عشق آج اور کل

مدثر عباس

محفلین
عشق کل اور آج
آجکل کے جدید دور نے پیار محبت کو کهلونا بنا کے رکھ دیا ہے نہایت آسانی سے موبائل یا فیس بک کے ذریعے لیلی ڈهونڈنا پهر چند روپوں کا بیلنس ہوا کرکے وصال تک پہنچنا پهر اولاد نرینہ کی شکل میں وصولی اس ساری کہانی میں نہ کوئی ایکشن نہ تھرل ہاں البتہ بعض اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان موبائل پہ جس لڑکی کو اپنے خوابوں کی پری سمجھ رہا ہوتا ہے وہ پری نہیں بلکہ ایک لڑکا ہوتا ہے جس کا تعلق پیسے بٹور گروپ سے ہوتا ہے جو عاشق کو ملاقات کے جھانسے دے کر اس کے پیسوں کو ہوا کر دیتا ہے ۔
پرانا زمانہ بهی کیا زمانہ تها لڑکیاں تو شرم کرتی ہی تهیں لڑکے بهی شرمساری میں پیچهے نہ تهے اس زمانے میں کسی عاشق سے عشق و معشوقہ کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو شرم سے عاشق صاحب اپنے سولہ دانتوں کو دوسرے تقریبا سولہ دانتوں سے لگا کر ہونٹوں سے چهپا لیتے تهے معشوقہ کا انتخاب اور اسکی طرف سے کبوتر کے منہ میں رضا مندی کا خط بهی کافی وقت مانگتا تها اور آج کا نوجوان کیا سمجهے کہ ایک کو دعوت عشق دی تو جیسے اسکی رال بہہ جائے ایسا نہیں تها عاشق تیر کو ہدف تک پہنچانے کے لیے ایک سائنسی اصطلاح کام میں لاتا تها مشاہدہ کافی مشاہدات اور مایوسیوں کے بعد جا کر چهیمو کہیں سے مانتی عاشق اتنا حساس ہوتا تها کہ اگر معشوقہ نے لسی نہ دی تو فورا دکھی اشعار پڑھنا شروع ہو جاتا اب گاوں میں میر و غالب سے آشنائی کم ہوتی تھی اس لیے ایسے موقعوں پہ عاشق حضرات پنجابی دوہڑے ماہیے گا لیا کرتے تھے۔
پهر خط کتابت کا سلسلہ بهی شروع ہوجاتا فیس بک تو تھی نہیں کہ آنن فانن دل کی بات دل تک پہنچ جائے ۔ اس کار خیر کے لیے کبوتر کی خدمات لی جاتی تھیں پیغام رسانی کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عاشق جو بھی کبوتر لاتا وہ کچھ دن بعد اڑ جاتا۔اس زمانے میں خصوصا دیہات میں معاشقہ کم ہی ہوتا تھا جس کی بنیادی وجہ دیہات میں کالجوں کا نہ ہونا تھا۔ اور اگر کر کرا کے کوئی معاشقہ منطقی انجام کو پہنچتا بھی تو پہلے والی چاشنی کھو دیتا ۔ کیونکہ دیہات میں لوگ مال مویشی رکھتے تھے اور اللہ کے فضل سے لوگوں کی اولاد بھی زیادہ ہوتی تھی ۔ معشوقہ کے لیے یہ بات بہت ناگوار ہوتی تھی کہ عشق تو ایک سے کیا سزا سب سے کیوں ملے ؟ اس لیے یہ معاشقہ ارینج میرج میں بدل جاتا ۔زمانہ اگرچہ بدل گیا ہے لیکن دو چیزیں نہیں بدلیں ایک معشوقہ کی یہ خواہش کہ عاشق کا خاندان چھوٹا ہو اور دوسری عاشق کی یہ خواہش کہ سالیاں زیادہ ہوں تا کہ بوقت ضرورت ان سے بھرپور استفاددہ کیا جائے۔
مدثر عباس
 
Top