علامہ دہشتناک : صفحہ 58-59 : چھبیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


2nqed8h.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

شکاری

محفلین
علامہ دہشت ناک صفحہ 26
داری حزب اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔!“
اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کردے کہ وہ بااہل ہونے کے باوجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے!“ علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔!“
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔صرف اسی کا بیان۔۔۔۔شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے۔!“
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔!“
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔! اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔!“
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔!“
“ٹھہرو!“ علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔!“
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔!“
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔“
“میں سمجھ گیا۔“ پٹیر سر ہلا کر بولا۔! “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔!“
“بالکل ٹھیک ہے۔!“
تو پھر جیسافرمایئے۔!“
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہوجاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا۔اور اندر چلے جانا۔۔۔۔پھر ٹیھک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کرکے صرف لفظ انفارمیشن کہنا۔ تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔! اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آجانا۔!“
“بہت بہتر جناب۔!“ پٹیر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا۔ کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈآئل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔! کافی کا آرڈر دےکر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہاتھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا۔ اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنےکی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائیل کئے تھے۔!
“ہیلو۔۔۔۔!“دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن!“ اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔!سب ٹھیک ہے!“
اس کے بعد سلسہ منقطع ہونے کہ آواز آئی تھی۔ پٹیر نے اپنی میز پر واپس آکر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آگیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جارہی تھی۔۔۔۔ذراہی دور گیاتھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہپی معلوم ہوتی تھی۔!
“مجھے لفٹ دے دو۔!“اس نے کہا۔ جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔!
“کہاں جانا ہے۔!“
لیکن جواب دئیے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی۔ لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جاناہے۔
“کہاں چلو گی؟“ پٹیر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔!“
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتادو!“ پٹیر بولا۔ “ میں بہت مصروف آدمی ہوں۔!“
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔!“ عورت تلخ لہجے میں بولی۔ اور پٹیر نے اندازہ لگالیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔!
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔!“
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔!“
 

شکاری

محفلین
یہ صفحہ پروف ریڈنگ نہیں ہے اس کے لیے میں اپنی ٹیم سے کہا ہے ۔ جب وہ اسے اوکے کردے گی تو میں اپنی اسی پوسٹ کو ایڈیٹ کردوں گا۔
اگر کوئی اور پروف ریڈنگ کرنا چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی ۔ کیونکہ ہمیں اپنی ٹیم کے لیے ایک ریڈر کی ضرورت ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
علامہ دہشت ناک صفحہ 26
داری حزب اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔!“
اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کردے کہ وہ بااہل ہونے کے باوجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے!“ علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔!“
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔صرف اسی کا بیان۔۔۔۔شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے۔!“
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔!“
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔! اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔!“
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔!“
“ٹھہرو!“ علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔!“
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔!“
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔“
“میں سمجھ گیا۔“ پٹیر سر ہلا کر بولا۔! “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔!“
“بالکل ٹھیک ہے۔!“
تو پھر جیسافرمایئے۔!“
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہوجاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا۔اور اندر چلے جانا۔۔۔۔پھر ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کرکے صرف لفظ انفارمیشن کہنا۔ تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔! اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آجانا۔!“
“بہت بہتر جناب۔!“ پٹیر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا۔ کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈائل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔! کافی کا آرڈر دےکر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہاتھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا۔ اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنےکی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائیل کئے تھے۔!
“ہیلو۔۔۔۔!“دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن!“ اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔!سب ٹھیک ہے!“
اس کے بعد سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔ پٹیر نے اپنی میز پر واپس آکر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آگیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جارہی تھی۔۔۔۔ذراہی دور گیاتھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہپی معلوم ہوتی تھی۔!
“مجھے لفٹ دے دو۔!“اس نے کہا۔ جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔!
“کہاں جانا ہے۔!“
لیکن جواب دئیے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی۔ لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جاناہے۔
“کہاں چلو گی؟“ پٹیر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔!“
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتادو!“ پٹیر بولا۔ “ میں بہت مصروف آدمی ہوں۔!“
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔!“ عورت تلخ لہجے میں بولی۔ اور پٹیر نے اندازہ لگالیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔!
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔!“
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔!




میں نے اس کو ایک بار پڑھ لیا ہے اب دوسری باری جیہ آپی پڑھے گی
اچھا مجھے یہ بتایا جائے یہ لفظ پیٹر ہے یا پٹیر ہے
 

جیہ

لائبریرین
پروف بار دوم: جویریہ


داری حزبِ اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔”
اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کر دے کہ وہ نا اہل ہونے کے با وجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے” علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔”
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔ صرف اسی کا بیان۔۔۔۔ شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے؟”
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔”
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔ اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔”
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔”
“ٹھہرو!” علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔”
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔”
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔”
“میں سمجھ گیا۔” پیٹر سر ہلا کر بولا۔ “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔”
“بالکل ٹھیک ہے۔”
تو پھر جیسا فرمایئے۔”
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہو جاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔ وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا اور اندر چلے جانا۔۔۔۔ پھرٹھیک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کر کے صرف لفظ انفارمیشن کہنا، تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آ جانا۔”
“بہت بہتر جناب۔” پیٹر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا۔ داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈائل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔ کافی کا آرڈر دے کر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہا تھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنے کی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائل کئے تھے۔
“ہیلو۔۔۔۔”دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن۔” اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے”
اس کے بعد سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔ پیٹر نے اپنی میز پر واپس آکر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آ گیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔ ذرا ہی دور گیا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہیپی معلوم ہوتی تھی۔
“مجھے لفٹ دے دو۔”اس نے کہا، جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔
“کہاں جانا ہے؟”
لیکن جواب دیئے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جاناہے۔
“کہاں چلو گی؟” پیٹر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔”
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتا دو” پیٹر بولا۔ “ میں بہت مصروف آدمی ہوں۔”
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔” عورت تلخ لہجے میں بولی اور پیٹر نے اندازہ لگا لیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔”
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:



داری حزبِ اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔”
اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کر دے کہ وہ نا اہل ہونے کے با وجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے” علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔”
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔ صرف اسی کا بیان۔۔۔۔ شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے؟”
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔”
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔ اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔”
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔”
“ٹھہرو!” علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔”
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔”
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔”
“میں سمجھ گیا۔” پیٹر سر ہلا کر بولا۔ “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔”
“بالکل ٹھیک ہے۔”
تو پھر جیسا فرمایئے۔”
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہو جاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔ وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا اور اندر چلے جانا۔۔۔۔ پھرٹھیک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کر کے صرف لفظ انفارمیشن کہنا، تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آ جانا۔”
“بہت بہتر جناب۔” پیٹر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا۔ داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈائل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔ کافی کا آرڈر دے کر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہا تھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنے کی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائل کئے تھے۔
“ہیلو۔۔۔۔”دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن۔” اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہے”
اس کے بعد سلسلہ منقطع ہونے کی آواز آئی تھی۔ پیٹر نے اپنی میز پر واپس آ کر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آ گیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جا رہی تھی۔۔۔۔ ذرا ہی دور گیا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہیپی معلوم ہوتی تھی۔
“مجھے لفٹ دے دو۔”اس نے کہا، جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔
“کہاں جانا ہے؟”
لیکن جواب دیئے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جاناہے۔
“کہاں چلو گی؟” پیٹر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔”
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتا دو” پیٹر بولا۔ “ میں بہت مصروف آدمی ہوں۔”
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔” عورت تلخ لہجے میں بولی اور پیٹر نے اندازہ لگا لیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔”
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top