عبدالرزاق قادری
معطل
اسلام دین فطر ت ہے ۔یہی انسانیت کا حقیقی خیر خواہ ہے ۔ اسلام ہی انسانی حقوق کا سچا علم بردار ہے ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیا ت ہے ۔یہ زندگی گزارنے کے تما م طور طریقے سکھاتا ہے ۔ یہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں ہے ۔ اس کے نظام میں کہیں بھی کوئی خرابی موجو د نہیں ہے ۔ صدیوں پہلے ایک فلا سفر نے کہا تھا
There is no Rule without power
There is no power without army
Ther is no army without agriculture
and There is no agriculture without justice
ترجمہ: طاقت کے بغیر حکومت نہیں ، فوج کے بغیر طاقت نہیں ،
زراعت کے بغیر فوج نہیں اور انصاف کے بغیر زراعت نہیں
لیکن ہم کہتے ہیں کہ
There is no justice without Muhammad peace be upon him
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر انصاف ممکن ہی نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو انصاف سکھایا ۔دنیا کا پہلا تحریری دستور میثاق مدینہ ہے ۔ اس سے پہلے کوئی تحریری دستور یا قانون موجو دنہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شہر کے یہودیوں کو نہ صرف برابری کے حقوق عطا فرمائے بلکہ اس سے بھی زیادہ رعا یت ان کو دی ۔ انصاف کے عالمی دعوے دار اس کی مثال پیش کرنے سے قیامت تک قاصر ہیں اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے خو د خلیفہ ہوتے ہوئے قاضی کی عدالت میں جاکر اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کیا۔ اور قاضی کے فیصلے کو مِن وعَن قبول کیا ۔ اس طرح کے سلوک کو دیکھ کر کئی بار کئی یہودی اسلام لائے ۔ اسلام کی یہی مثالیں ان کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ثابت ہوئیں ۔ عالمی جنگ دوم میں چر چل و نسٹن نے بھی جنگ کی خبر دینے والے کے جو اب میں کہا تھا ۔ کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ؟اگر وہ ایسا کر رہی ہیں تو فتح ہماری ہو گی۔ تاریخ کے ان حوالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انصاف کی اہمیت باقی تمام عوامل سے مقدم رہی ہے ۔ وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجو د میں آیا ۔ لیکن جب انصاف نہ ہوا تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا ۔پہلے بھی جب انصاف نہ کیا گیا تھا تو ہلا کو خان وغیرہ کو خوار زم شاہی اور پھر بغداد پر حملہ کرنے کا موقع ملا ۔ دنیا میں جہاں جہاں جتنا بھی ظلم ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ انصاف سے رو گردانی رہی ۔ آج وطن عزیز میں پھر سے انصاف مفقود ہے ۔اسمبلی میں ، سینٹ میں ، عدالت میں ، جی ایچ کیو میں ، صوبوں میں ، میڈیا میں اور تعلیمی اداروں کہیں بھی تو انصا ف نظر نہیں آتا ۔ اقبال نے کہا تھا۔
گلہ تو گھونٹ دیا ہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ لا اللہ
اس کی کمیابی کی بنیادی وجہ تعلیم و تربیت ہے ۔ہماری قوم کی تعلیم و تربیت ان لو گوں کے ہاتھوں دے دی گئی جو مغرب کی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں ۔ ہمارے تربیت کرنے والے باطل مفکرین کے فلسفوں سے متاثر اور مر عوب ہیں ۔ وہ یورپ اور امریکہ کی چکا چوند کے معترف ہیں ۔ یعنی معاملہ کچھ یوں ہے کہ
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خو دی کو
ہو جائے ملا ئم تو جد ھر چاہے اُسے موڑ
یہ قوم بز عم خو یش تعلیم حاصل کر کے بھی اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہے اور خاکم بدہن جاہل ہی ہے ۔ تو پھر انصاف کہاں سے آئے ۔ آج ہم بلو چستان سے انصاف نہیں کر رہے تو وہ بھی جو کچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے ۔ ہمارا میڈیا رارفعہ مر تضیٰ کو کوریج نہیں دے سکا ۔ جس نے 2008میں آکسفورڈ کے امتحان اولیول میں دوسری پوزیشن سے کامیابی حاصل کی ۔ پچھلے سال شای 2011میں بھی ایک پاکستانی بچے نے اسی امتحان میں یہی پوزیشن حاصل کی لیکن اس میڈیا کو بھارتی ثقافت کو فروغ دینے سے فرصت نہیں ۔ کشمیر کے ڈاکٹر وں نے ایک بزرگ عورت کے دل کا وہ آپر یشن کامیاب طریقے سے کیا جو مغرب کے سائنس دان کرنے سے عاری تھے ۔ اور مائیکل جیکسن کے اسلام کرنے کی خبر نشر نہیں ہو سکتی تھی ۔ اُس کی تصدیق یا تردید کا پتہ نہیں چلا۔
یہ تمام خبریں میں نے اخبارات کے صرف ایک انچ اور ایک کالم میں پڑھیں ۔ تو کیا خیال ہے ان حالات میں ہم قانون فطرت سے فرار حاصل کرلیں گے ۔ عافیہ صدیقی کے کیس نے امریکہ اور پاکستان کی عدالتوں کا چہر ہ بے نقاب کر دیا ۔ وہ گیارہ سالہ بچی آمنہ جس کو ا س کی کافرہ فرانسیسی ماں کے حوالے کر دیا گیا ۔ اور ریمنڈ ڈیوس کے معاملا ت نے تخت لاہور کی عدالتوں کا حقیقی چہرہ سامنے لا
کر کھڑا کردیا ۔
غازی ممتاز قادری کوپچھلے سزا سُنا کر اسلام آباد کی عدالتوں نے اپنے چہرے پر قیامت تک کے لیے کالک مل لی کیا ان معاملا ت پرسو مو ٹو ایکشن لینے والا کوئی عادل نہیں کوئی قاضی نہیں کوئی چیف جسٹس نہیں ۔افتخار چودھری کے گزشتہ پی ۔سی ۔ او حلف کو یار لو گوں نے زمانہ جاہلیت قرار دے کر بر ی قرار دے دیا ۔تو اب وہ کہاں کھڑے ہیں ؟