مقدس
لائبریرین
11
(20)
اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔"
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ " آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟"
میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگیتاکہ انگوٹھی جلد اترجائے۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے۔ "بولیے صاحب جلدی بولیے۔" میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا۔ "آپ جواب نہیں دیتیںتو پھر میں حآضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا !جی نہیں" میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔
بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟"
"یا اللہ" میں نے تنگ ہو کر کہا۔ "مجھے موت دے۔" یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں ممیرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہدیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔"شکر ہے عطروان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا۔ اور گویا میری محنت وصول ہو گئی' مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپن زبان سے اور کچھ کہدیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گئے۔"
میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی' گویا اس نے عطروان توڑا تھا۔ میں عطروان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔
جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹرصاحب نے کہا۔"آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا۔ "بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطروان۔۔۔ "
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا۔"خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا' خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آُ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں
(20)
اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔"
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ " آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟"
میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگیتاکہ انگوٹھی جلد اترجائے۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے۔ "بولیے صاحب جلدی بولیے۔" میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا۔ "آپ جواب نہیں دیتیںتو پھر میں حآضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا !جی نہیں" میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔
بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟"
"یا اللہ" میں نے تنگ ہو کر کہا۔ "مجھے موت دے۔" یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں ممیرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہدیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔"شکر ہے عطروان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا۔ اور گویا میری محنت وصول ہو گئی' مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپن زبان سے اور کچھ کہدیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گئے۔"
میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی' گویا اس نے عطروان توڑا تھا۔ میں عطروان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔
جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹرصاحب نے کہا۔"آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔"
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا۔ "بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطروان۔۔۔ "
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا۔"خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا' خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آُ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں