ام اویس

محفلین
بابا بابا! دوپہر کے کھانے اور آرام کا وقفہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ اسے حامد کی آواز سنائی دی۔ جی بیٹا ! کیا ہوا ؟ اسد دفتر سے باہر آیا۔ سات سالہ حامد دروازے کے سامنے شرمساری کے عالم میں کھڑا تھا۔ اس کے پاؤں میں نئے نکور سیاہ بوٹ چمک رہے تھے، جن کے تسمے بری طرح الجھے ہوئے تھے۔ کل ہی سب بچوں کو ان کی پسند کے کپڑے، یونیفارم اور بوٹ لے کر دئیے تھے۔ آج صبح شاید زندگی میں پہلی بار ان بچوں نے نیا یونیفارم پہنا تھا۔ اسد نے خود اپنے ہاتھ سے حامد کے بوٹوں کے تسمے باندھے تھے۔ بچے بہت خوش تھے۔ بات بات پر ان کی ہنسی چھوٹ جاتی اور فضا قہقہوں سے گونج اٹھتی۔
” بوٹ اتارنے ہیں۔“ ارے اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے میں ہوں نا تمہارا بابا، ابھی اتار دیتا ہوں اسد نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: بہت جلد یہ ننگے پاؤں پھرنے والے بچے، تسموں والے بوٹ پہننا بھی سیکھ جائیں گے اور یہ ان کے لیے معمول کی بات ہوگی۔ اسد نے سوچا پھر تسموں کو سلجھانے کے لیے اس کے سامنے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اتنے میں سجاد ، خیام اور الیاس بھی وہیں آ گئے۔ ان کے پاؤں میں چپل تھے۔ وہ اپنے بوٹ اتار کر اپنے کمرے میں رکھ چکے تھے۔
بابا ! آپ زمین پر کیوں بیٹھے ہیں ؟ خیام نے تعجب سے کہا: اسے اسد کی اوٹ میں ،کرسی پر بیٹھا حامد دکھائی نہیں دیا تھا۔ بھئی میں حامد کو تسمے باندھنے سکھا رہا ہوں آجاؤ تم بھی دیکھ لو کہ درست انداز میں بوٹ کے تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں اور انہیں کیسے کھولا جاتا ہے ؟
پھر مسکراتے ہوئے انہیں تسمے باندھنا اور کھولنا سکھانے لگا۔بے اختیار اسے اپنی ماں کی یاد آئی ۔ خود بخود ہی اس کے منہ سے ان کی بتائی ہوئی باتیں نکلنے لگیں۔ بالکل ان جیسا نرم اور محبت بھرا اپنا لہجہ ، اسے اپنے کانوں میں سنائی دیا:
”کیا تم جانتے ہو؟ دونوں جہان کے سردار ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم اپنا ہر کام خود کر لیا کرتے تھے۔ اگر ان کے جوتے ٹوٹ جاتے تو وہ خود ہی انہیں گانٹھ لیتے ۔ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ کسی سے مانگنے کی بجائے اپنے رب سے مانگے ۔
۔۔۔۔
تقریبا تمام بنیادی آسائش سے بھرپور یہ خوبصورت اور وسیع گھر ایسے بچوں کی رہائش گاہ تھا جن کے والدین یا ماں یا باپ اس دنیا میں نہیں تھے۔ یتیم بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنانا اسد کے بچپن کا خواب تھا۔ جس کی ابتداء خود اس کی یتیمی سے ہوئی۔ دفتری کام سمیٹتے ہوئے اس کا ذہن کئی سال پیچھے چلا گیا۔
۔۔۔۔
”اٹھو یہاں سے“سات سالہ کاشان نے اس کی شرٹ کو پکڑ کر کھینچا
”نہیں اٹھوں گا، یہ میری جگہ ہے۔“ ایک سال چھوٹے اسد نے کرسی پر جم کر بیٹھتے ہوئے میز کے کنارے کو مضبوطی سے پکڑ لیا:
ماما، ماما! کاشان زور سے چلایا:
کیا مصیبت ہے اس گھر میں سکون کا ایک لمحہ نہیں : اسد نے تائی جان کی کرخت آواز سنی ۔ انہوں نے آتے ہی اس کا بازو سختی سے پکڑ کر اسے زبردستی کرسی سے اٹھا دیا۔ اسد نے شکایتی انداز میں تائی جان سے کچھ کہنا چاہا تو ان کی گھورتی ہوئی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر ڈر گیا۔ وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کی ماں بیڈ پر بیٹھی سپارہ پڑھ رہی تھیں ۔
ماما ! وہ روتا ہوا بولا مجھے بھوک لگی ہے۔ ماں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور سپارے کو چوم کر ایک طرف رکھ دیا: ابھی میں اپنے بیٹے کو ناشتہ بنا دیتی ہوں ۔ انہوں نے پیار سے اس کا منہ صاف کیا۔ کیا کھائے گا میرا شیر؟اسد نے نظر اٹھا کر غور سے ماں کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے آنسوؤں کی لکیریں تھیں ۔چند دنوں میں سب کچھ بدل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔
یہ سب اس دن سے شروع ہوا، جب اس کے بابا ایک بڑی سی سائرن بجاتی گاڑی میں گھر آئے تھے۔ انہیں چارپائی پر لٹا دیا گیا اور سفید چادر سے ان کا جسم ڈھانپ دیا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سارا گھر بہت سی عورتوں اور مردوں سے بھر گیا۔ کچھ رو رہے تھے، کچھ باتیں کر رہے تھے۔ کاشان نے کہا: ”اسد کے ابا مر گئے ہیں۔“ اس کے ماموں زاد بھائی نے اسے ڈانٹا: ”چُپ رہو۔“ وہ اسد سے پانچ سال بڑا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لان میں لے آیا۔ پھر اسی شام لوگ اس کے بابا کو چارپائی پر ڈال کر ہمیشہ کے لیے لے گئے ۔ ماما نے اسے بتایا کہ بابا الله تعالی کے پاس چلے گئے ہیں ۔ تھوڑے دن بعد سب لوگ بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
لیکن اس دن کے بعد ماما ہر وقت روتی رہتی تھیں۔ کمرے سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔اس کے ڈھیر سارے کھلونوں اور بہت سی چیزوں پر کاشان نے قبضہ کر لیا۔ آج تو اسے میز پر اس کی جگہ سے بھی اٹھا دیا، جہاں بیٹھ کر وہ ہر روز ناشتہ کیا کرتا تھا۔ ابھی وہ کاشان کی شکایت ماما سے کر رہاتھا کہ اس کی ماما حسبِ معمول اسے کہانی سنانے لگیں۔اسد خاموشی سے ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔
۔۔۔۔۔
”تمہیں پتہ ہے اسد ! بہت سال پہلے، دور ایک بستی میں ایک پیارا سا بچہ رہتاتھا ۔ تم سے تھوڑا سا بڑا ہوگا، اس نے کبھی اپنے بابا کو نہیں دیکھا تھا اور کچھ دن پہلے ایک سفر میں اس کی امی بھی اسے چھوڑ کر الله تعالی کے پاس چلی گئی تھیں۔ “
”ماما! امی ابو بچوں کو چھوڑ کر الله تعالی کے پاس کیوں چلے جاتے ہیں؟ اس نے بات کاٹتے ہوئے، افسردہ آواز میں پوچھا:
”الله تعالی ان لوگوں سے پیار کرتے ہیں اس لیے انہیں اپنے پاس بلا لیتے ہیں۔ “
شام ہو رہی تھی، اس بستی کے ایک گھر کا صحن تھا جس کے ایک کونے میں چولہا رکھا تھا۔“ امی جان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے اسے کہانی کی طرف متوجہ کیا:
”ایک مہربان خاتون روٹیاں پکا رہی تھیں۔ صحن میں بچھی چادر پر بہت سے بچے بیٹھے تھے۔ ایک طرف ان بچوں کے ابا جان بھی تشریف فرما تھے۔ گرم موسم میں سارا دن بکریاں چرانے کے بعد یہ لوگ گھر واپس آئے تھے۔ جونہی روٹی پک جاتی خاتون اس پر تھوڑا سا سرکہ لگا دیتیں اور ایک کھجور رکھ کر بچے کو پکڑا دیتیں۔بچے شور مچاتے پہلے مجھے دیجیے، پہلے مجھے دیجیے۔ ان کی والدہ انہیں تسلی دیتیں کہ بس یہ اگلی روٹی تمہاری ہے۔ چادر پر ایک طرف وہ پیارا بچہ بھی سرجھکائے بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی سر اٹھا کر دیکھ لیتا لیکن منہ سے کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہاں تک کہ سب بچوں کو کھانا مل گیا۔ ابا جان کو بھی دو روٹیاں دے دی گئیں سب خاموشی سے اپنے سامنے رکھی روٹیاں کھا رہے تھے کہ اچانک خاتون کی نظر اس بچے پر پڑھی جو چُپ چاپ ایک طرف بیٹھا تھا۔ خاتون نے جلدی سے ایک روٹی پر سرکہ لگایا۔ دیکھا تو کھجوریں ختم ہو چکی تھیں انہوں نے اپنی روٹی سے کھجور نکالی اور اس بچے کے سامنے رکھ دی۔ بچہ مسکرایا اور بغیر کچھ کہے خاموشی سے روٹی کھانے لگا“
“یہ بچہ کون تھا؟ “ بھوک سے بے چین اسد، بے تابی سے بول پڑا۔“
وہ بچہ سارے جہانوں کے لیے رحمت بن کر آنے والے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اسد سوچ میں گُم ہوگیا۔ سارا منظر اس کے سامنے تھا۔ وہ حیران تھا کہ سارے دن کی محنت کے بعد، شدید بھوک میں، اتنا صبر کیسے کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم! ایک زور دار آواز اسے زمانۂ حال میں واپس لے آئی۔ اس کا دوست شکیل ایک بڑا سا ڈبہ میز پر رکھتے ہوئے اس کا حال دریافت کر رہا تھا۔ ”یار ! بچوں کو بلواؤ ۔ میں ان کے لیے کہانیوں کی کتابیں لایا ہوں۔“ اس نے بے تکلفی سے کہا: تھوڑی ہی دیر میں سارے بچے وہاں آ گئے اور اپنی پسندیدہ کتابوں کا انتخاب کرنے لگے۔ اسد محبت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اچانک الیاس نے پوچھا : ”شکیل انکل آپ ہمارے لیے کھلونے نہیں لائے؟“
”ابھی یہ کتابیں پڑھو ! اگلی بار میں تمہارے لیے کھلونے بھی لے آؤں گا۔“ بچے اپنی اپنی کتابیں لے کر چلے گئے۔ شکیل بھی جا چکا تھا۔ اسد رات کے کھانے کا انتظام دیکھنے باورچی خانے کی طرف بڑھا۔ ماضی کا ایک اور در کُھل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔
”ماما ! کاشان نے میرے سارے کھلونے چھین لیے ہیں۔“ اسد نے ماں سے شکایت کی۔
” بچوں کو کھیل اور کھلونے بہت اچھے لگتے ہیں، اسی طرح کارٹون دیکھنا اور نیکر شرٹ میں گھومنا بھی پسند ہے ۔
ہے نا؟ “ماما نے پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پاس بٹھا لیا۔ اسد جانتا تھا اب امی اسے ایک کہانی سنائیں گے۔ چنانچہ وہ منتظر نظروں سے امی جان کی طرف دیکھنے لگا۔
”دور بستی میں ایک بچہ رہتا تھا۔ اس بستی کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ ہر شخص نے اپنے گھر میں ایک بت بنا رکھا تھا، ہر بازار میں بت تھے۔ ہر پہاڑ پر بت نصب کیے گئے تھے۔ ان بتوں پر میلے لگتے، قربانیاں ہوتیں، کھیل تماشے ہوتے۔ بستی کے بڑے اور بچے خوشی خوشی ان میلوں میں جا کر تماشے دیکھتے تھے۔ رات بھر وہاں دلچسپ، پراسرار مہموں کی کہانیاں سنائی جاتیں، کبھی جنوں کے قصے سنائے جاتے اور کبھی عشق و محبت کی داستانیں بیان کی جاتیں۔ لیکن اس بچے کو ان سب کاموں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ کبھی کسی بت کی عبادت میں شریک ہوا، نہ ہی کسی میلے ٹھیلے میں گیا اور نہ کبھی کسی قصہ خوانی میں شامل ہوا۔“
کیا اس کا دل نہیں چاہتا تھا کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلے ؟ اسد نے حیران ہو کر پوچھا:
وہ کُھلے صحرا میں بکریاں چرانے جاتا تھا۔ بکریاں ناسمجھ جانور ہیں۔ ان کی نگرانی کرنا ، انہیں ادھر اُدھر بھٹکنے نہ دینا اور بھیڑیے وغیرہ جنگلی جانوروں سے بچا کر لے آنا کمال کی بات ہے۔ صحرا میں کھلا آسمان اور بلند پہاڑ دیکھنا اور اونٹ جیسی الله کی عظیم الشان تخلیق میں غور و فکر کرنا انسانی ذہن کو وسعت عطا کرتا ہے۔وہ بچہ بھی سارا دن الله کی نشانیوں پر غور و فکر کرتا تھا۔“
”یقینا وہ بچہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہوں گے؟ “ اسد نے سمجھداری سے پوچھا:
ہاں میری جان وہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم تھے۔ جن کا بچپن ہر قسم کی فضول چیزوں سے پاک تھا۔ ان کے سامنے ایک عظیم مقصد تھا۔ پورے عالم کی اصلاح کے لیے ان کو چُن لیا گیا تھا۔ وہ لوگوں کے سردار اور راہنما تھے بلکہ قیامت تک لوگوں کے لیے مثال ہیں۔
میرے پیارے بیٹے! جن لوگوں کے سامنے عظیم مقاصد ہوں، جن لوگوں نے لیڈر اور راہنما بننا ہو وہ کھیل تماشے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ بلکہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ عملی نمونہ بن جاتا ہے“
اسی دن سے اسد نے ایک ایسے گھر کی تعمیر کو اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا جہاں وہ ایسے بچوں کی تربیت کرے گا جن کو زمانہ بے یارو مدگار چھوڑ دیتا ہے۔ ان ذہنوں کی ایسی تربیت کرے گا جو دوسروں کے لیے راہنمائی کا عملی نمونہ بن جائیں۔ اس راستے کے سفر اور منزل کے حصول میں اس نے اپنی تمام صلاحیتوں کو لگا دیا۔
۔۔۔۔
کئی سال کی محنت اور الله کی مدد کے بعد، اسد کے خواب کی تعبیر عملی شکل میں اس کے سامنے تھی لیکن ابھی منزل بہت دور تھی۔ ان یتیم بچوں کے لیے اپنی ماں جیسی ایک خاتون کا انتخاب کرنا تھا، جو انہیں زندگی کے بلند مقاصد سے روشناس کروائے۔ بہترین اساتذہ ڈھونڈنے تھے جو ان کی عمدہ راہنمائی اور تربیت کر سکیں اور سب سے بڑی بات ان کے لیے ماں باپ، بہن بھائی، دوست رشتے دار کی صورت میں ایسے پرخلوص رشتے مہیا کرنے تھے جن سے تعلق کے بعد ان بچوں کی تمام محرومیاں ختم ہو جائیں اور وہ اطمینان سے کامیابی کی طرف بڑھ سکیں۔
آؤ بچو ! الله تعالی سے دعا کریں کہ اسد اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جائے۔


۔۔۔۔
 
Top