علاج بالمثل - (کیپٹن آصف علی کے قلم سے)

شمشاد

لائبریرین
علاج بالمثل
(کیپٹن آصف علی کے قلم سے)​

یہ مسلمہ امر ہے کہ ہر پیشے کی بنیاد " محنت " پر ہے اور محنت میں کوئی عار نہیں۔ یقین مانیں ہمیں تو گداگری بھی ایک معزز پیشہ نظر آتا ہے، اس لئے کہ گداگر کو بھی دوسرے پیشہ وروں کی طرح خاسی محنت کرنا پڑتی ہے۔ کسی کو کچھ دیئے بغیر اس کی جیب سے پیسے نکلوانا بڑا ہی دقت طلب کام ہے۔ بڑے بڑے شائی لاک قسم کے لوگوں سے بھی کچھ نہ کچھ لے مرنا انہی فنکاروں کا کام ہے۔ ہمارے ایک کنجوس دوست ہیں، ان کی جیب سے چند روپے نکلوانے کے لئے ان کی بیگم کو مسلسل تین دن اور تین راتیں لڑائی لرنا پڑتی ہے لیکن ان کی مستقل مزاجی بھی گداگر کے سامنے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ ہم نے کئی بار انہیں گداگروں پر نوازش کرتے دیکھا ہے، حالانکہ اس نوازش سے ان کے والدین اور بچے تک محروم رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ خود اپنی بیماری کی صورت میں بھی وہ پیدل چل کر خیراتی ہسپتال سے دوا لے کر آتے ہیں۔

ہمارا جی بے اختیار ان صاحب کو داد دینے کو چاہتا ہے۔ جنہوں نے گداگری جیسا عظیم پیشہ ایجاد کیا۔ یہ پیشہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فن کا درجہ اختیار کرتا گیا۔ اور اب کم از کم ہمارے حالت یہ ہے کہ کسی گداگر کو دیکھ کر ہم فرط عقیدت سے سر جھکا دیتے ہیں۔ ہمیں پچھلے دنوں ایک ایسے ہی فنکار سے واسطہ پڑا۔ ہم بازار سے گزر رہے تھے کہ اچانک کسی نے اپنا ہاتھ ہمارے کندھے پر رکھ دیا۔ گھوم کر دیکھا تو ایک لحیم و شحیم شخص، پھٹے پرانے کپڑے پہنے، حسرت و یاس کی تصویر بنا نظر آیا۔

"کیا بات ہے بھئی؟" ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

اچانک اس کے چہرے کا تاثر بدل گیا۔ اب اس کی آنکھیں سرخ انگارہ بن کر ہمیں گھورنے لگیں۔
"کل سے بھوکا ہوں بابو جی۔ کچھ اللہ کے نام پر۔" وہ پاٹ دار لہجے میں بولا۔

ہم سوچنے لگے یہ گرجدار آواز ایک دن کے بھوکے شخص کی قطعاً نہیں ہو سکتی اور پھر اس کی صحت اتنی اچھی تھی کہ اگر وہ مرن برت بھی رکھ لے تو مہینوں اس کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔

"کل سے بھوکا ہوں، آپ کی قسم بابو جی۔"

"تو ہم کیا کریں؟ تمہاری حمایت میں بھوک ہڑتال تو کرنے سے رہے۔ اتنے ہٹے کٹے ہو۔ نوکری کیوں نہیں کرتے؟"

" دیکھئے بابو جی اور نہیں تو چائے کی ایک پیالی ہی پلا دیجیئے۔"

"یہ لو ایک روپیہ اور جا کر چائے پیو۔" ہم نے اپنا کندھا اس کی آہنی گرفت سے چھڑاتے ہوئے کہا۔

شومئی قسمت سے اگلے روز پھر اسی بازار سے ہمارا گزر ہوا۔ اب پھر ہم تھے اور وہ ہمارا گداگر دوست۔

"حجور، دو روپے نکال دیں جلدی سے۔"

"کیوں؟ کوئی قرض دینا ہے تمہارا؟ اور دیکھو تمیز سے بات کرو۔" ہمیں اس کی بے تکلفی پر غصہ آ گیا۔

"بابو جی، کل آپ کے پیسوں سے جو چائے پی، اس کی وجہ سے بدن پر خشکی ہو گئی۔ اور دھندا بھی خاصا خراب رہا۔ اب دو روپے کی لسی پیوں گا تو ہوش ٹھکانے آئیں گے۔"

اگر تمہیں چائے راس نہیں آتی، تو تم نے پی ہی کیوں؟"

" آپ کے کہنے پر سرکار۔ آپ ہی نے تو کہا تھا یہ لو ایک روپیہ اور چائے پیو جا کر۔"

یہ سن کر ہم نرم پڑ گئے۔ کتنا فرمانبردار ہے یہ شخص۔ اتنی فرمانبرداری کی توقع تو ہم اپنی بیوی اور بچوں سے بھی نہیں کرتے بلکہ شاگرد لوگ بھی ہماری بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ ہماری زندگی میں وہ پہلا شخص تھا جس نے ہماری ہدایت پر حرف بحرف عمل کیا تھا۔ اس کی سعادت مندی پر طبیعت بے حد خوش ہوئی۔

"جلدی کریں بابو جی، آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ دو روپے لسی کے لئے۔"

ہم نے فوراً دو روپے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیے اور وہ شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس کئے بغیر چل دیا۔

تین چار دن خیریت سے گزر گئے۔ ایک دن ہم بازار سے سودا سلف خرید کر واپس گھر جا رہے تھے کہ کان میں آواز پڑی۔

"بابو جی"

ہم نے سنتے ہی پہلے " ہالٹ " کہا، پھر " اباؤٹ ٹرن" کیا۔ سامنے دیکھا تو روح فنا ہو گئی۔ جلدی سے پھر " اباؤٹ ٹرن" کیا اور " کوئیک مارچ " کرنے کے ارادے سے قدم اٹھایا، لیکن وہ کم بخت بھی کوئی چھوٹا فنکار نہ تھا، فوراً ہی سامنے آ کر اپنی زیادت سے نوازنے لگا۔

جی ہاں۔ یہ وہی ہمارا دوست گداگر تھا۔

"واہ بابو جی، کہاں چلے گئے تھے آپ؟ تین دن سے ڈھونڈ رہا ہوں۔

"اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دے دیا ہوتا۔"

ہم نے جل بھن کر کہا۔ " اب کیا تکلیف ہے تمہیں؟ لسی پینے سے گردے خراب ہوئے ہوں گے۔"

"لسی کھٹی تھی بابو جی۔ پیتے ہی گلا پکڑا گیا۔ ٹھیک طرح سے آواز بھی نہیں نکل رہی۔ سینکڑوں کا نقصان ہو گیا بابو جی، سینکڑوں کا۔"

"لسی پینے کا مشورہ ہم نے تو نہیں دیا تھا۔"

"لیکن چائے پینے کا مشورہ تو آپ ہی نے دیا تھا۔ ساری خرابی تو چائے سے شروع ہوئی۔"

"تو پھر کیا چاہتے ہو اب؟"

"زیادہ نہیں حجور، بس ڈاکٹر کی فیس کے پیسے دے دیں۔ دس روپے کافی ہوں گے۔"

"دس روپے؟ دیکھ بھائی، ہم تیرے مستقل گاہک ہیں۔ کچھ تو رعایت کر۔"

"یہ دس روپے بھی صرف آپ سے لے رہا ہوں۔ کوئی اور ہوتا تو بیس سے کم میں کبھی راضی نہ ہوتا۔"

" ٹھیک ہے۔" ہم نے سوچا۔ " اکٹھے دس روپے چھوڑ رہا ہے ہمیں۔ یہ بھی اس کی مہربانی ہے۔"

چنانچہ ہم نے دس کا نوٹ اس کے حوالے کر کے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر کی راہ لی۔

(جاری ہے۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
شام کو ایک دوست ملنے ائے۔ ہم نے تفصیل سے انہیں اپنی مشکل بتائی اور کہا کہ اب تو مجھے بازار جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔

"یہ مصیبت علاج بالمثل یعنی ہو میو پیتھک طریق علاج سے ٹل سکتی ہے۔"

"کیا مطلب؟" ہم نے حیران ہو کر اپنے دوست کی طرف دیکھا جو ہو میو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔

جواب میں انہوں نے ہمیں تفصیل سے مکمل نسخہ اور ترکیب استعمال وغیرہ سے آگاہ کیا۔ ہم نے خوش ہو کر ان کا شکریہ ادا کیا۔

اگلے روز ہم صبح ہوتے ہی بازار نکل گئے اور اپنے گداگر دوست کر تلاش کرنے لگے۔ ڈیرھ دو گھنٹوں کی تلاش کے بعد ہو ہمیں نظر آ گیا اور ہمیں دیکھتے ہی ہماری طرف بڑھا۔ ہم اسے دیکھ کر اس کی طرف بھاگے۔

"سلام بابو جی!"

" و علیکم السلام۔ اچھا ہوا تم مل گئے۔" ہم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہنا شروع کیا۔ "بات یہ ہے کہ مجھے اس وقت تیس روپے کی سخت ضرورت ہے۔ کل واپس کر دوں گا۔"

"لیکن بابو جی، یہ آپ کیا ۔۔۔۔۔"

"لیکن ویکن کی گنجائش نہیں۔ جلدی کرو گداگر بھائی۔ میں سخت مشکل میں ہوں۔ تیس روپے نکالو۔ جلدی۔۔۔۔ سوچ کیا روہے ہو؟ جلدی کرو۔"

"میرے پاس ۔۔۔۔۔"

"بہت پیسے ہیں تمہارے پاس۔ تم تو سب سے مانگ لیتے ہو۔ میرا تو یہاں سوائے تمہارے واقف بھی کوئی نہیں۔ خدا کے لیے دیر نہ کرو۔ تیس روپے نہ ملے تو میں تباہ ہو جاؤں گا، برباد ہو جاؤں گا۔ دیکھو پرانی دوستی کا واسطہ دیتا ہوں۔" ہم نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔

یہ سن کر اس نے ہم پر تحقیر آمیز نظر ڈالی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا غائب ہو گیا۔

علاج بالمثل کا نسخہ کامیاب ہو چکا تھا۔

(ختم شد)
 
Top