علامہ دہشتناک : صفحہ 28 - 29 : گیارھواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



2089wd2.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا

صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ
صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ
صفحہ کی تیسری/ آخری پروف ریڈنگ


شکریہ
 

زھرا علوی

محفلین
ٹائپنگ : زہرا علوی
پروف ریڈر اول : محب علوی
پروف ریڈر دوم : جویریہ
پروف ریڈر سوئم : شمشاد صا حب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

السلام علیکم

زھراء / سعود بھائی ، اس پوسٹ کو اپڈیٹ کر دیں پلیز اس طرح کہ اس صفحہ کو تحریر اور صرف پہلی پروف ریڈنگ کرنے والے اراکین کے نام ظاہر کر دیں ۔

شکریہ


اس صفحہ کی دوسری پروف ریڈنگ جویریہ کریں گی ۔
 

زھرا علوی

محفلین
ٹائپنگ : زہرا علوی


"اب تم بھی آ جاؤ گے۔۔۔؟ مری مری سی آواز آئی۔
فیاض نے کچھ کہے بغیر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔۔۔اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ہاتھ ہی میں لیے بیٹھا رہا۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔پھر ایک سگریٹ سلگا کر اٹھ گیا۔
ثہرے پر پائے جانے والے آثار بتا رہے تھے کہ شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا بیک وقت شکارہوا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد عمران کے فلیٹ پر داخل ہوا تھا۔ جوزف سے مڈبھیڑ ہوئی۔
"سلیمان ڈاکٹر کو بلانے گیا ہے۔" اس نے اطلاع دی۔
"کیوں بکواس کرتے ہو۔"
"یقین کرو کیپٹن ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ میں نے بہت منع کیا تھا ہر طرح سمجھایا تھا لیکن انہوں نے مجھے احمق سمجھا ۔"
"قصہ کیا ہے۔!"
گھریلو ماحول سے بچنے کے لیے گھر چھوڑا تھا اور سلیمان کی شادی کرا کے پھر وہی ماحول پیدا کر لیا۔۔۔"
"لیکن غشی کے دورے ۔۔۔ وہ ہے کہاں؟"
" آئیے میرے ساتھ۔۔۔" وہ بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"کون آیا ہے رے کالیے۔۔۔!" کچن کی جانب سے نسوانی آواز آئی۔
"دیکھا تم نے کیپٹن۔۔!" جوزف بھنا کر بولا
"کیا دیکھا۔؟"
"آخر اسے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون ہے۔۔؟"
"چلو۔۔۔ چلو۔۔!" فیاض بیزاری سے بولا۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا تھا۔ سامنے ہی بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ آنکھیں بند تھیں۔
"اب تم جاؤ" فیاض نے مڑ کر جوزف سے کہا۔
جوزف ہچکچاہٹ کے ساتھ واپس ہوا تھا۔ فیاض چند لمحے کھڑا عمران کو دیکھتا رہا۔ پھر آگے بڑھا ہی تھا کہ عمران نے مسکرا کر آنکھیں کھول دین۔نہ صرف کھول دیں بلکہ بائیں دبائی بھی تھی اور اٹھ بیٹھا تھا۔
"کسی دن اسی طرح پاگل ہو جاؤ گے اور عادت ہی سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔" فیاض بھنا کر بولا
" میرے پیارے دوست!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "مجھے یہاں سے نکال لے چلو خدارا۔!"
"تم تو بے ہوش تھے۔!"
"اسی طرح ڈوج دے دے کر زندگی بسر کر رہا ہوں۔ لیکن وہ اول درجے کا بدمعاش ہے ڈاکٹر کو بلانے کے حیلے سے خود نکل بھاگا۔گاڑی بھی لے گیا ہو گا۔۔۔شادی کے پندرہ دن بعد ہی سے اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگا تھا۔!"
"زندگی بھر اسی طرح مٹی پلید رہے گی تمہاری۔!" فیاض نے کہا۔
"اور تو اور مردود کہتا ہےکہ شادی اس لیے کی تھی کہ وہ کھانا پکائے گی اور میں آزاد ہو جاؤں گا۔!"
"تو اب تم بھی شادی کر کے آزاد ہو جاؤ۔!"
"مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو سوپر فیاض۔!"
فیاض کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔ " فون پرکیا بکواس کر رہے تھے-! "
"اب وہ بیچاری ایسی بھی نہیں ہے کہ تم اسے بکواس کہو۔!"
" میں بیگم تصدق کی بات کر رہا تھا۔! "
" میں سمجھا شاید ڈاکٹر زہرہ جبیں۔! "
" تم نے قبلہ والد کا حوالہ کیوں دیا تھا۔! "
" یہ غلط نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد کی رشتہ دار ہیں۔۔۔اگر ڈاکٹر مہ لقا نے والد صاحب کے گوش گزار کر دیا تو تم زحمت میں پڑو گے۔!"
"میں صرف پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں۔!"
"دن میں کئی بار۔!"
"اتفاق سے۔۔۔!"
"خیر۔۔۔تو کیا معلوم کیا تم نے؟"

پروف ریڈنگ اول محب علوی
 

جیہ

لائبریرین
ٹائپنگ : زہرا علوی


"اب تم بھی آ جاؤ گے۔۔۔؟ مری مری سی آواز آئی۔
فیاض نے کچھ کہے بغیر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔۔۔اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ہاتھ ہی میں لیے بیٹھا رہا۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔پھر ایک سگریٹ سلگا کر اٹھ گیا۔
ثہرے پر پائے جانے والے آثار بتا رہے تھے کہ شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا بیک وقت شکارہوا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد عمران کے فلیٹ پر داخل ہوا تھا۔ جوزف سے مڈبھیڑ ہوئی۔
"سلیمان ڈاکٹر کو بلانے گیا ہے۔" اس نے اطلاع دی۔
"کیوں بکواس کرتے ہو۔"
"یقین کرو کیپٹن ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ میں نے بہت منع کیا تھا ہر طرح سمجھایا تھا لیکن انہوں نے مجھے احمق سمجھا ۔"
"قصہ کیا ہے۔!"
گھریلو ماحول سے بچنے کے لیے گھر چھوڑا تھا اور سلیمان کی شادی کرا کے پھر وہی ماحول پیدا کر لیا۔۔۔"
"لیکن غشی کے دورے ۔۔۔ وہ ہے کہاں؟"
" آئیے میرے ساتھ۔۔۔" وہ بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"کون آیا ہے رے کالیے۔۔۔!" کچن کی جانب سے نسوانی آواز آئی۔
"دیکھا تم نے کیپٹن۔۔!" جوزف بھنا کر بولا
"کیا دیکھا۔؟"
"آخر اسے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون ہے۔۔؟"
"چلو۔۔۔ چلو۔۔!" فیاض بیزاری سے بولا۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا تھا۔ سامنے ہی بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ آنکھیں بند تھیں۔
"اب تم جاؤ" فیاض نے مڑ کر جوزف سے کہا۔
جوزف ہچکچاہٹ کے ساتھ واپس ہوا تھا۔ فیاض چند لمحے کھڑا عمران کو دیکھتا رہا۔ پھر آگے بڑھا ہی تھا کہ عمران نے مسکرا کر آنکھیں کھول دین۔نہ صرف کھول دیں بلکہ بائیں دبائی بھی تھی اور اٹھ بیٹھا تھا۔
"کسی دن اسی طرح پاگل ہو جاؤ گے اور عادت ہی سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔" فیاض بھنا کر بولا
" میرے پیارے دوست!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "مجھے یہاں سے نکال لے چلو خدارا۔!"
"تم تو بے ہوش تھے۔!"
"اسی طرح ڈوج دے دے کر زندگی بسر کر رہا ہوں۔ لیکن وہ اول درجے کا بدمعاش ہے ڈاکٹر کو بلانے کے حیلے سے خود نکل بھاگا۔گاڑی بھی لے گیا ہو گا۔۔۔شادی کے پندرہ دن بعد ہی سے اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگا تھا۔!"
"زندگی بھر اسی طرح مٹی پلید رہے گی تمہاری۔!" فیاض نے کہا۔
"اور تو اور مردود کہتا ہےکہ شادی اس لیے کی تھی کہ وہ کھانا پکائے گی اور میں آزاد ہو جاؤں گا۔!"
"تو اب تم بھی شادی کر کے آزاد ہو جاؤ۔!"
"مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو سوپر فیاض۔!"
فیاض کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔ " فون پرکیا بکواس کر رہے تھے-! "
"اب وہ بیچاری ایسی بھی نہیں ہے کہ تم اسے بکواس کہو۔!"
" میں بیگم تصدق کی بات کر رہا تھا۔! "
" میں سمجھا شاید ڈاکٹر زہرہ جبیں۔! "
" تم نے قبلہ والد کا حوالہ کیوں دیا تھا۔! "
" یہ غلط نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد کی رشتہ دار ہیں۔۔۔اگر ڈاکٹر مہ لقا نے والد صاحب کے گوش گزار کر دیا تو تم زحمت میں پڑو گے۔!"
"میں صرف پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں۔!"
"دن میں کئی بار۔!"
"اتفاق سے۔۔۔!"
"خیر۔۔۔تو کیا معلوم کیا تم نے؟"

پروف ریڈنگ اول محب علوی


"اب تم بھی آ جاؤ گے۔۔۔؟ مری مری سی آواز آئی۔
فیاض نے کچھ کہے بغیر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔۔۔اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ہاتھ ہی میں لیے بیٹھا رہا۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ پھر ایک سگریٹ سلگا کر اٹھ گیا۔
چہرے پر پائے جانے والے آثار بتا رہے تھے کہ شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا بیک وقت شکار ہوا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد عمران کے فلیٹ پر داخل ہوا تھا۔ جوزف سے مڈ بھیڑ ہوئی۔
"سلیمان ڈاکٹر کو بلانے گیا ہے۔" اس نے اطلاع دی۔
"کیوں بکواس کرتے ہو؟"
"یقین کرو کیپٹن ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ میں نے بہت منع کیا تھا ہر طرح سمجھایا تھا لیکن انہوں نے مجھے احمق سمجھا ۔"
"قصہ کیا ہے؟"
گھریلو ماحول سے بچنے کے لیے گھر چھوڑا تھا اور سلیمان کی شادی کرا کے پھر وہی ماحول پیدا کر لیا۔۔۔"
"لیکن غشی کے دورے ۔۔۔ وہ ہے کہاں؟"
" آیئے میرے ساتھ۔۔۔" وہ بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"کون آیا ہے رے کالیے۔۔۔؟" کچن کی جانب سے نسوانی آواز آئی۔
"دیکھا تم نے کیپٹن۔۔؟" جوزف بھنا کر بولا
"کیا دیکھا؟"
"آخر اسے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون ہے۔۔؟"
"چلو۔۔۔ چلو!" فیاض بیزاری سے بولا۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا تھا۔ سامنے ہی بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ آنکھیں بند تھیں۔
"اب تم جاؤ" فیاض نے مڑ کر جوزف سے کہا۔
جوزف ہچکچاہٹ کے ساتھ واپس ہوا تھا۔ فیاض چند لمحے کھڑا عمران کو دیکھتا رہا۔ پھر آگے بڑھا ہی تھا کہ عمران نے مسکرا کر آنکھیں کھول دین۔ نہ صرف کھول دیں بلکہ بائیں دبائی بھی تھی اور اٹھ بیٹھا تھا۔
"کسی دن اسی طرح پاگل ہو جاؤ گے اور لوگ عادت ہی سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔" فیاض بھنا کر بولا
" میرے پیارے دوست!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "مجھے یہاں سے نکال لے چلو خدا را!"
"تم تو بے ہوش تھے!"
"اسی طرح ڈوج دے دے کر زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن وہ اول درجے کا بد معاش ہے۔ ڈاکٹر کو بلانے کے حیلے سے خود نکل بھاگا۔گاڑی بھی لے گیا ہو گا۔۔۔ شادی کے پندرہ دن بعد ہی سے اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگا تھا!"
"زندگی بھر اسی طرح مٹی پلید رہے گی تمہاری!" فیاض نے کہا۔
"اور تو اور مردود کہتا ہے کہ شادی اس لیے کی تھی کہ وہ کھانا پکائے گی اور میں آزاد ہو جاؤں گا!"
"تو اب تم بھی شادی کر کے آزاد ہو جاؤ!"
"مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو سوپر فیاض!"
فیاض کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔ " فون پرکیا بکواس کر رہے تھے؟ "
"اب وہ بیچاری ایسی بھی نہیں ہے کہ تم اسے بکواس کہو!"
" میں بیگم تصدق کی بات کر رہا تھا! "
" میں سمجھا شاید ڈاکٹر زہرہ جبین! "
" تم نے قبلہ والد کا حوالہ کیوں دیا تھا؟ "
" یہ غلط نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد کی رشتہ دار ہیں۔۔۔ اگر ڈاکٹر مہ لقا نے والد صاحب کے گوش گزار کر دیا تو تم زحمت میں پڑو گے!"
"میں صرف پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں!"
"دن میں کئی بار؟"
"اتفاق سے!"
"خیر۔۔۔تو کیا معلوم کیا تم نے؟"

پروف ریڈنگ اول محب علوی
بارِ دوم: جویریہ مسعود
 

الف عین

لائبریرین
آخری پروف:

اب تم بھی آ جاؤ گے۔ ۔ ۔ ؟ مری مری سی آواز آئی۔
فیاض نے کچھ کہے بغیر ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ ۔ ۔ اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ہاتھ ہی میں لیے بیٹھا رہا۔
کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ۔ ۔ پھر ایک سگریٹ سلگا کر اٹھ گیا۔
چہرے پر پائے جانے والے آثار بتا رہے تھے کہ شرمندگی اور جھنجھلاہٹ کا بیک وقت شکار ہوا ہے۔
آدھے گھنٹے بعد عمران کے فلیٹ پر داخل ہوا تھا۔ جوزف سے مڈ بھیڑ ہوئی۔
"سلیمان ڈاکٹر کو بلانے گیا ہے۔ " اس نے اطلاع دی۔
"کیوں بکواس کرتے ہو؟"
"یقین کرو کیپٹن ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ میں نے بہت منع کیا تھا ہر طرح سمجھایا تھا لیکن انہوں نے مجھے احمق سمجھا۔ "
"قصہ کیا ہے ؟"
گھریلو ماحول سے بچنے کے لیے گھر چھوڑا تھا اور سلیمان کی شادی کرا کے پھر وہی ماحول پیدا کر لیا۔ ۔ ۔ "
"لیکن غشی کے دورے۔ ۔ ۔ وہ ہے کہاں ؟"
" آیئے میرے ساتھ۔ ۔ ۔ " وہ بیڈ روم کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
"کون آیا ہے رے کالیے۔ ۔ ۔ ؟" کچن کی جانب سے نسوانی آواز آئی۔
"دیکھا تم نے کیپٹن۔ ۔ ؟" جوزف بھنا کر بولا
"کیا دیکھا؟"
"آخر اسے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون ہے۔ ۔ ؟"
"چلو۔ ۔ ۔ چلو!" فیاض بیزاری سے بولا۔
وہ اسے بیڈ روم میں لایا تھا۔ سامنے ہی بستر پر چت پڑا نظر آیا۔ آنکھیں بند تھیں۔
"اب تم جاؤ" فیاض نے مڑ کر جوزف سے کہا۔
جوزف ہچکچاہٹ کے ساتھ واپس ہوا تھا۔ فیاض چند لمحے کھڑا عمران کو دیکھتا رہا۔ پھر آگے بڑھا ہی تھا کہ عمران نے مسکرا کر آنکھیں کھول دین۔ نہ صرف کھول دیں بلکہ بائیں دبائی بھی تھی اور اٹھ بیٹھا تھا۔
"کسی دن اسی طرح پاگل ہو جاؤ گے اور لوگ عادت ہی سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔ " فیاض بھنا کر بولا
" میرے پیارے دوست!" عمران نے مغموم لہجے میں کہا۔ "مجھے یہاں سے نکال لے چلو خدا را!"
"تم تو بے ہوش تھے !"
"اسی طرح ڈوج دے دے کر زندگی بسر کر رہا ہوں لیکن وہ اول درجے کا بد معاش ہے۔ ڈاکٹر کو بلانے کے حیلے سے خود نکل بھاگا۔ گاڑی بھی لے گیا ہو گا۔ ۔ ۔ شادی کے پندرہ دن بعد ہی سے اختلاج قلب کی شکایت کرنے لگا تھا!"
"زندگی بھر اسی طرح مٹی پلید رہے گی تمہاری!" فیاض نے کہا۔
"اور تو اور مردود کہتا ہے کہ شادی اس لیے کی تھی کہ وہ کھانا پکائے گی اور میں آزاد ہو جاؤں گا!"
"تو اب تم بھی شادی کر کے آزاد ہو جاؤ!"
"مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش مت کرو سوپر فیاض!"
فیاض کرسی کھینچ کر بیٹھتا ہوا بولا۔ " فون پرکیا بکواس کر رہے تھے ؟ "
"اب وہ بیچاری ایسی بھی نہیں ہے کہ تم اسے بکواس کہو!"
" میں بیگم تصدّق کی بات کر رہا تھا! "
" میں سمجھا شاید ڈاکٹر زہرہ جبین! "
" تم نے قبلہ والد کا حوالہ کیوں دیا تھا؟ "
" یہ غلط نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد کی رشتہ دار ہیں۔ ۔ ۔ اگر ڈاکٹر مہ لقا نے والد صاحب کے گوش گزار کر دیا تو تم زحمت میں پڑو گے !"
"میں صرف پوچھ گچھ کرتا رہا ہوں !"
"دن میں کئی بار؟"
"اتفاق سے !"
"خیر۔ ۔ ۔ تو کیا معلوم کیا تم نے ؟"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




گیارھواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

گیارھواں : 28 - 29 | ٹیم 2 | زھراء علوی | محب علوی | جویریہ | الف عین | 100 %







 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top