علي بابا چاليس چور

تفسیر

محفلین
علي بابا چاليس چور

بہت عرصے پہلے پاکستان ميں ايک لکڑہارا رہتا تھا...اسکا نام علي بابا تھا...ايک رات علي بابا دن بھر لکڑياں کاٹ کر واپس اپنے گھر جا رہا تھا...يکا يک جنگل کي خاموشي ميں کہيں قريب سے کچھ گھوڑوں کي آواز آئي...وہ فوراً درختوں کے پيچھے چھپ گيا اور چاند کي روشني ميں ديکھتا کيا ہے کہ کچھ ڈاکو ايک پہاڑي کے سامنے رُکے ہوئے ہيں اور ان ميں سے ايک اپنے گھوڑے سے اتر کر زور سے چِلاّ کر کہ رہا ہے کُھل جا سِم سِم...

اسکے بعد علي بابا نے جو ديکھا اس سے وہ ہکّا بکّا رہ گيا...پہاڑي ميں سے ايک چٹان گُڑگُڑا کر ہٹ گئي اور ايک غار دکھائي دي جسے ديکھ کر علي بابا کو يقين نہ آيا...غار سونے چاندي اور ہيرے جواہرات سے چمک رہي تھي...اُن ڈاکؤں نے اپنے گھوڑوں سے سامان اتار کر غار ميں رکھا اور اس بار چلاّ کر کہا بند ہو جا سِم سِم...اور چٹان گُڑگُڑا کر واپس اپني جگہ پہنچ گئي اور غار کا مُنہ پھر سے بند ہو گيا...

علي بابا نے پسينہ ميں شرابور خاموش اپني جگہ بيٹھے بيٹھے ڈاکؤں کے دور تک جانے کا انتظار کيا...جب ڈاکو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور علي بابا کو يقين ہو گيا کہ وہ خطرھ سے محفوظ ہے تب وہ درختوں کے پيچھے سے نکلا اور غار کے سامنے کھڑے ہوکر زور سے کہا کُھل جا سِم سِم...غار کا منہ کھلا اورعلي بابا اندر داخل ہوگيا اورغار کا دروازہ بند ہوگيا
...
علي بابا کو يقين نہيں آرہا تھا کہ کتنا سونا چاندي اور ہيرے جواہرات اس غار ميں بھرے پڑے تھے...وہ جہاں بھي پير رکھتا زيور اور قيمتي چيزوں سے آواز آتيں تھيں...کيا يہ ايک خواب ہے؟ علي بابا نے دل ميں سوچا! پھر اسنے ايک ہيرے کا ہار اٹھا کر ديکھا تو اسکي چمک سے اسکي آنکھيں بند ہونے لگيں...

علي بابا نے جلدي جلدي اپني جيبيں ہيرے جواہرات سے بھر ليں اور اپنے پگڑي کي چادر سے پوٹلي بنا کر کچھ سونے کي اينٹيں اُٹھائيں اور غار کے دروازے کے سامنے چلاّيا کھل جا سم سم...باہر نکل کر علي بابا جلدي جلدي رات کے اندھيرے ميں اپنے گھر کي طرف نکل ليا...

علي بابا جب گھر پہنچا تو رات کو دير ہو چکي تھي اور اسکي بيوي اسکا صبر سے انتظار کررہي تھي...جب اسنے ديکھا کہ علي بابا اتنے سارے ہيرے جواہرات اپنے ساتھ لايا ہے تو وہ بے حد خوش ہوئي! اب ہمارے پاس اتنا پيسا ہو گيا ہے کہ پوري زندگي خوشحالي سے گزرسکے گي، انشاءاللہ!

اگلے دن علي بابا نے اپنے بھائي کو بتايا کہ اس کو ايک ڈاکؤں کي غار ملي جنگل ميں اور کيسے وہ وہاں سے اتني ساري دولت لے کر آيا...قاسم نے بڑي دلچسپي سے علي بابا کي باتيں سنيں اور اچھي طرح سے یہ سمجھ ليا کہ يہ غار کہاں...وہ اسي رات جب اندھيرا ہوا تو دو گدھے ساتھ لے کر جنگل ميں ڈاکؤں کے غار کي طرف چل پڑا...

اسنے علي بابا کي بتائي ہوئي جگہ پر چٹان کے سامنے کھڑے ہو کر زور سے کہا "...کھل جا سم سم..." اور زبردست گُڑگُڑاہٹ کے بعد چٹان اپني جگہ سے ہٹي اور قاسم اپنے گدھوں سميت چمکتي دمکتي غار ميں داخل ہو گيا اور غار کا دروازھ بند ہو گيا...

قاسم کو اپني خوش قسمتي پر يقين نہ آيا...اس نے دونوں گدھوں پر سونا چاندي اور ہيرے جواہرات لادنا شروع کرديا...اور اپني بھي تمام جيبيں اور چادريں بھر ليں...جب اتنا زيور جمع ہوگيا کہ اس سے زيادھ گدھوں پر لادنا ناممکن تھا، تو قاسم نے غار کہ منہ پر کھڑے ہو کر زور سے کہا "...کُھل جا ٹم ٹم..." پر غار کا منہ نہ کھلا...

پھر قاسم زور سے چلايا "...کھل جا جم جم..."
پھر کہا "...کھل جا گرم گرم..."
کھل جا يار نرم نرم...ليکن چٹان اپنہ جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا...قاسم اپني خوشي اور حيرت ميں دروازھ کھولنے کے الفاظ بھول چکا تھا...

قاسم اس پريشاني کی حالت ميں اپنے آپ کو کوس رہا تھا آہ اتني دير ميں اسے باہر گھوڑوں آي آوازيں آنے لگيں...قاسم ڈر کےمارے کانپنے لگا ...اسكو يقين تھا آہ ڈکو واپس غار ميں سامان رکھنے آرہے ہيں...اسكو بچنے کی کوئي راستہ نظر نہيں آيا...

اگلے دن صبح سويرے قاسم آئی بيوي نے علي بابا کا دروازہ کھٹكھٹايا اور کہا کہ قاسم کل سےگھر واپس نہيں آيا ہے ...مجھے بہت فكر ہے کہ وہ کہاں غائب ہے...علي بابا علي بابا کيا آپ اسكو ڈھونڈ کر واپس لا سكتے ہيں؟ علي بابا سارا دن قاسم کي تلاش ميں گلي گلي گھوما...پھر اسكو خيال آيا کہ کہيں قاسم جنگل ميں ڈاکؤں کے غار تك تو نہيں کہیں؟ علي بابا فوراً غار گيا اور قريب ہے اسے قاسم کی لاش دکھائي دي...

بيچارے قاسم کو ڈاکووں نے غار ميں پا کر قتل کر ديا...
علي بابا کو بے حد افسوس ہوا ... اس نے سوچا آہ قاسم کي لاش کو جلد ہي دفن کر دينا چاہيئے... علي بابا نے قاسم کي لاش کو اپنے گدھے پر لاد کر واپس گاؤں کا رخ کيا...گاؤں پہنچ کر قاسم کا جنازہ پڑھوا کراسے اسي دن دفنا ديا...

جب ڈاکو واپس غار پر آئے تو وہاں قاسم کي لاش نہ پائي تو انہيں تشويش ہوئ کےکہيں کسي اور کو ہماري غار اور ہمارے خزانے کے بارے ميں علم تو نہيں...پھر ڈاکوں نے زمين پر قدموں کے نشان ديكھے تو انہيں جس بات کا انديشہ تھا اسكا يقين ہوگيا...انہي قدموں کو ديكھ ديكھ کر ڈاکو علي بابا آے گھر تك پہنچ گئے - ڈاکوں کے سردار نے علي بابا کے دروازے پر ايك سفيد دائرہ کا نشان لگا ديا تاکہ رات کے اندھيرے ميں آکر علي بابا کا کام تمام کردیں...

اوپرکی کھڑکي سے چُھپ آر علي بابا کي نوکراني ڈاکوں کو ديكھ رہي تھي اور انكے جانے کے بعد اسنے عقل مندي دکھا کر سارے محلے کے دروازوں پر وہي سفيد دائرہ کے نشان لگاديئے...اسطرح جب رات گئے ڈاکو علي بابا کو قتل کرنے کے ليئے لوٹے تو ہر دروازے پر سفيد دائرہ ديكھا اورانہيں واپس جانا پڑا...

دوسرے دن ڈاکؤں کے سردار نے چالاکي سےگاؤں والوں سے يہ پتہ لگا ليا کہ ايك دن پہلے کس کا جنازہ تھا...اسطرح اسے علي بابا کے بارے ميں بھي علم ہو گيا..
.
ڈاکؤں کے سردار کو ايك ترکيب سوجھي...وہ علي بابا کے گھر چاليس تيل کے ڈبے لے کرجائےگا ہر ڈبے ميں ايك ڈاکو تلوار ليئے رات کا انتظار کرےگا اور اسطرح علي بابا کو ختم کرنےکا راستہ مل گيا...اس ہي دن ڈاکؤں کہ سردار علي بابا کےگھر پہنچا اور کہا کہ وہ مسافر تاجر ہے اور علي بابا کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے...علي بابا نے اسكو مسافر سمجھ کر اپنےگھرميں رات گزارنے کي دعوت دے دي...اس ہي رات علي بابا کي نوکراني کھانا پكا رہي تھي اورگھر ميں تيل آم تھا تو اس نے کہا کہ اس تاجر کے ايك ڈبے ميں سے تھوڑا سا تيل کھانے کےليئے نكال لے گي...ليكن جب اس نے ڈبے کا ڈھكن کھولا تو اندر ايك ڈاکو دبك کر بيٹھا ديكھا...اس نوکر نے چپ چاپ ہي پڑوس سے کچھ تيل مانگا اور خوب گرم آيا...اور تھوڑا تھوڑا ہر ڈبے ميں انڈيل ديا...

اسي طرح تمام ڈاکو مر گئے....

اس ہي رات نوکراني نے ڈاکؤں کےسردار کو بھي نيند ميں ہميشہ کي نيند سُلا ديا...

اسطرح علي بابا کي جان بھي بچ گئ اور ڈاکوں کا تمام خزانہ بھي اسكو مفت ميں مل گيا...
 
Top