علی زریون ۔ ۔ ۔

اکمل زیدی

محفلین
اِن لعینوں کی علی ایسے مذمّت کی جائے
بوٹیاں نوچ کے کتّوں کی ضیافت کی جائے
کاٹ کر ہاتھ ، بھریں آنکھ میں سیسہ ان کی
اِن پہ جاری کوئی اِن کی ہی شریعت کی جائے
اِن کے قبضوں سے مساجد کو چھڑا کر لوگو!
عشق والوں کے سپرد ان کی امانت کی جائے
ماوں بہنوں کے کلیجے نہیں پھٹتے دیکھے؟؟؟؟
تم جو کہتے ہو کہ ہاں ان سے رعایت کی جائے؟؟؟؟
ڈر لیا اِن سے جو ڈرنا تھا، بس اب اور نہیں
وقت آیا ھے کہ ختم اِن کی امارت کی جائے .. !!
جو اِنھیں مار کے آئے اسے اپنا سمجھیں
جو اِنھیں ختم کرے اس کی حمایت کی جائے
دین کو ننگ بنا ڈالا ہے بد بختوں نے
ان کے افعال سے جی بھر کے کراہت کی جائے
ہم نے تقدیس اِنھیں دی یہ مقدس ٹھرے
دور اب اِن کی غلط فہمی حرمت کی جائے
جو یہ کہتا ہو کہ بدعَت ہے محبت کرنا
اس عقیدے کے ہر اک شخص پہ شدّت کی جائے
کل بھی کہتا تھا،یہی آج بھِی کہتا ہوں کہ ہاں!
صرف انسان سے،انساں سے محبت کی جائے۔۔!
نام ظالم کا نہ لے اور مذمّت بھی کرے ؟؟
اس منافق کی ہر اک سانس پہ لعنت کی جائے۔
 
Top