علی پور کا ایلی ( جاوید اقبال)486-515

قیصرانی

لائبریرین
ہے‘کہہ کرشانے ہلاتاتھاتوایلی کومحسوس ہوتاتھاجیسے وہ دھکادے کربرآمدے کے ستون کوگراسکتاہے اورجب جمال نے اس لڑکی کے متعلق باتیں کرتے ہوئے کہاتھا:
”اورپھرجب اپنابس چلتاہے توگن گن کربدلے لیتاہوں۔“
اس وقت اس کے چہرے پرعجیب وحشت ابھرآئی تھی جیسے واقعی گن گن کربدلہ لے رہاہو۔اس وقت ایلی کودکھ محسوس ہواتھا۔کاش وہ بھی گن گن کربدلہ لے سکتا۔کاش وہ بھی دیوانہ وارجھپٹ سکتا۔اس کے خیال میں مردانگی دیوانہ وارجھپٹنے کی صلاحیت کانام تھا۔
نہ جانے کیوںمگرایلی کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوچکاتھاکہ عورت صرف اس مردسے محبت کرتی ہے اورصرف اس کی عزت کرتی ہے جس میں جھپٹنے کی صلاحیت ہو۔ایساجھپٹناجس میں بے رحمی اورتشددکی جھلک ہو۔اسے علی احمدپربھی یہی گلہ تھاکہ اس میں جھپٹنے کی صلاحیت نہ تھی اوروہ صرف ٹین کاسپاہی بنناجانتے تھے اورجھوٹ موٹ کی لڑائی لڑکراپناکھویاہواوقارحاصل کرنے کی ناکام کوشش کیاکرتے تھے اوراس سعی لاحاصل سے الٹارہاسہاوقاربھی کھودیتے تھے۔
ایلی کواچھی طرح سے معلوم تھاکہ خصوصی قسم کی عورتیں علی احمدکی طرف کھینچی آتی تھیں۔علی احمدمیں ایک بے نام سی کشش تھی جس کی وجہ سے عورت ان کی جانب آنے پرخودکومجبورپاتی تھی۔ایلی اس اسرارکونہ سمجھ سکاتھاکہ آخرعلی احمدمیں وہ کیاخصوصیت تھی جوان کی بے پناہ کشش کی ذمہ دارتھی۔ان کے خدوخال میں کوئی خصوصی بات نہ تھی۔ان کے اندازمیں کوئی کشش نہ تھی۔ان کی باتیں بے حددلچسپ ہوتی تھیں۔لیکن باتیں توقرب حاصل ہونے کے بعداثراندازہوسکتی ہیں۔دورسے کھینچ کرقریب نہیں لاسکتیں۔اب البتہ ایلی کویہ احساس ہوچکاتھاکہ عورت کواپنی طرف متوجہ کرناایک بات ہے لیکن اسے اپنے زیراثررکھنادوسری بات---اس کاخیال تھاکہ علی احمدمیں عورت کے لئے کشش توہے لیکن وہ اسے اپنے اثرمیں رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس کااندازہ تھاکہ وہ ان کے کردارمیں مردانگی کودخل نہ تھا۔ان میں جھپٹ نہ تھی۔
جمال کودیکھ کروہ اس جھپٹ کااندازہ لگاتاتھا۔جمال میں کس قدراضطراب تھا۔جب اس نے ایلی سے کہاتھا:
”یوں زندگی کیسے گزرے گی؟“
تواس نے محسوس کیاتھاکہ جیسے جمال میںبے پناہ طاقت اپنااظہارکرنے کے لئے مضطرب ہو۔
اس وقت اسے شہزادکی بندبیٹھک کاخیال آگیا۔اس روزوہ کتنے جوش وخروش سے اٹھ کروہاں گیاتھا۔کس قدرخوساختہ دیوانگی سے اس نے جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔شہزادکی منتوں نے گویااسے اورابھاراتھامگر---ایلی کی آنکھوں تلے اندھیراآگیا---اس نے وہ بیتی ہوئی بے عزتی پھرسے شدت سے محسوس کی۔اورپھرحسرت وتحسین بھری نظروں سے جمال کی طرف دیکھاجوبالکونی کے ستون کودونوں ہاتھوں سے تھامے یوں کھڑاتھاجیسے ایک ہی جھٹکادینے سے وہ بھاری ستون ٹوٹ کردوحصے ہوجائے گا۔
دیرتک وہ برآمدے میں کھڑاسوچتارہتا۔حتیٰ کہ شام کی شفق اندھیرے میں تبدیل ہوگئی اورننھی ننھی بتیاں ٹمٹانے لگیں۔
فری پاس
سیڑھیوں میں قدموں کی آوازسن کرایلی چونکاجمال فاتحانہ اندازسے برآمدہوا۔”ارے “جمال نے ایلی کے گرداپنے بازوحمائل کردیئے”علی “اس نے ایک نعرہ بلندکیا”ایلی کمال ہوگیا“وہ چلایا”حدہوگئی ایلی حدہوگئی۔“
جوش مسرت میں وہ پاگل ہورہاتھا۔جیسے بیٹھے بٹھائے کوئی خزانہ مل گیاہو۔”میں نے کہاایلی کمال ہوگیاہم بھی پاگل رہے پاگل“وہ اسے دوہتڑمارکربولا”بے وقوف بے وقوف“اس نے قہقہہ مارااورپھرکھجاتے ہوئے بولا”کنوئیں کے کنارے پربیٹھ کرہم پانی کوترستے رہے ہیں۔کوئی اتنابڑااحمق۔حدہوگئی۔ایلی حدہوگئی۔ہم ایک تلاش کررہے تھے اوروہاں ایک نہیں پانچ چھ ہیں پوری پانچ چھ۔بہت اعلیٰ قسم کی چیزیں ہیں صرف گزارہ نہیں اورگزارہ کہاں یارایک کوتومیں خوددیکھ کرآیاہوں۔سالی کاجسم یوں تھاجیسے جیسے چکنی مٹی کابناہوااورزردرنگ جیسے بسنت بہارآئی ہوئی ہو۔یارحدہوگئی۔“
ایلی کوجمال کی باتیں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں اسے یوں محسوس ہورہاتھاجیسے سامنے کوٹھی سے پی کرآیاہو۔یوں بے کارمہمل قسم کی باتیں کرنااورپھردوہترچلانااورنعرے لگانا۔اس کی ہربات شرابی سی تھی۔ایلی نے دوایک باراس کے منہ کوسونگھنے کی کوشش کی لیکن بونہ آئی۔اس وجہ سے اس کی حیرانگی اوربھی بڑھ گئی۔
”نہ جانے کیاکہہ رہے ہو“ایلی نے جمال سے کہا”میری سمجھ میں نہیں آیاکچھ بھی ضرورتم پی کرآئے ہو۔“
”لاحول ولاقوة جمال گویادفعتاًہوش میں آگیا”ایساکام کبھی نہیں کیامیں نے لیکن لیکن “وہ پھربدمست ہوگیا۔”سمجھ لوپی کرہی آیاہوں۔شراب نہیں پی ۔لیکن سمجھ لوپی کرآیاہوں۔بندبوتل تونہ تھی پربڑی نشیلی تھی۔“وہ چلایا”سمجھ لوکمال ہوگیا۔آؤمیں تمہیں ساراواقعہ سناؤں۔“وہ ایلی کوگھسٹینے لگا۔“”یہاں نہیں یہاں بات کی توریاضت سن لے گا۔کوئی بات کرواس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔“وہ رک کرجسم کھجانے لگااورپھربولا۔
”ویسے یوں بیٹھارہتاہے جیسے بھس بھراہومجھے نہیں اچھالگتانہ۔“
جمال اسے کھینچ کرنیچے سڑک پرلے گیا۔”وہ دیکھووہ“اس نے اشارہ کرکے کہا”ہوٹل کامینجرٹہل رہاہے میں بھی سوچتاتھاکہ یہ کس قسم کابزنس ہے کہ کوئی گاہک آتانہیں ویسے سالاہوٹل کھولے بیٹھاہے۔اب تومیرادوست بن گیاہے۔“وہ رک گیا۔
”سلام علیکم“ہوٹل کے مینجرنے پاس سے گزرنے ہوئے کہاجمال نے ہنس کراس کی طرف دیکھا۔
مینجرمسکرانے لگا”سیرکررہے ہیں آپ“اس نے جمال سے کہا۔
”ہاں ذرایہاں تک جارہے ہیں۔“جمال نے جواب دیا۔
مینجرسے دورنکل کرجمال پھرہنسنے لگا۔”اب تومزے ہوگئے۔اب زندگی کٹے گی مزے میں۔“
”آخرکچھ پتہ بھی چلے۔“ایلی نے پوچھا۔”اب کیاہوگیاہے۔“
”میں بھی روزسوچاکرتاتھا۔“جمال نے کہا”کہ جب موٹرسائیکل والاآتاہے ادھرچوک میں تویہ ٹامی بھاگتے کیوں ہیں۔“
”توکیاپتہ چلا۔“ایلی نے پوچھا۔
”موٹرسائیکل والاڈنڈاگوراہے۔“جمال بولا
”ڈنڈاگورا۔“ایلی نے تعجب سے دہرایا۔
”ہاں۔ان ٹامیوں کاسارجنٹ ہے وہ‘اسے ڈنڈاگوراکہتے ہیںیہ سالے اس پارسی سے شراب پیتے ہیں اورہوٹل والے نے اپنے ہاں پانچ چھ لال بیبیاں رکھی ہوئی ہیں۔“
”اہل بیبیاں؟“ایلی نے تعجب سے جمال کی طرف دیکھا۔
”ارے وہی۔ہیرامنڈی کی عورتیں اورکون“جمال مسکرانے لگا۔
”کیامطلب ۔“ایلی نے حیرانی سے کہا۔”اس ہوٹل مین جوبورڈنگ تلے واقع ہے۔“
”ہاں ۔یہ ہوٹل تومحض بہانہ ہے دراصل مینجرکاکاروبارہی یہی ہے۔“
”توپھر۔“ایلی نے پوچھا۔
”پھرکیا“جمال ہنسا۔“میں نے گوروںسے کہامیں نے کہاسالوڈنڈاگوراآئے گاتوبتاؤں گامیں کہ تم بدمعاشی کرتے ہو۔پہلے تووہ بات کومذاق میں ٹالتے رہے پھرکہنے لگے اورٹم یہاں کیوں آتا۔تم بھی ٹولال بی بی بی کے لیے آٹاہوٹل میں۔“جمال ہنسنے لگا۔”میں نے کہا:”ہم رپورٹ کرے گاکہ تم گندمچایاہے یہاں۔اورایلی کچھ دیرکے بعدایک جیب سے چاکلیٹ نکلااورمجھے دیکرکہنے لگااچھابٹاؤنہیں چاکلیٹ دیٹاہم ٹم کو۔میں نے کہانہیں سالوچاکلیٹ دے کرٹالتاہے ہمیں۔ہم رپورٹ کرے گاضرورکرے گا۔پھروہ بولاکیالے گا۔بس میں نے کہااب پھنسے سالے۔میں نے کہاہم کولال بی بی کے پاس لے چلو۔اس پروہ ہنسنے لگے بہت ہنسے بولے۔”اچھاول ول ٹم بھی جانامانگٹا۔“پھران میں سے دومینجرکے پاس گئے اورکچھ دیرتک اس سے باتیں کرتے رہے۔پھرانہوں نے اشارے سے مجھے بلایااورہوٹل والامجھے اندرلے گیا۔
”ارے ایلی۔“جمال نے تہہ بندجھاڑکرکہا۔”سالی کاجسم یوں تھاجیسے گاچنی سے بنی ہوئی ہے۔زردزردجیسے زردے کی پلیٹ اتناگٹھاہواکہ انگلی نہ چھبے واہ واہ وہ ہنستی تھی مجھے دیکھ دیکھ کرمسکراتی تھی۔“
”اچھا۔اچھا۔“ایلی کاحلق بندہواجارہاتھا۔
زردہ
اورجب میں باہرنکلاتومینجرنے سوچا۔شایدبخشیش دے گا۔میں نے الٹاجھاڑدی۔میں نے کہا”لڑکوںکے بورڈنگ تلے تم ایساکام کرتاہے۔ہم رپورٹ کریں گے۔اس پروہ ڈرگیااورمنتیں کرنے لگا۔اورمالوم ہے اس نے کیاکہا۔“
”کیا؟“ایلی کی آوازبیٹھ چکی تھی۔
کہنے لگا”نہیں جی رپورٹ نہ کرنا۔جب جی چاہے آجایاکرو۔“اس نے قہقہہ مارا۔”یعنی اب ہم کوفری پاس مل گیاہے۔اوراس کے پاس ایک نہیں چھ ہیں۔چھ۔“اس نے تہہ بندکوجھاڑتے ہوئے کہا۔”اب مزاآئے گا۔سمجھ لوزندگی بن گئی۔“
”اوراور---وہ لڑکی“ایلی نے پوچھا۔
”کون لڑکی ۔“
”جس کی تصویرتم نے مجھے دکھائی تھی۔“ایلی نے کہا۔
”لڑکی۔“جمال نے ایک قہقہہ بلندکیا۔”ارے ایلی وہ لڑکی نہیں وہ تومیری بیوی ہے۔ارے اس کی کیابات ہے۔اس کاجواب نہیں۔مگریہ زردہ بھی خاصی ہے۔بڑی اچھی ہے۔“وہ پھرکھجانے لگا۔”اگرچہ اس میں گڑکی آمیزش ہے۔لیکن ایلی اس میں کڑاکاہے۔یارکل شام کب پڑے گی۔دعامانگوکل شام ابھی ہوجائے۔“وہ ہنسنے لگا۔“اوردیکھوایلی۔“اس نے محبت سے ایلی کاہاتھ دباتے ہوئے کہا۔”تمہیں بھی لے چلوں گاکسی روز۔ذرااپنے پاؤں جمالوں پھر۔چلوگے نا۔“
”لاحول ولاقوة“ایلی چلایا
”کیوں لاحول کی اس میں کیابات ہے ارے کیاتم بھی ریاضت کی طرح مولوی ہو۔ہائیں دکھنے میں تونظرنہیں آتے ۔ارے بے وقوف یہی توزندگی ہے۔“
”نہ نہ “ایلی بولا۔”میں نہیں جاؤں گا۔تم جایاکرو۔“
”لیکن کیوں ؟“جمال نے پوچھا
ویسے ایلی کوجی چاہتاتھاکہ وہ زبردستی اسے لے جائے اس کمرے میں بندکردے اورلال بی بی جس میں گڑکی آمیزش تھی چاروں طرف زبردستی اسے گھیرلے حتیٰ کہ فرارکی تمام راہیں بندہوجائیں---لیکن دفعتاًاسے شہزادکی بندبیٹھک کاخیال آگیا---لال بی بی قہقہہ مارکرہنسی۔بس بابو۔بس۔اس کی آوازمیں بلاکی تحقیرتھی۔
”نہیںنہیں۔“ایلی چلاکربولا۔”میں مجبورہوں‘بالکل مجبور۔“
اگلے روزسارادن جمال بے تابی سے شام کاانتظارکرتارہا۔پھرجب سورج غروب ہوگیااورمیکلوڈروڈ کی بتیاں روشن ہوگئیں توجمال کھجاتاہواایلی کے پاس آیا۔
”ایلی میں جارہاہوں۔اگرکوئی گڑبڑہوجائے توخیال رکھنا۔“
اس کے بعدان کایہ معمول ہوگیا۔سارادن جمال بڑی بے تابی سے شام کاانتظارکرتا۔جوں جوں دن ڈھلتااس کے کھجانے کی شدت بڑھتی جاتی اورپھرجب شام کادھندلکاچھاجاتااورمیکلوڈروڈپربتیاں ٹمٹمانے لگتیں جمال کپڑے بدل کر تیارہوجاتااورمسکراتاہوانیچے اترجاتا۔اورایلی چپکے سے اپنی چارپائی پردرازہوکرآنکھیں بندکرلیتااسے یوں محسوس ہوتاجیسے وہ دولت پورمیں ہو۔اوربالاکی چارپائی اس کے قریب ہو۔اورپھربالاکے ہاتھ جنبش میں آجاتے۔
ایک روزجمال خوشی خوشی ایلی کے پاس آیا۔”ایلی ۔“وہ چلانے لگا۔”ذراباہرآؤنا۔تمہیں کچھ بتاؤں۔باہربرآمدے میں۔“اس نے ایک ریشمی رومال جیب سے نکالا۔”یہ دیکھو۔“وہ بولا
”کتناخوبصورت ہے‘ہے نا۔یہ اس نے دیاہے۔
”کس نے ؟“ایلی نے پوچھا۔
”اسی نے جو زردرنگ کی ہے جسے میں پہلے روزملاتھا۔“جمال بولا۔
”اچھا۔“
”آج جب میں باہرآنے لگاتوبرآمدے میں اس نے مجھے پکڑلیا۔کہنے لگی آپ توملتے ہی نہیں۔اچھامیری نشانی تولیتے جاؤ۔کیابتاؤں تمہیں اس کی آنکھوں میں کیاعالم تھااس وقت جیسے بتیاں روشن ہوں۔کمبخت نے ایسی محبت بھری نظرڈالی کے میری ہڈیاں چٹخنے لگیں میں بتاؤں تمہیں۔“---جمال دفعتاًرک گیا۔
”بتاؤنا“ایلی نے کہا
”اسے مجھ سے عشق ہوگیاہے۔“جمال نے رومال لہراتے ہوئے کہا۔
”ان کوبھی عشق ہوتاہے کیا۔“ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔
”تمہیں نہیں معلوم۔“جمال قہقہہ مارکرہنسا۔”جب ان کوعشق ہوتاہے تومزہ آجاتاہے ۔جس سے عشق ہوجائے۔اپناآپ بیچ کراسے دے دیتی ہیں۔“
”کیاواقعی؟“ایلی نے پوچھا۔
”تمہاری قسم“جمال نے چھاتی نکال کرکہا”ان کے عشق کی کیابات ہے۔“
”اچھا۔“
”ہاں۔یارکبھی تم بھی چلوتمہیں دکھاؤں ۔واقعی زردے کی پلیٹ ہے اتنی مٹھاس ہے اتنارس ہے کہ حدہوگئی یار“وہ جوش سے کھجانے لگا۔”کسی روزجب مینجرادھرادھرہوجائے گاتومیں تمہیں لے چلوں گا۔“
”نہیںنہیں“ایلی چلایا۔
”ویسے نہیں۔“جمال نے کہا۔”یونہی دکھانے کے لیے۔بڑی پیاری باتیں کرتی ہے وہ اورپھریہاں نہ لین نہ دین۔مجھ سے کیالالچ کرناہے اس نے ۔میں توفری پاس والاہوں۔“وہ ہنسنے لگا۔
جمال کی باتیں سن کرایلی کوخیال آتاکہ کاش وہ بھی فری پاس والاہوتا۔اسے بھی کوئی نشانی کے طورپررومال دیتا۔لیکن کس برتے پر۔وہ سوچتامجھ میں وہ جھپٹ بھی ہو۔وہ مردانہ جھپٹ‘وہ جوش جس کے بغیر عورت کسی کوپیارنہیں کرسکتی۔پھراسے شہزادکاخیال آجاتا۔
نہ جانے شہزادکیاکہہ رہی ہوگی۔نہ جانے شریف وہیں ہے یاکہ جاچکاہے۔اگرشریف وہیں ہے تووہ اسے لبھانے میں مصروف ہوگی۔آخروہ اس کاخاوندہے۔
”نہیں نہیں“وہ گھبراکرچلاتا”شریف وہاں نہیں ہے۔وہ توکب کاجاچکاہوگااس کی چھٹی عرصہ درازسے ختم ہوچکی ہوگیآخرسرکاران گنت چھٹیاں تونہیں دیتی اپنے ملازمین کوکیسے دے سکتی ہے۔ورنہ کام کیسے چلے ۔“اس خیال پراس کی تسکین سی ہوجاتی لیکن پھراس کے تخیل میں رضاسونٹاٹیکتے ہوئے آکرچلاتا۔
”نیچ ---نیچ۔“
پھرارجمندکی آوازسنائی دیتی۔
”ارے اندھے یہ دیوی ہے کہ جس کی طرف نگاہ بھرکردیکھ لے اس کاجی چاہتاہے کہ سب کچھ تیاگ کرسادھوبن جائے۔واہ واہ کیاجادوہے۔“
پھرشہزادغفورکے ساتھ کوٹھے پرٹہلنے لگتی۔”ہی ہی ہی ہی“اس کے رنگین قہقہے گونجتے اورغفورکی بھدی آوازسنائی دیتی۔اورپھردفعتاً خاموشی چھاجاتی اورخاموشی معنی خیزبن جاتی۔
اوراس کامفہوم ایلی کی آنکھو ں کے سامنے کئی ایک منظرپیش کردیتا۔جنہیں دیکھ کراس پروہی دیوانگی طاری ہوجاتی۔وہ یوں کروٹیں بدلتاجیسے دارپرچڑھاہواہو۔اس وقت جمال آہستہ سے آوازدیتا۔
”تم جاگ رہے ہوایلی۔مجھے بھی نیندنہیں آتی۔کمبخت کاخیال سونے نہیں دیتا۔لیکن تمہیں کیاہے تمہیں نیندکیوں نہیں آتی۔“
”مجھے توکچھ بھی نہیں“ایلی جواب دیتا۔
”کچھ بھی نہیں پھربھی نیندنہیں آتی۔“جمال ہنستا“وہ دیکھوریاضت یوں پڑاہے جیسے کل کامراہواہو۔“
ہنگامہ
اسی طرح ان کی زندگی حسن منزل میں گزرتی رہی۔لیکن ایک روزجب شام کے وقت ایلی برآمدے میں گھوم رہاتھااورجمال بن سنورکرنیچے جاچکاتھاتوسڑک پرشوروغل ہوا۔بہت سے سپاہیوں نے ہوٹل پریورش کردی۔ایلی کومعلوم نہ تھاکہ آیاجمال ہوٹل میں ہے یاکہیں اوراسے یہ بھی معلوم نہ تھاکہ اگرہوٹل میں ہے توکس طرح اسے باہرنکال لائے۔اسے اس بات کے متعلق بھی علم نہ تھاکہ پولیس کے سپاہی وہاں کیوں کھڑے تھے۔اورگورے بھاگ کرپارسی کی کوٹھی میں کیوں داخل ہوگئے تھے۔وہ کچھ دیرتک وہاں کھڑارہاپھرجی کڑاکرکے نیچے اتراکیونکہ بورڈنگ کے تمام طلباءبرآمدے میں آکھڑے ہوئے تھے اوروہاں پرایک بھیڑلگ گئی تھی۔
سڑک پرپہنچ کرپہلے تووہ سپاہیو ں کے طرف دیکھتارہاپھرہمت کرکے آگے بڑھالیکن ایک سپاہی نے اسے روک دیا۔”اونہوں آگے جانے کاحکم بندہے۔“
وہ ڈرکررک گیااوردیرتک وہاں کھڑارہا۔پھراس نے محسو س کیاسپاہی مشکوک نگاہوں اس کی طرف دیکھ رہاہے۔وہ گھبراگیااورکوپرروڈپرتکیے کی طرف چل پڑاابھی وہ دوچارایک قدم چلاتھاکہ تکیے کے قریب سے جمال نے سرنکلا۔
”ارے ایلی ارے ایلی۔“وہ آہستہ سے چلایا”تم ہوکیا۔“وہ رک گیا۔
”شکرہے “جمال بولا”تم آگئے ہو۔ارے یارمیں توپھنس گیا۔اوراگرپولیس پکڑلیتی تو---میں غسل خانے میں تھاکہ وہ آگئے۔میں جوشورسناتوفوراً پچھواڑے کے دروازے کی طرف نکل کرتکیے میں آگیا۔وہ ادھرتونہیں آرہے ۔“
”نہیں تو۔“ایلی نے کہا۔”وہ توادھرکھڑے ہیں۔آجاؤآجاؤ۔“
”یارحدہوگئی پولیس نے ریڈکردی شکرہے بچ گیامیں۔“
وہ دونوںباہرنکل کرویران سڑک پریوں ٹہلنے لگے جیسے اتفاقاًسیرکرتے کرتے ادھرآنکلے ہوں۔
اس ڈرکے مارے کہ پولیس بورڈنگ میں آکرتفتیش نہ شروع کردے وہ دیرتک آوارہ گردی کرتے رہے۔اورآخرتھک ہارکراپنے کمرے میں جاپہنچے اوراپنی اپنی چارپائی پرپڑکرلیٹ گئے۔
اگلے روزکالج جاتے ہوئے انہوں نے ہوٹل کی طرف دیکھا۔وہاںتالہ پڑاہواتھا۔
”ارے “جمال چلایا۔”یہ لوگ کہاں گئے۔“
”جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے بابو۔اورکہاں جائیں گے۔“گنڈیری والے نے کہا۔”کہاں“جمال نے پوچھا۔
”وہیں ہیرامنڈی یاموتی بازارمیں اورکہاں جائیں گے۔کبھی دھندابھی چھٹاہے۔“وہ بولا”اوریہ جگہ؟“جمال نے پوچھا۔
”یہ جگہ“گنڈیری والاہنسا۔”یہ جگہ کسی تیل صابن والے نے لے لی ہے۔دکان کھولے گایہاں۔“
راستے میں جمال باربارایلی سے کہتا۔”اب کیاہوگاایلی ہم کیاکریں گے زردے کی پلیٹ کیسے ملے گی۔کیاخوب چیزتھی۔اب میں تمہیں کیابتاؤں اس کے گن تواب کھلنے لگے تھے مجھ پراب کیاکروں ایلی۔“
وہ باربارایلی سے پوچھ رہاتھاجیسے ان معاملات میںایلی سے بڑھ کرکوئی اتھارتی نہ ہو۔اورایلی چپ چاپ اس کی باتیں سنے جارہاتھا۔درحقیقت اسے خوددکھ محسوس ہورہاتھا۔اگرچہ زردہ کودیکھنے کی کوئی صورت نہ تھی۔پھربھی امکان توتھا۔اس نے کئی بارسوچاکہ کسی روزچپکے سے نیچے اترجائے اورپھرزردہ سے مل کرکہے“نہیں نہیں میرایہاں آنے سے مقصدنہیں میں توصرف تمہیں دیکھنے کے لئے آیاہوں۔“
اس وقت اکی زردرنگ کی نوجوان لڑکی اس کے روبروآکھڑی ہوتی۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایلی کی طرف دیکھتی جو صرف اسے دیکھنے کے لئے آیاتھا۔پھراس کی حیرت بھری نگاہیں احساس تحسین سے چھلکتیں اورایلی دفعتاً ہیروبن جاتااورروہ زردرولڑکی اس کی منتیں کرنے لگتی۔“
”لیکن ذرابیٹھئے تو۔صرف دیکھنے کے لیے ہے۔میرے لیے اتنی تکلیف نہ کروگے۔“
صرف دیکھنے کے لئے اس کے بازوایلی کے گردحمائل ہوجاتے اس کی آنکھوں میںو ہ نگاہ چمکتی وہی نگاہ جس کی وجہ سے وہ شہزادکوبھول نہ سکاتھا۔
ہوٹل کے بندہوجانے کے بعدجمال کی توجہ پھراسی تصویرپرمرکوزہوگئی جسے وہ ہوٹل میں جانے سے پہلے دیکھ دیکھ کروقت گزاراکرتاتھا۔
”آج کوئی خط نہیں ایلی‘آج پھرکوئی خط نہیںآیا۔اس طرح زندگی کیسے کٹے گی میں نے کہامیں دوروزکی رخصت لے کرگھرسے نہ ہوآؤں۔یہاں اب میراجی نہیں لگتا۔اوروہ کیاکہے گی کہ اتنی دیرہوچکی ابھی تک مجھ سے ملنے نہیں آیا۔کیاسمجھے گی۔اسے کیامعلوم یہاں اس کے بغیروقت کاٹنامشکل ہورہاہے۔“جمال شدت سے کھجاناشروع کردیتا۔”دراصل ایلی مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے۔بے حد۔اس کے بغیرچلنادوبھرہوجاتاہے۔کیاکروں۔“
پھروہ یکدم پنترہ بدل کرکہتا۔”ایلی۔وہ زردہ کیاکہے گی کہ مجھے بھی نہیں ملنے کی کوشش بھی نہیں کی۔“
”لیکن وہ توچلی گئی یہاں سے ۔“ایلی نے کہا۔
”لیکن وہیں گئی ہے ناہیرامنڈی میں۔اسے ڈھونڈناکیامشکل ہے۔یارمجھے اس کاشکریہ تواداکرناچاہیے کم ازکم۔“
”توپھر“ایلی نے پوچھا۔
”تم مانوتودونوں چل کراسے ڈھونڈیں ۔“
”لیکن ڈھونڈیں گے کیسے۔“ایلی نے پوچھا۔
”لویہ بھی کیامشکل ہے کیااس کوچے سے گزرتے جائیں گے اوردیکھتے جائیں گے اگروہ وہیں ہے توکھڑکی یادروازے میں بیٹھی ہوگی۔چھپ کرتونہیں بیٹھتیں۔ان کاکام ہی ایساہے۔“
ایلی کوپسینہ آگیا۔”یار“وہ بولا”مجھے تونہ لے جاؤاپنے ساتھ۔“
”لواس میں کیاہے۔“جمال کہنے لگا۔”وہاں کوئی اپناجان پہنچان توہوگانہیں پھرڈرکیسا۔“
”مجھے توڈرآتاہے۔“ایلی سے کہا۔
”توپگڑی باندھ لیناتاکہ کوئی پہنچانے نہیں۔“
اس روزوہ دونوں راستے میں اسی بحث میںالجھے رہے۔ایلی کواس کے کوچے میں جانے سے ڈرلگتاتھالیکن ساتھ ہی وہ چاہتاتھاکہ کسی طریقے سے جمال اسے زبردستی لے جائے اوروہ جاکردیکھے کہ وہاں کیاہوتاہے۔وہ کس طرح بیٹھتی ہیں۔کس طرح اپنی نمائش کرتی ہیں اورپھراگرزردہ مل جائے تووہ اس سے کہے گا۔میں توصرف تمہیں دیکھنے کے لیے آیاہوں لیکن جمال کونہ بتانا۔میں اب چلتاہوں صرف دیکھنے کے لئے ۔زردہ کی نگاہوں میں تحسین جھلکنے لگی۔اوروہ بڑھ کراسے اپنے بازوؤں میں لے لے گی اورکہے گی۔نہیں میں جمال کوکیوں بتانے لگی۔
اس کوچے میں
ہفتے کوشام ہی سے جمال نے تیاریاں شروع کردی تھیں۔پہلے اس نے ایک طویل غسل کیاپھرٹرنک کے پاس بیٹھ کردیرتک پہننے کے لیے کپڑوں کااتنخاب کرتارہا۔بالاخرکپڑے پہن کرخوشبولگائی۔سنہرے بالوں کوبڑے اہتمام سے بنایا۔منہ پرکریم کی مالش کی بوٹ چمکایااورپھریوں تیارہوبیٹھاجیسے عیدکی نمازپڑھنے جارہاہو۔
شام کے قریب وہ دونوں چل پڑے تھے۔بھاٹی دروازے پروہ تانگے سے اتر گئے‘تاکہ تانگے والے سے یہ کہناپڑے کہ انہیں کہاں جاناہے۔
اس علاقے میں گھومتے گھومتے انہیں کافی دیرہوگئی۔کیونکہ انہیں یہ معلوم نہ تھاکہ وہ کوچہ کہاں واقع ہے۔جہاں چوباروں میں راگ کی محفلیں ہورہی تھیں۔سازسرکیے جارہے تھے۔بائیاں تانیں اڑارہی تھیں لوگ یوں گھوم پھررہے تھے جیسے میلے پرآئے ہوئے ہوں۔کسی سے پوچھے بغیراس بازارمیں پہنچناآسان کام نہ تھا۔لیکن اس کوچے میں پہنچنابے حدمشکل تھا۔
دیرتک وہ چکرلگاتے رہے اوراس امرپربحث کرتے رہے کہ آخروہ وہاں کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
اس کوچے کے متعلق کسی سے دریافت کرنے کی ان دونوں میں ہمت نہ تھی۔اوردریافت کیے بغیروہاں پہنچناناممکن ہورہاتھا۔آخرتھک کروہ ایک بائی کے چوبارے کے سامنے والے ہوٹل میں چائے پینے کے بہانے بیٹھ گئے لیکن چائے کاپیالہ لے وہاں دیرتک بیٹھناآسان نہ تھا۔
”وہاں سبھی لوگ بلاتکلف بائیوں کے متعلق باتیں کررہے تھے۔
”اس ننھی بائی کے متعلق سناتھاتم نے استاد۔کہتے ہیں سیٹھ جمناداس سے مینڈی کھلوانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔“
”اوربھئی اس نے بیس ہجاردیاہے بڑی بائی کومینڈی کھلوانے کے لیے۔“
”کیوں نہ لے بیس ہجارچیخ بھی توغضب کی ہے۔“
”پرگاناوانانہیں آوے ہے لڑخی کو۔“
”اجی قدرت بھی حساب سے دیتی ہے۔کسی کوگلادیوے توکسی کوجوبن‘کیوں بابو۔“اس نے جمال کوکہنی مارکرپوچھا۔
ایلی اورجمال نے دانت نکالے”ٹھیک ہے میرصاحب۔“
”بس کمالے دوایک سال پھروہاںگلی میں جاکربیٹھ جائے گی۔“استادہنسنے لگا۔”بازارمیں تواسی کاٹھکانہ رہ سکتاہے جس کاگلااچھاہے۔کیوں فضلے۔“
فضلے ہنسنے لگا”ٹھیک ہے استاد۔گلی میں بیٹھے گی اورکیا۔“
”کونسی گلی میں۔“ایلی نے فضلے کے قریب ہوکرپوچھا۔
”اجی اسی میں۔“پھراس نے غورسے ایلی اورجمال کی طرف دیکھا۔”تم پردیسی ہوبابو۔“
”ہاں ہاں۔“جمال بولا۔”امرتسرسے آئے ہیں۔“
”ہی ہی ہی ہی“فضے ہنسنے لگاجبھی گلی کاپتہ نہیں۔“
”پھربھی کہاں ہے وہ“جمال نے دوبارہ پوچھا۔
”یہ تھانے کے سامنے جوہے۔پربابویہاں کامال اچھانہیں۔بس دوتین ہی کام کی ہیںباقی سب بھرتی کامال ہے۔“
چائے ختم کرکے وہ پھراسی چکرمیں مصروف ہوگئے۔لیکن اب مشکل حل ہوچکی تھی۔اب وہ کسی راہ گیرسے پوچھ سکتے تھے کیوں میاں تھانہ کدھرہے اس علاقے کا۔“
دفعتاً ایلی خوشی سے چلایا۔“تھانے کابورڈتومیں نے پڑھاتھا۔کسی چوک کے قریب تھا۔یادنہیں رہاکس چوک کے قریب تھا۔“
تھانہ تلاش کرنے میں انہیں چنداں دقت نہ ہوئی۔تھانے پہنچ کراس گلی کونہ دیکھناقطعی ناممکن تھاکیونکہ بہت سے لوگ ادھرسے آرہے تھے۔وہ قہقہے لگارہے تھے۔ایک دوسرے کوکہنیاں ماررہے تھے آنکھیں چمکارہے تھے۔کئی ایک توباآوازبلندگارہے تھے۔
وہاںپہنچ کرایلی کادل بیٹھنے لگا۔اس کی ہمت نہ پڑرہی تھی کہ گلی میں داخل ہوبازارکی بات اورتھی۔وہ تودوسرے بازاروں کی طرح ایک عام گزرگاہ تھی۔وہاں چلتے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ نہیں کہاجاسکتاتھاکہ وہ رنڈیوں کودیکھنے کے لیے آئے ہیں یاانہوں نے چوبارے میں جاناہے۔
لیکن اس گلی میں جاناتواعلانیہ اس بات کااظہارتھاکہ وہ عورتوں کے لیے آئے ہیں۔اورپھرگانے والیوں کودیکھنایاان کاگاناسننابرانہ تھا۔گلی کی رنڈیوں کودیکھناایلی کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔لیکن اتنی دورآنے کے بعداب گلی میں جانے سے انکارکرنابھی ٹھیک نہ تھا۔
”میں کہتاہوں۔“اس نے جمال سے کہا۔”میں اندرجاکرکیاکروں گا۔تم جاکرمل لو۔میں یہاں تمہاراانتظارکروں گا۔“اسی جگہ۔“
”نہیں یار۔“جمال نے اس کے کندھے پرہاتھ مارکرکہا”اکٹھے چلتے ہیں۔“
”لیکن “ایلی نے کہا۔”اگروہ مل گئی تومیں وہاں کیسے انتظارکروں گا۔“
”ہاں۔“جمال سوچ میں پڑگیا۔”مل گئی۔“اس نے کہا”تم پھرتم یہاں آکرانتظارکرنا۔چلونا۔“وہ اسے گھسیٹ کرلے چلا
گلی میں بے حدہجوم تھالوگ قہقہے لگارہے تھے ۔بھونڈے مذاق کررہے تھے۔رنڈیوں سے بحث کررہے تھے۔انہیں چھیڑرہے تھے۔یوں ہنس ہنس کرباتیں کررہے تھے جیسے وہ رنڈیاں ہی نہ ہوں۔ایلی یوں جمال کے ساتھ چل رہاتھاجیسے اس گلی سے قطعی طورپرکوئی دلچسپی نہ ہو۔جیسے وہ وہاں زبردستی لایاگیاہو۔ہرراہ گیرکی طرف وہ کچھ اس اندازسے دیکھتاجیسے اسے ذہن نشین کررہاہوکہ میں توویسے ہی آیاہوں ان کے ساتھ دلچسپی توصرف انہیں ہے مجھے نہیں۔
خودجمال وہاں پہنچ کربھول چکاتھاکہ وہ دوگھنٹے کی تیاری کے بعدآیاہے۔وہ یہ بھول چکاتھاکہ اس نے نئے کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہیں اوران پرخوشبولگارکھی ہے اسے وہ دونوں ریشمیں رومال بھی یادنہ رہے تھے جو وہ اپنے ساتھ لایاتھا۔
دراصل وہ بے حدگھبرایاہواتھا۔اس کی گردن جھکی ہوئی تھی۔اورنگاہوں میں گھبراہٹ تھی۔
کافی دیرتک توایلی نے آنکھیں اٹھاکران بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کی۔پھرجب اس نے محسوس کیاکوئی بھی اس کی طرف نہیں دیکھ رہاتواس نے ایک سرسری تحقیربھری نگاہ رنڈیوں پرڈالی۔انہیں دیکھ کراس کاجی متلانے لگا۔لاحول ولاقوة اس نے زیرلب کہا۔
اس تنگ وتاریک بل کھاتی ہوئی گلی میں وہ لالٹینوں کی بتیوں کے نیچے بن سنورکربیٹھی ہوئی تھیں۔ایلی نے محسوس کیاجیسے مویشیوںکی میلے میں بھینسیںدیکھ رہاہو۔ان کی جوانیاں لٹی ہوئی تھیں۔آنکھیں سوج رہی تھی ۔ہونٹ یوں لٹکے ہوئے تھے جیسے جونکیں ہوں۔چہروں پرتھپاہواپاؤڈراورسرخی انہیںاوربھی بھیانک بنارہاتھا۔ایلی نے جھرجھری لی۔وہ بازارحسن نہیں تھابلکہ سڑے ہوئے بدبودارگوشت کی منڈی تھی۔
رنڈیوں کے چہروں پرتروتازگی اورمعصومیت نہ تھی۔بلکہ حزن اورملال اوراداسی چھائی ہوئی تھی۔ان کی حرکات بھونڈی تھی۔آوازیں یوں سنائی دے رہی تھیں جیسے پھٹے ہوئے بانس بجھ رہے ہوںاوراعلانیہ لوگوں کوبلارہی تھیں۔یایوں بازواٹھاتیں جیسے کسی کوگلے لگنے کی خواہش میں بے قرارہورہی ہوں۔ایک انگڑائیاں لیے جارہی تھی۔لیکن اس کی انگڑائیوں میں اکتاہٹ اورحسرت تھی۔دوسری رونی لے میں کچھ گنگنارہی تھی۔اس کاگیت دکھ بھراتھا۔زیادہ ترعورتیں چپ چاپ بیٹھی انتظارکررہی تھیں کہ کب کوئی آکران سے سوداکرے۔
مردوں کے گروہ ان کے سامنے کھڑے انہیں گھوررہے تھے۔ان کی جسموں کوٹٹول رہے تھے ان کے ناک نقشے پرپھبتیاں اڑارہے تھے۔ان کی عمروں کے متعلق اندازے لگارہے تھے اوران سے فحش مذاق کررہے تھے۔وہ ان کی باتیں سنتی تھی لیکن انہیں ان سنی کردینے پرمجبورتھیں۔وہ ان کی مضحکہ خیزنگاہوں کوبرداشت کرنے پرمجبورتھیں۔ان کی نکتہ چینی کے جواب میں مسکرانے پرمجبورتھیں۔
دفعتاً ایلی نے محسو س کیاکہ عورت کے لیے اس سے بڑی بے عزتی کوئی نہیں ہوسکتی کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوکراس کے کولہوں‘چھاتیوں اورجسم کے نقائص گنیں یااس کے حسن وجمال یاعمرکے متعلق پھبتیاں اڑائیں ۔پھروہ وہاں کیوں بیٹھی تھیں۔“
اس کاخیال تھاکہ جسمانی ہوس پوری کرنے کے لئے عورتیں اس کے لومیں جابیٹھتی ہیں۔جسمانی لذت ”یہ بیچاریاں“وہ سوچنے لگا”ان کے چہرے تودکھ بھرے ہیں۔ان کے ہونٹ گویاصرف آہیں بھرنے کے لیے بنے ہیں۔اوران کے لٹے ہوئے اپاہج جسم‘جسمانی لذت کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔“
ایک ضیعف عورت کووہاں بیٹھے دیکھ کروہ حیران ہوا”یااللہ یہ عمرمیں یہاں بیٹھی ہے۔“وہ رک گیا۔بڑھیاکے سامنے دوجوان مزدورکھڑے اس کامذاق اڑارہے تھے۔
ایک مزدوربڑھیاکے قریب ترہوگیااوراسے چھیڑنے لگا”اماں تویہاں کس امیدپربیٹھی ہے۔“
بڑھیانے کچھ جواب نہ دیااورویسے ہی بیٹھی حقہ پیتی رہی۔
مزدورکے ساتھی نے قہقہہ لگایا۔”مائی تیرے پاس کوئی آتابھی ہے کیا۔“
”توہی آجابیٹاجوتجھے اتنادردہے میرا۔“بڑھیانے نفرت سے کہا۔
ایلی نے محسوس کیاجیسے کسی نے اسے گندگی میں دھکادے کرگرادیاہو۔اس کادل مالش کررہاتھا۔سردردسے پھٹاجارہاتھااورسارے جسم میں جھن جھن سی ہورہی تھی۔جیسے اس کے جسم کابندبندکراہ رہاہو۔اس کے لیے اس کوچے میں رہناناممکن ہوگیا۔وہ چاہتاتھاکہ جمال سے کہہ دے میں جارہاہوں ۔میں اب یہاں نہیں ٹھہرسکتا۔
”ایلی ایلی“کسی نے اس کاشانہ پکڑکرکہا”ایلی وہ مل گئی۔“

جاوید اقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
ایلی نے مڑکردیکھا۔جمال کے چہرے پرمسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔”وہ ایلی۔اس نے مجھے پہنچان لیاہے۔اوررومال سے اشارہ کرکے مجھے بلارہی ہے۔وہ دیکھو۔“جمال نے ایک کوٹھڑی کی طرف اشارہ کیا۔”وہ دیکھوجو سرخ قمیض پہنے ہوئے ہے۔جس کے ہاتھ میں سبزرومال ہے۔وہ دیکھاوہ مسکرارہی ہے۔ارے “وہ چلایا”لووہ مجھے بوسے پھینک رہی ہے۔“
ایلی نے اس طرف دیکھاایک تاریخ تنگ وتاریک کوٹھڑی کے دروازے میں سرخ قمیض پہنے ایک دبلی پتلی عورت بیٹھی تھی۔اس کے کلوں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں۔ہاتھوں میں جھریاں پڑی تھیں۔اورآنکھیں یوں کھنچی ہوئی تھیں جیسے ان میں بندہونے کی صلاحیت ہی نہ رہی ہو۔
”اچھاتومیں چلتاہوں---“وہ بولا۔”گلی کے باہرتمہاراانتظارکروں گا۔“
گلی کے باہر انتظارکرتے ہوئے وہ سوچتارہالیکن اس میں سوچنے کی صلاحیت نہ رہی تھی۔شدیدنفرت کی وجہ سے اس کے جسم کابندبندکانپ رہاتھا۔گلی کے بدصورت چہرے اس کے سامنے تھے۔ان کے سوجے ہوئے منہ۔پھٹی پھٹی آنکھیں اورمجروح جسم ایلی کے دل میں نفرت کی دھنکی بج رہی تھی۔اوریہ نفرت اس حدتک شدت اختیارکرچکی تھی کہ اس کاجی چاہتاتھاکہ بھاگ کردیوانہ وارگلی جاداخل ہو۔اورکسی بدصورت ڈائن کی کوٹھڑ ی میں داخل ہوکرکہے میں آگیاہوں میں آگیاہوں مجھے اپنی غلاظت سے بھردے۔مجھے اس گندگی سے شرابورکردے۔میرے ہڈیاں توڑدے‘مجھے فنا کر دے۔ اور پھراس کے غلیظ جسم پرڈھیرہوجائے۔
ایلی کے دل میں عجیب متضادخواہشات پیداہوتی تھیں۔کسی وقت اس تضادکومحسو س کرکے گھبراجاتااوراسے خیال آتاکہ اس کی سرشت میں نہ جانے کیاخامی ہے کہ اس کے دل میں بیک وقت ایسی متضادخواہشات پیداہوتی تھیں۔بسااوقات اسے شک پڑتاکہ دیوانگی کاشکارہے۔
ان خیالات سے بچنے کے لیے دیرتک وہ تھانے کی عمارت کاجائزہ لیتارہا۔بازارکوغورسے دیکھتارہا۔راہ گیروں کوجانچنے کی کوشش میں شدت سے مصروف رہا۔لیکن جب وہ ذرابے خبرہوتاتواس کی نگاہ کے تلے اسی گلی کے چہرے نمودارہوجاتے ان کی کریہہ مسکراہٹیں اسے چاروں طرف سے گھیرلیتیں۔ان کے تباہ شدہ لٹے ہوئے جسم اس کی طرف بڑھتے دل میں نفرت کی دھنکی بجناشروع ہوجاتی۔اورپھروہی دیوانہ پن اس پرمسلط ومحیط ہوجاتا۔
”کس خیال میں پڑے ہو“جمال نے اس کے قریب آکراسے جھنجوڑا۔”سنتے ہی نہیں۔“
”اوہ تم آگئے“وہ چونکا۔”مل آئے زردہ سے “اس نے پوچھا۔
”ارے نہیں وہ توکوئی اورہی نکلی لیکن اچھی تھی بیچاری۔اتنی اچھی تھی کہ میں تمہیں کیابتاؤں کہتی تھی مجھے تم سے پیارہوگیاہے۔ایمان سے یہی کہتی تھی دیکھتے ہی پیارہوگیااوراس قدرشوق محسو س کیامیں نے کہ اگرتم اشارے سے نہ آتے توخودآکرتمہارا ہاتھ پکڑلیتی۔“
ایلی نے حیرانی سے جمال کی طرف دیکھا۔خوش قسمت تھاوہ جو اسے دیکھتی تھی اسے پیارکرنے لگتی تھی۔کاش ایلی نے آہ بھری۔
راستے میں جمال اسے اپنے اس نئے عشق کے قصے سنارہاتھا۔تفیصلات بتارہاتھالیکن ایلی اپنے ہی خیالات میں مگن چلاجارہاتھا۔وہ سوچ رہاتھاکہ جمال میں کون سی بات ہے جس کی وجہ سے وہ اس سے عشق کااظہارکرنے پرمجبورہوجاتی ہیں۔اس کاجی چاہتاتھاکہ اس میں بھی وہ مردانہ جھپٹ ہوتی۔کاش۔
چارایک روزکے بعدجمال بھاگابھاگاایلی کے پاس آیا۔”ایلی!“اس نے متفکرانہ اندازسے کہا“یہ مجھے کیاہوگیاہے؟“مجھے کچھ ہوگیاہے۔“
”کیاہوگیاہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”کچھ پتہ نہیں چلتا۔مجھے ٹیس پڑتی ہے اورمیں نے ڈاکٹرکودکھایاتووہ کہتاہے کہ تمہیں بیماری ہوگئی ہے۔“
”بیماری کونسی بیماری“ایلی نے پوچھا۔
”وہ بیماری“جمال بولا۔اس کے چہرے پرتشویش کااظہارہورہاتھا۔”اگرمیں یہاں رہاتوتمام لڑکوں کومعلوم ہوجائے گا۔مجھ سے چلاجونہیں جاتا۔اس لیے میں گاؤں جارہاہوں۔“
”گاؤں جارہے ہو۔“
”ہاں ہاں“وہ بولا۔”اس کے سوااب کوئی چارہ نہیں مجھے جاناہی ہوگا“یہ کہہ کراس نے ایلی کے ہاتھ میں چھٹی کی عرضی تھمادی۔اوربات کی وضاحت کیے بغیراپنے ٹرنک میں کپڑے قرینے سے رکھنے لگا۔
”لیکن “ایلی نے کہا”آخربات کیاہے۔کچھ بتاؤبھی یار۔“
”ابھی اس نے جملہ مکمل نہ کیاتھاکہ ریاضت داخل ہوااورجمال نے اشارہ کرکے ایلی کوخاموش کردیا۔
اوٹ میں شانتی
جمال کے جانے کے بعدایلی بالکل ہی تنہارہ گیا۔دوپہرتک وہ کالج میں وقت کاٹتا۔اگرچہ وہ جماعت میں چلاجاتاتھالیکن ابھی تک اس نے ہم جماعتوں سے کوئی رسم وراہ پیدانہ کی تھی۔اکیلاہی برآمدوں میں گھومتارہتاخالی پیریڈمیںیاتوباہر لان میں ٹہلتااوریابازارکی طر ف نکل جاتااوران مقامات پرجانے سے احترازکرتاجہاں کالج کے لڑکے جمع ہوتے۔
جماعت میں وہ آخری بنچوں میں بیٹھ جاتااورجب پروفیسرلیکچرشروع کردیتاتووہ کسی قدآورلڑکے کے پیچھے ہوکرتخیلات کی دنیامیں کھوجاتا۔
انگلش ڈرامہ پڑھانے والے پروفیسرکی مونچھوں سے اسے ڈرآتاتھا۔اسے دیکھ کروہ محسوس کیاکرتاتھاکہ کسی سکو ل کے ماسٹر نے پروفیسر کاچغاپہن رکھاہو۔اس لیے ڈرامے کے پریڈمیں ایلی بیٹھنے کے لیے خاص طورپرایسے مقامات تلاش کرتاتھاجہاں پروفیسرکی نگاہ نہ پڑے۔ڈرامہ کے پروفیسرکے پڑھانے کااندازبھی توعجیب تھا۔سبق کی ابتدامیں توپروفیسرکی طرح بات شروع کرتا۔پھربتدریج جوں جوں وقت گزرتاپڑھانے کی بجائے پلیٹ فارم پرڈرامہ کھیلناشروع کردیتا۔
وہ ایکٹروں کی طرح ہاتھ چلاتا۔منہ بناتا۔پروفیسرکوایکٹنگ کرتے دیکھ کراسے علی پورکاوہ فراخ صحن یادآجاتاجہاں انہوں نے ڈرامہ کھیلاتھااورپھرسانوری اس کے سامنے آبیٹھتی اورزٹیک اسے دیکھ کرجوش میں آجاتااوراپناڈنڈابے پرواہی سے گھماتااورسٹیج پرکھڑے دیگرایکٹرزیرلب چلاتے۔”ابے خیال سے بے کہیں زخمی نہ کردیناکسی کو۔“اورناظرین زیٹک کی بھونڈی حرکات دیکھ کرتالیاں پیٹتے اورواہ واہ کاشورمچ جاتا۔
یاایلی کوامرتسرکی آم والی کوٹھی یادآجاتی اورنوراپنی تمام تررعنائی سے ٹہلتے ہوئے گانے لگتاپھرشبھ لگن سے بہارآجاتی۔ندی کاپانی رک جاتااورندی ایک وسیع نیلی جھیل میں تبدیل ہوجاتی اوردرختوں پرکوئل کوکتی ۔کھیتوں میں سرسوں لہلہاتی اورآصف مسکراکراس کی طرف دیکھتااورآہ بھرکرکہتاآجاؤں ایلی یہاں شبھ لگن ہے۔
کئی بارایسابھی ہواتھاکہ جب وہ جماعت میں اپنے تخیل میں کھویاہوتاتھاتواس کے ساتھ نے اس جھنجھوڑکرجگادیاتھااوراس نے دیکھاکہ جماعت کے تمام لڑکے کی نگاہیں اس پرمرکوزتھیں اورمونچھوں والاایکٹرپروفیسراس پرپھبتیاں کس رہاتھا۔
اکنامکس کے پیریڈمیںایساحادثہ ہرلحظہ ہواتھا۔اسی لیے اکنامکس کے پیریڈمیں کبھی کسی کاڈرمحسو س نہ ہواتھا۔اکنامکس کے پروفیسر ہرلحاظ سے انگلینڈہرلحاظ ریٹرنڈقسم کی طبیعت کے مالک تھے۔اگرچہ وہ انگلستاں سے ڈگری لے کرواپس آچکے تھے۔مگرذہنی طورپرہمیشہ کے لیے انگلستاں ہی میں مقیم ہوچکے تھے ۔وہ خوبصورت لباس پہن کرجماعت میں داخل ہوتے تھے اورآتے ہی رجسٹرکھول کرحاضری لگانے میں مصروف ہوجاتے تھے۔حاضری لگاتے وقت انہوں نے کبھی سراٹھاکرلڑکوں کی طرف نہ دیکھاتھا۔حالانکہ انہیںاچھی طرح معلوم تھاکہ لڑکے یس سرکہنے کے بعدجماعت سے باہرنکلتے جارہے ہیں۔انہیں اس بات کی قطعاً پرواہ نہ تھی کہ آیالڑکے ان کے پیریڈمیں حاضررہناچاہتے ہیں یابھاگ جاناچاہتے ہیں۔الٹاوہ بھاگنے والوں کے لیے آسانیاں پیداکرنے کے قائل تھے۔انہیں اس کی بھی فکرنہ تھی کہ آیالڑکے ان کے لیکچرکوسمجھ رہے ہیںیانہیں۔آیاوہ اسے سمجھنابھی چاہتے ہیں یانہیں۔ان کااندازبالکل پروفیسرانہ تھاباقی پروفیسرتویوں بات بات پرکان کھڑے کرنے کے عادی تھے جیسے سکول ماسٹرہوں۔
بہرحال ایلی جماعت میں ضروربیٹھتاتھا۔وہ حاضری لگواکربھاگتانہیںتھا۔اس لیے نہیں کہ اسے تعلیم سے دلچسپی تھی یالیکچرسننے کی خواہش تھی بلکہ صرف اس لیے جماعت کے باہرکوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں وہ بیٹھ سکتاہو۔جہاں اسے کالج کے لڑکوں سے پناہ مل سکتی ہو۔جماعت کاکونہ اس کے لیے بہترین پناہ گاہ تھی۔جہاں وہ اپنے تخیل سے کھیل سکتاتھا۔
کالج میں وہ ایک گمنام لڑکاتھا۔حتیٰ کہ جماعت کے پروفیسراورلڑکے اس سے وقف نہ تھے اگرتھے بھی توسرسری طورپرجب وہ ایلی کی طرف دیکھتے۔توان کی نگاہ میں تحقیربھری ہوتی جسے محسوس کرکے ایلی کوجھٹکاسالگتا۔اس کاجی چاہتاکہ وہ اس جگہ سے بھاگ جائے۔ان تمسخربھری کریدتی ہوئی نگاہوں سے دوربھاگ جائے اورپھرچھم سے شہزاداس کے روبروآکھڑی ہوتی اوراپنی دونوں بانہیں اٹھاتی اوروہ اس کی آغوش میں گرجاتا۔
ان دنوں حسن منزل کے قریب کالج والے ایک نیابورڈنگ تعمیرکررہے تھے جس میں صرف کیوبیکل بنے ہوئے تھے۔یہ خبرعام تھی کہ حسن منزل کوخالی کردیاجائے گا۔اورحسن منزل کے لڑکوں کوریوازیانئے بورڈنگ میں جگہ دی جائے گی۔جوکالج کی عمارت کے ساتھ ملحق تھے۔یہ خبرایلی کے لیے بڑی پریشان کن تھی کیونکہ ایلی کوحسن منزل کی تنہائی اورخاموشی بے حدپسندتھی ۔وہ ریوازہوسٹل میں جانانہیں چاہتاتھا۔جہاں لڑکے بے حدہنگامہ پسندتھے۔
ایلی کی خواہش تھی کہ اسے ایک کمرہ مل جائے جہاں وہ تنہائی میں اطمینان سے رہ سکے لیکن الگ کمرہ ملناآسان نہ تھا۔نئے ہوسٹل کے کیوبیکل خصوصی طورپرسکینڈاورفورتھ ائیرکے لڑکوں کے لیے بنائے گئے تھے ایلی توتھرڈائیرمیں تھااس کے لیے کیوبیکل حاصل کرناتقریباً ناممکن تھا۔اورپھریوسف اعظم سے جوکالج کے نئے پرنسپل بن کرآئے تھے اورجنہوں نے آتے ہی نظم ونسق کی وجہ سے کالج میں اپنی دھاک بٹھادی تھی۔
ایک روزجب ایلی اپنے کمرے میں بیٹھاجمال کی اس عجیب وغریب بیماری کے متعلق سوچ رہاتھاجوابھی تک ٹھیک نہ ہوئی تھی۔اورجس کی وجہ سے اس نے مزیدایک ہفتے کی چھٹی مانگی تھی توریاضت فاتحانہ اندازسے کمرے میں داخل ہوا۔آتے ہی کہنے لگا۔
”میں نئے ہوسٹل میں جارہاہوں۔مجھے وہاں ایک کمرہ مل گیاہے۔“
”نئے ہوسٹل میں“ایلی نے حیرانی سے پوچھا۔”تھرڈائیرکونئے ہوسٹل میں کس طرح کمرہ مل گیا۔
ریاضت مسکراکرکہنے لگا”میرے اباڈاکٹرہیں۔انہوں نے پرنسپل کولکھاہے۔اس لیے دراصل بات یہ ہے ۔“وہ گھبراکربولا”اگرمیں شوردشغب میں رہوں تومجھے قبض کاعارضہ ہوجاتاہے۔“
ایلی نے حیرانی سے ریاضت کی بات سنی۔شوروشغب سے قبض‘یہ بات اس کے لیے انوکھی تھی۔سارادن وہ سوچتارہاکہ وہ بھی ایساہی کوئی بہانہ تراش لے توشایداسے بھی نئے ہوسٹل میں جگہ مل جائے اورریوازہوسٹل میں جانے سے بچ جائے۔
واٹ ناسن
دوروزکی مسلسل سوچ بچارکے بعداس نے ایک عرضی لکھی جس میں درج تھاکہ میں ذہنی انتشارکامریض ہوں اورشوروشغب میں تعلیم کی طرف توجہ دینے سے معذورہوں۔لہٰذاازراہ کرم مجھے ایک کیوبیکل میں رہنے کی اجازت دی جائے۔
عرضی ہاتھ میں پکڑے وہ دیرتک پرنسپل کے چپڑاسی کے ساتھ دفترکے باہر بیٹھارہا۔پھرپرنسپل نے اسے بلایا۔اندرداخل ہوکراس نے مؤدبانہ سلام کیااورعرضی پرنسپل کے سامنے رکھ دی۔
”ول ول“عرضی پڑ ھ کرپرنسپل غصے میں بولا۔”تم نیوراسس کامریض ہے؟“
”جی ہاں جی ہاں۔“”ایلی نے نیوراسس کامطلب سمجھے بغیرسرہلایا
”ول ول“پرنسپل بولا۔”توتمہیںکالج میں کس نے داخل کیا۔نیوراسس کے مریض کاکالج میں کیاکام۔“
”جی جی۔“ایلی گھبراگیا۔اسے سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاجواب دے۔
”ہم تمہیں کالج میں رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔جب تک تم فٹنس کاسارٹیفکیٹ نہ پیش کرو۔سمجھا۔“
”جی جی۔“ایلی کی گھگھی بندھی ہوئی تھی۔
”کیانام ہے تمہارا؟“پرنسپل نے گھورا۔
”جی جی۔ایلی ۔ایلی جی ہاںایلی۔“
”ایلی۔“پرنسپل نے حیرانی سے دہرایا”یہ کیسانام ہے۔“
”جی نام توالیاس ہے الیاس ویسے ایلی ایلی کہتے ہیں۔“
اس پرپرنسپل نے نہ جانے کیوں ہنسنے لگا۔”تم کالج میں پڑھتاہے۔اس کالج میں۔“وہ بولاعین اس وقت چھت کے گارڈرپربیٹھے ہوئے کبوترنے بیٹ کی جوپرنسپل کے سرپرگری۔
”ہے۔“وہ چلانے ”واٹ نان سینس۔اے چوکیدار۔چوکیدار۔“اس نے گھنٹی بجانی شروع کردی۔اورپھرغصے میں کمرے میں ٹہلنے لگا۔
ایلی ڈرکردیوارسے لگ گیا۔چوکیداربھاگابھاگااندرداخل ہوا۔”حضورحضور۔“
کہاں تھاتم ۔کہاں تھا۔وائس پرنسپل کوبلاؤ۔وائس پرنسپل کوفوراً۔“
چوکیدارباہربھاگاپرنسپل دیوانہ وارکمرے میں گھوم رہاتھا۔کبھی وہ چھت کی طرف دیکھتاکبھی اپنے سرپرہاتھ پھیرتاوہ مسلسل چلائے جارہاتھا۔”واٹ نان سینس دس ازآفس آراے پجن ہول دس ازنوخانقاہ۔“وہ کبوترکودیکھ کرکہتا۔
مونچھوں والاپروفیسرگھبراہٹ میں داخل ہوا۔
”اے وائس پرنسپل ۔واٹ ازدس۔یہ کالج ہے خانقاہ ہے۔“
”خانقاہ۔“وائس پرنسپل نے تعجب سے دہرایا۔
”ول ول ووسچن دیکھو۔وہ چھت پروہ۔“اس نے اشارہ کیا۔”سی ویٹ اٹ ازریمووڈ۔“
”ابھی ابھی۔دس ازپرنسپل روم ناس سس اس نے چوکیداراوروائس پرنسپل کومخاطب کرکے کہاچوکیدارباہرسے ایک لمبابانس لے کرآیااوروائس پرنسپل اورچوکیدارکبوترکونکالنے میں مصروف ہوگئے۔
دفعتاً پرنسپل کی نظرایلی پرپڑی۔”ول تم یہاں کیوں ہے۔“
”جی وہ عرضی۔“ایلی نے کہا۔
”عرضی ۔کیسی عرضی۔“وہ عرضی کی طرف لپکا۔
”آپ نے کہاتھا۔آپ نے یعنی ۔“ایلی گھبراہٹ میں بولا۔
”ول ول چھٹی مانگتاہے۔“
”جی جی یعنی میرامطلب ہے۔“ایلی کی گھبراہٹ اوربڑھ گئی۔
پرنسپل نے جیب سے پن نکالااورعرضی پرکچھ لکھ کرایلی کے ہاتھ میں عرضی تھمادی۔رن اوے رن اوے وہ ایلی اورکبوترسے مخاطب ہوکرچلانے لگا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کرایلی نے عرضی میز پرپھینک دی۔اورخودچارپائی پرپڑگیانہ جانے اب کیاہوگا۔وہ سوچ رہاتھا۔کہیں کالج سے نہ نکال دیں۔اسے پرنسپل نے کہہ جودیاتھاکہ تمہیں کالج میں کس نے داخل کیاتھا۔لیکن میں یہ عرضی پھاڑدوں گامجھے کیاپڑی ہے کہ کسی کودکھاؤں جویہ عرضی۔
وہ سوچنے لگاکیاکالج کے پرنسپل ایسے ہوتے ہیں اورپھریوسف اعظم کتنامشہورآدمی تھاوہ ساری دنیامیں اس کے علم کاچرچاتھا۔انگریزی کاعالم گناجاتاتھا۔کیابڑے آدمی اس طرح کے ہوتے ہیں۔اوروہ یوں کمروں میں کبوتراڑاتے ہیں۔
کمرے میں دوسری طرف ریاضت اپناسامان اکٹھاکررہاتھاکیونکہ اسی روزوہ نئے بورڈنگ میں جارہاتھا۔
”یہ کاغذیہ کاغذ“اس نے میزسے کاغذاٹھاتے ہوئے کہا۔یہ میراکاغذہے کیا؟“
”پتہ نہیں۔“ایلی اس کی بات سمجھے بغیربولا۔
”ارے ہائیں۔“ریاضت چلایا۔”یہ توتمہاری عرضی ہے۔“
”میری عرضی “ایلی نے اٹھ بیٹھا۔”میری عرضی ۔ہاں ارے “اسے یادآیا۔”اسے مجھے دے دواسے پڑھونہیں یہ توپرائیوٹ کاغذہے۔وہ ریاضت کی طرف لپکا۔
ریاضت گھبراکرپیچھے ہٹ گیا۔”میں نے توپڑھ لی ہے۔“وہ بولا”مجھے معلوم نہ تھاکہ تمہیں بھی نئے بورڈنگ میں کمرہ دے دیاگیاہے۔“
”کمرہ دے دیاگیاہے۔“ایلی نے حیرت سے ریاضت کی طرف دیکھا”کس کوکمرہ دے دیاگیاہے۔
”یہ دیکھولواس پرجولکھاہے۔“ریاضت نے عرضی اس کی طرف بڑھادی۔
ایلی نے حیرانی سے عرضی کی طرف دیکھاتھا۔یس اوکے نیچے پرنسپل کے دستخط جوتھے۔خوشی سے ایلی کی چیخ نکل گئی۔”ارے ۔“وہ قہقہہ مارکرہنس پڑاارے وہ کبوتراڑانے والامسخرا۔حدہوگئی۔واٹ نان سنس وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگا۔
ابھی ایلی کونئے ہوسٹل میں کمرہ ملے صرف ایک دن ہواتھاکہ کالج دس روزکے لیے بندہوگیااوروہ اپناسوٹ کیس اٹھائے علی پورروانہ ہوگیا۔
جب وہ سٹیشن پرپہنچاتووہاں رضااسے ملا۔
”ارے تم“رضانے خوشی سے اپنی ہاکی کی سٹک گھمائی۔”تم یہاں کیسے۔“
”چھٹیاں ہوگئی ہیں نااس لیے آگیاہوں۔“
”توبڑے وقت پرآتاہے ایلی۔بڑے وقت پرآتاہے۔میں سوچ رہاتھاکہ ان شادیوں میں اگرتونہ آیاتوکیامزاآئے گا۔بالکل بے کار۔“
”شادیاں۔“ایلی نے پوچھا۔”کس کی شادی؟“
”ایک ارے بابووہاں توپوری چارشادیاں رچی ہیںاپنے محلے میں روزڈھولک بجتی ہے۔عورتیں گاتی ہیں میراثیوں کی بیٹھک ہوتی ہے۔وہ رنگ جماہے محلے میں دیکھوگے توآنکھیں کھل جائیں گی۔مندربناہواہے۔مندر۔اوروہ تمہاری۔“رضارک گیا۔وہ آنکھیں پھاڑکراورزبان ہونٹوں میں لے کرکہنے لگا۔”توبہ توبہ ہے۔وہ تو سچ مچ اس مندرکی دیوی ہے اورایلی گاتی ہے ےہ وہ ہے کیاگاتی ہے کیاگلاپایاہے اورجوگاتے ہوئے دیکھ لوتوخداکی قسم آنکھیں ابل آتی ہیں۔پاگل ہوجاتاہے دیکھنے والاچلو۔محلے میں چلوتو---لیکن “دفعتاًرضارک گیا۔”تم وہاں جاکراس کے ہورہوگے تمہارے لیے تونیچے اترنامشکل ہوجائے گاہمارے لیے تمہاراآنانہ آنابرابرہوجائے گا۔“”پاگل ہوگئے ہو۔“ایلی نے جھوٹ موٹ اسے ڈانٹا۔
”تم چاہے ڈانٹ لو۔جوجی آئے کہہ لولیکن”رضاکی آنکھیں بھرآئیں۔”اس نے تمہیں ہم سے چھین لیاہے اوروہ ارجمند۔وہ بھی نہیں آرہااب کی بار۔“
”کیوں؟“ایلی نے پوچھا۔
”بیمارہے کھانسی بڑھ گئی ہے ۔سناہے اب توہروقت بخاررہتاہے۔وہاں گاؤں میں چارپائی پرپڑاہے۔“
”رضا“ایلی نے اسے کہا۔”چلوکبھی وہاں چلیں۔ارجمندسے مل آئیں۔تمہیں نہیںمعلوم وہ بڑی منتیں کرتاتھاکہتاتھا۔دوایک بارمیرے پاس آؤصرف ایک بار۔“ایلی پررقت طاری ہوگئی۔”کہتاتھا“اس سے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”مجھے صرف یہی حسرت ہے کہ تم اپن کی راجدھانی دیکھنے کے لیے نہ آئے۔کہتاتھا“اسے بے اختیارہنسی آگئی۔”گاؤں کی گوریاں جواپن کے چرن چھوچھوکرجیتی ہیں کب سے راہ دیکھ رہی ہیں تمہاری۔“
وہ دونوں ہنسنے لگے۔
”توپھرچلو۔“ایلی نے پوچھا۔
”لومیراکیاہے۔“رضانے کہا”آج کہوتوآج ہی جانے کے لیے تیارہوں۔“
”ضرورچلیں گے ۔“ایلی بولا۔
جب وہ محلے کے قریب پہنچے توایلی کہنے لگا”لومیں ذراگھرہوآؤں مل آؤں پھرآؤں گا۔“
”کون سے گھرجاؤگے؟“رضاہنسنے لگا۔
”اپنے گھرجاؤں گااورکہاں ایلی نے منہ پکاکرلیا۔
”تمہاری ماں اورفرحت توآٹھ دن سے کابل چلے گئے ہیں اورتمہارے ابااپنی نئی نویلی کولے کرواپس نوکری پرچلے گئے ہیں توکن سے ملنے جائے گاوہاں“پھروہ خودہی بولا۔
”تیرے توکئی گھرہیں اورتواتناخوش قسمت ہے کہ وہ تیری راہ دیکھتی ہے۔خداکی قسم ایلی اگروہ ایک بارمیری طرف پیارسے دیکھ لے توپاگل ہوجاؤں ۔سب کوچھوڑدوں ۔“
ایلی پاگلوں کی طرح چلانے لگا”تم فضول باتیں کرتے ہوبے کارباتیں ‘چھوڑومجھے۔“وہ بناؤٹی غصے میں چیخنے لگا۔اورغصے کابہانہ بناکروہاں سے چل پڑا۔
محلے کاچوگان لوگوں سے بھراہواتھا۔عورتیں ادھرادھرگھوم رہی تھی۔بوڑھے کھانس رہے تھے۔بچے کھیل رہے تھے وہ رک گیا۔
کھلاڑی یابھکارن
محلے والیاں کی نگاہیں ایلی پرمرکوزہوگئیں۔
”اپناایلی آیاہے۔“ایک بولی
”اے ہے کیوں نہ آئے۔اب بھی نہ آتاکیا۔“
”کیوں اب کیاہے ماں۔“
”اے ہے یہی توموقعہ تھا“ماں ہنسنے لگی۔”اللہ رکھے سیانالڑکاہے کوئی بیوقوف ہے کیا۔
آخرکس باپ کابیٹاہے۔“
وہ سب قہقہہ مارکرہنسنے لگیں۔
”آجاآجاتورک کیوں گیا۔ایلی اماں صدقے۔“
”پرماں توہے ہی نہیں جوصدقے ہو۔کیوں ماں“ایک ہنس کربولی۔
”اس کی تواللہ رکھے ان گنت مائیں ہیں کیوں ایلی۔“
عین اس وقت کھڑکی میں سے شہزادنے سرنکال کرکہا”کب آیاتوایلی۔“
دوسری بولی”ایک تویہ بولی۔“
اس پرایک قہقہہ بلندہوا۔ایلی پسینے میں شرابورہوگیا۔
”ہاں“شہزادکھڑکی سے چلانے لگی”جوبولنے میں مزاہے وہ چپکے چپکے چوری چوری میں ”نہیں“
”ہائے ری لڑکی کیاکہہ رہی ہے تو“ماں نے منہ میں انگلی ڈال لی۔”جو منہ میں آتاہے کہہ دیتی ہے۔ذرانہیں جھجکتی۔“
”جھجکنے کازمانہ گزرگیا۔بات پرائی ہوجائے توجھجکناکیسا۔“
”لوسن لوبہن یہ لڑکی توبس حدہے۔“وہ پھرسے ہنسنے لگیں لیکن یہ ہنسی سے کس قدرمختلف تھی۔ایلی کاپسینہ سوکھ گیا۔
”آتجھے چائے پلاؤں۔بالکل تیارہے ایلی۔“شہزادنے باآوازبلندکہا۔
”جاجاپی اس کی تو۔“ماں نے پھربات شرو ع کی ۔
”اچھے موقعے پرآیاہے تومحلے میں ایک نہیں چارشادیاں“ایک نے بات کارخ بدلنے کی کوشش کی۔ ”اے بی بی“ماں بولی”اب تواس کی شادی کی فکرکرنی چاہیے۔“
”سن رہی تو”ایک نے شہزادکی طرف مخاطب ہوکرکہا۔”کوئی اس کے بارے میں بھی فکرکر۔“
”ایسی بیوی لاؤں گی اس کی ”شہزادنے گھبراہٹ کے بغیرکہا“کہ دیکھ کرحیران رہ جاؤگی۔“
”کوئی ایسی نہ لے آنا۔“ماں نے شہزادکوطعنہ دیا۔”جو اپنی ہی برات میں ناچناشروع کردے۔“
”اورکیامنہ میں گھنگھیاں ڈال کربیٹھ رہے۔نہ بھئی ایسی کس کام کی۔“شہزادنے جواب دیا۔
”بس کام کی توتوہی آئی محلے میں۔“وہ ہنسنے لگیں۔
”کیوں ماں دیکھ توکام کی نہیں ہوں کیا۔“اس نے سینہ تان کرکہا۔
شہزادکی ہنس مکھ جرات اوربات کی رنگینی انہیں خاموش کردیتی تھی۔اوروہ سب دل ہی دل میں شہزادکوبراسمجھے کے باوجودداددینے پرمجبورہوجاتی تھیں۔شہزادکی اس بات پروہ سب دل میں شہزادکوبراسمجھنے کے باوجودداددینے پرمجبورہوجاتی تھیں۔شہزادکی اس بات پروہ سب ہنسنے لگیں۔اورایلی کوموقعہ مل گیا۔انہیں مصروف دیکھ کروہ سیدھاشہزادکی طرف چل پڑا۔
نیچے ڈیوڑھی میں اسے مائی حاجاں مل گئی۔”آجاکبھی ہماری طرف بھی آیاکرو۔“اس نے ایلی کاہاتھ پکڑلیا۔”کبھی ہم سے بھی کرلیاکربات۔اے ہے اتنی بے اعتنائی بھی اچھی نہیں ہوتی۔“
وہ اسے پکڑکراپنے گھرلے گئی۔اورصحن میں چلاتی ہوئی کمرے کی طرف چلی۔صحن میں کئی ایک عورتیں بیٹھی تھیں۔دبلی پتلی‘زردرومیلی عورتیں۔
”نہ لڑکی یہ خودتونہیں آیامیں زبردستی لائی ہوں اسے۔یہ کہاں آتاہے کسی کے ہاں یہ توصرف کوٹھے پرہی چڑھناجانتاہے چپکے سے سیڑھیاں چڑھ جاتاہے جیسے چوردبے پاؤں آتے ہیں۔“
مائی حاجاں کاکمرہ بہت چھوتااورتاریک تھا۔اس میں ایک طرف ایک پراناپلنگ بچھاہواتھا۔
جس کے سرہانے مٹی کے برتن نیچے اوپررکھے ہوئے تھے۔ایک طرف ایک میلاساتخت پڑاتھا۔مائی حاجاں نے اسے پلنگ پربٹھادیا۔اورخودایک چوکی لے کربیٹھ گئی کہنے لگی”اے ہے میں تودیرسے سوچ رہی تھی کہ کبھی تواکیلامل جائے توبات کروں۔آخرمیں نہ کروں تجھ سے بات بیٹاکون کرے گا۔“
ایلی کاماتھاٹھنکانہ جانے کیاکہنے کے لیے وہ اسے وہاں کھینچ لائی تھی۔ضرورکوئی بات ہوگی۔وہ گھبراگیا۔
”اے ہے۔“وہ بولی”لوگ توویسے ہی باتیں باتیں بناتے رہتے ہیں۔ان کے دل میں دردنہیں ہوتانالیکن میرے لیے توتواپناہے بلکہ اپنوں سے سے بھی بڑھ کرعزیز۔“
”مجھے معلوم ہے ماں ۔“ایلی نے جواب دیا۔
”اے ہے۔برانہ مانیومیری بات کامیں توتیراہی بھلاچاہتی ہوں۔“ماں نے تمہیدکے طورپرکہا۔
”ہاں ہاں ہاں“وہ بولا
”اوردیکھویہ نہ سمجھناکہ میں کسی خیال سے کہتی ہوں ۔نہ بھئی مجھے کوئی خیال نہیں۔توخوش رہ میں صرف یہی چاہتی ہوں چاہے جہاں مرضی ہے رہ بس میری خوشی تواسی میں ہے۔پرلڑکے آخردنیادنیاہے۔دنیاکومنہ کون بندکرسکتاہے۔جب لوگ تیرے متعلق باتیں کرتے ہیںتودل دکھتاہے اوردیکھنا۔پھریہ لڑکی ہے کیانام ہے اس کاآج کل کے نام بھی توعجیب ہوتے ہیں۔میں اسے برانہیں کہتی بیچاری بڑی اچھی ہے ہنس مکھ ہے اورایمانداری سے کہتی ہوں کوئی چلاجائے۔اس قدرمحبت سے ملتی ہے اوراتنی خاطرتواضع کرتی ہے کہ میں کیابتاؤں۔“ایک ساعت کے لیے وہ چپ ہوگئی پھر خودہی بولی”لیکن جانتاہے کہ آخراصل اصل ہے اورنقل نقل ہاں خون خون کی بات ہوتی ہے۔ہم غریب سہی مگرہماراخاندان اصلی ہے۔اس میں کوئی ملاوٹ نہیں توجانتاہی ہے۔خاندان بڑی چیز ہوتی ہے۔ہاں اورسچ پوچھ تووہ کبھی چھپانہیں رہتا۔تم ہی کہوکیااپنے بیاہ پرکبھی کسی کوگاتے سناہے۔ایمان سے کہنا۔توبہ ہے آخرلاج بھی کوئی چیزہے۔ہے نااپنے ہی بیاہ پرگاتی رہی اورمحلے والیاں منہ میں انگلیاں ڈالے حیرت سے تک رہی تھیں۔“وہ خاموش ہوگئی۔
”سوبیٹا“وہ بولی۔”اس طرح آنکھوں پرپٹی باندھ کرچلتاگیاتوکیاہوگایہ راستہ اچھانہیں ۔اس کے لیے توگھڑی بھرکاتماشاہوجائے گا۔کھلاڑی کوتوکھیل چاہیے پرتیری ساری جندگی حرام ہوجائے گی ہاں کہے دیتی ہوں میں تجھے۔آگے توچاہے جوکرہماراکام توصرف تجھے بتادیناہے۔آخرتوہاجرہ کابیٹاہے اورہاجرہ سے بڑھ کرہمیں اورکون عزیزہے اورایلی دیکھوجومرضی ہے کرپراپنے اباکے قدموں پرنہ چلنانہ بیٹا۔یہ راستہ اچھانہیں۔نہ اللہ رسول کوپسندہے ۔اورنہ کسی اللہ کے بندے کوتوتوبڑاہی اچھالڑکاہے۔اب بتاکیابناؤں تیرے لئی۔لسی پئے گایاشربت؟“
”نہیں ماں میں کچھ نہیں پیوں گا۔توتکلیف نہ کر“۔ایلی اٹھ بیٹھا۔
”اے ہے بیٹھ توسہی کچھ دیرکے لیے۔“
”پھرآؤں گاماں۔“وہ بولا
”میری بات کابراتونہیں ماناتونے۔“
”نہیں ماں۔“
”مان بھی لے کیاہوا“وہ بولی”ہم توسچی بات کرنانہیں چھوڑیں گے چاہے توبراہی مانے۔ہماراتوکام ہے کہ اپنے بچوں کوبھلائی کاراستہ بتائیں۔ہاں۔“
بھکارن سے دیا
ابھی وہ صحن میں ہی پہنچاتھاکہ چھن سے شہزادناچتی ہوئی آپہنچی۔
”ہے میں نے کہا۔“وہ بولی”نہ جانے کہاں گم ہوگیاہے۔میرے سامنے توچل پڑاتھاچوگان سے پھرچلاکہاں گیا۔حیرت کی بات تھی‘کیوں ماں۔“
”توکیااس کے ایک ایک منٹ کاحساب رکھتی ہے لڑکی۔“ماں نے ہنس کرطعنہ دیا۔
”کیوں نہ رکھوں ماں“وہ ہنسنے لگی”رکھناپڑتاہے۔ذمہ داری کی بات جوہوئی۔“
”اب تومیراہی مہمان ہے یہ۔جب فرحت اورہاجرہ ہوتی تھیں جب اوربات تھی۔اب میں نہ دھیان رکھوں گی توآکرکیاکہیں گی۔“
”اب توان کابہانہ نہ بنا۔“ماں بولی۔
”بہانے بھی بنانے ہی پڑے ہیں۔“وہ رازدارانہ اندازسے کہنے لگی۔
”ہائے ری کیاکہہ رہی ہے تو“ماں نے انگلی منہ میں دبالی۔“تیری یہ باتیں لے ڈوبیں محلے والوں کو۔“
”لوماں “وہ پھرہنسنے لگی۔”فی الحال تومجھے ہی لے ڈوب رہی ہیں۔“
”تونہ ڈوب کس نے تجھ سے کہاہے کہ جو منہ میں آیابک دینا۔“ماں نے ہنس کرکہا۔
”چل اب جوچائے ٹھنڈی ہوگئی ہوگئی توپھرسے کون بنائے گاچائے تیرے لیے چل“وہ ایلی سے کہنے لگی۔
”بس تیری چائے پیتاہے یہ۔میں نے کتنی ہی منتیں کیں کہ یہاں پی لے ۔پراس لڑکے نے نہ کی رٹ لگائے رکھی۔“
جب وہ سیڑھیاں چڑھنے لگے توایلی نے شہزادکاپلوپکڑلیا۔
”ذرابات توسن“وہ بھرائی ہوئی آوازمیں بولا۔
لیکن شہزادقہقہے لگاتی ہوائی ہوائی کی طرح اوپرچڑھ گئی۔
اوپرجاکروہ چیخنے لگی۔”اب آؤگے بھی یادومزدوروں کوبلاؤں اٹھانے کے لیے“۔اس کادوپٹہ ایلی کے ہاتھ میں رہ گیا۔
اس کی بات سن کر رابعہ اپنے کمرے سے نکل آئی۔”کس کواٹھواناپڑے گا۔کس سے باتیں کررہی ہوتم۔“
”تمہاراہی بھائی بندہے کوئی۔اوپرچڑھنے کانام ہی نہیں لیتا“شہزادہنسی۔
”اوہ تمہارادوپٹہ کیاہوا۔“رابعہ نے پوچھا۔
”پوچھواسی سے “وہ بولی”اس کاکیااعتبارہے آج میرادوپٹہ اتارلیاہے۔اس نے کل نہ جانے زیوراتارنے کے لیے کان مروڑلے۔ نہ بھائی یہ تمہارے رشتے دارمجھ سے نہیں سنبھالے جاتے۔“
”سلام کہتاہوں۔“ایلی نے اوپرآکررابعہ سے کہا۔
”توہے ایلی “وہ بولی”میں سمجھی نہ جانے کس سے کشتی لڑتی ہوئی آتی ہے۔“
”یہ تیرابھائی بندکیالڑے گاکشتی۔“شہزادہنسی۔”اس کی صورت تودیکھو۔“
”صورت تواچھی بھلی ہے۔“رابعہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
”دیکھ لو۔“وہ بولی”یوں معلوم ہوتاہے جیسے ابھی رودے گا۔“
ایلی کوشہزادپربے حدغصہ آرہاتھا۔لیکن اس کی باتیں سن کراوراس کی ہنسی دیکھ کروہ بھی ہنسنے لگا۔اوروہ دونوں ہنستے ہوئے اوپرچوبارے میں چلے گئے۔
چوبارے میں جانو کھڑی تھی۔
”کیوں جانوچائے بھی بنائی یانہیں۔دیکھ تومہمان عین سرپرپہنچ گیاہے۔“شہزادنے پوچھا۔
”بڑامہمان تودیکھو۔“جانو بولی۔”ایسوں کوہم مہمان نہیں سمجھتے ۔“
”توکیاسمجھتے ہوہمیںبھی بتاؤبھئی۔“اس نے جانو سے کہا۔
”یہ بے ایمان ہے۔مہمان تودودن کاہوتاہے۔“جانو نے کہا۔
”کیوں تم سے کوئی بے ایمانی کی ہے اس نے ۔شرماتی کیوں ہوبتادے میں کسی کوبتاؤں گی تھوڑی۔“
”اے ہے مجھ سے کیوں کرے بے ایمانی تم جوہو۔“جانو غصے میں آگئی۔
”لے ایلی مجھ سے کراس سے نہ کریو۔یہ توروپڑی ۔“شہزادنے کہا۔
جانونیچے چائے بنانے کے لیے گئی توایلی نے پھرسے ہاتھ پھیلادیئے۔
”شہزاد“وہ بولا”شہزادمیری طرف دیکھو۔“
”بس تم توبھکاری ہی رہے۔“وہ پھرہنسنے لگی”ہاتھ پھیلانے کے علاوہ تمہیں کچھ سوجھتابھی ہے۔
”نہیں کچھ نہیں سوجھتا۔کچھ مل جائے ہمیں۔“ایلی نے پھرہاتھ بڑھایا۔
”بھکارن سے دیامانگتے ہو۔اب یہاں رکھاہی کیاہے۔“شہزادنے آہ بھری۔”سبھی کچھ لٹ گیا۔اب بھکاری آیابھی توکیاآیا۔اب اسے کیادے‘کیادے۔“شہزادنے بھرپورنگاہ سے ایلی کی طرف دیکھا۔
”شہزاد“ایلی دیوانہ واراس پرجھپٹا”میں پاگل ہوجاؤں گا۔“
”ہوجاؤہوجاؤ۔جلدی کرو۔“شہزادہنسنے لگی۔
ایلی نے اس کاہاتھ پکڑلیااوردیوانہ واراسے چومنے لگا۔اورشہزادیوں کھڑی میں کھڑی ہوکرباہردیکھنے لگی جیسے اس ہاتھ سے اسے کوئی تعلق نہ ہو۔
جانوچائے لائی تووہ چونکی۔ٹرے لے کرشہزادنے میزپررکھ دیا۔اورزبردستی ایلی کوکرسی میں بٹھاکرکہنے لگی”لواب یہاں بیٹھ کرچائے پیو۔میرے سامنے بیٹھے رہواورمیں تم سے کچھ نہیں مانگتی۔“اورپھراس کے سامنے تخت پربیٹھ کریوں سلائی کے کام میں مصروف ہوگئی جیسے اسے سے دورکاواسطہ بھی نہ ہو۔ایلی پاگلوں کی طرح اس کی طرف دیکھ رہاتھا۔اس کے ہاتھ پاؤں بازواورماتھے کے تل کاجائزہ لے رہاتھا۔اس کی چھوٹی سی چھوٹی حرکت پرنثارہوئے جارہاتھا۔
دورباہرصحن میں جانوبیٹھی ایلی کی طرف دیکھ کرمسکرارہی تھی۔
آخرجانوسے نہ رہاگیاوہیں سے چلاکربولی”اے لڑکے کیاہوگیاہے تجھے‘یوں دیکھ رہاہے جیسے پاگل ہوگیاہو۔ہوش میں آ۔“
”اونہوں“شہزادسراٹھائے بغیربولی۔”سب بے کارہے جانو۔پاگل کبھی ہوش میں نہیں آیاکرتے۔تم کیوں اپناجی جلارہی ہو۔“
”تونے ہی اسے کردیاپاگل“جانوغصے میں پھنکارنے لگی۔

جاوید اقبال
 
Top