علی پور کا ایلی(1176- 1205)

ماوراء

محفلین
1196

نامن پور میں لوگ آصف کی عزت کرتے تھے اور ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ ہندو اپنی امانتیں آصف کے سپرد کر دیتے دیش اپنے جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے آصف کو پنج بنانے پر خوشی محسوس کرتے لیکن آصف کے اپنے گھر میں ان کے خیالات کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ان کی بیوی کو اس کی رائے مشورے یا فیصلے پر قطعی اعتماد نہ تھا۔ گھر میں ہر بات پر انھیں جھاڑ جھپٹ ہوتی تھی۔ جسے وہ سر جھکا کر سننے کے عادی ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے خیال اور رائے پر قائم رہتے اور وہی کرتے تھے جو ان کے خیال میں درست ہوتا۔
آصف نے زیادہ تر زندگی جنوبی ہندوستان کے ایک شہر میں گزاری تھی۔ جہاں ان کا ایک اعلٰی قسم کا ہوٹل تھا۔ جس میں بڑے بڑے اہل کار اور یورپین آ کر ٹھہرتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے وہ دوسروں کی بات غور سے سننے کے عادی ہو چکے تھے ان کی طبیعت میں اخلاق تھا تحمل تھا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی وہ وہم کی بیماری میں مبتلا تھے۔ جو کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔
تین بیٹوں کے علاوہ آصف کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جس کا نام بلند بخت تھا۔ بلند بخت نے چند ایک جماعتوں تک مدرسہ میں تعلیم پائی تھی اور آصف نے اسے مدرسہ سے اٹھا لیا تھا چونکہ دستور کے مطابق نامن پور کے لوگ بچیوں کو زیادہ پڑھانے کے قائل نہ تھے۔ آصف خود تو تعلیم کے حق میں تھے ممکن ہے ان کی بیگم زبردستی بلند بخت کو مکتب سے اٹھا لیا ہو۔
بلند بخت ابھی عنفوان شباب میں ہی تھی کہ اسے ایک قریب رشتہ دار کے بیٹے سے منسوب کر دیا گیا۔ اور جلد ہی بڑی دھوم دھام سے شادی ہو گئی۔
لڑکے نے دولہا بننے سے پہلے بار بار اپنے والدیں کو کہلوایا تھا کہ اس کی شادی نہ کی جائے چونکہ وہ شادی کے قابل نہیں۔ لیکن والدین نے اس کی بات کو درخور اعتنانہ سمجھا۔ شاید وہ سمجھتے رہے کہ لڑکا ویسے ہی ہچکچاتا ہے اس کے ذہن پر عورت کا ڈر حاوی ہے۔ آہستہ آہستہ مانوس ہو جائے گا۔ یا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سامان کو یکھ کر جو آصف جہیز کے مشتاق تھے لڑکا چاہے قابل ہو یا نہ ہو۔ سامان پر قبضہ جمانے کے تو وہ قابل ہے۔ لٰہذا انہوں نے لڑکے کی بات نہ سنی۔
بلند بخت شب عروسی میں دولہا کا انتظار کرتی رہی۔ دولہا کے والدین اسے ڈھونڈتے رہے۔
 

ماوراء

محفلین
1197

آخر بات نکل گئی کہ دولہا غائب ہے۔ بلند بخت نے سنا تو اسے ایک دھچکا لگا۔ اس کی حیات منجمند ہو گئی۔ نسائی تقاضوں کے راستے مسدود ہو گئے۔ نسیں ایک زبردست ہیجان سے ٹکرائیں اور حسیات کا وہ فیوز ہمیشہ کے لئے اڑ گیا۔ جو اس کی نسائی زندگی میں تحریک پیدا کر سکتا تھا۔
اگلے روز اس کے والدین بلند بخت کو اپنے گھر لے گئے۔
پہلے تو موہوم سی امید باقی تھی۔ کہ شاید دولہا کسی روز گھر واپس آ جائے پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا مایوسی گہری ہوتی گئی۔ حتٰی کہ سات سال گزر گئے۔
ویش لوگوں میں طلاق کا سوال پیدا ہی نہ ہوتا تھا۔ ان کے نزدیک طلاق کا لفظ گالی کے مترادف تھا۔ وہ اسے منہ پر لانے والا برادری میں ہمیشہ کے لئے اپنی عزت کھو دیتا تھا۔ لٰہذا بلند بخت کی دوسری شادی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
بلند بخت نگہت کی سہیلی تھی اور نگہت رنگی اور مانی کے ساتھ رہنے کی وجہ سے یا شاید فطری طور پر نامن پور کی عورتوں سے ہٹ کر تھی۔ ہاجرہ کی بات سن کر اسے فوراً بلند بخت کا خیال آیا تھا۔ رنگی نے اس بات میں اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔ اور مانی عملی طور پر اس سلسلے میں کوشش کرنے کے لئے بےتاب ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے مل کر برادری میں بات چلا دی۔ اور کچھ حیرت کچھ تعجب اور عورتوں کے ناک بھوں چڑھانے کے بعد بلند بخت کو طلاق ہو گئی۔ ایک مختصر سی رسم کے بعد بلند بخت کا ایلی سے عقد ہو گیا۔ اور وہ ایلی کے گھر آ گئی۔ اور ایلی نے دیکھا کہ اس کے گھر ایک لاش پڑی ہے اور زندگی بھر اسے ایک لاش اٹھائے پھرنا ہے۔ بلند بخت کو دیکھ کر ایلی کو ایک دھچکا لگا۔
اگرچہ وہ اس بات پر مصر تھا کہ کسی نوجوان سے اس کی شادی نہ کی جائے۔ بظاہر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کی بیوی حسین نہ ہو۔ رنگین نہ ہو۔ اس وقت اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ شدت بھری زندگی بسر کرنے کے بعد وہ تھک چکا تھا۔ اکتایا ہوا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خواہش سکون و اطمینان تھا۔ اس کے علاوہ اسے یقین تھا کہ وہ عالی کے لئے شادی کر رہا ہے۔ اگر اس کے گھر میں حسین و جمیل بیوی آ گئی تو ممکن ہے وہ اپنی بیوی میں اس حد تک کھو جائے کہ قریب ہی عالی بے توجہی کی گود میں پڑا بلکتا رہے اور اسے خبر بھی نہ ہو کہ وہ بلک رہا ہے۔ رو رہا ہے۔ پریشان حال ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود بلند بخت کو دیکھ کر ایلی کو ایک دھچکا لگا۔
 

ماوراء

محفلین
1198

لیکن جلد ہی اس نے جواز پیدا کر لئے شاید یہی مناسب تھا کہ بلند بخت اس کی بیوی بنے۔ جیون ساتھی نہ بنے۔ ورنہ عالی تنہا رہا جاتا۔ اس نے اپنے آپ کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ ضرور اس میں قدرت کا ہاتھ ہے۔
وقت یہ تھی کہ بلند بخت اس گزشتہ سانحہ کی وجہ سے بالکل ہی مایوس ہو چکی تھی۔
بلند بخت کے خیالات بے حد پاکیزہ تھے لیکن یہ پاکیزگی رسم و رواج کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ اس کے شانوں پر سر نہیں بلکہ ایک پھوڑا تھا جس میں مسلسل درد ہوتا رہتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوشی یہ تھی کہ خاوند اس سے دور رہے بلند بخت کی آمد پر ایلی نے ایک مکان کرائے پر لے لیا اور ایلی اور عالی فرحت کا گھر چھوڑ کر اپنے گھر میں منتقل ہو گئے۔


مشملات



ایلی کو سیاست سے قطعی طور پر دلچسپی نہ تھی۔ اخبار تو وہ پڑھتا تھا لیکن سیاسی خبروں کے متعلق اسے دلچسپی نہ تھی۔ صرف سرخیاں پڑھ کر مطمئن ہو جاتا۔
جب ہندوستان کی آزادی کی آواز بلند ہوئی تو ایلی کو بے حد خوشی ہوئی تھی وہ چاہتا تھا کہ اس کا ملک آزاد ہو جائے۔ اور کوئی بیرونی طاقت اس ملک پر مسلط نہ رہے۔ ایلی کے دل میں ان مجاہدوں کے لئے احترام تھا جو آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے لیڈروں پر ناز کرتا تھا۔ مثلاً مہاتما گاندھی پنڈت جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح۔ اس کے باوجود اس نے کبھی کسی سیاسی مجلس میں حصہ نہ لیا تھا۔ اور نہ ہی ان محبوب لیڈروں کو کبھی دیکھا تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں سیاسی بیداری بڑھ چکی تھی۔ اور لوگوں کے دلوں میں سیاسی جذبہ یوں لہریں لے رہا تھا کہ ذاتی مسائل بھی پس پشت پڑ چکے تھے۔
پاکستان کے قیام کا سوال ان دنوں پیش پیش تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کی دھوم مچی ہویہ تھی یوپی کے مسلمان پاکستان کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے تھے علی گڑھ یونیورسٹی میں علم و ادب کی جگہ سیاسیاست کا ابال آیا ہوا تھا۔
لیکن ایلی اس جھگڑے سے بالکل بے گانہ تھا۔ وہ پاکستان کے حق میں نہ تھا۔ وہ پاکستان کے خلاف بھی نہ تھا۔ اس نے کبھی اس مسئلے کو اہمیت ہی نہ دی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ہندوستان کو آزادی مل جائے۔ اور لوگوں کی اور ملک کی اس میں بہتری ہے تو پاکستان کا قیام عمل میں آ جائے۔ بہرحال وہ ہر اس بات کا طرفدار تھا۔ جو عوام اور ملک کی بہتری کے لئے تھی۔ لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ ملک کی بہتری کس بات میں ہے۔
 

ماوراء

محفلین
1199

پنجاب کے مسلمان پاکستان کے حق میں تھے اس وجہ سے کبھی کبھار اس کے دل میں بھی پاکستان کے لئے جذبہ پیدا ہوتا۔ لیکن وہ جذبہ محض وقتی ہوتا۔ یا کبھی کبھار بیٹھے بیٹھائے اس کے روبرو دھرم سالہ کا سکول ابھرتا۔ چھٹی جماعت کا لڑکا رام لال اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ “رام لال مجھے ایک گلاس پانی لا دو۔“ ایلی کہتا۔! رام لال کی گردن جھک جاتی اور وہ چپ چاپ جوں کا توں کھڑا رہتا۔ “رام لال۔“ ایلی چلاتا۔ “تم سے کیا کہہ رہا ہوں۔“ “جی میرا دھرم بھر شٹ ہو جائے گا۔“ رام لال جواب دیتا۔ “بے وقوف لڑکے۔“ایلی ہنستا۔ “اگر تم میرے ہاتھ کا پانی پیو تو دھرم بھر شٹ ہو گانا۔ اگر تم مجھے پانی لا دو تو تمھارا دھرم کیسے بھرشٹ ہو سکتا ہے۔“ رام لال اسی طرح گردن جھکائے کہتا۔ “جی میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔“
پھر اس کے روبرو دھرم سلا کا پڑوسی آ کھڑا ہوتا۔ “جی میرا نام رام دین ہے۔“
“رام دین؟“
“جی میں بھگوان کی دیا سے مشلمان ہوں۔“
“مشلمان۔“
“جی جی۔“
پھر ایلی کی نگاہ میں رام دین کی کٹیا ابرتی۔ وہ چونکا۔ وہ پوتر گوبر کا ڈھیر کارنس پر دھری ہوئی مورتیاں۔
“جی میں مشلمان ہوں۔“ رام دین چلاتا۔ اور پھر تمام ہندوستان کے مسلمان اس کے سامنے قطار باندھ کر کھڑے ہو کر چلاتے۔“جی میں بھگوان علی ہوں۔ جی میں کرشن اللہ ہوں۔ جی میں غلام گرد ہوں۔ ہم مشلمان ہیں۔“ وہ چلاتے۔ “پاکستان زندہ باد پاکستان زندہ باد۔“ اس کے دل میں کوئی نعرے لگاتا۔ لیکن جلد ہی ایلی چونکتا۔“ نہیں نہیں“ وہ چلاتا۔ اگر رام لال اس قدر تنگ خیال واقعی ہوئے ہیں۔ کہ کسی کو پانی پلانے سے ان کا دھرم بھر شٹ ہو جاتا ہے۔ یا وہ اپنے درمیان رہنے والے اکے دکے مسلمان کو رام دین بنا دیتے ہیں۔ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہندوؤں کے خلاف ایسے بغض پال کر میں بھی رام لال بن جاؤں۔ نہیں نہیں وہ چلاتا۔ ان باتوں پر ہندوؤں کے خلاف تعصب پال لینا اچھا نہیں۔
 

ماوراء

محفلین
1200

اگرچہ اسلام کے اصولوں کا وہ مداح تھا اور فلسفہ مذہب کے مطابق اسلام کی عظمت کا قائل تھا۔ لیکن یہ احساس محض ذہنی تھا۔ جس کا عکس اس کے جذبات پر نہیں پڑتا تھا۔
ایک روز جب وہ لاہور کی مال روڈ پر گھوم رہا تھا تو دفعتاً ایک شور بلند ہوا۔ وہ رک گیا۔ مال روڈ پر ٹہلنے والے سبھی لوگ چونک پڑے۔ ہندو اور سکھوں کا یک جم غفیر مال روڈ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں جنہیں وہ لہرا رہے تھے۔ عورتیں سر پیٹ رہی تھیں۔ بین کر رہی تھیں۔ وہ سب اسمبلی چیمبر کی طرف بھاگ رہے تھے اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔
اس جلوس میں ایک شدت تھی اشتعال تھا۔ ایک وحژت تھی جس میں تشدد کی واضح دھمکی تھی لوگ حیرت سے اس دوڑتے ہوئے تشدد بھرے مجمع کو دیکھ رہے تھے۔ پھر دیکھنے والوں کے دلوں میں ایک خوف ابھرا اور وہ اپنے اپنے گھر کی طرف بھاگے۔ ایلی چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا۔
“اجی صاحب میری بیٹی تو ہندؤں کے محلے میں رہتی ہے۔“ کوئی اس کے قریب کہہ رہا تھا۔
“یہ تو بھس میں چنگاری ڈالنے والی بات ہے۔“
“ظاہر ہے کہ سمجھے بوجھے پلان کے مطابق ہو رہا ہے۔“
“نہ جانے کس وقت خون کی ندیاں چل نکلیں۔“
“بھئی میں جا کر بیٹی کی خبر لیتا ہوں۔ حالات نازک ہیں۔“
حالات نازک ہیں۔ حالات نازک ہیں۔ ایلی کے سر پر ہتھوڑے سے چل رہے تھے دفعتاً اسے فرحت کا خیال آیا۔ ارے فرحت بھی تو مادھو پورہ میں رہتی ہے۔ جہاں ہندوؤں کا گڑھ ہے۔ وہ بے سوچے سمجھے مادھو پورہ کی طرف بھاگا۔
مادھو پورہ کے بڑے بازار میں لوگ یہاں وہاں گروہوں میں کھڑے تھے ان کے تیور اچھے نہ تھے۔
پیشانیوں سے تشدد بھرے ارادے ظاہر ہو رہے تھے پر آتے جاتے کو مخدوش اور مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ایلی آنکھ بچا کر کر چوبارے پر چڑھ گیا۔
“چلو فرحت۔“! وہ بولا “ یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں چلو میرے گھر چلو۔“
ابھی وہ تیار ہی نہ ہوئے تھے کہ نیچے بازار میں شور مچ گیا۔ پکڑ لو۔ پکڑ لو۔ جانے نہ پائے۔
 

ماوراء

محفلین
1201

انہوں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔ بازار میں ایک تانگہ کھڑا تھا زمین پر تانگے والی کی لاش تڑپ رہی تھی۔۔پاس ہی ایک ہندو بڑھیا چلا رہی تھی۔ اے تمھیں بھگوان کا ڈر نہیں کیا بیچارا مجھے بچا بچا کر لایا تھا۔ کہتا تھا ماں جی میں لے جاتا ہوں چاہے میری جان پر تم پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے گا۔ ہائے جالمو یہ کیا کیا تم نے۔“ وہ رو وہی تھی بین کر رہی تھی۔
فرحت گھبرا گئی اجمل باہر دورہ پتر گیا ہوا تھا۔ گھر میں صرف عورتیں اور بچیاں تھیں۔ اکیلا ایلی انہیں سنبھال نہیں سکتا تھا۔ ایلی کا اپنا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ نہ جانے انہیں جانا چاہیے یا نہیں ممکن ہے وہ وہیں گھر میں محفوظ ہوں۔ لیکن شام پڑ چکی تھی۔ اور پھر رات کے وقت نہ جانے کیا ہو۔ اسے اسی وقت ایک فیصلہ کرنا تھا۔
عین اس وقت دروازہ بجا۔
ایلی گھبرا گیا۔ شاید وہ آ گئے۔ شاید انہوں نے ہلہ بول دیا ہے۔
“کون ہے؟“ اس نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا۔
“میں ہوں مانی۔ کھولو جلدی۔“
“مانی---------“ ایلی مانی کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
جلوس کو دیکھ کر مجھے فوراً بہن فرحت کا خیال آیا مانی اندر داخل ہو کر چلانے لگا۔
“چلو چلو۔“ وہ چلایا۔ “آ جاؤ آ جاؤ۔ سب آ جاؤ ڈرو نہیں۔“
“لیکن ایلی بولا۔ “ باہر وہ سب کھڑے ہیں۔ اگر---------“
مانی سن کر چلایا۔ “ان کی ایسی تیسی۔ لالے وہ کیا بگاڑیں گے ہمارا۔ چلو ہمشیرہ------ ۔“
“لیکن ٹھہرو وہ سونٹا دے دو مجھے۔ بس ٹھیک ہے چار پانچ کو مارے بغیر تو نہیں مروں گا میں۔ جب تک تم انہیں نکال کر لے جانا۔ آ جاؤ آ جاؤ۔“ وہ خوشی میں چلایا۔ وہ سب چل پڑے۔
چوک میں ہندؤں کے جتھوں نے ان برقعہ پوش عورتوں کی طرف دیکھا۔
مانی نے لٹھ لہرائی اور نعرہ لگایا۔
وہ آپس میں کھسر پھسر کرنے لگا۔
مانی لٹھ لہرائے جا رہا تھا۔ “جاؤ چلتے جاؤ۔“ وہ ایلی کی ہمت بڑھا رہا تھا۔
ایک نوجوان ان کی طرف بڑھا۔
 

ماوراء

محفلین
1202

مانی نے ایک چنگاڑ ماری۔ “مولا علی۔“ اور لاٹھی گھمانے لگا۔
وہ گھبرا کر پرے سرک گئے۔
“جلدی چلو جلدی چلو۔“ ایلی عورتوں کو ہانک رہا تھا۔
“آ جاؤ آ جاؤ۔“ ایک بوڑھا تانگے والا چلایا “ آجاؤ۔“ اس نے برقعہ پوش عورتوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
“اللہ اپنا فضل کرے۔“ وہ بھول چکا تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ہندو محلے میں کھڑا چلا رہا ہے۔
پھر وہ سب تانگے میں سوار تھے۔ اور تانگہ بھاگ رہا تھا۔
“اجی صاحب۔“ خون کے فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ آگ لگ گئی ہے شہر میں۔ اللہ اپنا فضل کرے انہوں نے سوئے شیروں کو جگایا ہے۔ ہمیں للکارا ہے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ اللہ فضل کرے۔ اللہ فضل کرے۔“



پاکستان زندہ باد



اس جلوس کے بعد شہر میں ایک طوفان آ گیا۔ چھرا گھونپنے کی واداتیں شروع ہو گئیں۔ محلوں میں جانا خطرناک ہو گیا۔ حتٰی کہ سڑکوں پر چلنا بھی خطرہ سے خالی نہیں تھا۔ ایک روز جب ایلی شام کے وقت گھر آ رہا تھا تو مزنگ کے نوجوان چھوکروں نے اسے روک لیا۔
“ابے او۔“ ایک نے للکار کر کہا۔
ایلی نے ان کی للکار کی پرواہ نہ کی۔
“پکڑ لو۔ پکڑ لو۔“ وہ چلائے۔ انھوں نے اس کی سائیکل روک لی۔
ایلی کو غصہ آ گیا۔ غالباً اس لئے کہ وہ مسلمان تھا اور مسلمان محلے میں پکڑا گیا تھا۔
“اسے کون ہے تو“ ایک لڑکے نے چلا کر کہا۔
“تجھے اس سے کیا۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“میں کہتا ہوں یہ ہندو ہے۔“ ایک بولا۔
“پھر تجھے کیا تکلیف ہے۔“ ایلی چلایا۔
 

ماوراء

محفلین
1203

“پکڑ لو پکڑ لو۔“ وہ سب اس کی طرف بڑھے۔
“بڑے مجاہد بنے پھرتے ہو۔“ ایلی چلانے لگا۔ “اللہ اور محمد کی خدمت کر رہے ہو نا۔“
“ابے مسلمان ہے یہ۔“ ایک بولا۔
“نہیں نہیں بچنے کے لیے اللہ کا نام لیتا ہے۔“ دوسرا بولا۔
“کلمہ پڑھ“ ایک چلانے لگا۔
“اللہ کا نام نہ لیتا تو اب تک ڈھیر ہوتا۔ میرا ہاتھ رک گیا۔“ ایک غنڈہ بولا۔
ایلی نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کمانی دار چاقو ہے۔
اس روز ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان تھا۔ سیاسی خیالات کا سوال نہ تھا۔ مسلم لیگی اور کانگرسی کا سوال نہ تھا۔ یہ سوال نہ تھا کہ آیا کہ آیا وہ اسلام سےواقف ہے۔ آیا وہ شریعت کا پابند ہے یہ سوال نہ تھا کہ آیا رام دین سا مسلمان ہے یا محمد علی سا۔ سوال صرف یہ تھا کہ وہ مسلمان ہے یا ہندو۔ اس روز جب مادھو پورہ سے باہر نکلے تھے تو ہندؤں کے گرؤں کے گروہوں نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ آیا وہ نیشنل نقطہ نظر کے حامل تھے۔ یا مسلم لیگی۔ آیا وہ پاکستان کے حق میں تھے یا پاکستان کے قیام کے خلاف تھے۔ ان کی نگاہ میں وہ صرف مسلمان تھے۔ تانگے والے کے پیٹ میں چھرا گھونپتے وقت بھی ہندو بڑھیا کے چلانے کے باوجود انہیں یہ احساس نہ ہوا تھا کہ تانگے والا ہندو ماتا جی کو مسلمان غنڈوں سے بچا بچا کر مادھو پورہ میں لایا تھا۔ اور اس نے ماتا جی کو یقین دلایا تھا کہ ماتا جی کو بچانے کے لئے اپنی جان تک دے دے گا۔ چاہے وہ ماتا جی کو بچا کر لایا تھا۔ چاہے ہندؤں کی خدمت کی تھی ---------- لیکن مسلمان تھا اس لئے انہوں نے اس کے پیٹ میں چھرا جھونک دیا تھا۔
ایلی نے محسوس کیا کہ وہ مسلمان ہی نہیں وہ بذات خود پاکستان ہے۔ چاہے وہ پاکستان کے حق میں تھا۔ یا خلاف چاہے وہ اسلام سے بیگانہ تھا چاہے وہ مذہبی تعصب سے بے نیاز تھا۔ وہ مذات خود پاکستان تھا۔ اس کے دل میں کوئی چلا رہا تھا پاکستان زندہ باد۔



با ادب


ایلی کے تمام تر خیالات درہم برہم ہو رہے تھے۔ اس کا ذہن گویا از سر نو ترتیب پا رہا تھا۔ پرانے خیالات کی اینٹیں اکھڑی جا رہی تھیں۔ نئی اینٹیں نہ جانے کہاں سے آ گئی تھیں اور اس کے ذہن میں آپ ہی آپ لگی جا رہی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
1204

اسی روز شام کو دفتر سے آتے ہوئے وہ ان جانے میں انارکلی کی طرف گھوم گیا۔ حالانکہ اسے ادھر کوئی کام نہ تھا۔ اور اس دنوں بےکار گھومنے کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا چونکہ شہر میں چھرابازی کی وارداتیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ اور ادھر ادھر گھومنا خطرے سے خالی نہ تھا۔
کچھ دیر وہ انارکلی میں گھومتا رہا پھر سرکلر روڈ کی طرف چل پڑا اور آخر کار اس نے دیکھا کہ وہ داتا صاحب کے مزار کے باہر کھڑا ہے۔
داتا کے مزار پر وہ کئی مرتبہ گیا تھا چند ایک بار وہ مزار کے اندر بھی داخل ہوا تھا لیکن جب وہ اندر جاتا تو اس کی توجہ ان عورتوں کی طرف منعطف ہو جاتی جو بن سنور کر داتا کے دربار میں حاضر ہوتی تھیں۔ اور وہاں پہنچ کر اپنی نمائش کرنے کے خیال سے ادھر ادھر گھوما کرتی تھیں ہیرا منڈی کی طوائفیں ان دنوں داتا کی بڑی متوالی تھیں۔ کیوں نہ ہوتیں۔ وہاں جانے سے ان کا حلقہ اسباب وسیع تر ہوتا تھا۔
یہ درست ہے کہ ایلی عورتوں کو دیکھنے کی غرض سے وہاں کبھی نہ گیا تھا۔ لیکن وہاں پہنچ کر اس نے عورتوں کے سوال پھر وہاں ملنگ تھے جو طوائف کی طرح اپنی نمائش کرنے میں مصروف رہتے تھے مزار کی جالی کے گرد کھڑے لوگوں کو ہاتھ اٹھائے دیکھ کر ایلی کے ہونٹ نفرت سے بٹوہ بن جاتے ضعیف الاعتقاد لوگ۔!
اس روز داتا صاحب کے مزار کے باہر اس کے خیالات کا رنگ کچھ اور ہی تھا۔
پاگ بابا سامنے محراب کے نیچے کھڑا تھا۔ “کیا نہیں کیا۔ کیا نہیں کیا۔“ وہ چلا رہا تھا۔“ سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔ کیا نہیں کیا۔ اور تمھیں داتا کے قدموں میں لا کھڑا کیا۔ کیا نہیں کیا کس جگہ تمھاری حفاظت نہیں کی۔ مادھو پورہ سے کس نے نکالا۔ مزنگ میں کس نے بچایا۔ وہی بچانے والا ہے وہی سب کچھ کرتا ہے۔ میں کیا ہوں۔ میں کیا ہوں --------- وہی کرنے والا ہے۔“
ایلی محسوس کر رہا تھا جیسے وہ خود نہیں آیا ہو بلکہ اسے بلایا گیا ہو اور اندر داتا اس کا انتظار کر رہے ہوں۔ وہ سر جھکائے جا رہا تھا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اس وقت وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجرم ہے یا گنہگار ہے۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ خوش نصیب ہے اور اسے شاہ کے حضور میں کھڑے ہونے کا موقع ملا اس کا سر جھک گیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ نگاہوں تلے رومی ٹوپی والا کھڑا تھا جس کے ساتھ دراز قد تھا دونوں داتا سے اس کی سفارش کر رہے تھے۔
 

ماوراء

محفلین
اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ داتا صاحب سے کیا کہے۔ دفعتاً حاجی صاحب آ گئے ان کا سر روئی کے گالے کی طرح ہل رہا تھا۔ “وقت آئے گا وقت آئے گا۔“
وہ دبی دبی زبان سے کہہ رہے تھے۔
“تمھاری نئی زندگی شروع ہو گی “شہزاد مسکرا رہی تھی۔ “نیا جیون۔“
“وہی کرنے والا ہے وہی کرنے والا ہے۔“ پاگ بابا چلا رہا تھا پھر ایلی کی نگاہوں تلے ایک کنواں ابھر آیا۔ اس کے قریب ہی سفید چادر اوڑھے ایک مسجد چپ چاپ آ بیٹھی۔ پھر ایک چار دیواری ابھری تھی اور اس چار دیواری کے اندر ایک قمقمہ روشن ہو گیا۔
داتا مسکرا رہے تھے۔


پریتماں


جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں ناظم کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔ ناظم اسے دیکھ کر یوں کھل گیا ہے۔ جیسے مٹھاس کی وجہ سے خربوزہ پھوٹ جاتا ہے۔ “میں تمھارے دفتر سے آیا ہوں۔“ وہ بولا۔ صبح سے تمھیں ڈھونڈ رہا ہوں۔ صبح سے۔“
“تم یہاں کیسے“ ایلی نے پوچھا۔
“میرا تبادلہ ہو گیا ہے یہاں۔“ وہ بولا۔ “بڑے دفتر ہیں۔“
“اچھا۔“
“اب میرے ساتھ چلو۔“ وہ بولا۔
“ارے کہاں؟“
“بس آ جاؤ۔ آ جاؤ شاید وہ مل جائے۔“ ناظم بولا۔
“کون مل جائے؟“
“بھئی وہ تمھارا انتظار کر رہی ہے۔“
“کون انتظار کر رہی ہے۔“
“تم آؤ تو۔“ وہ بولا۔
“پھر بھی۔“ ایلی نے اس کی منت سماجت کی۔ “میں تمھارے ساتھ چلوں گا۔ لیکن کچھ بتاؤ تو
 
Top