علامہ دہشتناک : صفحہ 48-49 : اکیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



4r855g.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

زھرا علوی

محفلین
ٹائپنگ : شمشاد صاحب



اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔!"
"پھر میں کیا کرو۔! عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی گزرے چپ چاپ جھیلتے رہو اور مگن رہو۔!"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سنا رہے ہیں!" شیلا نے اسے گھورتے ہوئے حیرت سے کہا۔
وہ سوچنے لگی تھی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی۔!
"یہ نئی بات نہیں ہے محترمہ۔۔۔!"
میرے لئے تو بالکل نئی بات ہے! کوئی بھی دیدہ دانستہ بے وقوف بننا پسند نہیں کرتا۔!"
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے وہ اسی کش مکش میں مبتلا ہے۔!"
"اسے بے وقوف بننا چاہئے یا نہیں! جو بے وقوف نہیں بننا پسند کرتے وہ زندگی بھر جھلستے رہتے ہیں۔!"
"آپ بھی بے وقوف نہیں معلوم ہوتے۔!"
"جنہیں نہیں معلوم ہوتا وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہوتا ہوں وہ مجھےمزید بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔!"
"اور آپ بنتے ہیں۔!"
"بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔ یہی ہے زندگی۔۔۔ اور بڑی خوبصورت زندگی ہے اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔!"
"اوہ۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی آپ کیا پیتے ہیں۔!"
"ٹھنڈا پانی۔!"
"میرا مطلب تھا مشروبات میں۔۔۔ اس وقت کیا پئیں گے۔!"
"جو کچھ میسر آ جائے۔!"
"وہسکی منگاؤں آپ کے لئے۔!"
"محترمہ۔۔۔ محترمہ۔۔۔ مشروبات سے میری مراد ہمیشہ چائے کافی یا کولڈ ڈرنک ہوتی ہے۔ میں شراب نہیں پیتا۔!"
"معاف کیجئے گا۔۔۔!"
"آپ کچھ پینا چاہیں تو منگو لیں۔!"
"جب آپ نہیں پیتے تو آپ کے سامنے نہیں پئیوں گی۔!"
"آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں۔ مجھے قطعی بُرا نہیں لگے گا۔!"
"میں بور ہو کر شہر سے بھاگی تھی۔!"
"کیا میں آپ کو بور کر رہا ہوں۔!"
"ہرگز نہیں۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آپ تو بالکل ہی نئی قسم کے آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ دراصل میں بہت پریشان ہوں۔!"
"آپ محض اس لئے پریشان ہیں کہ خود کو عقل مند سمجھتی ہیں۔!"
"کیا مطلب!" وہ چونک کر اسے گھورنے لگی۔
"کیا میں آپ کے لئے مارٹینی منگواؤں۔۔۔!"
"شکریہ! شدت سے ضرورت محسوس کر رہی ہوں!"
عمران نے فون پر روم سروس سے رابطہ قائم کر کے مارٹینی اور کافی طلب کی تھی۔!
"آپ نے ابھی تک میرا نام بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔!" شیلا نے کہا۔
"مجھے نام یاد نہیں رہتے۔ اسی لئے پوچھتا بھی نہیں ہوں۔!"
"میرا نام شیلا ہے۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔!"
"شکیلہ فضل امام ہوتا تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔!"
"میں نہیں سمجھی۔!"
"بس آدمی کا بچہ ہونا کافی ہے نام کچھ بھی ہو۔!"
"آپ مجھے بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔!"
"سب سے بڑی حماقت وہی ہے جسے لوگ ذہانت کہتے ہیں۔!"
"یہ کیا بات ہوئی۔"
"ذہانت نے آدمی کو نظریات دئیے ہیں۔۔۔ اور وہ نظریات کی پوٹ بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ آدمی نہیں رہا۔"
 

زھرا علوی

محفلین
اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بیوقوف بناتے رہتے ہیں۔!"
"پھر میں کیا کرو۔! عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی گزرے چپ چاپ جھیلتے رہو اور مگن رہو۔!"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سنا رہے ہیں!" شیلا نے اسے گھورتے ہوئے حیرت سے کہا۔
وہ سوچنے لگی تھی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی۔!
"یہ نئی بات نہیں ہے محترمہ۔!"
میرے لئے تو بالکل نئی بات ہے! کوئی بھی دیدہ و دانستہ بے وقوف بننا پسند نہیں کرتا۔!"
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے وہ اسی کش مکش میں مبتلا ہے۔!"
"کس کشمکش میں؟"
"اسے بے وقوف بننا چاہئے یا نہیں! جو بے وقوف نہیں بننا پسند کرتے وہ زندگی بھر جھلستے رہتے ہیں۔!"
"آپ بھی بے وقوف نہیں معلوم ہوتے۔!"
"جنہیں نہیں معلوم ہوتا وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہوتا ہوں وہ مجھےمزید بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔!"
"اور آپ بنتے ہیں؟"
"بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔ یہی ہے زندگی۔۔۔ اور بڑی خوبصورت زندگی ہے اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔!"
"اوہ۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی آپ کیا پیتے ہیں؟"
"ٹھنڈا پانی۔!"
"میرا مطلب تھا مشروبات میں۔۔۔ اس وقت کیا پئیں گے؟"
"جو کچھ میسر آ جائے۔!"
"وہسکی منگاؤں آپ کے لئے؟"
"محترمہ۔۔۔ محترمہ۔۔۔ مشروبات سے میری مراد ہمیشہ چائے کافی یا کولڈ ڈرنک ہوتی ہے۔ میں شراب نہیں پیتا۔!"
"معاف کیجئے گا۔۔۔!"
"آپ کچھ پینا چاہیں تو منگو لیں۔!"
"جب آپ نہیں پیتے تو آپ کے سامنے نہیں پئیوں گی۔!"
"آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں۔ مجھے قطعی بُرا نہیں لگے گا۔!"
"میں بور ہو کر شہر سے بھاگی تھی۔!"
"کیا میں آپ کو بور کر رہا ہوں؟"
"ہرگز نہیں۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آپ تو بالکل ہی نئی قسم کے آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ دراصل میں بہت پریشان ہوں۔!"
"آپ محض اس لئے پریشان ہیں کہ خود کو عقل مند سمجھتی ہیں۔!"
"کیا مطلب؟" وہ چونک کر اسے گھورنے لگی۔
"کیا میں آپ کے لئے مارٹینی منگواؤں؟"
"شکریہ! شدت سے ضرورت محسوس کر رہی ہوں!"
عمران نے فون پر روم سروس سے رابطہ قائم کر کے مارٹینی اور کافی طلب کی تھی۔!
"آپ نے ابھی تک میرا نام بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔!" شیلا نے کہا۔
"مجھے نام یاد نہیں رہتے۔ اسی لئے پوچھتا بھی نہیں ہوں۔!"
"میرا نام شیلا ہے۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔!"
"شکیلہ فضل امام ہوتا تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔!"
"میں نہیں سمجھی۔!"
"بس آدمی کا بچہ ہونا کافی ہے نام کچھ بھی ہو۔!"
"آپ مجھے بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔!"
"سب سے بڑی حماقت وہی ہے جسے لوگ ذہانت کہتے ہیں۔!"
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"ذہانت نے آدمی کو نظریات دئیے ہیں۔۔۔ اور وہ نظریات کی پوٹ بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ آدمی نہیں رہا۔"


پروف ریڈنگ : اول۔۔۔۔مکمل۔۔۔۔زہرا علوی
 

جیہ

لائبریرین
اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"
"پھر میں کیا کروں؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی گزرے چپ چاپ جھیلتے رہو اور مگن رہو۔"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سنا رہے ہیں" شیلا نے اسے گھورتے ہوئے حیرت سے کہا۔
وہ سوچنے لگی تھی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی۔
"یہ نئی بات نہیں ہے محترمہ۔"
میرے لئے تو بالکل نئی بات ہے کوئی بھی دیدہ و دانستہ بے وقوف بننا پسند نہیں کرتا۔"
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے، وہ اسی کش مکش میں مبتلا ہے۔"
"کس کشمکش میں؟"
"اسے بے وقوف بننا چاہئے یا نہیں۔ جو بے وقوف نہیں بننا پسند کرتے وہ زندگی بھر جھلستے رہتے ہیں۔"
"آپ بھی بے وقوف نہیں معلوم ہوتے۔"
"جنہیں نہیں معلوم ہوتا وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہوتا ہوں وہ مجھےمزید بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔"
"اور آپ بنتے ہیں؟"
"بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔ یہی ہے زندگی۔۔۔ اور بڑی خوبصورت زندگی ہے۔ اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔"
"اوہ۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی آپ کیا پیتے ہیں؟"
"ٹھنڈا پانی۔"
"میرا مطلب تھا مشروبات میں۔۔۔ اس وقت کیا پئیں گے؟"
"جو کچھ میسر آ جائے۔"
"وہسکی منگاؤں آپ کے لئے؟"
"محترمہ۔۔۔ محترمہ۔۔۔ مشروبات سے میری مراد ہمیشہ چائے کافی یا کولڈ ڈرنک ہوتی ہے۔ میں شراب نہیں پیتا۔"
"معاف کیجئے گا۔۔۔"
"آپ کچھ پینا چاہیں تو منگوا لیں۔"
"جب آپ نہیں پیتے تو آپ کے سامنے نہیں پیوں گی۔"
"آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں، مجھے قطعی بُرا نہیں لگے گا۔"
"میں بور ہو کر شہر سے بھاگی تھی۔"
"کیا میں آپ کو بور کر رہا ہوں؟"
"ہرگز نہیں۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آپ تو بالکل ہی نئی قسم کے آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ دراصل میں بہت پریشان ہوں۔"
"آپ محض اس لئے پریشان ہیں کہ خود کو عقل مند سمجھتی ہیں۔"
"کیا مطلب؟" وہ چونک کر اسے گھورنے لگی۔
"کیا میں آپ کے لئے مارٹینی منگواؤں؟"
"شکریہ شدت سے ضرورت محسوس کر رہی ہوں"
عمران نے فون پر روم سروس سے رابطہ قائم کر کے مارٹینی اور کافی طلب کی تھی۔
"آپ نے ابھی تک میرا نام بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔" شیلا نے کہا۔
"مجھے نام یاد نہیں رہتے اسی لئے پوچھتا بھی نہیں ہوں۔"
"میرا نام شیلا ہے۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔"
"شکیلہ فضل امام ہوتا تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔"
"میں نہیں سمجھی۔"
"بس آدمی کا بچہ ہونا کافی ہے نام کچھ بھی ہو۔"
"آپ مجھے بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔"
"سب سے بڑی حماقت وہی ہے جسے لوگ ذہانت کہتے ہیں۔"
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"ذہانت نے آدمی کو نظریات دیئے ہیں۔۔۔ اور وہ نظریات کی پوٹ بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ آدمی نہیں رہا۔"


پروف ریڈنگ : اول۔۔۔۔مکمل۔۔۔۔زہرا علوی
بار دوم: جویریہ
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

اور میں تو اس کا عادی ہوں۔ میرے ملازم ہی مجھے صبح سے شام تک بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔"
"پھر میں کیا کروں؟ عقل مندوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جو کچھ بھی گزرے چپ چاپ جھیلتے رہو اور مگن رہو۔"
"آپ تو ایک بالکل ہی نئی بات سنا رہے ہیں" شیلا نے اسے گھورتے ہوئے حیرت سے کہا۔
وہ سوچنے لگی تھی کہ ذہین کہلانے کا اہل علامہ دہشت ہے یا یہ بیوقوف آدمی۔
"یہ نئی بات نہیں ہے محترمہ۔"
میرے لئے تو بالکل نئی بات ہے کوئی بھی دیدہ و دانستہ بے وقوف بننا پسند نہیں کرتا۔"
"جب سے آدمی کو اپنا ادراک ہوا ہے، وہ اسی کش مکش میں مبتلا ہے۔"
"کس کشمکش میں؟"
"اسے بے وقوف بننا چاہئے یا نہیں۔ جو بے وقوف نہیں بننا پسند کرتے وہ زندگی بھر جھلستے رہتے ہیں۔"
"آپ بھی بے وقوف نہیں معلوم ہوتے۔"
"جنہیں نہیں معلوم ہوتا وہ مجھ سے دور بھاگتے ہیں۔ جنہیں معلوم ہوتا ہوں وہ مجھےمزید بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔"
"اور آپ بنتے ہیں؟"
"بننا ہی پڑتا ہے۔۔۔ یہی ہے زندگی۔۔۔ اور بڑی خوبصورت زندگی ہے۔ اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔"
"اوہ۔۔۔ میں تو بھول ہی گئی تھی آپ کیا پیتے ہیں؟"
"ٹھنڈا پانی۔"
"میرا مطلب تھا مشروبات میں۔۔۔ اس وقت کیا پئیں گے؟"
"جو کچھ میسر آ جائے۔"
"وہسکی منگاؤں آپ کے لئے؟"
"محترمہ۔۔۔ محترمہ۔۔۔ مشروبات سے میری مراد ہمیشہ چائے کافی یا کولڈ ڈرنک ہوتی ہے۔ میں شراب نہیں پیتا۔"
"معاف کیجئے گا۔۔۔"
"آپ کچھ پینا چاہیں تو منگوا لیں۔"
"جب آپ نہیں پیتے تو آپ کے سامنے نہیں پیوں گی۔"
"آپ خواہ مخواہ تکلف کر رہی ہیں، مجھے قطعی بُرا نہیں لگے گا۔"
"میں بور ہو کر شہر سے بھاگی تھی۔"
"کیا میں آپ کو بور کر رہا ہوں؟"
"ہرگز نہیں۔۔۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آپ تو بالکل ہی نئی قسم کے آدمی ہیں۔ آپ کے ساتھ بور ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ دراصل میں بہت پریشان ہوں۔"
"آپ محض اس لئے پریشان ہیں کہ خود کو عقل مند سمجھتی ہیں۔"
"کیا مطلب؟" وہ چونک کر اسے گھورنے لگی۔
"کیا میں آپ کے لئے مارٹینی منگواؤں؟"
"شکریہ شدت سے ضرورت محسوس کر رہی ہوں"
عمران نے فون پر روم سروس سے رابطہ قائم کر کے مارٹینی اور کافی طلب کی تھی۔
"آپ نے ابھی تک میرا نام بھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔" شیلا نے کہا۔
"مجھے نام یاد نہیں رہتے اسی لئے پوچھتا بھی نہیں ہوں۔"
"میرا نام شیلا ہے۔۔۔ شیلا دھنی رام۔۔۔"
"شکیلہ فضل امام ہوتا تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا۔"
"میں نہیں سمجھی۔"
"بس آدمی کا بچہ ہونا کافی ہے نام کچھ بھی ہو۔"
"آپ مجھے بہت ذہین معلوم ہوتے ہیں۔"
"سب سے بڑی حماقت وہی ہے جسے لوگ ذہانت کہتے ہیں۔"
"یہ کیا بات ہوئی؟"
"ذہانت نے آدمی کو نظریات دیئے ہیں۔۔۔ اور وہ نظریات کی پوٹ بن کر رہ گیا ہے۔۔۔ آدمی نہیں رہا۔"
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top