علی پور کا ایلی(1176- 1205)

ماوراء

محفلین
“ میں بھی ہوں۔ الو کا پٹھا۔“
“کیوں ہو؟“ وہ ہنسی
“ماں بات نے بنا دیا بس۔“
“نہ بنتے۔“
“زبردستی بنا دیا۔ اب کہیں ایلی کو الو کا پٹھا نہ بنا دینا۔ خیال رکھنا۔“
“ہے۔“ رنگی چلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔“ میری پیاری کو دق نہ کرو۔“
نگہت رنگی کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔
“بس تمھارے بغیر میرا دل نکلتا ہے۔“ رنگی نے پیار سے نگہت کی طرف دیکھا۔ “ہم تو بس تمہارے بغیر یتیم ہو جاتے ہیں۔“
“اچھا۔“ وہ مسکرائی اور وہ ایک دوسرے میں کھو گئے۔


پاک بابا

ایک صبح ہاجرہ بولی آج میں نے خواب میں پاگ بابا کی زیارت کی۔
“پاگ بابا؟“ ایلی نے تعجب سے پوچھا۔
“ہاں-“ وہ بولی۔ “انہوں نے مجھے بہت ڈانٹا۔“
“کیوں؟“
“دیر سے ان سے ملنے کا ارادہ کر رہی ہوں۔“
“تو پھر۔“
“جانا ہی نہیں ہوا۔“
“کیوں۔“
“بس جھنجھٹوں میں پڑ رہی۔“
“ہوں۔“ ایلی بولا۔
“حاجی صاحب کیا پاگ بابا کی زیارت کر آؤں۔“ میں نے حاجی صاحب سے پوچھا تھا۔
“تو وہ کیا کہنے لگے۔“
کہنے لگے “اللہ کے بندوں کی خدمت میں حاضری دینا اچھا ہوتا ہے۔“ میں نے پوچھا تو ہو آؤں کبھی کہنے لگے ہاں ہاں کیا حرج ہے۔“
 

ماوراء

محفلین
1177

“تو پھر ہو آؤ کہاں ہیں وہ۔“ ایلی نے کیا۔
“لو اکیلی کیسے جاؤں۔“
“تو کسی کو ساتھ لے جاؤ۔“
“تم کیوں نہیں چلتے۔“ اس نے پوچھا۔
“میں جا کر کیا کروں گا۔“
“حرج بھی کیا ہے۔ تم بھی کر لینا۔“ ہاجرہ بولی۔
“کیا فائدہ۔“
“وہ ہنسی۔“ لو، اللہ کے بندوں سے ملنے کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔“
“وہ کیا ہوتا ہے؟“
“تقدیریں بدل جاتیں ہیں۔“
“اب تقدیریں بدل کر کیا کرنا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
وہ ہنسنے لگی۔ بولی۔“ابھی تو ساری زندگی پڑی ہے تیری۔“
“ماں تو میری زندگی کی بات چھوڑ۔“ ایلی نے کہا۔
“کیسی باتیں کرتا ہے۔“ وہ بولی۔ “ چلی اپنے لیے سہی۔ میری خاطر چل۔“
“کیا کروں گا وہاں جا کر،“
“تو چل تو سہی۔“

پاگ بابا امرتسر علی سڑک پر ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ اس کے سر پر ایک بہت بڑی پگڑی تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ پگڑی باندھی ہوئی نہ ہو بلکی گٹھا سا بنا کر سر پر رکھ لی گئی ہو۔ اس کے جسم پر ایک لمبا سا چغہ لٹکتا تھا۔

ایک درخت کے نیچے ایک چھوٹا سا بستر، ایک مٹی کا پیالہ۔ ایک لوٹا۔ اور ایک تھالی پڑی تھی۔ یہ بابا کا جملہ سامان تھا۔ اسے کبھی کسی نے بیٹھے نہ دیکھا تھا۔ ہمیشہ سڑک پر ادھر ست ادھر، ادھر سے ادھر گھومتا رہتا۔ چھاتی ابھری رہتی، گردن اٹھی رہتی۔ اسے دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا تھا۔ جیسے نپولین جہاز کے تختے پر گردو پیش کا جائزہ لے رہا ہو۔
پھر وہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو جاتا۔ لیکن نماز پڑھنے کے لیے وہ سڑک سے ہٹ کر قریب ہی کھیتوں میں چلا جاتا تھا، نماز سے فارغ ہوتے ہیں وہ واپس سڑک پر آ جاتا۔ بابا کو کبھی کسے نے سوتے، اٹھتے یا کھاتے پیتے نہ دیکھا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
1178

اللہ سے بیاہ


ریتی پور کے گاؤں میں ایک روز جب لوگ مسجد میں گئے تو بابا وہاں بیٹھا نماز پڑھ رہا تھا اور اس کا مختصر سا سامان جس میں ایک چھوٹا سا بستر بھی شامل تھا۔ حجرے میں رکھا ہوا تھا۔ گاؤں والوں نے سمجھا کہ مسافر ہے۔ شاید سستانے کے لیے وہاں رک گیا ہے۔ دو ایک روز تو لوگ اسے ساگ روٹی بھیجتے رہے۔ تیسرے روز ریتی کا نمبردار غصے میں آ گیا کہنے لگا۔ “ دیکھ بابا یہ مسجد ہے۔ اللہ کا گھر ہے۔ ہوٹل یا سرائے نہیں ہے۔ تو اب اپنا راستہ لے۔ یہاں ڈیری جمانا غلط ہے۔“ چوتھے روز وہ پھر مسجد میں گیا۔ تو بابا جوں کا توں بیٹھا تھا۔

نمبردار کو طیش آ گیا۔ اس نے بابے کا سامان اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ اور دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دیا۔

بابے نے اپنی پگڑی سر پر رکھی سامان اٹھایا۔ اور ریتی پور کی مسجد سے دس پندرہ قدم کے فاصلے پر جا کر سڑک پر بیٹھ گیا۔

اسی شام نمبردار کی بھینس بیمار پڑے بغیر مر گئی۔ سارا گاؤں حیران تھا کہ بھینس کو کیا ہوا۔ کچھ لوگ کہنے لگے “ تم نے بابا کے ساتھ بدسلوکی کی تھی۔ یہ اس کا نتیجہ ہے۔“

نمبردار غصے میں چلانے لگا۔ “ میں نے کیا برا کیا تھا۔ کیا شریعت کے خلاف بات کی تھی۔ سیدھی بات ہے میاں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ وہاں جا کر نماز پڑھو۔ میلاد کرو۔ عبادت کرو اور اگر کوئی مسافر ہو تو بے شک دو دن کے لیے وہاں ٹھکانہ بھی کر لے۔ پر یہ کیا ہوا کہ اسے گھر بنا کر بیٹھ جائے۔“ نمبردار نے بھینس کی موت کو بابا کی بدعا کا نتیجہ سمجھنے سے صاف انکار کر دیا۔

اگلے روز جب وہ حویلی میں تو ایک اور بھینس مری پڑی تھی۔ “ارے“ وہ سر تھام کر بیٹھ گیا۔ آٹھ روز میں جب اس کی تینوں بھینسیں بے وجہ مر گئیں تو وہ گھبرا گیا اور اس نے گاؤں میں کھڑے ہو کر لوگوں کی منتیں کیں۔ “میں تباہ ہو گیا۔“ یہ کیا مصیبت آ پڑی ہے مجھ پر، خدا کے لیے میری مدد کرو۔ ضرور یہ اس بابا کی بدعا ہے۔ مجھ سے بھول ہو گئی۔ میری توبہ ہے، میں اس کے پاؤں پڑنے کے لیے تیار ہوں مجھے اس سے معافی لے دو، ورنہ تباہ ہو جاؤں گا۔“
 

ماوراء

محفلین
1179

وہ سب مل کر بابا کے پاس گئے۔ لیکن بابا چپ چاپ نے نیازی سے سڑک پر ٹہلتا رہا جیسے اسے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہو۔ دیر تک وہ چیختے چلاتے رہے لیکن بابا اپنی ہی دھن میں ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر سڑک ناپنے میں مصروف رہا۔

اسی شام وہ پھر بابا کے پاس گئے۔ انہوں نے منتیں کیں۔ کہ وہ پھر مسجد میں آ بیٹھے۔ وہ اسے گاؤں میں ایک مکان دینے کے لیے تیار تھے۔ اس کی خدمت کرنے کے لیے بے تاب تھے بشرطیکہ وہ گاؤں والوں کو معاف کردے ---------- لیکن بابا نے ان کی طرف دھیان نہ دیا۔

پھر اگلے روز انہوں نے گاؤں کے وارے میں بیٹھ کر مشورہ کیا۔ ہر کسی نے اپنی اپنی تجویز پیش کی۔ لیکن دولے چمار کی بات سب کو پسند آئی۔ اور انہوں نے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک آدمی سڑک پر جا بیٹھا کہ بابا پر نگاہ رکے۔ گاؤں کے دس ایک آدمی وضو کر کے انتظار میں بیٹھ رہے۔ جب بابا نماز پڑھنے کے لیے کھیت میں اور نیت باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ سب بھاگے اور بابا کے پیچھے قطار بنا کر نماز پڑھنے لگے۔

جب بابا نماز پڑھ کر فارغ ہوا اور اس نے پیچھے دیکھا کہ گاؤں والے اس کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں تو وہ چلانے لگا۔ “جاؤ جاؤ۔ اٹھو میرے پیچھے مت بیٹھو۔ تم نے اللہ سے بیاہ نہیں کیا۔“

گاؤں والوں میں سے ایک بولا۔ “ہم تمہارے پیچھے نماز پڑھنا نہ چھوڑیں گے۔ جب تک تم ہمیں معاف نہ کرو۔“

“مت پڑھو، مت پڑھو۔“ بابا چلایا۔ “تم نے اللہ کے ساتھ بیاہ نہیں کیا۔“
“تو کہہ دو گاؤں والوں کو معاف کیا۔“ وہ بولے۔
“اللہ معاف کرے گا۔“ وہ بولا۔ “جاؤ جاؤ۔“
“اللہ نہیں کرے گا۔ جب تک تم نہ کرو۔“ گاؤں والوں نے کہا۔
“جاؤ جاؤ۔“ بابا بولا۔ “میں کون ہوں۔ میں کچھ نہیں میں کچھ نہیں۔جاؤ۔“
“چاہے تم کچھ نہیں۔“ گاؤں والوں نے کہا۔ “جب تک تم یہ نہ کہو گے کہ جاؤ معاف کیا ہم نہیں جائیں گے۔“
“بابا اٹھ بیٹھا۔ وہ کھیتوں میں گھومنے لگا۔“ پگلے پگلے تنگ کرتے ہیں۔ تنگ کرتے ہیں۔“ گاؤں والے وہیں بیٹھے رہے۔
“جاؤ۔ جاؤ۔“ بابا بار بار ان کے قریب آ کر چلاتا۔
 

ماوراء

محفلین
1180

“کہو معاف کیا۔“ وہ جواب دیتے۔ بابا پھر گھومنے لگتا۔ “ میں کون ہوں میں کوں ہوں۔ اللہ معاف کرنے والا ہے۔“
دیر تک وہ یوں ہی چلاتا رہا۔ پھر بولا۔ “جاؤ معاف کیا جاؤ جاؤ۔ اللہ سے بیاہ کر لو۔ سب اللہ سے بیاہ کر لو جاؤ۔“
اس کے بعد انہوں نے کئی بار کوشش کی کہ بابا گاؤں میں آ رہے لیکن بابا نے ان کی بات نہ سنی اور وہیں سڑک پر گھومتا رہا۔

بابا کی یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بابا کے پاس آنے لگے۔ لیکن جلد ہی ان سب کو معلوم ہو گیا کہ بابا نہ بیٹھے گا نہ بات کرے گا۔ لٰہذا لوگوں نے آ آ کر بابا کو سلام کرنا شروع کر دیا۔ بات کرنی ممکن نہ تھی مگر وہ سلام تو کر سکتے تھے اور رسم اس قدر عام ہو گئی کہ سڑک پر چلتی ہو بسیں، لارہاں اور موٹریں بابا کے ڈیرے کے پاس آ کر رک جاتیں ڈرائیور انجن بند کر دیتے اور پھر از سر نو گاڑی سٹارٹ کر کے چل پڑتے یہ ان کی سلامی تھی۔

براتیں رک جاتیں۔ بینڈ انگریزی نیشنل انتھم بجاتے اور سلام کے بعد خاموشی سے پھر چل پڑتے راہگیر رک جاتے۔ سلام کرت اور پھر چل پڑتے۔
اور بابا اتنی بڑی پاگ سر پر رکھے سڑک پر ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر چکر لگاتا رہتا۔ اس کی چھاتی ابھری ہوتی۔ گردن تنی ہوتی۔ سر اوپر کی طرف اٹھا ہوتا۔ اور وہ ادھر ادھر یوں دیکھتا جیسے جہاز کا کپتان ہو۔ حالات کا جائزہ لے رہا ہو اور جہاز کو کھینچ کر پار لے جانے کے متعلق ملاحوں کو احکامات صادر کر رہا ہو۔“


میں کیا کروں

جب ہاجرہ اور ایلی وہاں پہنچے تو بابا کھیت میں بیٹھا نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔ ہاجرہ چپکے سے بابا کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگی۔ ایلی عالی کو اٹھائے قریب ہی بیٹھ کر تنکے سے زمین کریدنے لگا۔
نماز سے فارغ ہو کر بابا نے مڑ کر دیکھا۔ “تم نے اللہ سے بیاہ کیا ہے؟ وہ چلایا۔
“کیا ہے بابا جی۔“ ہاجرہ نے جواب دیا۔
 

ماوراء

محفلین
1181

“اچھا کیا۔“ وہ بولو۔ “اچھا کیا-“
“بابا جی یہ میرا بیٹا ہے۔“ وہ ایلی کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ “ادھر آ ایلی۔ ادھر آ۔ بابا کے سامنے۔“
ایلی اپنی جگہ چپ چاپ بیٹھا رہا۔
بابا نے ایلی کی طرف دیکھا۔ غور سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
“تمھارا بیٹا ہے۔“ دفعتاً وہ بولا۔
“جی بابا۔“ ہاجرہ بولی۔
“تمھارا بیٹا ہے۔ تو پھر میں کیا کروں۔
“دعا کریں آپ۔“ وہ بولی۔
“میں کون ہوں۔“ وہ چلایا۔ “ میں کون ہوں کہ دعا کروں۔“
“آپ اللہ والے ہیں۔“ ہاجرہ بولی۔
“اللہ اپنے کام آپ جانے۔ وہ سب جانتا ہے اللہ اپنے کام آپ کرے وہ سب کرتا ہے میں کون ہوں۔“
“آپ اللہ والے ہیں“ ہاجرہ نے پھر دہرایا۔
“سبھی اللہ کے ہیں۔ میں بھی ہوں پھر میں کیا کروں۔“ پھر وہ اٹھ بیٹھا اور وہیں کھیت میں چکر کاٹنے لگا۔
“وہ سب کرتا ہے وہی کرتا ہے کون کرتا ہے پھر کون کرتا ہے۔ وہی جانے۔ اسی کے کام ہیں وہی جانے۔ میں کیا کروں۔“ دیر تک وہ میں کیا کروں کی رٹ لگاتے ان کے سر پر منڈلاتا رہا۔
پھر وہ ایلی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
“کیا نہیں کیا؟------------ ۔“ بابا چلایا۔ “کیا نہیں کیا؟ جب تم نے ڈیرہ میں ڈیرا لگایا تو حضرت شاہ غور نے تم پر ترس کھایا اور تم کو حفاظت میں لیا تھا، نہیں لیا تھا؟“
ایلی نے ڈیرہ کا نام بابا کے منہ سے سن کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
“کیا نہیں کیا اس نے۔“ بابا چلایا۔ “وہ چکر کاٹنے لگا۔ واپسی پر وہ پھر ایلی کے روبرو کھڑا ہو گیا۔
 

ماوراء

محفلین
1182

اور تم کو وقت پہ وہاں سے نکال دیا۔ اور تمھیں چٹے کٹڑے میں جگہ دی۔ نہیں دی کیا؟“
چٹا کٹڑا۔ ایلی کو امرتسر یاد آ گیا۔
“اور پھر تمھارا منہ کالا کر دیا۔ اور تم چلتے پھرتے رہے اور لوگ چلتے پھرتے رہے۔ اور تم ان کو دیکھتے رہے اور وہ تمھیں دیکھتے رہے۔ پر انہوں نے تمھیں نہ دیکھا۔“
کیا نہیں کیا؟ کیا نہیں کیا؟پھر وہ دیوانہ وار چکر کاٹتا رہا۔ کہتے ہیں نہیں کیا۔ نہیں یا تو نہیں کیا کروں۔ چلو نہیں کیا۔ پھر تم کون ہو کہنے والے نہیں کیا۔ سب کچھ کیا سب کچھ کیا۔ کیا نہیں کیا۔ پھر وہ ایلی کے روبرو آ کر کھڑا ہوا۔“ کیا نہیں گیا۔“ وہ چلایا۔ “پھر تمھیں داتا کے قدموں میں جگہ دی۔ نہیں دی کیا؟“ وہ بولا۔ “بولو۔ دی۔ دی۔ وہ دینے والا ہے۔ ہم کون ہیں۔ ہم کون ہیں وہی سب کچھ ہے۔ سب کچھ دینے والا۔ اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔“
بابا پھر ایلی کے روبرو آ کھڑا ہوا پھر بولا۔ “جھنڈے شاہ نے تمھاری حفاظت کی۔ تم پر ترس کھایا۔ تمھیں بچایا۔ رحمت ہو گی اللہ کی بس اسی کی رحمت یہی چیز ہے۔ ہم کیا ہیں۔ ہم کیا ہیں کہتے ہیں کیا نہیں کیا پگلے پگلے۔“ وہ پھر چکر کاٹنے لگا۔


بڈھا اور لمبا



“اور اور۔“ وہ رکا۔ “ اس نے تمھارا ناواں لکھ لیا۔ نہیں لکھا؟ تم نے نہیں لکھوایا۔ تم نے کہا کہ تم اس سے بیاہ نہ کرو گے۔ نہ کرو نہ کرو۔ پھر کیا ہے؟ اس کا کیا؟ وہ تو اپنی رحمت سے بلاتا ہے۔نہ جاؤ۔ نہ جاؤ پھر کیا ہے؟ اس پر بھی تمھارا ناواں لکھ لیا۔ لکھ لیا۔“
وہ پھر چکر کاٹنے لگا۔“خود اندھے ہیں خود اندھے۔ اور کہتے ہیں۔ کچھ نہیں کیا۔ پھر میں کیا کروں۔ کیا کروں ہیں۔“

وہ پھر آ کھڑا ہوا۔ “اس بڈھے نے سب کچھ بتایا نہیں بتایا کچھ بولا۔ اس نے تمھارا ناواں لکھا ہے وقت وقت کی بات ہے۔ وقت پر ہوتا ہے وقت پر نہیں ہوتا۔ اس بڈھے نے کہا وقت آئے گا۔ تم نے پرواہ نہ کی۔ اندھے ہیں اندھے اندھے ہی اندھے۔“ وہ پھر چکر لگانے لگا۔

ایلی حیرت سے اس بڈھے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے حاجی صاحب کھڑے تھے۔ ہاجرہ سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ سامنے سڑک پر لوگ کھڑے حیرت ست دیکھ رہے تھے۔ بابا نے کبھی کسی کو پاس نہ بٹھایا تھا۔ وہ ہاجرہ عالی اور ایلی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عالی انگلیوں سے لکیریں کھینچ رہا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
1183

بابا پھر آ گیا۔ “پھر میں کیا کروں۔ میں کر سکتا ہوں۔ تم وہاں جاؤ نہ جاؤ۔ جہاں تمھارا ناواں ہے۔ دور بہت دور۔ رومی ٹوپی والا بڈھا بیٹھا ہے۔ وہ تم ایسوں سے نپٹ لے گا۔ کنویں کے پاس۔ مسجد کے پاس ندی کے پاس۔ وہ بڈھا بڑا جبردست ہے۔ اور اس کا بالکا وہ لمبا ہی لمبا اور اونچے قد والا دونوں بیٹھے ہیں جہاں تم نے پہنچنا ہے۔ جاؤ۔ جاؤ۔ وہ چلایا۔ “ میں کیا کروں۔ جاؤ جہاں تم نے جانا ہے۔ ان سے ہو کر پھر تم نے وہاں پہنچنا ہے۔ جہاں تمھارا ناواں لکھا ہے یہیں ہے ہو کر جانا ہے۔“ اس نے سڑک کی طرف اشارہ کیا۔ “جاؤ جاتے کیوں نہیں جاؤ۔ میں کیا کروں۔ میں کیا کروں۔“
دفعتاً بابا کو غصہ آ گیا۔ “جاؤ جاؤ جاتے کیوں نہیں۔ جاؤ۔“ اس نے ہاجرہ اور ایلی کو دھمکایا۔
“اس کو بھی لے جاؤ۔“ اس نے عالی کی طرف دیکھا۔ “اس کو جو گل گیا تھا۔ پیٹ میں گل گیا تھا۔ اسے بھی لے جاؤ۔ جاؤ۔ جاؤ وہ غصے میں چلایا۔
“نہیں جاتے، نہ جاؤ نہ جاؤ۔ تم جانو بڈھا جانے میں کیا کروں، میں کیا کروں۔“ یہ کہتا ہوا بابا سڑک کی طرف چل پڑا۔

وہ تینوں چپ چاپ بیٹھے رہے۔ ہاجرہ کے چہرے پر عجز اور انکسار کے تودے لگے ہوئے تھے عالی ایلی کا منہ تک رہا تھا۔ اور ایلی خاموش بیٹھا تھا چاروں طرف سے دھندلکا اس پر یورش کر رہا تھا۔
دھندلکے میں کھڑی شہزاد مسکرا رہی تھی۔“جاؤ۔“ وہ کہہ رہی تھی۔ “رکاوٹ تو دور ہو گئی۔“ حاجی صاحب کا سر ہل رہا تھا۔ “آئے گا وقت ضرور آئے گا۔“ وہ مدھم آواز میں گنگنا رہے تھے۔ ان کی آنکھیں یوں چمک رہی تھیں جیسے انہوں نے اسی سرے کی سلائی لگا رکھی ہو۔

غلام مسکرا رہا تھا۔ اللہ ہی اللہ۔ اللہ ہی اللہ اس کی ستار سر دھن رہی تھی۔
“اے ری عالی پیا بن۔“ رضی کی آنکھوں سے مٹھاس بھرے چھینٹے اڑ رہے تھے۔ پیا پیا کوئل چیختی ہوئی اڑے جا رہی تھی۔
اس دھند لکے میں ایک بڈھا میلی سی رومی ٹوپی پہنے فضا میں گھور رہا تھا۔ اس کے قریب ایک اونچا لمبا دبلا پتلا انسان چپ چاپ بیٹھا تھا۔
 

ماوراء

محفلین
1184

کنواں ایڑیاں اٹھائے ان کی طرف جھانک رہا تھا۔ ٹوٹی ہوئی مسجد کے مینار گم صم کھڑے دیکھ رہے تھے چھوٹے چھوٹے درخت باادب کھڑے تھے۔
جب ایلی گروپتن پہنچا تو وہ دھندلکا بدستور قائم تھا۔
اس کے بعد ایلی کے احساسات میں نہ جانے کیا ہوا۔ جب بھی وہ رضی مانی اور رنگی کے پاس بیٹھا ہوتا اور رضی کوئی نہ کوئی راگ چھیڑتا۔ “گہری رے اے ندیا۔“
تو اس کے روبرو ایک وسیع میدان پھیل جاتا۔ گہری ندی کے قریب ایک کنواں ابھر آتا اور پھر پاس ہی ایک مسجد سفید چادر اوڑھے آ بیٹھتی اور ایک مختصر سی چار دیواری کے اندر سفید ٹائیلوں پر رومی ٹوپی اوڑھے ایک بڈھا اپنے ہی دھیان میں مگن بیٹھا ہوتا۔ پاس ہی دراز قد با ادب کھڑا ہوتا۔
“پون چلت پرویّا۔“ رضی گویا آہیں بھرتا۔ “وہی دنیا۔“ وہ چادر میں لپٹی ہوئی مسجد اپنا آپ سمیٹتی۔ دور ہوا سیٹیاں بجاتی۔ وسعتیں اور پھیل جاتیں۔ کائنات انگڑائی لیتی پتے سرگوشیاں کرتے درخت جھکتے ندی اور گہری ہو جاتی۔
ایلی رضی رنگی اور مانی کے درمیان بیٹھ کر بھی اسی منظر میں کھویا رہتا۔
“لو شریمتی آ گئیں۔“ رنگی مسکرایا۔
ایلی کی نگاہ تلے ایک نیلی رومی ٹوپی ابھری۔
“کیا بوٹا سا قد تھا۔“ مانی تتلی کو دیکھ کر مسکرایا۔
ایک بوٹا ایلی کی نگاہوں میں ابھرتا۔ اور پھر دراز قد ایلی کی طرف دیکھتا۔ اور پھر پاگ بابا چیختا۔ “جاؤ۔ چلے جاؤ تم جانو اور وہ جانیں۔ میں کون کون ہوں۔“
اور حاجی صاحب کا سر جھولتا۔ “اللہ کا کرم ہے جس پر ہو جائے۔“
پاگ بابا نے نہ جانے ایلی کو کیا کر دیا تھا۔
لیکن ایلی کا ذہن جوں کا توں تھا۔ وہ ایک مضبوط قلعے کی طرح اس کے گرد حصار کیے ہوئے تھا۔ یہ ٹھیک ہے۔ بابا نے اس کے ماضی کے متعلق اتنی ساری باتیں بتا دی تھیں۔ ضرور بابا میں کوئی طاقت کام کر رہی تھی۔ لیکن ایلی سوچتا اس شعبدہ بازی سے مجھ سا سمجھدار آدمی کیسے متاثر ہو سکتا ہے۔ شعبدہ بازی ایلی کو حیران کن ضرور کرتی تھی اسے شعبدہ بازی سے چنداں دلچسپی نہ تھی۔ معجزات یا اس قسم کی غیر مرئی طاقت اس کے لئے حیران کن ضرور تھی۔ لیکن وہ اس کے ایمان کو استوار نہ کرتی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
1185

نہ ہی اس کے دل میں خدایا مذہب کے لیے جذبہ پیدا کرتی۔ اور نہ ہی وہ ایسے لوگوں کو اللہ والے تسلیم کرنے پر تیار تھا جن سے ایسی طاقتوں کا ظہور ہوتا۔
غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ اگرچہ وہ بے حد ڈرپوک تھا لیکن اللہ پر اس کا ایمان ڈر کی بنیاد پر قائم نہ تھا۔
اللہ کا تخیل جو اس کے دل میں قائم ہوا تھا وہ جیم جیمز کی فلکیات ہالڈین ہکسلے کے “سائنس کیا عجز“ سے متعلق مضامین برڑنڈرسل کے فزکس سنتایانا کے جذبات کاؤنٹ کربمیین کے مشاہدات اور ایچ۔ جی ولز کی سائنس فکشن کتابوں سے اخذ کیا گیا تھا۔
ڈر کی بجائے اس کا دل اللہ تعالٰی کی عظمت کے جذبات سے معمور تھا اسے اللہ کے بندوں کی طاقتوں کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ اور ہوتا بھی تو اسے ان سے کوئی سروکار نہ تھا۔چونکہ اسے اللہ کی طلب نہ تھی احترام تھا فقط احترام۔ ویسے وہ اللہ کی محبت سے کورا تھا۔ اللہ سے محبت کا سوال ہی نہ پیدا نہ ہوتا تھا۔ اللہ سے محبت صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جب وہ اپنی مرلی اٹھا کر نیچے اتر آئیں۔ اسے بجائیں اور کائنات مادھوبن میں رادھکاں کی طرح ناچے اور ان کی مرلی کے سحر تلے بوٹے اگ آئیں پھول کھل جائیں اور کوئل چلائے پیو پیو۔

ہندوئیت اور عیسائیت کے مطابق اللہ کی محبت کا تخیل اس کے لیے قابل قبول تھا۔ اسلام کے مطابق تو صرف اللہ ہو اللہ ہو تھا۔ عظمت عظمت عظمت عظمت۔ محبت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔ اور اس بے پناہ عظمت کا اسے کچھ کچھ احساس تھا۔ جو اس نے مغربی علماء کی تحریروں سے اخذ کیا تھا۔ اسلام سے نہیں۔
لٰہذا معجزات کو خاطر میں لانا یا اللہ کے ان بندوں کے سامنے جھکنا بے کار تھا۔ ایلی کی ذہنی دنیا بے حد مستحکم اور محفوظ تھی۔
لیکن اس کی جذباتی دنیا ذہنی خیالات سے دور اپنے ہی رنگ میں بستی تھی۔
شاید اسی لیے اسےٹھمریوں سے محبت تھی چونکہ ٹھمریوں کے زیر اثر مرلی اٹھائے لکٹ لگائے نیچے اتر آئے۔ اور پنگھٹ پر اسے گھیر لیتے۔ اس کی ذہنی چوڑیاں ٹوٹ جاتیں۔ اس کے فلسفے کی گاگر پھوٹ جاتی اور وہ اس ٹوٹ پھوٹ سے بے نیاز ہو کر رادھکاں بن کر ناچتا۔
لیکن یہ رومی ٹوپی والا بڈھا اور دراز قد کون تھے۔ جو اس کی پرائیوٹ زندگی میں خواہ مخواہ گھسے چلے آ رہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ عجیب بات تھی کہ وہ لاحول پڑھنا بھول جاتا۔ اس کا دل احترام سے بھر جاتا۔ اور پھر نہ جانے کون مرلی چھیڑ دیتا اور کائنات ناچنے لگتی۔
 

ماوراء

محفلین
1186

خاموش عزم


پھر ایلی ہاجرہ اور عالی چند ایک روز کی رخصت پر علی پور چلے گئے۔
علی پور ایلی کے لیے ایک ویرانہ تھا۔ نہ وہاں اس کا دوست تھا۔ نہ کوئی دلچسپی شہزاد کے چوبارے کو دیکھ کر اسے ہلکی سی اداسی محسوس ہوتی تھی۔ اور بس۔ محلے والوں کے دلوں میں ابھی تک اس وقت کی یاد باقی تھی۔ اگرچہ محلے والیاں اسے ہنس کر بلاتی تھیں لیکن جلد ہی کسی کے منہ سے زمانہ ماضی کی کوئی بات نصیحت کے رنگ میں نکل جاتی۔
گھر میں علی احمد اسی طمطراق سے رہتے تھے۔ وہ بات بات پر گھر والوں کی روجہ اپنی طعف منعظف کرتے اور راجو یا شمیم کو طعنے دیتے رہتے۔
شمیم کی دونوں بیٹیاں جوان ہو چکی تھیں۔ بڑی دسویں جماعت پاس کر چکی تھی۔ اور اب کسی مدرسے میں معلمہ تھی۔ چھوٹی لڑکی کی شادی ہو چکی تھی۔
راجو کا بیٹا شیر علی لاہور میں اپنی بیوی کے پاس رہتا تھا۔ نصیر کالج میں تعلیم پاتا تھا۔ اس کے علاوہ علی احمد کے دو بیٹے اور تھے۔ وزیر اور کبیر وہ دونوں مدرسے میں پڑھتے تھے۔ جب سے علی احمد نے پنشن پائی تھی ان کی زندگی میں خاصی تبدیلی واقعی ہو گئی تھی۔ وہ سارا دن گھر بیٹھے رہتے اور اپنے رجسٹروں میں کچھ لکھتے رہتے۔ نصیر وزیر اور کبیر سے ان کا رویہ قطعی طور پر مختلف تھا۔ چونکہ اب وہ بوڑے ہو چکے تھے اور باپ کی بجائے دادا بن گئے تھے لٰہذا وہ ہر وقت اپنے بیٹوں کو اپنے پاس بٹھائے رکھتے اور انہیں اپنے خیالات کے انجیکشن لگاتے رہتے۔
ایلی علی پور پہنچا تو علی احمد نے حسب معمول بڑے تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ گروپتن کے متعلق پوچھنے لگے۔
“کیوں بھئی۔“ تمھارا جی لگ گیا وہاں۔ بڑا اچھا مدرسہ ہے۔ خوبصورت شہر ہے۔“پھر معروف صاحب کی بات چل نکلی بولے “دراصل تم کیرئیر کے لحاظ سے خاصے بدقسمت واقع ہوئے ہو۔ ورنہ محکمہ تعلیم کے سبھی افسر اپنے دوست ہیں اگر تمھارے خلاف شکایات نہ ہوتیں تو نہ جانے ان کی مدد سے تم کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔“
اپنے اثرورسوخ پر ناز کرنے کی علی احمد کی پرانی عادت تھی۔ وہ خود بڑے عہدے پر نہ پہنچ سکے تھے۔
 

ماوراء

محفلین
1187

اور اپنی تمام تر زندگی میں کوئی مقام حاصل نہ کر سکے تھے۔ اس لیے عادی طور پر وہ اپنی اہمیت ان دوستوں سے اخذ کرتے تھے۔ جنہیں کوئی نہ کوئی مرتبہ حاصل تھا۔ ایلی ان کی اس عادت سے پورے طور پر واقف تھا لیکن اس میں اس قدر فراخدلی نہ تھی کہ ان کی اس چھوٹی سی کمزوری کو برداشت کرتا۔

ان کے منہ سے اپنے دوستوں کی عظمت کا تذکرہ سن کر وہ جل کٹ جاتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ علی احمد کا کوئی دوست نہیں۔ لوگ صرف ان کی بذلہ سنجی کی وجہ سے ان سے ملتے اور گپیں ہانکتے تھے۔ دراصل وہ علی احمد کے لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کی وجہ علی احمد کی اپنی طبیعت تھی۔ چونکہ وہ بڑے آدمیوں کو ہوا دینے کے قائل تھے۔ ان کا ادب لحاظ ملحوظ خاطر رکھتے۔ وہ کسی بڑے آدمی سے برابری کے احساس سے نہیں مل سکتے تھے۔
بہرصورت ایلی میں اس قدر وسعت قلب نہ تھی کہ علی احمد کی اس چھوٹی سی خوشی میں ان کا ساتھ دیتا۔
“دیکھئے اباجان۔“ وہ بولو۔ “آپکے دوست آج تک میرے لیے کچھ نہ کر سکے چھوڑئیے اس بات کو۔“
اس پر علی احمد کو غصہ آ گیا۔ غصہ تو آنا ہی تھا۔ چونکہ ان کا اپنا بیٹا ان کی تمام تر اہمیت کو یوں یک قلم رد کر رہا تھا۔
“اگر معروف صاحب ڈائریکٹر نہ ہوں۔“ وہ جلال میں کہنے لگے۔ “یا تم میرے بیٹے نہ ہو تو تم ایک روز بھی اپنی نوکری پر قائم نہیں رہ سکتے۔“
“آپ کا مطلب یہ ہے نا کہ انہوں نے آپ کی وجہ سے میرے خلاف شکایات پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔“ ایلی نے کہا۔
“بالکل۔“ وہ بولے۔
“یہ میں تسلیم کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں۔“ ایلی نے کہا۔ “لیکن ان کی امداد مثبت قسم کی نہیں۔“
“کیا مطلب۔“ علی احمد بولے۔
“انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا۔ صرف نوکری پر بحال رکھا ہے۔“ ایلی نے جواب دیا۔
“اجی میاں۔“ علی احمد چلائے۔ “اگر وہ نہ ہوں تو تم ایک دن کے لیے بھی نوکری نہیں کر سکتے۔“
 

ماوراء

محفلین
1188

ایلی کو غصہ آ گیا بولا۔ “یعنی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مجھ میں اتنی قابلیت ہی نہیں کہ ادنٰی سی نوکری بھی کر سکوں۔“ وہ ہنسے۔ “میاں تم اپنی قابلیت کے زور پر ادنٰی سے ادنٰی نوکری بھی نہیں کر سکتے صرف میری وجہ سے تم اتنے بڑے عہدے پر فائز ہو یہ سنا تم نے نصیر کی ماں کیا کہا ہے۔ ہم نے۔ کیا کہتی ہے۔ کیا غلط کہا ہے۔ ہی ہی ہی ہی۔“ وہ ہنسے۔ “یہ ایلی کیا نوکری کرے گا۔ اپنے بل پوتے پر۔ وہ ہم ہی تھے جو بغیر کسی مدد کے کسی واسطے کے اتنے سال نوکری کی اور عزت سے کی۔ کیا کہتی ہے۔“
ایلی کے دل میں ایک عزم بیدار ہو رہا تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا وہ خاموش عزم تقویت پکڑتا گیا۔ ایلی کی تمام تر انا گویا احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ ایک مظلوم حبشی کی طرح تن گئی تھی۔ حبشی کی آنکھیں اپنے خانوں سے باہر نکل آئی تھیں۔ گویا سو جا ہوا تھا۔ بازو تنے ہوئے تھے۔ توڑ دو توڑ دو۔ یہ زنجیر توڑ دو۔ اس کے جسم کے بند بند سے نعرے بلند ہو رہے تھے۔
ایلی نے اب تک اپنی اہمیت شہزاد سے اخذ کی تھی۔ اسے وہ محبوبہ حاصل تھی جس کے لیے آصفی محلے کے تمام افراد چشم براہ تھے۔ لیکن اب اس کی موت کے بعد ایلی کے لیے کوئی ایسی بات نہ تھی جس پر وہ اپنی اہمیت کو استوار کر سکتا تھا۔ علی احمد کی اس سرسری بات نے ایلی کی توجہ کو اس بات کی طرف منعطف کر دیا تھا۔ اسے اپنی قابلیت پر بڑا ناز تھا۔ وہ جملہ اساتذہ کو کمتر سمجھتا تھا۔ اس کی دیرینہ خواہش تھی۔ کہ اساتذہ کے جھرمٹ سے نکل جائے۔ ان کی زندگی کھوکھلی تھی۔ ان کی شخصیتیں بناوٹی اور رسمی تھیں۔ انہوں نے اخلاقیات کا خول پہن رکھا تھا۔ ان کا علم کتابی تھا۔ نڈر، فکر کی ان میں صلاحیت نہ تھی۔
ایلی کا ارادہ پختہ ہوتا گیا۔ کہ وہ محکمہ تعلیم کو چھوڑ دے گا۔ جہاں اعلٰی افسر علی احمد کے دوست تھے۔ وہ اپنا راستہ خود پیدا کرے گا۔


رام گوپال

چند ایک روز کے بعد ایلی لاہور چلا گیا۔
لاہور میں اس نے محمود سے بات کی۔ “یار کوئی نوکری تلاش کرنے آیا ہوں۔ میری مدد کرو۔“ وہ بولا۔ “میں سکول کی نوکری نہیں کروں گا۔“
 

ماوراء

محفلین
1189

“ نوکری تلاش کرنے آئے ہو۔“ محمود بولا۔ “تو مہربانی کر کے تلاش کرو۔ میں بھی اس محکمے سے اکتا گیا ہوں۔“
محمود نے بات مذاق میں ٹال دی۔ اب ایلی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کہاں جائے کس طرح کوشش کرے۔ اتفاق اے اس کی توجہ میز پر پڑے ایک اخبار کی طرف منعطف ہو گئی۔ اس نے ورق گردانی شروع کر دی۔ وہ چونک پڑا۔ اخبار میں لکھا تھا ایک نئے محکمے کے لیے چند آسامیاں پر کرنے کے لیے گریجویٹوں کی ضرورت ہے۔
“یہ دیکھو۔“ اس نے محمود سے کہا۔ “تم تو کہتے تھے نوکری ڈھونڈنے سے ملتی نہیں۔“
محمود ہنسا۔ “خالی تو بیسیوں ہوتی ہیں روزانہ لیکن ملتی نہیں۔“
“میں عرضی دوں گا۔“ وہ بولا۔
“دینے کا کیا مطلب ہے۔“ محمود چلایا۔ “انہوں نے تو لکھا ہے کہ عرضی لے کر خود آ جاؤ۔
وہاں سینکڑوں سفارشی ہوں گے۔ تمھیں کون پوچھتا ہے۔“
ایلی نے عرضی لکھی اور اسے لے کر خود اس محکمے میں جا پہنچا۔
محکمہ کا ڈائریکٹر ایک نوجوان ہندو تھا۔ اس نے ایلی کا بغیر جائزہ لیا۔ “ہوں۔“ وہ بولا۔
“تو آپ الیاس آصفی ہیں؟“
“جی۔“ ایلی نے کہا۔
“اور آپ محکمہ تعلیم میں ہیں“
“جی ہاں۔“
“کتنی نوکری کر چکے ہیں آپ محکمہ تعلیم میں۔“
“پندرہ سال۔“
“پندرہ سال کافی لمبا عرصہ ہے۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“لیکن آپ اس نوکری کو چھوڑنا کیوں چاہتے ہیں؟“
ایک ساعت کے لیے ایلی نے سوچا اور پھر فیصلہ کر دیا کہ وہ اسے سچی بات بتائے گا۔ وہ بولا۔
“جناب محکمہ تعلیم میں میرے والد کا اثر و رسوخ ہے۔“
“یہ تو اور بھی اچھا ہے۔“ وہ بولا۔
 

ماوراء

محفلین
1190

“جی۔“ ایلی نے کہا۔
“تو آپ وہ محکمہ چھوڑنا کیوں چاہتے ہیں؟“
“میں ایسے محکمے میں نوکری نہیں کرنا چاہتا۔ جہاں بلاواسطہ اپنے بل بوتے پر ترقی حاصل نہ کر سکوں۔“
“کیوں۔“ ڈائریکٹر سوچ میں پڑ گیا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
“کیا آپ کو معلوم ہے۔“ ڈائریکٹر نے کہا۔ “کہ یہ آسامی جس کے لیے آپ نے درخواست دی ہے مستقل نہیں۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“اس میں پنشن نہیں۔“
“جی۔“ وہ بولا۔
“آپ کی پندرہ سال کی نوکری بےکار جائے گی۔“
“مجھے معلوم ہے۔“ایلی نے کہا۔
“معاف کیجئے گا۔“ وہ بولا۔
“میں آپ کو یہ آسامی دے کر آپ کا نقصان نہیں کرنا چاہتا۔
“معاف کیجئے گا۔“ایلی نے کہا۔
“میرا فائدہ اور نقصان میں بہتر سمجھتا ہوں۔“
“اچھا۔“ڈائریکٹر نے کہا۔ “آپ امتحان میں شامل ہو جائیے۔“
“امتحان۔“ ایلی نے دوہرایا۔
“ہاں۔“ وہ بولا۔
“ہم انٹرویو لیں گے۔ اگر آپ پاس ہو گئے تو میں آپ کا کیس رکمنڈ کر دوں گا۔“
انٹرویو کے بعد ڈائریکٹر نے ایلی کو بلایا۔ اور ایک ٹائپ شدہ کاغذ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
“یہ آفر ہے۔“ وہ بولے۔ “اگر آپ کو ڈیڑھ سو روپے ماہوار تنخواہ منظور ہے۔ تو آپ مجھ سے بات کر سکتے ہیں۔ لیکن تب جب آپ یہاں جائن کرنے کے لیے آئیں۔“
“آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ میں بے حد شکر گزار ہوں۔“ ایلی نے جذبہ کی شدت سے اٹک اٹک کر کہا۔
 

ماوراء

محفلین
صفحہ 1191

“میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیا۔“ ڈائریکٹر نے کہا۔
“میں تو سمجھتا ہوں۔“ ایلی نے کچھ کہنا چاہا۔
“آپ غلط سمجھتے ہیں۔“
“اتنے میں ایک چپراسی کچھ کاغذات لے کر آ گیا۔
“ذرا ٹھہرئیے۔“ڈائریکٹر نے ایلی سے کہا۔
“تشریف رکھیے۔ ایک منٹ۔“
کاغذات پر دستخط کر کے وہ ایلی کی طرف متوجہ ہوا۔
“میں نے آپ پر احسان نہیں کیا۔“ وہ بولا۔ “ان بچوں پر احسان کیا ہے جنہیں آپ پڑھاتے ہیں۔“ ایلی نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
“آپ بچوں کو پڑھانے کے لیے بے حد ناموزوں ہیں۔“ وہ بولا۔ ایلی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کہ کیا کہے۔
“یہ درست ہے۔“ وہ بولا۔ “ کہ آپ ان میں فکر کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ آپ ان میں تحقیق کی سپرٹ بیدار کرتے ہیں۔“
“جی میں ---------- “ وہ گھبرا کر بولا -----------
“سن لیجئے۔ ڈائریکٹر نے کہا۔
ایلی خاموش ہو گیا۔
“لیکن آپ کی تعلیم ان کے لئے سم قاتل ثابت ہوتی ہے۔ اور تمام دنیا حریف بن کر ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔“ وہ رک گیا۔
پھر مسکرا کر بولا۔ “آپ کی تعلیم کی وجہ سے میری زندگی میں بہت مشکلات پیدا ہوئیں۔
بلکہ میری بیشتر مشکلات کی وجہ آپ ہیں آپ۔“
ایلی نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔
ڈائریکٹر بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایلی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میرا نام رام گوپال ہے۔ میں آپ کا شاگرد ہوں۔
ڈائریکٹر نے تپاک سے ایلی سے ہاتھ ملایا۔
ایلی کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
1192

“یہ بھی صحیح ہے۔“ رام گوپال بولا۔ “میں نے آپ سے پایا بھی بہت کچھ ہے۔ بہت کچھ۔ خداحافظ۔“
ایلی کے استعفٰی پر اک شور مچ گیا۔ لالہ جی نے جوان کے ہیڈماسٹر تھے اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ ایلی کو بار بار سمجھاتے کہ پندرہ برس کی نوکری کو یوں ٹھوکر مار کر چلے جانا عقل مندی نہیں۔ اساتذہ بھی حیران تھے۔ علی احمد نے سنا تو فوراً ایک خط لکھا۔ “برخودار ایسی حماقت نہ کرنا ورنہ زندگی بھر پچھتاؤ گے۔ تمھیں مسٹر معروف سا افسر اعلٰی کہیں نہیں ملے گا۔ اس محکمے کو نہ چھوڑو چونکہ محکمہ تعلیم کا وزیر بھی میرا پرانا لنگوٹیا ہے۔ ایسی آسانیاں کہیں دستیاب نہ ہوں گی۔“
لیکن ایلی نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
صرف رضی رنگی اور مانی تھے۔ جنہوں نے اس کی ہمت بندھائی۔
رضی نے کہا۔“بھئی دانہ پانی کی بات ہے۔“
رنگی بولا۔ “یار میں بھی اس محکمے کو چھوڑنا چاہتا ہوں۔ لیکن آج تک بات نہیں بنی۔ وہاں جاؤ گے تو میرے لیے بھی کوشش کرنا۔“
“بڑا اچھا کیا تم نے۔“مانی بولا۔ “شاباش اپنا راستہ خود بناؤ۔ چاہے ناکامی ہی کیوں نہ ہو۔“
لاہور میں ایلی کی زندگی یکسر بدل گئی محکمہ بدلنے کی وجہ سے ماضی کی تمام تلخیاں گویا اس کے نامہ اعمال سے دھل گئیں۔ محکمہ تعلیم میں اس کے افسران اور رفقائےکار کسی نہ کسی حد تک اس کے گزشتہ کارناموں سے واقف تھے۔ اس کی ہر بات کا مفہوم اس کی گزشتہ زندگی کے تار پود کے حوالے سے اخذ کیا جاتا تھا۔ اس کے خیالات اور جذبات بلاواسطہ کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔
اس محکمے میں وہ ماضی کے حوالے سے قطعی آزاد ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں اس کے ہمکار رسمی خیالات اور دکھلاوے کے تقدس سے بے نیاز تھے اگرچہ وہ نڈر ہو کر سوچ نہ سکتے تھے لیکن نڈر خیالات کے خلاف ان میں بغض نہ تھا۔ محکمہ تعلیم کو چھوڑ کر ایلی نے محسوس کیا جیسے وہ کیچڑ بھرے جوہڑ سے نکل کر دریا میں آ پہنچا تھا۔ وہاں روانی تھی وسعت تھی اور جمود نام کو نہ تھا۔
نئے محکمے میں آ کر چند ہی روز اس نے محسوس کیا جیسے وہ پرانا ایلی نہ تھا۔ جیسے بیتی ہوئی زندگی محض ایک خواب ہو۔
“میں نے کہا نا تھا۔“ شہزاد آ کر مسکراتی۔ تمھاری زندگی پھر سے شروع ہو گی۔“لاہور پہنچ کر اس نے پہلی مرتبہ شہزاد کو یاد کیا۔
 

ماوراء

محفلین
1193

شہزاد کی یاد اب اس کے ذہن میں گزشتہ تلخیوں سے بے تعلق تھی۔ جب بھی شہزاد کی یاد آتی تو وہ اسے مسکراتے ہوئے دیکھتا۔ اور اس کے دل میں عجیب سی خوشی پیدا ہوتی۔
لاہور میں اس کا ماموں زاد بھائی رفیق تھا۔ پھر فرحت بھی وہیں تھی۔ چونکہ اس کا خاوند اجمل لاہور کے ایک دفتر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اور حکومت کی وساطت سے انہیں مادھومحلہ میں ایک مکان مل گیا تھا۔ جہاں وہ رہتے تھے۔ ایلی فرحت کے پاس ٹھہرا تھا۔ اور ایک بار پھر اسے بھرے گھر میں رہنے کا موقعہ ملا تھا۔ فرحت نے ایک بڑا سا کمرہ ایلی عالی اور ہاجرہ کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔
ہاجرہ سے جب فرحت نے سنا کہ رنگی اور مانی ایلی کی شادی کے لئے کوئی رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں تو اسے بہت خوشی ہوئی۔ فرحت کو ایلی کی زندگی سے بے حد دلچسپی تھی۔ لیکن اس نے ایلی اور شہزاد کے تعلقات کے کبھی اچھے نگاہ سے نہ دیکھا تھا۔
ابھی ایلی کو لاہور آئے چند ایک روز ہی ہوئے تھے کہ مانی اور رنگی لاہور آ گئے۔ رنگی کے لئے لاہور ایک عظیم نعمت تھی۔ وہ وہاں آ کر بے حد خوش ہوتا تھا۔ اس لئے کہ خوبصورت ماحول اس کے نزدیک سب سے بڑی نعمت تھی۔ لاہور میں لباس تھا جوانی تھی۔ رنگ تھا۔ شوخی تھی۔ اور رنگی کے لئے یہی بہشت تھا۔
دور روز وہ اکھٹے سڑکوں پر گھومتے رہے۔ راگ ودیا کی باتیں کرتے رہے۔ پتلی اور شریمتی کے قصے دہراتے رہے۔ جب رنگی اور مانی جانے لگے تو دفعتاً رنگی بولا “ایلی تمھارے لئے ایک ایسی بیوی تلاش کی ہے۔ جس کا جواب نہیں۔ وہ تمام خصوصیات اس میں ہیں جن کی تمھیں اشد ضرورت ہے شکل و صورت سے تو تم بے نیاز ہو۔ باقی رہی طبیعت تو جناب ایسی نیک لڑکی ہمارے قصبے میں تو ہے نہیں کوئی۔ اور اس کا باپ ایک لاجواب مرد ہے۔ اس قدر شدت کی انفرادیت شاید ہی کسی میں ہو۔ جو منہ سے کہہ دیا پتھر کی لکیر سمجھ لو۔ اور دیانتداری کی تو حد نہیں کوئی۔ بات کا پکا قول کا پورا اور رسمیات سے بیگانہ بالکل بیگانہ۔ وہ لوگ آ کر تمھیں دیکھ لیں گے جیسے عام طریقہ ہے اور یہ بھی محض رسم ہے چونکہ لڑکی نگہت کی بچپن کی سہیلی ہے وہ اسے ذاتی طور پر جانتی ہے۔ بہرحال بات پکی سمجھو۔
“دیکھو بھائی۔“ ایلی نے کہا۔ “چاہے جو جی چاہے کرو میرے مرضی کے متعلق کوئی بات چھپا کر نہ رکھنا ایسا نہ ہو کہ بعد میں کہیں ہم سے دھوکا کیا گیا۔“
 

ماوراء

محفلین
1194

“یہ بات تم ہم پر چھوڑ دو۔“ مانی بولا۔
“نہیں یار یہ غلط ہے۔“ ایلی نے کہا۔
“تم ہمارے رشتہ داروں اور برادری والوں کو نہیں جانتے۔“ مانی نے کہا۔ “بے حد غلیظ لوگ ہیں۔ پشت در پشت دوکانداری کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر روپیہ تک محدود ہے جس کے پاس روپیہ ہے وہ بڑا آدمی ہے۔ سب لکیر کے فقیر ہیں۔ ہر بات قابل قبول ہے جس میں سے رسم کی بو آتی ہو۔ نئی بات الحاد ہے۔ نیا چین قابل تف ہے۔“مانی شدت میں نہ جانے کیا کہتا گیا۔ رنگی مسکرا رہا تھا۔
ایلی سوچ رہا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ کہ جس قصبے نے رنگی نگہت اور مانی جیسے کردار کئے ہوں۔ وہ قصبہ ازلی طور پر رنگ سے خالی ہو یا زندگی سے محروم ہو ضرور مانی بڑھا کر بات کر رہا تھا۔ چونکہ مانی میں تو توازن مفقود تھا۔ اس میں جذبہ تھا۔ خلوص تھا خود پسندی کی دبی دبی جھلک تھی اور بے پناہ جرات تھی۔
شادی کے متعلق ایلی اب سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کا قائل نہ رہا تھا۔ زندگی میں بہت سی باتیں جو اس نے سوچ سمجھ کر کی تھیں ان کا انجام اچھا نہ ہوا تھا۔ عورت کے متعلق تو اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ چاند کی طرح اک مخصوص پہلو آپ کے سامنے پیش کرتی ہے۔ اور عورت میں کئی ایک پہلو ہیں۔ متبسم پہلو۔ متذبذب پہلو “مجھے کیا“۔ اور وہ پہلو جس کے تحت شہزاد نے اس شرابی کے متعلق کہا تھا۔“ نہیں میں اسے معاف نہیں کروں گی۔ میرے سامنے بلک بلک کر گھسٹ گھسٹ کر مرے۔“
عورت کو پرکھنا ایلی کے خیال کے مطابق ناممکن تھا۔ عورت میں یہ صلاحیت تھی کہ سال ہا سال اپنا ایک ممخصوص پہلو پیش کرے وہ سالہا سال تبسم پہلو پیش کر سکتی تھی کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں۔ لیکن اگر ضرورت محسوس کرے تو متبسم ہی دکھائی دے گی۔ اور جب وہ سمجھے کہ اب ضرورت نہیں رہی تو حالات کے تقاضے سے بے نیاز ہو کر گھورنا شروع کر دے گی۔ یا بے پروائی اور بے نیازی کا جامہ اوڑھ لے گی۔ اس لئے عورت کو جانچنے کا سوال ہی نہیں ہوتا تھا ایلی سمجھنے لگا تھا شادی ایک جوا ہے۔ چاہے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کھیلو یا آنکھیں بند کر کے اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس نے یہ خواہش محسوس نہ کی تھی کہ ہونے والی بیوی کو ایک نگاہ دیکھ لے یا ہاجرہ کو بھیج کر اس کے ذریعے معلومات حاصل کرے۔
 

ماوراء

محفلین
1195

نامن پور

نامن پور ایک پرانا قصبہ تھا۔ جو لاہور سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر واقعی تھا نامن پور مغلوں کے زمانے میں آباد ہوا تھا۔ قصبے پر مغلوں کی مہر ثبت تھی قصبے کے گرد چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی چار دیواری تھی۔ جس میں آٹھ دروازے کھلتے تھے۔ چار دیواری کے اندر تنگ و تاریک گلیوں اور چھوٹے چھوٹے گلی نما بازاروں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ان تنگ گلیوں کے ارد گرد اونچی اونچی عمارتیں تھیں حویلیاں تھیں۔ ادھر ککے زیوں کا احاطہ تھا ادھر سیدوں کا پرلی طرف دیوانوں کا۔
قصبے کے شمال مغرب میں ہندؤں کا سیٹھ کنبہ آباد تھا۔ جن کی وجہ سے نامن پور مشہور تھا سیٹھوں کا یہ کنبہ نامن پور کا قدیم ترین کنبہ تھا۔ نامن پور کے گردونواح کے کھیت انہیں کی ملکیت تھے۔ سیٹھ حیسن تھے، متحمل مزاج تھے اور دولت کی حفاظت کرنا جانتے تھے۔ سیٹھوں کے بعد نامن پور کے نو مسلم مشہور تھے وہ سب ویش تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔ان کا پیشہ تجارت تھا۔ اور وہ قدیم زمانہ سے دوکانداری کرتے آئے تھے۔ ان ویشوں کی کئی ایک گوتیں نامن پور میں آباد تھیں مثلاً کاپر تھے نار وج تھے چالیہ تھے۔ نامن پور اور اس کے جوار کے قصبوں اور شہروں میں اس کی دوکانیں تھیں۔ جہاں وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار کرتے۔ ان میں چند ایک لوگ ہندوستان کے دور و دراز کے شہروں میں جا کر پنجاب کی مصنوعات بیچتے تھے۔ چند ایک ماہ شہروں کے چکر لگاتے اور پھر نامن پور میں لوٹ آتے تاکہ اگلے چکر کے لئے اشیاء فراہم کریں۔
ان میں سے گنتی کے لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ جنہوں نے کاروبار چھوڑ کر ملازمت اختیار کر لی تھی ان کی تعداد بہت کم تھی۔
چالیہ گوش کے ویشیوں کا سب سے بڑا گھرانا آصف کا تھا۔ غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آصف صاحب فکر تھے۔ اس کے فکر میں انفرادیت تھی۔ اور یہ انفرادیت صرف فکر کی حد تک محدود نہ تھی۔ وہ سوچتے تھے اور اسے فوراً عمال میں لانے کے قائل تھے۔ فکر کی اس عادت کی وجہ سے انہوں نے زندگی میں چند ایک اصول مرتب کئے تھے جن پر شدت سے پابند ہونے کے باوجود وہ اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ زندگی اصول سے زیادہ اہم ہے۔
 
Top