عشق

عشق کی بخشش دیکھئے ہم کیا سے کیا ہو گئے
ٹوٹ کر کرچی ہوئے پھر جڑ کر کرچی ہو گئے

داستاں لکھنے جو بیٹھے حسرتیں لکھ نا سکے
وہ خوابوں میں ملا تھا ہم خیالوں میں کھو گئے

عمر گزشتہ کی راکھ میں ڈھونڈتے تھے وحشتیں
خاک میں کیا کیا حسرتیں تھیں آبدیدہ ہو گئے

جو کیا ماضی میں دفن اب تلک زندہ ہے وہ
لاش اپنی دیکھ کر خود صورت گریا ہو گئے

کوئ مجبوری نے پوچھے کے ہم سوداگر نہیں
سب کچھ لٹا کر یوں چلے ہم کہ عریاں ہو گئے

وحشت عشق کے گہرے تھے اتنے نقوش
ہم مٹانا چاہتے تھے اور وہ دل پر کندہ ہو گئے

ہائے افسوس کہ رنج سے بھی رفاقت ہو نا پائی
خوش ہوئے وہ کھو کر ہمیں ہم جان کر خوش ہو گئے
 
Top