ام اویس
محفلین
*مفعول کی کچھ اقسام
*مفعول مطلق*
مفعول مطلق مصدر ہوتا ہے ۔ وہ مصدر جو مفعول ہو اور اس سے پہلے اسی مصدر سے فعل آیا ہو ۔
مثال ۔۔۔ لَعِبَ حسنٌ لَعْباً
حسن کھیل کھلتا ہے ۔
غور کرو ۔۔لعبٌ مصدر ہے ۔ لَعِبَ ۔۔۔ فعل ماضی ۔۔۔ فعل ۔۔۔ حسن ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ اور
لَعْبًا ۔۔۔۔ اسی مصدر سے مفعول آ رہا ہے
مفعول مطلق کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے ۔
ایک ۔۔۔ فعل کی تاکید کرنے کے لئے ۔۔۔ یَشْرِبُ الطِّفْلَ اللَّبَنَ شُرباً ۔۔۔ بچے نے واقعی دودہ پیا
ضَرَبَ الْخادِمُ العَقْرَبَ ضَرْبَۃً۔ ۔۔۔ خادم نے بچھو کو مار ڈالا
دو ۔۔۔ فعل کس قسم کا ہے یہ بیان کرنے کے لئے ۔۔۔۔ مَشٰی الطِّفْلُ مِشْیَۃ الْوَالد ۔۔۔ یعنی نوعیت بیان کر رہا ہے ۔۔۔ بچہ باپ کی طرح چلا ۔ اور
جَلَسْتُ جَلْسَۃَ القَارِی ۔۔۔ میں پڑھنے والے کی طرح بیٹھا ۔۔۔ جلستُ ۔۔۔ فعل ۔۔فاعل اور جَلْسہ۔۔ مفعول مطلق
تین ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے ۔۔۔ تَدُورُ الْاَرْضُ دَوْرَۃً فِی الْیَوْم ۔۔۔ زمین ایک دن میں کئی چکر لگاتی ہے ۔
ضربْتُ الْفاطمہ ضربۃً ۔۔۔ میں نے فاطمہ کو ایک چپیڑ لگائی
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ قسم یا نوعیت بیان کرنے کے لئے " فِعْلَۃً " کے وزن پر ۔۔۔ اور ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے " فَعلَۃً " کے وزن پر مصدر بنایا جاتا ہے
سمجھ میں آیا ۔۔۔ خوب سمجھ لو
*مفعول لہ*
مفعول لہ ۔۔ وہ مفعول ہے جو کام کرنے کی وجہ بتائے ۔ مفعول لہ کا معنی بنتا ہے " اس کے لئے " یا " اس کی وجہ سے " ۔ جیسے
عاقِبَ الاستاذُ التلمیذَ تادیباً ۔۔۔ استاد نے ادب سکھانے کے لئے شاگرد کو سزا دی
یہ مفعول بتاتا ہے کہ فعل کس وجہ سے کیا گیا ۔
عَاقبَ ۔۔ فعل ۔۔ الاستاذُ ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ التلمیذَ ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ تادیبا۔۔۔ مفعول لہ
اور سب مل کر جملہ فعلیہ
اب مفعول مطلق اور مفعول لہ میں فرق یہ ہے کہ دونوں مصدر ہوتے ہیں ۔۔۔مفعول مطلق اپنے فعل کا مصدر ہوتا ہے یعنی فعل اور مفعول ایک ہی مصدر سے آتے ہیں ۔
اور مفعول لہ اپنے فعل کے مصدر سے مختلف مصدر ہوتا ہے ۔
ضربتُ ضرباً ۔۔۔ اور
قُمْتُ احتراماً ۔۔
قاعدہ اس کا یہ ہے "مفعول لہ " ۔ وہ مصدر منصوب ہے جو کام کے کرنے کی وجہ بتائے
مفعول مطلق ۔۔۔۔ تاکید ، کیفیت یا تعداد بتاتا ہے ۔ اور مفعول لہ وجہ یا سبب بتاتا ہے ۔
کچھ سمجھ آئی ۔۔ یا پہلی بھی گئی
*مفعول فیہ*
سمجھ لو کہ ۔۔۔" فیہ "۔۔ قواعد میں جہاں بھی ہو گا ظرف کا معنی دے گا ۔ یعنی اس میں یا تو " وقت " کا ذکر ہو گا یا پھر " جگہ" کا ۔ اور جیسا کہ معلوم ہے ظرف کی دو قسمیں ہیں
ظرف زماں اور ظرف مکاں
اب ۔۔ مفعول فیہ ۔۔ وہ مفعول منصوب ہے جس سے کام ہونے کے وقت یا جگہ کا پتہ چل سکے ۔
جیسے ۔۔ مَکَثْتُ فی لاھور شھراً ۔۔ میں لاھور میں ایک مہینہ ٹھری ۔
یعنی مدت معلوم ہوئی
شرِبَ المریضُ الدواء مَسَاءً ۔ ۔۔۔ مریض نے شام کو دوا پی ۔
شرب ۔۔ فعل ۔۔۔ المریض ۔۔۔ فاعل ۔۔ دوا ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ اور مساء ۔۔ مفعول فیہ
یہ تو ہوئی ظرف زماں کی مثال
اور ظرف مکاں میں جگہ کے بارے میں علم ہوتا ہے ۔
جَرَیٰ عَلِیُّ مِیْلاً ۔۔ علی ایک میل دوڑا
مَشَیْتُ اَمْسِ فَرْسَخاً
میں شام کو ایک فرسخ چلی ۔
۔ (ایک میڑ چلی ایل ڈی کی طرف ) ۔
سمجھے یا نہ سمجھے ۔
*مفعول معہ*
مفعول معہ ۔۔ اس مفعول منصوب کو کہتے ہیں جو "واو معیت
" with
کے بعد فعل کے معمول کا ساتھی یا شریک بن کر آتا ہے ۔ مثال سے سمجھو
سِرْتُ والنّھر
میں نہر کے ساتھ چلی ۔
اور
سَافَر النَّاسُ و الظَّلاَ مَ
لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔
ہر جملے میں پہلے ایک فعل اپنے معمول کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کے بعد "واو" ہے جو مع کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ایک اسم آیا جو " منصوب " ہے یہ اسم فعل کا معمول نہیں بلکہ ساتھی بن کر آیا ہے ۔
ترکیب دیکھو ۔۔۔
سِرْتُ وَ النَّھْرَ
سِرْتُ ۔۔۔ سار ۔۔ فعل اور اس میں ۔۔۔ "تُ" ضمیر متصل فاعل ہے ۔ اس کے بعد مع کے معنی میں "و" اور "و" کے بعد النھرَ اسم ۔۔ منصوب آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی ضمیر واحد متکلم "تُ" کے ساتھ چلنے میں شریک ہے ۔
مطلب یہ ہوگا ۔۔۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلی ۔۔۔ یعنی چلنے کے دوران ندی میرے ساتھ ساتھ رہی ۔
اسی طرح ۔۔
سَافَرَ النَّاسُ وَ الظَّلامَ
سافر ۔۔۔ فعل ۔۔۔ النّاس ۔۔۔ فاعل اس کا معمول ہے ۔۔۔ واؤ مع کے معنی میں اور اس کے بعد " الظّلام" منصوب ہو کر آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی " النّاس " کا سفر کے دوران شریک رہا ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔۔۔ لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔۔۔ یعنی لوگوں کے سفر کے دوران تاریکی بھی ساتھ رہی ۔
خوب دھیان سے سمجھ لو ۔
مفعول کی حالت نصبی ۔۔۔ یعنی ۔۔ زبر والی ہوتی ہے
علم النحو ۔۔۔ میں
بعض اوقات کلمہ پر " زبر " نظر نہیں آتی لیکن اس کی حالت نصبی ہوتی ہے ۔۔۔
*مفعول مطلق*
مفعول مطلق مصدر ہوتا ہے ۔ وہ مصدر جو مفعول ہو اور اس سے پہلے اسی مصدر سے فعل آیا ہو ۔
مثال ۔۔۔ لَعِبَ حسنٌ لَعْباً
حسن کھیل کھلتا ہے ۔
غور کرو ۔۔لعبٌ مصدر ہے ۔ لَعِبَ ۔۔۔ فعل ماضی ۔۔۔ فعل ۔۔۔ حسن ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ اور
لَعْبًا ۔۔۔۔ اسی مصدر سے مفعول آ رہا ہے
مفعول مطلق کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے ۔
ایک ۔۔۔ فعل کی تاکید کرنے کے لئے ۔۔۔ یَشْرِبُ الطِّفْلَ اللَّبَنَ شُرباً ۔۔۔ بچے نے واقعی دودہ پیا
ضَرَبَ الْخادِمُ العَقْرَبَ ضَرْبَۃً۔ ۔۔۔ خادم نے بچھو کو مار ڈالا
دو ۔۔۔ فعل کس قسم کا ہے یہ بیان کرنے کے لئے ۔۔۔۔ مَشٰی الطِّفْلُ مِشْیَۃ الْوَالد ۔۔۔ یعنی نوعیت بیان کر رہا ہے ۔۔۔ بچہ باپ کی طرح چلا ۔ اور
جَلَسْتُ جَلْسَۃَ القَارِی ۔۔۔ میں پڑھنے والے کی طرح بیٹھا ۔۔۔ جلستُ ۔۔۔ فعل ۔۔فاعل اور جَلْسہ۔۔ مفعول مطلق
تین ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے ۔۔۔ تَدُورُ الْاَرْضُ دَوْرَۃً فِی الْیَوْم ۔۔۔ زمین ایک دن میں کئی چکر لگاتی ہے ۔
ضربْتُ الْفاطمہ ضربۃً ۔۔۔ میں نے فاطمہ کو ایک چپیڑ لگائی
قاعدہ اس کا یہ ہے کہ قسم یا نوعیت بیان کرنے کے لئے " فِعْلَۃً " کے وزن پر ۔۔۔ اور ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے " فَعلَۃً " کے وزن پر مصدر بنایا جاتا ہے
سمجھ میں آیا ۔۔۔ خوب سمجھ لو
*مفعول لہ*
مفعول لہ ۔۔ وہ مفعول ہے جو کام کرنے کی وجہ بتائے ۔ مفعول لہ کا معنی بنتا ہے " اس کے لئے " یا " اس کی وجہ سے " ۔ جیسے
عاقِبَ الاستاذُ التلمیذَ تادیباً ۔۔۔ استاد نے ادب سکھانے کے لئے شاگرد کو سزا دی
یہ مفعول بتاتا ہے کہ فعل کس وجہ سے کیا گیا ۔
عَاقبَ ۔۔ فعل ۔۔ الاستاذُ ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ التلمیذَ ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ تادیبا۔۔۔ مفعول لہ
اور سب مل کر جملہ فعلیہ
اب مفعول مطلق اور مفعول لہ میں فرق یہ ہے کہ دونوں مصدر ہوتے ہیں ۔۔۔مفعول مطلق اپنے فعل کا مصدر ہوتا ہے یعنی فعل اور مفعول ایک ہی مصدر سے آتے ہیں ۔
اور مفعول لہ اپنے فعل کے مصدر سے مختلف مصدر ہوتا ہے ۔
ضربتُ ضرباً ۔۔۔ اور
قُمْتُ احتراماً ۔۔
قاعدہ اس کا یہ ہے "مفعول لہ " ۔ وہ مصدر منصوب ہے جو کام کے کرنے کی وجہ بتائے
مفعول مطلق ۔۔۔۔ تاکید ، کیفیت یا تعداد بتاتا ہے ۔ اور مفعول لہ وجہ یا سبب بتاتا ہے ۔
کچھ سمجھ آئی ۔۔ یا پہلی بھی گئی
*مفعول فیہ*
سمجھ لو کہ ۔۔۔" فیہ "۔۔ قواعد میں جہاں بھی ہو گا ظرف کا معنی دے گا ۔ یعنی اس میں یا تو " وقت " کا ذکر ہو گا یا پھر " جگہ" کا ۔ اور جیسا کہ معلوم ہے ظرف کی دو قسمیں ہیں
ظرف زماں اور ظرف مکاں
اب ۔۔ مفعول فیہ ۔۔ وہ مفعول منصوب ہے جس سے کام ہونے کے وقت یا جگہ کا پتہ چل سکے ۔
جیسے ۔۔ مَکَثْتُ فی لاھور شھراً ۔۔ میں لاھور میں ایک مہینہ ٹھری ۔
یعنی مدت معلوم ہوئی
شرِبَ المریضُ الدواء مَسَاءً ۔ ۔۔۔ مریض نے شام کو دوا پی ۔
شرب ۔۔ فعل ۔۔۔ المریض ۔۔۔ فاعل ۔۔ دوا ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ اور مساء ۔۔ مفعول فیہ
یہ تو ہوئی ظرف زماں کی مثال
اور ظرف مکاں میں جگہ کے بارے میں علم ہوتا ہے ۔
جَرَیٰ عَلِیُّ مِیْلاً ۔۔ علی ایک میل دوڑا
مَشَیْتُ اَمْسِ فَرْسَخاً
میں شام کو ایک فرسخ چلی ۔
۔ (ایک میڑ چلی ایل ڈی کی طرف ) ۔
سمجھے یا نہ سمجھے ۔
*مفعول معہ*
مفعول معہ ۔۔ اس مفعول منصوب کو کہتے ہیں جو "واو معیت
" with
کے بعد فعل کے معمول کا ساتھی یا شریک بن کر آتا ہے ۔ مثال سے سمجھو
سِرْتُ والنّھر
میں نہر کے ساتھ چلی ۔
اور
سَافَر النَّاسُ و الظَّلاَ مَ
لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔
ہر جملے میں پہلے ایک فعل اپنے معمول کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کے بعد "واو" ہے جو مع کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ایک اسم آیا جو " منصوب " ہے یہ اسم فعل کا معمول نہیں بلکہ ساتھی بن کر آیا ہے ۔
ترکیب دیکھو ۔۔۔
سِرْتُ وَ النَّھْرَ
سِرْتُ ۔۔۔ سار ۔۔ فعل اور اس میں ۔۔۔ "تُ" ضمیر متصل فاعل ہے ۔ اس کے بعد مع کے معنی میں "و" اور "و" کے بعد النھرَ اسم ۔۔ منصوب آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی ضمیر واحد متکلم "تُ" کے ساتھ چلنے میں شریک ہے ۔
مطلب یہ ہوگا ۔۔۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلی ۔۔۔ یعنی چلنے کے دوران ندی میرے ساتھ ساتھ رہی ۔
اسی طرح ۔۔
سَافَرَ النَّاسُ وَ الظَّلامَ
سافر ۔۔۔ فعل ۔۔۔ النّاس ۔۔۔ فاعل اس کا معمول ہے ۔۔۔ واؤ مع کے معنی میں اور اس کے بعد " الظّلام" منصوب ہو کر آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی " النّاس " کا سفر کے دوران شریک رہا ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔۔۔ لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔۔۔ یعنی لوگوں کے سفر کے دوران تاریکی بھی ساتھ رہی ۔
خوب دھیان سے سمجھ لو ۔
مفعول کی حالت نصبی ۔۔۔ یعنی ۔۔ زبر والی ہوتی ہے
علم النحو ۔۔۔ میں
بعض اوقات کلمہ پر " زبر " نظر نہیں آتی لیکن اس کی حالت نصبی ہوتی ہے ۔۔۔