عزیز نبیل۔ سفر کے پیروں میں کس نے باندھا حصار اپنا

سفر کے پیروں میں کس نے باندھا حصار اپنا
یہ کس نے راہوں میں رکھ دیا انتظار اپنا

سوال لے کر ہمیں اترنا ہے پانیوں میں
جواب رکھّا ہوا ہے دریا کے پار اپنا

مری ہتھیلی پہ ایک شب اے ستارہ صورت
ذرا ٹھہر کر کوئی ستارہ اتار اپنا

ہمارا کیا ہے ابھی ملے ، کل نہیں ملیں گے
غبارِ رہ سے زیادہ کیا ہے شمار اپنا

ہمیں خود اپنے نشے کی مستی میں ڈوبنا ہے
اتار لے اے ذلیل دنیا !خمار اپنا

کماں اٹھائے بھٹک رہے ہیں نبیلؔ یوں ہی
ہمیں خبر ہے کہاں چھپا ہے شکار اپنا
 
Top