علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ موت کو کیا سمجھے تھے؟

گُلاں

محفلین
حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ موت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے


ز ند گا نی ہے صد ف قطر ہ نیسا ں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطر ے کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خو د ی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
 

مغزل

محفلین
اقبال نے جو کہا خوب کہا مگر میں نےاپنی ایک غزل میں یوں کہا تھا۔۔۔

مرا مرنا تمھارے واسطے مرنا سہی لوگو !!!!!!!!!
مگر سچ یہ ہے میں آب و ہوا تبدیل کرتا ہوں

م۔م۔مغل

مغزل
 

شاہ حسین

محفلین
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
نے مجال شکوہ ہے ، نے طاقت گفتار ہے
زندگانی کیا ہے اک طوق گلو افشار ہے
 

شاہ حسین

محفلین
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا ایک پیغام ہے




خوگر پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں




موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات

ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں
جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں
آہ غافل موت کا راز ِ نہاں کچھ اور ہے
نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے
 
Top