔
"جب بھی آپ کا جی چاہے آ جائیے۔" وہ نہایت دلنواز انداز سے مسکرائی۔
"ہم آپ کا انتظار کریں گے۔"
پریتماں کی آفر نے ایلی کی زندگی میں ہلچل پیدا کر دی۔ اسے یہ خیال بھی نہ تھا کہ فلم میں کام کرنے کا موقعہ ملے گا۔پانچ سو۔ اسے یقین نہیں آتا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ ملاقات محض ایک خواب تھی۔ ابھی اسکی آنکھ کھلے گی اور وہ دیکھے گا کہ وہ کاغذ جو پریتماں نے اسے دیا تھاایک سادہ ورق ہے۔
ناظم اسے اکسا رہا تھا:
"تمہیں جانا چاہئے۔ فوراً چلے جانا چاہئیے۔ بمبئی کے سٹوڈیو میں کام کرنے کا چانس ہاتھ سے گنوانا عقلمندی نہیں۔"
مانی اس کے ساتھ جانے پر تیار تھا۔ وہ یونٹ کی نوکری سے استعفٰی دے چکا تھا چونکہ اسے افسر اعلٰی کی بیگم اور بیٹیوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
مانی نے ایک سکیم مرتب کر لی تھی۔ ایک ناشر سے معاملہ طے کرایا تھا۔کہ بمبئی جا کر وہ اعلٰی پیمانہ پر ایک فلمی رسالہ جاری کرے گا۔
بلند بخت اس آّفر اور اس کے نتائج سے متعلق بے پروا تھی۔اسے احساس نہ تھا کہ ایسی آفر کا مطلب کیا ہے؟
ہاجرہ خوش تھی:" ہاں ہاں چلے جاؤ۔ سنا ہے بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ اگر کام چل نکلا تو بڑی تنخواہ پاؤ گے۔"
ایلی تیار ہو گیا۔
اس نے بلند بخت کو نامن پور بھیج دیا۔ہاجرہ اور عالی کو علی پور چھوڑا۔ ان دنوں تقسیم کی بات زبان زد خلق تھی۔ پنجاب کے مسلمانوں کو خطرہ تھا کہ کہیں لاہور ہندوستان کا حصہ نہ بن جائےکیونکہ علی پور ضلع گورداسپور میں واقع تھا اور گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس
 

نوید ملک

محفلین
لئے علی پور ایک محفوظ مقام تھا۔ہاجرہ اور عالی کو علی پور چھوڑنے کے بعد وہ واپس لاہور پہنچا اور اپنی اسامی سے استعفٰے دے کر مانی کو ساتھ لیکر بمبئی روانہ ہو گیا۔

بمبئی
بمبئی کو دیکھ کر ایلی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اتنا بڑا خوبصورت شہر اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔چند روز وہ بے وقوفوں کی طرح سر اٹھا اٹھا کر ان سربفلک عارتوں کو دیکھتا رہا۔عمارتوں کی عظمت سمندر کی وسعت اور بھیڑ کے تسلسل کو دیکھ کر اس کی اپنی حیثیت ختم ہو چکی تھی۔وہ اپنے آپ کو بے حد حقیر سمجھ رہا تھا۔پریتماں کو آئیڈیا دینے سے جو اس میں خوداعتمادی اور فخر پیدا ہوئے تھے،بمبئی پہنچ کر صابون کے بلبلوں کی طرح اڑ گئے تھے۔
دوسرے روز شام کے وقت جب وہ میرین ڈرائیو کے قریب ایک باغیچہ میں بنچ پر بیٹھا ہوا تھا تو دفعتاً اس نے محسوس کیا جیسے اس کے روبرو حاجی صاحب کھڑےتھے۔ ان کا سر ہل رہا تھا۔آنکھیں روشن تھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
"یہی بنچ تھا وہ۔" وہ بولے۔
"بنچ۔" ایلی نے دہرایا۔
"اسی بنچ پر بیٹھے تھے ہم۔" وہ مسکرائے۔
ایلی کو یاد آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " ہاں جب سرمہ لگا کر وہ گھر سے نکلے تھے تو۔۔۔۔۔۔" ان دنوں وہ بمبئی ہی میں مقیم تھے۔
یہ کہہ کر حاجی صاحب اس کے قریب آ بیٹھے۔ انہوں نے مسکرا کر ایک راہ گیر حسینہ کی طرف دیکھا۔ وہ حسینہ اس کے قریب آ بیٹھی۔ وہ دیوانہ وار حاجی صاحب کی طرف دیکھ رہی تھی۔
پھر ایک اور طرحدار عورت وہاں آ بیٹھی۔پھر ایک میم آ گئی۔ وہ تینوں حاجی صاحب کی طرف یوں دیکھ رہی تھیں۔جیسے اپنا آپ ان کی بھینٹ چڑھا رہی ہوں۔
پھر وہ اٹھ بیٹھے اور ایلی کے روبرو آکھڑے ہوئے:
"بیکار ہے۔" وہ بولے۔ "بے کار۔ سب بے کار ہے۔"
انہوں نے نفرت سے عورتوں کی طرف دیکھا اور چل پڑے۔ایلی چونکا۔ اس نے گردوپیش پر نگاہ دوڑائی۔
"بے کار ہے۔ کھلونے۔" حاجی صاحب نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
ایلی نے پھر ان خوبصورت عمارتوں کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہ تلے گتے کے رنگدار ڈبے نیچے اوپر سجا کر رکھے ہوئے تھے۔سڑک پر چلتی ہوئی خوبصورت عورتیں گویا کپڑے کی دوکانوں کی شوونڈوز سے بھاگی ہوئی پتلیاں تھیں۔
اس نے سمندر کی طرف نگاہ دوڑائی۔
سمندر نے بڑھ کر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔
سامنے مغرب میں افق پر ایک رومی ٹوپی ابھر رہی تھی۔
اس روز جب وہ رات کو اپنی جائے قیام پر پہنچا تو وہ سوچ رہا تھا۔ حاجی صاحب کے خیال نے آ کر اس کے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کر دی تھی۔عجیب بات تھی۔ اس عظیم الشان شہر کو اور ان خوبصورت عورتوں کو بدل دیا تھا۔ یہ کیا جادو ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا نقطہ نظر انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔یا ایک عام سا آدمی اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ کسی کے زاویہ نظر کو بدل کر رکھ دے۔ زندگی بھر تنکے تنکے چن کر جو آشیاں بنایا تھا اسے ایک نگاہ سے تاراج کر دے۔یہ کیسی طاقت تھی۔ ایلی سوچ رہا تھا۔
حاجی صاحب نے اپنا کاروبار جس کی شاخیں کلکتہ، بمبئی اور دلی میں تھیں یک قلم چھوڑ دیا تھا۔آخر کیوں۔کیا یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا یا ایسے ہی کسی مرد خدا نے ان کا زاویہ نظر بدل دیا تھا۔
ایلی کو اس سوال کا جواب نہ سوجھتا تھا۔ شاید ان عالموں کے اس کا جواب تھا ہی نہیں جن کے علم و فکر پر اس نے اپنے ذہنی نظریوں کی بنیاد استوار کی تھی۔برٹرنڈرسل کھڑا سوچ رہا تھا۔
دفعتاً وہ مسکرایا:
"بچہ روتا ہے۔" وہ بولا۔" تو اس کی توجہ کسی اور طرف کر دو۔ وہ خاموش ہو جائے گا۔"
راستووسکی مسکرا رہا تھا: ہم سبھی بچے ہیں۔"
راستووسکی کہہ رہا تھا:"اگر انسان میں بچے کا عنصر نہ ہو تو وہ عفریت بن کر رہ جائے"
ایلی سوچ رہا تھا کہ کیا وہ سبھی بچے تھے۔ کیا نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ قدرت کی دین تھی۔ کیا زاویہ نگاہ میں معمولی تبدیلی اتنا عظیم فرق پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے روبرو پاگ بابا کھڑا چلا رہا تھا:
"میں کون ہوں۔کوئی بھی نہیں۔کوئی بھی نہیں۔"
 

نوید ملک

محفلین
ایلی کے دل میں عجیب و غریب خیالات تھے۔ کسی وقت تو اس کی وحشت اس حد تک بڑھ جاتی کہ وہ خود کو کافکا کا بیٹا مارفیس سمجھنے لگتا۔پھر وہ سوچ میں پڑ جاتا۔کیا میں پاگل ہو رہا ہوں۔اس خیال پر وہ بالکل گھبرا جاتا۔
بمبئی میں ایلی کے دھندلے میں صرف مانی دھوپ کی ایک شعاع تھی۔مانی میں زندگی تھی۔چمک تھی۔جوش تھا۔شوق تھا۔ اس کے نقطئہ نظر میں صحت تھی۔بے پروائی تھی۔
وہ بمبئی کوشوق سے دیکھ رہا تھا۔ اسکی نگاہ میں خوبصورت عمارتیں گتے کے ڈبے نہ تھیں۔حیسن عورتیں درزیوں کے ماڈل نہ تھے۔ اس کی نگاہ میں عورتیں عورتیں تھیں اور اس قدر حیسن بھی نہ تھیں کہ انہیں دیکھ کر وہ اپنی حیثیت کھو دیتا۔حیسن عورتیں۔۔۔۔۔۔۔خوب تھیں۔اچھی خاصی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ اس قابل تھیں کہ ان سے دل بہلایا جائے۔
مانی جوان تھا۔ اس کی طبیعت میں بلا کی رنگینی تھی۔ وہ اپنی حیثیت کو کمتر نہیں سمجھتا تھا اور عملی طور پر کچھ کرنے کو بے تاب تھا۔اس میں جھجک نہ تھا۔ ایلی کبھی جوانی سے واقف نہ ہوا تھا۔احساس کمتری کا مارا ہوا۔زندگی کی راہ پر تھکا ہارا ہوا۔گزشتہ تلخیوں کی وجہ سے اس کی طبیعت ڈر اور گھبراہٹوں سے اٹی پڑی تھی۔ اس کے جذبات اور ذہن میں قطعی طور پر ہم آہنگی نہ تھی۔
مانی اور ایلی کو بمبئی میں رہنے کے لئے ایک ایسی جگہ ملی جہاں شاعر اور مصنف رہتے تھے۔ ایلی کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ اسے ادیبوں کے ساتھ رہنا پڑا تھا۔ وہ عجیب لوگ تھے۔بات کرنے سے پہلے سوچتے نہ تھے۔بات کرنے کے بعد بھی انہوں نے کبھی نہ سوچا تھا۔ کہ اس بات کا کیا اثر ہوا ہے۔ وہ اثر یا رد عمل سے بے نیاز تھے۔ انہیں یہ خیال نہ تھا کہ دوسرا کیا کہے گا۔کیا سوچے گا۔آیا اسے بات بری لگے گی۔وہ دوسروں کے احساسات سے بےگانہ تھے۔ دل کی بات کو چھپانے کے قائل نہ تھے۔وہ خود شعوری سے بےگانہ تھے۔ایلی نے محسوس کیا کہ وہ زندگی سے ہم آہنگ ہیں۔ ان میں بہاؤ ہے۔رکاوٹ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ محسوس کرتا تھا۔کہ وہ خود پسند ہیں۔ اپنی اہمیت کے چراغ جلانے کے شوقین ہیں اور دنیا کو اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں۔
ان دنوں بمبئی میں ہندو مسلم فسادات جوبن پر تھے۔چھرا گھونپنے کی وارداتیں عام تھیں۔ اس کے علاوہ آتشزدگی کی وارداتیں بھی ہوتی تھیں۔مسلمان اور ہندو علاقوں میں اعلانیہ وارداتیں ہوتی تھیں لیکن کبھی کبھی سول لائنز کے علاقے میں بھی کوئی واردات ہو جاتی اور کچھ دیر کے لئے وہ علاقہ ویران دکھائی دیتا۔ پھر جلد ہی لوگ اسے بھول جاتے اور پھر سے آمدورفت شروع ہو جاتی۔
ایلی خوف کے مارے کبھی ہندو علاقوں میں نہیں گیا تھا۔ سول لائنز میں گھومتے ہوئے بھی اس پر خوف مسلط رہتا۔لیکن مانی بے نیاز تھا۔ اس نے چلتے ہوئے کبھی اپنے اردگرد نہ دیکھا تھا۔ وہ اپنی ہی دھن میں چلے جاتا۔چلتے ہوئے کوئی گیت گنگناتا رہتا۔ ایلی کو اس کی بے پروائی پر غصہ آجاتا اور وہ ہر وقت مانی سے بحث کرتا۔اسے گھورتا۔
ابھی انہیں بمبئی پہنچے دو ماہ ہی گزرے تھے کہ پریتماں کے نگارخانے کے دروازے پر چار ایک وارداتیں ہو گئیں۔ غنڈوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ کہ وہ نگار خانے کو آگ لگا دیں گے چونکہ پریتماں کا خاوند مسلمان تھا۔نتیجہ یہ ہوا ہے نگار خانہ بند کر دیا گیا۔
اس کے بعد مانی اور ایلی کی تمام تر توجہ فلمی پرچے پر مبذول ہو گئی۔ جو وہ شائع کرنے کا منصوبہ لیکر آئے تھے۔ مانی انٹرویوز میں مصروف تھا چونکہ وہ بے دھڑک ہر علاقے میں جا سکتا تھا اور لوگوں سے مل سکتا تھا۔ اس سلسلے میں ایلی کا خوف سدراہ تھا۔
یونہی چھ مہینے گزر گئے۔

ریڈیو پاکستان
اگست سنتالیس میں مانی کے پبلشر نے انہیں بلا بھیجا تاکہ وہ چند امور کا تصفیہ کر جائیں۔ اس بلاوے پر ایلی مسرور تھا چونکہ اس کا جی چاہتا تھا کہ عالی سے ملے۔ اسے خیال تھا کہ عالی اس کی غیر حاضری پر متعجب ہوگا۔سوچتا تھا کہ پہلے ابو چلا گیا۔پھر امی چلی گئی اور ابو آگیا۔ اور اب دونوں نہ جانے کیوں اسے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مانی انٹرویوز کے چکرمیں ایسا پھنسا تھا کہ اس کا جی نہیں چاہتا تھا کہ وہ لاہور جائے۔اسے فلمی زندگی سے بے حد دلچسپی تھی۔فلمی ستاروں ،ناقدوں اور فلمسازوں سے مل جل کر اس نے اپنی ایک حیثیت پیدا کر لی تھی۔ اس لئے مانی ایلی کے ساتھ لاہور جانے پر رضامند نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایلی لاہور جاکر بات چیت طے
 

نوید ملک

محفلین
کر لے۔جب تک وہ خود بمبئی میں کام جاری رکھے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایلی لاہور آگیا۔
ابھی ایلی نے لاہور میں قدم رکھا ہی تھا کہ لاہور اور امرتسر کے درمیان آمدورفت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔گاڑیوں کی آمدورفت ختم ہو گئی۔بسوں کا چلنا موقوف ہو گیا۔
ایلی نے اس خبر کو سن کر خصوصی پریشانی محسوس نہ کی۔ہاجرہ عالی فرحت اور علی احمد کے کنبے کے تمام افراد علی پور میں محفوظ تھے اور علی پور محفوظ ترین مقام تھا البتہ لاہور کے متعلق مسلمان پریشان تھے اور ریڈ کلف ایوارڈ کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔
لاہور شہر میں ویرانی چھائی ہوئی تھی۔سڑکیں خالی پڑی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے تھے۔ رات کے وقت گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیتیں اور پھر موت کی سی خاموشی چھا جاتی۔پھر کسی مجمع کا شوروغل بلند ہوتا۔لوگ چنگھاڑتے چلاتے چیختے اور پھر خاموشی چھا جاتی۔صبح سڑکوں کو یہاں وہاں لاشیں دکھائی دیتیں۔ انہیں دیکھ کر اپنے قدم راہ گیر اور تیز کر دیتے تھے۔سپاہی واردات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر منہ موڑ لیتے جیسے انہیں علم ہی نہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔
مسلمانوں کی بے تابی بڑھ رہی تھی۔بڑھتی جا رہی تھی کہ 14 اگست کا دن قریب آرہا تھا۔ اس روز پاکستان کا قیام عمل میں آنے والا تھا اور ایوارڈ کا اعلان ہونے والا تھا۔
اس شام شہر پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔بازار سنسان پڑے تھے۔ سڑکیں ویران تھیں۔لوگ گھروں میں سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔بازاروں میں مسلح فوج ہاتھوں میں مشین گنیں لئے گھوم رہی تھی۔سڑکوں پر فوجی ٹرک کھڑے تھے۔
ایلی ریڈیو کھول کر بیٹھا تھا۔
گھڑی نے بارہ بجا دئیے۔ایلی کا دل دھک سے رہ گیا۔بارہ بجے اعلان ہونے والا تھا۔
آج وہ محسوس کر رہا تھا۔جیسے وہ اعلان اس کی زندگی کا اہم ترین واقعہ ہو۔جیسے آج اس کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہو۔وہ یہ بھول چکا تھا کہ وہ مذہبی تعصب سے بلند و بالا ہے۔ وہ یہ بھول چکا تھا کہ قیام پاکستان سے بے گانہ ہے۔وہ ہندوستان اور عوام کی بہتری کے فلسفے کو فراموش کر چکا تھا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ بذات خود پاکستان ہے اور اس روز حدود طے ہونے والی تھیں۔وہ محسوس کر رہا تھا جیسے وہ ایک بادشاہ ہو اور پاکستان کے قیام کا اعلان دراصل اس کی رسم تاجپوشی کا اعلان تھا۔ اس روز اسے معلوم ہونا تھا کہ اس کی قلمرو کہاں سے کہاں تک ہو گی۔لیکن وہ خوش نہ تھا۔ایک ان جانی اداسی اور پریشانی اس پر مسلط تھی جیسے اسے یقین نہ ہو کہ اس کی قلمرو اسے مل جائے گی۔ وہ مضطرب تھا۔بے حد مضطرب۔
دفعتاً حاجی صاحب اس کے روبرو آ کھڑے ہوئے۔ ان کی گردن ہل رہی تھی۔
"وقت آئے گا۔" وہ مسکرائے۔ "انشاءاللہ۔" وہ بولے۔
پاگ بابا چلانے لگا: وہی کرنے والا ہے۔وہی کرتا ہے۔اسی کا کام ہے۔وہی جانے۔ میں کون ہوں۔میں تو کچھ بھی نہیں۔"
پھر ایک رومی ٹوپی ابھر رہی تھی۔ابھر رہی تھی۔ اس کے پیچھے کنواں گڑگڑا رہا تھا۔سفید چادر میں لپیٹی ہوئی مسجد سجدے میں پڑی تھی۔
رومی ٹوپی والے نے مڑ کر دیکھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ اس پر پھیلتی ہوئی مسکراہٹ کو دیکھ کر دراز قد نے آنکھیں بند کر لیں۔
"الحمدللہ۔ الحمدللہ۔" مدھم سی سرگوشی ابھری۔
ریڈیو نے مہرسکوت توڑ دی۔
طبل بجنے لگا۔
جیسے دور بہت دور ایک دل دھڑک رہا ہو۔
وہ مدھم دھڑکن قریب آ رہی تھی۔اور قریب۔اور قریب۔
"ہم ریڈیو پاکستان سے بول رہے ہیں۔"
اعلان ایلی کے بند بند میں گونجا۔
پھر دھڑکن بن کر اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ ا سکا سر بھن سے اڑ گیا۔ جیسے کسی نے بارود کو آگ دکھا دی ہو۔
پھر اس کے بدن پر چیونٹے رینگ رہے تھے۔چیونٹے ہی چیونٹے۔
پھر کسی نے ا سکے سر پر تاج رکھ دیا۔
"پاکستان زندہ باد۔" کوئی چلایا۔
ا سکے روبرو دنیا بھر کے مسلمان قطاروں میں کھڑے تھے اور ہر مسلمان کے سر پر تاج تھا۔
 

نوید ملک

محفلین
عالی عالی
اگلے روز جب اسے معلوم ہوا کہ ضلع گرداسپور ہندوستان میں شامل ہو گیا ہے۔تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
اسے یقین نہ آتا تھا":یہ کیسے ہو سکتا ہے؟"وہ آپ ہی آپ چلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"نہیں نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔کیسے ہو سکتا ہے یہ؟"
پھر وہ باہر نکل گیا۔نیچے بازار میں دوکانوں پہ کھڑے لوگ گورداسپور،گورداسپور چلا رہے تھے۔
نکڑ پر حلوائی دودھ کے کڑاہے میں چمچہ ہلاتے ہوآپ ہی آپ گنگنا رہا تھا: " پر بھائی جی۔۔۔۔۔۔۔ گورداسپور کا کیا ہوگا؟"۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔بھاگے جا رہا تھا۔
"بھوں بھوں۔" کار چیخ رہی تھی۔وہ رک گیا۔
"کیوں جی۔" ڈرائیور نے سر نکالا۔ "گورداسپور کا کیا بنا۔"
"کیا بنا۔" ایلی نے دہرایا۔
"وہاں میرے بچے ہیں۔" ڈرائیور نے ایک عجیب سی نگاہ سے اسکی طرف دیکھا۔
کار چل پڑی۔ اس کے پیچھے عالی بیٹھا تھا۔"ابو۔ابو۔" وہ ہاتھ اٹھائے رو رہا تھا۔"ابو۔ابو۔" پھر بہت سے لوگ اس کے گرد آ کھڑے ہوئے۔
"کون ہے تو بابو۔" وہ چلائے۔ وہ غنڈے تھے۔
ایلی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔
"کہاں جا رہا ہے تو؟" وہ اسے گھورنے لگے۔
"علی پور۔" وہ بولا۔" وہاں میرا بچہ ہے۔میری ماں ہے۔میرے سبھی ہیں۔"
وہ پیچھے ہٹ گئے۔
"پیدل جائے گا۔" ایک لڑکا چلایا۔
"اے ہٹ جا۔" کسی نے تڑاخ سے لڑکے کے منہ پر تھپڑ مارا۔"جانے دے۔" غنڈا چلایا۔
ریلوے سٹیشن ویران پڑا تھا،چند ایک لوگ پلیٹ فارم پر بیٹھے اونگ رہے تھے۔دیر تک وہاں گھومتا رہا۔گھومتا رہا۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا۔"بابو جی بابو جی۔" وہ وردی والے بابو کو دیکھ کر بولا۔"بابو جی بابو جی۔امرتسر کو گاڑی جائے گی کیا؟"
بابو رک گیا۔اور چونکے ہوئے انداز سے بولا:گاڑی؟"
"جی۔" ایلی نے کہا۔ "امرتسر گاڑی جائے گی کیا؟"
"اوہ۔" بابو چانک کر بولا۔"مطلب ہے گاڑی۔"
"جی ہاں۔" ایلی بولا۔"امرتسر کو۔"
اس نے نفی میں سر ہلایا۔"گاڑی نہیں جائے گی۔"
"نہیں جائے گی؟"
بابو نے سرہلا دیا۔ اس کی آنکھیں پرنم تھیں۔
دو روز وہ ریلوے سٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر گھومتا رہا۔بسوں والے اس کے سوال کا جواب نہیں دیتے تھے۔کوئی بھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا تھا۔
"میں تمہیں کرایہ دوں گا۔جو مانگو گے دوں گا۔" وہ چلاتا۔
وہ اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے اور سر ہلا دیتے۔
بسوں کے اڈے سے وہ پھر سٹیشن پر جا پہنچا۔
حتٰی کے ایک روز گاڑی آ گئی۔
"یہ گاڑی امرتسر جائے گی۔" وہ چلایا۔
"بابو نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔"یہ امرتسر سے آئی ہے"۔
"کیا یہ واپس جائے گی" وہ چلایا۔
بابو نے خاموشی سے اس کی طرف دیکھا۔" جا کر دیکھ لو۔"
ایلی گاڑی کی طرف بھاگا۔شاید گارڈ اسے بتا سکے۔
وہ ڈبے کی طرف لپکا۔
ڈبے میں چاروں طرف خون کے چھینٹے لگے ہوئے تھے۔سرخ گٹھڑیاں ادھر ادھر پڑی تھیں۔
 

نوید ملک

محفلین
ایلی کی چیخ نکل گئی۔
"یہ گاڑی امرتسر سے آئی ہے۔ یہ گاڑی امرتسر سے آئی ہے۔" چاروں طرف شور مچ گیا۔
پھر وہ بھاگ رہا تھا۔بھاگا جا رہا تھا۔
پھر اسے معلوم ہوا کہ علی پور ٹرک لے جانے کے لئے اسے دفتر سے پرمٹ حاصل کرنا ہے۔
جب وہ پرمٹ دفتر پہنچا تو وہاں بہت بھیڑ تھی ۔لوگ دیوانہ وار دفتر کے گرد گھرم رہے تھے۔
سارا دن وہ وہاں گھومتا رہا لیکن کسی نے اس کی بات نہ سنی۔جب دفتر بند ہو گیا تو وہ ایک بابو کے سامنے چلانے لگا:
"پرمٹ لینا ہے؟" بابو نے پوچھا۔
"جی۔"
"کہاں کا؟"
"جی علی پور کا۔"
"ہوں۔ ٹرک ہے تمہارے پاس۔"
"جی نہیں۔" وہ بولا۔
بابو قہقہہ مار کر ہنسا۔"تو پرمٹ کس کا لو گے؟"
"لیکن۔۔۔۔۔۔۔" ایلی بولا۔
"بھائی صاحب۔" بابو کہنے لگا۔ "پہلے ایک ٹرک حاصل کرو جو ادھر جانے کو تیار ہو۔ پھر یہاں آکر پرمٹ لو۔ اور علی پور لے جاو۔ایسے غم نہ کھاؤ۔علی پور ابھی تک محفوظ ہے۔"
پھر کئی ایک دن وہ ٹرکوں کے پیچھے گھومتا رہا۔ادھر جانے کے لئے کوئی ٹرک رضامند نہ ہوتا تھا۔
"بھائی صاحب۔ امرتسر کی طرف جانے میں جان کا خطرہ ہے۔ سالے ٹرک کو آگ لگا دتے ہیں وہاں امرتسر میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔"
آخر اسے ایک ٹرک مل گیا۔
"دیکھو بابو۔" ٹرک والا بولا۔" جتنے دن کھڑا ہے سو روپیہ فی روز ہوگا اور جس روز پرمٹ مل گیا دوسو جانے کا اور دو سو آنے کا یعنی چار سو لگے گا۔"
ایلی نے محسوس کیا کہ پرمٹ حاصل کرنے سے پہلے اسے روپیہ کا انتظام کرنا ہے۔لاہور میں اس کے گرد وحشت ناک مناظر تھے۔مکانات جل رہے تھے۔سڑکوں پر خون کے چھینٹے پڑے ہوئے تھے۔لوگ گٹھڑیاں اٹھائے ہوئے آ رہے تھے۔عورتیں چیخ رہی تھیں۔ امرتسر سے آئے ہوئے لوگ اشتعال بھرے نعرے لگا رہے تھے لیکن وہ ان مناظر سے بےگانہ تھا۔اس کی آنکھوں تلے عالی دونوں ہاتھ اٹھائے رو رہا تھا۔ہاجرہ کے چہرے کی جھریوں پر آنسووں کے قطرے بہہ رہے تھے۔
صبح سویرے وہ پرمٹ کے دفتر میں جا پہنچا۔سارا دن وہاں دھکے کھاتا اور پھر جب دفتر بند ہو جاتا تو ٹرک والے کے لئے سو روپیہ اکٹھا کرنے کی دوڑ دھوپ میں لگ جاتا۔
چھ دن گزر گئے۔وہ ٹرک والے کو چھ سو روپیہ ادا کر چکا تھا۔اب اس پر مایوسی اور ناامیدی چھا چکی تھی۔پرمٹ دفتر میں وہ ایک کونے میں بیٹھا تھا۔
اس کے دل میں کوئی رو رو کر تھکا ہوا بچہ بلک رہا تھا۔

ہولڈ اپ
پھر کسی نے اس کے شانے ہر ہاتھ رکھ دیا۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔سامنے شیر علی کھڑا تھا۔
"آپ یہاں۔" وہ بولا۔
اس نے شیر علی کو پہچان لیا۔ "تم یہاں؟" اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
"میں یہاں ملازم ہوں۔" وہ بولا۔
"اور وہ سب۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ " ایلی نے پوچھا۔
"وہ سب علی پور ہیں۔" شیر علی بولا۔
"پرمٹ نہیں ملا۔" ایلی نے مایوسی بھرے انداز سے کہا۔
"مجھے ایک ٹرک مل گیا ہے۔" شیر علی بولا۔ "آج ہی محکمہ والوں نے دیا ہے۔"
"مل گیا ہے۔" ایلی چلایا۔اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
"ہاں مل گیا ہے۔صرف ایک بندوق والا سپاہی اور ایک ڈرائیور۔"
"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ " ایلی اٹھ بیٹھا۔
اسی روز وہ فوجی ٹرک میں بیٹھے علی پور جا رہے تھے۔
ٹرک کے پردے بند تھے۔ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے زیر لب قرآن کی آیات پڑھ رہا تھا۔سپاہی نے بندوق کی نالی پردے سے باہر نکال رکھی تھی۔اور وہ سڑک کا جائزہ لے رہا تھا۔
شیر علی چپ چاپ ڈرائیور کے پاس بیٹھا تھا۔ ایلی ٹرک کے اندر پچھلی سیٹ پر گٹھڑی بناہوا تھا۔اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
"اللہ اپنا فضل کرے۔" ڈرائیور چلایا۔ "بسم اللہ۔" اس نے ایکسیلیٹر کھولتے ہوئے کہا۔
ہم امرتسر میں داخل ہو رہے ہیں۔ذرا دھیان سے کوئی باہر نہ جھانکے پردے کے پیچھے نہ بیٹھو۔گولی سے بچاؤ نہ ہو گا۔"
"روکنا نہیں۔" سپاہی بولا۔ "چاہے کچھ بھی ہو۔"
"روکنا۔" ڈرائیور بولا۔ "ہم چالیس کی سپیڈ پر چلیں گے۔چاہے کوئی بھی سامنے ہو۔"
"اللہ مالک ہے۔" سپاہی بولا۔
ٹرک جھول رہا تھا۔ ربڑ کے گیند کی طرح اچھل رہا تھا۔
دور بہت سے لوگ چلا رہے تھے۔نعرے مار رہے تھے۔لمبی سنسنی خیز چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔
وہ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ وقت رینگ رہا تھا۔
دفعتاً سپاہی چلایا۔ "وہ دیکھو۔ ریل کی پٹڑی کے دونوں طرف سکھوں کے جتھے ہیں۔"
"وہ دیکھو۔" وہ پھر چلایا۔ " وہ درختوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔"
"اندھے ہو گئے ہیں اندھے۔" ڈرائیور بولا۔ "یہ سکھ۔"
"سر پر خون سوار ہے۔" سپاہی نے کہا۔
"لیکن ریل کی پٹڑی پر کیوں۔سڑک پر کیوں نہیں۔" شیر علی نے پوچھا۔
"ضرور کوئی بات ہے۔" سپاہی نے کہا۔
پھر سپاہی اور ڈرائیور آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ شیر علی اور ایلی خاموش بیٹھے تھے۔
"لو چار میل رہ گیا علی پور۔" ڈرائیور بولا۔
"چار میل۔" سپاہی بولا۔ " ذرا روکو۔" وہ چلایا"روکو۔"
"پاگل ہو گئے ہو۔"ڈرائیور بولا۔
سپاہی نے بندوق کی نالی ڈرائیور کی طرف پھیر دی۔ " میں کہتا ہوں۔روکو۔سنا نہیں تم نے۔"
اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔آواز تھرا رہی تھی۔ "روکو۔" گاڑی رک گئی۔سپاہی نے بندوق اٹھائی اور باہر چھلانگ لگاتے ہوئے بولا۔ "میرا انتظار کرو۔میں ابھی آیا۔جانا نہیں۔" اور وہ بھاگتا ہوا درختوں میں غائب ہو گیا۔
ڈرائیور نے بے بسی سے ایلی اور شیر علی کی طرف دیکھا۔دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ایلی کے ذہن میں وہی خلا کھول رہا تھا۔وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔عالی کی چیخیں مدھم پڑ چکی تھیں۔اس کی شکل دھندلا گئی تھی۔ہر چیز پر دھندلکا چھائے جا رہا تھا۔
"یہ تو سمجھو ہولڈ آپ ہو گیا۔" ڈرائیور بولا۔
انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سپاہی انہیں چھوڑ کر کیوں چلا گیا تھا۔کہاں چلا گیا تھا۔کہیں وہ سکھوں کے ساتھ تونہیں مل گیا تھا۔ ان کو یوں بے یارومددگار چھوڑ کر چلے جانا۔ایسی جگہ جہاں چاروں طرف دشمن تھے۔
"چلو لے چلو۔" شیر علی نے ڈرائیور سے کہا۔ "اب تو علی پور قریب ہے۔"
"اونہوں۔" ڈرائیور بولا۔ "اس کو یہیں چھوڑ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسلمان ہے بھئی۔کیسے چھوڑ جائیں۔"
سامنے ایک ویران گاؤں تھا۔گاؤں کے دو ایک مکان جلے ہوئے تھے۔ ان میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔
اس کے اردگرد کچھ سائے سے حرکت کر رہے تھے۔دفعتاً ڈرائیور اٹھا۔ اس نے لوہے کی دو بڑی بڑی سلاخیں اٹھائیں۔
"یہ لو۔" وہ بولا۔ ایک سلاخ ایلی کے ہاتھ میں تھما دی۔ "یہ لو یہ۔" اس نے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ "اسے پردے سے باہر نکال رکھو۔"
پھر اس نے دوسری سلاخ شیر علی کے ہاتھ میں تھما دی۔ " وہ سمجھیں گے کہ بندوق کی نالیاں باہر نکلی ہوئی ہیں۔مطلب یہ ہے کہ انہیں پتہ نہ چلے کہ ہم نہتے ہیں۔"
"جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا۔" اس نے ٹرک کی جالی مضبوطی سے ہاتھ میں پکڑ لی۔ "انشاءاللہ دو چار کو مار کر مریں گے۔"
 

نوید ملک

محفلین
دیر تک وہ بیٹھے رہے۔صدیاں بیت گئیں۔
"وہ آ رہے ہیں۔ خبردار۔" ڈرائیور کی آواز سنائی دی۔ "خاموش۔"
سامنے چار سکھ ہاتھوں میں لٹھ اٹھائے ہوئے ان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ٹرک کے قریب آکر وہ رک گئے۔
"قریب آئیں تو گولی مار دو۔" ڈرائیور چلایا۔گولی مار دو سارجنٹ۔" وہ چلایا۔ "ایلی نے لوہے کی سلاخ کو اور باہر نکال دیا۔
"سارجنٹ۔" ڈرائیور چیخنے لگا۔سنتے ہو سارجنٹ۔"
یہ سن کر سکھ بھاگ گئے۔
ڈرائیور ہنسنے لگا۔ "بزدل بھڑوے۔" وہ بولا۔ " ڈر گئے۔"
ایلی کی پیشانی پسینہ میں شرابور تھی۔
دفعتاً دور سے سپاہی کی آواز سنائی دی۔ "آگیا گرایاں آگیا۔اللہ اکبر۔" اس نے نعرہ مارا۔وہ بندوق اٹھائے بھاگا آرہا تھا۔"اللہ ہواکبر۔" اس کا نعرہ دور تک گونج رہا تھا۔ "چلو چلو۔ سٹارٹ کرو۔" وہ قریب آکر بولا۔ "وہ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔"
ٹرک چل پڑا۔
"کیا بات تھی؟" ڈرائیور نے پوچھا۔
"گیا تھا رپورٹ کرنے۔"
"کہاں گیا تھا۔"
"بانڈری فورس کا ہیڈکوارٹر ہے یہاں۔وہاں گیا تھا۔"
"کہاں ہے ہیڈکوارٹر۔"
"یہاں سے تین میل دور۔" سپاہی نے کہا۔ "وہ سامنے اس جھنڈ سے پرے۔"
"کیوں گئے تھے۔"
"میں نے سوچا۔ یہ سکھ جو ریل کی لائن پر کھڑے ہیں۔ضرور رفیوجیوں کی گاڑی آنے والی ہے تو میں نے سوچا مسلمانوں کی ساری گاڑی کٹ جائے گی۔"
"تو پھر۔" ڈرائیور نے پوچھا۔
"پھر مجھے پتا تھا کہ یہاں بانڈی فورس فرنٹیر فورس کی ہے۔ سب مسلمان ہیں اس لئے میں نے کہا۔ مہاجر گاڑی کو اللہ کے حکم سے بچاؤں گا۔فورس کا صاحب انگریز تھا۔میں نے سیلوٹ مارا۔میں نے کہا حضور ریل کی پٹڑی پر رفیوجی گاڑی کو سکھوں کے جتھے روک کر مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔"
"گاڑی تو ابھی آئی ہی نہیں۔" ایلی بولا۔
"تمہیں کیا معلوم بابو۔" سپاہی بولا۔ " ایسا نہ کہتا تو وہ سپاہی کیسے بھیجتا جو یہ کہتا گاڑی آنے والی ہے تو کون سنتا میری بات۔"
"تو پھر؟" ڈرائیور نے پوچھا۔
"صاحب ابھی سوچ رہا تھا کہ جوانوں نے سن لیا اور وہ حکم ملنے سے پہلے ہی رفلیں لے کر بھاگے، وہ سب آ رہے ہیں سکھوں کے جتھے بھاگ رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو گاڑی بچ جائے گی۔"
"انشاءاللہ۔" ڈرائیور بولا۔
"اگر ہم پر یہاں حملہ ہوجاتا۔" شیر علی نے پوچھا۔
"یہاں تو صرف تین مرتے۔" سپاہی بولا۔ "وہاں تو سینکڑوں کی بات تھی۔"
"اللہ مالک ہے۔" ڈرائیور بولا۔
ایلی نے حیرانی سے سپاہی کی طرف دیکھا۔ " اور اگر تمہیں گولی مار دیتے تو؟" اس نے پوچھا۔
"ایک نہ ایک دن مرنا ہی ہے بابو۔مار دیتے۔" وہ مسکرایا۔ "اپنا کیا ہے۔ایک نہ ایک دن گولی سے ہی مرنا ہے۔پر وہ مسلمان رفیوجی کی گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ رک گیا۔
ایلی کی نگاہ سے گویا ایک پردہ سا ہٹ گیا۔
عالی پیچھے ہٹ گیا۔
اس کی جگہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے بچے اس کے سامنے آکھڑے ہوئے۔انہوں نے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا ابوابو۔بیسیوں آوازیں بلند ہوئیں۔ سینکڑوں بوڑھی عورتیں اس کی طرف امید بھری نگاہ سے دیکھ رہی تھیں۔

جاؤ جاؤ
انہوں نے محلے پر آخری نگاہ ڈالی۔
وہ آصفی محلے کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ رہے تھے۔
محلہ ویران پڑا تھا۔کھڑکیاں بند تھیں۔دیواریں چپ چاپ ایستادہ تھیں۔
محلے کا میدان خالی پڑا تھا۔کچھ لوگ جا چکے تھے۔کچھ اداس کھڑے جانے والوں کو دیکھ رہے تھے۔محلے والوں کی زبانیں گویا تالو سے چمٹ گئی تھیں۔ ان کی قوت گویائی آنکھوں میں ڈوب رہی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے علی احمد کے گھرانے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
ایلی نے آخری نگاہ ڈالی۔اوپر چوبارے پر شہزاد کھڑی تھی۔پھر وہ سب ٹرک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ علی احمد چپ چاپ سر کو ہاتھوں میں تھامے ہوئے نہ جانے کدھر دیکھ رہے تھے۔
ہاجرہ کا چہرہ بھیانک ہو رہا تھا۔عالی حیرانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔شمیم اور اس کی بیٹیاں چپ چاپ بیٹھی تھیں۔صرف راجو کے چہرے پر ہمت اور امید کی جھلک تھی۔نصیر دانتوں میں تنکا چلا رہا تھا۔رابعہ ہاتھ مل رہی تھی۔فرحت کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اس کے بچے سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔
ٹرک چلے جا رہا تھا۔
ریل کی سڑک کے دونوں رویہ فوجی بندوقیں لئے کھڑے تھے۔
دفعتاً سپاہی چلایا" "اللہ اکبر"
سب سپاہی کی طرف دیکھنے لگے۔
"رفیوجی گاڑی۔رفیوجی گاڑی۔" وہ بچوں کی طرح تالیاں بجا رہا تھا۔
انہوں نے پردہ اٹھا کر دیکھا۔
سامنے ریل کی پٹڑی پر مسلمانوں کی پہلی رفیوجی گاڑی آرہی تھی۔ اس کے ساتھ لوگ یوں چمٹے ہوئے تھے جیسے گڑ پر چیونٹیاں۔ وہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔جیسے اس عظیم بوجھ تلے ہونک رہی ہو۔
"اور گرایاں۔" سپاہی چلانے لگا۔ "آج اگست کا آخری دن ہے۔"
ڈرائیور نے سپاہی کی طرف تعجب سے دیکھا۔پھر وہ بولا:
کل مسلمان بانڈری فورس یہاں سے چلی جائے گی۔"
"چلی جائے گی۔" علی احمد بولے۔
"اور اور۔" ڈرائیور بولا۔ " چلی جائے گی تو۔۔۔۔۔۔"
"سکھ دھاندلی مچا دیں گے۔" سپاہی نے جواب دیا۔
"اور علی پور کا کیا بنے گا؟"
"وہ تو بانڈری والوں کی وجہ سے بچا ہوا تھا۔" سپاہی بولا۔
"گردپتن تو صاف ہوگیا۔" ڈرائیور نے کہا۔
ایلی نے جھرجھری لی۔
ایک بھیانک خاموشی چھا گئی۔
"ارے بھائی۔" ڈرائیور نے ایک چیخ سی ماری۔
سبھی ڈرائیور کی طرف دیکھنے لگے۔
ٹرک رک گیا۔
وہ سب سہم گئے۔شاید حملہ ہوگیا۔شاید ٹرک خراب ہو گیا۔
سپاہی نے علی کا نعرہ مارا اور بندوق اٹھائے باہر چھلانگ لگا دی۔
وہ پردے ہٹا کر دیکھنے لگے۔
سڑک پر یہاں وہاں لاشیں پڑی تھیں۔ چاروں طرف خون کے چھینٹے اڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان پاگ بابا چھاتی نکالے گردن اٹھائے بے پروائی اور بے نیازی سے ادھر سے ادھراور ادھر سے ادھر یوں ٹہل رہا تھا جیسے جہاز کا کپتان اردگرد کا جائزہ لے رہا ہو اور جہاز کے ملاحوں کو احکامات جاری کر رہا ہو۔
"بابا۔۔۔۔۔۔۔۔" ڈرائیور چلایا۔
سپاہی بابا کو دیکھ کر بھونچا رہ گیا۔
"بابا۔" ڈرائیور پھر چلایا۔
بابا دور نہ جانے کہاں دیکھ رہا تھا۔
"آو باؤ چلیں۔" سپاہی چلایا۔ "پاکستان چلیں۔"
بابا نے سپاہی کی طرف دیکھا۔"چلیں۔" وہ بولا۔ "سب نے چلے جانا ہے۔ سب نے۔ہاں تو جاؤ۔جانا ہے تو جاؤ۔ جس نے جانا ہے جائے۔"
"تم آ جاؤ بابا۔" ڈرائیور چلایا۔
 

نوید ملک

محفلین
بابا اپنی ہی دھن میں چلا رہا تھا: "جانا ہے توجاؤ۔چلے جاؤ۔میں کیا کروں۔میں کیا کروں۔وہی کرنے والا ہے۔وہی کرتا ہے۔وہی مارتا ہےوہی زندہ کرتا ہے۔"
"لیکن بابا۔" سپاہی چلایا۔ "وہ تمہیں مار دیں گے۔"
"مار دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" بابا کے ہونٹوں ہر ہنسی آ گئی۔ " وہ کہاں ہیں۔کہاں ہیں وہ کہاں ہیں وہ۔ کوئی بھی تو نہیں صرف وہی ہے۔ صرف وہی۔یہاں وہاں ہر جگہ ہر جگہ اور کون ہے؟"
"اسے زبردستی اٹھا لو۔" ڈرائیور چیخنے لگا۔ "اٹھا لو۔ٹرک میں ڈال دو۔"
بابا نے ایک غضب ناک نگاہ سپاہی پر ڈالی۔
"مت کرو۔مت کرو۔" ہاجرہ بولی۔ "بابا کو کچھ نہ کہو۔"
بابا نے ایلی کی طرف دیکھا۔ایلی نے جھک کر سلام کیا۔

حضور حضور
بابا نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور ٹرک کے قریب آکھڑا ہوا:
"بولو کیا نہیں کیا۔کیا نہیں کیا۔" وہ چلایا۔ "سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔کہاں کہاں حفاظت نہیں کی۔کہاں کہاں خیال نہیں رکھا۔کیا نہیں کیا۔کیا نہیں کیا۔ بولو بتاؤ۔"
"وقت آگیا ہے۔وقت آگیا ہے۔" وہ پھر بولنے لگا۔ "جاؤ جاؤ۔تم جاتے کیوں نہیں۔وقت آگیا ہے۔دور دور۔جاؤ جاؤ۔ مسجد کے پاس کنویں کے پاس دونوں بیٹھے ہیں۔اللہ نے معاملہ اس کے ہاتھ میں دے دیا وہ جس کے ہاتھ میں چاہے دیدے۔میں کیا کروں۔میں کیا کروں۔وہ جانے اور وہ جانے۔وہ دینے والا وہ لینے والا۔جاؤ جاؤ۔"
ڈرائیور نے ٹرک سٹارٹ کر دیا۔سپاہی پھدک کر اوپر چڑھ گیا۔
"آجاؤ بابا۔" سپاہی آخری بار چلایا۔
بابا نے قریب ہی سے ایک لاٹھی اٹھائی اور دوسری طرف منہ پھیر کر اسے لہرانے لگا۔ "ہٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہٹ جاؤ۔" وہ پھر لاٹھی پھینک کر ہنسنے لگا۔ "مجھے کیا ہے مجھے کیا ہے۔ کرنے والے تم ہو۔ تم جانو۔ میں کیا کروں۔ میں کیا کروں" وہ چلا رہا تھا۔
ٹرک روانہ ہو چکا تھا۔
دفعتاً ایلی کے روبرو حاجی صاحب آکھڑے ہوئے۔ " وقت آئے گا۔ وقت آئے گا۔ وہ مسکرائے۔ "الحنمدللہ۔ اللہ اچھا کرے گا۔وقت آئے گا۔
شہزاد کھڑکی سے چلا کر بولی" میں رکاوٹ تھی۔میں دور ہوگئی۔میں دور ہوگئی۔
دلی کا عالم مولوی ہنس رہا تھا۔ "سب اس کا پرتو ہے۔ سب اس کی شعبدہ بازی ہے۔ وہ بڑا شعبدہ باز ہے۔سب اسکی کا کھیل ہے۔وہ بڑا کھلاڑی ہے۔" وہ ہنسنے لگا۔
"خبردار۔" ڈرائیور چلایا۔ "امرتسر آگیا ہے۔کوئی باہر نہ جھانکے۔کوئی آواز نہ نکالے۔"
"اللہ مالک ہے۔" سپاہی بولا۔
ایلی چونک پڑا۔
اس نے سامنے شیشے سے جھانک کر دیکھا۔
سامنے چوک میں ایک فوجی کھڑا تھا۔
"اگر اس نے روکا۔" سپاہی بولا۔ " تو رکنا نہیں۔"
"جو اللہ کرے۔" ڈرائیور نے ٹرک تیز کر دیا۔
چوک میں کھڑے فوجی نے رکنے کا اشارہ کر دیا۔
"جاؤ جاؤ۔" دور سے پاگ بابا کی آواز سنائی دی۔
"تڑاخ۔۔۔۔۔۔۔" ایک آواز سی سنائی دی۔
چوک میں کھڑا فوجی ڈھیر ہو کر گر پڑا۔
ایلی نے دھڑکتے ہوئے دل سے سامنے دیکھا۔
"جاؤ جاؤ۔چوک میں۔" پاگ بابا چلا رہا تھا۔" سڑکوں سے نہیں۔کھیتوں سے۔کھیتوں سے۔"
ڈرائیور نے ٹرک سڑک سے اتار کر کھیتوں میں ڈال دیا۔
"نیا جیون۔نیا جیون۔" کھڑکی میں شہزاد گنگنا رہی تھی۔
"آنے دو۔" رومی ٹوپی والا کھیتوں میں ہاتھ دیے کھڑا تھا۔
"راستے کی رکاوٹ تو میں تھی۔"شہزاد
"آنے دو۔آنے دو۔"دراز قد اشارے کر رہا تھا۔
ٹرک دوڑ رہا تھا۔دوڑ رہا تھا۔
"آجاؤ۔جاؤ۔" پہیوں کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
"حضور حضور۔" ہارن خوشی سے چیخ رہا تھا۔
"پاکستان۔ پاکستان۔" ایلی کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
 

نوید ملک

محفلین
علی پور کا ایلی
(ڈاکٹر محمد احسن فاروقی)​
"علی پور کا ایلی۔" کے پہلے ایڈیشن کی ہر جلد کے ساتھ ایک چیپی لگی ہوئی ملتی تھی۔ جس پر لکھا ہوتا تھا۔ "اسے آدم جی انعام بھی ملا۔" اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کے بابت ابن انشاء صاحب نے کہا۔ "اسی لئے مشہور ہے کہ اس پر آدم جی انعام نہیں ملا" اور جملہ کا یہ حصہ اس کے ہر ایڈیشن کے ساتھ چھپا۔مجھے یاد آتا ہے کہ جب 1961ء کا آدم جی انعام ملنے والا تھاتو یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اس ناول کو انعام ملنا چاہیے یا ملے گا یا ضرور ملے گا۔مگر انعام" تلاش بہاراں۔" کو دیا گیا۔مولوی عبدالحق بقید حیات تھے اور میں ان کی خدمت میں بیباک تھا۔ ان کے ناول کے سلسلے میں ذوق پر مجھے کبھی اعتماد نہ تھا۔جب پہلا آدم جی انعام "خدا کی بستی۔" کو دیا گیا تو میں نے مولوی صاحب سے کہا تھا۔ "آپ نے ترازو بٹہ سے تول کر انعام دیا ہے۔" اور ان سب کتابوں کو کو مولوی صاحب کے کمرے میں ایک پلنگ پر پھیلی ہوئی تھیں۔دیکھ کر اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا۔ "آخر ان سب کتابوں سے تو وزن میں یہ سب سے بھاری ہے۔" مولوی صاحب ہنس دئیے تھے۔ پھر آئندہ سال "تلاش بہاراں۔" کو انعام ملنے کے بعد میں ان کے پاس گیا۔وہ قریب المرگ تھے۔مگر باتیں کرتے تھے میں نے کہا۔ "اب کی انعام دینے کے سلسلے میں "علی پور کا ایلی۔" اس قدر زیادہ بڑی کتاب تھی کہ ترازو ہی ٹوٹ گئی لہٰذا اس کا وزن نہ ہو سکا اور اس کم وزن کی کتاب "تلاش بہاراں۔" کو آپ نے انعام دے دیا۔" مولوی صاحب تھوڑی دیر کے بعد غش میں آجاتے تھے۔کہہ نہیں سکتا کہ انہوں نے یہ بات پوری سنی یا نہیں۔مگر میں یہ سب ہی سے کہتا رہا۔یہ عجیب واقعہ تھا کہ ایک ناول کی سب سے بڑی تعریف یہ ہو کہ "اسے آدم جی انعام ملا" اور دوسری کی تعریف یہ کی جائے کہ اسے "آدم جی انعام نہیں ملا۔" انعام ملنا یا نہ ملنا بے معنی ہو گیا اور ایک حد تک جن ناولوں کے بابت یہ کہا جائے کہ انہیں انعام ملا یا نہیں ملا وہ بے معنی ہو گئیں۔ اس بنا پر مجھے "علی پور کا ایلی۔" سے ایک مبہم سا تعصب ہو گیا اور میں اسے بھی ایسی چیز ماننے لگا جو میرے پڑھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس تعصب کو ختم ہوئے بھی عرصہ گزر گیا۔پھر ایک دن جمیل صاحب کے یہاں اس کا وہ ایڈیشن رکھا ہوا دیکھا جو "ہماری لائبریری۔" کے سلسلے کا ہے۔ ممتاز مفتی کی افسانہ نگاری سے بھی بہت ہی واقف تھا۔اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ میں نے یہ طے کیا کہ "علی پور کا ایلی۔" کو ضرور پڑھ کر دیکھوں گا اور جمیل صاحب سے کتاب عاریتاً لے لی۔ پڑھنا شروع کیا تو اس میں ایسا محو ہوا کہ دن دن بھر اور رات میں کافی دیر تک پڑھتا رہا۔ساتھ لئے لئے پھرا اور کراچی کی بسوں میں دفتروں میں جہاں بھی ذرا سا وقت ملا گیا۔ اس کی طرف رجوع ہو گیا کتاب ضخیم تھی اور جلد پیپر بیک جب میں نے اسے جمیل صاحب کو واپس دیا تو ا سکے بلا مبالغہ آٹھ الگ الگ ٹکڑے ہو چکے تھے۔ کچھ لوگوں نے اسے میرے ہاتھ میں دیکھ کر تعجب سے یہ بھی کہا۔ "اتنی موٹی کتاب پڑھ رہے ہیں۔" میں نے جواب دیا۔ "چھوٹی یا موٹی کی مجھے کوئی پرواہ نہیں یہ کتاب حد سے زیادہ دلچسپ ہےاور میرے لئے میں غیر ادبی یا ادب سے گری ہوئی کتاب نہیں پڑھتا اور یہ مجھے آج کی سب ادبی کتابوں سے زیادہ دلچسپ معلوم ہو رہی ہے جلد سے جلد ختم ہو جائے گی۔" غرض اس کتاب کو ایک ہلکی قسم کی نفرت سے میں نے شروع کیا مگر یہ میرے لئے دلچسپ اور قابل وقعت ہوتی گئی اور آخر میں اس مثل پر پوری اتری کہ جادو وہ ہے جو سر چڑھ کر بولے۔ مشفق محمد طفیل ایڈیٹر "نقوش۔" نے اس کا فسانہ آزاد۔"سے مقابلہ کیا اور ان سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا "علی پور کا ایلی۔" اور "فسانہ آزاد۔" میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آخر الذکر ناول کے میدان میں پہلا ڈگمگاتا ہوا قدم ہے اول الذکر اس میدان کے اداب میں پورے طور پر تسخیر کا نشان ہے۔" انہوں نے کہا۔ " اس ہر ایک مفصل مضمون لکھ ڈالئے۔" میں نے اسے پھر پڑھا اور اس پر مضمون لکھنا شروع کیا۔مگر یہ دیکھ کر کہ رسالہ نقوش سو گیا ہے۔مجھے بھی نیند آ گئی اور وہ رہ گیا، مگر اب جب اس تصنیف کو مقبول ہوئے بارہ برس ہو گئے تو میں نے اسے پھر پڑھااور اس پر مضمون لکھ ڈالنے ہی کا فیصلہ کیا۔نقوش نہ معلوم کب نکلے گا مگر مضمون کو تیار رہنا چاہیئے۔لکھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں ننے اب ان تمام ناولوں پر مفصل لکھنے کی ٹھان لی ہے جو1947ء سے اب تک وجود میں آئی ہیں اور جو ہماری ناول نگاری میں ایک نیا بلکہ ناول کے اصل معنوں میں پہلے دور کے نقوش جما رہی ہیں۔ میری رائے ہے کہ "علی پور کا ایلی۔" ان آدھ درجن ناولوں میں ہے جو ہمیشہ اہم مانی جاتی رہیں گی۔
ممتاز مفتی ناول کا واضح شعور رکھتے ہیں اور اس لئے ان کے سلسلے میں انعام کی کوئی اہمیت نہ ہونا چاہئیے۔کیونکہ انعام تو بیشتر ایسے لوگوں کو ملتا ہے۔ جن کو ناول کا کوئی شعور نہیں ہوتا اور وہ اپنی ناول کے بابت یہ نہیں بتا سکتے کہ اس میں ہے کیا۔ برخلاف اس کے مفتی صاحب انکسار کے ساتھ فرماتے ہیں۔
"اپنی دانست میں میں نے ناول بلکہ ایلی کی سرگزشت لکھی تھی۔مقصد تھا کہ ایلی کی شخصیت کا ارتقاء پیش کروں۔اس لئے چند ایک بظاہر غلیظ تفصیلات پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔یہ اور بات ہے کہ ایلی ایسا کردار ہے جو مشاہدات کے سمندر میں ڈبکیاں کھاتا ہے۔لیکن جب کنارے لگتا ہے تو پنچھی کی طرح پر جھاڑ کر پھر سے جوں کا توں خشک ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
بہرحال اردو میں کوئی طویل کہانی ایسی نہ ملے گی۔جس کی تفصیلات براہ راست زندگی سے اخذ کی گئی ہوں اور چناؤ کے بغیر ایک جگہ ڈھیر کر دی گئی ہوں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب آب بیتی ہے۔
(پیش لفظ،طبع ثانی)
پیش لفظ طبع 1961ء میں وہ پہلے ہی فرما چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ روئدادہے۔
ایک ایسی شخص کی جس کا تعلیم کچھ نہ بگاڑ سکی۔
جس نے تجربے سے کچھ نہ سیکھا۔
جس کا ذہن اور دل ایک دوسرے سے اجنبی رہے۔
جو پلا پروان چڑھا اور باپ بننے کے باوجود بچہ ہی رہا۔
جس نے کئی ایک محبتیں کی لیکن محبت نہ کر سکا۔ جس نے محبت کی پھلجھڑیاں اپنی انا کی تسکین کے لئے چلائیں لیکن سپردگی کے عظیم جذبے سے بیگانہ رہا اور شعلہ جوالا نہ پیدا کر سکا۔
جو زندگی بھر اپنی انا کی دھندلی بھول بھلیوں میں کھویا رہا حتٰی کہ بالاخر نہ جانے کہاں سے
 

نوید ملک

محفلین
ایک کرن چمکی اور اسے ناجانے کدھر کو لے جانے والا ایک راستہ مل گیا۔
اس داستان کے بیشتر واقعات اور مرکزی کردار حقیقت پر مبنی ہیں۔باقی کردار حقیقت اور افسانہ کی آمیزش ہیں۔حقیقت سے گریز کی وجہ میرا عجز ہے اور ان کرداروں کی عظمت کو اجاگر کرنا میرے بس کی بات نہ تھی۔لہٰذا افسانوی رنگ شامل کر کے میں نے اپنے عجز کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔"
ظاہر ہے کہ دو پیش لفظوں میں جو کچھ نہیں مل سکتا ہے اسے باقاعدہ تنقید ہی کہا جا سکتا مگر وہ ممتاز مفتی صاحب کے ناول کے سلسلے میں شعور کا ضرور اندازہ دیتا ہے اور اس میں سے حسب ذیل خاصی باتیں سامنے آتی ہیں۔
اول یہ کہ وہ مستقل واقعیت پسند ہیں۔ وہ اپنا مخصوص تجربہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح کہ وہ بالکل صحیح رہے۔یہ بات ہمیں ناول کی بنیاد تک لے جاتی ہے۔اٹھارویں صدی میں ناول کی ابتدا کرنے والوں کے سامنے بھی یہی مخصوص مقصد تھا اور یہی مقصد آج بھی تمام ادبی ناول نگاروں کا ہوتا ہے۔مگر وقت کے ساتھ اس مقصد میں اور بھی مقاصد شامل ہو گئے۔خاص طور سے بیسویں صدی میں تجربہ یا زندگی کے حالات کو نظریہ یا تخیل کے اثر سے بدل کر پیش کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔اسی سے ناول نگار مفکر کے روپ میں سامنے آتا ہے۔اور ناول متاثر کرنے کے علاوہ ذہنی بحث کا مواد بہم پہنچاتی ہے۔مفتی صاحب اس جھنجھٹ میں نہیں پڑ رہے ہیں۔وہ نہایت غیر جانبداری سے ایک سرگزشت ایک روئداد کو بے کم وکاست بیان کر دینا چاہتے ہیں۔ہمارے یہاں ناول کا ارتقا عجیب رہا ہے۔ابتدا کے ناول نگار اسے فسانہ سمجھ کر بہت سے فرضی، خیالی اور مبالغاتی چیزیں اس میں داخل کرتے رہے اور آج کل کے ناول نگار جدید تجربوں کی راہ پر چل کھڑے ہوئے۔اس لئے ہمارے یہاں ایسی ناول جسے ناول کا NORMA کہا جائے ڈھونڈے نہیں ملتی۔مفتی صاحب اس فارم اس "خالص ناول۔" کی راہ پر چل رہے ہیں اور "علی پورکا ایلی۔" اپنے نام سے ہی اور پھر مواد سے بھی زندگی کی اس طرح ترجمانی ہے جیسی واقعیت پسندوں اور قدریت پسندوں نے کی تھی۔جدید دور میں اس راہ پر چلنا اور قدم میں لغزش نہ آنا۔بھی ایک کمال ہی کے دائرے میں آتا ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اسے کہاں تک حاصل کر سکے ہیں۔
دوسرے یہ کہ واقعیت پورے طور پر ہمکنار رہنے کی کوشش سے اس ناول میں دو خصوصیات پیدا ہونا لازمی تھی اور انہیں مفتی صاحب نے نہایت فراخ دلی سے پیدا ہونے دیا۔اول یہ کہ تجربوں کا ڈھیر لگتا چلا گیا اور اس میں سے انہوں نے چننے کی کوشش نہیں کی۔ناول کو آج کا انتخاب اور ارتفع کے اصولوں کے ماتحت لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی تفصیلات غائب ہو جاتی ہیں اور بہت سی سکڑا کر رکھی جاتی ہیں۔ قاری کو ناول نگار کے اشاروں سے خود بہت کچھ اپنی طرف سے شامل کر لینا پڑتا ہے۔اسی طرح ناول فنکار اور صاحب ذوق دونوں کی تخیل کے ساتھ ساتھ چلتے رہنے سے بنتی ہے۔وہ اکثر لوگوں کیلئے مبہم اور مشکل بھی ہو جاتی ہے۔ اور بیشتر لوگ اسے اپنی اپنی طرح پر سمجھتے ہوئے اسے پڑھ جاتے ہیں۔مفتی صاحب اس کے قائل نہیں ہیں اور ہر اس معاملے میں بھی وہ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ناول نگاروں کے ساتھ ہیں جو تفصیلات کو زیادہ سے زیادہ واضح طریقہ پر پیش کرنے کے قائل تھے۔اور زندگی کا واضح سے واضح نقشہ پیش کرتے تھے۔ اس لئے" علی پور کا ایلی۔"میں ہمیں جدید فنکاری سے انکار بلکہ اختلاف ملتا ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرانا طریقہ اب بھی کتنا زوردار ہو سکتا ہے۔دوسرے یہ کہ اس وجہ سے اسکی ضخامت بڑھ گئی ہے۔جس پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہے ناول کے سلسلے میں ہمارے یہاں کوئی واضح نظریہ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ اس تصنیف کو ناول کہتے ہیں جو کم از کم ایک ہزار صفحوں کا ہو مگر زیادہ تر لوگ ضخامت سے ٹھٹھر جاتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ناول حد حد چار سو صفحوں کی ہو۔"علی پور کا ایلی۔" کی ضخامت زیادہ تر لوگوں پر بار ہے میں اسے ایک قسم کی ہدمذاقی سمجھتا ہوں اصل میں ضخامت مواد اور فن پر مبنی ہوتی ہے اور مفتی صاحب کا جو مواد ہے اور جس طرح وہ اسے پیش کرنا چاہتے ہیں وہ اتنی ضخامت گھیرے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا جتنی کے ناول کی ہے۔ان باتوں سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ مفتی صاحب بغیر سوچے سمجھے روانی کے ساتھ ناول سرسراتے گئے ہیں اور انہیں فنکاری سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب تفصیلات اور طوالت کیا محض لاپروائی کی وجہ سے ہے یا ا سکے پیچھے کوئی مستقل فنی صورت چھپی ہوئی ہے اور ہے تو وہ کس حد تک دلکش ہے۔
تیسرے یہ کہ تخلیق کار کی حیثیت سے وہ تمام قوت کردار نگاری پر صرف کرنا چاہتے ہیں اور خاص طور پر ناول کے ہیرو اور اسی کی حد سے زیادہ نارمل نوعیت کی دائمی حقیقت بنا دینا چاہتے ہیں۔جدید ناول نگاری کے سلسلے میں بھی باغی ہے۔اور بالکل واقعاتی کردار پیش کرنے کے
 

نوید ملک

محفلین
بجائے اشاریت وغیرہ پر عمل کرتی ہے۔مفتی صاحب اس کے بھی خلاف ہیں اور ان کی وہ راہ ہے جو "دون کا ہوٹے۔" سے شروع ہو کر "پکوک پیپرز۔" تک چلی آتی ہے اور آج بھی سومرسٹ مائم وغیرہ کی راہ ہے۔غرض اس معاملے میں سبھی وہ ناول نگاری کے تمام الجھاؤں کو الگ کر دیتے ہیں۔ضخامت اور وسعت کے لحاظ سے اس کتاب میں کردار کا ابھرنا اور نئے نئے کردار کا ہر موڑ پر سامنے آتے رہنا لازمی ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ کس قدر زندہ ہیں اور کیسے مل جل کر ایک دنیا تخلیق کرتے ہیں اور یہ دنیا کس حد تک دلکش ہے۔پھر ناول کا مرکزی کردار ایلی سب سے زیادہ مصنف کی توجہ کا مرکز ہے۔اسکی بابت چند بنیادی باتیں وہ پیش لفظ ہی میں کہہ دیتے ہیں۔یہ باتیں نہایت معمولی ہیں مگر معمولی ہونے ہی کی وجہ سے تعجب انگیز بھی اور اسی مثل کے مصداق ہیں کہ حقیقت مجاز سے زیادہ تعجب انگیز ہوتی ہے۔غرض یہ ناول صاف صاف طور پر اس قسم کا ناول ہے جسے کرداری ناول کہا جاتا ہے اور اسکی کامیابی باکمال آخر کار اس کے ہیرو کی تخلیق کی کامیابی باکمال سے وابستہ ہونا چاہئے اور اگر ایلی دنیائے ناول نگاری کے ان کردار میں سے ایک ٹھہرتا ہے جس کو حقیقت سے زیادہ حقیقی اور ایک معاشرے کا مکمل نمائندہ کہا گیا ہے تو ناول کو عظیم درجہ میں جگہ دینا ضرور ہو جاتا ہے۔
غرض ہم اس ناول کو یہ جان کر اور مان کر شروع کرتے ہیں یہ ناول کی بنیاد۔روح یا سیدھی ضرور راہ سے ہٹنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان جدید ضروری یا غیر ضروری آلائشوں سے پاک ہے جو تجربہ کی طرح تھوپی جا رہی ہیں۔ہمیں پیش لفظوں میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کچھ لوگ اسے ناول کہنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں۔جن کی رائے کو کوئی خاص وقعت نہیں دینا چاہئے۔یہ لوگ ناول میں رومان دیکھنا چاہتے ہیں۔اور "علی پور کا ایلی۔" میں بس اسی حد تک ہے جتنا کہ ایلی کے کردار سے ممکن تھا۔اس کو رنگ دینا واقعیت سے غداری کے مترادف ہوتا اس لئے مفتی صاحب نے رومانی رنگ چڑھانے سے گریز کیا۔اس لئے عام ناولوں کو پڑھنے والے اسے غیر دلچسپ کہیں گے۔مگر میں نے پڑھ کر دیکھا ہے اور بہت سے لوگ میرے ہم رائے ہیں کہ اس میں بے پناہ دلچسپی ہے۔ویسی دلچسپی بھی جیسی ناول کا اعلٰی ذوق رکھنے والے ڈھونڈتے ہیں اور ویسی دلچسپی بھی جو جیسی ایک فرد کے دنیا سے کشمکش سے خاص طور پر عشق بازی کی کش مکش سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں ایک مسلسل عشقیہ قصہ بھی ہے۔جو بڑے جزئیات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔اور بڑے دلکش کردار کے مختلف پہلو دکھاتا ہے۔ایلی اور شہزاد کا عشق بڑی عجیب حقیقت ہونے کی وجہ سے اچھا خاصہ رومانی ہے اور اس میں رخنوں کو اور اسکے نتیجوں کو ہم بڑی دلچسپی سے نکلتے ہوئے دیکھنے کے منتظر رہتے ہیں۔لاہور میں ایلی کا ایک اور عشق چلتا ہے اور وہ بھی بڑا دلچسپ ہو جاتا ہے ایک اس وجہ سے کہ وہ اپنی جگہ پر عجیب ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ وہ ایلی کی شہزاد کی طرف توجہ کو ختم نہیں کرتا پھر جب ہمیں ایلی سے شروع ہی میں دلچسپی ہو جاتی ہے کہ ہم اسے ناول کے سلسلہ کے تعصبات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھیں تو زندگی کا جو منظر یہ پیش کرتی ہے۔وہ حد سے زیادہ دلچسپ ہو جائے گا۔اور ضخامت ہماری دلچسپی کی راہ میں کسی طرح حائل نہ ہو گی بلکہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ یہ اور بھی ضخیم ہوتی تو اچھا تھا۔
(۲)
مفتی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں زندگی کی تفصیلات ایک جگہ ڈھیر کر دی گئی ہیں۔ڈھیر کا لفظ(بے ترتیبی کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر کسی ڈھیر پر غور کیجئے تو اس میں ایک ترتیب ضرور نظر آئے گی۔یہ ترتیب انسان کی دی ہوئی تو کسی طرح نہ ہوگی مگر قدرت نے انسان کے ڈھیر کئے ہوئے مواد سے ایک ترتیب ضرور پیدا کر دی ہو گی۔اناج کے ڈھیر کو دیکھئے اس کی ایک چوٹی ہو گی اور سارا مواد اس سے شروع ہو کر ایک مثلث کی شکل ضرور اختیار کر گیا ہوگا۔"علی پور کا ایلی۔" بھی اسی قسم کی ترتیب قدرتی ترتیب رکھتا ہے۔اس کی ابتدا ایلی کا الیاس کے گھر کا سین سب میں پہلے سامنے آتا ہے۔باپ علی احمد دو مائیں ایک سگی ماں ہاجرہ اور ایک سوتیلی صفیہ صاف صاف ایک دوسرے سے مختلف اور اپنی جگہ منفرد ہیں۔ایلی کو بچہ ہی کہا جا سکتا ہے۔مگر وہ ان میں سے ہر ایک سے ایک خاص ردعمل رکھتا ہے۔علی احمد مستقل کردار ہے۔وہ ایلی کو ملازم کی طرح سمجھتے ہیں اور ایلی ان کی آواز سن کر دھک سے رہ جاتا ہے۔ اور ان کا حقہ بھرنے لگ جاتا ہے۔ہاجرہ بھی ایک ملازمہ کی طرح ہے جو قناعت اور رواداری سے زندگی گزار رہی ہے اور وضع دار اور حسین صفیہ کے حکم پر چل رہی ہے اور ایلی صفیہ سے نفرت کرتا ہے اور گھن کھاتا ہے مگر اس کے حکم پر چلنے سے انکار نہیں کر سکتا۔اس طرح وہ ماحول پورے طور ہر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔جو ایلی کے کردار کے سلسلے میں بنیادی ہے۔ناول کی یوں ابتدا بڑی معنے خیز اور فنی لحاظ سے بڑی مناسب ہے۔علی احمد اور ایلی جو تمام داستان پر حاوی رہیں گے پوری انفرادیت کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں اور ایلی کا عورتوں کی طرف ردعمل
 
Top