سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 42 - 43
”میری کمپنگ کبھی ڈھکی چھپی نہیںرہتی۔ ۔ ۔ !“ اب بہیترے جانتے ہوں گے کہ اس میں کس کس نے شرکت کی تھی۔ دراصل میںکالی بھیڑوں کا پانے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا یہ کسی طرح بھی برداشت نہیںکر سکتا کہ کوئی اپنے گھر والوں کو دھوکے میں رکھ کر میرے حلقے میں شامل ہو۔! علی الاعلان آسکتے ہو تو آؤ۔ ۔ ۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں ۔تم شیلا کو کیا سمجھتے ہو صرف ایڈونچر کے لئے ہمارے قریب آئی تھی۔ یاسمین احساس کمتری کا شکارتھی۔ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتی تھی کہ شیلا جیسی دولت مند لڑکی اسے گھاس ڈالتی ہے۔“
”تو پھر شیلاکو ۔ ۔ ۔ !“
”میں سمجھ گیا!“ علامہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ” تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ پھر شیلا کو راستے سے ہٹادنے سے کیا فرق پڑےگا۔“
”جی ہاں۔!“
”اگر وہ پاگل ہوگئی اور میڈیکل ٹسٹ نے یہ ثابت کر دیا وہ پاگل نہیں ہے تو یاسمین والا معاملہ صرف اسی کے گرد گھوم کر رہ جائے گا۔ ۔ ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دونوں میری کیمپنگ میں شامل تھیں۔!“
”میں سمجھ گیا جناب۔!“
علامہ دہشت کی کوٹھی سے نکل کر شیلا اپنی اسپورٹ کار میں بھٹی تھی اور اس کا تعین کئے بغیر کہ کہاں جانا ہے چل پڑی تھی ۔ عجیب طرح کا موڈ تھا ۔ بڑی گھٹن محسوس کر رہی تھی۔
سوشیالوجی کی طالبہ ہونے کی بنا پر علامہ سے بالکل ہی قطع تعلق ممکن نہیںتھا۔ اب وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ شوچ رہی تھی کہ اسے یی سال جائع کرکے اپنا مضمون ہی بدل دینا چاہئے ۔ علامہ کے تصور سے بھی وحشت ہوریی تھی۔
بے خیالی میں گاڑی شہر سے باہر نکل آئی۔ دفعتاََ وہ چونک پڑی پہلے اسے یہ خیال کیوں نہ آیا تھا۔ آخر علامہ اتنا دولت مند کہاں سے ہو گیا۔ کیمپ میںوہ اس کی کہانی بھی سن چکی تھی۔
شہر میںعلامہ کی کئی کوٹھیاں تھیں ۔ روپیہ پانی کی طرح بہاتا تھا۔ درجنوں نادار طلبہ اس کی مدد سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بے راہ روی کا شکار ہو کر مقروض ہوجانیوالے طلباء کی آخری امید گاہ بھی وہی تھا۔ بڑی فراخ دلی سے ان کی امداد کرتا تھا۔
کہاں سے آتی اتنی دولت۔ کیا وہ اپنی ذہانت سے کام لے کر غیر قانونی ذرائع سے دولت کما رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ اور وہ جہنم میں جائے۔ ۔ ۔ وہ تو اس نے اس کی شخصیت میںایک خاص قسم کی کشش محسوس کی تھی ۔ جو عام طور پر لوگوں میں نہیں پائی جاتی ورنہ اس کے قریب رہنے کی خواہش ہی نہ پیدا ہوتی
وہ اپنے ذہین کو ٹٹولنے لگی۔ اس توقع کا تجزیہ کرنے لگی جس کی با پر وہ اس کے حلقے میں شامل ہوئی تھی۔ ادھیڑ عمر کے کسی بھی فرد میں اس نے آج تک نوجوانوں کے لئے اتنی کشش نہیں پائی تھی۔ وہ کیسی کشش تھی ذہنوں میں کیسی توقعات کو جنم دیتی تھی۔ ۔ ۔ ۔!
”اوہ لعنت ہے ۔ ۔ ۔ !“ ختم بھی کر ۔ ۔ ۔ کیوں سوچ رہی ہے اس کے بارے میں ۔ ۔ ۔! اور پھر اسے پولیس کا خیال آیا۔ آج ہی اس کے چچا نے شاہ داراسے فون کال کی تھی ۔ اور اس معاملے کے بارے مٰں پوچھا تھا ۔ جس کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ اس نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ کوئی خاص بات نہیں ۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ متوفیہ کو اس کے بہانےپکنک پر لے گئی تھی ۔ لیزا پولیس اس سلسلے مٰن بھی پوچھ کرے گی۔ اس کی موت کا تعلق خود اس سے قطعی نہیں ہے۔
اسپوٹس کار فراٹے بھرتی رہی ۔ ویرانے کا سناٹا کسی قدر سکون بخش محسوش ہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی۔ کیوں نہ شاہ دارا ہی کی طرف چل نکلے ۔ یہاں کے ماحول سے دوچار دن کے لئے چھٹکارا پا ہی لینا چاہئے۔ اس کے ذہین پر یاسمین کی موت کا بھی اثر تھا۔ وہ اس کی بہت قریبی دوست تھی۔ ہر بات پر اس سے متفق ہوجاتی تھی۔ کبھی کوئی کام اس کی مرضی کےخلاف نہیں کرتی تھی۔!“
دفعتاََ اسے بریک لگانے پڑے۔ کیونکہ آگے کچھ دور ایک آدمی ہاتھ اٹھائے بیچ سڑک پر کھڑا تھا اور بائیں جانب ایک گاڑی بھی کھڑی نظر آئی۔ شائد یہ گاڑی کچھ ہی دیر قبل اس کے پاس نکلی تھی ۔ اس نے اپنی کار روک دی۔ ۔ ۔ !
”مم ۔ ۔ ۔ محترمہ ۔ ۔ ۔ !“ وہ قریب آکر ہکلایا۔ خوش شکل تھا۔ لیکن احمق بھی معلوم ہوتا تھا
پہلی پروف ریڈنگ: ابو کاشان مکمل
”میری کمپنگ کبھی ڈھکی چھپی نہیںرہتی۔۔۔۔!“ اب بہیترے جانتے ہوں گے کہ اس میں کس کس نے شرکت کی تھی۔ دراصل میںکالی بھیڑوں کو اپنے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا یہ کسی طرح بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی اپنے گھر والوں کو دھوکے میں رکھ کر میرے حلقے میں شامل ہو۔! علی الاعلان آسکتے ہو تو آؤ ۔۔۔۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں ۔تم شیلا کو کیا سمجھتے ہو صرف ایڈونچر کے لئے ہمارے قریب آئی تھی۔ یاسمین احساس کمتری کا شکار تھی۔ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھتی تھی کہ شیلا جیسی دولت مند لڑکی اسے گھاس ڈالتی ہے۔“
”تو پھر شیلاکو ۔۔۔۔!“
”میں سمجھ گیا!“ علامہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔ ” تم یہی کہنا چاہتے ہو نا کہ پھر شیلا کو راستے سے ہٹا دینے سے کیا فرق پڑےگا۔“
”جی ہاں۔!“
”اگر وہ پاگل ہوگئی اور میڈیکل ٹسٹ نے یہ ثابت کر دیا وہ پاگل نہیں ہے تو یاسمین والا معاملہ صرف اسی کے گرد گھوم کر رہ جائے گا ۔۔۔۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دونوں میری کیمپنگ میں شامل تھیں۔!“
”میں سمجھ گیا جناب۔!“
علامہ دہشت کی کوٹھی سے نکل کر شیلا اپنی اسپورٹ کار میں بیٹھی تھی اور اس کا تعین کئے بغیر کہ کہاں جانا ہے چل پڑی تھی۔ عجیب طرح کا موڈ تھا۔ بڑی گھٹن محسوس کر رہی تھی۔
سوشیالوجی کی طالبہ ہونے کی بنا پر علامہ سے بالکل ہی قطع تعلق ممکن نہیںتھا۔ اب وہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ وہ شوچ رہی تھی کہ اسے یہ سال ضائع کرکے اپنا مضمون ہی بدل دینا چاہئے۔ علامہ کے تصور سے بھی وحشت ہورہی تھی۔
بے خیالی میں گاڑی شہر سے باہر نکل آئی۔ دفعتاََ وہ چونک پڑی پہلے اسے یہ خیال کیوں نہ آیا تھا۔ آخر علامہ اتنا دولت مند کہاں سے ہو گیا۔ کیمپ میںوہ اس کی کہانی بھی سن چکی تھی۔
شہر میںعلامہ کی کئی کوٹھیاں تھیں ۔ روپیہ پانی کی طرح بہاتا تھا۔ درجنوں نادار طلبہ اس کی مدد سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ بے راہ روی کا شکار ہو کر مقروض ہوجانیوالے طلباء کی آخری امید گاہ بھی وہی تھا۔ بڑی فراخ دلی سے ان کی امداد کرتا تھا۔
کہاں سے آتی اتنی دولت۔ کیا وہ اپنی ذہانت سے کام لے کر غیر قانونی ذرائع سے دولت کما رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ اور وہ جہنم میں جائے ۔۔۔۔ وہ تو اس نے اس کی شخصیت میںایک خاص قسم کی کشش محسوس کی تھی۔ جو عام طور پر لوگوں میں نہیں پائی جاتی ورنہ اس کے قریب رہنے کی خواہش ہی نہ پیدا ہوتی۔
وہ اپنے ذہن کو ٹٹولنے لگی۔ اس توقع کا تجزیہ کرنے لگی جس کی بنا پر وہ اس کے حلقے میں شامل ہوئی تھی۔ ادھیڑ عمر کے کسی بھی فرد میں اس نے آج تک نوجوانوں کے لئے اتنی کشش نہیں پائی تھی۔ وہ کیسی کشش تھی ذہنوں میں کیسی توقعات کو جنم دیتی تھی۔۔۔۔!
”اوہ لعنت ہے ۔۔۔۔!“ ختم بھی کر ۔۔۔۔ کیوں سوچ رہی ہے اس کے بارے میں ۔۔۔۔! اور پھر اسے پولیس کا خیال آیا۔ آج ہی اس کے چچا نے شاہ دارا سے اسے فون کال کی تھی ۔ اور اس معاملے کے بارے میں پوچھا تھا ۔ جس کا اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ اس نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی کہ کوئی خاص بات نہیں۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ متوفیہ کو اس کے بہانے پکنک پر لے گئی تھی۔ لہٰذا پولیس اس سلسلے میں بھی پوچھ کرے گی۔ اس کی موت کا تعلق خود اس سے قطعی نہیں ہے۔
اسپوٹس کار فراٹے بھرتی رہی۔ ویرانے کا سناٹا کسی قدر سکون بخش محسوش ہو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی۔ کیوں نہ شاہ دارا ہی کی طرف چل نکلے ۔ یہاں کے ماحول سے دوچار دن کے لئے چھٹکارا پا ہی لینا چاہئے۔ اس کے ذہین پر یاسمین کی موت کا بھی اثر تھا۔ وہ اس کی بہت قریبی دوست تھی۔ ہر بات پر اس سے متفق ہوجاتی تھی۔ کبھی کوئی کام اس کی مرضی کےخلاف نہیں کرتی تھی۔!“
دفعتاََ اسے بریک لگانے پڑے۔ کیونکہ آگے کچھ دور ایک آدمی ہاتھ اٹھائے بیچ سڑک پر کھڑا تھا اور بائیں جانب ایک گاڑی بھی کھڑی نظر آئی۔ شائد یہ گاڑی کچھ ہی دیر قبل اس کے پاس سے نکلی تھی۔ اس نے اپنی کار روک دی ۔۔۔!
”مم ۔۔۔۔ محترمہ ۔۔۔۔ !“ وہ قریب آکر ہکلایا۔ خوش شکل تھا۔ لیکن احمق بھی معلوم ہوتا تھا۔