عشق کا نام دے دیا گیا

غزل
"عشق کا نام دے دیا گیا"


شرابی، بہ اخلاق، بد کردار، کیا کیا الظام دے دیا گیا
میرے مدعی کی جانب سے یہ انعام دے دیا گیا

یہ سُرخ آنکھیں دیکھ کر مجھے شرابی نہ سمجھا جائے
یہ تو بس مفلسی کا انجام دے دیا گیا

کیوں انجمن میں اب دل نہیں لگتا میرا
یہ کیسا مجھے خلوتِ نشیں کا کام دے دیا گیا

بد کردار ہوں میں، کہتے ہیں اہلِ تجاہل یہ مجھ سے
کیا کِیا ہے میں نے؟ جو یہ داغ دے دیا گیا

آنکھیں ہیں میری، زمانے کو یہ میں نے بتایا
پھر بھی مجھے دن میں ہی چراغ دے دیا گیا

پوچھتے ہیں مجھے اہلِ بزمِ سُخن کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟
نہیں بتاتا کسی کو، مجھے تو یہ راز دے دیا گیا

'' یہ بکھرے بال'' ،، ''یہ الجھا ہوا چہرا''
کمزوریاں تو اپنی تھیں، عشق کا نام دے دیا گیا

میرے الفاظ کو تم پرھ کر غلط مدعا مت نکالنا
پہلے بھی مرے لفظوں کو کیا کیا الفاظ دے دیا گیا

کیا تم نے نہیں دیکھا؟ طلسم اُس کی اداؤں کا
واھ جی واھ ہر ادا کو کیا انداز دے دیا گیا

کیا خواب تھا جو بند آنکھوں نے دیکھا
میری غزل کو کیا خوب ساز دے دیا گیا

سوچتا ہوں چلو اب بدل کے دیکھتے ہیں خود کو
ہر اک کہانی کو اک نیا مدعا آج دے دیا گیا

لکھنا اور لکھ کر جلا دینا یہ مجھے خو سی لگ گئی
کچھ چشمِ نم ہوئی ارسلؔان ، پھر وہی آغاز دے دیا گیا

نواب رانا ارسلؔان
 

عظیم

محفلین
غزل کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی نہ کسی بحر میں ہو ۔ جس کو وزن بھی کہا جاتا ہے
اس کے بارے میں تھوڑی معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری چیز ردیف اور قافیہ ہے۔
آپ کے پہلے تین اشعار میں قافیہ اور ردیف دونوں درست ہیں، لیکن اگلے دو اشعار میں قافیہ بدل گیا ہے۔ جو 'داغ' اور 'چراغ' ہے۔ میرے خیال میں آپ کو ان چیزوں کے بارے میں مطالعے کی ضرورت ہے
 
Top