ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

مقدس

لائبریرین
11
(20)
اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔"
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ " آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟"
میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگیتاکہ انگوٹھی جلد اترجائے۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے۔ "بولیے صاحب جلدی بولیے۔" میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا۔ "آپ جواب نہیں دیتیںتو پھر میں حآضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا !جی نہیں" میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔
بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟"
"یا اللہ" میں نے تنگ ہو کر کہا۔ "مجھے موت دے۔" یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں ممیرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہدیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔"شکر ہے عطروان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا۔ اور گویا میری محنت وصول ہو گئی' مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپن زبان سے اور کچھ کہدیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گئے۔"
میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی' گویا اس نے عطروان توڑا تھا۔ میں عطروان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔
جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹرصاحب نے کہا۔"آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا۔ "بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطروان۔۔۔ "
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا۔"خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا' خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آُ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں
 

مقدس

لائبریرین
11

(21)
بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔"
میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بےحیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں' اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔
بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا۔ "آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئیے۔"
میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اورہی لفظ کہہ دیا۔ "اچھی ہے۔"
"جی نہیں۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی' اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں ' آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔"
میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑے گا' لہذا کہہ دیا۔ "پسند ہے۔" یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔
"شکریہ۔" بیرسٹر صاحب نے کہا ۔"صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بےشک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوارً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھیجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خداحافظ۔"
یہ کہہ کر وہ ہٹ گئے۔ اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گئے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے۔ جب میں نےخبری میں آکر پھنس گئی۔
اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے' دانتوں سے بھی امداد لی۔ اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں
 

مقدس

لائبریرین
12

(22)

نے تنگ آکر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا۔ "ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تومیری جان لیے لیتی ہے۔"
بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گئے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے۔ "معاف کییجیئے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے' لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔" یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے۔"اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔"
میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دین گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔
اتن میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے۔ "اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔"
میں بےحد پریشان تھی' مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں ۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کرعں ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن' تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا' تنگ آکر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا۔ "وہ نہیں اترتی۔"
ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے' اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بےتکلفی سے کہتا ہے۔ کہا۔ "واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔"
میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی۔ اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا۔"اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔"
یااللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔"وہ آپ سے ہر گز نہ اترے گی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔"
 

مقدس

لائبریرین
12

(23)
میں چونکہ اب تنگ آگئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراَ ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔
بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا۔ "شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔"
میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا۔ "یہ تو پھنس گئی ہے۔" یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دم سے بولے۔ "اخاہ! معاف کیجیئے گا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں۔؟"
میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔
"لائیے۔ لائیے۔"بیرسٹڑ صاحب نے کہا۔ "اب میں کچھ نہ کہوں گا۔"
مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا' اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بےچارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھئ اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ "آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جچ طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئے گا۔" چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گئے اور وہ یہ کہ "سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔"میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہون نے دیکھ لیا تھا۔
ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی؛ اور اپنے کمرے میں آکر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کستی رہ گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔

(5)
خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ "رہنے دے اس کو منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔" انہیں یا ملازلی کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت
 

مقدس

لائبریرین
13

(24)

اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔
تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ"بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ' ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔" اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بےچینی سے کر رہی تھی۔
میں جانتئ تھی کہ وہ ضرور آئے گی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سے کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا۔ "اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔"
"میں تو مل بھی آئی۔" میں نے مسکرا کر کہا۔ "تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔" یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔
میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی۔ "تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔" یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا۔ "ملاقات تو گئی چولہے میں' اب اس ناہجاز انگوٹھی کو کسی طرح اتارو' چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔"
اب میں چکرائی کہ یہ کس طرح جاے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ "میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔"
یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہو گا۔ جو نئی بات نہ تھی۔
جب اس طرف سے اطمینان ہوگیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر نے کار جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بے کار۔
رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کت میں بیٹھ گئی۔ اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ "خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔" رات کو گرم پانی میں انلگلی ڈبوئی گئی۔ اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی
 

مقدس

لائبریرین
13

(25)

اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ "خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔"
"آخت تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟" شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔
"خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔" میں نے منہ بنا کر کہا۔
"یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔" شاہدہ نے کہا۔ "اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں' اور اب۔۔۔۔"
میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا۔ "خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔"
"قینچی سے انگوٹھی کتر دوں۔" نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہو گی' ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔"
"بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں ' میاں راستہ دیکھو' ہماری چھوکری فاضل نہیں' کہیں اور مانگ کھاؤ۔" یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی' اور مجھ سے کہا "لاؤ ادھر لاؤِ"
"نہیں نہیں" میں نے کہا۔" ایسا نہ کرو۔" پھر وہی کوششیں جارہ ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی' کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی۔ اور کبھی گڑگڑا کر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔
مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہ"اب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔"
شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گئے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔
اب شاہدہ بھی متفکر تھی' اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا' کہ "اب صرف ایک ترکیب ہے۔"
"وہ کیا؟"
 

مقدس

لائبریرین
14

(26)

"وہ یہ ہے۔" شاہدہ نے مسکرا کر کہا۔ "وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ' ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹے گی۔"
"میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔" میں نے کہا۔
"یہ باتیں' اور وہ بھی ہم سے!۔" شاہدہ نے کہا۔ "ذرا دل سے تو پوچھ۔" میں نے واقعہ کہا کہ"خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدولے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔"
شاہدہ بولی۔ "مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو' جانا ضرور پڑے گا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ یم یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔"
میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستی سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبورا میں راضی ہو گئی۔

(6)

جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازی کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے' کیونکہ وہ شاہد منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے ۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے' اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کر کے دروازہ تیزی سے کھول کع اندر کو زور سے دھکیل دیا وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ "ارے؟" کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بےطرح گھبرا گئے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں کسی اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔
بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے ذبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس لے جوان میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔
"یہ کیا حالت ہے؟" بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔
"معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔"
میں کچھ نہ بولی' اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔
"براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جہنوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے
 

مقدس

لائبریرین
14

(27)

لگی تو نہیں؟"
میں نے صرف ایک لفظ کہا۔ "شاہدہ۔"
"آپ کی کوئی ہمجولی معلوم ہوتی ہیں۔" بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔"
میں نے دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی۔ کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔
"میں صابون لاتا ہوں۔" یہ کہہ کر وہ صابون لینے گئے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی۔ اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بےسود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ "یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔"
میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔
"اب نہیں اتر سکتی۔" انہوں نے نہایت لاپروائی سے کہا۔ "پہنے رہیے۔" میں سخت گھبرائی اور شرم وحیا اب رخصت کر کے بولی۔ "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کیجئے۔ اور کوئی تدبیر کیجیئے۔ خواہ انگلی کٹے یا رہے۔"
بیرسٹر صاحب بولے۔ "اتر تو سکتی ہے۔ مگر آپ منظور نہ کریں گی۔"
میں چپ رہی کپ الہٰی کیوں نہ منظور کروں گی بیرسٹر صاحب بھی چپ رہے۔ مجبور ہو کر میں نے پھر بےحیا بن کر کہا۔ "مجھے سب منظور ہے' اتر جاے۔"
مجھے قطعی معلوم نہ تھا کہ اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ وہ یہ سن کر اندر چلے آئے۔ میں چادر میں منہ چھہا کر بالکل سکڑ گئی۔ وہ پلنگ کے سامنے بالکل میرے مقابل ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے دراصل اس میں تین ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ آپ کو منظور ہو تو میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ صابون لگا کر دباتا ہوں' آپ اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اوپر کرنے کی کوشش کریں ورنہ اور کوئی تدبیر نہیں۔
مجبوری سب کچھ کرواتی ہے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے صابون کئ مالش کرکے انگلی دبائی اور میں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی۔
میرا سر اور منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ کیونکہ میں سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھی اس لیے میں ٹٹول کو انگوٹھی اوپر کر رہی رھی۔ دو مرتبہ انگوٹھی چکر کھا کر انگلی کی گرہ پر سے لوٹ گئی۔ بیرسٹر صاحب نے جب تیسیر مرتبہ دیکھا کہ میں کہیں کی کہیں سرکاتی ہوں تو انہوں نے
 

مقدس

لائبریرین
15

(18)
کہا۔ "آپ کو تو انگوٹھی اتروانے کے لیے سب منظور ہے کیونکہ اس کام میں تین ہاتھوں کے علاوہ دراصل چار آنکھوں کی بھی ضرورت ہے۔ اور بدقسمتی سے یہاں صرف دو ہی کام کر رہی ہیں۔مگر آپ کو سب منظور ہے۔" یہ کہہ کر انہوں نے ایکھ جھٹکے سے میری چادر اتار لی اور کھینچ کر اس کو الگ پھینک دیا۔ میں سمٹ سی گئی اور میں نے اپنا منہ گود میں چھپا کر چادرکی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"یہ کہہ کر وہ واقعی بالکل نیچی نظر کر کے پھر سے کوشش کرنے لگے۔ میں پھر چادر کی طرف بڑھی تو انہوں نے انگلی گھسیٹ کر روکا اور کہا۔ "آپ دوسرا ہاتھ منہ پر رکھے ہیں' کیا میری قسسم کا آپ کو اعتبار نہیں؟ بخدا میں آپ کو ہر گز نہ دیکھوں گا۔"
یہ انہوں نے اسی طرح کہا جیسے کوئی برا مان کر کہتا ہے۔ میں نے مجبوراَ ہاتھ ہٹا کر' انگلی کو دبانا شروع کیا۔ مگر کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ حالانکہ وہ میری طرف بالکل نہیں دیکھ رہے تھے اور دیدہ و دانستہ ضرورت سے زیادہ گردن جھکائے تھے مگر پھر بھی میں سمٹی جا رہی تھی' دونوں ہاتھ علیحدہ تھے اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ چہرہ کدھر لے جاؤں۔
لیکن یہ حالت تھوڑی ہی دیر رہی۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ "آپ تو اتارنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتی ہیں۔" میں سب گویا بھول کو کوشش کرنے لگی۔
دونوں کی کوششیں جارہ تھیں۔ لیکن میں رہ رہ کر اپنی نظریں انگوٹھی پر سے ہٹا کر بیرسٹر صاحب کی کشادہ پیشانی اور صاف شفاف جھکے ہوئے چہرہ پر بھی دالتی تھی۔ کبھی میں ان کے پیوٹوں کو دیکھتی اور کبھی کبھی لمبی لمبی پلکوں کو دیکھتی تھی۔۔۔ مجھ کو یہ معلوم نہ تھا کہ جب میں ایسا کرتی ہوں تو میرا ہاتھ کام کرنے سے خود بخود رک جاتا ہے اور جو شخص غور سے انگلی اور انگوٹھی کی طرف دیکھ رہا ہے وہ آسانی سے بغیر میرے چہرے کو دیکھے ہوئے معلوم کر سکتا ہے کہ میری آنکھیں اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبی میں نے ہمت کر کے بیرسٹر صاحب کے چہرے کو غور سے نظر بھر کر دیکھا' وہاں میرا ہاتھ معطل ہو گیا تو بیرسٹر صاحب نے مجبوراً تنگ آکر کہا۔ "مجھے آپ بعد میں فرصت میں دیکھ لیجئے گا۔ اس وقت براہ کرم ادھر دیکھیئے۔" یہ کہہ کر انہوں نے میری انگلی کو جھٹکا مجھے اس قدر شرمندگی معلوم ہوئی کہ میں نے جھٹ اپنا منہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے چھپا لیا۔
بیرسٹر صاحب نے کہا: " اچھا معاف کیجئے۔" اور یہ کہہ کر اسی طرح نیچی نظر کیے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر کام میں لگا دیا۔
پھر میری ہمت نہ پڑی کہ بیرسٹر صاحب کی طرف دیکھوں اور بڑے غور سے میں نے اپنی انگوٹھی اتروانے کی کوشش کی۔
 

مقدس

لائبریرین
15

(29)

خوب خوب ہم دونوں نے کوشش کی۔ مگر وہ دشمن جان نہ اترنا تھی نہ اتری۔ جب بیرسٹر صاحب زچ آ گئے اور کوئی امید نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا اور اسی طرح نظر نیچی کیے ہوئے بولے۔ "یہ نہیں اتر سکتی' کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ نے یہ کس مقصد سے پہنی تھی؟"
میں جھینپ گئی اور میں نے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپا لیا۔
بیرسٹرصاحب نے کہا۔ "بس ایک سوال کا جواب دے دیجئے' تو ابھی آپ کو خلاصی مل جائے۔ وہ یہ کہ آپ صرف یہ بتادیں کہ آخر قبل از وقت آپ نے اسے کیوں پہن لیا" ہاتھ کو انہوں نے آہستہ سے جھٹک کر کہا۔ "بولیے۔"
میں کچھ نہ بولی تو انہوں نے کہا۔ "تو پھر آپ جانیں اور آپ کا کام' میں صرف اسی شرط پر مشکل آسان کر سکتا ہوں۔"
میں نے بڑی کوشش سے زبان ہلائی۔ کہا۔ "یونہی۔" میں اپنی آنکھوں کے گوشہ سے کہنی کی آڑ سے بیرسٹر صاحب کے خوبصورت چہرہ کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ ان کی لمبی لمبی سیاہ پلکیں بدستور اسی طرح زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔
انہوں نے میرا جواب سن کر نہایت ہی سادگی سے کہا۔ "آپ کے والد صاحب قبلہ تو سال بھر کا وقت مانگتے ہیں۔مگر شکر ہے کہ آپ خود۔۔۔" انہوں نے شاید میرے اوپر رحم کیا کہ جلد پورا نہ کیا۔ گو کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ایک دم سے بات بدل کر بولے۔ "آپ کے جواب کا شکریہ' اب عرض یہ ہے کہ انگوٹھی کٹ کر اترے گی اور مجھ کو بازار سے جا کر خود ریتی لانا پڑے گی۔"
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگے۔ میں نے موقع کو غنیمت خیال کر کے چادر قبضے میں کر کے اپنے اوپر ڈال لی۔مجھے ایک دم سے خیال آیا کہ ایک چھوٹی سی ریتی میں اس چھوٹے سے بکس میں دیکھی تھی جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کترتے اور گھسنے اوزار رکھے تھے۔ میں بولنے ہی کو تھی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "میں اس مقام سے وقاف نہیں؛ مگر جاتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے ریتی ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ آپ مناسب خیال کریں تو اندر چلی جائیں۔" یہ کہہ کر وہ کھونٹی کی طرف اپنی ٹوپی لینے بڑھے۔
میں نے ہمت کر کے صرف کہا کہ ۔۔ "ہے۔"
"کہاں ہے۔" بیرسٹر صاحب نے مڑ کر پوچھا۔
میں نے جواب میں ٹرنک کی طرف انگلی اٹھا دی۔
"میرے ٹرنک میں؟" بیرسٹر صاحب نے متعجب ہو کر پوچھا۔ "میرے ٹرنک میں؟"
 

مقدس

لائبریرین
61

(120)

بھی پچھلے پہر کا ہوتا ۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو میں نے مہارانی سے کہا' مگر انہوں نے ٹال دیا کہ یونہی وہم ہو گیا ہے۔ میں سوچ میں تھا کہ آخر یہ معما ازخود حل ہو گیا۔ رات کو ایک روز ایسا ہی ہوا' اور میرے چہرے پر گرم گرم دو آنسو گرے۔ کیونکہ مہارانی میرے چہرے کو بڑے غور سے سر جھکائے دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور میری طرف سے منھ موڑ لیا اور اپنی مسہری پر لیٹ گئیں۔ میں نے فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا "کیوں؟" میں نے گھسیٹ کر ان کو اپنے پاس بٹھا لیا'کیونکہ میری طرف منھ کرنے سے گریز کر رہی تھیں۔ میں نے ان کا روتا چہرہ دیکھا۔ میرا دل کٹ گیا اور بےتاب ہو کر میں نے کہا۔ "میری جان" میں نے ان کو سینے سے لگا کر پوچھا۔ "کیوں روتی ہو؟ کیا ہوا؟" مگر وہ کچھ نہ بولیں اور رونے لگیں۔ میں حیران ہو گیا اور جوں جوں ان سے دریافت کرتا اور وہ اور بھی بےقابو ہو جاتیں۔ حتی کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور مجھے ان کا سنبھالنا دشوار ہو گیا۔ میں ان سے بےحد اور بے انتہا محبت کرتا تھا اور میں ان کو کبھی روتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ ان کی حالت زار کو دیکھ کر میں خود ضبط نہ کر سکا اور ان کو کلیجے سے لگا کر اس طرح رویا کہ بےحال ہو گیا۔ جب دونوں نے خوب آنسو بہا لیے تو کم از کم مجھے تو معلوم ہی ہو گیا کہ ہم دونوں کیوں روئے ہیں' یعنی شادی کی وجہ سے۔ میں اب رو دھو کر خوش تھا کہ ان کو بھی میری طرح رنج ہے' مگر جب میں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے تعجب سے کہا کہ "تمہارا خیال غلط ہے۔ کیا میں نہیں کہہ چکی کہ میری خوشی اسی میں ہے کہ میری بھتیجی کی شادی تم سے ہو جائے۔" میں سخت چکرایا اور پھر میں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ تو معلوم ہوا کہ ان کا رونا کسی خواب کی وجہ سے ہے۔ جب میں نے اصراس کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ ایک وحشت انگیز اور پرسرار خواب دیکھتی ہوں۔ اس کے بعد تمہارے چہرے کو دیر تک دیکھتی ہوں۔ جس سے کچھ اطمینان سا ہو جاتا ہے۔ یہ خواب جو آج کل وہ دیکھ رہی تھیں۔ پہلی مرتبہ انہوں نے جب دیکھا تھا جب میں پانچ برس کا تھا اور میرے ساتھ ان کی شادی کی نسبت ہوئی تھی۔ اس کے بعد پھر سال میں دو تین مرتبہ یہی خواب دیکھا۔ پھر ہر مہینہ دکھائی دینے لگا اور پھر رفتہ رفتہ اب یہ نوبت پہنچی تھی کہ ہفتی میں پانچ دن یا تو پورا خواب' ورنہ اس کا کچھ حصہ ضرور دیکھنے میں آتا تھا۔ جب میں نے کہا کہ آخر وہ خواب کیا ہے' مجھے بتاؤ تو انہوں نے کہا۔ "بس اس کو نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں اپنی زبان سے کو نہیں دہرا سکتی۔"انہوں نے پھریری لے کر کہا۔"جو میں اس خواب میں دیکھتی ہوں وہ بیان کرنے کا نہیں' اور میری زبان سے نہیں نکل سکتا۔" مگر میں نے بےحد اصرار کیا اور ان کو اپنی جان کی اور اپنی محبت کی قسم دلائی توانہوں نے کہا اچھا بتاتی ہوں' مگر پھر یہی کیا کہ دیکھو نہ پوچھو۔ بہتری اسی میں ہے کہ مت پوچھو مگر میں نہ مانا اور ان کو بے حد مجبور کیا تو انہوں نے اس طرح بیان کیا:
 

مقدس

لائبریرین
61

121

"میں خواب میں دیکھتی ہوں کہ جیسے کوئی تہوار کا دن ہے' اور میں درباری لباس پہنے بڑے تزک و احتشام سے زنانہ دربار والے کمرے میں بیٹھی ہوں۔ تمام زیورات سے لدی ہوں۔ خواصیں اور باندیاں جواہر نگار کرسی کے اردگرد مورچھل جھل رہی ہیں۔ مجھ کو اپنے سنگار کا خاص خیال ہے' اور مشاطہ آئینہ دکھاتی ہے' اگر کپڑے کا انداز بدلتا ہے تو مشاطہ درست کر دیتی ہے۔ میں بہت خوش ہوں اور تمہارے خیال میں دل ڈوبا ہوا ہے۔ ہر لمحہ تمہارا انتظار ہے اور تم آنے والے ہو رہے ہو۔ اگر کسی کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے تو تمہارا شبہ ہو کر مارے خوشی سے دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر کہ میں تمہارے لیے سراپا شوق اور انتظار بنی ہوں' ایک عجیب ہنگامی برپا ہے۔"
مہارانی اتنا کہہ کر کچھ رک گئیں۔ ان کے چہرے پر کچھ وحشت سی تھی۔ وہ ایک پراسرار طریقہ اور نہایت ہی معصومانہ انداز میں مجھے دیکھنے لگیں۔ میری طرف اور سرک آئیں۔ میں نے کہا۔ "پھر کیا ہوا؟" انہوں نے اپنے لبوں کو اپنی زبان سے تر کیا۔ وہ متوحش سی تھیں' اور ان کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ "عین اسی انتظار میں کہ ایک خادمہ کے دور سے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں۔ ایسی کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ میں دریافت کروں کہ یہ کیا معاملہ ہے' ایک دم سے وہ ملازہ چیختی چلاتی حواس باختہ دوڑی آتی ہے۔ اس کے گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں' ننھے سر' بال پریشان' چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ آنکھیں مارے خوف کے نکلی پڑتی ہیں۔ اس طرح بدحواس ہو کر کہ وہ کمرے میں چیختی چلاتی آتی ہے کہ میں ایک دم پریشان ہو جاتی ہوں۔ کمرے میں اس کی آمد ایک ہلچل مچا دیتی ہے۔ وہ ایک دم سے میرے سامنے آکر گھٹنے ٹیک کر گڑگڑاتی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے' مگر مارے ڈر کے کانپ رہی ہے اور اس کی زبان سے کچھ الفاظ نہیں نکلتے بڑی مشکل سے اس نے جدھر سے وہ آ رہی تھی' ادھر منھ موڑ کر کہا "وہ۔۔۔۔۔و۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔و۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ آرہی ہے۔۔۔وہ۔۔۔ووہ۔۔۔۔۔۔" میں پریشان ہو کر اس سے پوچھتی ہوں۔ "اری کمبخت کون!" مگر اس کی زبان سے سوائے وہ۔۔۔۔وہ وہ کے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ رہ رہ کر وہ جدھر سے آئی ہے دیکھتی ہے۔ اور "وہ وہ" سے زیادہ کہہ نہیں سکتی۔ قبل اس کے کہ میں اس سے پوچھ سکوں باہر سے چیخوں کی آوازیں آتی ہیں کہ مارے خوف کے سب دہل جاتے ہیں۔ ایک شور عظیم برپا ہوتا ہے' چیخنے چلانے رونے پیٹنے اور دوڑنے بھاگنے ک آواز سے سارا محل گونج اٹھتا ہے۔ ایک چشم زون میں قیامت کے سیلاب کی طرح چیختی چلاتی روتی پیٹتی سارے محل کی عورتیں' باندیاں' خواصیں وغیرہ پریشان حال بھگڈر کی طرح ایک کے اوپر ایک گرتی پڑتی اس
 

مقدس

لائبریرین
62

(122)

کمرہ میں داخل ہوتی ہیں کہ ایک دم سے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سارا اجلاس برہم ہو کر کمرے میں ابتری پھیل جاتی ہے۔ میں بدحواس ہو کر کھڑی ہو جاتی ہوں اور چیختی ہوں کہ تمہیں کوئی خبر کرے اور فوج بلوائی جائے۔ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی بلا اس کمرے کی طرف چلی آ رہی ہے۔ کیونکہ اس شور و شغب کا بھی یہی مفہوم ہے کہ "وہ آ رہی ہے۔" اس شور و پکار میں کوئی میری نہیں سنتا کیونکہ سب کے حواس زائل ہیں' کہ اسی دوران میں ایک خوفناک۔۔۔۔۔۔"
مہارانی اتنا کہہ کر کچھ سہم گئیں' اس نا چہرہ کو ہمیشہ پرنور رہتا تھا مٹی کی سے رنگ کا ہو گیا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ قریب ہو گئیں۔ میں نے ان کو اپنے اور قریب کر کے کہا: "گھبراؤ نہیں' گھبراؤ نہیں۔" انہوں نے پھر کچھ دیر دم لے کر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا۔
"اسی دوران میں ایک خوفناک' نہایت ہی خوفنال! مگر مکروہ قہقے کی دل ہلا سینے والی نفرت انگیز آواز اس زور سے گونجتی ہوئی آئی کہ سب اپنی اپنی جگہ سمٹ کر رہ گئے۔ مجھے خود کو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے میرا خون میرے جسم میں ایک دم سے جم گیا۔ جو ابھی ابھی اس ہنگامے کے جوش وخروش کی وجہ سے گرم گرم سیسے کی طرح میری رگوں میں دوڑ رہا تھا کہ رگوں کو توڑ کر کسی طرف نکل جائے گا۔ خوف۔۔۔انتہائی خوف کی وجہ سے لرزنے کے ساتھ پھریری سی آئی۔ آنے والی بلا قریب تھی!۔۔۔۔۔ آہٹ سب کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کہاں تو سارا کمرہ شور و غل سے اڑا جا رہا تھا۔ کہاں یہ حال ہوا کہ ایک باقابل بیان سناٹا چھا گیا۔ ایسی خاموشی کہ اگر سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز سنائی سی جاتی' اب یہ حال تھا کہنہ دروازے کی طرف دیکھا جاتا تھا کہ جدھر سے یہ بلا آ رہی تھی' اور نہ ادھر سے نظر ہٹاتے بنتی تھی۔ اتنے میں ایک پھنکار سی آئی اور دروازے پر سیاہی چھا گئی۔ وہ۔۔۔۔بلا آ گئی' میرے سامنے آ گئی۔"
مہارانی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا۔ حلق میں کانٹا سا پڑ گیا اور وہ میری طرف اس طرح متوحش ہو کر گھسیں کہ میں گھبرا گیا' میں نے انہیں کلیجے سے لگا لیا۔۔ "ڈرو نہیں' ڈرو نہیں' تم کیوں ڈرتی ہو؟" مہارانی آنکھیں بند کیے میری گود میں پڑی ہانپ رہی تھیں۔ میں نے دلاسا دیا اور پھر پوچھا۔"آخر وہ کیسی بلا تھی' مجھے تو بتاؤ۔۔کیاتھی' کیسی شکل تھی؟"
مہارانی نے وحشت ذدہ لہجہ میں کہا: "نہیں!نہیں! مجھ سے بیان نہیں کیا جاتا۔۔۔مجھے بچاؤ۔" یہ اکہہ کر وہ مارے خوف کے ایک دم سے مجھ سے لپٹ گئیں۔
میں نے تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال کر کہا: "ڈرو نہیں' ڈرو نہیں' تمہارے دشمن کے لیے ایک گولی ہی کافی ہے۔ کیا فوج بلا لوں' ٹیلی فون کر کے توپ خانہ بلوالوں۔"
"نہیں'نہیں۔۔۔ میں صبح کہوں گی۔"
 

مقدس

لائبریرین
62
(123)

میں نے گھڑی دیکھ کر کہا: "اب صبح میں کیا دیر ہے۔" میرے کہتے ہی کسی دور سے مسجد کی اذان کی آواز آئی۔ "لو صبح ہو گئی!" میں نے کہا: "دیکھو! اذان ہو رہی ہے' صبح ہے۔" یہ کہہ کر میں نے گھنٹی کا بٹن دبا دیا' جو مسہری کے سرہانے لگا تھا۔ فوراً ایک خادمہ دوڑی آئی اور میں نے کہا کہ"دیکھو کسی سوار کو جلد دوڑاؤ کہ اس شخص کو جو اذان دے رہا ہے آج دس بجے دن کے ہمارے سامنے حاضر کرے۔"
"اس کو کیوں بلاتے ہو؟" مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔
دراصل اس آواز سے میں عرصے سے آشنا تھا' خوب اس آواز کو پہچانتا تھا۔ نہ معلوم کیوں' اکثر خیال ہوتا تھا کہ اس آواز سے اتنا پرانا تعلق ہے لاؤ اس آدمی کو تو دیکھوں' کئی مرتبہ ارادہ کر چکا تھا ،گر رہ جاتا تھا۔ مہارانی سے میں نے وجہ بیان کی اور کہا کہ تم اپنا خواب بیان کرو۔
مہارانی کا ڈر جاتا رہا تھا' انہوں نے قدرے اطمینان سے سلسلہ جاری کیا:
"۔۔۔۔۔ اس کی شکل۔۔۔ اس بلا کی شکل بہت خراب' خوفناک اور گھناؤنی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل سیاہ تھا' اور سارے منھ پہ پھنسیاں اور مہاسے تھے۔ یہ مہاسے نہایت ہی گندے اور گھناؤنے تھے۔ کوئی ان میں سے سرخ تھا اور کوئی زرد' بہت ہی قوی الحبثہ مگر کچھ ٹھگنی عور تھی۔ ایک مختصر سی دھوتی باندھے تھی۔ اس کی شانوں پر بکھرے بال تھے۔ بلامبالغہ ببر شیرنی کی طرح اس کی گردن تھی' اور ویسا ہی اس کا سر تھا مگر اس کا سارا چہرہ نےحد غلیظ بےحد بھیانک بےحد قابل نفرت' اس کی بڑی بڑی آنکھیں نارنگی کی طرح گول گول تھیں جو نکلی پڑی تھیں اور ان میں بجائے سفیدی یا سیاہی کئ زردی تھی جن مین سے زرد شعاعیں نکلتی معلوم ہوتی تھیں۔ نہایت ہی منحوس اور بھاینک منھ تھا' اور بری بد صورت ناک' اور ناک اور منھ دونوں سے گندگی بہہ رہی تھی۔ اس کی تھوڑی اس طرح متحرک تھی کہ جیسے جانور جگالی کرتا ہے' اس کے گلے کی موٹی موٹی رگیں اس کے چہرے کو اور بھی خوفناک کئے دیتی تھیں۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک پھنکار ماری۔ یہ اس کی تمسخر آمیز مسکراہٹ تھی اور میں نے سیکھا کہ اس کا جبڑا جیسے اس کے کانوں تک پھیل گیا۔ اس کے خوفناک دانت جو بڑے بڑے تھے مع گندگی اور غلیظ داڑھوں کے دکھائی دیے۔ اس نے داخل ہوتے ہی اپنی لکٍی زمین پر زور سے ٹپ کر کہا: "مہارانی راماتی کہاں ہے؟" میری طرف یہ کہہ کر دیکھا اور پھر تمسخرانہ سے کہا۔۔"راماوتی راماوتی!"
مہارانی رک کر میری طرف دیکھنے لگیں۔
میں نے کہا: "کیوں'کیا ہوا؟ کہو۔۔۔۔"
"میں نہیں کہہ سکتی۔۔"
 

مقدس

لائبریرین
63

(124)
"کیوں کہتی کیوں نہیں۔ کہو کوئی مضائقہ نہیں۔ آکر ایسی کونسی بات ہے' جو تم نہیں کہتیں۔" میں سمجھ گیا اور بڑے اصرار سے میں نے کہا۔"یہ توخواب ہے تم کہو' ضرور کہو۔"
مہارانی نے رک رک کر کہا: "اس نے کہا مہارانی تو۔۔۔۔"
مہارانی پھر رکیں تو میں نے پھر کہا: "کہو۔۔۔"
"۔۔۔۔۔ تو رانڈ ہو گئی۔" مہارانی نے کہا۔۔" اس نے مجھ سے کہا۔"
"چتا میں بیٹھ تو رانڈ ہو گئی!" یہ سنتے ہی میرا کلیجہ دھک سے ہو گیا اور چہرہ فق ہو گیا۔ اس ن میر طرف اسی انداز سے دیکھ کر یہی منحوس الفاظ دہرائے اور اب میں نے دیکھا کہ اس کے گندے ہاتھ پنجے کی طرح تھے۔ اس کے ناخن چیل کے پنجوں کی طرح تیز تھے۔"
"اتنے میں رم کو میں نے دور سے آتے دیکھا۔ تم وہ کپڑے پہنے ہو جو پہن کر تم نے ابھی حال میں اپنی بڑی رنگین تصویر بنوائی ہے اور۔۔۔۔"
میں نے بات کاٹ کر کہا: "یہ خواب تو تم نے میرے ان کپڑوں کے تیار ہونے سے پہلے سے دیکھ رہی ہو۔ کیا ہمیشہ وہی کپڑے دیکھ رہی ہو؟"
مہارانی نے کہا: "ہاں رنگ وہی دیکھتی ہوں۔ سنہرے بوٹے بھی ہیں اور زیور اور ہیرے جواہرات بھی وہی۔ غرض سب وہی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ممکن ہے کہ اچکن کے پھول اور بوٹے مجھے یاد نہ رہے ہوں' اور میں نے غور نہ کیا ہو' مگر جہاں تک میرا خیال ہے بوٹے بھی مجھ کو یاد ہیں اور پھر جب سے تصویر بن کر آئی ہے اور وہ کپڑے دیکھ لیئے ہیں تب سے تو میں بالکل وہی دیکھتی ہوں۔"
میں نے کہا: "اچھا تم اپنا قصہ پورا کرو۔"
مہارانی نے سلسلہ شروع کیا"۔۔۔۔ تم مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔۔ تم بے حد خوبصورت معلوم ہو رہے تھے۔ تمہیں دیکھتے ہی میری ڈھارس بندھ گئی لیکن میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی؛ جب میں نے دیکھا کہ تم اس منحوس بلا سے بجائے لڑنے جھگڑنے کے اس سے باتیں کرنے لگے۔ دوسرا اور تھوڑی ہلا ہلا کر تم سے چپکے چپکے کچھ باتیں کر کے سر ہلا ہلا کر مسکرا رہی تھی۔ تم نے میر طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر مجھ سے کہنے لگے: "تو بیوہ ہو گئی۔۔۔تو رانڈ ہو گئی اور اب تجھ کو ستی ہونا چاہیے۔"
میں تمہاری طرف متوجہ ہو کر جواب دیکھتی ہوں تو وہ بلا غائب! مگر تم نے پھر مجھ سے کہا کہ"تو بیوہ ہو گئی اور جلدی ستی ہو جا۔" اب میری حالت بھی عجیب ہے۔ بجائے اس کے ہوں کہوں کہ تم میرے سر پر موجود ہو اور خدا تم کو ہزاری عمر دے' میں سہاگن ہو' سری کیوں ہوں۔ میں کچھ نہیں کہتی بلکہ تمہارے کہنے پر یقین کر لیتی ہوں۔ تم مجھ کو جلدی کی تاکید کر کے
 

مقدس

لائبریرین
63

(125)

کمرے سے جاتے ہو۔ اس طرح خواب کا پہلا سین ختم ہو جاتا ہے۔ جو کبھی تو مجھ کو پورا کا پورا دکھائی دیتا ہے' اور کبھی مع بقیہ حصے کے اور کبھی کبھی اس کا کوئی خاص ٹکڑا۔"
"دوسرا حصہ بھی اس خواب کا بتاؤ۔" میں نے مہارانی سے کہا۔ "تمہارا خواب بھی عجیب ہے۔"
مہارانی نے پھر اپنے خواب کا سلسلہ جاری کیا۔ "اس کے بعد میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جنازہ تیار ہے۔ میں کپڑا ہٹا کر جو دیکھتی ہوں تو میں پیٹ لیتی ہوں؛ کیونکہ واعی۔۔۔۔ واقعی میرے منھ میں خاک تمہاری ہی لاش ہے! تم وہی کپڑے پہنے ہو۔ میں اس کو ڈھک دیتی ہوں کہ اتنے میں تم آ جاتے ہو۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ تم کو دیکھتی یوں اور پھر بھی نہیں کہتی کہ یہ معما کیا ہے۔ تم خود اس لاسشے پر سے کپڑا ہٹا کر دیکھتے ہو۔ میں لاش کو دیکھتی ہوں اور پھر تم کو اور ذرہ بھر فرق نہیں پاتی۔ وہی صورت' وہی شکل' وہی زیورات' وہی ہیرے اور وہی موتی! ہو بہو وہی ذرہ فرق نہیں۔ تم پھر جنازہ ڈھک دیتے ہو۔ اس طرح دوسرا سین ختم ہوجاتا ہے۔
"پھر تیسرا اور آخری سین اس منحوس خواب کا عجیب طرح شروع ہوتا ہے۔ ساون بھادوں والے بڑے کمرے میں جس کی چھت اس طرح کھلی ہوئی ہے کہ روشنی اور ہوا تو آتی ہے مگر پانی نہین آتا۔ وہی بڑا کمرہ جو بارہ دری کے طرز پر بنا ہوا ہے' اس کمرے میں لکڑیوں کی ایک چھوٹی سی چتا بنی ہوئی ہے اور اس پر اسی طرح سنگار کیے بیٹھی ہوں۔ لاشہ میری گود میں ہے۔ تعجب یہ کہ تم میرے سامنے کھڑے مجھے اس حال میں دیکھ رہے ہو اور مسکرا رہے ہو۔ تمہاری نظریں اور تمہارا بانک پن میرے کلیجے کو چھلنی کر دیتا ہے۔ میں اس لاشے کو سینے سے لگائے تمہاری طرف اسی محبت سے دیکھ رہی ہوں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے فنا ہو جاؤں گی، دیکھتے دیکھتے' تم کو اپنی محبت کے جذبے سے بےقابو سی ہو جاتی ہوں۔ طبعیت میں ایک دم سے عجیب انتشاری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تمام جذبات سمٹ کر سینے مین ایک مرکز پر آجاتے ہیں' اور میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھ میں اب ضبط کیطاقت نہین اور میرا سینہ جوش محبت اور جذبات کی ہیجانی کیفیت کے تلاطم سے پھٹا جاتا ہے کہ ایک دم سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرا دل پھٹ گیا۔ ایک چمک کے ساتھ میرے"ست" کے زور سے میرے سینے سے ایک آگ کا شعلہ خودبخود بھڑک کر اس زور سے نکلتا ہے کہ کس کی چمک مجھے خواب سے ایک دم بیدار کر دیتی ہے، اپنے کو بےدم پاتی ہوں اور تن بند پسینے میں شرابور اس وقت انتہائی درجے کی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ دیر تک پڑی رہتی ہوں اور تمہاری محبت کا خیال دل پگھلائے دیتا ہے اور آہستہ سے اٹھتی ہوں کہیں تم جاگ نہ اٹھو اور تمہارے خوبصورت چہرے کو دیکتی ہوں اور دیکھتے ہی دیکھتے جب تم کلبالتے ہو' جھٹ سے اپنے پلنگ کر لیٹ جاتی ہوً کہ آہٹ تک نہیں
 

مقدس

لائبریرین
64

(126)

ہوتی۔ آج تمہاری صورت دیکھتے دیکھتے بےاختیاری کے عالم میں دو آنسو تماہرے رخسار پر ٹپک پڑے اور تم جاگ اٹھے۔
میں اس خواب سے متاثر ہوا مگر میں نے ہنس کر مہارانی سے کہا:
"تم بھی وہی ہو۔ ایسے ایسے نہ معلوم کتنے خواب آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ بری توہم پرست ہو۔"
"مگر ایک ہی خواب! اور وہ بھی اس طرح دکھائی دے؛ تو طبعیت کیسے نہ پریشان ہو اور ایک بات سنو۔ آخر یہ کیا وجہ کہ تم جب کبھی بھی دکھائی دیے یعنی شادی سے پیشتر جب تک تم بچہ تھے' جب بھی اس لباس میں دکھائی دے۔ شکل کا تو اچھی طرح خیال نہیں مگر ہاں عمر تمہاری اتنی ہی دکھائی دی۔ اس خواب میں ضرور کوئی بھید ہے،،،ؤ مہارانی نے متفکر ہو کر یہ الفاظ کہے۔
میں نے کہا: "تو دیوانی ہوئی ہے۔ لا میں تیرے خواب کی تعبیر کروں۔"
مہارانی نے کہا: "بتاؤ!"
میں نےا کہا: "یہ کہ تم خوب ہنسو گی۔"
"تم ہر بات میں مذاق کو دخل دیتے ہو۔"
"میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہی ہے کہ تم ہنسو گی' میں سچا ہوں۔" یہ کہہ کر جو میں نے مہارانی کو پکڑ کر گدگدانا شروع کیا تو چونکہ ان کو گدگدی بہت محسوس ہوتی تھی' وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگیں اور میں ان کو ہنساتے ہنساتے بےحال ہو گیا۔

دن کئ دس بجے موذن حاضر ھیا گیا۔ غریب آدمی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک اذان رات کے دو بجے دے دیا کرے میں تنخواہ دوں گا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر میں نے کہا کہ اول وقت جس قدر جلد ممکن ہو اذان دیا کرو۔ وہ کہنے لگا کہ میں تو اول وقت ہی دیتا ہوں۔ میں نے اس کو وقت دیکھنے کے لیے ایک گھڑی دی اور پچاس روپیہ انعام سے کر رخصت کیا۔ دراصل اذان صبح کا پیغام ہوتا ہے اور اس اذان سے مہارانی کے دل کو عجیب تقویت سی پہنچی تھی۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ اذان جلدی ہو جائے تو بہتر ہے۔
موذن چلا گیا اور کا خیال بھی نہ رہا۔ سوائے اس روز کے جس روز مہارانی خواب دیکھتیں تو سختی سے ان کو اور مجھ کو اذان کا انتظار رہتا۔
مہارانی کوئی چار مرتبہ یہ خواب ایک ماہ کے عرصے میں اور دیکھ چکی تھیں کہ ایک روز رات کو خواب کے وقت گھبرا کر اٹھیں اور مجھے ایکدم سے جگا کر کہا: "یہ تم نے کیا غضب کیا!"
 

مقدس

لائبریرین
64

(127)

میں نے ان کے متوحش چہرہ کو دیکھا ' اور مسکرا کر کہا: "پاگل ہو گئی ہو' کیا غضب کیا اور کیسا غضب؟"
"تم نے موذن کو مروا ڈالا!"
میں نے کہا: "نہ معلوم تم کیا بکتی ہو۔ آخر بتاؤ تو سہی آج کیا تماشا دیکھا۔" اس پر انہوں نے آج نرالا خواب سنایا۔ وہ یہ کہ "اسی خواب والئ بلا نے موذن کی تم سے شکایت کی اور تم نے اس موذی بلا سے کہا کہ اچھا جا کر اس کو مار ڈالو۔"
میں نے ایک قہقہ لگایا اور مہارانی سے کہا کہ "آخر تم کو یہ کیا ہو گیا ہے۔" اس پر انہوں نے عجیب انداز سے کہا کہ"میں جھوٹ نہیں کہتی۔ یہ سب خواب۔۔۔ میں سچ کہتی ہوں یہ خواب ضرور سچا ہے۔ تم دیکھ لینا آج اذان کی آواز نہ آئے گی۔"
صبح تک مجھ کو اور مہارانی کو اذان کا انتظار رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا مہارانی کی پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب دن نکل آیا اور اذان ندارد! میں نے دن نکلتے ہی سوار دوڑاےا کہ معلوم کرے کیوں آج موذن نے اذان نہ دی۔ معلوم ہوا کہ وہ رات کو مر گیا۔ اس کی موت اس وقت واقع ہوئی جب مہارانی نے مجھ سے کہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ پریشان ہو کر اٹھا۔ اپنی بیوی کو بلایا اور بہت جلد کسی نامعلوم تکلیف کی وجہ سے مر گیا۔ اب میں عجیب چکر میں تھا اور میں نے فوراً سول سرجن کو بلا کرحکم دیا کہ اس کی لاش کا معائنہ کر کے بتائے کہ موت کیسے واقع ہوئی۔ سول سرجن نے رپورٹ دی کہ موت دل کی حرکت بند ہو جانے سے واقع ہوئی۔ سو روپے میں نے اس کو کفن دفن کے دیئے۔ میری متفکر اور پریشان صورت دیکھ کر مہارانی کا چہرہ اور فق ہو گیا' اور وہ جان گئیں کہ واقعی موذن مر گیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے کہا: "میں نہ کہتی تھی کہ میرا خواب سچا ہے۔ تم نے اسے مروا دالا۔" میں نے یہ لافاظ سنے اور بت کی طرح کھرا مہارانی کو دیکھتا رہا۔ مجھ کو ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا میں نے موذن کو واقعی مروا ڈالا۔ اس کے گھر آدمی بھیج کر اطلاع کروا دی کہ اس کی بیوہ کو دس روپے ماہوار تاحیات ملے گا اور بچے جب بڑے ہوں گے تو ان کو پڑھنے کے لیے وظیفہ علحدہ۔
اب بجائے مہارانی کے ہم دونوں پریشان تھے۔ مہارانی نے بہت سی خیرات کی۔ اپنے میکے سے کئی پنڈت اور مولوی بلائے اور دوسری جگہ سے بھی بلوائے اور ان سے عمل' تعویذ اور گنڈے لیے۔ میں خود اد ڈھکوسلوں کا قائل نہ ہوںا ور نہ تھا؛ مگر اس وقت کی کیفیت ہی اور تھی۔ علاوہ اس کے یہ انتظام کیا گیا کہ گیارہ بارہ بجے یا یک بجے سونے کےسرشام ہی سے سونے کی کوشش کرتے اور ایک بجے اٹھ کر راگ کی محفلیں کرتے۔ سب سے زیادہ فائدہ اس تدبیر سے ہوا مگر جان لیوا خواب ایسا لگتا تھا کہ کسی نہ کسی وقت تھوڑا بہت کبھی کبھی ضرور ہی دکھائی دے
 

مقدس

لائبریرین
65

(128)

جاتا۔ غرض رات کے بدلے دن کو سوتے۔ خواب میں بہت کمی ہو گئی تھی اور پھر چونکہ میری شادی قریب آ گئی تھی' لہذا مہارانی کی توجہ کچھ اس طرح مبذول ہو گئی کہ اگر خواب دیکھتی بھی تھیں تو اس کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتی تھیں۔

(5)

جونئیر مہارانی کو آخر بیاہ لانا پڑا۔ بیاہ کی رسوم میں' میں نے نہ تو ان کو دیکھا تھا اور نہ دیکھنا تھا اور نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ سئینر مہارانی نے اپنی بھتیجی کے لیے محل کا ایک خاص حصہ سجایا تھا کہ جس میں لا کر جونئیر مہارانی اتاری گئیں۔ میں شروع ہی سے اس محل کے حصے میں قصدا کترا کر نکل جاتا۔ کیونکہ اس مین وہ لڑکی آنے والئ تھی جو میرے اور مہارانی کی محبت میں مخل ہونے والی تھی۔ مجھ کو اس خیال سے ہی منافرت تھی،
رات گئے جب سینئر مہارانی نے تمام رسوم سے فراغت حاصل کر لے جونئیر مہارانی کو ان کی خواب گاہ میں بھیجوایا تو میری تلاش کی فکر ہوئی' معلوم ہوا باہر ہوں۔ وہاں دریافت کرنے پر معلوم ہو کہ اندر ہوں' لحاف اور بچھونے ٹٹولے گئے' میں وہاں کہاں ملتا۔ میں سینئر مہارانی کی خواب گاہ میں پڑا بےخبر سو رہا تھا۔ سوتے میں میری گردن میں سینئر مہارانی نے ایک بوسہ لے کر مجھے ہوشیار کیا۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا مہارانی کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ ہنس کر انہوں نے کہا : "یہاں کہاں؟" میں نے ان کو گلے سے لگا کر کہا: "میں وہاں جہاں مجھ کو ہونا چاہیے' یعنی اپنی جان کے پاس' اپنی پیاری مہارانی کے پاس۔" انہوں نے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر اٹھایا' اس کے بعد ہی ایک حجت اور بحث کا باب کھل گیا۔ میری طرف سے ضد تھی کہ میں ہر گز جونئیر مہارانی کے پاس نہ جاؤں گا' اور ان کی ضد تھی کہ جانا پڑے گا۔ دونوں کی ضد نے طرح طرح کے پہلو اختیار کیے جس کی شروعات ایک دلچسپ مذاق سے ہوئی؛ اور اختتام اس پر کہ دونوں خوب روئے' مگر اس کے بعد بھی "تریاہٹ" قائم تھی۔ دھکے دے کر گویا میں اس خواب گاہ سے جبراً نکالا گیا۔ میں روتا جاتا تھا اور مہارانی مجھے بہلاتی، پھسلاتی جاتی تھیں۔ طرح طرح کی باتیں کر کے چمکارتی جاتی تھیں۔ مجھے بہلاتی' پھسلاتی' کھینچتی' گھسیٹتی وہ جونئیر مہارانی کی خواب گاہ تک مجھ کو لے گئیں۔ یہاں پہنچ کر میں اڑ گیا۔ مجھ کو دروازے پر چھوڑ کر وہ اپنی بھتیجی کو کچھ سکھانے پڑھانے خواب گاہ میں داخل ہوئیں۔ ادھر میں بھاگا اور پھر اپنے گھونسلے میں یعنی اس جگہ جہاں سے کشاں کشاں لایا گیا تھا مگر یہ سب کچھ بیکار تھا۔ میرے حال زار پر ان کو کچھ رحم نہ آیا اور وہ مجھ کو پھر تھوڑی دیر بعد پکڑ لائیں اور ذبردستی خواب گاہ مین دھکا سے کر باہر سے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے اس کمرے کو جیسا کہ کہہ چکا ہوں بالکل نہ دیکھا تھا۔ میں نے اس کو اب دیکھا۔
 

مقدس

لائبریرین
65

(129)
سارے کمرے میں بجلی کی سبز روشنی ہو رہی تھی' طرح طرح کے جھاڑ فانوس اور بجلی کی سبز قندیلیں روشن تھیں۔ کمرے کی چھت سبز بانات کی تھی' جس پر طرح طرح کے زریں کام بنے ہوئے تھے۔ ہر چیز مجھ کو سبز نظر آ رہی تھی' حتی کہ قالین بالکل سبز رنگ کا تھا' تمام دیواریں سبز تھیں۔ دیوار کو سبز رنگ کے ولایتی کاغذ سے منڈھ دیا گیا تھا اور اس سبز کاغز پر طرح طرح کے رنگین نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ کمرے میں ہر طرح کا سامان آرائش سجا ہوا تھا؛ مگر سب سبز رنگ کا تھا۔ کمرے کے بیچوں بیب خالص سونے دو سبز مسہریاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے ارد گرد دیوار کی طعح ایک آب رواں سبز ریشمی پردہ اس طرح آوایزاں تھا کہ چھت سے لے کر زمین تک ایک دیوار سی چاروں طرف قائم تھی۔ یہ پردہ اس قدر باریک اور اس قدر نفیس تھا کہ اس کی طاروں تہوں میں سے بھی آرپار دکھائی دے سکتا تھا۔ اس پردہ یں طرح طرح کے سبز رنگ اور زمرد کے آویزے اور موتی لٹک رہے تھے جو سبز رنگ کی روشنی میں ناچتے معلوم ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک مسہری پر جونئیر مہارانی یعنی راجکماری لیلاوتی بیٹھی تھیں جیسے کہ ایک سبز رنگ کی گٹھری رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ میں نے ایک نظر بھر میں دیکھا کہ پھر دوراً ہی سئینر مہارانی کی محبت کا خیال کر کے دل رونے لگا۔ جونئیر مہارانی کی طرف میں نے پشت کر لی اور مخمل کے سبز پردے میں منھ لپیٹ کر چپکے چکپے خوب رویا اور خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ خوب رونے سے ذرا طبعیت ہلکی ہوگئی۔ اگر اور طرح طرح کی خوشبوؤں سے کمرہ ویسے ہی مہک رہا تھا کہ ایک دم سے شمامتہ اعنبر کی تیز اور مست کر دینے والی خوشبو کا ایک بھبکا میرے دماغ میں اس طرح پہنچا کہ مین نے گھبرا کر منھ کھول دیا۔ مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو جونئیر مہارانی ہیں کو عطر میں بسی ہوئی تھیں۔ سبز رنگ کا رومی قالین تھا جس پر اتنا بڑا رواں تھا کہ ٹخنوں ٹخنوں پیر اس میں گھس جاتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے آنے کی ذرا بھر آہٹ نہ ہوئی۔ میرے دیکھتے ہی انہوں نے جھک کر میر قدم لیے۔ میرے پیر چوم کع انہوں نے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ جوڑ کر جھک کر ماتھے پر رکھے اور ذرا ہٹ کر اسی طرح ہاتھ جوڑے نظر نیچے کر کے کھڑی ہو گئیں۔ میں نے اس شعلہ حسن کو گویا اب پہلی مرتبہ سر سے پیر تک دیکھا۔ کامنی صورت'نازک بدن' میدہ اور شہاب سا رنگ تھا۔ جو اوصاف بلور کی مانند سبز روشنی میں گویا جگمگا رہا تھا۔ جس پر سنہری افشاں چمک رہی تھی۔ صرف تھوڑی سی پیشانی رسمی گھونگھٹ سے چھپی ہوئی تھی۔ ناک نقشہ اس قدر سبک اور موزوں اور حسین کہ میری نظر سے کبھی نہ گزرا تھا۔ میں نے ایک نظر دیکھا ور پھر دیکھا۔ میں ساکت تھا اور وہ اسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑی تھیں اور میں پردہ پکڑے کھڑا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دوزانوں ہو کر پھر سے میرے پاؤں چھوئے اور پھر اسی طرح الگ ہٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ میں ویسے ہی کھڑا اس قواعد کو دیکھتا رہا کہ وہ پھر تیسری مرتبہ جھکیں ۔ انہوں نے
 
Top