عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
ذکر اُن کا زباں پہ لاتا ہُوں
اور خُود کو ہی بُھول جاتا ہُوں

مَیں وہ کم بخت ہُوں جہاں والو !
اِس مقدر پہ مُسکراتا ہُوں

لحظہ لحظہ وہ یاد رہتے ہیں
لمحہ لمحہ بکھرتا جاتا ہُوں

اِک تعلق بنا ہے ایسا کُچھ
اپنے رشتے بھی کم نبھاتا ہُوں

یاد جب جب ہے اُن کی آتی تب
سارے عالم کو بھول جاتا ہُوں

تُم سے کیا واسطہ رقیبو مَیں
یار کی محفلیں سجاتا ہُوں

بھولنا چاہتا تھا مَیں خُود کو
کیوں کہ مقطعے پہ یاد آتا ہُوں
 

عظیم

محفلین
ہم فقیروں کی تاب کیا جانیں
آپ ایسے نواب کیا جانیں

ہاں نہیں جانتے مگر اتنا
آپ صاحب جناب کیا جانیں

تجھ سے بھی جانتے ہیں صاحب کیا
ہم سے خانہ خراب کیا جانیں

دیکھ رکھیں ہیں دن بزرگی کے
ہم یہ عہدِ شباب کیا جانیں

دید کرنا کہاں سے سیکھیں ہم
حُسن والے حجاب کیا جانیں

جان کر کہہ دیا ہمیں صاحب
آپ خانہ خراب کیا جانیں
 
آخری تدوین:

واسطی خٹک

محفلین
ﮐﺒﮭﯽ ﺗُﻢ ﺑﮭﯽ ﭘﻠﭧ ﮐﺮ ﮨﻢ ﭘﮑﺎﺭﻭ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗُﻢ ﺗُﻢ ﺻﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
pehla misra top class lekin
dosra misra kuch samj nahi araha bhai
 

عظیم

محفلین
آپ کیا جانئے وفاوں کو
خوف کیسا ہو ان خداوں کو

داغ بهیجا ہے ان کی جانب خط
راستہ دیجئے ہواوں کو

جو نظر آپ کے لئے اٹهے
کیا کرے ریشمی فضاوں کو

یہ مقدر کی بات ہے یارو
بهیک ملتی ہے ہم گداوں کو

بس مرا جرم مُجھ کو بتلا دیں
کاٹتا ہوں میں کن سزاوں کو

صاحب اپنا سلیق رونے کا
آ گیا شہر کی گهٹاوں کو
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
چلو ان کو بهلا کر دیکهتے ہیں
یہ بار جاں اٹها کر دیکهتے ہیں

خبر کیا اپنی قسمت جاگ اٹهے
وہ روٹهے کو منا کر دیکهتے ہیں

ہمیں جو آزمانے پر تلے ہوں
انہیں ہم آزما کر دیکهتے ہیں

بہت مشکل ہے اقرار وفا لیک
کوئی صورت بنا کر دیکهتے ہیں

وہ جن کے دم سے تهی محفل میں رونق
انہیں واپس بلا کر دیکهتے ہیں

کریں کب تک یوں صاحب آہ و زاری
کوئی نغمہ سنا کر دیکهتے ہیں
 

عظیم

محفلین
نقد اے زندگی بتا کیا ہے
جان لے کر اُدھار آئے ہیں

ہم تھے دُنیا کو جیتنے نکلے
اور خُود کو بھی ہار آئے ہیں

کیوں نہ تڑپیں یہ جانتے ہیں جب
ہم یہاں بیقرار آئے ہیں

کہئے دربان سے کہ روکے مت
آپ کے جاں نثار آئے ہیں

ہم کہ صاحب تھے ناتواں اتنے
خُود کو رستے میں مار آئے ہیں
 

واسطی خٹک

محفلین
ﺍﮮ ﺩﻝ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺠﮫ کو
ﮐﺴﯽ ﺑﺖ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﻬﺎ

ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ ﻋﺒﺚ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺩﻝ تو نے
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺘﻬﺮ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﻬﺎ
 

عظیم

محفلین
جن کی خاطر جہاں کو بھولے ہیں
ہم سے وہ ناتواں کو بھولے ہیں

کیسے پہچانئے زبانِ غیر
ہم کہ اپنی زباں کو بھولے ہیں

کُچھ انوکھی ہے داستانِ عشق
لوگ طرزِ بیاں کو بھولے ہیں

قید بیٹھے ہیں اپنے اندر ہم
ہر مکاں لامکاں کو بھولے ہیں

کب کنارا کِیا ستم سے آپ
کب ہمیں مہرباں کو بھولے ہیں

صاحب اپنا تو یہ عقیدہ ہے
لوگ ہم بے کراں کو بھولے ہیں
 

عظیم

محفلین
ﺍﮮ ﺩﻝ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺠﮫ کو
ﮐﺴﯽ ﺑﺖ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﻬﺎ

ﺑﻨﺎ ﮈﺍﻻ ﻋﺒﺚ ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺩﻝ تو نے
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺘﻬﺮ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﻬﺎ

واسطی بھائی شکریہ اِسی بہانے میں اپنی غزل کو دیکھ تو لیتا ہوں ۔
 

عظیم

محفلین
ترے غم کا خزانہ چاہئے تھا
کہ جینے کا بہانا چاہئے تھا

لئے ہی مر گئے زخمِ جگر ہم
زمانے کو دکھانا چاہئے تھا

بنا ڈالا عبث عاشق کا دِل آپ
کوئی پتھر بنانا چاہئے تھا

وہ کیا جانیں کسی کی بیقراری
اُنہیں تو بس ستانا چاہئے تھا

اے دِل ہم جانتے ہیں یُوں نہیں تُجھ
کسی بُت سے لگانا چاہئے تھا

کہا مرتا ہُوں آئے دفن کرنے
رقیبوں کو بہانا چاہئے تھا

عظیم اِس سوچ میں بیٹھا ہُوں کب سے
مجھے کیا عاشقانہ چاہئے تھا
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
شُکر کرنا ذرا نہیں آیا
لطف اِس بات کا نہیں آیا

ہم نے بھیجا تھا دِل لفافے میں
اُن نے رکھ کر کہا نہیں آیا

جس کو کہئے سکوں نہ جانیں ہم
اِک ذرا چین سا نہیں آیا

کب تلک آہ کیجئے یارو
آپ کہئے مزا نہیں آیا

چل رہے ہیں نہ جانے صدیوں سے
اب تک اپنا پتا نہیں آیا

صاحب اِس رُوپ آدمی کو دھار
آسماں سے خُدا نہیں آیا
 

عظیم

محفلین
ایک دن حالِ دل سُنا دوں گا
اِس تِری خلق کو رُلا دوں گا

تیرا شہکار ہُوں مَیں آئینہ
اِس بھری بزم کو دِکھا دوں گا

جس طرح تُم ستا رہے ہو نا
اِس طرح خُود کو مَیں مٹا دوں گا

یُوں تو کرتا ہُوں التجا اُن سے
پر قیامت سی اِک اُٹھا دوں گا

تُم جگر چیرتے رہے یارو
ایسا مجنوں ہوں جاں گنوا دوں گا

پہلے پہلے کی بات چھوڑو آپ
اب وہ سنئے جو مَیں سنا دوں گا

صاحب اتنا بھی خُود پہ کیسا مان
تم جو کہتے ہو سر کٹا دوں گا
 
آخری تدوین:
Top