عراق میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد چار ہزار ہوگئی ہے

نبیل

تکنیکی معاون
آج کی خاص خبر یہ ہے کہ عراق پر حملے سے لے کر اب تک پانچ سال میں وہاں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد چار ہزار ہو گئی ہے۔ تفصیل ذیل کے ربط پر پڑھ لیں:

عراق:4 ہزار امریکی فوجی ہلاک

اور عام خبر یہ ہے کہ ان پانچ سالوں میں لاکھوں عراقی بھی ہلاک ہو چکے ہیں، لیکن وہ تو شاید کسی شمار میں نہیں آتے۔
 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مسلمانوں‌کے دشمنوں‌کو نیست ونابود کردے ۔انھیں بھی جو ظاہر ہیں انھیں بھی جو استینوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ انھیں بھی جو بھیس بدل کر حملے کررہے ہیں۔امین
 

زینب

محفلین
میرے خیال میں تو امریکیوں‌کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی کم بتائی جاتی ہے۔۔
 
ہم 'موئے فرنگیوں کی توپوں میں کیڑے پڑیں' سے زیادہ کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ یہی تاریخ ہے ہماری

اگر اللہ سے تعلق مضبوط ہو تو یہی بہت ہے۔
ورنہ کم از کم یہ احساس تو برقرار ہی رہتا ہے کہ ظالم کون ہے۔ یہاں‌تو ایسے بھی ہیں‌جو ظلم کو رحم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اب کوئی دل تھام کی یہ بھی بیان کر دے کہ ان لاکھوں مارے جانے والے عراقیوں میں سے کتنے امریکی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں اور کتنے اپنوں ہی میں سے موجود انتہا پسندوں کی نفرت اور خود کش حملوں کا نشانہ بنے ہیں؟ مگر شاید یہ بات بیان کرنا اجلے گریبانوں والے مسلمانوں کو پسند نہِیں اس لیے اخبارات میں امریکہ کے خلاف تو سب کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے مگر اس انتہا پسندی کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے اجلے دامن والے مسلمانوں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو جاتی ہے۔

امت مسلمہ کو امریکہ یا کسی غیر نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا کہ اپنوں میں ہی موجود بے وقوفوں کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ مہوش، آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ امریکیوں سے زیادہ عراقی خود عراقیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ میری خواہش تو ہوتی ہے کہ امریکہ عراق میں اتنی دیر تک پھنسا رہے کہ اس کی معیشت اس جنگ کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس طرح مزید کئی لاکھ عراقی موت کے گھاٹ اترتے رہیں گے۔ بہتر یہی ہوگا کہ خاموشی سے امریکہ کی غلامی قبول کر لی جائے تاکہ امریکہ عراقی تیل کو حیفہ سپلائی کرنے کے لیے پائپ لائن کھول سکے۔

ویسے انتہاپسندی کے خلاف کافی کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اخبارات اور آن لائن فورمز پر امریکہ کے مخالفوں کے ساتھ ساتھ ان کے حامی بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جن کے پاس امریکہ کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے دلائل کی کمی بھی نہیں ہے۔
 

یاز

محفلین
ہم 'موئے فرنگیوں کی توپوں میں کیڑے پڑیں' سے زیادہ کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ یہی تاریخ ہے ہماری
صحیح کہا محسن بھائی،،،
چنگیز خان سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی جگہ کو فتح کر کے وہ شہر میں داخل ہوا تو کچھ مسلمان علمائے دین نے اس کو کہا کہ وہ قتل و غارت نہ کرے ورنہ ہم تمہیں بددعا دیں گے۔
چنگیز خان نے کہا کہ اے بڈھو! اگر تمہاری دعاؤں میں اثر ہوتا تو میں یہاں تمہارے سامنے نہ کھڑا ہوتا اور اگر اثر ہے بھی تو یاد رکھو کہ ظلم اور بددعا میں پہلی جیت ظلم کی ہوتی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
]شکریہ مہوش، آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ امریکیوں سے زیادہ عراقی خود عراقیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ میری خواہش تو ہوتی ہے کہ امریکہ عراق میں اتنی دیر تک پھنسا رہے کہ اس کی معیشت اس جنگ کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس طرح مزید کئی لاکھ عراقی موت کے گھاٹ اترتے رہیں گے۔ بہتر یہی ہوگا کہ خاموشی سے امریکہ کی غلامی قبول کر لی جائے تاکہ امریکہ عراقی تیل کو حیفہ سپلائی کرنے کے لیے پائپ لائن کھول سکے۔


بالکل صحیح کہہ رہے ہیں آپ نبیل بھائی۔

مگر ایک عراقی فیملی سے ملاقات کے بعد میں نے اس مسئلے کو کچھ اور زاویوں سے بھی سوچنا شروع کیا ہے۔

عراق کی سب سے بہترین صورتحال یہ تھی کہ امریکہ عراق سے نکل جائے۔ مگر میرے ذہن میں ایک سوال چبھتا رہا کہ کیا امریکہ کے نکل جانے سے انتہا پسندوں کے ہاتھوں خود کش حملے اور دیگر قتل و غارت بھی بند ہو جائے گی؟

وجہ یہ ہے کہ امریکہ تو عراق سے نکل جائے گا، مگر یہ انتہا پسند اور انکی انتہا پسندی و نفرت تو پھر بھی عراق میں ہی موجود رہے گی، اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ امریکہ کے نکل جانے کے بعد یہ انتہا پسند طاقت کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنا قبلہ و کعبہ درست کر لیں۔

ہمارے سامنے ایک مثال افغانستان کی ہے کہ جب سویت فوجیں واپس ہوئیں تو انہی مجاہدین نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا اور پھر طالبان کو وجود پیدا ہوا اور پھر انہوں نے مل کر ایک دوسرے کا جو خون و غارت کیا اُس کی سرخی ابھی تک آسمان کے افق پر ہے {مگر گیا ہے کہ بہت سوں کو صرف لال مسجد کی سرخی نظر آئی مگر وہ یہ نہ دیکھ سکے کہ اگر لال مسجد والوں کو ڈھیل ملتی تو پاکستان کے کونے کونے میں لال مسجدیں ہتھیاروں کے ساتھ کھڑی ہوتیں اور پھر اس فتنے کو دبانے کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ خون بہانا پڑتا]

بہرحال بات عراق کی ہو رہی تھی اور میں موضوع پر پھر واپس آتی ہوں۔

یہاں جرمنی میں بہت سی عراقی فیملیز موجود ہیں۔ میں نے اپنا یہی سوال انکے سامنے اٹھایا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد عراق سے ان انتہا پسندوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور نفرتیں ختم ہو جائیں گی؟

میں اگر اس عراقی فیملی کے جواب کو اپنے الفاظ میں پیش کروں تو وہ یہ ہے کہ انہیں ڈر ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد یہ قتل و غارت و خون اس سے کہیں زیادہ بہے گا۔ دونوں طرف انتہا پسند موجود ہیں اور موقع ملتے ہی وہ ایک دوسرے کا لہو چوس لیں گے۔ ۔۔۔۔ چنانچہ اُن کی تجویز یہ تھی کہ امریکی فوجیں صرف اُس وقت جائیں جب عراق سیکورٹی فورسز اس قابل ہوں کہ وہ ان انتہا پسندوں کو قابو میں رکھ سکیں اور عراق کی حکومت تعصبات سے بالاتر ہو کر سب شہریوں کو سیکورٹی مہیا کرے۔

[اگر آپ مجھے اجازت دیں کہ ذرا اور کھل کر لکھ سکوں تو میں بیان کرنا چاہ رہی تھی کہ یہ عراقی فیملی اہلسنت سے تعلق رکھتی ہے، اور انہیں اپنی نجات اس وقت اس بات میں نظر آ رہی ہے کہ امریکہ تھوڑی دیر اور عراق میں رکا رہے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ عراق کی سیکورٹی فورسز انتہا پسندوں کے خلاف انکی حفاظت نہیں کر سکتیں۔ انہیں ایک طرف مقتدرہ الصدر کی مہدی آرمی سے ڈر ہے تو دوسری طرف القاعدہ کا ڈر اور ان دونوں انتہاووں کا ڈر اتنا زیادہ ہے کہ یہ اپنی فلاح اس میں سمجھ رہے ہیں کہ امریکی افواج مزید عراق میں ٹہری رہیں۔
اور میں سوچ کر لرز گئی کہ کتنی بھیانک صورتحال ہے عراق کی جو لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی آج امریکی افواج کے رکے رہنے کی دعا کر رہے ہیں]

نوٹ: اس عراقی فیملی کے 22 ممبر پہلے سے ہی اس انتہا پسندی کی نظر ہو چکے ہیں اور یہ انتہا پسند ہر جگہ اور ہر قوم میں پائے جاتے ہیں اور ان انتہا پسندوں کو نکیل ڈال کر رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ اپنے غیض و غضب میں صرف مظلوموں اور بے قصوروں کو ہی قتل کرتے چلے جائیں گے۔
ایک اور عراقی کا یہاں ایک دوسرے شہر میں ریسٹورانٹ ہے اور اس کے فیملی کے ساٹھ سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور وہ تن تنہا زندہ باقی ہے۔ یہ عراقی غیر مسلم ہے اور آپ کو یاد ہو گا کہ ان غیر مسلم عراقیوں کے ایک قبیلے کی لڑکی نے ایک مسلمان سے شادی کر لی تھی جس پر ان قبیلے کے مردوں نے اُس لڑکی کو قتل کر دیا تھا۔ اور اسکے جواب میں مسلم انتہا پسندوں نے چار ٹرک بھر کر خود کش حملہ کیا تھا جس میں چار سو سے زائد بچے عورتیں اور مرد مارے گئے تھے۔ یہ عراقی اُسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ کیا صحیح یا کیا غلط اور کیا ایک قتل کے جواب میں چار سو معصوموں کو قتل کر دینا جائز یا نہیں، مگر مجھے ہر جگہ انسانیت روتی ہوئی لہولہان نظر آتی ہے۔

ویسے انتہاپسندی کے خلاف کافی کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اخبارات اور آن لائن فورمز پر امریکہ کے مخالفوں کے ساتھ ساتھ ان کے حامی بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جن کے پاس امریکہ کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے دلائل کی کمی بھی نہیں ہے۔


مجھے ڈسکشن فورمز میں انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھانے والے تو مل جاتے ہیں، مگر ایسا شاذ ہی ہوا ہے کہ کوئی اپنا ایسا ملا ہو جو امریکہ کو مکمل پاک دامن ثابت کر رہا ہو [اور اخبارات میں تو شاذ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے امریکہ کی وکالت کی ہو]
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش، امریکہ کے کوئی کرتوت ایسے نہیں ہیں جن کی وکالت کے لیے کوئی لوگ آپ کو آسانی سے مل جائیں۔ کسی ایک فیملی سے آپ کی بات چیت کو عراق پر مستند رائے نہیں تسلیم کیا جا سکتا، یہ زیادہ سے زیادہ حالات کا ایک رخ دکھا سکتا ہے۔ آپ نے اس اہلسنت عراقی فیملی سے امریکہ کے بارے میں تو رائے دریافت کر لی ہے، ذرا ان سے پوچھیں کہ کونسا دور اچھا تھا، امریکہ کے تسلط والا یا پھر صدام کا دور حکومت؟ اس کے بعد میں آپ کو بتاؤں گا کہ میرے عرب دوست اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

آپ فکر نہ کریں، امریکی عراق کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے۔ یہ کوئی افغانستان نہیں ہے جہاں پاکستان کو افغان جنگ کا ملبہ سمیٹنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ عراق میں تیل کے بہت ذخائر موجود ہیں۔ ہالیبرٹن جیسی کمپنیوں کو یہاں اربوں روپے کے کانٹریکٹ مل رہے ہیں۔ بلیک واٹر جیسی پرائیویٹ آرمیز نہایت مہنگے داموں یہاں کے نہایت سستے عراقیوں کو بے دریغ قتل کر رہی ہیں۔

امریکہ کے عراق میں عزائم پورے ہوجائیں تو وہ ایک دن بھی وہاں نہیں رکے گا۔ اس وقت اسے سنیوں یا شیعوں کی حفاظت کا کوئی خیال نہیں آئے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش، امریکہ کے کوئی کرتوت ایسے نہیں ہیں جن کی وکالت کے لیے کوئی لوگ آپ کو آسانی سے مل جائیں۔ کسی ایک فیملی سے آپ کی بات چیت کو عراق پر مستند رائے نہیں تسلیم کیا جا سکتا، یہ زیادہ سے زیادہ حالات کا ایک رخ دکھا سکتا ہے۔ آپ نے اس اہلسنت عراقی فیملی سے امریکہ کے بارے میں تو رائے دریافت کر لی ہے، ذرا ان سے پوچھیں کہ کونسا دور اچھا تھا، امریکہ کے تسلط والا یا پھر صدام کا دور حکومت؟ اس کے بعد میں آپ کو بتاؤں گا کہ میرے عرب دوست اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔

نبیل بھائی، میں مان رہی ہوں کہ آپ کی باتوں میں بہت وزن ہے اور واقعی ایک فیملی کی رائے کو عراق پر مستند رائے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
آجکل عراقی حکومت مہدی ملیشیا کے خلاف ایکشن لے رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ یہ عراقی حکومت اتنی طاقتور ہو کہ ایسے عناصر کا مقابلہ کر سکے اور اسکے بعد اتحادی فوجیں عراق سے انخلاء کر لیں تو ہم بہت حد تک امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ عراقی حکومت اپنے نہتے شہریوں کی حفاظت کر سکے گی۔

جہاں تک صدام حسین یا امریکی تسلط والے دور کی بات ہے تو اس مسئلے میں یہ اہلسنت فیملی یقینی طور پر صدام حسین کے دور کی گرویدہ ہے [بلکہ انکا تعلق اُن قبائل سے ہے جو صدام حسین کے وفادار تھے۔ انہی کے مقابلے میں کچھ سنی قبائل صدام حسین کے بہت مخالف بھی رہے ہیں]

بہرحال تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ میری پھپو جب عراق سے زیارات سے واپس آئیں تو انکا کہنا تھا کہ کربلا و نجف میں خال خال ہی ایسے گھر نظر آتے تھے جہاں گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں کے نشانات نہ ہوں۔

اس سنی فیملی کی مقابلے میں وسطی و جنوبی عراق کی اگر شیعہ آبادی سے یہ سوال کیا جائے کہ القاعدہ، صدام اور امریکہ ان تینوں مِیں سے سب سے کم نقصان انہیں کس نے پہنچایا ہے تو انکا جواب امریکہ ہو گا۔

//////////////////////////

عراق کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کی شیعہ آبادی پاکستان کی شیعہ آبادی کی طرح نہیں ہے بلکہ بہت ہی منظم اور مذھبی لوگ ہیں اور "مرجع تقلید" [مثلا آجکل آغا سیستانی] کی ایک آواز پر لبیک کہہ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ آپ نے خود کیا ہو گا کہ آغا سیستانی کے ایرانی ہونے کے باوجود انہیں عراقی عوام میں جو درجہ حاصل ہے وہ کسی بھی اور لیڈر کو حاصل نہیں۔

مگر مرجع تقلید کے گرد جمع ہونا صرف آغا سیستانی تک محدود نہیں، بلکہ ان سے قبل ایک مرجع تقلید گذرے ہیں آیت اللہ باقر الصدر کے نام سے اور انہیں عراقی عوام میں جو درجہ حاصل تھا وہ آج سیستانی صاحب کو بھی نہیں۔ مگر صدام حسین نے عراق کو ایسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا کہ اگر ایک شخص بھی صدام کے خلاف آواز اٹھاتا تو اُس شخص کے پورے خاندان کو قتل کر دیا جاتا تھا، اور یہی آیت اللہ باقر الصدر کے ساتھ ہوا کہ انہیں اپنی فیملی کے بہت سے ارکان کے ساتھ شہید کر دیا گیا [مقتدرہ الصدر اُس وقت چھوٹا تھا اور بہت خوش قسمت تھا کہ اس قتل و غارت سے بچ گیا]

صدام حسین کے خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ عراق کی یہ شیعہ آبادی انقلاب ایران کے حامی ہونے کے باوجود محاذ پر ایران کے خلاف لڑ رہی ہوتی تھی، اور اسکی وجہ یہ تھی کہ بہت سے ان عراقی شیعوں نے جب جب ایران کے خلاف لڑنے سے انکار کیا تو انکے ساتھ ساتھ انکے پورے پورے خاندانوں تک کو قتل کر دیا گیا۔

ذرا دیکھئیے کہ عراق کی 20 فیصد کرد آبادی شمال میں صدام حسین کے خلاف۔
پھر وسطی و جنوبی عراق کی شیعہ آبادی جو 60 فیصد وہ صدام حسین کے خلاف

مگر صدام کے خوف ہو ہراس کا یہ عالم کہ وہ 20 فیصد آبادی کی زور پر وہ اتنا مضبوط اور ہر مخالفت کو دبانے میں اتنا مضبوط کہ آج امریکہ اس میں کامیاب نہیں جبکہ موجودہ عراقی حکومت بھی امریکہ کی پشت پر موجود ہے۔

تو صدام حسین جو ہر مخالفت کو دبا دینے میں کامیاب ہو جاتا تھا تو اسکی وجہ اُسکی عراقی عوام میں مقبولیت نہیں تھی، بلکہ یہ اُس کا پورے پورے خاندانوں کو قتل کر دینے والے وہ ظالمانہ اقدامات تھے جو آج امریکہ بھی عراق میں نہیں کر رہا ہے۔ یہ طریقے بہت ظالمانہ ہوں تو ہوں، مگر یہ ظلم صدام حسین نے بہت کامیابی سے عراق میں کر کے اپنی حکومت کو مستحکم رکھا۔

صدام دور میں کئی لاکھ شیعہ فوجی نہ چاہتے ہوئے بھی ایران عراق جنگ کی نظر ہوئے، اور اس سے کئی لاکھ زیادہ صدام حسین نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کے اندر مروائے۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر کیا ہے کہ اس قتل عام کا ذکر اُسوقت امریکی میڈیا کرتا تھا، نہ سعودی میڈیا اور نہ پاکستانی میڈیا جو کہ امریکہ و سعودیہ کے زیر اثر تھا۔

////////////////////////////////

جب سوال پوچھا جاتا ہے کہ صدام دور اچھا تھا یا امریکی دور، تو یہ سوال یا اسکا کوئی بھی جواب آپ کو صحیح صورتحال بیان نہیں کرے گا۔

اسکی وجہ یہ ہے آج القاعدہ عراق میں جو عام شہریوں پر خود کش حملے کر کے کئی لاکھ لوگوں کا قتل عام کر چکی ہے تو ہمارے پاکستانی اخبارات میں لکھنے والے دانشور اس سب قتل عام کو القاعدہ کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے امریکہ کے کھاتے میں ہی ڈالے جا رہے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس عراقی عوام جو کہ اپنی صورتحال کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، ان میں اس القاعدہ کے خلاف امریکہ سے اتحاد پیدا ہو رہا ہے اور اس میں صرف شیعہ آبادی ہی نہیں بلکہ بہت سے سنی قبائل بھی شامل ہیں۔

امریکہ نے عراقی شہریوں کا بذات خود کچھ قتل عام نہیں کیا جو کہ صدام حسین نے اپنے دور یا پھر القاعدہ کے انتہا پسند آج کر رہے ہیں۔ لیکن اگر آج ہم ان انتہا پسندوں کی جانب سے ہونے والے تمام تر خون خرابے کو بھی امریکہ کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے تو میری ناقص رائے میں یہ حالات کا صحیح ادراک کرنے میں بہت بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

تو اگر بطور پاکستانی ہم عراق کی صورتحال کو سمجھنا چاہتے ہیں تو شاید صدام حسین کے صرف وفادار سنی قبائل صدام حسین کے دور کو بہتر سمجھتے ہوں، مگر شمال کی کرد آبادی اور وسطی و جنوبی شیعہ آبادی بلا شبہ امریکہ کو صدام حسین دور سے بہت بہتر سمجھ رہے ہیں اگرچہ کہ انہیں آج القاعدہ کی جانب سے زیادہ جانی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ رہا ہو۔ عراقی آبادی کے یہ اکثریتی حصے آج اپنے آپ کو صدام دور سے زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں اور اگرچہ کہ انہیں امریکہ سے بہت سی شکایات ہیں [مثلا یہ کہ امریکہ ماضی میں اپنے ملکی مفادات کے پیش نظر صدام حسین کی حمایت میں دوغلا رویہ دکھلا کر صدام کے ہاتھوں انکے قتل عام پر خاموش رہا ہے] مگر پھر بھی امریکی دور صدام حسین کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے کہ نام کی ہی سہی مگر عراقی عوام کی اپنی نمائندہ حکومت موجود ہے، قانون بہت حد تک آزاد ہے اور خاندانوں کے خاندان قتل نہیں کیے جا رہے ہیں۔

دیکھئیے، امریکہ صرف برائی کا محور نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سے اچھائیاں بھی ہیں۔

/////////////////////////////

عراقی تیل اور امریکی کمپنیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں میری پہلے ایک انگلش ڈسکشن فورم میں امریکیوں سے گفتگو ہو چکی ہے۔ اسکے بعد فواد صاحب نے بھی یہ اعداد و شمار پیش کر دیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عراق کا "کل تیل" اتنی مالیت کا نہیں ہے کہ جتنا کہ امریکہ عراق میں خرچہ کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے کم از کم میں نظر انداز نہیں کر سکی ہوں۔ اسرائیل کو شمالی کرکوک سے تیل کی سپلائی بھی اتنی اہم نہیں ہے کہ اس کے بغیر اسرائیل میں تیل کا بحران پیدا ہو جائے۔

امریکہ کے عراق پر حملے کے تیل کے علاوہ دوسرے مقاصد ہو سکتے ہیں جنہیں تیل سے زیادہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے [کیونکہ ہو یہ رہا ہے کہ انگلش ڈسکشن فورمز اور دیگر سطحوں پر مسلمان صرف تیل تیل کا شور مچائے ہوئے ہیں جبکہ مغربی میڈیا نے مغربی عوام کو یہ اچھے طریقے سے باور کروا دیا ہے کہ امریکہ کے جنگی اخراجات عراق کے کل تیل کی مالیت سے زیادہ ہیں۔ اس صورتحال کے بعد امریکہ کے اصل مقاصد پس پردہ چلے گئے ہیں اور ان پر صحیح طور پر روشنی نہیں پڑ رہی ہے۔

تو ذرا سوچئیے کہ تیل کی کمائی کے علاوہ امریکہ کے کیا مقاصد و عزائم ہو سکتے ہیں۔

کیا امریکہ کرد آبادی کا مسئلہ پیدا کر کے ترکی، شام، ایران اور عراق کو پھنسانا چاہتا ہے؟ یا کرد آبادی کی صورت میں اسرائیل کا ایک اور حامی پیدا کرنا چاہتا ہے، یا علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو پختہ کرنا چاہتا ہے اور عرب ممالک پر رعب قائم رکھنا چاہتا ہے کہ ہم سے اسحلہ خریدو اور ہمیں اپنی طرف رکھو اور ہماری مخالفت نہ کرو، یا پوری دنیا کو میسج دینا چاہتا ہے کہ ہم اکلوتی سپر پاور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان مسائل پر اور زیادہ سوچنا ہے قبل اسکے کہ میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں۔ بہرحال مجھے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ تیل ایک بہت چھوٹا سا ضمنی مسئلہ ہو سکتا ہے، مگر اصل نہیں۔ تیل کی دولت لامحدود نہیں ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کا جی ڈی پی اگر ملا بھی لیا جائے تو اکیلے چین کے جی ڈی پی کے برابر نہیں بنتا۔ چنانچہ عراق کے مجموعی تیل کی مالیت امریکی معیشیت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
مسئلہ یہ ہے کہ عراق کا "کل تیل" اتنی مالیت کا نہیں ہے کہ جتنا کہ امریکہ عراق میں خرچہ کر چکا ہے۔ یہ ا
اب جبکہ تیل کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور 90 ڈالر سے نیچے آنے کا نام نہیں لے رہی 112 بلین بیرل تیل سے امریکا زیادہ خرچ کر چکا؟ :eek: ابھی تو نوے فیصد عراقی رقبے کو تلاشا بھی نہیں گیا، جن سے مزید 100بلین بیرل کی امید ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں یہ گفتگو کسی اور جانب چلی گئی ہے۔ میں نے صرف ایک خبر کا حوالہ دیا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ امریکہ کے عراق سے نکلنے سے کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ امریکہ جب ویتنام سے ذلت آمیز شکست سے دوچار ہو کر وہاں سے نکلا تھا تو وہاں بھی خوشحالی نہیں آ گئی تھی۔ یہی کچھ عراق میں بھی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کسی کے گھڑے ہوئے اعدادوشمار سے حقیقت نہیں بل سکتی۔
 

جہانزیب

محفلین
اب کوئی دل تھام کی یہ بھی بیان کر دے کہ ان لاکھوں مارے جانے والے عراقیوں میں سے کتنے امریکی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں اور کتنے اپنوں ہی میں سے موجود انتہا پسندوں کی نفرت اور خود کش حملوں کا نشانہ بنے ہیں؟ مگر شاید یہ بات بیان کرنا اجلے گریبانوں والے مسلمانوں کو پسند نہِیں اس لیے اخبارات میں امریکہ کے خلاف تو سب کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے مگر اس انتہا پسندی کے خلاف کچھ لکھتے ہوئے اجلے دامن والے مسلمانوں کے قلموں کی سیاہی خشک ہو جاتی ہے۔

امت مسلمہ کو امریکہ یا کسی غیر نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا کہ اپنوں میں ہی موجود بے وقوفوں کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔

مہوش بظاہر آپ کی بات بالکل درست ہے، لیکن اس کے پیچھے کارفرما عوامل پر غور کرنا بہت زیادہ ضروری ہے، امریکہ کی یلغار کے ایک سال بعد تک آپ کو عراق میں سنی شیعہ جھگڑا دکھائی نہیں دیتا، بلکہ اُس وقت تک صرف خبروں میں "اِن سرجنٹس" کی تکرار سنائی دیتی تھی، اور ان اِن سرجنٹس کو بھی وہ لوگ قرار دیا جاتا تھا جو صدام کے وفادار تھے ۔ لیکن ایک سال بعد شیعہ سُنی نے اس کی جگہ یوں لے لی کہ لگتا ہے کہ یہ کبھی ختم ہونے والے نہیں ۔
عراق پر پہلے امریکہ میڈیا میں یہ تاثر پیدا کر چکا تھا کہ سو فی صد شیعہ صدام کے خلاف ہیں اور وہ امریکہ کا عراق میں خیر مقدم کریں گے، اسی تاثر کے بعد جب امریکہ عراق میں داخل ہوا اور اس کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو مزاحمت کاروں کو سنی سمجھا گیا، رد عمل میں عراقی پولیس میں شیعہ عراقیوں کو بھرتی کیا گیا، اور صرف وہ شیعہ جن کو مقتدی الصدر کی پرچی حاصل ہوتی تھی، اس پولیس کی کارستانیوں پر ایک فلم "عراقی ڈیتھ سکواڈ" بھی بن چکی ہے، شاید آپ نے دیکھی ہو ۔ان پولیس والوں نے جو کچھ عراق میں کیا ہے یہ شیعہ سنی تصادم اُسی کا نتیجہ ہے، بغداد میں امریکی ہولڈ کے باوجود بھی سنی شیعہ ایک دوسرے کے علاقے میں نہیں جا سکتے، خود امریکی گرین زون کے اندر رہتے ہیں ۔
اس سب کے باوجود اگر آپ عراقیوں کی ہلاکتوں میں امریکہ کو قصور وار نہیں سمجھتی؟ امریکہ کی پشت پناہی پر یہ سب شروع ہوا تھا، لیکن بعد میں امریکہ کے ہاتھوں سے سب کچھ نکل گیا، اور اپنی پشیمانی کو چھپانے لے لئے ایسا کہنے لگا کہ یہ مسلمانوں کی اپنی لڑائی ہے، سوال یہ ہے کہ صدام امریکہ کے مقابلے میں بہت کم رسورسز رکھتا تھا، اس کے باوجود شیعہ سنی تصادم اس طرح کیوں نہیں تھا؟ اور اگر آپ یہ کہیں کہ صدام نے بہت زیادہ سختی برتی ہوئی تھی جس کی وجہ سے ایسا نہیں تھا، تو میں کہوں گا وہ سختی اس نرمی سے لاکھوں درجہ بہتر تھی جس سے لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے ہیں ۔
 

جہانزیب

محفلین
شکریہ مہوش، آپ نے صحیح نشاندہی کی ہے کہ امریکیوں سے زیادہ عراقی خود عراقیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ میری خواہش تو ہوتی ہے کہ امریکہ عراق میں اتنی دیر تک پھنسا رہے کہ اس کی معیشت اس جنگ کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس طرح مزید کئی لاکھ عراقی موت کے گھاٹ اترتے رہیں گے۔ بہتر یہی ہوگا کہ خاموشی سے امریکہ کی غلامی قبول کر لی جائے تاکہ امریکہ عراقی تیل کو حیفہ سپلائی کرنے کے لیے پائپ لائن کھول سکے۔

ویسے انتہاپسندی کے خلاف کافی کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے۔ اخبارات اور آن لائن فورمز پر امریکہ کے مخالفوں کے ساتھ ساتھ ان کے حامی بھی کافی تعداد میں موجود ہیں جن کے پاس امریکہ کی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے دلائل کی کمی بھی نہیں ہے۔

نبیل امریکی معیشت صرف اکیلے خو ہی نیچے نہیں جائے گی، بلکہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تمہیں بھی لے ڈوبیں گے والا حساب ہے، دنیا بھر کی معیشت اس وقت امریکی معیشت سے جڑی ہوئی ہے، اسی سے آزاد ہونے کے لئے تو آپ لوگ یورو استعمال کر رہے ہیں اب ۔
 

جہانزیب

محفلین
عراقی تیل اور امریکی کمپنیوں کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں میری پہلے ایک انگلش ڈسکشن فورم میں امریکیوں سے گفتگو ہو چکی ہے۔ اسکے بعد فواد صاحب نے بھی یہ اعداد و شمار پیش کر دیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عراق کا "کل تیل" اتنی مالیت کا نہیں ہے کہ جتنا کہ امریکہ عراق میں خرچہ کر چکا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جسے کم از کم میں نظر انداز نہیں کر سکی ہوں۔ اسرائیل کو شمالی کرکوک سے تیل کی سپلائی بھی اتنی اہم نہیں ہے کہ اس کے بغیر اسرائیل میں تیل کا بحران پیدا ہو جائے۔

امریکہ کے عراق پر حملے کے تیل کے علاوہ دوسرے مقاصد ہو سکتے ہیں جنہیں تیل سے زیادہ منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے [کیونکہ ہو یہ رہا ہے کہ انگلش ڈسکشن فورمز اور دیگر سطحوں پر مسلمان صرف تیل تیل کا شور مچائے ہوئے ہیں جبکہ مغربی میڈیا نے مغربی عوام کو یہ اچھے طریقے سے باور کروا دیا ہے کہ امریکہ کے جنگی اخراجات عراق کے کل تیل کی مالیت سے زیادہ ہیں۔ اس صورتحال کے بعد امریکہ کے اصل مقاصد پس پردہ چلے گئے ہیں اور ان پر صحیح طور پر روشنی نہیں پڑ رہی ہے۔

تو ذرا سوچئیے کہ تیل کی کمائی کے علاوہ امریکہ کے کیا مقاصد و عزائم ہو سکتے ہیں۔

کیا امریکہ کرد آبادی کا مسئلہ پیدا کر کے ترکی، شام، ایران اور عراق کو پھنسانا چاہتا ہے؟ یا کرد آبادی کی صورت میں اسرائیل کا ایک اور حامی پیدا کرنا چاہتا ہے، یا علاقے میں اپنی فوجی موجودگی کو پختہ کرنا چاہتا ہے اور عرب ممالک پر رعب قائم رکھنا چاہتا ہے کہ ہم سے اسحلہ خریدو اور ہمیں اپنی طرف رکھو اور ہماری مخالفت نہ کرو، یا پوری دنیا کو میسج دینا چاہتا ہے کہ ہم اکلوتی سپر پاور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان مسائل پر اور زیادہ سوچنا ہے قبل اسکے کہ میں کسی نتیجے پر پہنچ سکوں۔ بہرحال مجھے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ تیل ایک بہت چھوٹا سا ضمنی مسئلہ ہو سکتا ہے، مگر اصل نہیں۔ تیل کی دولت لامحدود نہیں ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک کا جی ڈی پی اگر ملا بھی لیا جائے تو اکیلے چین کے جی ڈی پی کے برابر نہیں بنتا۔ چنانچہ عراق کے مجموعی تیل کی مالیت امریکی معیشیت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

امریکہ کا اس جنگ میں پانچ سو بلین ڈالر خرچ ہے،
اب خود ہی اپنی سٹیمنٹ دوبارہ پڑھیں ۔
 
Top