علمائے اہل سنت اور جہاد

الف نظامی

لائبریرین
علامہ شاہ احمد نورانی کا انٹرویو از سہیل وڑائچ جنوری 2002

سوال: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بریلوی حضرات صوفیا کے پیرو کار ہیں اور امن پر یقین رکھتے ہیں ، اس لیے بریلوی جہاد میں متحرک نہیں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد دونوں سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے لوگ جہاد میں کم ہیں؟
شاہ احمد نورانی : علمائے بریلی نے انگریز کے خلاف جہاد کیا تھا۔ مولانا فضل حق خیر آبادی نے انگریز کے خلاف فتوی جہاد دیا ، جہاد کیا اور کالے پانی کی سزا بھی قبول کی۔ اسی طرح علامہ مدراسی اور مولانا شاہ عنایت کاکوروی کو پھانسی دی گئی تو جہاد تو کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد تحریک ٹھنڈی پڑ گئی۔ یہ بات صحیح ہے۔ دوسری طرف دیوبندیوں نے بھی سکھوں کے خلاف جہاد کیا ، انگریزوں کے ساتھ نہیں۔ ہم نے تو انگریزوں کے ساتھ جہاد کیا۔ جب انگریزوں کی حکومت مستحکم ہوگئی تو تحریک خلافت کے پلیٹ فارم پر تمام علمائے اہل سنت موجود تھے اور فتوے بھی موجود تھے۔
سوال: کشمیر اور افغانستان میں بریلوی مکتب فکر کے جہادیوں کی تعداد کم ہے؟
شاہ احمد نورانی: ہاں (طنزیہ انداز میں) اب آئیے کشمیر کے سلسلے میں ، ہم نے تو یہ فتوی نہیں دیا تھا کہ کشمیر میں جہاد نہیں ہے؟
سوال: تو پھر یہ فتوی کس نے دیا تھا ، وضاحت کریں؟
شاہ احمد نورانی: جنہوں نے آپ سے یہ کہا ہے ، آپ ان سے پوچھیے کہ مولانا مودودی کا فتوی کیا تھا؟ اب تو کشمیر اور افغانستان میں فتوی کے خلاف سب کچھ ہو رہا ہے۔
ہم نے تو کشمیر میں پہلے دن سے جہاد کیا۔ علامہ ابوالحسنات صاحب قادری یہیں لاہور سے کشمیر تشریف لے گئے اور یہاں ہر دوسرے تیسرے ہفتے سامان لیکر جاتے ، مجاھدین کی مدد کرتے اور بھرتی کرتے تھے۔ پیر کرم شاہ صاحب کے والد ماجد ، علامہ کاظمی ، علامہ عبد الحامد بدایونی اور پیر فضل شاہ جلالپوری یہ سب نہ صرف مریدین کو بھرتی کرکے جہاد کے لیے بھجواتے رہے بلکہ خود بھی جہاد پر جاتے تھے۔ بعد میں کشمیر میں خود جہاد نہیں ہوا۔ پھر یہ انتظار ہوتا رہا کہ اب یہ مسلہ حل ہوگا۔ اس کے بعد کشمیری مجاھدین نے خود جہاد شروع کردیا اور یہاں کی کئی تنظیمیں اس میں لگ گئیں۔ پھر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اس میں کوئی زیادہ دل چسپی نہیں لی اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ ٹھیک ہے چل رہا ہے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔، لیکن یہ زیادہ نمایاں نہیں تھا ، ہم نے تشہیری ذرائع کو زیادہ استعمال نہیں کیا اور اسی طرح ملک گیر سطح پر چندہ بھی حاصل نہیں کیا۔
سوال: یعنی؟
شاہ احمد نورانی: جہاد کشمیر کے لیے ملک گیر چندہ اکٹھا کرنا ، لوگوں سے پیسے اکٹھے کرنا اور کہنا کہ آو بھی جہاد فنڈ میں پیسے دو یہ کام ہم نے نہیں کیا اس لیے زیادہ شہرت بھی نہیں ہوئی۔ ہم مقامی طور پر کام کرتے رہتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔ کشمیر میں فرنٹ لائن پر ہم جاتے ہیں ، میں خود پچھلے سال گیا تھا اور کشمیر میں مولانا عتیق الرحمن بھی جو اسمبلی کے رکن ہیں وہ ہماری جمیعت علمائے جموں و کشمیر کے صدر بھی ہیں۔
سوال: آپ کے مخالفین کہتے ہیں کہ افغانستان کے جہاد میں آپ کا کوئی کردار نہیں رہا؟
شاہ احمد نورانی: آپ ان سے یہ پوچھیے کہ سید احمد گیلانی اور مولانا نبی محمدی اور صبغت اللہ مجددی جہاد کی فرنٹ لائن پر تھے ، یہ کون لوگ ہیں؟ یہ سب ہمارے مکتب فکر کے لوگ ہیں ، یہ افغانستان کے رہنے والے تھے اور ہم ان کی مدد کر رہے تھے۔ سید احمد گیلانی تو بغداد شریف کے پیر صاحب ہیں اور یہ خاندان ڈیڑھ سو سال پہلے وہاں جاکر آباد ہوا تھا۔ یہ سبھی درود و سلام پڑھنے والے لوگ ہیں۔ افغانستان کے جہاد میں ہمارا ان جماعتوں سے رابطہ رہتا تھا۔ ہم نے الگ کوئی جماعت نہیں بنائی۔ بلکہ جن کے متعلق ہمیں معلوم تھا کہ یہ اچھے اور دیانت دار لوگ ہیں اور کام کر رہے ہیں ، ان کی ہم مدد کرتے تھے۔
سوال: کیا افغان جہاد کے بارے میں آپ کے کوئی تحفظات تھے؟
شاہ احمد نورانی: نہیں تحفظات نہیں تھے بلکہ جان بوجھ کر ہمیں الگ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ کیوں کہ اس زمانے میں آپ کو معلوم ہے کہ ضیاء الحق صاحب سے ہماری کچھ کھٹ پٹ رہتی تھی ، تو جن جماعتوں کی کھٹ پٹ نہیں تھی ان کو مدد ملتی تھی اور ان ہی کو کیمپوں میں جانے کی اجازت تھی۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
سوال: کیا آپ کو کیمپوں‌میں جانے سے روکا گیا؟
شاہ احمد نورانی: نہیں ، کیمپوں میں‌جانے کی اجازت ہی نہیں تھی کیوں کہ کیمپوں کے ٹھیکے دئیے گئے تھے۔
 

طالوت

محفلین
ایک لاحاصل بحث کا آغاز کر رہے ہیں آپ ۔۔۔۔ سنی جہاد کونسل تو یاد ہی ہو گی اور اس کا کردار بھی ۔۔۔ پھر آپ فرقہ واریت کی شکایت کرتے ہیں ۔۔۔ اور آپ کا اپنا یہ عمل کس کھاتے میں ڈالا جائے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وسلام
 

مغزل

محفلین
ہمم بات تو ہونی چاہیئے !! حق پر مبنی بات ہو تعصب نہ برتا جائے ۔۔ تو بات ہونی چاہیئے ، بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔۔
علم میں اضافہ کی کوئی اور صورت نہیں ماسوائے مجالسِ بزرگاں و مباحثِ علمی کے !
 

طالوت

محفلین
بھیا سچ پوچھو تو اب مجھے چڑ ہونے لگی ہے یہ آپسی رنجشوں پر ۔۔۔ ٹھیکے سب کے پاس ہیں ۔۔ ان کے پاس جہاد کے ان کے پاس مزاروں درباروں کے ۔۔ اور کاروبار دونوں خوب چلتے ہیں پاکستان میں ۔۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
سچ پوچھیں تو مجھ آپ الف نظامی اور فیصل دونوں کی بات سمجھ نہیں آئی کہ ذہن پہلے ہی کافی الجھا ہوا ہے ۔۔۔ اگر آپ دونوں وضاحت کر سکیں تو یقیننا آپ کو اپنی رائے سے آگاہ کروں گا
وسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
طالوت میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اہل سنت کا قتل کرنا اور ان کی مساجد پر قبضے کرنا بھی جہادی ایجنڈے میں شامل نہیں ہے نا؟
فرما گئے یہ ہادی
لانبی بعدی
 

طالوت

محفلین
بھیا داستان ایسی ایسی ہیں کہ بیان کروں تو شاید سر شرم سے جھک جائیں ۔۔۔ اب خود سوچ لیجیئے یہ کیسا کلنک ہے ہمارے ماتھوں پر کہ خانہ خدا پر بھی قبضے ہوتے ہیں کہ جیسا اُن کا‌خدا کوئی اور اوو اِن کا کوئی اور ۔۔۔ تو اس موضوع کو نہ چھیڑیں ، میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر اپنے اپنے مسالک کی نمائندگی کرنیوالوں کے ہی دل جلیں گے ۔۔۔
وسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو سب لوگ چھپانا اور اس پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتے خاکم بدہن یہ مرض ہماری وحدت (باقی ماندہ) کو پارہ پارہ کردے۔
 

طالوت

محفلین
چھپانے کا ارادہ نہیں کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پھر کوئی بھی حقیقت کی طرف نہیں آئے گا سب خود کو ڈیفینڈ کرنے لگ جائیں گے ۔۔۔ کیونکہ ہم نے قسم کھا رکھی ہے اپنے نظریات کو دوسروں پر ٹھونس کر ہی رہنا ہے ۔۔۔
وسلام
 

خاور بلال

محفلین
سوال: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بریلوی حضرات صوفیا کے پیرو کار ہیں اور امن پر یقین رکھتے ہیں ، اس لیے بریلوی جہاد میں متحرک نہیں ہیں؟ مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد دونوں سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے لوگ جہاد میں کم ہیں؟

ہمارے دور کے صوفیوں نے تصوف کو ایسی آلائشوں سے آلودہ کردیا ہے کہ انہیں دیکھ کر اب یقین نہیں آتا کہ کسی دور میں صوفیا نے جہاد کیا ہوگا۔ ورنہ حقیقت میں دینِ اکبری کو چیلنج کرنےاور اس کے خلاف جہاد کرنے والے طاقتور ترین شخص “مجدد الف ثانی رح“ صوفی ہی تھے۔ سائبیریا میں روسی استبداد کو جس نے سب سے زیادہ ٹھیس پہنچائ وہ بھی صوفی تھے، یعنی امام شامل۔آج کل جس طرح گلی محلے میں تصوف کی فصل اگی ہوئ ہے یہ اگر کسی سچے صوفی کے دور میں ہوتی تو وہ سب سے پہلے تصوف کی اس خودرو فصل کو اکھاڑتے۔ ہمارے دور میں آتے آتے اسلام کبوتر کے کابکوں کی طرح مختلف خانوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ ایک خانہ صوفیوں کا دوسرا جہادیوں کا، ایک خانہ روشن خیالوں کے نام ہے اور اسی طرح کے کئ اور خانے ہیں جن میں گھسی انسان نما مخلوق بس اپنے دڑبے کو ہی کل کائنات سمجھتی ہے۔ ممکن ہے کسی دن یہ ساری مخلوق اپنے دڑبوں سے باہر نکلے اور زمین پر قدم رکھے اور اپنے بے حسی پر شرمسار ہو لیکن خدا سے یہ بھی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس مخلوق کو انکے دڑبوں سمیت ہی بھسم کردے، کیا خدا کو اس دنیا میں انسانوں کی کمی ہے اسلام کا علم اٹھانے کے لیے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصوف dynamic نہیں ہوتا اور تصوف افیون ہے تو ان لوگوں کے لیے چند مثالیں:
امام شامل کا روس میں جہاد
مجدد الف ثانی کا اکبر کے خلاف جہاد
خواجہ معین الدین چشتی کا جہاد ہندوستان غوری کی امداد کی صورت میں
جہاد کشمیر:
پیر فضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ جہاد کشمیر میں حزب اللہ آزاد کشمیر فورس میں جہاد بمعہ مریدین
بحوالہ جہاد کشمیر 1948 از میحر امیر افضل خان (حضور پاک کا سپاہی )
مولانا ابو البرکات
پیر محمد شاہ (جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کے والد ماجد) امیر جند اللہ
علامہ کاظمی
علامہ عبد الحامد بدایونی
ابو انیس صوفی برکت علی لدھیانوی کا جہاد کشمیر

صوفیا اور ان کے پیرو کاروں نے الحمد للہ جہاد میں حصہ لیا ہے اور آئندہ بھی لیتے رہیں گے۔ لیکن کوئی اس بات کی وضاحت بھی تو کرئے کہ اھل سنت کے علمائے کو جہادی کیمپوں کے‌ ٹھیکے کیوں نہیں دیے گئے؟ مزید یہ کہ جہادی گروہوں کو کس نے اجازت دی تھی کہ وہ حاصل کردہ اسلحہ کو اپنے اپنے فرقہ کی ترویج کے لیے استعمال کریں
یہاں میرا موقف یہ ہے کہ جہاد کے ٹھیکے اہل سنت کو نہیں دیے جس کی وجہ سے مسلک پرست جماعتوں (جنہیں جہاد کے ٹھیکے دیے گئے تھے) نے امریکہ ، روس اور ہندوستان کو فتح کرنے کے اھل سنت کو فتح کرنا شروع کردیا۔
کراچی میں ۵۰۰ مساجد پر قبضہ اور اس کے ردعمل میں سنی تحریک کا قیام اور سانحہ نشتر پارک اس کی بین مثال ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ ملا فضل الرحمن جو جہاد کشمیر کو جہاد فی سبیل اللہ نہیں سمجھتے اور آج کل کشمیر کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں اور قاضی‌ صاحب بمعہ مولانا سمیع الحق تینوں جہاد کشمیر کے سلسلہ میں کیوں چپ ہیں اور اپنے زیر اثر جہادی جماعتوں کو کیوں سلا رکھا ہے؟؟؟
یہی سوال حافظ سعید سے پوچھیں اور یہی سوال مولانا مسعود ازہر چشتی سے بھی پوچھ لیں۔ جن لوگوں نے انہیں جہاد کشمیر سے روک رکھا ہے انہوں ہی نے اھل سنت کو جہاد کے ٹھیکے نہیں لینے دیے لیکن اھل سنت کو ٹھیکے نہ لینے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلح گروہوں نے جہاد کے بجائے اھل سنت کے خلاف مسلکی جہاد شروع کردیا
 

خاور بلال

محفلین
میرے خیال میں آپ تحریک آزادی کشمیر کی نہیں بلکہ جہادِ کشمیر کے نام پر پاکستان میں کھلنے والی ڈھیر ساری دکانوں کی بات کررہے ہیں اور آپ کا کہنا شاید یہ ہے کہ اہل سنت کو اس دکانداری سے کیوں محروم کیا گیا۔ آپ کی شکایت درست ہے۔ اس منڈی میں اہلِ سنت کو بھی ایک دکان ملنی چاہیے تھی تاکہ دیگر مخالف تنظیموں سے برابری کے لیے وافر مقدار میں اسلحہ مل جاتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
میرے خیال میں آپ تحریک آزادی کشمیر کی نہیں بلکہ جہادِ کشمیر کے نام پر پاکستان میں کھلنے والی ڈھیر ساری دکانوں کی بات کررہے ہیں اور آپ کا کہنا شاید یہ ہے کہ اہل سنت کو اس دکانداری سے کیوں محروم کیا گیا۔ آپ کی شکایت درست ہے۔ اس منڈی میں اہلِ سنت کو بھی ایک دکان ملنی چاہیے تھی تاکہ دیگر مخالف تنظیموں سے برابری کے لیے وافر مقدار میں اسلحہ مل جاتا۔
جنہیں اسلحہ ملا انہوں نے کیا کیا؟؟
یہاں میرا موقف یہ ہے کہ جہاد کے ٹھیکوں میں‌ اھل سنت کو شریک نہ کرنے اور جہادی تنظیموں پر چیک اینڈ بیلینس نہ رکھنے کی وجہ سے ، جہادی تنظیموں کے وابستگان نے جہاد کے ساتھ ساتھ مسلکی جہاد بھی شروع کردیا اور اھل سنت کو فتح کرنے کی کاوشیں شروع کردیں جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرہ میں فرقہ واریت میں شدید اضافہ ہوا۔
 
Top