علی پور کا ایلی(جاوید اقبال) 456-485

قیصرانی

لائبریرین
سنائے ، اس کاجی چاہتاتھاکہ دل کی بات چیخ جیخ کرلوگوں کوسنائے اوراس طرح دل کابوجھ ہلکاکرلے۔مگرجب بھی وہ بات کہہ دینے کاارادہ کرتاتوچھن سے شہزاداس کے سامنے آکھڑی ہوتی دوناؤسی آنکھیں ڈولتیں اس کے ہونٹ عجیب ساخم کھاکرکچھ کہتے اوروہ مسکراتی۔“نہیں نہیں۔”ایلی چلاتا“میں کسی سے نہ کہوں گامیں تم سے بے وفائی نہ کروں گامیں تمہارارازفاش نہیں کروں گا۔“اورایلی کے دل کابوجھ اوربھی بڑھ جاتا۔
”ایک ناایک روزتم ضروربتاؤگے۔“شہزادآنسوبھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی۔”تم اپنے دوستوں سے بات کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔اچھاتمہاری خوشی۔میری بدنامی میں ہی تم خوش ہوتوایساہی سہی۔“شہزادیہ کیفیت دیکھ کروہ بھاگتااس ہاکی والے سے دوربازاروالوں سے دوراوردور۔کہیں وہ کسی سے کہہ نہ دے کہیں اس کے دل کی بات زبان پرنہ آجائے۔
جب وہ شہزادکے پاس پہنچاتووہ مسکرارہی تھی عین اسی طرح جس طرح بازارمیں وہ چھن سے اس کے سامنے آکرمسکرانے لگی تھی۔”وہ کہاں ہے؟“ایلی نے پوچھا۔
شہزادنے منہ بنایااوراوپرکی طرف اشارہ کیا۔”کہاں بھاگ گئے تھے تم ۔“وہ بولی۔
”کہاں جاؤں گا۔جاسکتاہوں کیا؟“
وہ ازسرنومسکرانے لگی۔”بھاگ جاؤ۔“وہ ہنستے ہوئی چلائی ”دور۔بہت دور۔ورنہ۔“
”ورنہ کیا۔“ایلی نے پوچھا۔
”ورنہ۔“شہزادنے اپنے سڈول بازوا س کی طرف بڑھاکراسے تھام لیا”ورنہ تم پکڑے جاؤ گے ۔قیدکرلیے جاؤگے۔“اس کے بال اڑکرایلی کے منہ پرآپڑے دم رک گیا”بس “وہ تالی پیٹ کربولی۔”بات کرنے سے بھی گئے بولو۔بولتے نہیں۔“ایلی کی آنکھیں گویاابلنے لگیں اس نے شہزادکواپنی گرفت میں لیناچاہامگروہ بازوچھڑاکربھاگ گئی۔”اونہوں۔“وہ دیوانہ وارپیچھے بھاگتے ہوئے دیکھ کربولی“وہ اوپرہیں اگر--۔“پھرمک پرکھڑی ہوکررابعہ سے باتیں کرنے میں یوں مشغول ہوگئی جیسے آن کی آن میں ایلی کے وجودکوقطعی طورپربھول چکی ہوجیسے احساس ہی نہ ہوکہ قریب ہی ایلی انگڑائیاں لے لے کراپنی ہڈیاں توڑرہاہے۔آنکھیں سرخ ہوکرابلی جارہی ہیں۔
ابھی وہ کھڑاسوچ ہی رہاتھاکہ شریف کے پاس جائے نہ جائے۔کہ محلے کی ایک بوڑھی عورت نیچے شورمچاتی ہوئی بولی۔
نئی یاپرانی
”اے ہے ہاجرہ کہاں گئی میں کہتی ہوں رابعہ، شہزادتم کہاں ہو۔“دفعتاً مگ سے اس کی نگاہ ایلی پرپڑی۔اسے دیکھ کروہ چلانے لگی۔”اے تویہاں کھڑاہے ایلی۔لڑکے جاجاکراپنے باپ کولا۔تواسے سٹیشن پرملنے نہیںگیا۔سناہے علی احمدآرہاہے۔“ایلی اس کی بات سن کربھونچکارہ گیا۔نہ جانے وہ بڑھیاکیاکہہ رہی تھی۔شایدوہ علی احمدکوقطعی طورپربھول چکاتھا۔
”میں نے کہاماں بات توسن۔“وہ شورمچاتاہوااس کے پیچھے بھاگامگروہ توآندھی کی طرح چلاتی ہوئی جارہی تھی۔ابھی ابھی سٹیشن سے آیاہے کہتاہے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کرآیاہوں۔اب کی مرتبہ ایک اورساتھ ہے۔“
”کون آیاہے ماں برکتے“جانوکھڑکی سے چلانے لگی۔
”اے ہے اپناعلی احمدآیاہے۔“
”ساتھ کون ہے۔“جانونے پوچھا۔
”کہتے ہیں اب کی بارکوئی نئی نویلی ساتھ ہے۔“برکتے نے شورمچایا۔
”اے بہن“مائی حاجاں دوڑی دوڑی چھتی گلی سے باہرنکلی۔“اس کے ساتھ توہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوتی ہے بہن۔نئی ہویاپرانی تمیزنہیں بس ساتھ ہو۔“
”ہوں نئی“بی بی فاطاں کھڑکی سے سرنکال کربولی۔”نہ جانے کہاں سے گلی سڑی ہوئی اٹھالایاہے۔اسے آج تک مالم نہیں ہواکہ نئی کیاہوتی ہے اورپرانی کیا۔“
”اے ہے اپنی طرف سے تونئی ہی لاتاہے۔پرکیاکرے نصیب ہی میں پرانی لکھی ہیں۔“
مائی حاجاں بولی۔
”پربہن“برکتے نے کہا“حمادکہتاہے کہ اب کے توحدکردی علی احمدنے ۔“
”کیاکیاماں برکتے۔بات بھی توکرناماں۔وہ توہرمرتبہ ہی حدکرتاہے۔“چاروں طرف شورمچ گیا۔“
”پرلڑکی کیابتاؤں میں۔“ماں برکتے نے ہاتھ مل کرکہا۔”اب کی مرتبہ جسے لایاہے اس کی گودمیں بچہ ہے۔ہاں بچہ۔لوکرلوبات۔“
”ہائیں بچہ“کیاکہاں ماں۔بچہ گودمیں ہے۔“چاروں طرف سے قہقہے بلندہوئے۔
”چلویہ بھی اچھاہوا۔آج تک بچے والی نہ آئی تھی۔“
”ابھی تودیکھوبہن۔وہ کشمیرکاسیب ایک سال تک نہ چل سکاتویہ بیچاری کب تک چلے گی۔“
”میں نے کہاماں برکتے۔“شہزادکھڑکی میں آکرچیخنے لگی۔”کیاواقعی بچے والی لایاہے علی احمدیامذاق کررہی ہو۔“
”لومیں کیاتم سے مجاک کروں گی۔“ماں برکتے بولی۔”اسے ہے حمادنے بتایاہے۔“
”اے لو۔“بی بی نتھوبولی۔”قافلہ توآبھی پہنچا۔“اس نے کچی حویلی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
لے اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لے لڑکی۔“ماں حاجاں شہزادسے کہنے لگی۔”سانچ کوکیاآنچ ابھی دودھ کادودھ اورپانی کاپانی ہوجائے گا۔“
حاجاں نے ابھی بات ختم نہ کی تھی کہ علی احمدسینہ تانے چوگان میں داخل ہوئے۔
”علی احمدمبار ک ہو۔“ایک بولی۔
”میں نے کہاباقی قافلہ کہاں ہے تیرا۔“
”اے چٹی پرآیاہے کیا۔اچھاکیاجوآگیا۔تیرے بغیریہاں رونق نہیں ہوتی۔“
”اے علی احمداب کی بارسناہے نئی لایاہے تو۔“
علی احمدچوگان میں ہیروکی طرح کھڑے مسکرارہے تھے جیسے ہیروئین کودیوکے چنگل سے چھڑاکرلائے ہوں۔
”لوماں“وہ بولے”کون کہتاہے نئی ہے ماں ہم توپرانی کے پجاری ہیں وہ کہتے ہیں نانئی نودن پرانی سودن اوراگراکیلاآتاتوسواگت کے لئے تم سب یہاں نہ ہوتیں۔کسی کوپتہ بھی نہ چلتاکہ میں آیاہوں۔“
”اے ہے لڑکے۔“حاجاں مائی بولی“توکیاہمیں پتہ دینے کے لئے لاتاہے تو۔“
”اورتوکیااپنے لئے لاتاہوں۔“وہ قہقہہ مارکربولے“تم بھی کتنی بھولی ہوبی بی نتھو۔اپناشوق تومدت سے ختم ہوچکااب تومحلے کی نفری بڑھانے کے لئے لے آتاہوں۔“
”جبھی اب کے بچے والی لایاہے“جانوکھڑکی سے چیخنے لگی۔
”اورکیاجانو“علی احمدہنسے۔“توتوآپ سیانی ہے۔“
پرعلی احمد“مائی حاجاں کہنے لگی”تجھے کوئی لڑکی نہیں ملتی کیا۔“
”لڑکی “علی احمدہنسے“لڑکی کوکیاکرناہے مائی حاجاں کام کی وہ ہوتی ہے جوتجربہ کارہو۔“
”پرعلی احمد“نتھوبی بی نے ہنستے ہوئے کہا”کام کی توتولایانہیں کبھی۔کباڑخانہ ہی اکٹھاکررکھاہے۔لے ماں برکتے ایمان سے کہنادیکھنے میں ہے کوئی کام کی۔“
”لوسن لوبی بی کی بات“علی احمدہنسے۔”میں کیادیکھنے کے لئے لاتاہوں بی بی میں کیابچہ ہوں کہ دیکھ کرریجھ جاؤں وہ دن گئے بی بی۔اورہاتھی کے دانت لانے کافائدہ۔تمہاری آنکھیں چکاچوندہوجائیں تواپناکیافائد ہ ہوااس میں۔کیوں بی بی ۔“وہ چوگان میں کھڑے ہوکرہیروکی طرح ہنسنے لگے۔
”ہائے علی احمد“ایک نے ہونٹوں پرانگلی رکھ رکھ کرکہا۔
”توبہ ہے علی احمد“دوسری ہنستے ہوئے چلائی۔
”کچھ شرم کیاکربات کرتے ہوئے۔“تیسری قہقہہ مارکربولی۔چوگان ان کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔اورعلی احمدفاتح کی حیثیت سے گھرکی طرف چل پڑے جیسے سیٹج پرایک خوب صورت جملہ کہہ کرایکٹرباہرنکل جاتاہے۔اورتماشائی تالیاں پیٹتے رہ جاتے ہیں۔
علی احمدکے پیچھے پیچھے وہی پرانی راجونیابرقعہ لئے آرہی تھی گودمیں دوسال کابچہ تھااوروہ یوں چل رہی تھی جیسے مشکل سے اپنے آپ کوگھسیٹ رہی ہو۔
”اے ہے“ماں برکتے بولی۔”ہم سے بھی پردہ ہے کیا۔لڑکی برقعہ تواٹھالے۔“
”ماں ہمیں سے توپردہ ہے۔“نتھوبی بی نے کہا۔”یہ نیازمانہ ہے اپنوں سے پردہ غیروں سے ---تم جانتی ہی ہو ماں۔“
جانوبولی۔”اے بی بی ڈرتی ہے کہیں نظرنہ لگ جائے ہماری۔“
اس کے پیچھے پیچھے تانگے والے کے ہاتھ میں سامان تھااورآخرمیں شمیم ایک لڑکی اٹھائے اوردوسری انگلی لگائے آرہی تھی۔
شمیم کاچہرہ غصے سے سرخ ہورہاتھا۔بھوئیں تنی ہوئی تھیں اورآنکھ کافرق بے حدنمایاں ہورہاتھا۔اس نے محلے والیوں کودیکھتے ہی پیٹناشروع کردیا۔
”اے ماں برکتے دیکھ لے میرے تونصیب ہی پھوٹ گئے۔میری طرف کیادیکھ رہی ہومیں تودلالہ بن کررہ گئی ہوں اپنے ہی گھرمیں۔“
اے تم کیوں دلالہ بنو۔“تم تواللہ کے فضل وکرم سے سہروں سے بیاہی ہوئی ہواوران فصلی بٹیروں کاکیاہے یہ تو آتی جاتی رہتی ہیں۔“
”نہ ماں یہ نہ کہواس کھیت میں توخالی فصلی بٹیرے ہی پلتے ہیں۔“شمیم بولی“یہاں توآنے جانے والیاں ہی چلتی ہیں۔تم اس گھرکوکیاجانو۔“
”غم نہ کرو“بی بی نتھونے کہا”یہ دوربھی گزرجائے گا۔“
”یہ چاہے گزرجائے۔اپنادورنہیں آئے گایہاں ہاں۔“وہ بولی۔”لکھ لومیری بات یہاں توسوکنیں ہی آئیں گی۔اپنے نصیب میں سکھ نہیں۔“
”اب توایلی پربھی سوکن آگئی “شہزاداپنی کھڑکی سے چلائی۔
اے ہے ایلی پرکیوں سوکن آنے لگی۔“ماں برکتے نے کہا۔
”اب توایک ننھاایلی بھی آگیا۔“وہ ہنسی۔
”لویہ بھی کوئی بات ہے۔“بی بی نتھونے کہا۔”نہ بہن ‘ایلی ایلی ہی ہے۔جومرتبہ ایلی کاہے وہ کسی اورکانہیں ہوسکتامیں توسچ کہوں گی۔“
”نہ جانے ایلی جوان ہوکرکیاگل کھلائے گا۔“برکتے نے کہا۔
”آخربیٹاکس کاہے۔“حاجاں بولی۔
”وہ کہتے نا۔“نتھوچلائی۔”ہونہاربرواکے چکنے چکنے پات۔ابھی تولڑکے نے ابتداہی کی ہے۔کیوں شہزادٹھیک کہتی ہوں نامیں۔“نتھونے اسے طعنہ دیا۔
”توجوکہتی ہے بی بی توٹھیک ہی کہتی ہوگی۔“شہزادبولی۔”تجھ سے بڑھ کرتجربہ کسے ہے ان باتوں کا۔“
یہ سن کرچوگان میں قہقہہ گونجا۔”تونہ اس سے نپٹ سکے گی۔“ماں حاجاں نے کہا۔
مائی برکتے کہنے لگی”نہ مائی اس سے کون نپٹے ایسی تیج کہ قینچی کی طرح چلتی ہے۔“
”پرماں“ایک نے مدہم آوازسے سرگوشی کی ”بری نہیں محبت سے ملتی ہے کھاترتواجوکرتی ہے۔بیچاری بڑی اچھی ہے۔بس صرف یہی اللہ مارااک شوق ہے۔“
ماں حاجاں قریب ترہوگئی“ہوگاشایدتم ٹھیک کہتی ہولیکن سچی بات تویہ ہے کہ محلے والے بھی توجینے نہیں دیتے۔“
”اے ہے“بی بی نے کہا”مجھے کیوں دیتے ہیں جینے۔“
”تواپنی بات چھوڑ“بی بی نتھو۔”اوروہ ایک دوسری کے قریب ترہوگئیں۔
ہے ہمت
محلے والیوں کی باتیں سن کرایلی کوغصہ آرہاتھا۔وہ شہزادکے خلاف بات کرنے سے بھی نہ چوکتی تھیں حالانکہ شہزادکے تعلقات محلے والیوں سے بے حداچھے تھے وہ انکی عزت کیاکرتی تھی اوران سب کی حد سے زیادہ خاطرومدارت کیاکرتی۔کسی نہ کسی بہانے وہ انہیں گھربلالیتی۔جھوٹ موٹ مشورع لینے کے لئے یاکوئی دواداروپوچھنے کے لئے یاکوئی اوربات نہ سوجھتی توکہتی ”ماں چل توذرامجھے بتاکہ میٹھی سویاں کیسے پکاتے ہیں۔ہائے مجھ سے توہربارخراب ہوجاتی ہیں اصل میں مجھے یہ نہیں معلوم کہ میٹھاکتناہوناچاہیے اورسوئیاں کتنی۔“گھرلے جاکروہ جانوسے کہتی”لے جانوذرالاتوایک پلیٹ ماں کے لئے۔“اورپھرماں سے مخاطب ہوکرکہتی ”دیکھ توکھاکے اسے تاکہ معلوم ہوکیاخرابی ہے۔نہ جانے کیانقص رہ جاتاہے۔“
حالانکہ شہزادپکانے میں بے حدماہرتھی۔اورپکانے کے معاملے میں محلے والیاں توبالکل جاہل تھیں۔جب میاں ہی کھانے کے شوقین نہ ہوں توبیویاں بھلاکیسے اچھاپکاسکتی ہیں۔لیکن اس کے باوجودشہزادنے کبھی اپنی چیزکی تعریف نہ کی تھی۔ایلی نے محسوس کیاکہ شہزادکی بڑھتی ہوئی بدنامی کاذمہ داروہ خودہے۔اس کے شہزادکے ہاں رہنے کی وجہ سے سب اس سے بدظن ہوچکے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزادکارنگ انوکھاتھا۔اس میں عجیب سابانکپن تھاایک شوخی تھی رنگینی تھی اس لئے وہ محلے میں آتے ہی محلے والیوں کی نگاہ پرچڑھ گئی تھی---لیکن اس کی اس خصوصیت نے بدظنی کی فضاپیداکی تھی۔بدنامی کی نہیں اوراب ایلی کی وجہ سے وہ بدنام ہوئی جارہی تھی۔
اس خیال سے ایلی نے محسوس کیاکہ وہ مجرم ہے۔اوراپنے جرم کی شدت کوکم کرنے کے لئے وہ چپ چاپ اوپرچوبارے کی طرف چل پڑا۔
”آگئے تم“شریف اس کی طرف دیکھ کربولا”ہم توکب سے انتظارکررہے تھے۔“
نیچے کھڑاعلی احمدکوکوئی نہیں پوچھتامحلے میں یہ جتنے جلوس چاہے نکالے جسے چاہے لے آئے جائزہویاناجائز۔“شریف نے آہ بھری”ہمیں توظالموں نے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔“
”جس میں جرات ہواسے کوئی نہیں پوچھتا۔“شہزادبولی اوراس نے ایک جرات مندانہ نگاہ ایلی پرڈالی۔”کیوں ایلی“وہ بولی ٹھیک ہے نا۔“
”مجھے کیامعلوم۔“ایلی نے جواب دیا۔
توپھرتمہاراحشربھی ایسے ہی ہوگاجیساان کاہواہے۔“شہزادنے شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”سچ کہتی ہوتم“شریف نے آہ بھری”دراصل وہی ڈرتے ہیں جن کی محبت سچی اورپاکیزہ ہو۔“
ہونہہ سچی اورپاکیزہ ”شہزادنے کہا۔”بزدلی کوسچائی کے پردے میں چھپایانہیں جاسکتا۔“
”اب یہ نئی کون ہے‘جیسے علی احمدنے اپنے گھرکباڑی کی دوکان کھولی ہوئی ہے۔نئی کہاں سے لائے گا۔وہ کشمیروالی نئی لایاتھابالکل بے کارپھولی ہوئی روٹی کی طرح۔دودن میں پچک کررہ گئی۔“
”میرے خیال میں“ایلی بولا”وہی راجوہے دولت پوروالی۔دولت پورمیں اسے پٹاخہ کہتے تھے۔“
”پٹاخہ“شہزادہنسی ۔”چلاہوانا۔“
”کون ہے وہ۔“شریف نے پوچھا۔
”نام ہی سے پتہ چل رہاہے۔پوچھنے کی ضرورت باقی ہے کیا۔“شہزادنے کہا۔
تمہاری نگاہ میں توکوئی جچتی ہی نہیں۔“شریف مسکراکربولا۔”سوائے اپنے“اس نے اپنی نگاہیں جونک کی طرح شہزادپرگاڑدیں۔
”جھوٹ ہے کیا“وہ قہقہہ مارکربولی۔”میری برابری کون کرسکتاہے۔اورپھراس محلے میں جہاں سب کاٹھ کباڑبھراہے۔کیوں ایلی کیایہ جھوٹ ہے۔“وہ ایلی کی طرف دیکھ کرشرارت سے مسکرائی۔
کھاناکھاکرایلی علی احمدسے ملنے کے بہانے وہاں سے چلاآیا۔نہ جانے کیوں شریف کی موجودگی میں وہاں بیٹھنامشکل ہوجاتاتھاحالانکہ شریف کی موجودگی میں شہزادکاالتفات نمایاں ہوجاتاتھاوہ ہربات پرکوئی نہ کوئی اشارہ کرتی۔کبھی ہاتھ بڑھادیتی جیسے کہہ رہی ہواگرہمت ہے توپکڑلو۔کبھی اپنابلوری پاؤں ننگاکرکے دکھاتی اورکبھی یوں بازوپھیلادیتی جیسے اسے آغوش میں لینے کے لئے بے تاب ہے۔
شایدانہی اشارات کی وجہ سے اس کے صبرکاپیمانہ چھلک جاتااوروہ وہاں سے اٹھ کرچلے جانے پرمجبورہوجاتا۔یاشایداس کی وجہ یہ ہوکہ وہ شریف کی موجودگی میں باربارمحسوس کرتاتھاکہ وہ مل کراسے دھوکادے رہے تھے اوراحساس جرم اس قدرشدیدہوجاتاتھاکہ اس کے لئے وہاں بیٹھنامشکل ہوجاتا۔
اجلے کی راجپوتنی
جب وہ گھرپہنچاتوعلی احمدقہقہہ پرقہقہہ لگارہے تھے”دیکھوناسیدہ“وہ کہہ رہے تھے”پہلے بھی آئی تھی راجوپرپہلے وہ شمیم کی مہمان تھی ناپرانی سہیلیاں ہیں یہ دونوں“
”ہونہہ“شمیم چلائی “جان نہ پہنچان خالہ جی سلام۔“
علی احمدنے شمیم کی بات گویاسنی ہی نہیں۔”اوراب اب توبہنیں بن گئی ہیں۔“
”اونہہ بہن“شمیم چلائی۔
”تواس کی باتیں نہ سن“علی احمدنے ہنس کرشمیم کی بات کاٹ دی”ایسے مذاق یہ راجوسے کیاہی کرتی ہے بے تکلفی جوہوئی۔میں نے سوچاکہ اگریہ دونوں بہنیں بنی ہوئی ہیں توانہیں اکٹھاہی کردوسومیں نے راجوسے نکاح پڑھوالیا۔پوچھ لوشمیم سے غلط بات نہیں کررہامیں“اورپیشتراس کے شمیم کوئی بات کرے وہ معاً ایلی کی طرف متوجہ ہوگئے۔”ہائیں ایلی تم یہاں۔“پھرخودہی بولے”اورٹھیک توہے تواب امتحان سے فارغ ہوچکاہوگا۔لیکن تم نے اپنی امی کوسلام نہیں کیا۔توتواچھی طرف واقف ہے راجوسے ۔ ان کی بڑی دوستی ہے ایک دوسرے سے جب یہ دولت پورمیں تھاتواکثرجایاکرتاتھاراجوکے ہاں“وہ ہنسنے لگے۔”راجوساجوآجوسبھی سے واقف ہے ایلی مکیمن کوبھی جانتاہے کیوں ایلی۔“وہ ہنسنے لگے۔”اورایلی توبہت خوش ہوگا۔مفت کابھائی مل گیاہے اسے۔تم نے شیروکونہیں دیکھاایلی آ۔مجھے شیروسے ملائیں۔لابھئی لاناذراشیروکو۔جاؤبھئی تم دونوں کھیلوچوگان میں لے جااسے ایلی سیرکرالاذرا۔“
ایلی کوچپ چاپ کھڑے دیکھ کروہ حمیدہ رشیدہ کوبلانے لگے۔”لو بھئی تم لے جاؤ اسے ایلی توشرماتاہے۔شرماناتوہوا۔کبھی چھوٹابچہ اٹھایابھی ہو۔“
اتنے میں محلے والیاں اکٹھی ہوگئیں۔”کیالایاہے اب کی باردکھاتو“ایک نے کہا۔
”اے ہے یہ تووہی پرانی راجوہے سمجھی پہلے کشمیرکاسیب لایاتھااب نہ جانے کہاں کالایاہوگا۔“
”سیب ہی توہے “علی احمدبولے۔”وہ کشمیرکاتھایہ کلوکاہے۔وہ دکھانے کاہوتاہے‘یہ کھانے کا‘ذراترشی ہوتی ہے اس میں ماں‘بلکہ ترشی کی وجہ سے اچھاہوتاہے یہ۔“
”میں نے کہایہ دلہن چھپی ہوئی کیوں بیٹھی ہے۔“دوسری بولی۔
”دلہنیں چھپی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں بی بی۔“
”کیاشرماتی ہے ہم سے “شہزادداخل ہوکربولی۔
”شرماتی توہے“وہ بولے”تمہارے مقابلے کی ہوتومیدان میں آئے۔“
وہ سب ہنسنے لگیں ”اب کربات”ایک چلائی“ہم سے ہی باتیں کرلیاکرتی ہے تو“شہزادہنسنے لگی۔”اس بیچاری کاکیاقصورہے یہ تولانے والے کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے۔“
”سناہے شہزادوہ تیراسوجھ بوجھ والاشریف آیاہواہے۔“
محلے والیوں نے پھرقہقہہ لگایا۔”باہرکیو ں نہیں نکلتامیدان میں۔“علی احمدنے قہقہہ لگاکرکہا”لیکن وہ بھی سچاہے گھرمیں دھن دولت کے انبارلگے ہوں توباہرکافائدہ۔“یہ کہہ کروہ اندرداخل ہوگئے اورراجوسے ہی ہی کرنے لگے۔“
”اے ہے بہن“نتھوبی بی داخل ہوتے ہوئے بولی”ابھی تک اپنے علی احمدکاچاؤنہیںاتراکیاوہ ہربارنئی لے آتاہے۔“
”اونہوںنئی۔“شمیم نے ہونٹ نکالے۔”وہی پرانی توہے۔“
”میں نے کہادیکھوں تواب کی بارکیاگل کھلایاہے اپنے علی احمدنے۔“نتھوبی بی یہ کہتے ہوئے علی احمدکے کمرے کی طرف بڑھی۔
”اندرکیسے جائے گی بی بی۔“شمیم بولی۔”اندرتودونوںمیں دھینگامشتی ہورہی ہے۔“
”ہاہاہاہا“علی احمدکی آوازآئی۔”ہم سے زورآزمائی کرے گی توراجپوتنی جوہوئی اجلے کی راجپوتنی ۔ہاہاہاہالیکن ہم بھی علی پورکے ہیں ہاں۔“
”تواندرجاکرکیاکرے گی بی بی نتھو۔“سیدہ بولی”تو بھی کیااجلے کی راجپوتنی ہے جو اندرجائے گی۔“
”میں کیوں ہونے لگی اجلے کی راجپوتنی۔“نتھوبی بی جوش میں بولی۔”پرمیں کیاعلی احمدسے ڈرتی ہوں جویہاں کھڑی رہوں گی۔“یہ کہہ کرنتھوبی بی شورمچاتی ہوئی اندرداخل ہوگئی۔
”اے ہے علی احمدیہ کیادھینگامشتی شروع کررکھی ہے تونے۔“
یہ صورت حالات دیکھ کرایلی چپکے سے باہرنکل آیا۔اندرعلی احمدقہقہے لگارہے تھے۔”ہی ہی ہی بی بی نتھوتم ہو۔کہو کیاحال چال ہے۔ہاہاہاہاہا۔“
بول کیاچاہتاہے
جب وہ چوگان میں پہنچاتورضالاٹھی ٹیکتاہواچھتی ڈیوڑھی سے نکلا”کیوں بابو“وہ بولا
”مفت کابھائی ہاتھ لگاہے۔سیدھے ہاتھ سے کھلادومٹھائی ورنہ۔“
”بکونہیں“ایلی چلایا۔”خواہ مخواہ میری بے عزتی کرتے ہو۔“
”ابھی توبے عزتی نہیں کی میں نے۔ابھی توعزت کررہاہوں بابو۔جب بے عزتی کرنے پرآؤں گاتورودوگے تم۔چلوسیدھے چلومیرے ساتھ۔ادھرکارخ کیاتویہ ہاکی سٹک چلاؤں گایارمیراچت پڑاہوگامیدان کے بیچ۔ارے بابوکے بچے۔لاکھ بارتجھے سمجھایاکہ چھوڑدے ہم سے چالاکی مگرتوسنتاہی نہیں لاتوں کے بھوت بھلاباتوں سے مانتاہے ابھی۔چل تجھے گھرلے کرجاؤں گا۔اماں نے مکی کی میٹھی روٹی پکائی ہوئی ہے۔دونوں کھائیں گے۔“
رضاکے گھرپہنچ کروہ دونوں ایک طرف اکیلے میں جابیٹھے۔
”دیکھ بھائی۔“رضانے بات شروع کی”پہلے تم اورارجمندکیپ اورکپ کوپھانسنے میں لگے رہے اورہم دیکھتے رہے۔یہ کھیل اپنے بس کانہیں۔تم تماشہ کرتے رہے اورہم دیکھتے رہے پھرتجھے امرتسروالی کاچکرپڑا۔اورتواس کے عشق میں گھلتارہا۔اورتونے آکرہم سے ساری بات کہہ دی۔وہ تو ٹھیک ہے ۔ہم سے کہ دوگے یارتوہم ٹوکیں گے کیا۔الٹاہماری مددتمہارے ساتھ ہوگی۔کہوتواٹھاکرلے آئیں اس امرتسروالی کو۔کیاہے دو سال کی سزاہوجائے گی ناجھیل لیں گے تمہیں تووہ سالی مل جائے گی۔تم مزے کروگے نا۔کیایادکروگے کہ ہاکی سٹک والایارملاتھا۔
”لیکن یہ جس معاملے میں اب پھنسے ہوتم یہ ہمیں پسندنہیں۔اول تووہ بچوں والی ہے دوسرے اس کامیاں تمہارا دوست ہے اور---پھرچلو یہ بھی مانے لیتے ہیں لیکن بشرطیکہ تم اپنے منہ سے کہ دواپنی زبان سے مانواورکہوبھئی مجبورہوں پھنس گیاہوں۔پھرہم مددکے لئے تیارہوں گے ایسے نہیں۔چالاکی سے کام نہیںچلے گاایلی۔ہمارے ساتھ جس نے بھی چالاکی کی سالہ منہ کے بل گرا۔
”یہ تم کیابک رہے ہو۔“ایلی نے منہ پکاکرکے کہا۔
”تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کون بک رہاہے۔“رضابولا”سارے محلے میں شورمچاہواہے ہرجگہ یہی بات ہورہی ہے۔“
”کون سی بات؟“ایلی نے پوچھا
”تم جوساراسارادن اورآدھی آدھی رات تک اس کے گھرمیں گھسے رہتے ہو۔تمہارے لیے وہاں چائے بنتی ہے۔کھانے پکتے ہیں مٹھائیاں خریدی جاتی ہیں۔ لوگ اندھے نہیں۔یہاں علی پورمیں بات چھپی نہیں ۔یہ محلے والیاں توتیورپہنچانتی ہیں۔“
”تمہیں مجھ پر یقین نہیں کیا۔”ایلی نے غصے میں کہا۔”اچھے دوست ہو تم۔مجھے دوست بھی سمجھتے ہومگریقین نہیں کرتے میری بات پر۔“
”ایمان سے کہتاہوں میرادل گواہی دے رہاہے کہ تم مجھ سے بات چھپارہے ہو۔اے نہ چھپامجھ سے نہ چھپا۔ظالم اس کانتیجہ اچھانہیں ہوگا۔تجھے یارنہ کہاہوتاتواب تک آگ لگادی ہوتی میں نے۔“
”رضا۔“ایلی آنکھوں میں آنسوچھلکاکربولا”میں نے تم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔تم سے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔“
رضاکے اندازکی درشتی یک قلم مفقودہوگئی۔”دیکھ ایلی۔“وہ بولا”میرا تیرادوست ہوں۔بول کیاچاہتاہے توچاہے جائزہوناجائزہو۔روپیہ چاہئے تومجھ سے لے چاہے چوری کرکے لاؤں لیکن تیرے سامنے ڈھیرکردوں گا۔کسی سے دشمنی ہے توبلاخوف کہ دے۔اسے ایک ایسی ہاکی سٹک نہ دلادوں تومیراذمہ۔کسی سے محبت ہوگئی ہے تجھے توبتا۔کیسے نہیں مانے گی وہ کس کی جان ہے جوہمارے یارکی بات ردکرے جینامشکل کردوں گا۔اورنہ مانے گی تو---اورطریقے بھی ہیں۔توکسی طرح خوش رہ اپناتوصرف یہی ایک مقصدہے کہ تجھے تکلیف نہ ہو۔“
رضاکی آنکھیں بھرآئیں۔اس کے چہرے پرحسرت جھلک رہی تھی۔”مجھے معلوم نہیں۔“وہ بولا“میں نے کبھی کسی دوست کے لیے اتنی محبت محسوس نہیں کی۔پتہ نہیں تم سے مجھے اس قدرلگاؤکیوںہے۔تمہاراخیال کیوں رہتاہے مجھے۔“وہ خاموش ہوگیا۔
ایلی کے دل میں ایک بھیڑلگ گئی۔رضاکے اظہارمحبت پراسے شدت سے احساس ہورہاتھاکہ وہ اس کے سامنے جھوٹ بول رہاہے۔اس کاجی چاہتاتھاکہ رضاکے گلے لگ کرروپڑے اوراسے ساری بات بتادے لیکن جب وہ بات کرنے کے لیے منہ کھولتاتوشہزادسامنے آکھڑی ہوتی۔مجھے بدنام نہ کرناایلی۔کھلونابناکرمجھ سے کھیلنانہیں۔اس وقت شہزادکی تمام تررنگینی اورشوخی غم وحسرت میں بدل جاتی اورایلی بات کہتے کہتے رک جاتا۔نہیں میں تمہیں بدنام نہیں کروں گا۔تم کھلونانہیں ہوشہزادتم تورانی ہوملکہ ہو۔تم سے بھلاکون کھیل سکتاہے۔لیکن اس کے باوجودایلی محسوس کررہاتھاکہ وہ مجرم ہے جواپنے عزیزدوست رضاکودھوکادے رہاہے۔
مہارانی یامہترانی
دیرتک وہ دونوں خاموشی سے مکی کی میٹھی روٹی کھاتے رہے پھردفعتاً ساتھ والے مکان سے شہزادکی حسین آوازیوں گونجی جیسے کوئی کوئل تان اڑارہی ہو۔اس آوازکوسن کرایلی چونک پڑااس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
”ہاں وہی تو ہے“رضاہنسنے لگا۔”اس کی آوازسن کرتمہاری کیاحالت ہوجاتی ہے۔“
”کیاحالت ہوجاتی ہے؟“ایلی نے پوچھا۔
”اب میں تمہیں کیابتاؤں۔“وہ بولا”سنوسنوفضول باتیں نہ کرو۔“
شہزادکاقہقہہ پھرسنائی دیا۔اس کے ساتھ بھدی سی آوازمیں کوئی ہنس رہاتھا۔
”اس محلے کے جوہڑمیںیہ اکیلی ہی راج ہنس ہے۔چلتی ہے توجیسے پانی کی لہر اٹھ رہی ہوبولتی ہے توجیسے کوئل کوک رہی ہو۔بات کرتی ہے تومنہ سے پھول جھڑتے ہیں۔مگرایلی ”رضابولا“میرادل کہتاہے یاتویہ مہارانی ہے یا---یامہترانی۔“
”کیامطلب ؟“ایلی نے پوچھا۔
”بس یاتوبہت اونچی چیزہے یانیچ ہے بے حدنیچ۔یاتوواقعی پرستش کے لائق ہے ۔اوریا---“
”ہردوسرے چوتھے روزیہ اس گھرمیں آتی ہے جہاں اس وقت ہنس رہی ہے۔رضانے سلسلہ کلام جاری رکھااورغفوریاظفرکے ساتھ وہ مذاق کرتی ہے وہ قہقہے لگاتی ہے اورپھرباآوازبلند ذرانہیں جھجکتی ڈرتی نہیں۔یاتوبڑے صاف دل والی ہے اوریابڑی چالاک عورت ہے ۔اللہ کرے رانی ہی ثابت ہوورنہ تمہاری خیرنہیں۔“
”ہونہہ“شہزادکی آوازسنائی دی۔”ان کاکیاہے وہ توکبوترکی طرح آنکھیں موندکرحقے کی نے منہ میں دباکربیٹھ رہتے ہیں۔وہ کہاں آتے جاتے ہیں۔ان کایہاں چھٹی پرآنانہ آنابرابرہے“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
”سن لیا“رضابولا“وہ گدھ کہاں اس لائق تھاکہ اسے مورنی مل جائے۔ہے واقعی مورنی۔لیکن تم کیا۔تم مجھ سے جھوٹ توبولتے ہی نہیں۔“
رضاکے گھرسے نکل کروہ چپ چاپ فرحت کی طرف چلاآیا۔اس کاجی چاہتاتھاکہ گھر جاکرچارپائی پرلیٹ جائے۔رضاکی بات اس کے دل میں کانٹے کی چبھ گئی تھی۔اورشہزادکی باتوں اورقہقہے نے ان شبہات کوہوادی تھی شہزادکے رویے اوررضاکی باتوں کی وجہ سے ایلی کے دل میں شکوک پیداہورہے تھے۔
ایلی کوغفورسے خداواسطے کی نفرت تھی۔اسے انکے سارے خاندان سے نفرت تھی۔غفورکے چاربھائی تھے۔ان کاتمام کنبہ محلے والوں سے الگ تھلگ رہاکرتاتھا۔ان کی روایات ہی مختلف تھیں۔وہ محلے کی آصفیوں سے زیادہ تعلقات نہیں رکھتے تھے چونکہ ان کے والدباہر سے آکروہاں مقیم ہوئے تھے البتہ ان کی والدہ محلے ہی کی لڑکی تھی جورشتے میں ایلی کی دادی کی ہمیشرہ تھی۔
غفورایلی سے عمرمیں چارسال ایک سال بڑاتھا۔غفورکودیکھ کرایلی محسوس کرتاجیسے وہ محض گوشت کالوتھڑاہو۔اس کی شخصیت میں جسم کاعنصربے حدغالب تھا۔نگاہوں سے محسوس تھاجیسے وہ روح کی روشنی سے محروم ہو۔جب وہ کھجاتاتواس کی آنکھوں میں گرسناجھلک واضح دکھائی دیتی تھی اوروہ اکثرنامناسب مقامات پرکھجایاکرتاتھا۔
اس کے علاوہ اس کی نگاہیں تندی سے بھری ہوتی تھیں۔بات کرتاتواس میں جارحیت کاعنصرجھلکتاایلی کی غفورسے نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایلی میں کمتری کااحساس تھااورغفورکارویہ جھوٹی عظمت اورزعم کاحامل تھاتمام بھائیوں میں صرف غفورکی شخصیت میںیہ عنصرتھاباقی بھائی الگ رہنے کی باوجودشوکت نفس سے بھرے ہوئے نہیں تھے۔وہ سب خودغفورسے نالاں تھے۔اوربوڑھاباپ تواس کی وجہ سے سراسرزچ تھا۔
شہزادکاغفورسے ملناایلی کو قطعی طورپرناپسندتھالیکن شریف کی سگی ہمشیرہ غفورکے بھائی الطاف سے بیاہی ہوئی تھی لہٰذاشہزادکووہاں جانے سے روکناممکن نہ تھا۔
شہزادکودوسروں سے بے تکلفانہ بات کرتے ہوئے سن کرایلی محسوس کرتاتھاجیسے اس کی باتوں میں وہی دودھاری مفہوم ہوجس کااظہاروہ ایلی سے کیاکرتی تھی اوراس کے اشارات اورکنایات اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوں وہ محسوس کرتاتھاجیسے شہزادہرکسی سے وعدے کرتی ہے اوراپنے خصوصی اندازمیں اپنی محبت کایقین دلاتی ہے اس خیال پروہ ایک عجیب وحشت میں مبتلاہوجاتا۔اس کااپنااحساس کمتری شکوک کوہوادیتااورآتش رقابت میں جلتا۔
صحرانوردی
شہزادکی باتیں سننے کے بعداس کے لیے رضاکے پاس بیٹھے رہناناممکن ہوگیاتھااوروہ اٹھ کربھاگا۔اسے قطعی طورپرمعلوم نہ تھاکہ اسے کہاں جاناہے۔جانے کے لیے کوئی جگہ بھی تونہ تھی۔علی احمدکے گھرمیں ٹین کاسپاہی ربڑکی گڑیاسے کھیلنے میں مصروف تھاباہرشمیم آنسوبہارہی تھی۔ہاجرہ چپکے سے کونے میں کھڑی تھی جیسے اس گھرکے تمام افرادکی زرخریدغلام ہو۔سیدہ چپ چاپ جائے نمازپربیٹھی تھی۔وہ یاتونمازپڑھتی یاگھٹنوں میں سردے کرآلوچھیلنے میں مصروف رہتی۔بڑے سے بڑاہنگامہ بھی اس پرکوئی اثرنہ رکھتاتھاجیسے آندھی میں کوئی چھوٹاساپوداجھک کرزمین پرلیٹ جاتاہے چمٹ جاتاہے حتیٰ کہ آندھی کازورکم ہوجاتااوروہ پھرسیدھاکھڑاہوجاتاہے۔سیدہ کودیکھ کرایلی محسوس کیاکرتاتھاجیسے کسی بہت زوردارآندھی نے اسے ہمیشہ کے لیے ہموارکردیاہواوراب یہ چھوٹے چھوٹے ہنگامے اس کے لیے بے معنی ہوچکے ہوں۔
علی احمدکے گھرمیں وہی ایک چھوٹاساکمرہ تھاجوایلی کے لیے جاذب توجہ تھا۔وہ کمراجس میں دادی اماں رہاکرتی تھی۔دادی اماں کے بعدوہ کمرہ جوں کاتوں پڑاتھا۔اس میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔تخت ویسے ہی کونے میں بچھاہواتھاجہاں وہ نمازپڑھاکرتی تھی اوراس کے پاس ہی وہ کھوکھاتھاجس میں وہ ایلی کاگیندیادوسری چیزیں سنبھال کررکھاکرتی تھی۔
چارپائیاں اسی طرح پائے ستون پرلگی ہوئی تھیں جن کے نیچے مٹی کے برتنوں کی قطاریں تھیں اورٹوٹے پھوٹے صندوق رکھے ہوئے تھے۔
ان چیزوں کودیکھ کرایلی کادل بھرآتاتھااس کمرے میں جاناایلی کے لیے تکلیف دہ تھاپھرفرحت کاگھرتھا۔وہاں فرحت کے علاوہ اجمل کے والدفیروزمقیم تھے۔نیچے فرحت اورہاجرہ رہتی تھیں اورچوبارے میں فیروزرہاکرتے تھے۔فیروزکووقت پرنہانے وقت چائے پینے کھاناکھانے اوروقت پرسیرکرنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔ان مقررہ کاموں کے علاوہ یاتووہ سارادن چارپائی پرپڑے رہتے اوریارمل اورنجوم کی جنتریوں کامطالعہ کیاکرتے ۔نیچے فرحت بیٹھی کپڑے دھونے یاسینے یاکھاناپکانامیں مصروف رہاکرتی تھی۔ایلی کے لیے وہاں بیٹھنابے مشکل تھا۔اول تووہ کمرے بے حداداس تھے۔دوسرے فرحت جوش محبت کی وجہ سے ہربات میں ایلی کی بھلائی اوربہتری کاتذکرہ کرنے کی عادی تھی۔اورایلی کی بھلائی اوربہتری کے متعلق فرحت کے خیالات سے ایلی کوقطعی طورپراتفاق نہ تھا۔فرحت ایلی کی لاتعلقی کومحسوس کرکے شہزادکاقصہ چھیڑدیتی تھی اورطنزمیں فرحت کاجواب نہ تھا۔
محلے میں وہ کسی کے ہاں جانے کی عادی نہ تھی۔اسے دوسرے کے گھرمیں جاتے ہوئے وحشت ہوتی تھی محلے والیاں اگرچہ بڑی محبت اورہمدردی سے اسے ملاکرتی تھیں۔لیکن ان کی ہمدردی میں ترس کاعنصرشامل ہوتاتھا۔اس کے علاوہ فطری طورپروہ لوگوں کی نگاہوں سے گریزکرتاتھا۔چاہے ان میں ہمدردی ہویاتحسین اس کے لیے باہرنکلنابھی مشکل تھاچونکہ آصفی محلے کے ڈیوڑھیوں میں عورتوں کاجمگھٹاضرورہوتاتھا۔چوگان میں بیٹھ کرعورتیں اپنے کام کاج کیاکرتی تھیں جیسے وہ گھرکاصحن ہو۔
عورتیں بالے کے مکان کی ڈیوڑھی میں بیٹھی رہتی تھیں یاتووہ اپنے اپنے کام میں منہمک ہوتیں اوریاخالی بیٹھ کرباتوں میں مصروف رہتیں۔محلے میں آزادبندبنناسب سے بڑامشغلہ تھا۔اورآزاربندبننے میں محلے کی عورتوں کی اس قدرمہارت ہوچکی تھی ان کی انگلیوں پرتاگے کھیلتے تھے۔نگاہیں آوارہ رہتی تھیںاورزبانیں یوں چلتی تھیں جسے قینچیاں ہوں۔اندرکسی اندھیرے کمرے میں بالاتخت پراپنی چیزیں رکھے بیٹھاآپ ہی آپ باتیں کرتارہتا۔
اس روزایلی نے سوچاچلوبالاکے ہاں جابیٹھوکچھ وقت گزرجائے گا۔جب وہ چوگان میں پہنچاتوشہزادکے چوبارے کی کھڑکی میں کسی نے اشارے سے اسے بلایا۔نہ جانے کون ہے‘ایلی نے سوچا۔شایدجانوہو۔پھراس نے شریف کی آوازپہنچان لی کھڑکی میں شریف کھڑااسے بلارہاتھا۔نہ جانے کیابات ہے وہ سوچنے لگا۔بہرصورت شریف سے انکارکرنے کی اس میں ہمت نہ تھی ۔
چوبارے میں شریف اکیلابیٹھاتھا۔”وہ تومحض اتفاق سے میری نگاہ پڑگئی۔“شریف نے کہا”ورنہ تم توشایدآتے ہی نہ۔کیابات ہے ایلی۔“شریف نے ملتجی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا“تم ہم سے اس قدرگریزکیوں کرتے ہو۔میں نے تمہیں اس لیے بلایاہے کہ تنہائی میں شایدتم مجھے اپنی نیم کاقصہ سناسکوشہزادکے سامنے توہچکچاتے ہونا۔بتاؤکبھی ملی بھی ہے تم سے۔“
ایلی مسکرادیا۔
”ڈرونہیں ۔میں کسی سے نہیں کہوں گا“وہ بولا”گھبراؤنہیں۔“
ایلی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ کیاکہے”ملے نہ ملے“وہ بولا’‘مطلب توجذبے سے ہے نا۔“
”بالکل بالکل“شریف کاچہرہ مسرت سے جگمگااٹھااگرجذبے میں خلوص ہے توسمجھ لوبیڑاپارہے سچ کہتے ہوسچ کہتے ہو“شریف نے ٹھنڈی آہ بھری ”چاہے تباہ ہوجاؤ۔لیکن جذبہ میں خلوص اورشدت قائم رہے۔ایسی تباہی پرسینکڑوں آبادیاں قربان ہیں۔اچھااس کے عزیزوں کوعلم ہے کیا؟“
”معلوم نہیں۔“ایلی نے کہا”شایدعلم ہو۔لیکن کیسے معلوم ہوسکتاہے انہیں۔میں نے توکبھی کسی سے بات نہیں کی اوراباکوتوابھی اپنے چاؤسے فرصت نہیں۔“
شریف ہنسنے لگا۔
”اسے اپنے چاؤسے فرصت کیسے ملے“شہزادداخل ہوکربولی”سارامحلہ چھان مارامیں نے لیکن تمہاراپتہ نہ چلا۔پہلے بالے کے ہاں گئی پھرارجمندکے گھرگئی ادھرغفورکی طرف جاپہنچی وہاں نہ ملاتومیں نے کہاشایداپنے اباکے پاس بیٹھاہو۔آخراپنی نئی اماں کوبھی توسلام کرناتھا۔“
”دیکھ لے ہم نے بیٹھے بیٹھے تلاش کرلیا“شریف نے کہا”کچے دھاگے سے بندھاآیاہے۔چاہے پوچھ لے اس سے خودنہیں آیایہ۔“
شہزادنے آہ بھری”ہمیں یہ کچادھاگانصیب نہ ہوا۔ہم نے اپنی زندگی ویسے ہی کھودی۔ہمیں اللہ نے عشق نصیب ہی نہ کیا۔اپنے اپنے نصیب ہیں جس کے ساتھ ہماری سنجوگ ملے وہ پہلے ہی کسی اورکے ہوچکے تھے----“
”اچھا---“شریف بولااس کے اندازمیں احتجاج تھا۔
”غلط کہہ رہی ہوں کیا“شہزادچمک کربولی۔”میاں اپنی دھن مین بیٹھے رہتے ہیں ایلی اپنی دھن میں آوارہ رہتاہے۔ایک میں ہوں جوبغیرکسی دھن کے کوے کی طرح یہاں سے اڑایاوہاں جابیٹھی ۔“
”اب پنچھیوں کوبھی کوے---بننے کاشوق چرایا“ایلی بولا۔
”پنچھی ۔“شہزادنے غصے سے ایلی کی طرف دیکھا”کبھی تھے ہی پنچھی۔“
”کیاکہہ رےہ ہوتم۔تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں“شریف بولا۔
”نہ ہی آئیں توبہترہے۔“شہزادہنسنے لگی۔”محسوسات کی دنیامیں رہنے والوں کوسمجھنے کی کیاضرورت۔“
”اچھابھئی تم جوکہتی ہوتوٹھیک ہوگا۔“شریف آہ بھرکربولا۔اورپھرخاموش ہوگیا۔
کروٹیں اورقہقہے
رات کے وقت جب ایلی چارپائی پرلیٹاتواس کے دل میں متضادقسم کے احساسات تھے۔شہزاداورشریف کے پاس بیٹھے ہوئے اسے شریف پرترس آتاتھا۔اس وقت شریف کی حیثیت ہیچ ہوکررہ جاتی تھی۔اورشہزادکی باتیں اوراس کے اشارات ایلی کے دل میں پختہ یقین پیداکردیتے تھے کہ وہ اس سے کھیل نہیں رہی بلکہ اس کی لگن میں بری طرح سے سرشارہے۔لیکن جونہی وہ اکیلے میں لیٹتاتوشہزادکی باتیں دھندلی پڑتی جاتیں اورارجمنداوررضاکی آوازیں بلندہوتیں۔میں بتاؤں ایلی یاتووہ مہارانی ہے اوریامہترانی۔مہترانی مہترانی۔دورکوئی چلاتاپھرغفورکی بھدی آوازابھرتی اورشہزادچیخ کر کہتی ان کاکیاہے ان کایہاں چھٹی پرآنایانہ آنابرابرہے۔کیافرق پڑتاہے۔کھلاڑی!محلے کی مسجدکے گنبدسے کوئی الوچیختاکھلاڑی دورکوئی چمگادڑاس کامنہ چڑاتی۔
پھرایک رنگین اورشوخ کھلاڑی اس کے روبروآکرکھڑی ہوجاتی اوروہ شریف کواشارے کرتی۔اپنی طرف بلاتی۔اوراس کاجسم ابھرتاسمٹتاجیسے شدیدخواہش اسے بلوارہی ہو۔پھراس کے کپڑے دھجیاں بن کراڑجاتے اوروہ برہنہ رہ جاتی۔اس وقت ایلی محسوس کرتاجیسے وہ ڈائن ہو۔اس خیال پراس پردیوانگی طاری ہوجاتی۔اس کے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک کرب اٹھتااورجسم کے روئیں روئیں کویوں دھنکتاجیسے روئی کاگالاہو۔وہ دیوانہ وارچارپائی پرکروٹیں بدلتا۔
ساری رات وہ چارپائی پرتڑپتارہتاحتیٰ کہ صبح کاذب کاوقت ہوجاتااورپھرتھک کراس کی آنکھ لگ جاتی۔پھربھی سونے کونیندسے تعلق نہ ہوتا۔جیسے کوئی مریض کسی خوف ناک تکلیف کے تحت کچھ عرصے کے لیے تھک ہارکربے جان ہوکرپڑجاتاہے۔
اسی لیے صبح جب وہ جاگتاتووہ تازگی محسوس نہ ہوتی۔جونیندکے بعدانسان محسوس کرتاہے۔بندبنددردکی اینٹھن کی وجہ سے اعصاب دکھتے۔اورچہرے پرپژمردگی چھائی ہوتی۔ابھی وہ رات کی واردات کی تعلق سوچ رہاہوتاکہ سیڑھیوں میں کسی کے پاؤں کے رقص کی آوازگونجتی اورچھن سے شہزاداس کے روبروآکھڑی ہوتی۔
”چل اٹھ وہ چائے کے لیے کب سے تیراانتظارکررہے ہیں۔ابھی لاٹ صاحب جاگے بھی نہیں۔کیازندگی ہے جیسے کوئی نواب زادہ ہو۔“وہ ہنستی۔
شہزادکی باتیں سن کراس کی تمام ترتھکن فروہوجاتی۔اس کے ہربات محبت کاپیغام ہوتی اوریہ پیغامات ایسی شوخی اوررنگینی سے ایلی کی تک پہنچائے جاتے کہ اس پرنشے کی سی کیفیت طاری ہوجاتی اوررات کے شکوک اوربے خوابی گویااسے یادہی نہ رہتے۔اگرکسی وقت اسے رات کے کرب کاخیال آتابھی توہنس دیتا۔میں بھی کیساپاگل ہوں وہ سوچتاجوخوامخواہ کے شکوک پال لیتاہوں۔
لیکن اس کے باوجودپھرجب رات پڑتی تودن کے وہ لطیف اوررنگین پیغامات اس کے ذہن سے مٹ جاتے اوراس کی آنکھوں کے سامنے وہی بھیانک تصاویرمتحرک ہوجاتیں اوروہ شدت کرب سے تڑپتااورکروٹیں لیتا۔تڑپتااورکروٹیں لیتاحتیٰ کہ صبح کاذب کے وقت تھک کربے ہوش ہوجاتا۔
اس طرح اس کی زندگی دوزخی حیثیت اختیارکرگئی اس کے ساتھ ہی شہزادکی شخصیت اس کے نزدیک رادھااورراہودونوں کی خصوصیات سے مزین ہوگئی ۔وہ بیک وقت اسے پاکیزہ ترین معصوم محبوبہ اورچالبازکھلاڑی دکھائی دیتی تھی۔ایک ساعت میں ایلی اسے خلوس بھرے سجدے کرتاتھا۔دوسری ساعت میں ناگن سمجھ کراس سے دوربھاگنے کی کوشش کرتا۔
یہ کیفیت ایک دیوانگی کی حیثیت اختیارکرکئی حتیٰ کہ اس کے لیے جاننامشکل ہوگیاکہ آیاوہ اس حسین اورپاکیزہ دیوی کی وجہ سے وہاں سیس نوانے پرمجبورتھایااس دلکش ناگن سے ڈسے جانے کے شوق نے اسے وہاں رہنے پرمجبورکررکھاتھا۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس کرب کی شدیدلذت جووہ رات کے وقت محسوس کیاکرتاتھااسے شہزادسے محبت کرنے پرمجبورکررہی ہواورایذاپرستی کاجنون اس کے سرپرسوارہو۔
بہرحال یہ توایک مسلم امرہے کہ اگرشہزادصرف حسین وجمیل عورت ہوتی توشایدایلی کے دل میں اس کے لیے اس قدرعظیم جذبہ پیدانہ ہوتااورہوتابھی تواسے اس قدردوام حاصل نہ ہوتا۔
جرگہ
کچھ دن کے بعدایلی کانتیجہ نکل آیاوہ ایف ۔اے میں پاس ہوگیا۔علی احمدنے اس تھرڈائیرمیں داخل کرانے کے لیے لاہوربھیجنے کافیصلہ کردیا۔ساتھ ہی انہوں نے ایلی کوبہت لمباچوڑالکچردیا۔
ایلی ان کی باتیں بڑے غورسے سنتارہاجب وہ سب داؤاورگربتاچکے توایلی نے کہا”دیکھئے اباجان آپ کے فرمان بالکل درست ہیں لیکن آپ مجھے اسلامیہ کالج میں داخل نہ کرائیں چونکہ وہاں کاماحول ایساہے کہ وہاں میں اطمینان سے نہیں رہ سکتا۔اگرآپ واقعی چاہتے ہیں کہ ان بے ضابطگیوں کااعادہ نہ ہوجوپہلے سرزدہوئی ہیں تومہربانی سے مجھے گورنمنٹ یامشن کالج میں داخل کرادیجئے۔“
”ہاں ہاں“وہ بولے”ہمیں اس میں کیااعتراض ہوسکتاہے۔ہمارامقصدتوصرف یہ ہے کہ تمہاری تعلیم مکمل ہوجائے۔“
اس کے بعدانہوں نے مختلف لڑکوں کوادھرادھربھیجاتاکہ وہ تینوں کالجوں کی پراسپکٹس لے آئیں۔پراسپکٹس مہیاکرنے کے بعدوہ اپنے بڑے بڑے رجسٹرلے کرچٹائی پربیٹھ گئے اورسارادن مختلف کالجوں کی فیس اوردیگراخراجات جوڑتے رہے انہوں نے رقمیں باربارلکھیں باربارانہیں جمع کیاایک میزان کودوسرے میزانوں سے ملایا۔اورکئی گھنٹوں کے بعداطمینان سے سراٹھاکربولے”ٹھیک توہے تم کل ہی لاہورروانہ ہوجاؤاورجاکراسلامیہ کالج میں داخل ہوجاؤ۔“
”لیکن آپ نے توکہاتھا“ایلی بولا”کہ آپ مجھے کسی اورکالج میں داخل کریں گے۔“
”یہ کیسے ہوسکتاہے۔یہ کیسے ممکن ہے۔“وہ ننگے پیٹ کوکھجاتے ہوئے بولے”سیدہ اورسیدہ۔ذراادھرآنا۔آناذراایک منٹ کے لیے“اورجب سیدہ آئی توکہنے لگے”بھلابتاؤتوکیایہ ممکن ہوسکتاہے کہ ہم ایلی کومشن کالج میں داخل کرائیں۔جب اپنااسلامی کالج موجودہوتوعیسائیوں کے کالج میں کیسے داخل کرائیں کیوں سیدہ ایمان سے کہنا۔“
”ہے“سیدہ ہاتھ ملتے ہوئے بولی”اس عیسائی کالج میں جہاں اپنے محسن کالڑکاپرویزایساگیاکہ پھرلو ٹ کرنہ آیا۔بس عیسائی ہوگیااورنتیجہ کیاہواماں نے اسی غم میں جان دے دی اورباپ کاجوحال ہورہاہے وہ کس سے چھپاہے۔“
”دیکھوسیدہ“وہ بڑی سنجیدگی سے بولے”مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاچاہے گورنمنٹ کے کالج میں داخل ہوجائے یاعیسائیوں کے کالج میں دس ایک روپے کافرق پڑجائے توکیاہوا۔مطلب تویہ ہے کہ تعلیم اچھی ہوجائے لڑکے کی۔بس صرف یہ خیال آتاہے کہ اگراپنااسلامی کالج موجودہے توپھرکیاہمیں ایلی کوعیسائیوں کے کالج میں داخل کراناچاہیے یانہیں۔اس کافیصلہ تم پررہا۔جوتم کہووہی کروں گامیں ذراشمیم کوبلالوں نااس کی مرضی بھی پوچھ لیں۔اورہاں ہاجرہ کہاں ہے اس کاموجودہونابھی ضروری ہے۔کیوںسیدہ۔“
سیدہ شمیم کوبلانے گئی تووہ اٹھ کرجنگلے میں جاکھڑے ہوئے اورچلاچلاکرمحلے والیوں کوبلانے لگے۔”میں نے کہامائی برکتے ذراآناتوایک منٹ کے لیے اے بی بی نتھوتوکیاکررہی ہے۔ہروقت آزاربندہی بنتی رہتی ہے کبھی اللہ اوررسول کاکام بھی کرلیاکر۔آذرایہاں تیرامشورہ لیناہے ۔بہت ضروری بات ہے۔“
علی احمدنے شورمچاکرمحلے والیوں کواکٹھاکرلیااورپھراس جرگے کے سامنے ایلی کے داخلے کامقدمہ نہایت خوب صورتی سے پیش کردیا۔محلے والیاں یک زبان ہوکرعلی احمدکی رائے پرعش عش کررہی تھیں۔اوروہ باربارچلارہے تھے“دیکھ ماں برکتے میراکیاہے مجھے تولڑکے کوداخل ہی کرناہے نایہاں نہ کیاوہاں کردیا۔کیافرق پڑتاہے اول تواخراجات میں کمی زیادتی ہوتی نہیں اوراگرہوبھی توبی بی نتھوتوکیاہے اپنے بیٹے سے بڑھ کرکون ہوتاہے۔انہیں کے لیے محت مزدوری کرتے ہیں ہم اورپھرجہاں سووہاں سواسو۔کیافرق پڑتاہے۔اب سوچ لوتم ایک توعیسائیوں کاکالج ہے جہاں عیسیٰ مسیح کی بائبل پڑھتے ہیں اوردوسرااپنااسلامی کالج جہاں اللہ اوررسول کے احکامات اوراسلام کے ارکان کی تعلیم دیتے ہیں۔اب تم ہی فیصلہ کرلوہاں۔“
ججوں کے فیصلے کے بعدعلی احمدنے ایک بارپھررجسٹرمیں اندراج شدہ رقوم کے میزان دیکھے۔ایک بارپھررقمیں جمع کیں اورپھریوں فاتحانہ اندازسے مسکرانے لگے جیسے کوئی سوداگربہت بڑے منافع کاسودانپٹاکرگردوپیش پرنگاہ ڈال رہاہو۔
اگلے روزسیڑھیو ں میں دھماچوکڑی کی آوازکے بغیرچھن چھنانن کیے بغیرشہزادچپکے سے داخل ہوئی۔”توجارہاہے“وہ بولی”سناہے کالج میں داخل ہونے کے لیے جارہاہے۔“
”ہاں“ایلی نے کہا۔”تمہارے لیے کیافرق پڑتاہے۔“
”پڑتاہے۔“وہ بولی”صرف ساٹھ میل کافرق ہے۔چارگھنٹے کافرق سمجھ لو۔“
”اچھا۔“وہ ہنسا۔”میں توسمجھاتھاکہ----“
”یہ سمجھ کی بات نہیں ہاں“وہ بولی”یہ احساس کی بات ہے۔چلووہ چائے پربلارہے ہیں۔“
ایلی بگڑگیا”میں نہیں جاتا۔وہ بلانے والے کون ہیں۔“
”بلانے والے کاخیال نہ کرو۔بلاوی کاخیال کرو۔میری طرف دیکھو۔“وہ بولی۔
”نہ میں نہیں دیکھتا۔“وہ منہ پھیرکربولا۔
”دیکھے بغیررہ بھی سکوگے۔“وہ ہنسی۔
فرحت چپکے سے داخل ہوکرجھٹ سے بولی”کون کسے دیکھے بغیرنہیں رہ سکے گا۔“
”میں دیکھے بغیرنہیں رہ سکتی۔“شہزادہنستے ہوئے کہنے لگی۔
”کسے دیکھے بغیر“اس نے پوچھا۔
”تمہیں اورکسے“شہزادہنسے چلی گئی۔
”مجھے؟“
اورکیاایلی کودیکھے بغیرنہیں رہ سکتی۔اس ایلی کے۔ذراپنے بھائی کی صورت تودیکھ نہ جانے بھائیوں کے متعلق بہنیں غلط فہمیاں کیوں پال رکھتی ہیں۔“
”چلوبھی نااب کہ مجھے فرحت سے پٹواکررہو گے“وہ ایلی سے مخاطب ہوکربولی”چلوبھی نا“اورایلی چپکے سے اٹھ کراس کے ساتھ ہولیا۔
ایلی کاخیال تھاکہ شریف کے رخصت ہوجانے کے بعدوہ لاہورجائے گاتاکہ ایک روزشہزادسے اکیلے میں مل سکے مگرشریف نے چپکے سے اپنی چھٹی بڑھالی تھی اس لیے کہ یہ آرزوپوری نہ ہوسکی۔ادھرعلی احمدتقاضاکررہے تھے کہ جلدجائے لہٰذااسے اپنے مرضی کے خلاف لاہورجاناہی پڑا۔جاتے وقت اس نے ان بہے آنسوؤں سے شہزادکی طرف دیکھااورہونٹ ہلائے بغیراشاروں کی مدد سے شہزادسے اظہاردرددل کیااوررخصت ہوگیا۔
٭٭٭
تیاگ
حسن منزل
گاڑی علی پورکے سٹیشن سے روانہ ہوئی توایلی نے شدت سے محسوس کیاکہ وہ جارہاہے۔شہزادسے دورجارہاہے۔اس کے گورے چٹے ہاتھوں سے دور۔اس کے لٹکتے ہوئے بازوؤں سے دور۔ناؤسی ڈولتی آنکھوں اورماتھے کے تلک سے دور۔پھراسے ان رنگین اورشوخ عہدوپیمان کاخیال آیاجوانہوں نے شریف کے روبرولطیف کنایوں اوررنگین اشارات کی مددسے ایک دوسرے سے کئے تھے۔اس کے دل میں اضطراب کھولنے لگا۔
کیامیں ان رنگینیوںسے محروم ہوجاؤں گا؟
کھڑکی سے باہرشہزادمسکرارہی تھی---“کیافرق پڑتاہے۔“وہ ہنس رہی تھی۔”چارگھنٹے کافرق“وہ قہقہہ مارکرہنسنے لگی۔
ایلی کے چہرے پرمسرت کی لہردوڑگئی۔
”میری ہے توپھرکیاغم!“اس نے سوچا۔پھراسے شہزادکی وہ بات یادآگئی جب ایلی نے اکیلے میں شہزادسے کہاتھا۔
”شہزاداگرمیں وہاں سے نہ آسکاتوپھرمیں تمہیں کیسے دیکھوں گا۔اتنی دیردیکھے بناکیسے رہوں گا۔“
یہ سن کروہ ہنس پڑی تھی۔
”اتنی دیرنہ رہنادیکھے بنااورکیا۔“
اوراس نے جواب میں کہاتھا:”اگررہناپڑے تو؟“
تووہ بے پروائی سے بولی تھی:”توکیاہوا۔تم نہ آسکوتومیں آجاؤں گی۔“
”تم آؤگی لاہور۔“ایلی نے حیرت سی شہزادکی طرف دیکھاتھا۔
”کیوں۔“شہزادہنس کربولی تھی۔”اس میں کیامشکل ہے۔ایک گاڑی سے آؤں گی۔اوردوسری سے لوٹ آؤں گی۔تم دیکھ لیناجی بھرکے۔“
کتنی جرات تھی اس میں۔
ریلوے سٹیشن سے وہ سیدھاکالج پہنچااورعلی احمدکی ہدایات کے مطابق دفترمیں داخلہ اورفیس اداکرنے کے بعدحسن منزل کی طرف چل پڑاتھا۔جہاں اسے رہنے کی جگہ ملی تھی۔
اس نے کوشش سے حسن منزل میں جگہ لی تھی کیونکہ ریوازہوسٹل میں رہناپسندنہ تھا۔غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ ریوازہوسٹل سے گزشتہ کئی ایک تلخ یادیں وابستہ تھیںاوروہاں اب بھی گاؤں کے چودھری بھرے پڑے تھے۔وہی چودھری جن کے ساتھ گاؤں کے کمیں نوکرہوتے۔حقہ اورتمباکوکی تھیلیاں ہوتیں اورجوشلوارکی جگہ چادریں باندھے یوں بورڈنگ میں گھومتے پھرتے جیسے ریوازہوسٹل ان کے گاؤں کاکھیت ہووہ چلاچلاکربات کرتے۔بات بات پرکھنکارتے۔بورڈنگ کے نوکروں کوگالیاں دیتے۔دھمکاتے اورہرنئے لڑکے کوگھورتے۔
اسلامیہ کالج کے اب تین بورڈنگ تھے۔ریوازہوسٹل اوررحیم بلڈنگ توکالج کی عمارت کے پہلومیں واقع تھے اورحسن منزل کافی فاصلہ پرتھی۔کالج والے حسن منزل کے قریب کوپرروڈپرایک نیابورڈنگ بنوارہے تھے لیکن یہ نیاکریسنٹ ہوسٹل ابھی زیرتعمیرتھا
 

قیصرانی

لائبریرین
تانگے میں بیٹھے ہوئے ایلی غورسے لاہورکے ان علاقوں کودیکھتارہا۔جنوب کی طرف ایک وسیع میدان تھاجس میں جگہ جگہ پانی کھڑاتھا۔اس وسیع میدان میں دوایک مکانات زیرتعمیرتھے۔بیڈن روڈپرچندٹوٹے پھوٹے ویران سے مکانات تھے۔میکلوڈروڈویران سڑک تھی جس کے دونوں طرف کوئی عمارت نہ تھی۔
میکلوڈروڈ‘کوپرروڈاوربیڈن روڈکے وسیع ویرانے کے عین درمیان میں حسن منزل واقع تھی۔اس وسیع اورویران علاقے میں وہ واحددومنزلہ بلڈنگ تھی۔میکلوڈروڈپرآبادی کاکوئی نشان نہ تھا۔صرف ایک سڑک جسکے غربی حصے میں یہاں وہاں اکادکاعمارت کھڑی تھی۔کوپرروڈاوربیڈن روڈکاتمامترعلاقہ ویران تھاجہاں رات کے وقت گزرناآسان نہ تھاکیونکہ اس علاقے میںچوری اورڈکیتی کی واردات عام تھیں۔میکلوڈروڈپرصرف ایک سینماہال تھاجس کانام ایمپرس سینماتھااورجہاں زیادہ ترٹامی فلم دیکھتے تھے۔فلم کے دوران میں وہ ایک دوسرے کوگالیاں بکتے ۔مونگ پھلی کھاتے اورمتحرک مگرخاموش تصاویرمیں ہیروئن کی ٹانگیں دیکھ کرچمگادڑوں کی طرح چیخیں مارتے تھے۔
حسن منزل ایک بڑی دومنزلہ عمارت تھی جس کی نچلی منزل میں ایک ہوٹل تھااوراوپرکی منزل کالج نے کرایہ پرلے رکھی تھی۔اس منزل کے پچھواڑے میں ایک پراناتکیہ اوراکھاڑہ تھا۔منزل کے عین مقابل میں ایک پرانی کوٹھی جس میںایک پارسی بیچتاتھا۔اس کے گاہک زیادہ ترٹامی تھے جوڈھائی آنے میں ڈرافٹ بیئرکاگلاس خریدتے تھے۔اورایک گلاس سے دوبوتل کانشہ حاصل کرنے کے لئے شورمچاتے دنگاکرتے اورسیٹیاں بجاتے تھے۔
حسن منزل کی اوپرکی منزل کالج والوں نے اس لئے کرایہ پرلے رکھی تھی تاکہ بورڈروں کی بڑھتی ہوئی تعدادکوجگہ دی جاسکے۔غالباً کالج کے ناظموں کوبورڈروں میں صرف اس حدتک دلچسپی تھی کہ ان کی وجہ سے کالج کی آمدنی میں اضافہ ہورہاتھاورنہ حسن منزل کوکالج کے نوجوانوں کی رہائش کے لئے موزوں نہ رہاتھاکیونکہ اس کے گردبہت سے مکانات تعمیرہوچکے تھے۔ریوازہوسٹل کے مقابل کالج کے مشرقی سرے پرجوعمارت بورڈنگ کے طورپرخریدی گئی تھی اس کی کھڑکیوں سے توگردونواح کے تمام مکانات کے اندرونی حصے تک دکھائی دیتے تھے۔
حسن منزل کے جس کمرے میں ایلی کوجگہ ملی وہاں کل تین سیٹیں تھیں۔ایلی کے علاوہ وہاں دولڑکے تھے ایک کانام جمال اوردوسرے کاریاضت تھا۔ریاضت ایک دبلاپتلاطالب علم تھاجس کی ناک چونچ کی طرح نکلی ہوئی تھی اورجس کی آنکھیں روئی سی تھی۔جب وہ چلتاتھاتواس کاسراجسم جھولتاتھا۔اعضاءاکھڑے اکھڑے معلوم ہوتے تھے جیسے وقتی طورپرگزارہ کرنے کے لئے فٹ کئے بغیرجوڑدئیے گئے ہوں۔وہ خودبات کرنے سے گریزکرتاتھالیکن کوئی بات کرتاتواس کے کان کھڑے ہوجاتے بلکہ یوں محسوس ہوتاتھاجیسے اس کے کانوں کے اوپرکے حصے ذراساخم کھالیتے تھے تاکہ بات کاکوئی حصہ کان سے ٹکراکرباہر نہ نکل جائے ۔بات سنتے وقت اس کی آنکھیں دیکھ کرمحسوس ہوتاتھاکہ وہ بات کوقطعی طورپرنہیں سمجھ رہا۔اس کے چہرے پرغمی ،خوشی غصہ یاشرارت کااظہارنہیں ہوتاتھابلکہ دائمی طورپراس کے چہرے پرایک کیفیت گویاکندہ کردی گئی تھی جیسے کہہ رہاہو۔”معاف کیجئے بات سمجھ میں نہیں آئی“---بات کوسننے اورسمجھنے کے باوجوداس کے چہرے پرلاعلمی اوربے بسی کے ملے جلے جذبات طاری رہتے تھے۔جمال اونچے لمبے قدکاخوب صورت جوان تھا۔رنگ گوراتھابال سنہرے تھے آنکھیں بھوری اورخدوخال ستواں ہونے کے باوجودمردانہ قسم کے تھے۔اس کاجسم بھراہوااوراعضاءمیں ایک لچک تھی۔
جمال لائلپورکے کسی چک کارہنے والاتھا۔اس کی عادات دیہاتی رنگ لئے ہوئے تھیں۔مثلاً وہ تہہ بندباندھنے،ململ کاکرتہ پہننے اورپھربھرپورقہقہے لگانے میں خاص مسرت محسوس کیاکرتااوراسے جسم کھجانے کی عادت تھی۔
چارایک روزوہ تینوں ایک دوسرے سے جھجک محسوس کرتے رہے اورتکلف برتتے رہے لیکن جلدہی جمال ایلی سے کھل کرباتیں کرنے لگا۔جمال اورایلی دونوں کومعلوم ہوگیاکہ ریاضت کے ان سے گھل مل جانے کی توقع بے سودہے کیونکہ وہ اپنی طبیعت کی وجہ سے مجبورہے۔
کالج سے واپسی پرایلی اپنی چارپائی پربیٹھ جاتااورخیالات کی دنیامیں کھوجاتا۔کمرے کی مشرقی دیوارآہستہ آہستہ سرکتی۔ایک زینہ نمودارہوتا۔پھراس زینے سے دھماچوکڑی کی آوازآتی اورچھن چھنانن سے کوئی اس کے روبروآکھڑی ہوتی---
”چلو:وہ چائے پرانتظارکررہے ہیں۔“
ایلی چونک پڑتااورگھبراکراپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتا۔ریاضت چپ چاپ دیوارسے ٹیک لگائے ہاتھ میں کتاب لئے چھت کی طرف گھوررہاہوتا۔جمال اپنے کپڑوں کی تہہ کرکے سرہانے تلے جمانے میں شدت سے مصروف ہوتا۔ایلی سوچنے لگتاشایدانہوںنے شہزادکے قدموں کی آوازسن پائی ہو۔شایدوہ اس کے رازسے واقف ہوگئے ہوںشاید---
پھروہ اپنے احمقانہ خدشات پرہنس دیتا”میں بھی پاگل ہوں۔“وہ سوچتا۔اپنے دونوں ساتھیوں کواپنے آپ میں کھوئے ہوئے دیکھ کراسے خیال آتا۔نہ جانے ان دونوں پرکیابیت رہی ہے۔اس کمرے میں ہوتے ہوئے نہ جانے یہ کہاں کہا ں گھوم رہے ہیں۔بیچاروں کی اپنی پڑی ہے۔
نامی
ریاضت کوچھت کی طرف گھورتے ہوئے دیکھ کراسے شریف یادآجاتاتھاشایدریاضت بھی ایک شریف ہوجوکسی انورکے خیال میں اپنی سدھ بدھ کھوچکاہو۔نہ جانے اس پرکیاافتادپڑی ہے۔اس کے محلے والوں نے اس کے ساتھ کیاسلوک کیاہے کہ یہ شریف بن گیاہے۔جمال کوریشمیں رومال سے منہ پونچھتے ہوئے دیکھ کراس کی نگاہ تلے ریشمیں رومال سے گورے چٹے ہاتھ نکلتے۔مخروطی انگلیاں اس کے گالوں کوسہلاتیں لیکن جلدہی جمال کابھونڈاقہقہہ اسے چونکادیتا۔
”ارے یار۔“وہ ہنستے ہوئے کہتا:”مجھے اچھے رومال کی پہچان نہیں۔“
ایلی کی نگاہوں میں وہ رومال پھیلناشروع ہوجاتا۔اس میں سوراخ ہوجاتے اوران سوراخوں سے کیپ اورکپ اس کی طرف جھانکنے لگتے اورارجمندمسکراکرکہتا:
”ہاں ۔اس کھیل میں یہ چیزبے حدضروری ہے ۔اسے تھامے رکھو۔یوں گال سہلاؤ۔ہوامیں اڑدویوں۔مطلب ہواآناذراادھربھی مری جان کبھی کبھی۔“
اورپھرشہزادچھن سے ادھرآجاتی اورارجمندکپ کیپ سب ماندپڑجاتے۔وہ مسکراکراسے کہتی۔:”صرف ساٹھ میل کافرق ہے صرف ساٹھ میل کا۔“
رومال کومنہ پررکھ کرجمال انگڑائی لیتااورپھرتہہ بندکھجاتااوردوایک گرم گرم آہیں بھرکرباہربرآمدے میں نکل جاتا۔چندایک منٹ کے بعدوہاں سے وہ ایلی کوپکارتا:
”اندرکیاکررہے ہوتم۔بے کاربیٹھ رہتے ہویار!یہاں آؤ۔یہاں نیچے اتنے سارے ٹامی اکٹھے ہورہے ہیں۔سالوں نے پی رکھی ہے اوردیکھوتوکیاکیاحرکتیں کررہے ہیں۔“وہ قہقہہ مارکرہنستااورجوش میں مٹھی بھرکرکھجاتا۔تہہ بندجھاڑتااورگرم گرم آہیں بھرتا۔
”وہ دیکھوسامنے---ارے ارے وہ بھاگے بھاگے سب کے سب بھاگ رہے ہیں۔بھاگ کیوں رہے ہیں سالے۔اس موٹرسائیکل کودیکھ کرڈرگئے ہیں کیا۔کیوں ایلی۔یہ ٹامی موٹرسائیکل کودیکھ کربھاگتے کیوں ہیں؟“
”جب بھی موٹرسائیکل آتاہے۔یہ سب یوں بھاگ لیتے ہیں جیسے---اوریہ ہوٹل والادیکھاتم نے۔جویہ نچلی منزل میں ہوٹل ہے۔گاہک آتے کبھی دیکھانہیں کسی نے یہاں ویسے سالوں نے ہوٹل کھول رکھاہے اورپھریہ ہوٹل کامالک شام کے وقت برآمدے میں ٹہلتارہتاہے اوراندرہوٹل خالی پڑارہتاہے۔اچھاکاروبارہے یہ یارمیں ذراموٹرسائیکل دیکھ آ ؤں۔“
یہ کہہ کرجمال کھجاتاہوااورتہہ بندجھاڑتاہوانیچے اترجاتااور---پھرسیڑھوں سے شہزادنکل آتی۔
”چلاگیاوہ۔ایلی تم ہروقت اسے کیوں پاس کھڑاکرلیتے ہو۔خواہ مخواہ بھیڑلگالیتے ہو۔کوئی بات بھی نہیں کرسکتا۔“
ایلی چونک کردیکھتا۔
شہزادہنس کرغائب ہوجاتی اوروہ پھرسے اندرچارپائی پرجابیٹھتا۔
پھروہ کرسی پرآبیٹھتی اوراپنے کام میں مصروف ہوجاتی اورایلی محسوس کرتاجیسے وہ دوربیٹھی ہو۔بہت دور۔جیسے وہ قریب آکربہت دورہوگئی ہو۔ساٹھ میل قریب آکرچھ ہزارمیل چھ لاکھ میل دورہوگئی ہو۔
ابھی انہیں اکٹھے رہتے چنددن ہوئے تھے کہ جمال نے اپناپٹارہ کھول لیا۔وہ ایلی کے پاس آکررازدارانہ اندازسے کہنے لگا:۔
”ایلی کچھ کرناہی پڑے گاورنہ یہاں اپنی زندگی کیسے بسرہوگی۔دن کیسے کٹیں گے۔“
”زندگی!“ایلی کواس کی بات سن کرحیرت ہوئی۔“زندگی توگزررہی ہے۔“اس نے سوچا۔”زندگی گزرنے میںدقت کیسی؟نہ جانے جمال کیاکہہ رہاتھا۔
”یہاں کس مصیبت میں آپڑے ہیں؟“جمال نے ہاتھ بھرکرکھجاتے ہوئے کہا۔“ہردوسرے دن کے بعداس کاخط آجاتاہے اورپھرٹرنک کھولتاہوں توہرچیزسے اس کی یادیں وابستہ ہیں۔اس کاریشمیں رومال ہے۔آزاربندہے۔اس کاایک دوپٹہ بھی میں اٹھالایاتھا۔زبردستی اٹھالایاتھا۔وہ چیختی رہی اے ہے میراڈوپٹہ کیوں لے جارہے ہومیرے پاس پہلے ہی کم ہیں۔لیکن میں اٹھالایااوراس کی سرمہ دانی غلطی سے آگئی۔آؤ تمہیں دکھاؤں۔“
وہ ایلی کواپنے صندوق کے پاس لے گیا۔
”یہ دیکھو۔“اس نے ریشمی رومال کھولتے ہوئے گہا:“اسے سونگھوناذرا۔کیسی بھینی بھینی خوشبوآتی ہے اوردیکھویہ اس کاکلپ ہے۔سالی کلپ پہنتی ہے۔گاؤںوالوں سے چوری چوری۔کوئی دیکھ لے تونہ جانے کیافتوے صادرکردے اس لئے سونے وقت پہنتی ہے اورصبح اتارکررکھ دیتی ہے۔کہ کوئی دیکھ نہ لے اوریہ دیکھویہ اس کے خط ہیں۔ایک دوتین۔یہاں آئے ابھی دس دن نہیں ہوئے ہیں اوردس دنوں میں تین خط لکھے ہیں اس نے---ارے نہ نہ نہ----“ایلی کوخط کھولتے دیکھ کروہ چلایا---”نہ یارپڑھنانہیں۔یہ پرائیویٹ خط ہیں۔آج تک ایک دن کے لئے مجھ سے جدانہیں ہوئی تھی۔اب بیٹھی روتی ہے۔ہرخط میں لکھتی ہے کسی اورکے پاس نہ جانا۔بھلاپوچھو۔یہاں کوئی ہوتوجاؤں نا“اس نے شدت سے جسم کھجایااورپھرتہہ بندجھاڑنے لگا۔
”توبہ کتنی گرمی ہے۔“
ریاضت کے آنے پرجمال خاموش ہوگیااس نے ایلی کوخاموش رہنے کااشارہ کیااورٹرنک میں رکھی ہوئی چیزوں کوسنوارے لگا۔پھراس نے ایلی کے ہاتھ میں ایک تصویرتھمادی!
”یہ دیکھو۔“وہ زیرلب بولا۔“یہ اس کی تصویرہے۔سالی ہروقت ہنستی ہے۔ہروقت دانت نکالے رکھتی ہے۔“
وہ ایک عام سی جوان لڑکی تھی۔چہرہ گول تھاجس پردوبڑے بڑے ابھرے ہوئے رخسارتھے اوردوگول آنکھیں ۔ناک بیٹھی ہوئی تھی یاشایداس لئے کہ منہ گوشت سے بھراہواتھا۔ناک بیٹھی بیٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ہونٹ موٹے تھے اورآنکھوں کے قریب یوں لکیریں پڑی ہوئی تھیں جن سے ظاہرہوتاتھاکہ جیسے وہ ابھی ہنس پڑے گی۔یاجیسے ہنسی ضبط کرکے بیٹھی ہواورضبط کادامن ہاتھ سے چھوٹاجارہاہو۔
”اچھی ہے؟“جمال نے پوچھا۔
”ہاں۔“ایلی نے تکلفاً کہا”اچھی ہے۔“
حالانکہ ایلی محسوس کررہاتھاجیسے وہ محض گوشت کاایک لوتھڑاہو۔جوانی اورصحت کے سواوہاں کچھ بھی نہیں تھا۔نہ جانے کیوںایلی کوبھرپورجوانی اوربھرے بھرے جسم سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔اسے کتابی چہروں سے لگاؤتھا۔ایسے چہروں سے جن پرگوشت نہ ہو۔آنکھیں کشتیوں کی طرف ڈولتی ہوں۔ہونٹ خم آلودہوں۔آنکھوں میں چمک ہو۔
”باہر چلو۔“جمال نے آہستہ سے کہا”یہاں بات نہ ہوسکے گی۔“اس نے ریاضت کی طرف اشارہ کیا۔“باہربرآمدے میں کھڑے ہوں گے۔آؤ۔“
برآمدے میں جاکراس نے ایک ہاتھ میں وہ تصویرپکڑلی اوردوسرے ہاتھ سے کھجانے لگا۔دیرتک وہ تصویرکوگھورتااورکھجاتارہا۔پھرجوش میں کہنے لگا:
”میرے بغیرچین نہیں پڑتااسے دومنٹ کے لئے بھی ادھرادھرہوجاؤں توڈھونڈتی پھرے گی جیسے کچھ کھوگیاہواورچاہے کہیں بیٹھاہوں آکرایسی شرارت کرے گی۔چوری چوری چٹکی بھرے گی۔ایسی چھیڑخانی کرے گی کسی اورکوپتہ نہ چلے گالیکن اپنی حالت غیرہوجائے ۔اورپھرجب اپنابس چلتاہے توگن گن کربدلے لیتاہوں۔“اس نے تہہ بندجھاڑتے ہوئے کہا۔
اس وقت جمال کامنہ سرخ ہورہاتھا۔آنکھیں کوئلوں کی طرح دہک رہی تھیں اوروہ دیوانہ وارکھجائے جارہاتھا۔
”اب ہماراگزارہ کیسے ہوگایہاں۔“وہ چلانے لگا۔
”وہ دیکھو۔“اس نے شراب والی کوٹھی میں ٹامیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا”حرامی یوں کھڑے ہیں جیسے تاک لگائے ہوئے ہوں۔نہ جانے کس تاک میں ہیں۔نہ جانے ان کاگزارہ کیسے ہوتاہے۔بندرکہیںکے دیکھوتوکیسے منہ بناتے ہیں۔وہ سنا۔تم نے سالے چیخ رہے ہیں۔آنکھیں مٹکارہے ہیں۔یارمیں ابھی آیا۔“جمال نے چیخ کرکہا”ذراقریب سے دیکھوں“یہ کہتے ہوئے دیوانہ وارسیڑھیاں اترنے لگا۔
اس کے جان کے بعدایلی برآمدے میں کھڑاسوچتارہا۔اسے جمال اوران ٹامیوں میں ایک عجیب سی مناسبت دکھائی دے رہی تھی۔ان کے بال بھی سنہرے تھے۔ان کارنگ بھی گوراتھا۔ان کے قدبھی لمبے تھے۔اس کے علاوہ انکے لئے زندگی گزارنامشکل ہورہاتھا۔فرق یہ تھاکہ وہ کھجاتے نہیں تھے۔
نہ جانے وہ لڑکی کون تھی خالص گوشت کی بنی ہوئی معلوم ہوتی تھی اورجس کے بشرے سے معلوم ہوتاتھاکہ وہ صرف زندگی گزارنے کی خواہش مندہے۔
مردانہ جھپٹ
وہ جمال کودیکھ کررشک محسوس کیاکرتاتھا۔کس قدرحسین جوان تھاوہ جیسے سانچے میں ڈھلاہو۔اس کارنگ صرف سفیدہی نہیں تھابلکہ اس میں سرخی کی آمیزش تھی جیسے گلابی رنگ میں سنہرے کی جھال ہواوراس کے بال کتنے حسین تھے اوران میں وہ ہلکاساگھنگھریالہ پن اوروہ دورسے کس قدرچمکتے تھے۔ان باتوں کے علاوہ اس کامردانہ جوش ۔جب وہ کھجاتے ہوئے ہئے


جاوید اقبال
 
Top