عرشؔی بَھوپالی ::::::نِگاہِ شوق سے کب تک مُقابلہ کرتے :::::: Arshi Bhopali

طارق شاہ

محفلین


عرشؔی بَھوپالی
غزل

نِگاہِ شوق سے کب تک مُقابلہ کرتے
وہ اِلتفات نہ کرتے تو اور کیا کرتے

یہ رسمِ ترکِ محبّت بھی ہم ادا کرتے !
تِرے بغیر مگر زندگی کو کیا کرتے

غُرور ِحُسن کو مانوُسِ اِلتجا کرتے
وہ ہم نہیں کہ جو خود دارِیاں فنا کرتے

کسی کی یاد نے تڑپا دیا پھر آ کے ہَمَیں
ہُوئی تھی دیر نہ کُچھ، دِل سے مشوَرہ کرتے


یہ پُوچھو حُسن کو الزام دینے والوں سے
جو وہ سِتم بھی نہ کرتا ، تو آپ کیا کرتے؟

سِتم شعار ازل سے ہے، حُسن کی فِطرَت !
جو میں وفا بھی نہ کرتا تو وہ جفا کرتے

ہَمَیں تو اپنی تباہی کی داد بھی نہ مِلی
تِری نوازشِ بیجا کا کیا گِلا کرتے

نِگاہ ناز کی معصُومِیت ،ارے توبہ!
جو ہم فریب نہ کھاتے تو اور کیا کرتے

نِگاہِ لُطف کی تسکِیں کا شُکریہ ،لیکن !
متاعِ درد کو کِس دِل سے ہم جُدا کرتے

عرشؔی بَھوپالی
(سید مُعین الدین)
1977 - 1921
 
آخری تدوین:
Top