عظیم صحابی رسول حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ

تانیہ

محفلین


"حجر ابن عدی قبیلہ کندی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ ایک یمنی قبیلہ ہے جس نے کوفہ کی جانب ہجرت کی۔ پینتیس سنہ ہجری میں حجر کندی حضرت علی رضی الله تعالیٰ عنہ کے انصار میں شامل ہوئے۔ ہجر پچپن میں ہی اپنے بھائی ہانی بن عدی کے ہمراہ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔



امام ِاہل ِسنت ابن عبدالبر نے صحابہ کے متعلق لکھی گئی کتاب الاستیعاب فی تمیز الاصحاب، ج 1 ص 97 میں حضرت حجر بن عدی (رض) کو بھی شامل کیا ہے اور ان کے متعلق لکھا ہے:


كان حجر من فضلاء الصحابة
حجر فاضل صحابہ میں سے ایک تھے


آپ (حجر الخیر) نیکوکار حجر کے خطاب سے مشہور تھے۔ حضرت حجرؓ اپنے زمانے کے درویش صفت اور زاہد منش انسان تھے۔ آپؓ زہد و کثرت عبادت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ یہاں تک کہ ان کے بارے میں روایت ہے کہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ حضرت حجر بن عدی ؓ اپنی کم سنی کے باوجود پیغمبر اسلام کے بزرگ اور فاضل صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔ آپ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کے خاص دوستوں میں سے تھے اور اسلامی فوج کے اعلیٰ آفیسر اور جرنیل تھے۔ جنگ صفین میں قبیلہ کندہ کے امیر تھے۔ جنگ جمل، صفین اور نہروان میں آپ حضرت علی ؑ کے ہمرکاب تھے۔ حضرت حجر شجاع، زاہد و عابد صحابی اور صلحائے امت میں ایک اونچے مرتبے کے شخص تھے۔
حضرت حجر ؓ ایسے انسان تھے جن کی دعا جلد قبول ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت حجرؓ کو گرفتار کرکے شام لے جایا جارہا تھا۔ سفر کے دوران وضو کے لئے پانی نہیں ملا۔ حضرت حجر ؓ نے نگرانوں سے کہا کہ پینے کے پانی میں سے تھوڑا سا پانی دے دو تاکہ میں وضو کرکے نماز پڑھ لوں ۔ اور میں پھر کل آپ سے پانی کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ ان کے نگرانوں نے کہا کہ سفر لمبا ہے اور ممکن ہے کہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے آپ ہلاک ہو جائیں اور پھر امیر شام آپ کے بدلے میں ہمیں قتل کردے گا۔ پھر حضرت حجر ؓ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے۔ اس وقت آسمان پر بادل نمودار ہوئے اور ان بادلوں سے رس رس کے پانی آنا شروع ہوا۔ حضرت حجر ؓ نے اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل کیا اور پھر وہ بادل غائب ہوگئے۔ جب ان کے ساتھ والوں نے یہ ماجرا دیکھا تو ان سے تقاضا کیا کہ ہماری نجات کے لئے پروردگار عالم سے دعا کیجئے۔ تو حضرت حجر ؓ نے ان الفاظ میں دعا کی:
اللھم خرلنا۔ اے خدا ہمارے ساتھ وہی سلوک کر جس میں ہماری بہتری ہو۔
حضرت حجر اہل بیت ؑ کے سچے عاشقوں میں سے تھے ۔ حضرت علی ؑ جب ابن ملجم لعین کے وار سے زخمی ہوگئے تو اس وقت حضرت حجرؓ نے امیر المومنین ؑ کی شان میں کچھ اشعار کہے اس وقت امیر المومنین ؑ نے حجر ؓ سے فرمایا کہ اے حجر ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ سے مطالبہ کیا جائے گا کہ مجھ سے بیزاری اختیار کرو۔ تو اس وقت حجر نے کہا یا مولیٰ ؑ اگر میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اور آگ روشن کرکے اس میں ڈالا جائے تو پھر بھی میں آپؑ کی دوستی سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ آخر کار وہ وقت بھی آگیا کہ حجر اور اس کے ساتھیوں سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ علی ؑ کی دوستی سے ہاتھ اٹھاﺅ اور ان ؑ سے بیزاری کا اعلان کرو۔ لیکن حجر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور علی ؑ سے دوستی کا حق ادا کردیا اور مرج عذرا کے مقام پر امیر شام کے کارندوں کے ہاتھوں شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔ "
 
Top