اسکین دستیاب عثمان بطور

شمشاد

لائبریرین
یہ صفحے (ریختہ صفحہ 5 سے 35 تک) پروف ریڈ ہو چکے ہیں :

دیباچہ

ریختہ 5

(مولانا محمد عثمان صاحب فارقلیط چیف ایڈیٹر روزنامہ الجمیعۃ دھلی)

اس کتاب میں قازقستان کے جن مظلوموں کی داستان مظلومی بیان کی گئی ہے اسے افسانہ قرار دینا نہ صرف مظلوموں پر مزید ظلم ہو گا بلکہ کمیونسٹ نظام کی ظالمانہ گرفت کے ساتھ بھی بڑی ناانصافی ہوگی ، اگر تاریخ کا بطور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انسانی زندگی کی داستانیں ترک وطن کے مسلسل واقعات سے بھری پڑی ہیں، اسلامی تاریخ کا تو پہلا باب ہی ہجرت سے شروع ہوتا ہے جس نے ترک وطن کے ساتھ وطن کی واپسی کا جذبہ پیدا کیا اور یہ ہجرت واپسی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جب کبھی فاتح اور طاقتور قوموں نے کمزور قوتوں پر جبر کا حربہ استعمال کیا تو مفتوح اور ناتواں قوموں نے وطن پر ترک وطن کو ترجیح دی اور انھوں نے عزت نفس کی خاطر وطن کے گلستانوں اورشفاف نہروں کی پرواہ کی اور نہ ان گلی کوچوں کو یاد کیا جہاں انہوں نے بچین اور جوانی کے ایام گزارے تھے ، کیونکہ عزت نفس ہی انسان کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کتاب میں وہی نفسیاتی حقیقت نظر آئے گی جسے اصطلاح میں صیانت نفس اور قومی غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف ہجرت کے ان واقعات کی یاد دلاتی ہے جو اسلامی دنیا کے لیے

ریختہ 6

ہمیشه باعث افتخار رہے ہیں، یہ سبق ہمیں ہجرت ہی سے ملتا ہے کہ اصولوں کی خاطر انسان کو اپنی ہر محبوب متاع سے دست بردار ہو جانا چاہیے ۔ اسلام کے پیغمبر نے مکہ مکرمہ کی جن گلیوں میں پرورش پائی اور جس شہر کے در و دیوار پر آپ نے پیدا ہوتے ہی نظر ڈالی وہ سب اصول اور سچائی کی خاطر قربان کر دیے گئے۔ آپ نے مخالفوں کے جبر و تشدد سے تنگ آ کر اپنے محبوب وطن کو ترک کیا ، آپ نے چلتے وقت مکہ کو مڑ کر دیکھا اور یہ کہہ کر کہ "۔۔۔۔ اے میرے وطن مکہ تو مجھے محبوب ہے مگر سچائی کی خاطر تجھے چھوڑنا پڑا ہے وہ تجھ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔" مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، مگر یہ روانگی اس لیے نہ تھی کہ مکہ کی وادی، حریفوں کے حوالے کر دی گئی اور انہیں من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا، بلکہ اس لیے تھی کہ کامیابی کے ساتھ واپسی ہو او جبر کو صبر کے ہتھیاروں سے شکست دی جائے ، آپ کے حریف جو فلسفه ہجرت سے ناواقف تھے یہ تصور بھی نہ کرسکتے تھے کہ ہجرت کا ایک مقصد واپسی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انہوں نے یہ سن کر کہ آپ وطن سے بے وطن ہوئے اطمینان کا سانس لیا، ان کا فیصلہ کچھ اور تھا اور قدرت نے کوئی دوسرا ہی فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ آپ مدینه منورہ پہنچے اور تعمیر کا ایک نقشہ اس طرح ترتیب دیا کہ اس میں واپسی کے تمام رنگین نقوش ابھر آئے اور ہر نقش نے زبان حال سے کہا کہ کاتب تقدیر کے فیصلے کی تکمیل اسی مکہ میں جا کر ہو گی جس نے خدا کے فرستادہ کو پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

تاریخ کے اہم ترین واقعات میں ایسی مثالیں موجودہیں بعض دفعہ ظلم کی رسی دراز ہوتی ہے اور بعض دفعہ ہے اسے دراز ہونے کی مہلت نہیں ملتی۔ جن ممالک میں ظلم کی رسی دراز ہوئی وہاں یہ خیال ہی دماغوں سے محو ہو گیا


ریختہ 7

کہ اگر ظلم کی ابتدا ہے تو اس کی انتہا بھی ہے۔ جو لوگ ایسے مقامات سے ترک وطن پر مجبور ہوئے وہ گویا اپنی جگہ یہ فیصلہ کر بیٹھے کہ آئندہ ان کی یا ان کی نسلوں کی واپسی نہ ہو گی اور ان کی امتیازی شان کو دوبارہ عروج پانے کا موقع نہ مل سکے گا، لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب طویل زمانے کے حالات نے پلٹا کھایا اور مظلوموں کو واپسی کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ اصولوں کے مقابلے میں جبر کی شدت اور زمانہ کا طول کوئی چیز نہیں، وہی قومیں جو بے بسی کی حالت میں نکالی گئیں ، کسی وقت جا کر انہوں نے اپنے آپ کو اپنے وطن ہی میں پایا اور ان کی ناتوانی نے بھی توانائی کا روپ دھارن کیا۔ یہی نظارہ ہم کو پیغمبر اسلام کی ہجرت میں نظر آتا ہے۔ گو آپ کا زمانہ بہت مختصر رہا مگر ہجرت برائے واپسی کا فیصلہ اٹل ثابت ہوا اور آپ اپنے جاں نثار رفقاء کے ساتھ مکہ مکرمہ لوٹے اور اس شان کے ساتھ کہ مکہ کی اسلامی مرکزیت تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی اور چودہ سو سال بعد بھی اس کی یہ شان باقی ہے۔

زیر نظر کتاب میں جو داستان بیان کی گئی ہے وہ قازقوں کے اس گروہ سے متعلق ہے جس کا آبائی اور روایتی مسکن سنکیانگ یا چینی ترکستان ہے۔ چونکہ یہ لوگ جنگ جو اور بہادر تھے اس لیے وہ ابتدا میں کمیونسٹوں کے دباؤ کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ایک منظم اور جابر حکومت کا مقابلہ ان کے بس کا نہ تھااس لیے وہ شکست قبول کرنے کے بجائے تکلا مکان اور تبت کے صحراؤں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں نکل گئے اور مرتے مرتے بھی دو ہزار کی تعداد میں کشمیر پہنچ گئے اور بالآخر حکومت ترکی کی دعوت پر ترکی میں قیام پذیر ہوئے ، جن لوگوں کو اس بات کی جستجو تھی کہ یہ لوگ اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہنے پر کیوں مجبور ہوئے اور کن اسباب کی بنا پر انہوں نے

ریختہ 8

ہجرت کی مشکلات انگیز کیں وہ ترکی پہنچے اور ان لوگوں سے مل کر وہ تمام باتیں سنیں جو اس کتاب کا جلی عنوان ہیں۔ زیرنظر کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ترکی میں مقیم ان ہی قازقوں کی زبان سے سن کر لکھا گیا ہے ، اسی کے ساتھ خانہ بدوش زندگی اور ان کے اجداد کے حالات بھی درج کیے گئے ہیں جواس لحاظ سے کافی دلچسپ ہیں کہ اس سے پہلے ان کی زندگی پر کسی کو لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

جدید قازق رہنماؤں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد رہنما عثمان بطور سب سے زیادہ مشہور ہیں جو جہاد حریت میں شہید ہوئے۔ عثمان بطور نہ صرف لڑائی کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے بلکہ قیادت کی اہلیت میں بھی بے مثال تسلیم کئے گئے تھے ، لیکن ان کی مہارت دو سامراجوں - سویت یونین اور چین کے سامنے اپنا جوہر نہ دکھا سکی، انہیں خو داحساس تھا کہ وہ ان نظاموں پر غالب نہیں آسکتے البتہ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دے سکتے تھے۔ وہ لڑائی جو روس اور چینی اشتراکیت کے خلافت جاری رہی اور 1930ء اور 1951ء کے درمیانی عرصے میں شدت کے ساتھ بڑھتی رہی، اس کا نتیجہ قازقوں کی ہجرت کی شکل میں نکلا جس کا پورا حال اس کتاب میں درج کر دیا گیا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان قازقوں کی ہجرت کا نتیجہ واپسی کی شکل میں نہ نکل سکے گا ؟ کیا انہیں اور ان کی نسلوں کو پھر سے اپنے وطن مالوف کو دیکھنا نصیب ہو گا ؟ اسلامی ہجرت کی نفسیات سے جو چیز ابھرتی ہے اس کے پیش نظر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، ممکن ہے روس یا چین میں کوئی نیا انقلاب آئے جو موجودہ انقلاب کی تلافی کر سکے اور مہاجرین کے لیے اپنی آغوش کھول دے۔

ریختہ 9

یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف بالشویک روس کے جبر و تشدد کو بھی بے نقاب کرتی ہے کیونکہ بالشویک نظام جو کمیونزم کی دعوت دیتا ہے ایک ایسا ستم گسترانہ نظام ہے کہ اگر اس کے ڈھانچے سے ظلم و جبر کا عنصر نکال دیا جائے تو اس کا درجہ حرارت نفی کے درجے میں آ جاتا ہے۔ یہ نظام جبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا ، اس کے خمیر کا تقاضہ ہے کہ وہ جبر کو دعوت دے۔ اگر اس جبر کی آزمائش کے لیے کوئی حریف نہ مل سکے تو وہ اس کے لیے اپنے ساتھیوں کو منتخب کر لیتا ہے اور اس کے سربراہ خود اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم مصنف کتاب گوڈ فرے لیاس کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے خود قازقوں کی زبان سے اس داستان کے ٹکڑے جمع کیے اور پھر انہیں وقف عام کر دیا۔ ہم یہاں جناب گوپال متل صاحب کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کتابوں کے انبار سے موتی نکالنے میں ہمیشہ کامیاب رہے، اگر ان کی سعی کارفرما نہ ہوتی تو شاید اس کتاب کا ناظرین کے ہاتھوں میں پہنچنا بہت دشوار ہوتا۔

ص 10

پیش لفظ

افراد قصّہ

بحرقطب شمالی اور بحرہند، بحرِمتوسط اور بحر جاپان کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے جو الطائی کہلاتا ہے ۔ اس کی ہری بھری وادیوں اور سرسبز بلندیوں سے وہ قومیں اور وہ راه نما اُبھرے جو ایشیا میں دور دور تک پھیل گئے۔ پیکنگ، دہلی ،سمرقند تک اور یورپ کے قلب تک بھی۔ ان میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جو نقطہ نظر کے اختلاف کے ساتھ دلوں میں خوف اور نفرت۔ تعظیم اور فخرکے جذبات پیدا کرتے ہیں، چنگیزخان، تیمورلنگ ، مغل شہنشاہ اور ایطلا تک ان میں شریک ہیں جنھیں الطائی کے قازق اورمنگول اپنے پرکھوں میں شمار کرتے ہیں۔

ایسے رہنماوں کے نقش قدم پر جو چلے وہ خود بھی رہنماؤں کی طرح سخت کوش، پر اعتماد ، حوصلہ مند، نڈر اور مہماں نواز لوگ تھے اور آج بھی اُن کی آس اولاد میں یہی خصائص پائے جاتے ہیں. وہ ہروقت کمربستہ

ص11

رہتے ہیں کہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دنیا کے دوسرے سرے پرپہنچ جائیں ۔ کسی جنگجو سردار کی رہنمائی میں ایسے کارنامے انجام دیں جن سے شہرت حاصل ہو۔ اپنی کلائیوں پرشکرے بٹھائے اپنے محبوب پہاڑوں میں بے دھڑک گھوڑ ے دوڑاتے پھریں۔ ہر بہار اور خزاں کے موسم میں اپنے نمده دار خیموں کوحسب ضرورت وا دیوں میں بلندی یا پستی میں نصب کریں اور بیرونی دنیا سے بےخبر رہ کر اپنے گلّوں کو چراتے رہیں اوریہ بے خبری اس حد تک ہو کہ اس عظیم "راہ ریشمی" کی بھی انہیں پرواہ نہ ہوجو چین اور یورپ کے درمیان پھیلی پڑی ہے اور جس پر سے پانچ سو سال پہلے مارکو پولو اپنے گھوڑے پر سواربالکل ان کے خیموں کے دروازوں کے سامنے سے گزرا تھا۔

لیکن مارکوپولو کے زمانے کو صدیاں بیت گئیں اور جیسے جیسے یہ صدیاں الطائی کے قریب سے گزرتی گئیں دنیا چھوٹی ہوتی چلی گئی اور الطائی کے بسنے والوں کو دنیا کے سمٹنے کی اس وقت تک نہ تو اطلاع ہوئی اور نہ انھیں اس کی کوئی پروا ہوئی جب تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں بیرونی دنیا نے رفتہ رفتہ انھیں اپنے گھیرے میں نہ لے لیا۔ اس اثنا میں خود ان کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور وہ بجائے سمٹنے کے پھیلنے لگے۔ انہی کی طرح ان کے مویشی، دوکوہان والے اونٹ ،دنبے ، بھیڑ، بکریاں اور پسندیدہ گھوڑے بھی بڑھتے چلے گئے۔ منگول بیشتر مشرق کی طرف پھیلے ۔ قازقوں کی بڑی تعداد مغرب کی طرف چلی اور اس علاقہ میں پھیل گئی جوسویت قازقستان کہلاتا ہے۔ آہنی پردے کی سیدھی جانب یہ علاقہ تقریباً اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ پورا یورپ لیکن ان کی کچھ تعداد مشرق کی طرف زنگاریہ کے علاقہ میں اور ایک بڑے پہاڑی سلسلے میں پھیل گئی جو تئیں شان یا کوہ ملکوتی کہلا تا ہے۔

ص 12

یہ سچی کہانی قازقوں کے ایسے جنوبی گروہ سے متعلق ہے جس کا روایتی مسکن اسی علاقہ میں ہے جس پر روسی اورچینی شہنشاہیت میں صدیوں سے تنازعہ چلا آتا ہے۔ اسی صدی کے شروع میں ان دونوں کے درمیان جو خطِ تقسیم تھا وہ الطائی سلسلہ کوہ کے ساتھ ساتھ اور ملکوتی سلسلہ کوہ کے شمال میں تھا لیکن اس تقسیم پر نہ تو روسی قانع تھے نہ چینی - اس متنازعہ سرحد کے دونوں طرف مٹی میں سونا تھا ، خام دھاتیں تھیں، کوئلہ تانبا وغیرہ تھا اور یورنیم دهات بھی۔ یہ وہی علاقہ تھا جس پرکبھی قازق آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور اس کے حقیقی مالک بھی تھے۔ بیش قیمت معدنیات کے علاوہ کوہِ الطائی اور کوہِ ملکوتی اور دوسرے زیریں سلسلہ ہاے کوہ مویشیوں اور بھیڑوں کے لیے عمدہ چراگاہیں بھی اپنےدامن میں رکھتے ہیں ۔

زمانہ ماضی میں قازق یہ کرتے کہ ان دونوں لالچی شہنشاہیت پسندوں کوآپس میں لڑوا دیتے، یہ طریقہ ابتدا میں کامیابی سے چلتا رہا لیکن بالشویک چیرہ دستی نے زار کی بالا دستی کو غصب کر لیا تو یہ چال ناکا م ہوگی، روس میں اشتراکی حکومت کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے اندرہی اشتراکیوں نے چین کے صوبہ سنکیانگ پر اقتصادی اور اس کے بعد سیاسی قبضہ کرلیا۔ اسی صوبے میں ہماری کہانی کے آٹھ لاکھ قازق آباد تھے، ایک ذرا سے وقفے کے علا وہ اسی زمانے سے اشتراکیوں کا قبضہ چلا آتا تھا۔

گزشتہ ربع صدی سے الطائی اور کوہ ملکوتی کے قازق بڑی دلیری سے مگر نا کام لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب حملہ آور ان کے وطن میں گھس آئے تو بجائے نگوں ساری سے شکست قبول کرنے کے قازقوں نے انہیں لڑ کر نکال دینا چاہا ۔ جنگجوئی قازقوں کے خون میں رچی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں

ص 13

کیا جاسکتا کہ انہیں جنگ سے محبت ہے۔ مگر اب ان کی جنگ کسی مفاد یا ناموری کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے طرززندگی کو بچانے کے لیے تھی اور جب ان میں تاب مقاومت باقی نہ رہی تو بچے کچھے قازق تکلا مکان اورتبّت کے تپتے ہوئے صحراؤں اور بے برگ وگیاہ پہاڑوں میں نکل گئے مگر انھوں نے شکست قبول نہیں کی ۔ راہ میں بہت سے مر گئے لیکن ان کی کچھ تعداد کوئی دو ہزار کے قریب صعوبتیں جھیل کر کشمیر پہنچ گئی اور تھوڑے عرصہ بعد ترکی نے انھیں دعوت دی کہ آکر ان کے ملک میں آباد ہوجائیں۔ یہیں انھوں نے ہمیں اپنی کہانی سنائى۔ بلکہ دراصل ہم خاص طور سے ان کے پاس گئے اور انہیں اس پر آمادہ کیا کہ ہمیں اپنی کہانی سنائیں۔ کیونکہ ادھر تویہ واقعات پیش آرہے تھے اورادھراشتراکی ان واقعات کو بیرونی دنیا سے چھپائے ہوئے تھے ۔ پھر ہماری سمجھ میں اس کی وجہ فوراً آ گئی کہ اسے وہ کیوں پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔

جب ہم قازقوں سے ان کے واقعات سن رہے تھے توہمارا تخیّل بار بار ماضی کے دھندلکوں میں ابراہیمؑ۔ اسحٰق ؑ۔ یوسفؑ، موسٰیؑ، داؤدؑ، یوحناؑ اور الیاسؑ پیغمروں کی طرف جاتا تھا ۔ قازقوں اور قدیم عبرانیوں کے طرز زندگی میں بے حد مشابہت ہے یا تھی۔ حالانکہ قازق ترکوں کی طرح مسلمان ہیں اور چودھویں صدی سے بھی پہلے سے مسلمان چلے آتے ہیں ۔ وہ اس کے بھی مدعی ہیں کہ ان کی اور ترکوں کی نسل ایک ہی ہے اور ان میں سے بعض واقعی ترکوں سے مشابہ ہوتے ہیں مگربیشتر ان میں سے منگولی ناک نقشے کے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا طرزِ زندگی اس زمانے سے چلا آتاہے جب سارے ایشیا میں گھومتے پھرتے قبیلوں نے ایک عام انداز کی زندگی کا ڈول ڈالا ۔ یہ طرززندگی ان بزرگوں کے طرززندگی سے بہت ملتا جلتا ہے جن کا ذکر عہد نامہ قدیم میں آیاہے۔

ص 14

اور آج کل کے بدوی قبائل کی زندگی سے بھی ، اور ان گا تھ اور ہن قوموں سے بھی جوازمنہ تاریک میں یورپ کو تخت و تا راج کر رہی تھیں۔ مگر ہمیں اکثرحیرت ہوتی ہے اس خیال سے کہ ہم اس زمانے کو اگرعہد تار یک سے موسوم کرتے ہیں تو آنے والی نسلیں ہمارے زمانے کو کس نام سے پکاریں گی۔

جہاں تک مجھے علم ہے قازقوں کی خانہ بدوش زندگی کے حالات اب تک کسی نے نہیں لکھے لہذا ہم نے ان کے کارناموں اور صعوبتوں کی داستانِ پاستان لکھنے کی کوشش کی ہے مگر کسی غیر کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ خود انہی کے نقطۂ نظر سے۔ اس سے پہلے کہ ان کا طرزِزندگی فراموش ہو جائے ہم یہ دکھا نا چا ہتے ہیں کہ وہ کسی قسم کے لوگ تھے اوراب بھی دل و جان سے ہیں اور ان پر اشتراکیت کا عذاب نازل ہونے سے پہلے وہ کس قسم کی زندگی بسرکرتے تھے جب انہیں ایک گھٹیا نوآباد قوم قرار دے کران کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا گیا ترانھوں نے اسی طرح مدافعت کی جیسے ہم نے ہٹلر کے تفوق جتانے پرکی تھی۔ چین کے صوبہ سنکیانگ - یا جسے غیر چینی باشندے مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں- میں بسنے والے آٹھ لاکھ قازقوں میں سے کم ازکم ایک لاکھ اب مر چکے ہیں۔

جب یہ بچے کچھے تارکین وطن کشمیرپہنچے تو جوکچھ بھی مختصر حالات ہیں اس عظیم قازقی داستانِ پاستان کے اخباروں میں پیش کیے گئے ان سے ایک غیرمعمولی اخلاقی توانائی اور جرات مندانہ سرتابی کا اظہارہوتا تھا۔ اس واقعہ میں بہ انداز دگر وہی عزم صمیم کارفرما نظرآتا ہے جوان پیشرو اور زائرین میں موجزن تھا جنھوں نے انگلستان کو ترک کر کے بحراوقیانوس کے اس پار ایک نئی جماعت کے قیام کی ٹھانی تھی یا ان بضد اور باہمت بنی اسرائیل میں

ص 15

پایا جاتا تھا جنہوں نے فرعون سے سرتابی کی اور حضرت موسٰیؑ کی سرکردگی میں صحرامیں نکل کھڑے ہوئے اور ان دس ہزار یونانیوں میں بھی کارفرما تھا جن کے ایشیا کے ایک اور علاقے سے بچ نکلنے کے واقعے کو زینوفون نے لافانی بنا دیا جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ قازق محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر میں وہ سکون سے نہیں رہ سکیں گے اور حکومت ترکیہ کے مدعو کرنے پر ترکی جانے والے ہیں تو ہم نے طے کر لیا کہ ہم خود ترکستان جائیں گے اوران سے معلوم کریں گے کہ انہوں نے اس درجہ خوفناک سفر کو طے کرنے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں کیوں ڈالا اور پھر آزادی تک پہنچنے کے لیے انہوں نے جو دوہزارمیل کی مسافت طے کی اس میں ان پر کیا گزری۔

یہ داستان دراصل انیسویں صدی کے اختتام پر 1899ء سے شروع ہوتی ہے یہ وہ سال ہے جس سال عثمان بطور یعنی عثمان سورما پیدا ہوا ۔ چینی تقویم کے مطابق جس کی پیروی قازق کرتے تھے۔ یہ سال "جنگی سورما" کا سال شمارکیا گیا ۔ اس زمانے میں قاذق قبائلی ہمیشہ کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ چنگیز خان ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے زمانے سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ سے یہ طے کیا کہ کس کے خیمے دائیں ہاتھ کو اورکسں کے خیمے بائیں ہاتھ کو لگائے جائیں گے چا ہے میدان ہوں چاہے یہودیہ کی پہاڑیاں۔ بالکل اسی طرح قازقوں نے اپنے درمیان اور منگولی پڑوسیوں کے درمیان کوه الطائی اور کوہ ملکوتی اور ان کے پہاڑوں کے بیچ کی زمین جو زنگاریہ کہلاتی ہے، عبرانی بزرگوں کی طرح تقسیم کرلی۔ کچھ اور لوگ جو اس حصّہ زمین پر رہتے تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے وہ بھی رہتے رہے۔ عبرانی بزرگوں ہی طرح موسموں کے مطابق قازق اپنے

ص 16

خیموں کی جگہ بدلتے رہے۔

موسم بہار اور موسم گرما میں یہودیہ سے کہیں اونچے پہاڑوں میں قازق چڑھ جاتے، پہاڑوں کی چراگاہیں سطح سمندر سے دس دس بارہ باره ہزار فٹ بلندی پرہوتیں۔ برف کی تہ تک جہاں برف ہمیشہ جمی رہتی ہے ان میں رس بھرا سبزہ لہلہاتا رہتا۔ جب خزاں کی سرد ہوائیں برف بدوش آتیں تو یہ قبائل وسطی ایشیا کے وسیع صحراؤں اورلق دق میدانوں کے کنارے اُتر آتے یہاں انہیں اپنی روزی بلکہ رہائش اور لباس کے لیے بھی خدا ہی کا آسرا ہوتا یا پھر اپنے مویشیوں کا۔ اس سارے علاقہ میں قازق جہاں جاتے گھومتے پھرتے۔ اکثر ان کی کلائیوں پر شکرے بیٹھے ہوتے جیسے کسی زمانے میں ہمارے بڑوں کو ان کا شوق تھا وہ اپنے گھوڑوں پر سوار چلتے رہتے اور کئی کئی مصرعوں کے بند گاتے جاتے اور بند کسی لمبی آکار پر ختم ہوتا اور یہ آکار وادیوں میں دیر تک ارغنوں کی طرح گونجتی چلی جاتی۔

ترکی میں جو قازق مہاجر اب موجود ہیں ان میں سے سب نہیں بیشتر وہ ہیں جن کا تعلق کیرائی قبیلے سے ہے، یہ قبیلے والے اُلّو کے پروں کا ایک طرہ اپنی تمک یا ٹوپی میں لگاتے ہیں تاکہ قازقوں کے دوسرے قبیلوں میں ممیّز رہیں۔ پورے کیرائی قبیلے کے افراد کی تعداد لاکھوں پر ہے لیکن اشتراکیوں کی عملداری سے پہلے عموماً وہ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے، ہر چھوٹے قبیلے میں کوئی سو خاندان ہوتے تھے ، تین چار سو افراد۔ ان کا ایک سردار ہوتا تھا، دولت کے اعتبار سے وہ چاہے مالدار نہ ہوں لیکن جانوروں کے لحاظ سے وہ آسودہ حال ہوتے تھے۔ ایک اوسط قبیلے کے پاس کچھ انفرادی اور کچھ شرکتی سب ملا کر کوئی دس ہزار بھيڑیں، دو ہزار مویشی، دو ہزار گھوڑے

ص 17

اور ایک ہزار اونٹ ہوتے لہذا جب ان کا پڑاؤ ہوتا وہاں شور مچا رہتا۔ بے شماربھیڑیں اوران کے بچے ممیاتے، مویشی ڈکراتے، اونٹ بلبلاتے، ان آوازوں میں اونٹ کے گھنگھرؤں کی جھنکار، مویشیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے گھنٹوں کی آواز اور بھیڑوں کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں کی صدائیں شامل ہو کر عجب شور برپا کرتیں۔

جب قازق پڑاؤ بدلتے توجتنے تندرست جا نور ہوتے سب پر قبیلے والوں کا طرح طرح کا سامان لادا جاتا اور چھوٹے بچے بھی لاد د یے جاتے ۔ بچے جب ذرا بڑے ہو جاتے تو انہیں پہلے بھیڑ پر سوار کیا جاتا ،پھر گائے پر اور آخر میں گھوڑے پر ۔ یوں چھوٹی سی عمر ہی میں ہرقازق لڑکا اور لڑکی عمدہ شہسوار بن جاتی۔ چینیوں یا اشتراکیوں سے بہت سے لڑکوں نے اپنی پہلی لڑائی دس سال کی عمرمیں لڑی حالانکہ جدید قازق رہنماؤں میں سب سے مشہور رہنما عثمان بطورجن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے بارہ سال کی عمرسے پہلے کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوا ۔

لڑائی کے فن میرعثمان بطور کا استاد ایک چھاپہ ماررہنما بوکو بطور تھا۔ یہ قازقوں میں اسی طرح مشہورتھا جیسے انگلستان میں رابن ہڈ، البتہ مشرقی ترکستان کے باہر اسے بہت کم لوگ جانتے تھے بوکو بطورکے زمانے میں مانچوحکومت تھی۔ ٹیکس لینے والے چینی حکام قازقوں کے علاقوں میں در آتے اور ان کے مویشی زبردستی لے جاتے، اسے وہ ٹیکسں وصول کرنا کہا کرتے ، اسی طرح چینی کسان گھس آتے اور قازقوں سے ان کی کھیتی باڑی کرنے کی زمین چھین لینے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں حملہ آوروں سے قازق لڑتے رہتے ۔ بعد کے زمانے میں چینی اور روسی اشتراکیوں نے کوشش

ص 18

کی کہ قازق مارکس کے بتائے ہوئے طریقوں پراپنی زندگی بسرکریں ۔ وہ قازقوں کو پکڑ لے جاتے اور ان سے زمینوں پرغلاموں کی طرح کام لیتے یا روسی مالکوں کی کانوں اورکارخانوں میں ان سے جانوروں کی طرح سلوک کرتے۔ قازق ان اشتراکیوں سے مسلسل لڑتے رہے۔

قازقوں کا ایک سردار حسین تجی آج کل ترکیہ میں دیویلی کے قریب رہتا ہے، ہم نے جب اس سے دریافت کیا کہ تم نے اپنا وطن کیوں چھوڑا ؟ تو اس نے کہا:۔

" جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو بہتر ہے کہ انسان مرجائے جانور انسان کو خدا سمجھتا ہے، یہ بالکل لغو بات ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کو خدا سمجھنے پر مجبور کیا جائے۔"

اس سے تقریباً ایک صدی پیشتر ایک اور قازق رہنما كائن سری نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات اس وقت کہی تھی جب روسیوں نے ایک قازق کو رشوت دے کر صلح کی شرطیں منوانی چا ہی تھیں۔

اس کا قصہ یہ ہے کہ روسی قاصد نے قازق سے جب پوچھا :۔

"مضبوط سینگوں والا مینڈھا چاہے کتنے ہی بڑے گلے کا رہنما کیوں نہ ہو کیا شیر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟"

کائن سری نے کہا:-

" وہ شخص جو کسی بڑے مقصد کے لیے جال بچھاتا ہے اپنی مردانگی کو جال ہی میں چھوڑ جاتا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انسان لڑ کرمرجائے یا بے آب و صحرا میں دم توڑ دے، بجائے اس کے کہ بےعزتی کو قبول کر لے اور غلام بن کر زندہ رہے؟"

ص 19

اس عقیدہ کے ساتھ ہمارے ہی زمانے کے قازق کمرمیں تلوار لگاتے ہتھ گولے پیٹی میں لٹکاتے، رائفل یا مشین گن شانے پر آویزاں کرتے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتے، اب ان میں چنگیزخاں اوراطّلا اور تیمورلنگ کی طرح ملک گیری یا کشورکشائی کا جذبہ نہیں تھا وه اب آخری لڑائی لڑ رہے تھے اپنے محبوب طرززندگی کو بربادی سے بچانے کے لیے۔ دونہایت قوی شہنشاہیاں۔ سوویت یونین اورچین۔ چنگیز خان سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ بے رحم، اسے ہٹا دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ قازقوں کو اس کا احساس تھا کہ اتنے زبردست غنیموں سے وہ کبھی جیت نہ سکیں گے ۔ مگر اس کے باوجود ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ حسین تجی اور کائن سری کی طرح وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔

وه لڑائی جوچینی قومی تحریک کے خلاف شروع ہوئی اور بعد میں چینی اور روسی متفقہ اشتراکیت کے خلاف جاری رہی ۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۱ء کے درمیا نی وقفوں کے ساتھ نہایت شدّت سے بڑھتی رہی۔ ۱۹۵۶ء میں یہ جنگ اپنے پورے عروج پر تھی۔ تکلا مکان کے لق و دق صحرا اور شمالی تبت نے سنگلاخ پہاڑوں میں قازق تارکینِ وطن کشمیر پہنچنے کے لیے راه تلاش کررہے تھے ۔ جہاں تک ہمارے قصے کا تعلق ہے اس ہجرت کا انجام پندرہ مہینے کے بعد 54،1953ء میں ہوا : یعنی کشمیر سے ترکی کا ہوائی، بّری اور بحری سفر۔ یہاں ترکی حکومت کی مہربانی سے ان قازق مہاجرین کو مسکن ملا اگرچہ شائد وہ پکی چھتوں وانے مکانوں پر اپنے خیموں ہی کو ترجیح دیتے ہوں۔

ص 20

قازقوں کا قصّہ سنانے سے پہلے ان خاص خاص اشخاص کا تعارف کرا دینا ضروری ہے جن سے ہمیں حالات معلوم ہوئے۔ پہلا شخص علی بیگ ہے۔ یہ اپنے وطن میں ایک سردار تھا ۔ ترکی قانون کسی ایسے عہدے کی تسلیم نہیں کرتا۔ کیونکہ شائد اعلیٰ افسروں کے علاوہ ترکیہ میں سب انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے لیکن علی بیگ ان افراد میں سے ایک ہے جو برابر ہوتے ہوئے بھی اوروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ جس کسی نے بھی سلیحلی میں علی بیگ سے اُس کے گھر پر ملاقات کی ہے اس نے خود دیکھ لیا ہو گا کہ وہ اب بھی کوئی تین سو خاندانوں کے قبیلے کا سردار ہے۔ اسی کے پڑوس میں اس کا زمانہ جنگ کا رفیق و معاون حمزہ رہتا ہے۔ علی بیگ اور حمزہ، انہی دونوں نے قازقوں اور اشتراکیوں کی طویل کش مکش کے واقعات ہم سے بیان کیے ہیں جنہیں ہم اس کتاب میں درج کر رہے ہیں ۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ اسی جدال و قتال میں نمایاں طور پر بسر ہوا ہے، ہم ان کے بے حد شکر گزارہیں اور دل سے مدّاح ہیں۔ اور اگر ہم سے سمجھنے میں کہیں کوتاہی ہو گئی ہو یا نادانستگی میں ہم سے کوئی غلط بیانی ہوگئی ہوتو ہم صمیم قلب سے ان سے معافی کے خواستگارہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے اس انگریز دوست کی بھی ستائش کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ ترکی گیا اورترجمان کے متفرق فرائض ادا کرتا رہا۔ ہم ڈگلس کیروتھرزرائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے طلائی تمغہ یافتہ کے بھی شکر گزارہیں جنہوں نے وسطی ایشیا کے متعلق اپنی بے مثل جغرافیائی معلومات نہایت کشادہ دلی سے ہمارے سامنے پیشں کر دیں اور اپنی نادر تصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی ہمارے حوالے کردیا۔ آخرمیں حسن علی بیگ کے بیٹے کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے کہ

ص 21

بہت سا ترجمے کا مفید کام انہوں نے کیا۔

آسودگی کے زمانے میں علی بیگ کے پاس تین بڑے خیمے تھے، یعنی ہر بیوی کے لیے ایک خیمہ۔ ان خیموں میں علی بیگ کی بھیڑوں ہی کے اون سے بنائے ہوئے نمدے کا استر لگا ہوا تھا ۔ علی بیگ چونکہ سردار تھا اس لیے اس کے خیمے سفید تھے، باقی قبیلے والوں کے خیمے یا تو کالے تھے یا بھورے خاکستری جب وہ اپنی جاڑوں کی قیام گاہ سے گرمیوں کی قیام گاہ کو روانہ ہوتا تو ہر خیمہ اتار لیا جاتا اور اس کے مختلف حصّے جو کئی کئی من کے ہوتے لپیٹ کر اونٹوں اور بیلوں پر لاد دیئے جاتے۔ ہر خیمے کے دس یا بارہ حصّے ہوتے تھے۔ جب ان سب کوجوڑ کر خیمہ نصب کیا جاتا تو اس کی سوزن کاری کی سقف کوئی تیس فٹ کے قطرمیں پھیلی ہوتی ۔ اس کے بیچ و بیچ دهواں خارج کرنے والے گول سوراخ کے نیچے ایک بڑا آہنی ظرف ہوتا جسے پانچ چھے قوی الجثہ آدمی بہ مشکل اٹھا کرعلی بیگ کے بڑے بڑے اونٹ پر لادتے۔ ان دنوں علی بیگ " منگ باشی" یعنی ہزارخاندانوں کا سردار تھا اور اس کے ذاتی مویشیوں اور بھیٹر بکریوں کی تعداد ہزاروں پر پہنچتی تھی۔ جس قبیلے کا علی بیگ سردار تھا، اس قبیلے والوں کے پاس تین لاکھ بھیڑیں، چودہ پندرہ ہزار چھوٹے بڑے مویشی، نو دس ہزار دودھیالی گائیں اور شاید ایک ہزاراونٹ تھے، ان کے علاوہ اتنے گھوڑے تھے کہ ہر مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کو سواری کے لیے ایک ایک گھوڑا مل جائے۔

علی بیگ اور حمزہ اپنے وطن میں پڑوسی تھے۔ حمزہ کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اپنی قوم کے دشمنوں سے اس نے دست بدست کم سے کم ایک سو سولہ لڑائیاں لڑی ہیں۔ اس وقت بھی اس کی عمر صرف

ص 22

۳۳ سال ہے لیکن دس سال کی عمر میں وہ اپنے میں بیس سالہ بڑے بھائی یونس حجّی کے شانہ بشانہ لڑائی میں شریک ہوا تھا۔ قدوقامت میں وہ علی بیگ سے چھوٹا ہے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ اتنا ہشیار ہے کہ بیسں سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے کرنل کے برابر کا رتبہ اس نے حاصل کرلیا تھا۔

اپنے وطن مشرقی ترکستان میں علی بیگ، حمزہ اور ان کے قبیلے والے موسم گرما میں زیادہ تر دہی اور پنیر کھاتے اور جاڑوں میں گوشت، روٹی تمام سال کھاتے تھے، قازق گھر والیوں کو اپنی اس ہنرمندی پر بڑا ناز ہے کہ دودھ سے وہ چھبیس قسم کی چیزيں بنا سکتی ہیں۔ ان میں پتھر کی طرح سخت ، بھیڑ کا پنیرہوتا ہے۔ جسے وہ اشتہا انگیزی کے لیے کھانے سے پہلے چباتے رہتے ہیں اور خمیر کی ہوئی چھاچھ "کومیس" بھی ہوتی ہے جسے سفرمیں مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے ہیں اور اسے دعوتوں میں مزے لے لے کر پیتے ہیں۔

سب سے اچھی کومیس وہ سمجھی جاتی ہے جو گھوڑی کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے لیکن عموماً ہرجانور کے دودھ سے تیار کی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت دودھ دینے والا جانور ہونا چاہیے ۔ اشتراکیوں کی تاخت سے پہلے وہ قازق خاندان بہت غریب سمجھا جاتا تھا جس کے خیمے میں کومیس کا ایک مشکیزہ آویزاں نظر نہ آئے . مشکیزہ کے منہ میں ایک ڈوئی سی پڑی رہتی اور جب بھی گھر کا کوئی آدمی اس کے قریب سے ہو کر گزرتا تو زور زور سے اس ڈوئی کو گھما دیتا تا کہ خمیر خوب اچھا اٹھے۔

ترکیہ میں ایک اور مہاجر جو خصوصیت سے قابل ذکرہے، وہ شخص ہے جس نے کوہ الطائی کے عثمان بطور کے حالات ہمیں بتائے ۔ اس کے ساتھی ایسے کارا ملّا کہتے ہیں ۔ بھاٹ کارا ملّا ۔ ہماری ملاقات سے کچھ ہی پہلے کاراملا

ص 23

نے عثمان سورما کی شان میں ایک رزمیہ نظم کہی تھی ۔ ہم دیویلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، ہم نے اسے اپنی جائے قیام پر بلا کر اپنے دستی ٹیپ ریکارڈ پر یہ نظم ریکارڈ کرلی تھی ۔ ترکیہ کے عین قلب میں یہ ایک چھوٹا سا تجارتی شہر ہے سلیحلی کی بستی سے چارسو میل کے فاصلے پر سلیحلی میں قازق مہاجروں کا ایک اور گروہ ٹھہرا ہوا تھا جس میں سب ملا کرسات آٹھ سوقازق تھے۔

کا راملّا نے اپنی رزمیہ نظم کچھ گا کراور لحن سے اور کچھ تحت اللفظ سُنائی جس پس منظر میں اس نظم کو پیش کیا گیا وہ نہایت نامناسب تھا۔ اپنے وطن مشرقی ترکستان میں کاراملّا نہایت اعزاز کے ساتھ سردار کے خیمے میں بیٹھتا۔ خیمے کے بیچ میں بڑی سی دیگ اُپلے یا لکڑی کی آنچ پرچڑھی رہتی۔ بل کھاتا ہوا دھواں آہستہ آہستہ خیمے کی نمده دارسقف کی طرف اٹھتا اور اوپر کے گول سوُراخ میں سے نکل کر رات کی سرد ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیمے کے دروازے کا پردہ اُٹھتا اور مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں چپکے سے اندر آجاتیں، جوجو اندر آتا جاتا اپنے کفش پوش ایک طرف کو اتار دیتا اور حسب حیثیت قریب یا دور کی جگہ پر بیٹھا جاتا- خیمے کی درمیانی آگ کے چاروں طرف زمین پر نمدے کا فرش ہوتا۔ گدوں نمدوں اور گھر کے بُنے ہوئے قالین پاروں پر سب آلتی پإلتی مار کر بیٹھ جاتے۔ خاموش اور آنکھیں پھاڑے۔

دیولی میں کاراملّا کے سامعین صرف چھ سات قازق ہو تے جو اسی کی طرح مہاجرتھے اور اسی کی طرح انمل بے جوڑ یورپی کپڑے پہنے ہوتے چرترکی ہمدردوں کا عطا کردہ ہوتے ۔ ان کے علاوہ سامعین میں ایک

ص 24

ترکی فلسفی تھا، لسانیات کی پروفیسر ایک ترکی خاتون تھیں ان کے شوہرجو انہی کی طرح اسی جامعہ میں ایک مدرس تھے ان دونوں کا ایک مشترک معاون تھا قازق زبان بولنے والا ہمارا وہ ساتھی جسے ہم انگلستان سے لائے تھے اور اس وقت ریکارڈنگ مشین چلا رہا تھا۔ خیمے کے خاموش پردے کے بدلے یہاں ایک لکڑی کا دروازہ تھا، جب اس میں سے لوگ اندر آتے یا باہر جاتے تو یہ زور سے چرچراتا ۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد کوئی لاری شور مچاتی کھڑکی کے قریب سے گذرتی رہتی یا مرغا بانگ دینے لگتا، اور جب ہم نے ریکارڈ مکمل کرنے کے بعد کاراملّا اور اس کے دوستوں کو سُنایا تو یہ ساری آوازیں بھی اس میں شدت کے ساتھ موجود تھیں۔

مشرقی ترکستان میں قازقوں کے گرمائی مسکن شاہراہوں سے اتنے فاصلے پر ہوتے تھے کہ لاریوں کے دھماکوں سے ان کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا تھا لیکن بعد کے زمانے میں یہ لاریاں ان کے سرمائی مسکنوں کے قریب سے گزرنے لگی تھیں، یہ لاریاں عموماً روسی اشتراکیوں کی ہوتی تھیں اور ان میں مشرقی ترکستان کی لوٹ کا سامان بھرا ہوتا تھا اُسی لُوٹ کو وہ خراج کہتے تھے۔ زنده جانور، کسانوں سے چھینا ہوا بے پیسے کوڑی کا گیہوں، وہ خام دھاتیں اورسونا تک لُوٹ کے سامان میں شامل ہوتا تھا جسے الطائی میں بیگاروں سے کھدائی کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔

عثمان بطورکا جو رزمیہ گانا کارملّا سنایا کرتا تھا اس میں بھی قازق شاعری کی طرح قدیم تاریخ اور روایت کے اتنے ناقابل فہم اشارے اورحوالے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اس میں ایک مصرع تھا " وہ جو طلائی کفتان پہنتا ہے۔" اس پر ہم دیر تک غور

ص 25

کرتے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا، پھر چند ہفتے بعد ہم کونیا کا عجائب گھر دیکھنے گئے جس میں رقص کرنے والے درویشوں کے تبرکات رکھے ہوئے تھے، یہاں ہم نے دیکھا کہ اس فرقے کے بانی نے چھ سات سو سال پہلے ایک قسم کا خرقہ پہنا تھا جو کفتان کہلاتا تھا ۔ یہ ایک خاص قسم کا کرتا تھا جو سینہ بند پر پہنا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا دشمن کے ہتھیاروں سے محفوظ رہتا ہے لیکن شاید بدقسمتی سے عثمان کے کفتان میں یہ خوبی نہیں تھی ۔ سالہا سال تک وہ دشمنوں کے گزند سے محفوظ ضروررہا لیکن بالآخر اشتراکیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔

عثمان بطور کومرے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں مگر قازقوں میں اس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں اوراس کا بھی ہمیں یقين ہے کہ آہنی پردے کے پیچھے بھی اکثر قازق گھرانوں میں یہ کہانیاں کہی جاتی ہوں گی، اس کے مداحوں نے اس کے نام سے ایک سن بھی مقررکردیا ہے اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو قازق کہیں گے " عثمان بطور کے کہ ۴۰ میں یہ بات ہوئی تھی۔" مگراس عقیدت کے با وجود بعض مہاجروں نے کارملّا کی رزمیہ نظم پرخاصی لے دے کی کہ اس نے بطلِ حرّیت سے شجاعت کے بعض وہ واقعات منسوب کردیئے جو دراصل دوسرے سورماوں کے کارنامے ہیں۔ اس کہانی میں اس کے چندر کارناموں کا ذکر کیا ہے ۔ اگر ہم نے غلطی سے انھیں کسی غلط سخص سے منسوب کر دیا ہو تب بھی اس کا کافی ثبوت موجود ہے کہ یہ کارنامے انجام ضرور دیے گئے لہذا بہادری کے ان واقعات کو قازقوں کی عظیم رزمیہ کے اجزا سمجھنا چاہیے جو ایک فرد کے کا نا موں سے

ریختہ صفحہ -26

کہیں زیادہ حیثیت رکھتی ہے کہ ایک پوری قوم کے کارناموں پر مشتمل ہے۔

جب کوئی بھاٹ اپنے گیت سناتا تو ساتھ ساتھ ڈمبری بھی بجاتا۔ڈمبری ایک لمبا سا ساز ہے ستار کی طرح کا ، مگر اس میں صرف دو تار ہوتے ہیں۔اس لیے اسے ایک قسم دو تارہ سمجھنا چاہیئے، کارا ملا جیسےاستاد ان تاروں کو اس انداز سے چھیڑتے ہیں کہ ہر تارایک زخمے سے دوآوازیں دیتا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک زخمے میں دو سرُکیسے پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر مشتاق استاد کے زخمےسے پیدا ہونے والے سرُاس وقت تک گونجتے رہتے ہیں۔ جب تک دوسرا زخمہ نہ لگا یاجائے ۔ دیویلی میں کئی دفعہ میں نے اس ساز کو بجاتے دیکھا ہے۔ سازگار کبھی تو بڑے انہماک سے اسے بجاتے ہیں اور کبھی بڑی بے توجہی سے۔ کا را مّلا ایک دھن بڑی دلکش بجاتا ہے یہ دھن بہت موثر اور دکھ بھری تھی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو اس میں تڑپ رہی ہے۔ اس نے بتا یا تھاکه یہ دھن الطائی کی ہے مگر اس کا نام اس نے نہیں بتایا ۔

بہت سے قازق ڈمبری بجانا جانتے ہیں اور ترکی میں جن سے ہماری ملاقات ہوئی نہ صرف گانا جانتے تھے بلکہ دھن پر اپنے بول بھی کہہ لیتےتھے سینکڑوں سال پرانی دھنوں پر انھوں نے اپنے نئے بول اُٹھالیے تھے۔ اس قسم کے بہت سے نو ساختہ گانوں کے ریکارڈ بھر کے ہم اپنےساتھ لے آئے لیکن عموماً یہ نئے بول ان لوگوں کے کہے ہوئے ہیں،جو ہمیں اپنا گانا سنایا کرتے تھے مثلاً کارا ملاّ ، علی بیگ کی تینوں بیویاں ، پندرہ سولہ برس

ریختہ 27

کے لڑکے لڑکیاں یہ گانے بناتے اور گاتے ۔ایک دھن ہم سلحیلی سے بھی ریکارڈ کرکے لائے تھے۔ یہ دھن ایک عجیب شکل کے ساز پر بجائی گئی ہے۔ یہ سیدھی سادی سی بانسری ہے جس میں صرف تین سوراخ ہوتے میں اس بانسری کا نام سیبز کا ہے ۔ بانسری بجانے والا بانسری کے او پری سرےکے اندر اپنی زبان اس طرح داخل کرتا ہے کہ اس سے سیٹی کی آواز پھونک مارنے پر پیدا ہوتی ہے۔ یہ بانسری ایک کلے کی طرف رہتی ہے اور دوسرےکلے سے مشک باجے کی طرح ایک بانسری صرف آس دیتی رہی ہے۔ اِس پرُسرار طریقےسے وہ ایک ایسا غیرمعمولی نغمہ پیدا کرتا ہے جو کارا کی روانی کی عکاسی کرتا ہے۔ کارا - کالا - ارتعش وہ بڑا دریاہے جو کوہ الطائی سےنکل کر سوویت قازقستان اور سائبیریا کے چوڑےبنجر میدانوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا دریائے اوب میں جاملتا ہے جوآگے چل کر بحر منجمد شمالی میں جا گرتا ہے .

جہاں تک ہمیں علم ہے ہم نے جتنے قازقی نغمے دیویلی اور سلحیلی ميں ریکارڈ کیے وہ پوری آزاد دنیا کے لیےبالکل ناشنیده ہیں سوائے شایدایک گیت کے جسے روسی فوج نے جنگ کے زمانے میں اپنا کوچ کا گیت بنالیا تھا۔ہمارے ریکارڈ کیے ہوئےسرمائے میں ایک گیت کا عنوان ہے “بگلے کی پرواز” یہ گیت علی بیگ کی دو بیویوں خدیجہ اور مولیا نے گایا ہےبگلوں کو قازق بُرےشگون کے پرندوں میں شمارکرتے ہیں اس لیےیہ گیت غمناک ہے۔ اسی طرح ایک اور درد ناک گیت "نوحہ ہے ۔ یہ گیت ایک دس سال کی لڑکی نے گایا ہے اور اس میں اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ “پریم تاؤ میرے وطن کےپہاڑ” ایک ایسا گیت ہے جس میں اپنے

صفحہ 28

وطن کو بڑی دلسوزی سے یاد کیا گیا ہے، اور مشرقی ترکستان کے پہاڑوں کی جتنی محبوب چوٹیاں ہیں، ان سب کا بڑی محبت سے اس گیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور گیت جو مولیا کا گایا ہوا ہے "بادر بودہ" کہلاتا ہے۔ کاراملا اور اس کے ہمنواؤں نے "اطفال مکتب" کا گیت ریکارڈ کرایا جس کا مصرعہ ہے، "کرو علم حاصل بنامِ خدا۔" "یہ بدلتی ہوئی دنیا" اور "اے دنیا" جو دو گیت ہیں، غالباً چار سو سال پہلے ان کی دُھنیں بنی تھیں، لیکن جو بول ان میں گائے گئے ہیں، وہ خاص طور پر ہمارے لیے اب لکھے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ قازقوں کو اپنی روایتی دھنوں پر نئے بول کہنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کے تصور کے لیے تو یہ بات اچھی ہے لیکن سورماؤں کے کارناموں پر جو پرانی رزمیہ داستانیں لکھی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔

جب بھاٹ کاراملا اپنی رزمیہ منظومات ریکارڈ کرا چکا تو ہم نے اس سے فرمائش کی کہ عربی رسم الخط میں انہیں لکھ بھی دے، کیونکہ قازق عموماً عربی ہی میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نا کاراملا اور اس کے دوستوں کی دعوت کی۔ اگر الطائی کے سلسلۂ کوہ کے خیمے میں ہم اس کے مہمان ہوتے تو ہم سب کو ایک ہی گہری رکابی میں اپنی انگلیاں ڈبو ڈبو کر کھانا پڑتا اور چونکہ قازقوں کے آداب طعام سے ہم ناواقف تھے اس لیے شاید ہماری انگلیاں جھلس بھی جاتیں، لیکن دیویلی میں ہم سب چھری کانٹے سے کھاتے تھے، اس لیے ترکی ہوٹل کا مالک رکابیوں میں کھانا لگا لگا کر لاتا رہا، حسین تجی کاراملا کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف میں تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حسین تجی نے بھاٹ پر پُر لطف فقرے کسنے شروع کیے۔

صفحہ 29

کاراملا خاموشی سے انہیں انگیز کرتا رہا بلکہ اور سب کی طرح بظاہر ان سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم سب نے مل کر اسے اُکسانا شروع کیا کہ وہ بھی کچھ بولے، اس پر اس نے دبی زبان سے کہا:

"اگر مجھے یہ اپنی ٹوپی عاریتاً دے دے تو میں اسے اس کی تگنی قیمت ادا کروں گا۔"

حسین تجی کا دبلا پتلا ناک نقشہ اور منگولی چہرہ تھا، ہلکی نیلی آنکھیں اور چھدری چگی ڈاڑھی ایک رنگ کالی تھی، اس میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا، حالانکہ وہ ساٹھ سے اوپر تھا۔ بہت بڑے گھیر کی گول ٹوپی اس کے سر پر رکھی عجیب چیز دکھائی دیتی تھی۔

حسین تجی سے کاراملا کم از کم دس سال چھوٹا ہے مگر اپنے معمر دوست کے برعکس اس کے اگلے دانت سارے غائب ہیں۔ اس کی وجہ وہ صعوبتیں ہیں جن سے زندگی میں اسے دوچار ہونا پڑا۔ یقیناً اس کا اصلی نام کاراملا نہیں ہے جس کے معنی ہیں کالا ملا۔ بلکہ اس کا نام کریم اللہ ہے۔ شاید اس وجہ سے اس کا نام کاراملا پڑ گیا ہو کہ اس کا رنگ کالا تھا، یا اس وجہ سے کہ وہ تعویذ گنڈے ملاؤں کی طرح کرتا ہو گا۔ بہرحال ہم وثوق سے وجہ تسمیہ نہیں بتا سکتے۔ لیکن وہ ایک سچا مسلمان ہے اور سچے مسلمان جادو ٹونے اور ٹؤٹکے نہیں کیا کرتے۔ البتہ قازقوں میں بھی ایسے نیم ملا ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عالموں کی دیکھا دیکھی اس قسم کے ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔

تفصیلی حالات تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوں گے۔ حسین تجی نے اشتراکیوں کی تاخت سے تنگ آ کر بیس سال ہوئے اپنا آبائی مقام بارکل چھوڑ دیا تھا اور غزکل – غازکول نام کی ایک جھیل کے قریب بود و باش

ریختہ 30

اختیار کر لی تھی۔ غازکول کے لفظی معنی ہیں ہاتھ بھر کی جھیل ڈول کی شکل کی۔ لہذا اس کا نام سُنتے ہی ہر قازق سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک تنگ اور لمبی سی جھیل ہے جس کی شکل ڈول جیسی ہے۔ قازق نام بامعنی ہوتے ہیں اور جنہیں ان کی زبان آتی ہے وہ نام ہی سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں، ایک نام مجھے بہت پسند آیا۔ "چہکتی چڑیوں کی وادی" لیکن ایسے ناموں میں ایک بڑی دقت بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ دور دور کے علاقوں میں بھی ناموں کا توارد ہو جاتا ہے۔ سست رو خانہ بدوش کےلیے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تیز رفتار زمانے کے باشندوں کے لیے ایک ہی جیسے نام پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔

جب حسین تجی بارکل اور غزکل میں اپنے نمدہ دار خیموں میں بیویوں اور بچوں اورو لواحقین کے ساتھ رہا کرتا تھا تو اس کا ایک دوست تھا، سلطان شریف۔ یہ بھی قریب ہی رہتا تھا۔ ہماری ملاقات سلطان شریف سے "مرکز قیام" میں ہوئی۔ یہ مرکز استنبول کے قریب ہے۔ قازق مہاجروں کو زمین دینے سے پہلے ترکی حکومت کچھ عرصہ "مرکز قیام" میں رکھتی ہے۔

سلطان شریف سے ہمارا تعارف مشرقی ترکستان کے ایک اور مہاجر محمد امین بغرا نے کرایا جس کا اب اپنا نہایت خوشنما گھر استنبول کے روبرو باسفورس کے ایشایئ علاقے میں ہے۔ محمد امین قازق نہیں ہے، ترکی کا رہنے والا ہے، یہ ان ترکوں میں سے ہے جو زمیندار ہیں اور تاجر ہیں۔ اور مشرقی ترکستان میں اسی وقت سے آباد رہے ہیں جب سے قازق وہاں آباد ہوئے، ان کی تعداد بھی قازقوں سے زیادہ ہی ہے۔ لیکن محمد امین کا باپ خُتن کا امیر تھا اور خود محمد امین سنکیانگ کی علاقائی حکومت کا نائب صدر

ریختہ 31

تھا۔ مشرقی ترکستان ہی کو چینی لوگ سنکیانگ کہتے ہیں۔ جب 1949؁ء میں اشتراکیوں نے اس علاقائی حکومت پر قبضہ کیا تو محمد امین وہاں سے بچ نکلا اور کشمیر پہنچ گیا۔ اس افتاد کے پڑنے کی وجہ سے وہ ان تمام سازشوں سے واقف ہے جن کی وجہ سے اسے ترک وطن کرنا پڑا۔ اور جو قازق مقاومت میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔

علی بیگ، حمزہ، کاراملا، حسین تجی، سلطان شریف اور محمد امین سب ابھی جیتے ہیں۔ مشرقی ترکستان کی جہد آزادی میں ان کے علاوہ جن لوگوں نے حصہ لیا اور جن کے ناموں اور کارناموں کا اس کتاب میں ذکر ہے، وہ سب مر چکےہیں، مگر ان کی یاد ان کے بہادر ساتھیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

ریختہ 32

پہلا باب

سُورما کی پیدائش

قازقوں کے نمدہ دار خیموں کے آس پاس آئے دن پیدائشیں اور موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی باقاعدہ نقشہ رکھا جائے یا اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ یہ تو ایک نظامِ قدرت ہے کہ مناسب موسم اور وقت مقررہ پر بھیڑ بکری، گائے، اونٹنی اور گھوڑیوں کے ہاں بچے ہوتے رہیں، انسانوں کے ہاں بھی اسی فطری طریقے اور تقریباً ایسی ہی پابندی کے ساتھ بچے ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ موسم کی قید تولید انسانی میں نہیں ہوتی۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کی طرح انسانی بچوں کو بھی والدین کی خاص توجہ، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کوہستانی قبیلوں میں والدین کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں اس لیے بچے زیادہ سے زیادہ اپنے ہی وسائل پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بچے متواتر تجربے کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور بچے

ریختہ 33

اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کو بڑے غور و خوض سے دیکھتے رہتے ہیں اور مفید و کارآمد باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔

بچوں کی پیدائش جیسے واقعات کو قازق خیموں میں کوئی اہم واقعہ نہیں سمجھا جاتا اس لیے ان کا کوئی نقشہ یا گوشوارہ نہیں بنایا جاتا۔ البتہ سال بھر کے تیج تہواروں کا حساب رکھا جاتا ہے، مثلاً رمضان شریف اور عیدین کا۔ ترکی میں جتنے قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ہمیں یہ بتا سکتا کہ عثمان بطور کس دن یا کس مہینے میں پیدا ہوا۔ ہاں یہ سب جانتے تھے کہ کس سال میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ کو مرے عرصہ ہو گیا۔ اس کے تین بھائی اور بہن گمان غالب یہ ہے کہ مر چکے ہیں۔ بالفرض اگر جیتے بھی ہوتے تب بھی اس کی تاریخ پیدائش سے ناواقف ہوتے کیونکہ عثمان بطور پہلونٹی کا تھا۔ اس کے دوستوں کا بیان ہے کہ وہ خود کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ سلطنت چین کے اس دُور دراز علاقے میں ایسا کوئی محکمہ نہیں تھا جس میں پیدائش و اموات کا اندارج کیا جاتا ہو۔ ہمیں بس انتا معلوم ہے کہ وہ 1899ء؁ میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی اسی سال جس سال بوئر جنگ شروع ہوئی۔

عثمان کا باپ اسلام باعی صرف گلہ بان یا مویشیوں کا پالنے والا نہیں تھا، وہ ایک منفرد قسم کا "خشک" کسان بھی تھا۔ اس کا مسکن کک تُغائی میں تھا۔ جو الطائی کا ایک ٖضلع ہے جہاں روسی، چینی اور منگولی علاقوں کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں سے یہ مقام کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ "خشک" کسان ہونے کی وجہ سے اسلام باعی جب چاہے باہر جا سکتا تھا۔ اسے دوسرے "تر" کسانوں کی طرح فصل کے لیے پانی نکالنے

ریختہ 34

کی ضرورت نہیں تھی جو میدانوں میں کھیتی باڑی کرتے اور نہری پانی کے محتاج رہتے۔

ہر موسم بہار میں اسلام باعی اپنے بیل جوت کر زمین پر ہل چلاتا اور گیہوں کا بیج ڈال دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے بال بچوں اور نمدہ دار خیموں اور اپنے گلوں اور ملازموں کے لے کر الطائی کی اونچی چراگاہوں میں چلا جاتا۔ کھیتوںمیں جو بیج ڈالتا، اُسے ہوا، پانی، سورج اور خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا کہ آپ ہی آپ بیج پھوٹیں، فصلیں تیار ہوں اور پک جائیں۔ وقت کا اندازہ لگا کر وہ فصلیں کاٹنے کے لیے پھر نیچے اُتر آتا۔

چنانچہ 1899؁ء میں بھی اسلام باعی نے اپنی بیویوں کو ساتھ لیا اور کوہ الطائی کی بلندیوں پر جا کر اس نے اسی طرح خیمے لگائے جیسے حضرت ابراہیم نے یہودیہ کی پہاڑیوں میں لگائے تھے۔ اس کی ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمیں یہ تو ٹھیک نہیں معلوم کہ اس نے کس مقام پر خیمے لگائے تھے لیکن توکُز تاروہی ایک ایسا مقام تھا جو اس کے لیے مناسب تھا۔ یہ ایک وادی ہے جس کے نام کے معنی ہیں "نودنتی کنگھی"۔ اس وادی کا یہ نام اس وجہ سے پڑا تھا کہ سربفلک پہاڑوں کے نو شگافوں سے چشمے اُبل کر اس وادی میں آن ملتے الطائی کی بلندیوں سے اس کا ٹھنڈا یخ پانی جنگل اور چراگاہوں کی اس سرسبز وادی میں آتا تھا۔ اسی فراخ وادی میں اسلام باعی اور اس کے ساتھ سو خاندانوں کا قبیلہ گرمیوں بھی قیام کرتا۔

مشرقی ترکستان میں توکُز تارو نام کی کئی وادیاں ہیں۔ جیسے کلک سوما، نیلے سمندر نام کی کئی کئی جھیلیں ہیں اور کئی چشمے قزل اُزرن یا سُرخ چشمے

ریختہ 35

کہلاتے ہیں۔ عجیب نام کا ایک درہ بھی ہے جو "درۂ بادِ مُعزز" کہلاتا ہے۔ اسے چینی لوگ لاؤ فنگ کو کہتے ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُرمچی کو سویت قازقستان سے تین شاہراہیں جاتی ہیں، ان میں سے ایک اس درۂ باد معزز میں سے گزرتی ہے۔ جب اس صوبے میں پہلا اشتراکی گورنر چن شُوجن متعین ہوا تو چینی فوجی دستے سے لدی ہوئ ایک لاری درے کے اوپر بگڑ گئی۔ لاری کا ڈرائیور اس کی خرابی دور کرنے میں لگا ہوا تھا کہ باد مُعزز نے اس پر اور لاری پر اور لاری کے مسافروں پر برف کے تودے لگانے شروع کر دیئے۔ اور سب کے سب جم کر مر گئے۔ ان کی لاشیں بھی اس وقت ملیں جب کئی مہینے بعد برف پگھلی۔ روایت یہ ہے کہ درۂ باد معزز اکثر اس سے بھی بدتر عذاب نازل کرتا ہے۔ مثلاً ایسی ہوا بھی چلا دیتا ہے جس سے پورے پورے قافلے اڑ کر دُور نیچے گہری جھیل میں جا پڑتے ہیں۔

کچھ دنوں بعد اسلام باعی کی بیوی کے ہاں زچگی کا وقت آ پہنچا۔ جب اسے درد لگے تو اس نے ایک ملازم کو اپنی ماں کے پاس اطلاع دینے کے لیے بھیجا، ماں کا خیمہ ایک قریب کی وادی میں لگا تھا، وہ اپنے ٹٹو پر سوار ہو کر بیٹی کے ہاں آ پہنچی، آتے ہی اس نے اسلام باعی کے "عاادل" یعنی خیمے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسا بان دیا۔ بیٹی سے اس نے کہا کہ اس رسے کے آگے دو زانو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس پر اس طرح ڈال دو کہ دونوں بغلیں رسے پر ٹک جائیں۔ پھر اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر اس رسے پر اپنا دباؤ ڈالو۔ رُک رُک کر بس یہی کرتی رہو۔ جب درد اور بڑھ گئے تو ماں ایک برے کی کھال کا بنا ہوا چھوٹا
 

شمشاد

لائبریرین
یہ صفحے (ریختہ صفحہ 131 سے 160 تک) پروف ریڈ ہو چکے ہیں :

عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -131

میں خوب برف پڑتی ہے۔ اسی سلسلہ کوہ کے دوسری طرف بمشکل ڈیڑھ سو میل جنوب کی طرف خوفناک "کوہ تشنہ" کا سلسلہ ہے جہاں بارش کی ایک بوند بھی نہ پڑتی۔

بل کھائے ہوئے راستوں پر گھوڑے اپنے سواروں کو لیے چڑھے چلے جاتے ہیں اور کوئی منچلا گانے لگتا ہے۔ گانے کی آواز سنتے ہی شاہین اپنے آقا کی کلائی پر کچھ بے چین ہونے لگتا ہے لیکن اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اس لیے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اڑ جائے اس کے علاوہ اتنے دن سے مقید ہے کہ اسے اپنا آقا پر بھروسہ کرنا آ گیا ہے اس لیے وہ صرف یہ کرتا ہے کہ جس چمڑے کی کلائی پر وہ بیٹھا ہو اس پر اپنے پنچے ذرا اور زور سے جما دیتا ہے اور زیادہ توجہ سے اپنے جسم کو سنبھالے رہتا ہے تاکہ گھوڑے کی جنبش سے اس کا جھونک نہ بگڑنے پائے۔

چونکہ خوشی کا موقع ہے اس لیے گیت عموماً شگفتہ اور رومانی ہوتا ہے یا کوئی چھوٹی داستان نظم ہوتی ہے اور پھر ایک ایک کر کے گانے والے کے ساتھ سب اپنی اپنی آوازیں ملانے لگتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ گانے والا کوئی ایسا گیت گاتا ہے جو خود اسی کا بنایا ہوتا ہے ۔ دھن نہیں صرف الفاظ۔ اس صورت میں سب خاموشی سے اس ہنسی کی بات کے منتظر رہتے ہیں جس کا ہر بند میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جب یہ ٹیپ آتی ہے تو سب کے سب خوشدلی سے مل کر گانے لگتے ہیں:

کائی ۔ لی ۔ لی ۔ لیھ
دائی ۔ ون ۔ یا ۔ آ ۔ آ۔ آ

ان کی یہ آواز تنگ ہوتی ہوئی وادی کے اس طرف کی بڑی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -132

بڑی چٹانوں اور جنگلوں میں گونجتی چلی جاتی ہے اور ٹکرا کر پھر واپس آتی ہے اور صدا اور عکس صدا کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوتا ہے جب دوسرا بند شروع ہو جاتا ہے۔

جب یہ ٹولی خوب جی بھر کے گا چکتی ہے تو ان میں سے کوئی ایک قطار کے آخر سے آواز دے کر پوچھتا ہے۔ "ابھی اور کتنی دور ہمیں لے جاؤ گے۔ میرے گھوڑے کے نعل ایسے نہیں ہیں کہ وہ برف کے تودوں پر سواری دے۔ خاص کر سال کے اس حصے میں۔"

کوئی اور کہتا ہے۔ "دیکھتے نہیں اس کے شاہین کو اتنی ناکامیاں ہو چکی ہیں کہ اسے ہمیں اتنے اوپر لے جانا پڑے گا جہاں کے خرگوشوں اور لومڑیوں کو اس سے پہلے کبھی سابقہ نہ پڑا ہو ورنہ اس کا شاہین ہر گز نہیں جھپٹے گا۔"

تیسرا کہتا ہے ۔ "ارے تم سمجھے نہیں وہ ہمیں بادلوں کے اوپر لے جانا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے شاہین کی ناکامی کو نہ دیکھ سکیں۔"

شاہین کا مالک مسکراتا رہتا ہے مگر منہ سے کچھ نہیں کہتا کیونکہ پچھلے پورے ہفتے شاہین کے سدھانے والے پہاڑوں کی وادیوں کا اپنی تیز نظر سے جائزہ لیتے رہے اور دل ہی دل میں ان مقامات کو یاد رکھتے رہے جہاں کوئی لومڑی یا شاید کوئی بھیڑیا دن کو اچھے وقت سے کھلے میں دکھائی دے جائے۔

جب وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مقام ان کی نظر میں آ گیا ہے تو آ کر آقا کو اس کی اطلاع دیتے ہیں۔

"چہکنے والی چڑیوں کی وادی میں کھلی چراگاہ کے پیچھے، نیلی چھوٹی جھیل کے کنارے روزانہ صبح کو سورج نکلنے کے دو گھنٹے بعد ایک لومڑی اپنے بچوں کو لے کر پانی کے کنارے جایا کرتی ہے۔"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -133

وادی زاغ میں جہاں ایک اونچا چیڑ کا درخت کھلی جگہ میں کھڑا ہے ایک بھیڑیا دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک اکیلا دھوپ میں پڑا رہتا ہے۔"

شاہین کا مالک پوچھتا ہے۔ "بھیڑیا کتنا بڑا ہے؟"

"ناک کی پھننگ سے دم کے سرے تک آٹھ بالشت کا ہے۔ اچھا تیار جانور ہے اور اس کھال کھردری اور داغدار ہے۔"

آقا خفگی سے کہتا ہے۔ "تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسے گھٹیا جانور یا بچدار لومڑی پر اپنا شاہین چھوڑوں گا؟ شرم نہیں آتی تم دونوں کو؟ کوئی اور بہتر شکار تلاش کرو۔ ورنہ تم دونوں کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ "

لہذا سدھانے والے پھر سے تلاش شروع کرتے ہیں۔ اب کے ان میں سے ایک یہ خبر لاتا ہے کہ ایک پوار اونچا بھیڑیا جس کے ساتھ اس کا جوڑا نہیں ہوتا روزانہ صبح کو وادی کی تہہ میں جو سبزہ زار ہے اس میں سے گزرتا ہے اور جہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے اور اس پر چٹانیں اور جھاڑیاں آ جاتی ہیں وہاں جا کر غائب ہو جاتا ہے۔"

شاہین کا مالک کہتا ہے۔ "یہ اچھا شکار ہے میں جا کر اسے خود دیکھوں گا۔"

اور اس موقع پر پہنچ کر احتیاط سے وہ وقت یاد کر لیتا جب بھیڑیا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی ذہن میں رکھتا ہے کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اس کےبعد وہ سبزہ زار کے اوپر ایک چٹان کی دراڑ تلاش کر لیتا ہے جہاں سے وہ شاہین کو ٹھیک اس وقت چھوڑ سکے جب بھیڑیا پہاڑی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ اس جگہ کا تعین بھی کر لیتا ہے جہاں اسے گھوڑا چھوڑنا ہو گا تاکہ بھیڑیا


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -134

نہ تو اسے دیکھ سکے اور نہ اس کی بو پا سکے۔ اس وقفے کا بھی صحیح اندازہ کر لیتا ہے جس میں گھوڑے باندھے جائیں گے اور مقررہ چٹان پر بھی پہنچ جانا ہو گا۔ ان سب باتوں سے فارغ ہو کر وہ گھر واپس آتا ہے اور دن اور وقت مقرر کر کے اپنے دوستوں کو دعوت دیتا ہے۔ جیسے ہی یہ ٹولی شاہین والے کے منتخب مقام پر پہنچتی ہے اور وہ اپنے گھوڑے پر سے اترتا ہے تو گانا وانا سب بند کر دیا جاتا ہے اور سب اس کی دیکھا دیکھی گھوڑوں پر سے اتر پڑتے ہیں۔ وہ انگلی کے اشارے سے وہ مقام دکھاتا ہے جہاں سے شاہین کو چھوڑنا ہوتا ہے اور سب کے سب پہاڑی پر اتر چڑھ کر بغیر کسی آواز کے اس چٹان پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے جائے شکارصاف دکھائی دیتی ہے۔

کچھ دیر بالکل خاموشی رہتی ہے۔ صرف کبھی کبھی اونچی اڑتی ہوئی کسی چڑیا کی چہکار یا پہاری بکرے کی آواز یا جنگلی گلہری کی کرخت تیز سیٹی سنائی دیتی ہے۔ پھر یکا یک ایک لمبا سایہ ہری ہری گھاس پر آہستہ آہستہ سرکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دور سے بل کھاتے ہوئے راستے پر وادی کے سرے سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ تماشائی دل میں کہتے ہیں "یا اللہ بھیڑیا ہے بچہ نہیں ہے ۔ پورا بڑا نر ہے۔ جوان، رفتار میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ دس بالشت سے ایک انگل بھی کم نہیں ہے۔ واقعی زبردست جانور ہے۔ کیا ایسے صید پر شاہین چھوڑا جائے گا اگر چھوڑا گیا تو دونوں میں سے کون جیتے گا؟"

انہیں زیادہ دیر تک تذبذب میں نہیں رہنا پڑتا، آنکھوں پر سے ٹوپی ہٹتے ہی شاہین ایک دم سے ہوا میں بلند ہو جاتا ہے اور فوراً


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -135

چاروں طرف نظر دوڑا کر بھیڑئیے کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ بڑا پرندہ دو دن کے فاقے سے ہے اور بھوک سے اس کا برا حال ہے، ذرا توقف نہیں کرتا اور نیچے ہی نیچے جھپٹا چلا جاتا ہے۔ پتھر یا گولی کی طرح نہیں بلکہ خاموشی سے پر مارتا بے رحمی سے، بغیر کوئی غلطی کیے، پردار دشمن ، نڈر، پر اعتماد، فریب نہ کھانے والا، خطرے سے بے خطر۔ بھیڑیا جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین اپنے بڑے بڑے پنجے اس کے سر کے نیچے اتار دیتا ہے۔ شاہین کی جھپیٹ میں آ کر بھیڑیا گر کر لڑھک جاتا ہے منہ مارتا ہے اور دانت چباتا ہے، اپنے پنجے اور دانت حملہ آور پر جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اتنے ہی میں شاہین اپنی مڑی ہوئی چونچ سے بھیڑیے کی آنکھیں پھوڑ ڈالتا ہے۔ چند لمحوں کی لڑائی ختم ہو جاتی ہے اور بھیڑیا مر جاتا ہے۔

تماشائی دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کا رخ کرتے ہیں، ڈھلان پر بھاگنے کے باوجود بعض کے سانس پھول جاتے ہیں کیونکہ قازق اپنے پیروں سے زیادہ گھوڑوں پر آرام محسوس کرتے ہیں، بہر حال چٹکی بجاتے میں وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑائی کے منظر پر پہنچ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شاہین کا مالک وہاں پہنچ کر شاہین کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا چکا ہے اور بھیڑیے کی کھال اتارنے میں مصروف ہے جب وہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے تو شاہین کی آنکھیں دوبارہ کھول دیتا ہے تاکہ خوب سیر ہو کر بھیڑیے کی لاش کو کھا لے۔

ایک تماشائی کہتا ہے۔ "خوب پرند ہے۔ دائی یا پرامائی، بھیڑیا تین منٹ میں مر گیا اور شاہین نے تنہا ہی اسے ہلاک کر دیا۔ شکاری کتوں کی مدد کے بغیر ہی!"


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -136

کوئی اور تائید کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "بے شک پرند کے ساتھ اس کے سدھانے والے کی بھی تعریف کرنی چاہیے مگر ذرا بھیڑیے کا قد و قامت تو دیکھو کھال کا ناپ تھوتھنی سے دم کی نوک سارے نو بالشت ہے۔"

ایک اور نے حاسدانہ طور پر کہا۔ "شاہین تک کے پر بھی تو ناپ میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں۔" مگر دل میں قائل تھا کہ اگر میرا پرند ہوتا تو لومڑی سے بڑے جانور پر اسے نہ چھوڑتا۔"

کسی نے ہنس کر جواب دیا۔ "تمہارے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے تو زیادہ ہی ہے اگر یہ جانور تم پر چھوڑا جاتا تو میں خوب جانتا ہوں کہ کس کی جیت ہوتی۔ چاہے تمہارے ہاتھ میں تلوار ہی کیوں نہ ہوتی؟"

اس کے جواب میں ایک اور بولا "جو شخص اپنی انگلی کی ایک پور شاہین کی چونچ کی نظر کر چکا ہو اس کے منہ سے ایسی بات بھلی نہیں لگتی۔"

ایسے سانحے تو بہت کم ہوتے ہیں لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتے ضرور ہیں۔ نوگرفتہ شاہین صرف ایک ایسے مالک کا لحاظ کرتا ہے جو پہلے جان بوجھ کر اس سے بے رحمی سے پیش آئے اور پھر جب اسے سدھا لیا جائے تو بہت احتیاط اور توجہ سے رکھے۔ اس طرح دونوں میں ایک طرح کی مفاہمت پیدا ہو جاتی ہے اور کم از کم انسان کی طرف سے یہ مفاہمت محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن پرند اپنے آقا کو قبول کر لینے پر بھی اور سب سے بھڑکتا رہتا ہے، دوسروں کے لیے یہ شاہین اب بھی جنگلی، بے قابو، وحشی اور خطر ناک ہی ہوتا ہے۔

شاہین جاڑوں میں پکڑے جاتے ہیں، شکاری سفید ڈوریوں کا جال اس طرح کا بناتا ہے کہ بیس ڈوریوں میں بیس اور ڈوریوں کے پھسلنے والے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -137

پھندے لگاتا ہے۔ اس جال کو وہ زمین پر ڈال دیتا ہے اور جب اس پر پہلی برف پڑ جاتی ہے اور اسے پوری طرح چھپا لیتی ہے تو ایک زندہ چوزہ اس کے قریب باندھ دیتا ہے۔ یہ چوزہ چیختا ہے۔ شاہین جھپٹ کر آتا ہے مگر جب وہ مرے ہوئے چوزے کو پنجوں میں دبا کر اوپر اڑتا ہے تو پھندے اس کی ٹانگوں میں الجھ جاتے ہیں اور وہ مجبور ہو جاتا ہے۔ جال لگانے والا دوڑ کر آتا ہے، پھڑپھڑاتے ہوئے پرند پر ایک کپڑا ڈال دیتا ہے اور چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اسے دبوچ کر آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے تاکہ جب اسے کپڑے اور جال سے نکالے تو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے وہ اڑنے سے معذور رہے۔

اس کے بعد یہ کیا جاتا ہے کہ زمین میں دو لکڑیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور ان کے درمیان ایک رسی تان دی جاتی ہے ایک اور چھوٹی رسی کا ایک سرا شاہین کے پاؤں میں بندھا ہوتا ہے اور دوسرا سرا دونوں میں سے کسی لکڑی میں باندھ دیا جاتا ہے۔ پاؤں کی رسی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بدنصیب پرند زمین پر اتر نہیں سکتا اس لیے مجبور ہوتا ہے کہ پہلی رسی پر اپنا توازن قائم کیے بیٹھا رہے ورنہ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر لٹکتا رہے گا۔

ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں اسے مسلسل کئی دن رات تک رکھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ کوئی دس دن ۔۔۔۔۔ پھر سدھانے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اب کبھی کبھی اس کا سدھانے والا اس کی آنکھیں کھولتا ہے اور اسے چوہیا یا خرگوش کھانے کو اور تھوڑا سا پانی پینے کو دیتا ہے، اتنا کھانا اور پانی نہیں دیا جاتا کہ وہ سیر ہو جائے بلکہ صرف اتنا کہ وہ زندہ رہے اور اسے زیادہ بھوک لگنے لگے۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -138

جب اس کا سدھانے والا سمجھ لیتا ہے کہ اب کوئی اندیشہ نہیں رہا تو وہ اسے پھر ٹوپی پہنا دیتا ہے اور اس کی رسی پکڑ کر اپنے چمڑے کی کلائی پر بٹھا لیتا اور اپنے پڑاؤ میں سوار ہو کر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ اگر پرند تمیز سے بیٹھا رہتا ہے تو گھر جانے پر اسے ذرا موٹی رسی بیٹھنے کو ملتی ہے اس کے بعد لکڑی پر اسے بٹھایا جاتا ہے اور آخر میں کسی درخت کی ٹہنی پر۔ لیکن وہ شاہین کو ہمیشہ بندھا رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سوائے سدھانے والے کے وہ ہر ایک پر جھپٹ پڑے گا اور عموماً وہ چاہتا بھی ہے کیونکہ اس کی اس خو کی وجہ سے اسے کوئی چرا بھی نہیں سکتا اس کے علاوہ اس کی وحشت باقی رہنی چاہیے ورنہ وہ کسی کو بھی شکار نہیں کرے گا۔

وہ دن بھی بالآخر آ پہنچتا ہے جب شاہین کا مالک اسے پہلا شکار کھلانے پہاڑوں میں لے جاتا ہے اسے پورے دو دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے اور اسے کسی ایسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے جو بہت فاصلے پر نہ ہو ، اس طرح مالک اس مقام پر شاہین کے پیٹ بھر کے کھا لینے سے پہلے جا پہنچتا ہے جب تک وہ پہنچتا ہے شاہین اپنے شکار کو نوچ نوچ کر اس کا کچا گوشت بھوک بجھانے کے لیے نگلتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور خود کھانے میں مصروف ہوتا ہے اس لیے اسے قریب آ جانے دیتا ہے۔ مالک جلدی سے اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے۔ جانور کی کھ ال جلدی سے اتار لیتا ہے کیونکہ اسے استر کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر شکار کی لاش شاہین کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ شاہین اس بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ شکار کرے گا اسے کھانے کو مل جایا کرے گا اور اسی وقت سے انسان اور پرند میں ایک معاہدہ ہو جاتا ہے جو کسی ایک کے مرنے پر ہی ختم ہوتا ہے۔


صفحہ139

چھٹا باب

اشتراکیوں کی پسپائی

سُرخ ڈاڑھی والوں سے لڑائی پورے مشرقی ترکستان میں سالہا سال تک چلتی رہی، لیکن 1938ء؁ تک اس کے شعلے تئین شان کے علاقہ میں اتنے فرو ہو گئے تھے کہ حمزہ پھر اپنے مکتب جا سکے۔ لیکن الطائی میں جنگ کچھ تیز ہو گئی تھی۔ عثمان پہاڑوں میں تاخت کرتا پھر رہا تھا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسے موقع ملتا وہ چینیوں پر چھاپہ مار دیتا۔ اپنے منتخب چھاپہ ماروں کے ساتھ وہ چھاپے پر چھاپہ مارتا، یہاں تک کہ وہ اپنے دشمنوں کے لیے کابوس بن گیا۔ الطائی کی بلندیوں میں ایسی بے شمار کمین گاہوں کا اسے بے مثل علم تھا جنہیں سوائے چند قازقوں اور منگولوں کے اور کسی نے دیکھا تک نہیں تھا۔ جب چینی اسے گرفتار کرنے کے لیے اپنے دستے اس کے تعاقب میں بھیجتے، تو وہ اُن کی گرفت سے بچ نکلتا اور جب چینی واپس جاتے ہوئے کسی تنگ وادی یا سکڑے پہاڑی راستے میں پھنس جاتے تو ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ور کُھلے میدانوں میں ان پر اچانک حملہ کر کے ان کا قلع قمع کر دیا جاتا۔ حملے کی رہنمائی


صفحہ140

خود عثمان کرتا، اپنے ساتھیوں سے بہت آگے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑتا اور اپنی زین کی سطح ہی سے مشین گن سے گولیاں برساتا رہتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اندھا دھند گولیاں چلا رہا ہے لیکن درحقیقت وہ چار ہی گولیوں میں وہ افسروں یا سربرآوردہ لوگوں کو ڈھیر کر دیتا۔ اس کی نشانہ بازی اس قدر مہلک تھی کہ مشرقی ترکستان کے قازقوں میں اور ترکی میں بھی اس کی شہرت ویسی ہی تھی جیسی سوئٹزرلینڈ میں ولیم ٹیل کی۔ ان لڑائیوں میں وہ ہمیشہ زندہ سلامت نکل آیا۔ کوئی ہلکا سا زخم کبھی آ گیا تو آ گیا۔

عثمان کے ساتھی جیسا کہ قازقوں کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے اپنے سردار کی فدائیانہ خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اسے نہ صرف بوکو بطور کا سچا جانشین سمجھتے تھے بلکہ خود چنگیز خاں کا بھی۔ حوصلہ مند، بے رحم، شجاع، محتاط، نازاں، وہ کبھی کسی سے ایسےکام کو نہیں کہتا تھا جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو، اس کے ساتھی جانتے تھے کہ جس کام کو وہ ٹھیک سمجھتا ہے پھر اس سے مُنہ نہیں موڑتا، نہ تو اپنے دشمنوں پر ترس کھاتا ہے نہ اپنے آپ پر۔ کبھی کسی حریف، دوست، مقصد یا اپنے ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھی یہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ تاریخ کے اسٹیج پر وہ نصف صدی تاخیر سے رونما ہوا ہے۔ گُھڑ سواروں کی رہنمائی کرنے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، لیکن آخر میں اسے اپنے آدمیوں کو بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں لے جانا پڑا، اس صورت حال میں بھی اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا بیان اس کے مناسب موقع پر آئے گا۔

اس عرصے میں تئین شان میں یونس حجی، باعی ملا، علی بیگ اور دوسرے قازق سردار سیاسیات کی طرف متوجہ تھے۔ ابتدا میں اس کے باعث بڑی


صفحہ141

تباہی آئی۔ 1939ء؁ میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کا زمانہ تھا۔ صوبہ دار شنگ نے جو بدستور روسی مشوروں پر عمل کر رہا تھا ایک دم سے اپنی دہشت انگیزی کم کر دی اور پیشکش کی کہ مقامی افسر قازق خود مقرر کریں تاکہ اپنے امور کے انتظامات وہ خود کریں، مثلاً اپنے اسکول چلانا، ٹیکس لگانا اور چراگاہوں کا تقسیم کرنا۔ بہت سے قازقوں نے اس پیشکس کو جلدی سے قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ صوبہ دار شنگ ان عہدوں کو محض بطور چارہ پیش کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قازق خود شاہین پکڑنے کے لیے جال میں چوزے لگایا کرتے تھے۔ جب نئے افسروں نے عہدے سنبھال لیے تو شنگ نے اپنی خفیہ پولیس بھیج کر ان سب کو حراست میں لے لیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ وہ سب "حلق آزادلگ الاری مو" عوامی آزاد پارٹی کے ممبر ہیں، حالانکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ پارٹی اور خود صوبہ دار شنگ بھی سویت کے زیر اثر تھے۔

ان گرفتاریوں کا انداز خاص اشتراکی تھا۔ رات ڈھلے خفیہ پولیس کی ایک پارٹی مطلوبہ شخص کے گھر یا خیمے میں پہنچتی اور اس میں رہنے والوں کو زور زور سے آوازیں دیتی کہ باہر نکل آئیں۔ ان میں سے اکثر اپنے شب خوابی کے کپڑے پہنے ہی باہر نکل آتے تھے۔ عورتوں اور بچوں کو نہایت بدتمیزی سے واپس اندر دھکیل دیا جاتا اور مطلوبہ شخص کو ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر پولیس کی گاڑی میں دھکا دے دیا جاتا۔ اسے کپڑے تک نہ بدلنے دیا جاتا اور جیل پہنچا دیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ پولیس والوں نے گھر کی تلاشی لی، عورتوں کی عصمت دری کی اور گرفتار کرانے کے لیے باغیانہ کاغذات خود اس کے گھر میں رکھ کر برآمد کر لیے۔ لیکن اس زمانے میں عوامی پارٹی کا ممبر ہونا


صفحہ142

خلاف قانون نہیں تھا۔ آخر کو تو یہ پارٹی سویت کی سرپرستی ہی میں قائم ہوئی تھی۔ اس لیے اس حقیقت کو چھپانے کی کوئی ممبر کوشش نہیں کرتا تھا لہذا بغاوتی سرگرمیوں کی شہادت صرف اس وقت مہیا کی جاتی جب مطلوبہ شخص کو واقعی خطرناک سمجھا جاتا۔

ان گرفتاریوں میں قازقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی شامل کر لیے جاتے، مثلا ترک، منگولی، ازبکی وغیرہ۔ لیکن ایسے رہنما بھی ان میں موجود تھے جو اس جال میں پھنس جانے سے بچے رہے کیونکہ جب صوبہ دار شنگ نے عہدوں کی پیشکس کی اور غیر محتاط لوگوں نے جھٹ اُسے قبول کر لیا تو یہ لوگ نہایت دانشمندی سے دور ہی رہے۔ جو لوگ قید و بند سے بچے رہے ان میں علی بیگ اور یونس حجی دونوں تھے اور اسمٰعیل حجی ترک کسان بھی۔ جس کا گھر لال داڑھی والوں کے خلاف پیکاری منصوبے بنانے کا اڈا بنا ہوا تھا۔ لیکن آخر آخر میں شنگ نے اسمٰعیل حجی کو گرفتار کر لیا۔ اُسے گرفتار کیا گیا پھر چھوڑ دیا گیا اور پھر گرفتار کر کے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ مر گیا۔ اس کے دونوں ساتھیوں جی جن منگولی "زندہ بدھ" اور باعی ملا قازق کو دعوت نامہ ملا کہ صوبہ دار شنگ کے مہمان ہونے کے لیے ارمچی آئیں، دوسروں کی طرح بغیر کسی بات کا شبہ کیے انہوں نے دعوت منظور کر لی اور جب مہمانوں کے اعزاز میں بظاہر خوشیاں منائی جا رہی تھیں، جلاد ان پر جھپٹ پڑے اور ان کا کام تمام کر دیا۔

باعی ملا کا چغہ خفیہ طور پر علی بیگ کو پہنایا گیا لیکن 1940ء؁ میں تقریباً سقوط فرانس کے وقت وہ بھی گرفتار کر کے اُرمچی لے جایا گیا جہاں اسے اٹھارہ مہینے ایک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ اس زمانۂ نگرانی میں جہاں


صفحہ143

کہیں وہ جاتا، چینی نگراں اس کے ساتھ رہتے۔ یہاں تک کہ رات کو بھی اسی کمرے میں رہتے جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوتا۔ کمرے میں صرف ایک پلنگ تھا اس پر نگران سوتے۔ لیکن علی بیگ چونکہ اپنے خیمے کے فرش پر سونے کا ساری عمر سے عادی تھا اس لیے یہاں بھی فرش پر سونے میں اُسے کسی قسم کی زحمت نہیں ہوتی تھی۔

علی بیگ کی گرفتاری سے کچھ ہی پہلے شنگ کی بُلائی ہوئی ایک کانفرنس میں ایک مندوب کی حیثیت سے یونس حجی ارمچی گیا تھا، وہ حمزہ کو اپنے ساتھ لیتا گیا۔ تاکہ اُرمچی میں اس کی تربیت جاری رہے۔ یہاں وہ پورے دو سال مقیم رہے، حالانکہ چاروں طرف دہشت کا راج تھا۔ گلیوں کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے کہ لوگ کسی پر اتہامات لگا کر گم نام درخواستیں ان میں ڈال دیں۔ شنگ کی خفیہ پولیس یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتی تھی کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط، اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کس دن کس گھڑی خفیہ پولیس آکر اس کا دروازہ پیٹنے لگے گی اور اسے کسی ایسے جرم میں پھانس کر لے جائے گی جو اس نے نہیں کیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو تکلیفیں پہنچائی جاتیں اور وہ غریب یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ کس دشمن نے اس کے خلاف درخواست دی ہو گی۔ پھر خود ہی کسی کا نام دل میں سوچ کر اس کے خلاف گمنام درخواست ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ہزاروں بے گناہ اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ علی بیگ اور حمزہ کا اندازہ یہ ہے کہ صوبہ دار شنگ کے دہشتناک راج میں نو سال تک ہر سال دس ہزار بے قصور آدمی موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔


صفحہ144

ستمبر 1939ء؁ میں حمزہ کے ارمچی جانے سے کچھ ہی پہلے شنگ کے روسی مشیروں نے فیصلہ کیا کہ صوبےمیں مذہبی تعلیم ختم کر دی جائے۔ چنانچہ صدر مقام میں دو سال تک حمزہ کو صرف غیر مذہبی تعلیم ہی ملتی رہی۔ وہ اس تبدیلی کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن تبدیلی کا ذمہ دار وہ چینیوں کو ٹھہراتا تھا، روسیوں کو نہیں۔ لیکن روسیوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو چلے تھے۔ جو کتابیں حمزہ پڑھ رہا تھا وہ روسیوں کی نگرانی میں مرتب کی گئی تھیں۔ سویت یونین ایک اشتراکی ریاست تھی۔ حمزہ کے بعض مکتب کے ساتھی اب اشتراکی بن چکے تھے بلکہ ان میں چند قازق بھی شامل ہو چکے تھے اور جب مکتب سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے تو ان کو شنگ کی صوبائی حکومت میں اچھی ملازمتیں مل گئیں۔ حمزہ، اشعر، تیز دماغ۔ اس تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا اشتراکیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو چینی جو بُری ہوتی ہے اور دوسری روسی جو اچھی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو چینیوں کے خلاف مقامی قوموں کی پشت پناہی کر رہی تھی اور دوسری وہ جو جابر و ظالم شینگ کی پیٹھ ٹھونک رہی تھی اور محکوم قوموں کے سر اس سے کچلوا رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عوام کے سامنے اشتراکی دو منہ سے بولتے ہوں اور خفیہ طور پر ان کا مقصد ایک ہی ہو، اگر وہ دو مونہوں سے بولتے ہیں تو کس مُنہ کا اعتبار کیا جائے؟

ان دنوں واقعی میں کسی کے لیے یہ جان لینا مشکل تھا کہ کس پر یقین کیا جائے۔ مثال کے طور پر جب اگست 1939ء؁ میں شنگ نے صوبے میں بسنے والی مختلف قوموں کو دعوت دی تھی کہ اپنے اپنے مندوب اُرمچی بھیجیں تاکہ نیا بنیادی دستور بنایا جائے جس کی رو سے


صفحہ145

ہر شخص کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اس وقت شنگ کی نیت نیک تھی یا بد، یہ ایک ایسا دعوت نامہ ضرورت تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، ورنہ بعد میں شنگ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ دیکھو میں نے تو تمہیں آزادی دینے کےلیے بلایا تھا مگر تم آئے ہی نہیں۔"

لہذا مناسب وقفے میں کوئی تین ہزار مندوبین جن میں یونس حجی بھی تھا، مقررہ تاریخ پر اُرمچی پہنچ گئے اور صوبہ دار شنگ نے اعلیٰ پیمانے پر ان کی خاطر مدارت کی۔ پھر مذاکرات کی ابتدائی کاروائی بطور اور (بقول شنگ) یہ یقین کرنے کے لیے کہ تمام مذاکرات امن کے ماحول میں جاری رہیں گے، شنگ نے ہر مندوب کو حکم دیا کہ جنہوں نے اُسے چُن کر بھیجا ہے انہیں ایک خط لکھے کہ جتنے بھی ہتھیار موجود ہوں، وہ سب فوراً حکومت کے حوالے کر دیے جائیں۔

ہمیں اس کا علم نہیں کہ مندوبین میں سے کتنوں نے شنگ کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ بہت کم نے اور قازقوں میں سے شاید کسی نے بھی یہ خط نہیں لکھا۔ اور اگر ایسے خطوط لکھے بھی جاتے تب بھی اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کوئی نہ کرتا۔ بہرحال یہ تین ہزار مندوبین اگلی اپریل تک اُرمچی ہی میں تھے اور نئے بنیادی دستور پر غور و خوض شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر اپریل 1940ء؁ میں ان تین ہزار مندوبین میں سے اٹھارہ کو شنگ نے گرفتار کر لیا۔ ان میں یونس حجی بھی شامل تھا اور جب بالآخر 41-1940ء؁ میں ان مندوبین کو اپنے گھروں کو واپس جانےکی اجازت ملی تو وہ اٹھارہ ان کے ساتھ نہیں گئے۔ اور نہ ہی اس کے بعد کسی نے انہیں زندہ دیکھا۔


صفحہ146

اُرمچی میں صرف ایک قازق ایسا تھا جو بتا سکتا تھا کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ شنگ کی خفیہ پولیس میں یہ شخص لاری ڈرائیور تھا۔ اس کا ایک کام یہ بھی تھا کہ جن کو مار ڈالا گیا ہو، ان کی لاشوں کو لاد کر لے جایا کرے۔ جسے مارنا ہوتا اس کی گُدی پر گولی مار دی جاتی اور اس کی لاش فصیل شہر سے باہر پھنکوا دی جاتی۔ اس شخص کی تنخواہ تو کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن جو لوگ لاپتہ ہو جاتے، ان کے ورثا کو یہ بتا کر کہ ان کی لاشیں کہاں پھینکی گئی ہیں، وہ خاصی رقمیں کما لیتا تھا۔

گرمیوں کے موسم میں ایک دن وہ بجائے مقتولین کی لاشیں لادنے کے، ان کے قاتلوں یعنی شنگ کے مقرر کردہ جلادوں کو اپنی لاری میں سوار کر کے چھوڑنے جا رہا تھا کہ ایک اُجاڑ مقام پر لاری کا انجن کچھ خراب ہو گیا۔ اس نے انجن کا ڈھکنا کھول کر ٹھونک بجا کر خرابی کا پتہ چلانا شروع کیا۔ مشرقی ترکستان میں سارے ڈرائیور بڑے شوق سے انجنوں پر جھکے رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انہیں اپنی فوقیت جتانے کا کچھ موقع مل جاتا ہے۔ ادھر تو ڈرائیور اپنے کام میں لگا ہوا تھا، ادھر اس کے نو 9 مسافروں نے ایک ٹھنڈی سایہ دار جگہ تلاش کی اور پڑ کر سو رہے۔ ڈرائیور نے انجن ٹھیک کر لیا اور جب ان نو جلادوں کو بے غل و غش سوتے دیکھا تو ایک ایک کر کے سب کے گلے کاٹ دیئے۔ اس طرح سے فارغ ہو کر وہ اُرمچی اپنی لاری واپس لے آیا اور یہاں رپٹ درج کروائی کہ پہاڑوں میں قازق لٹیروں نے لاری کو روک لیا اور سارے مسافروں کو اپنی تلواروں سے مار ڈالا۔ مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں قازق ہوں اور جب اس کے مالکوں نے مقام واردات پر اس واقعہ کی تصدیق کرنے کے لیے کچھ اور آدمیوں کو بھیجا تو چیلوں، گدھوں اور گیدڑوں نے اس کام کی تکمیل کر دی تھی جس کا آغاز ڈرائیور نے کیا تھا۔ لہذا جو


صفحہ147

کچھ ڈرائیور نے کہا تھا اس کی تردید کسی طرح بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور تو کسی کو یقین نہیں آیا، لیکن ڈرائیور کے مالکوں کو اس کے بیان کا یقین آ گیا۔

اس بھیانک شخص کا نام قالی تھا اور اس کے ہم قوم قازق بھی اس سے دُور رہتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ جاسوس ہے کیونکہ شنگ کا کام کرتا ہے اور اُجرت پاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ :

"اگر وہ جاسوس تھا، محض اس وجہ سے کہ شنگ سے اُجرت لیتا تھا تو اس وقت کیا تھا جب ہم سے پیسے لیے کر یہ بتاتا کہ شنگ کے ہاتھوں ہمارے پیاروں کا کیا حشر ہوا، اور اس وقت کس کے لیے جاسوسی کر رہا تھا، جب اس نے کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور شنگ کے جلادوں کے گلے کاٹ ڈالے۔ مقتولوں کی جیبوں میں سے ظاہر ہے کہ اس کے ہاتھ کچھ زیادہ رقم نہیں آئی ہو گی۔"

قالی کے کردار کا اندازہ کرنے کے لیے آگے چل کر ہمیں ایک مختصر سا موقع اور ملے گا، جب وہ قازقوں کی کشمکش میں ایک بڑے نازک موقع پر اچانک کہیں سے اُبھر آتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اس واقعہ کے مشاہدے کے بعد بھی ہم اس کے سمجھنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔

جب حمزہ کا بھائی گرفتار کر لیا تھا تو حمزہ ارمچی کے مدرسہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس نے قالی سے اپنے بھائی کے انجام کے متعلق دریافت نہیں کیا بلکہ جیسے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یونس حجی کو قتل کر دیا گیا، وہ خاموشی سے قزل ازون واپس چل دیا۔ حمزہ اس وقت انیس سال کا نوجوان تھا۔ اس لیے شنگ کی خفیہ پولیس بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ روسی پوگوڈن کی طرف سے سخت خطرے میں تھا، اس کے بھائی کو شبہ میں گرفتار کر کے مار ڈالا گیا تھا۔ تو حمزہ کو مُبہم کرنے میں اسے کیا دیر لگتی۔ خوش بختی سے حمزہ نے اپنےخیالات کا اظہار اپنے


صفحہ148

مکتب میں نہیں کیا، اس کے علاوہ یہ بھی تو ایک واقعہ تھا کہ حمزہ ایک ایسے مکتب میں پڑھ رہا تھا جس پر اشتراکیوں کا قبضہ تھا اور اسی مدرسے کی سیاسی تعلیم حاصل کر رہا تھا، یہ باتیں بھی حمزہ کے حق میں تھیں۔ لہذا یونس حجی کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا اور اسے اپنے گھر واپس جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔

قزل ازون سیدھے جانےکے بدلے حمزہ مشورہ کرنے کےلیے پہلے اسمٰعیل حجی کے پاس گیا۔ اس نے پہلے دیکھ لیا، تینوں سڑکیں خالی پڑی ہیں، بڈھا اسمٰعیل اب بھی وہیں موجود تھا لیکن شنگ کے آدمیوں کے ہاتھوں اس نے جو تکلیفیں اٹھائی تھیں ان سے بالکل نڈھال ہو گیا تھا، اس نے حمزہ کو مشورہ دیا کہ مناس سے دُور رہے کیونکہ وہاں بھی اُرمچی کی طرح ہر گلی کے نکڑ پر سفید بکس رکھےہوئے تھے۔ جب رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تو حمزہ اس کے گھر سے نکل کر قزل ازون کے کنارے اپنے خیمے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس کے دوستوں نے فوراً دن اور رات کا پہرہ لگا دیا تاکہ مناس سے آنے والے راستے کی نگرانی رکھیں اور اگر کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھیں تو اسی وقت اس کی خبر کریں لیکن کوئی نہیں آیا۔

کچھ عرصہ بعد علی بیگ اچانگ مناس واپس آ گیا۔ حمزہ نے ایک قاصد بھیج کر اس سے پوچھا کہ کیا بغیر کسی خطرے میں مبتلا ہوئے ہماری ملاقات ہو سکتی ہے؟ وہ دوست جو پیغام لے کر گیا تھا، جب واپس آیا تو کچھ مذبذب تھا، اس نے حمزہ سے کہا :

"وہ مناس میں منگ باشی یعنی ایک ہزاری سردار بن کر آیا ہے اور قصائی شنگ کا تنخواہ دار ملازم ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خطائیوں


صفحہ149

نے اسے اپنے اصولوں پر نہ لگا لیا ہو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ان کی تنخواہ پاتا ہے۔ مگر جب اصولوں کا تسلیم کرنا ایک طرف ہو اور شدید اذیتیں دوسری طرف ہوں تو پھر اصول مان لینے پر کسی کو دوش کیسے دیا جا سکتا ہے؟"

حمزہ نے حقارت سے کہا، یہ بازاری غپ ہے اور اس پر کسی سچے مسلمان کو یقین نہیں کرنا چإہیے۔ میں اس وقت ارمچی ہی میں تھا، جب شنگ کے اذیت دینے والوں نے اسے ایک گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔ اور نماز پڑھنے میں بھی وہ مداخلت اس لیے کرتے تھے کہ کہیں خدا سے ہم کلام ہونے کے پردے میں وہ کسی قریب ہی چھپے ہوئے ساتھی سے باتیں نہ کر رہا ہو۔

دوست نے مشتبہ اندزا میں پوچھا، "تو اس وقت کیا تم خود ایک خطائی مدرسے میں زیر تعلیم نہیں تھے، ہو سکتا ہے کہ انہوں نے خطائی زبان کے ساتھ ساتھ خطائی اصول بھی تمہیں سکھائے ہوں۔۔۔"

حمزہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا "اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے میرے بھائی یونس حجی کو خرید لیا ہو اور شاید اسی قصور میں اُسے گرفتار کیا ہو۔"

دوست نے کہا، "نہیں۔ تمہارے بھائی پر کوئی بھی شبہ نہیں کر سکتا۔ رہے تم تو کیا تم اس کے بھائی نہیں ہو، لیکن یہ علی بیگ ہے۔ کیا اس کا باپ رحیم بیگ ہمارے لوگوں اور خطائیوں میں بیچ کا بچولی نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا اس کے بیٹے نے اس کی جگہ نہیں سنبھال لی۔ کیا وہ اب اس قصائی شنگ کا ملازم نہیں ہے جس نے تمہارے بھائی کو گرفتار کیا اور ایسا غائب کیا کہ آج تک اس کا پتہ نہیں چلا؟"

حمزہ بولا، "تم نے میرے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا، لیکن علی بیگ کو گرفتار کر کے اُرمچی لے جانے سے پہلے جب ہم لال داڑھی


صفحہ150

والوں سے لڑ رہے تھے، تو کیا اس زمانے میں یہی علی بیگ اس کا نائب تمن باشی، دہ ہزاری سردار نہیں تھا۔ کیا سارے علاقے میں علی بیگ ایک سچا محب وطن مشہور نہیں ہے جس شنگ نے دس لاکھ کا جرمانہ کیا تھا اور یہ رقم لوگوں نے خود ہی بخوشی ادا کر دی تھی کیونکہ علی بیگ اس کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہذا تم سے نہیں بلکہ خود اس کے منہ سے میں یہ سنوں گا کہ وہ قصائی شنگ کا سفیر بن کر مناس کیوں آیا ہے۔"

حمزہ نے دوبارہ کسی کو مناس بھیجنا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں نئے منگ باشی نے خود ہی پیغام بھیجا کہ آ کر ملاقات کرے۔ اس دعوت نامے کی مزید تفصیلات قاصد کو معلوم نہیں تھیں، اس لیے حمزہ فوراً ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب حمزہ اور علی بیگ ملے تو گرمجوشی سے گلے ملے اور قازقوں کے روایتی اخلاق کے مطابق انہوں نے دائیں رخسار ملائے اور جدا ہو کر مصافحہ کیا اور "اللہ اکبر، اللہ اکبر" کہتے رہے۔ پھر داہنے ہاتھ سے اپنی اپنی پیشانی ، لب اور سینے کو چھوا۔ مسلمانوں میں عام طور پر یہی رواج ہے۔ دونوں ابھی نوجوان ہی تھے۔ حمزہ اُنیس اور علی بیگ چونتیس سال کا تھا۔ اس ملاقات کے بعد سے ان دونوں کے مقدر ایسے ایک ہوئے کہ مرتے دم تک جُدا نہیں ہوئے۔

اس طرف سے اطمینان کر کے کہ کوئی کن سنیاں تو نہیں لے رہا، چھپا ہوا مائیکروفون اس زمانے تک دنیا کے اس دور دراز حصے میں نہیں پہنچا تھا، علی بیگ نے اپنے منصوبے بیان کیے۔ اس نے صاف صاف بتایا کہ مجھے ہوشیاری سے ایک ایک قدم اٹھانا ہو گا۔ اُرمچی میں جو اٹھارہ مہینے میں نے گھر کی قید میں کاٹے ہیں، مجھے دن بھر اور رات کو بھی اشتراکیت ہی کے سبق
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ151

پڑھائے جاتے تھے۔ میرے معاملے میں فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے کسی قسم کی جسمانی اذیت نہیں دی جاتی تھی۔ آمادہ کرنے کے لیے شنگ کو جارحانہ طریقہ پسند نہیں تھا۔ یہ وہی ڈھنگ تھا جو بعد میں کوریا میں گرفتار ہونے والے فوجیوں کے ساتھ برتا گیا، یعنی لکچر دیے جاتے، ان سے مضامین لکھوائے جاتے، اشتراکی پالیسی کے طول طویل فقرے زبانی یاد کرائے جاتے۔ اشتراکی نظریہ اور عمل پر سوالات کی مسلسل بوچھاڑ کی جاتی۔ پچھلی فروگزشتوں کے جبری "اعترافات" کرائے جاتے۔ اس طرح کی باتیں گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اٹھارہ مہینے تک جاری رہیں۔ عام قازقوں کی طرح علی بیگ کا حافظہ نہایت عمدہ تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے عاری بالکل سپاٹ رہتاتھا۔ علی بیگ نے اپنے سکھانے پڑھانے والوں کو بالآخر یقین دلا دیا کہ ان کی کل تعلیم اس میں رچ گئی ہے۔

اب وہ وقت آ پہنچا جب مشرقی ترکستان سے ہزاروں میل دور بہت کچھ تبدیلیاں دنیا میں ہو رہی تھیں۔ ان سے شنگ پریشان رہنے لگا تھا۔ اکتوبر41ء؁ کا زمانہ تھا اور یورپ میں سویت فوجیں فتح مند جرمنوں کے آگے بھاگی چلی جا رہی تھیں، ہزاروں لاکھوں روسی حیران و پریشان ہو کر جرمنوں کی اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ اور متوقع تھے کہ ہٹلر انہیں اشتراکی وحشت سے چھٹکارا دلائے گا۔ شنگ نے دیکھا کہ ہٹلر کی فوجیں روز بروز ایشیا کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور پورا سویت نظام ڈھا جا رہا ہے۔

ان حالات کو دیکھ کر شنگ نے بھی رُخ بدلنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب اس نے ایک نئی پالیسی اختیار کی۔ مقامی قوموں کے لیے بھی اور قومیت پسند چین کے لیے بھی۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ علی بیگ کو بلا بھیجا، وہ اس طلبی پر یہ سوچ کر روانہ ہوا کہ اب دوبارہ اپنے وطن زندہ واپس آنا نصیب نہ ہو گا، کیونکہ


صفحہ 152

اسے یاد تھا کہ جب باعی ملا اور جی جن کو بڑے سرپرستانہ انداز میں شنگ نے بلایا تھا تو ان کا کیا حشر ہوا، ان کے بعد یونس حجی پر کیا گزری۔ یہ بھی اسے یاد تھا۔ لیکن بے اطلاع گدی میں گولی مار دیے جانے کی بجائے اس نے دیکھا کہ شنگ اسے منگ باشی کا عہدہ پیش کر رہا ہے۔ جو مقامی گورنر کے برابر ہوتا ہے۔ اور وہ بھی صوبۂ مناس کے لیے جو اس کا جنم بھوم تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ ادھر یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں یہ کوئی جال نہ ہو، پھر بھی اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ "میرے فرائض کیا ہوں گے؟" شنگ نے کہا، "تمہیں پوری آزادی ہو گی کہ جس طرح چاہو مقامی باشندوں کی شکایتیں رفع کرو اور حکومت سے انہیں برسرپیکار نہ ہونے دو۔" علی بیگ جانتا تھا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ لیکن زندہ رہنا بہرحال گھرمیں مقید رہنے اور اُرمچی میں اشتراکیت کو اپنے اندر سما لینے سے بہتر تھا۔ پھر اُسے اس کا موقع بھی مل رہا تھا کہ شنگ کی مخالفت کی تنظیم کرے، اس لیے اس نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔

قوم پرست چینیوں کی سربراہی سے شنگ مسلسل سات سال سے سرتابی کرتا چلا آ رہا تھا۔ ان سے مصالحت کرنے میں بھی شنگ اب کامیاب ہو گیا۔ اور جب اس صوبہ کو دوبارہ چین میں شامل کر دینے پر شنگ نے خوشیاں منانے کا اعلان کیا تو مادام چیانگ کائی شیک خود بہ نفس نفیس اس میں شریک ہونے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز اُرمچی پہنچیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں اس وقت اشتراکیت پوری طرح پسپا ہو رہی تھی۔ سویت اثرات بھی دور ہوتے جا رہے تھے۔ مگر کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔


صفحہ 153

شنگ کی اس بازآمد کو قبول کرنے میں مقامی آبادی کومینٹگ سے پیچھے ہی رہی۔ ایک دن علی بیگ نے بعجلت تمام حمزہ کو بلا بھیجا۔ اس وقت علی بیگ مناس میں مقیم تھا۔ جب حمزہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے گلے ملنے اور روایتی آداب سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط سے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں۔

درست اور مناسب یہی تھا کہ حمزہ خاموش رہے اور پہلے اپنے سے بڑوں کو بولنے دے۔

علی بیگ نے حمزہ سے کہا، "شنگ کا بھائی مارا گیا۔ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی بیوی کا بھی۔"

حمزہ نے کہا، "یہ رضائے خداوندی ہے۔ جل جلالہ۔ مگر شنگ خود کیسے بچ گیا۔ اس کے مظالم تو اپنے بھائی اور بھاوج سے کہیں زیادہ ہیں۔"

علی بیگ بولا، "اس میں کیا شک ہے۔ شاید وہ اپنی حفاظت زیادہ کر رہا ہو گا۔"

حمزہ نے صمیم قلب سے کہا، "خدا کرے کہ اس کا روز جزا بھی جلد آ جائے۔ وہ تو لاکھوں انسانوں کا قاتل ہے۔ ایسوں پر اللہ تعالٰی کے انعام و اکرام سدا جاری نہیں رہتے۔"

خود چینی اشتراکی لیڈر ماؤ ذی تنگ کا بھائی اس وقت شنگ کی ماتحتی میں افسر تھا اور 1942ء؁ میں اس کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی۔ شنگ اور ایک سال تک صوبہ دار رہا۔ اس کے بعد اسے چُنگ گنگ واپس بلا لیا گیا تاکہ مرکزی حکومت میں وزیر زراعت بن جائے۔ نہ تو علی بیگ ہمیں بتا سکا نہ حمزہ کہ وہ کب تک اس عہدے پر مامور رہا۔ ان کا بیان یہ ہے کہ کچھ عرصہ


صفحہ 154

بعد وہ "غائب" ہو گیا۔ یہ چونکہ شنگ کی کہانی نہیں ہے، اس لیے اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔

دو سال کے عرصے میں جب علی بیگ شنگ کے متعین کیے ہوئے مناس کے منگ باشی کی حیثیت سے کام کرتا رہا، وہ خفیہ طور پر قازق قومی تحریک کو فروغ دینے میں پوری طرح ساعی رہا اور قومیت سے قطع نظر ترکوں، منگولوں، وغیرہ سے بھی دوستی کرتا رہا کیونکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھے۔ اس وقت علی بیگ اور ان سب کا ایک ہی مقصد تھا۔ اور وہ یہ کہ سیاسی اتحاد باہمی کے ذریعہ مشرقی ترکستان کو آزادی دلوائی جائے۔ اگر کچھ چینی ہم خیال مل جائیں تو انہیں بھی اس تحریک میں شامل کر لیا جائے۔ اس کے برعکس الطائی میں عثمان بطور ہتھیاروں سے تیزی کے ساتھ راہ آزادی اپنے لیے کھول رہا تھا۔ اُسے اس کی مطلق پرواہ نہیں تھی کہ جن چینیوں سے وہ لڑ رہا ہے، وہ اشتراکی ہیں یا قومیت پسند۔ بس ان کا چینی ہونا ہی کافی تھا۔ تاہم متوازی راہیں نہ ہونے کے باوجود بھی عثمان بطور اور علی بیگ عموماً حمزہ کے ذریعہ مسلسل ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔

اور پس منظر میں ہٹلر کی تاخت کے باوجود روسیوں کو اتنا وقت اب بھی مل جاتا تھا کہ قازقوں، ترکوں اور منگولوں کو چینیوں کے خلاف اُبھارتے رہیں اور چینیوں کو مقامی باشندوں کے خلاف اُکساتے رہیں۔ لیکن دونوں سمتوں میں ان کے اثرات زائل ہوتے چلے جا رہے تھے اور جب اسٹالن گراڈ سے جنگ کا رخ پلٹا اور ایشیائی روسی حکومت سے جنگ کا چڑھا ہوا طوفان اُترنے لگا، اس کے بعد تک اشتراکی جوڑ توڑ ناکام ہی ہوتا رہا۔ 1943ء؁ میں ماسکو کے احکام پر سامراجی اثرات کو مٹانے کے لیے جو لیگ شنگ نے قائم کی


صفحہ 155

تھی وہ ختم کر دی گئی اور تاریخ میں پہلی بار برطانوی اور امیریکی قونصل خانے چینی حکومت کی درخواست پر اُرمچی میں کھل گئے۔

بہت سے قازقوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ روسی اقتدار کے زوال پر انہیں کیا کرنا چاہیے۔ چینیوں کے خلاف اپنی قومی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے وہ سالہا سال سے روسی امداد پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور مخالفین میں وہ چینی اشتراکی بھی شامل تھے جنہیں شنگ نے ان پر مسلط کر رکھا تھا۔ انہیں روسی ایجنٹوں نے بڑی احتیاط سے سکھایا تھا کہ روسیوں کو اپنا دوست سمجھیں۔ سویت یونین ہی سے چینی تاجروں کے ذریعہ انہیں جانوروں، اون، اور کھالوں کے بدلے ایسی چیزیں ملتی تھیں جیسے چائے، شکر، تمباکو وغیرہ۔ مقامی قوموں کی طرح قازق بھی روسی لاری چلانے والوں اور سڑکیں بنانے والے انجینیروں سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور سرخ ڈاڑھی والے چینیوں کے مقابلے میں ان روسی فوجی دستوں کو ترجیح دیتے تھے جو بہت سے شہروں میں چھاونیاں بنائے پڑے تھے۔ جب یہ روسی فوجی دستے 1943ء؁میں شہر چھوڑ کر جانے لگے تو اکثر لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ اب پھر لال ڈاڑھی والوں کا بھیانک راج شروع ہو جائے گا۔ تین سال اور گزر گئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ روسی محض ان پر اشتراکیت کا جُوا رکھنے کے لیے آئے تھے۔ اور اشتراکیت اور سُرخ ریشیت دراصل ایک ہی چیز ہے۔

چنانچہ 1943ء؁ میں چُنگ کنگ سے شنگ کی جگہ پر ویوچنگ ہن آیا تو باوجود بہتر سلوک اور اصلاح کے وافر وعدوں کے اکثر قازقوں نے سرد مہری سے اس کا استقبال کیا۔ شنگ کا خطاب "توپان" یا فوجی گورنر تھا۔ ویو چُنگ ہن صرف صوبائی صدر کہلاتا تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم حاصل کی


صفحہ 156

تھی اور اسی وجہ سے اُسے اکثر چوسر دیو کہا جاتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ میں قازقوں، ترکوں، منگولوں، ازبکوں کو مقامی آزادی دینے آیا ہوں۔ وہ اپنے اپنے افسروں کا انتخاب کر لیں۔ حمزہ بھی ان لوگوں میں شریک تھا۔ جنہوں نے اس اعلان کو قابل غور قرار دیا۔ وہ اس سے کچھ ہی پہلے اشتراکیت کے خلاف ایک سخت کتابچہ شائع کر چکا تھا۔ بڑی امیدوں اور جوش و خروش کے ساتھ اس نے فوراً عہدہ کی پیش کش قبول کر لی۔ چونکہ وہ ان کمیاب قازقوں میں سے تھا، جو چینی زبان روانی کے ساتھ بول سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے، وہ قازقوں اور چینیوں دونوں کے لیے ناگزیر تھا یا اسے ناگزیر ہونا چاہیے تھا۔

مشرقی ترکستان کے باشندوں پر چینی اشتراکیوں نے خصوصاً لال ڈاڑھی والوں نے جو مظالم کئے تھے، ان پر حمزہ کے دل میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ حمزہ نے انہیں نہایت شدت کے ساتھ بُرا بھلا کہا تھا۔ انہوں نے مہماں نوازی کے ان لکھے قدیم دستور کو اس طرح غارت کیا تھا کہ ابھی جن مہمانوں کو کھلایا پلایا، انہی کو قتل کر ڈالا اور جن میزبانوں کے ہاں خود مہمان ہوئے انہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ حمزہ نے انہیں ملزم ٹھہرایا تھا کہ وہ ٹیکس وصول کرنے کے بہانے لوٹ رہے تھے۔ مسافروں کو ذرا ذرا سے فائدے کے لیے لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے۔ روپیہ وصول کرنے یا معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ناقابل بیان اذیتیں دیتے، بے گناہوں کے خلاف غلط الزامات قبول کرتے اور جھوٹے گواہ بناتے۔ حمزہ نے آخر میں اپنے ہم وطنوں سے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کے پردے پر سے چینی اشتراکیوں کا نام و نشان تک مٹا دیں۔

حمزہ کا کتابچہ دراصل مروجہ اشتراکیت کے خلاف ایک پُرزور دعوتِ


صفحہ 157

عمل تھی۔ اسے نظریۂ اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس نے اس کے نتائج سے لگایا تھا۔ اور اس نے اب بھی اس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ صوبہ دار شنگ کی نو سال کی دہشتناک حکومت کے باوجود اشتراکیت کے ثمر پختہ ہونے سے ابھی بہت دُور تھے۔

کچھ قازق ایسے تھے جو حمزہ کے برعکس صدر ویو کے پیچھے اس امید پر ہو لیے کہ مشرقی ترکستان کی آزادی درجہ بدرجہ امن کے ساتھ حاصل کریں۔ نتیجے کے طور پر ہماری کہانی میں نئے نئے نام آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چونکہ بیشتر نام ایسے ہیں جنہیں وسطی ایشیا کے باہر کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے ہم صرف ان ناموں کو لیں گے جو ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔ پھر بھی یہ نئے آنے والے اتنے غیر اہم نہیں ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسے ملک کی قسمت تھی جو برطانیہ عظمیٰ، فرانس اور جرمنی سب کے یکجائی رقبے کے برابر ہے۔ اگرچہ اس کے باشندوں کی تعداد صرف اسی لاکھ ہے، لیکن شاید یہ بتائی ہوئی تعداد غلط ہے۔ مشرقی ترکستان کی قسمت کا فیصلہ بالآخر ماسکو اور نانکنگ میں ہوا، لیکن اس فیصلے میں بڑی حد تک مشرقی ترکستان کے باشندوں کا بھی ہاتھ تھا۔

ادھر تو سیاستدانوں، خصوصاً چینی، اُرمچی میں گفت و شنید کر رہے تھے، اُدھر عثمان کی لڑائیاں جاری تھیں۔ لال ڈاڑھی والوں سے اپنے آدمیوں کو بچائے رہنے کے باعث اسے لوگوں نے "بطور" کا خطاب دیا تھا۔ اور اب اس خطاب کو عام طور سے سب نے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ محض اسی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ الطائی چینیوں سے پاک ہو چکا تھا۔ اور 22 جون 1943ء؁ کو الطائی کے باشندوں نے جن میں منگول بھی شامل تھے اور قازق بھی، عثمان کو اپنا


صفحہ 158

خان یا شہزادہ بنا لیا تھا۔ اس طرح اسے چنگیز خان اعظم کا جائز جانشین قرار دیا تھا۔ یوں بوکو بطور کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو گئی کہ اللہ نے اسے اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔

عثمان بطور کو خان کا خطاب بل غُن میں ایک خاص جلسے میں دیا گیا۔ الطائی کو سویت روس، منگولیا اور اُرمچی سے جو تین سڑکیں آتی ہیں، ان تینوں کے یکجا ہونے والے مقام پر بل غُن واقع ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو قریب کی ایک جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل کے کناروں پر خانہ بدوشوں کے مویشیوں کے لیے نہایت عمدہ چراگاہیں ہیں، یہ مقام یقیناً اس لیے انتخاب کیا گیا تھا کہ جلسے میں شرکت کےلیے مندوبین نہ صرف مشرقی ترکستان سے آئے تھے بلکہ سویت روس اور منگولیا سے بھی۔

منگولی مندوب مارشل چوئی بلسان تھا۔ جو بیرونی منگولیا کی اشتراکی جمہوریت کا صدر تھا۔ سویت روس کے دو نمائندے قازقستان کے دو قازق سردار تھے۔ ان تینوں کے ساتھ شاندار محافظ دستے تھے جن سے سویت حکومت کی قوت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ اور عثمان بطور کو مرعوب کرنا مقصور تھا۔

چوئی بلسان کا بیان ہم سے یوں کیا گیا کہ وہ ایک گول چہرے کا آدمی تھا بلکہ گول مٹول آدمی تھا۔ میانہ قد، ڈاڑھی مونچھ صاف، اس موقع پر اس نے مارشل کی فوجی وردی نہیں پہن رکھی تھی بلکہ ایک لمبا نارنجی رنگ کا چُغہ جو گردن سے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ کمر میں ایک پٹکا بندھا ہوا تھا۔ منگولی سرداروں کے رواج کے مطابق اس نے اپنے سر پر اونچی باڑ کی ہومبرگ ٹوپی پہن رکھی تھی جو انگلستان کی بنی ہوئی تھی اور وسطی ایشیا میں کلکتہ سے آئی تھی۔ ہندوستانی سوداگر یہ ٹوپیاں اونٹوں پر لاد کر نیپال میں سے ہو کر لاسہ


صفحہ 159

لے جاتے اور وہاں سے تبت اور سنکیانگ کی سرحد پر۔ یہاں مقامی سوداگر انہیں خرید لیتے۔ اس قسم کا لین دین پہلے ختن اور دوسرے مشرقی ترکستان کے شہروں میں ہوتا تھا۔ لیکن 1939ء؁ میں اشتراکیوں نے اس سرحد کو بند کر دیا۔ وہ سوداگر جو ہندستانیوں سے یہ ٹوپیاں خریدتے انہیں پھر اونٹوں پر لاد کر منگولیا لے جاتے۔

قازق نمائندوں کے نام قصین اور سلطان تھے۔ ان کے لباس عثمان بطور کے لباس سے ملتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ارغوانی بھورے رنگ کی جو مخملیں تُمک اُن کے سروں پر تھیں، ان میں پروں کے طرے لگے ہوئے نہیں تھے۔ کیونکہ نعیمان قبیلے سے ان کا تعلق تھا اور ان کے ہاں اس کا رواج نہیں تھا۔ تُمک کے چوڑے گردے پر لومڑی کی ملائم کھال کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔ کانوں کو ڈھانکنے والے پاکھے ان تینوں مندوبوں نے نیچے اتار کر ٹھوڑیوں کے نیچے باندھ رکھے تھے۔ ان کے پھولدار ریشم کے چغے بھی ایک جیسے تھے۔ ان کے استر سمور کے تھے اور ان پر نفیس سوزن کاری کی ہوئی تھی۔ تینوں قازقوں کی ڈاب میں لمبی کٹاریں تھیں۔ یہ بڑے قیمتی ہتھیار تھے جو نسلاً بعد نسل ان تک پہنچے تھے، ان کا فولاد بہت عمدہ تھا اور ان پر سونے چاندی کا کام کیا ہوا تھا۔ ان کی وضع دمشق کی تلواروں جیسی تھی، مگر یہ تلواریں ان قازق آہنگروں کی کاریگری ہی کے بے مثل نمونے تھے جو پراؤ پڑاؤ پھر کر اپنے بھدے اوزاروں ہی سے اتنا نفیس کام کر جاتے تھے۔ قازق سردار گھٹنوں تک اونچے چمڑے کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور ان کے اوپر ڈھیلے ڈھالے کفش پوش تھے۔ ان کی وجہ سے ان کے چلنے میں عجب بھدا پن ان کی چال میں آ جاتا تھا۔ لیکن جب وہ گھوڑوں پر سوار پچاس ساٹھ محافظوں کو


صفحہ 160

جلو میں لیے، جو اپنے سرداروں سے ملتے جلتے شاندار لباس پہنے اور ہتھیاروں سے لیس تھے، دندناتے ہوئے آئے تو دور دور تک کہیں بھی بھدا پن نہیں تھا۔

چاروں سرداروں کے مابین جو رسمی ادب آداب برتے گئے اور پھر ان کے خدم و حشم میں جو تکلفات بروئے کار آئے ان کی تفصیل بخوف طوالت نظر انداز کی جاتی ہے۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ چوئی بلسان مسلمان نہیں تھا وہ بدھ مذہب کا پیرو تھا، اس لیے تینوں قازق سردار اس کا خیر مقدم اس انداز سے نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ آپس میں ایک دوسرے کا کہ السلام علیکم کہا اور جواب ملا و علیکم السلام۔ اس کے بعد جو سولہ روایتی آداب تھے وہ صرف قازقوں ہی سے مخصوص تھے۔ لہذا انہیں چوئی بلسان سے خوش اخلاقی اور شائستگی سے کچھ ایسی باتیں کہنی پڑیں مثلاً خوش آمدید۔ بخیر آمدید۔ مزاج شریف؟" جب وہ ان رسمیات سے فارغ ہو لیے تو عثمان بطور نے چوئی بلسان سے اس وسیع خیمے میں داخل ہونے کو کہا جس میں کانفرنس ہونے والی تھی اور اس کے بعد دعوت۔

اس نے نہایت شائستگی سے کہا، "ہمارے مہمان خصوصی کو پہلے اندر تشریف لے جانی چاہیے۔"

چوئی بلسان نے اصرار کیا، "نہیں نہیں، یہ دونوں حضرات مجھ سے زیادہ لائق تعظیم ہیں۔ میں سبقت نہیں کر سکتا۔"

قصین جو دونوں قازق مہمانوں میں معمر تھا، بولا، "جی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں پہلے داخل ہوں۔" اس کے ساتھی سلطان نے بھی فوراً یہی الفاظ دہرائے۔

کچھ دیر یہی تکلف جاری رہا۔ آخر چوئی بلسان نے دونوں قازقوں
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 261 تا 290 پروف ریڈ ہو گئے ہیں۔

عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -261

ایک آدمی سے اپیل کی۔ جس طرح اساطیر الاولین میں رب شکیہ نے گھرے ہوئے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں ایک اور سرزمین لے جاؤں گا جو تمہاری ہی سرزمین کی طرح ہے۔ غلے اور شراب کی سرزمین، روٹی اور تاکستانوں کی سرزمین، زیتون کے تیل اور شہد کی سرزمین، تاکہ تم زندہ رہو اور مرنے نہ پاؤ۔ اسی طرح اشتراکیوں نے عثمان بطور ، یول بارز اور جانم خان کے ساتھیوں سے وعدہ کیا کہ مارکسی معاشی منصوبے کے تحت ان کے لیے مادی مفادات مہیا کیے جائیں گے اور انہیں وعدوں کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اشتراکیوں کی پیش کش کو قبول نہ کیا گیا تو کس کس اذیت کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں اور ان کے متعلقین کو ہلاک کیا جائے گا۔

عثمان بطور اور اس کے آدمی اشتراکیوں کے فوجی اور نفسیاتی حملوں کا نو مہینے تک مقابلہ کرتے رہے اور دن بہ دن دبتے دبتے ایک ذرا سی جگہ میں گھر کر رہ گئے۔ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہشت راہ لشکر نے مقامی حاشیہ برداروں کی مدد سے یول بارز پر حملہ کیا۔ وہ بارکل کے جنوب مغرب میں پہاڑی درے ناشی تُو کو روکے ہوئے تھا۔ یہ درہ ان دو راستوں کو ملاتا ہے جو شمالی سڑک اور جنوبی سڑک کہلاتے ہیں اور یہ سڑکیں مشرقی ترکستان کو چین سے ملاتی ہیں اور صحرائے گوبی میں گزرنے سے پہلے حامی میں مل جاتی ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس مشینی دستے تھے اس لیے انہوں نے ذرا سی دیر میں یول بارز کو وہاں سے اکھاڑ دیا۔ لیکن جب یہاں سے ہٹ کر یول بارز بارکل کے میدان میں عثمان بطور سے جا ملا تو ان دونوں نے مل کر اشتراکیوں کو تین مرتبہ پسپا کیا اور ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ اس ہزیمت پر اشتراکیوں نے تھکے ہوئے ہشت راہ لشکر کو وہاں سے ہٹا لیا اور روسیوں کی سرکردگی میں


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -262

قازقوں کا لشکر آگے بڑھا دیا۔ اور ان کی مدد روسی ہوائی جہازوں سے کی۔ روسی جہاز رانوں نے جتنے بھی قازقوں کے پڑاؤ انہیں نظر آئے سب پر بمباری کی۔

اس کے بعد اشتراکیوں نے بارکل کے علاقے سے نکاسی کے تمام راستے بند کر دیے اور مسلح محافظوں کے ساتھ "وضاحتی دستے" ان تمام قازق پڑاوؤں تک بھیجے جن تک پہنچنے میں عثمان بطور کے جنگجو حائل نہیں تھے۔ وضاحتی دستوں نے تمام بستیوں کے بے ضرر بسنے والوں کو مع ان کے بال بچوں اور جانوروں کے کیوچنگ کے اجتماعی کیمپوں میں پہنچا دیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو ہر پڑاؤ نے وضاحتی دستوں کی مخالفت کی۔ جس نے بھی مخالفت کی اس کا صفایا کر دیا گیا۔ اور دشمنوں پر اس فتح کو اشتراکی اخباروں میں محب وطن فوجوں کی شاندار کامیابی کا نام دے کر خوب اچھالا گیا۔

اس قسم کی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد اشتراکیوں نے عثمان بطور کے لڑنے والے دستوں کو ختم کرنے کے ارادے سے بارکل کے میدان پر ایک زبردست حملہ کیا۔ اس میں انہیں پھر ناکامی ہوئی اور انہوں نے سویت حکومت سے تربیت یافتہ روسی فوجیں اور ٹینک اور بھاری توپیں منگائیں۔ اس پر بھی آزاد قازق دو مہینے تک جمے رہے۔ آخر میں ان میں سے بعض قازق صحرائے گوبی میں نکل گئے اور نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوا۔ لیکن باقی ماندہ قازق عثمان بطور کے ساتھ لگے رہے۔ عثمان بطور نے حیرت ناک طور پر اشتراکی گھیرے کو توڑ لیا اور اپنے آدمیوں جانم خان اور یول بارز کے آدمیوں، ان کے بال بچوں اور خیموں اور ان کے ریوڑوں اور گلوں کو اپنے ساتھ لے کے پہلے پہاڑوں کو عبور کیا پھر پانچ سو میل کا کھلا علاقہ طے کیا اور کئی ایسے فصیل دار شہروں کے قریب سے گزرا جن میں اشتراکی فوجی دستے مقیم تھے۔ ان سب کو پار کر کے وہ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -263

خان امبل کے پہاڑوں میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ ستمبر 1950ء کے اوائل میں پہنچ گئے تھے۔ ترکی میں جو قازق موجود تھے ان میں سے اس حیرت ناک فوجی مہم میں کوئی شریک نہیں تھا۔ اس لیے ایشیا کے اس حصے کے متعلق معلومات حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ عثمان بطور اپنے سارے ساتھیوں کو نکال لے گیا۔

خان امبل کے پہاڑوں میں ان کے پہنچ جانے سے کچھ ہی پہلے، غزکل کے علاقے میں اشتراکی زیادہ سرگرمی دکھانے لگے اور کوہ صادم میں ایک بڑی خطرناک لڑائی ہوئی جس میں جانبین کے بہت آدمی مارے گئے۔ علی بیگ کا بھائی زین الحمید بھی اسی میں کام آیا لیکن اشتراکیوں کا نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ انہوں نے پانچ مہینے تک کوئی دوسرا حملہ نہیں کیا۔

جب یول بارز غزکل پہنچا تو اس نے کہا۔ "میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب ہمیں ترکستان چھوڑ کر چانگ کائی شیک سے جا ملنا چاہیے۔ جو فارموسا جا پہنچا ہے۔ اس صورت میں کہ پورے چین کے خاص علاقے اشتراکیوں کے قبضے میں جا چکے ہیں ہمارا شمال مغربی چین میں رہنا حماقت ہے۔ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ غزکل میں قازق لڑنے والوں کی مجموعی تعداد چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ "علی بیگ اس کی رائے سے اتفاق کرنا چاہتا تھا لیکن عثمان بطور اور قازقوں کی اکثریت مشرقی ترکستان ہی میں ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتی تھی کیونکہ انہیں یقین ہو گیا تھا کہ شمال مغربی چین کے دوسرے آباد حصوں سے اب ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ اشتراکی اب ہم سے نہیں الجھیں گے۔

علی بیگ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یول بارز چلے


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ -264

جانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ستر برس کا بڈھا تھا اس لیے اس کے چلے جانے سے کوئی خاص کمی نہیں واقع ہوتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یول بارز کے چینی ساتھی قازق طرزِ جنگ سے ناواقف ہیں اس لیے اگر وہ بھی اس کے ساتھ چلے جائیں گے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہو گا۔ سعالی نے بھی جس کے زیادہ آدمی سفید روسی تھے۔ یول بارز کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ مالدار قازق تاجر عادل، عبدالکریم مورخ اور امین طہٰ ملّا جو علی بیگ کو اطاعت قبول کرنے کے لیے مشورہ دینے گیا تھا اور پھر علی بیگ کے کہنےسننے سے خود بھی باغی ہو گیا تھا، ان سب نے بھی چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ ان تینوں کے ساتھ ان کے بال بچے ہی تھے۔ لڑنے والے آدمی نہیں تھے۔

عثمان بطور کی بارکل سے واپسی پر جب سب لوگ رخصت ہوئے تو علی بیگ نے انہیں خدا حافظ کہا اور جنرل اسمیو چیانگ کائی شیک کو یول بارز کے ہاتھ چٹھیاں بھیجیں اور جنرل آئزن ہاور کو بھی ، جن میں اس نے لکھا۔ "اگر ہمیں کوئی مدد نہیں پہنچے گی تو ہم ایک سال تک اور یہیں اپنا بچاؤ کرتے رہیں گاپھر بھی اگر مدد نہ ملی تو ہم لڑ کر یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ بنا لیں گے۔"


صفحہ 265

غزکل میں تباہی

غزکل میں عثمان کی جنگ پسپائی کے ساتھ قازق کشمکش آزادی کا ایک اور باب ختم ہوا۔ ٤٩۔ ١٩٤٤ میں جب ان کی کامیابی شباب پر تھی تو آزاد قازقوں نے عملا قازقوں کی روایتی چراگاہوں کو آزاد کرا لیا تھا۔ الطائی، تارباغتائی، خلدزا، تئین شان کے شمالی ڈھلان اور درمیانی علاقہ۔ سویت حکومت کی کھلی مداخلت کے ساتھ مسلسل مد و جزر ہوتا رہا۔ پہلے الطائی ہاتھ سے نکلا۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے تارباغتائی اور خلدزا بائیتک بوغدو، کیوچک، تئین شان، کیو کلوک، سبھی ہاتھ سے نکل گئے۔ آخر میں بارکل کے چھن جانے کے بعد قازق ایک ایسے علاقے میں گھر کر رہ گئے جو ان کے روایتی مسکنوں سے کالے کوسوں تھا۔ اس علاقے کو انہوں نے اپنا مامن سمجھ کر آباد کیا تھا۔ صرف تیرہ سال پہلے اس کا گھیرا مشکل سے ڈھائی سو میل کا ہوگا۔ اس کے تین طرف خشک یا نیم خشک صحرا اور پہاڑی سلسلے تھے، چوتھے رخ بے رحم و ظالم دشمن کھڑا خون کی


صفحہ 266

کی پیاس بجھانے کے لیے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ وہ قازقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا نہیں چاہتا تھا، مبادا وہ اپنے قرب و جوار کے غلام بنائے ہوئے لوگوں کے دماغوں میں ہوائے آزادی بھر دیں۔

اس تنگ جائے قیام میں عثمان بطور کے پہنچنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے سکون رہا۔ کبھی کبھی ہوائی جہاز ان کے سروں پر غراتے۔ حمزہ اکثر اطلاع دیتا رہتا کہ اشتراکی گشتی دستوں سے ہماری بیرونی چوکیوں کی آویزش ہوئی لیکن دونوں طرف سے چند گولیاں چلنے کے بعد وہ حملے کا انتظار کیے بغیر لوٹ گئے۔ اکثر نہیں کبھی کبھی اجنبی مسافر گھوڑے یا اونٹ پر سوار ادھر نکل آتے۔ یہ اجنبی پر امن لوگ ہوتے لیکن بیرونی چوکیوں سے انہیں اس وقت گزرنے دیا جاتا جب ان سے خوب جرح کر لی جاتی۔ اب جب کہ غزکل کے پڑاؤ کا ہر شخص اشتراکیوں کے گھس آنے کے خطرے سے خوب آگاہ تھا۔ یہ چنداں ضروری نہیں تھا کہ اشتراکی پٹھوؤں کو دور رکھا جائے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے ذریعہ یہ معلوم کیا جائے کہ قازقوں کے گھیرے کے باہر کیا ہو رہا ہے۔

چالیس آدمیوں کے قتل کے واقعے کے بعد تنگ ہوانگ کسی کا جانا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ دو ایک دفعہ حسین تجی کے بعض آدمیوں نے وہاں جانے کی ہمت کی لیکن یہ ایک خطرناک اقدام ہوتا تھا جس میں جان جوکھم زیادہ اور فائدہ کم تھا۔ ہمت کرنے والوں کو نہ صرف اشتراکی بیرونی چوکیوں سے بچنا پڑتا جو قائم ہی اس لیے کی گئی تھیں کہ آزاد قازق دوسرے لوگوں سے ملنے نہ پائیں، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ ان مسلح محافظوں سے بچا جائے جو شہر کے دروازوں پر متعین تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ تخریبی


صفحہ 267

عناصر کی جانچ کرتے رہیں۔ ہتھیاروں پر نظر رکھیں اور اسے گرفتار کر لیں جو اپنے آنے کی معقول وجہ نہ بتا سکے۔ ان تمام مشکلات سے بچ جانے کے بعد جب با ہمت لوگ فصیل دار شہر کے اندر پہنچ جاتے تو انہیں ایسے واقف کاروں کی طرف چوکنا رہنا پڑتا جو اشتراکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جھٹ انہیں پکڑوا دیتے۔ یہاں کے بسنے والے دوستوں تک سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کہتے تھے کہ کہیں اشتراکیوں کے کان میں اس کی بھنک نہ پڑ جائے کہ یہ بات ہم نے کہی ہے۔

چراگاہوں کے بعد صحرا پھیلا ہوا تھا اس لیے شمال کی طرف سے اشتراکیوں اور پہاڑوں کے باعث کٹ جانے کی وجہ سے قازق اپنی ایک اپنی چھوٹی سی دنیا میں گھر کر رہ گئے تھے۔ یہ زندگی انہیں ہمیشہ سے پسند تھی لیکن ان کی اس دنیا پر لالچی لوگ دانت لگائے بیٹھے تھے اور اسے ان سے چھین لینے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔

مہینوں لڑتے رہنے کی وجہ سے قازقوں کے پاس جنگی سامان اور بھی کم رہ گیا۔ اشتراکی بیرونی چوکیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ اس لیے رسدی قافلوں کو پہلے کی طرح لوٹ لینا اب آسان نہیں تھا۔ ادھر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ اپنے پڑاؤ میں خانہ ساز ہتھیار تیار کریں خصوصا موٹی موٹی گولیاں ٹھوس سیسے کی، آدھے انچ یا اس سے زیادہ موٹی۔ اپنی بنائی ہوئی بندوقوں کے لیے ایسی ہی گولیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ممنوع اور خلاف قانون تھیں لیکن قازقوں کو غیر قانونیت اور غیر تحفظیت میں سے ایک جو اختیار کرنا ہی تھا کیونکہ مقابلہ ایسے دشمن سے تھا جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتا۔ سوائے اس


صفحہ 268

قانون کے جس سے اس کا کام نکلتا ہو۔ قازق اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ بالکل غیر محفوظ رہ جائیں۔

عثمان بطور کے آ جانے پر میدان میں جتنی بھی قازق فوجیں تھیں سب کی کمان اس کے حوالے ہو گئی۔ لیکن ہر گروہ کی کمان گروہ کے سردار کے ہاتھ میں رہی۔ یہ سردار اگر چاہتا تو عثمان بطور کا حکم مانتا لیکن اسے آزادی تھی کہ خود بھی جو چاہے سو کرے لیکن ہمیشہ بغیر کسی استثنا کے بنیادی پالیسی کا فیصلہ حر الطائی یا جنگی کونسل میں رائے شماری سے کیا جاتا اور ان کی تعمیل عثمان بطور کے ذمہ ڈالی جاتی ہے۔ اب جو ہدایات وہ دیتا ان کی پابندی سب کو کرنی پڑتی۔

پالیسی کی بنیادی شقیں ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہوتیں کہ اب جہاں ہم ہیں کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ اشتراکیوں سے نمٹ لیں گے۔ اگر نہیں نمٹ سکتے تو آگے کو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اشتراکیوں کی بڑھتی ہوئی قوت کی خبریں علی بیگ کو حمزہ کی پہاڑی بیرونی چوکیوں سے پہنچتی رہتی تھیں۔ ان کے پیش نظر وہ اس تجویز کے حق میں تھا کہ موسم سرما ختم ہوتے ہی غزکل چھوڑ کر ہمیں تبت میں سے ہو کر ہندوستان نکل جانا چاہیے۔ اگر ان کے گز جانے پر دلائے لامہ رضا مند ہو تو خیر، ورنہ انکار کی صورت میں قوت استعمال کی جائے۔ عثمان اور جانم خان کی رائے یہ تھی کہ غزکل کے علاقہ میں ہم ہمیشہ اپنا ا بچاؤ کر لیا کریں گے۔ اگر ہمیشہ نہیں تو کم سے کم اس وقت تک جب تک سیاسی حالات دوبارہ بدل نہ جائیں۔ اس کا انہیں تجربہ ہی تھا کہ سیاسی حالات دیر سویر بدلتے ہی رہتے ہیں۔ انہوں نے دلیلیں پیش کیں کہ چینی سیاسی قوتوں کے مد و جزر اور اس سے


صفحہ 269

بڑھ کر شخصیتوں کے تصادم سے بالآخر اشتراکیوں کا زوال شروع ہو جائے گا یا ان میں ٹوٹ پھوٹ پڑ جائے گی اور پھر قازق اس قابل ہو سکیں گے کہ اپنے مسکنوں کو لوٹ جائیں اور چین سے زندگی بسر کرنے لگیں۔

علی بیگ نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ اس حقیقت سے متاثر تھا کہ چینی اور روسی حکومتیں در اصل مل کر کام کر رہی تھیں۔ اسے یقین نہیں تھا۔ اور نہ ہے کہ یہ اسی طرح مل کر کام کرتی رہیں گی۔ یا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا رہے گا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب تک یہ اشتراک قائم رہے گا اس کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ دو ایسے طاقتور حریفوں کی متحدہ فوجوں سے آزاد قازق نبرد آزما ہو سکیں گے۔ لہذا اس کی رائے یہ تھی کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہمیں اشتراکیوں کی پہنچ سے باہر نکل جانا چاہیے۔ جیسے یول بارز اور دوسرے قازق پانچ مہنیے پہلے گزر چکے تھے۔

چناچہ دو ہی راہیں آزاد قازقوں کے لیے کھلی تھیں جن پر وہ بحث کر رہے تھے۔ جہاں تھے وہیں جمے رہیں اور لڑتے رہیں یا دشمنوں کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل جائیں۔ قدرتی رکاوٹوں مثلا تکلا مکان، صحرا الطائی اور کنلون پہاڑ اور ہمالیہ کا سلسلہ ان سب کو انہیں عبور کرنا ہو گا۔ پھر زندہ دشمن تھے جن میں صرف اشتراکی ہی شامل نہیں تھے بلکہ تبتی بھی جو شاید مخالفت کر بیٹھیں۔ ان سے بھی آزاد قازقوں کو نمٹنا ہوگا۔ اس وقت آزاد قازقوں کی تعداد تین چار ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ عورتوں اور بچوں سمیت ایشیائے کوچک میں زینوفون اور اس سے دس ہزار یونانی جس مخمصے میں پھنس گئے تھے وہ ان خطرات کے مقابلے میں شمّہ بھر بھی نہیں تھا جو قازقوں کو


ریختہ صفحہ 270

درپیش تھے،حالانه یونانیوں کی تعداد قازقوں سے تقریبا تین گنی تھی ۔لڑکر نکلنے کی صورت میں انھیں ایشیا کی دو سب سے بری طاقتوں کی مشترکہ افواج سے نبرد آزما ہونا تھا۔ اور دنیا کی سب سے بڑی قدرتی رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا۔
لہذا اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عثمان بطور جانم خان اوربہت سے دوسرے لیڈر اس مہم کو سر کرنے سے کیوں باز رہے ۔ دونوں خرابیوں میں سے کم خرابی مزاحمت تھی ۔خصوصاً عثمان بطورکے لیے جو اس یقین سے متاثر تھا کہ بولو بطورو کی پیشین گوئی پوری کرنے کے کے لئیےقسمت نے مجھے آلہ کار بنایا ہے ۔ “ایک نہ ایک دن ہم ان کافروں کو انہی صحراؤں میں دھکیل دیں گے.جہاں سے وہ آئے ہیں اور وہاں ہم انہیں برباد کر دیں گے چاہے ان کی تعداد تکلامکان کے ذروں جتنی ہی کیوں نہ ہو”

۱۹۵۰ء کے آخری تین مہینوں اور۱۹۵۱ء کی جنوری میں مسلسل انہی باتوں پر بحث و مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے اورکس طرح کرناچاہیے۔ راویتاًمشرقی ترکستان میں جاڑے کا پہلا دن ۱۱نومبر کو پڑتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ برفباری اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے اوربرف پڑجانے کے بعد لڑائی کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ گھوڑوں کی ازسر نونعل بندی کرنی ہوتی ہے اور خاردار نعل باندھے جاتے ہیں۔ جیسے کوچنگ کے قریب چھاپہ پڑنے پر عثمان بطور نے اپنے گھوڑےکے باندھے تھے اور دشمنوں کے نرغے سے بچ نکلا تھا۔ اگرایسے نعل نہ ہوں تو گھوڑے برف پر قدم نہیں رکھ سکتے،ریوڑوں اور گلوں کو چرنے کے لیے چراگا میں نہیں ملتیں تو انہیں خشک گھاس کھلائی جاتی


ریختہ-صفحہ۔271

ہے جسے گرمیوں
میں جاڑوں کے پڑاؤمیں رکھ دیا جاتاہے۔

لہذا دیکھ بھال کے لیے یا چھاپہ مارنے کے لیے جو دستے جاتے وہ رسداپنے ساتھ لےجاتے اور جاڑوں میں قازق اپنے خیموں میں عموماً بیکار رہتے-چینی بھی اس موسم میں لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کیونکہ برف کی وجہ سے ان کی رسد بروقت نہیں پہنچ سکتی تھی اور اکثر ان کے فوجیوں کےپاس جاڑوں کی وردیاں بھی نہیں ہوتی تھیں یہی کیفیت اشتراکی ہشت راہ لشکر کی ۱۹۵۰-۵۱ءمیں تھی۔ اور ۱۹۳۳ء اور ۱۹۴۳ کے درمیان شنگ کی فوجوں اور کومینٹنگ فوجوں کا یہی حال تھا۔ اس کے باوجود حمزہ کےآدمی پہاڑی راستوں کی نگرانی کرتے رہے۔ حالانکہ گرمیوں میں مسلسل مقامی حملوں نے انھیں زبردستی پیچھے ہٹادیا تھا۔ستمبر ۱۹۵۰ءمیں عثمان بطورکے آجانے پر یہ حملے رفتہ رفتہ ختم ہوگئے اور پورےنومبر دسمبر اور جنوری میں محاذ پر سناٹا رہا۔

ایک حرُ الطائی کا بھی آغاز ہوا ہی تھا کہ یکم فردری ۱۹۵۱ء کی ایک صبح کو یکایک اشتراکیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیاکونسل کے خیمے میں سرداروں نے دور را تقلیں چلنے کی آوازیں سنیں اور اسکے بعد شیر کے غرانےکی طرح مشین گنوں کی آوازیں انھیں سنائی دیں اور
خیمےکے با ہرشور مچنےلگا ۔ اشتراکی آگئے ۔ اشتراکی آگئے۔اور انھوں نے قریب رکھے ہوئے ہتھیار اٹھائے اور خیمے سے نکل کر لپکے ۔ لوگ بھی اپنے اپنےگھوڑوں کی طرف بھاگے اور چندلمحوں میں سردار اور اُنکے آدمی یا تو لڑائی میں شریک ہونے کی غرض سے اُڑےجارہے تھے یا اپنے خیموں کی جانب ۔یہ خیمے کے قریب بھی تھے اور پندرہ بیس میل کے فاصلے پر بھی عورتوں


272

اور بچوں نے بغیر کسی کے کہے جلدی جلدی خیمے اُتارنے شروع کر دیے یا جانوروں کی طرف دوڑے۔ اور خیموں کے معاملے کو واپسی پر چھوڑا کہ کبھی گھر واپس آئے تو دیکھا جائے گا۔

اشتراکیوں نے بالکل بے خبری میں حملہ کر دیا تھا پھر بھی ہر قازق پڑاؤ چل رہا تھا، دس ہی منٹ میں کسی کے ساتھ خیمے تھے۔ کسی کے ساتھ نہیں تھے۔ اور برف کے باوجود سب قریب کے پہاڑوں کی جانب چلے جا رہے تھے۔ ہر پڑاؤ کے گرد لڑنے والے آدمیوں کا پردہ سا پھیلا ہوا تھا۔ دشمن کے گھُڑ سواروں اور شتر سواروں پر وہ گولیاں چٹخا رہے تھے، اپنے ڈرتے ہوے ریوڑوں اور گلوں کو سمیٹتے اور اکٹھے کرتے جا رہے تھے اور دشمن کی بکتر گاڑیوں سے اسے دور ہنکا لے جا رہے تھے۔ اتفاق سے سارے قازق سردار ایک ہی جگہ جمع تھے۔ اگر وہ اپنے اپنے آدمیوں میں ہوتے تو یہ حملہ یقیناً ناکام ہو جاتا۔ اشتراکی حملہ آوروں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ترکی میں جو مہاجر تھے ان کے قول کے مطابق پیدل، گھڑ سوار، شتر سوار اور بکتر بند گاڑیاں، سب ملا کر کوئی تین ہزار آدمی تھے، لیکن حملہ آوروں کا سب سے خطرناک جزو بکتر بند گاڑیاں صرف کھلے علاقے میں کار آمد ثابت ہو سکتی تھیں۔ اور حملہ شروع ہونے کے گھنٹہ بھر کے اندر ہی بیشتر قازق پہاڑوں میں جا پہنچے تھے۔

جب دستور اشتراکیوں نے قازق گھُڑ سواروں سے بھڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سرداروں، ان کے گھر والوں اور ان کے جانوروں میں تفرقہ ڈالنا چاہا۔ گھر والوں کو گرفتار کرنے میں وہ قطعاً ناکام رہے اور جانوروں میں سے بھی آدھے ان کی دستبرد سے بچا لیے گئے لیکن


273

سرداروں کو پھانسنے میں وہ بہت کامیاب رہے۔

عثمان کی سترہ سال کی بیٹی آزآپے اپنے باپ کے ساتھ سوار ہو کر حُرالطائی میں شریک ہوئی تھی۔ حالانکہ اس کا بیٹا شیر درمان میلوں دور خان امبل کے پہاڑوں میں اپنے پڑاؤ میں رہ گیا تھا۔ حملے کی منادی سنتے ہی باپ اور بیٹی گھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ بیٹی دو قدم آگے تھی جب وہ ایک تنگ رہگزر میں سے جا رہے تھے تو عثمان بطور نے دیکھا کہ بہت سے اشتراکی اپنی کمین گاہ سے نکل آئے اور انہوں نے لڑکی کو گھوڑے پر سے کھینچ لیا۔ تعداد میں اشتراکی دو سو سے کم نہ ہوں گے لیکن جب عثمان بطور نے ان پر تاخت کی تو وہ سب کے سب پلٹ کر بھاگے۔ عثمان بطور اکیلا تھا اور مشین گن سے گولیاں برسا رہا تھا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ان میں سے کتنے مار گرائے مگر جو زندہ بچے وہ بھاگ نکلے۔ جب وہ اپنی بیٹی کے پاس پہنچا تو وہ زخمی نہیں تھی لیکن اس کا گھوڑا مر چکا تھا۔ وہ اُچھل کر باپ کے پیچھے بیٹھ گئی اور دونوں پلٹ کر پھر سر پٹ روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے اور عثمان نے اس کی منجمد سطح پر سے اپنا گھوڑا گزارا۔ لیکن برف ناہمواری تھی۔ اور اس کا گھوڑا رپٹ کر گر گیا۔ سوار گر پڑے اور گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

عثمان بطور کے پاس اپنی مشین گن تھی اور اس کی بیٹی کے پاس ایک خود کار طمنچہ تھا۔ انہوں نے گھوڑے کے گولی مار دی اور اس کی لاش کی اوٹ لے کر کئی گھنٹے تک دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ مگر کوئی مدد اس عرصے میں


274

نہیں پہنچی۔ کیونکہ ان کے دوستوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں؟ اشتراکی قریب آتے گئے اور ان کا گھیرا چھوٹا ہوتا گیا۔ انہوں نے گولیاں نہیں چلائیں کیونکہ انہیں احکام تھے کہ عثمان کو زندہ گرفتار کیا جائے۔

بالآخر وہ اتنے قریب آ گئے کہ چاروں طرف سے دوڑ کر عثمان پر جا پڑیں۔ انہوں نے اتلاف جان کی پروا نہیں کی۔ قازق مہاجر کہتے ہیں کہ اس کوشش میں دو سو سے کم نہیں مارے گئے۔ جب اشتراکی چاروں طرف سے جھپٹ پڑے تو عثمان اور آز آپے نے بچی ہوئی گولیاں بھی چلا دیں۔ اس کے بعد اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے سوا اور کوئی بھی چارہ کار نہیں تھا۔

اشتراکیوں نے عثمان کی مشکیں کس لیں اور کوئی من بھر کا ایک پتھّر ان میں لٹکا دیا۔ پھر انہوں نے اسے ایک گھوڑے پر چڑھا دیا اس کے دونوں پاوں رسّی سے کس کر باندھ دیے اور اس ہئیت سے اسے تنگ ہوانگ لے گئے جو یہاں سے پچاس میل دور تھا۔ یہاں کئی دن اور کئی رات اسے اذیتیں دیں اور کبھی کبھی اسے گھوڑے پر چڑھا کر اس طرح بازاروں میں گھمایا کہ اس آگے ایک اعلان ہوتا اور ایک اعلان پیچھے ہوتا جس پر لکھا ہوتا تھا۔ "یہ ڈینگ مارتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا مگر آزاد نہیں کرا سکا۔" لیکن انہوں نے اس کے منہ پر ڈھاٹا نہیں باندھا تھا۔ اس لیے عثمان چیخ چیخ کر تماشائیوں سے کہتا جاتا۔ "میں مر جاؤں کا مگر جب تک دنیا قائم ہے میرے آدمی لڑتے رہیں گے۔"

آخر میں اسے ارمچی لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں میں اشتراکیوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسے مجمع عام میں قتل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا۔ تا کہ خوف سے


275

لوگوں کی ہمتیں پست ہو جائیں۔ پہلے انہوں نے اس کا منہ کالا کیا اور ایک لاری میں اُسے کھڑا کر کے بڑے بازاروں میں گھمایا۔ اس کے گلے میں ایک اعلان لٹکایا جس پر پہلے اعلان کو بدل کر یوں لکھا "یہ کہتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا لیکن یہ خود انگریزوں اور امریکیوں کے ہاتھوں میں بِک گیا۔" اس کے بعد وہ اسے شوئ موکوؤ لے گئے۔ اس نام کے معنی ہیں "پن چکیوں کی وادی۔" ہر طبقہ کے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے نمائندے یہاں بھیجیں تا کہ وہ اسے قتل ہوتا دیکھیں۔ ان میں بچے تھے جو ہر اسکول سے آئے تھے۔ لوگ تھے ہر طبقے اور پیشے کے۔

شوئی موکوو میں گرم پانی کے چشمے ہیں۔ اور تہ در تہ پہاڑوں کی تنگ وادیوں میں دلدلیں ہیں۔ یہ پہاڑیاں ان بڑے سر بفلک پہاڑوں کے بچے ہیں جو ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان چشموں کے متعلق مشہور ہے کہ ان میں بیماریاں دُور کرنے کے خواص ہیں۔ ان سے بعض پر غسل خانے بنائے گئے ہیں۔ کچھ چشموں پر مقامی بسنے والوں نے دھوبی گھاٹ بنا رکھے ہیں اور بعض سے پن چکیاں چلا کر بستی والوں کے لیے آٹا پیسا جاتا ہے۔ قرب و جوار میں کچھ لوہے اور کوئلے کی کانیں بھی ہیں۔ ؁۱۹۵۹ء کے ناگہانی انقلاب کے بعد سویت حکومت نے یہاں تین بڑی بھٹیاں بنائی ہیں، نہ جانے اپنے استعمال کے لیے یا چینیوں کے استعمال کے لیے۔ ارمچی کا سلاح خانہ بھی شوئی موکوو میں ہی ہے جس کے چاروں طرف بارکیں، کیمپ اور پریڈ کے میدان ہیں۔

عثمان بطور اور اس کی بیٹی کو یکم فروری ؁۱۹۵۱ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اور اگست تک عثمان کو قتل نہیں کیا تھا۔ اشتراکی اخباروں نے قتل گاہ کا


276

منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ارمچی کے لوگ خود بخود جوق در جوق چلے آ رہے تھے تا کہ اس غدار کا انجام دیکھیں جس نے انہیں سرمایہ داروں کے باتھ بیچ ڈالنا چاہا تھا۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ لوگوں کو وہاں اس لیے جانا پڑا کہ سواے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یقین ہے کہ اشتراکیوں نے اُسے تماشا یوں بنایا کہ انہیں بغاوت ہو جانے اندیشہ تھا، وہ عوام کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھو ہماری مخالفت کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہٰذامقتل نہ صرف زبردستی کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا بلکہ بازار بھی زبردستی کے تماشائیوں سے پٹے پڑے تھے اور اس بھیڑبھڑکّے میں عوامی پولیس کے خفیہ گُرگے بھی کثرت سے گھلے ملے ہوئے تھے۔ چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بہت خوفزدہ تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ اشتراکیوں سے سب متنفّر تھے اور ان کی یہ بے رحمی دیکھ کر ان کے دل بھر آئے تھے لیکن وہ اس خوف سے رو نہیں سکتے تھے کہ کہیں عوامی پولیس انہیں گرفتار نہ کر لے۔

عثمان کا مُنہ کالا کیا گیا تھا۔ اور اس کے گلے میں حقارت آمیز اعلان پڑا تھا۔ جب وہ اپنے مقتل کے قریب پہنچنے لگا تو ایک کارخانے کے سامنے سے گزرا جس میں سیاسی قیدی عورتیں فوجیوں کے لیے وردیاں بنا رہی تھیں، ان میں اس کی بیٹی آز آپے بھی تھی۔

غزکل پر اچانک حملہ کر کے اشتراکیوں نے قازق سرداروں میں سے صرف عثمان بطور ہی کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک اور سردار تھا جانم خان، جو سنکیانگ کا سابق وزیر مالیات تھا۔ اس کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ وہ اشتراکیوں کے چنگل میں کیسے پھنس گیا لیکن اسے


277

بھی ایک وقت تک اذیتیں دے کر اس کے سرکاری تفتیش کرنے والوں نے اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی۔ اور اپنے دستور کے مطابق انہوں نے جانم خان کو بہت رضامند کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بال بچوں اور متعلقین سے اپیل کرے کہ وہ اپنے آک کو حاکموں کے حوالے کر دیں تا کہ سب کی جانیں بچ جائیں مگر وہ نہ مانا اور اگر وہ ایسا کر بھی گزرتا تب بھی اس کے آدمیوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ ہر قازق بلکہ صوبے کا ہر باشندہ جانتا تھا کہ اگر کسی قیدی کے گھر والے اپنے آپ کو حوالے بھی کر دیتے ہیں تو قیدی کے انجام میں کوئی فرق نہیں آتا۔

عثمان بطور کے قتل کے عینی گواہ کا بیان ہے کہ جب جانم خان کو مقتل میں لایا گیا تو اس نے اپنے آپ کو بڑی شان سے سنبھالے رکھا۔ عثمان کو کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جانم خان کو ارمچی میں ذاتی طور پر بہت لوگ جانتے تھے کیونکہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر یہیں مامور تھا۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کے دوستوں نے کوئی مظاہرہ نہیں کیا نہ شہر میں نہ مقتل میں، لیکن جب رات ہوئی اور دن کی کہر پہاڑوں کے پہلوؤں پر سے سرک گئی تو دیکھا گیا کہ انہوں نے صدر مقام کے اوپر کی پہاڑیوں کے جنگلوں میں آگ لگا دی ہے اور سارے آسمان پر کئی دن تک دھوئیں کے غٹ کے غٹ مردے کی کالی چادر کی طرح پھیلے رہے یہاں تک کہ آگ خود ہی جل بجھی یا بارش سے بجھ گئی۔ مگر نہایت قیمتی تعمیری لکڑی کے ہزاروں ایکڑ اس آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اشتراکیوں کو صدر مقام کے قرب و جوار میں قازقوں کی بغاوت کا اس قدر خوف تھا کہ کئی ہفتے بعد تک سڑکوں پر حفاظتی دستے گشت کرتے رہے۔

غزکل میں جب یہ مہلک لڑائی ہوئی تو جانم خان کا بیٹا دلیل خاں اور


278

عثمان بطور کا بیٹا شیر درماں دونوں بچ نکلے اور ان دونوں کے باپ گرفتار ہو گئے۔ دلیل خان نے تبّت پار کرنے کی خطرناک مہم سر کی، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس راستے سے وہ خیریت سے ہندوستان پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ وہ اب بھی وہیں ہو گا۔ اس کے برعکس زیر درماں مشرقی ترکستان ہی میں رہا۔ وہ ابھی تک وہیں ہے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعدعرصۂ دراز اس نے لڑائی جاری رکھی۔

اس کا ثبوت خود اشتراکیوں ہی سے ملتا ہے۔ اگست ؁۱۹۵۳ء میں غزکل کی تباہی کے اٹھارہ مہینے بعد کشمیر میں بعض قازق مہاجر سری نگر کے ترکستانی ہوٹل میں ایک نشریہ سن رہے تھے، اُرمچی کے ایک اشتراکی معلّن نے ایک خبر سنائی جسے سن کر یہ آزاد قازق اچھل پڑے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ شیر درمان اور اس کے چھوٹے بھائیوں نے اشتراکیوں کی طرف سے صلح کی فیاضانہ پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ سنکیانگ میں اب امن و امان ہے۔

اس خبر کے سننے تک کشمیر میں عثمان بطور کے دوستوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ شیر درمان جیتا ہے یا مر گیا ہے۔ اس اعلان کو سن کر ان میں بجلی سی دوڑ گئی۔

ان سننے والوں میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا "واللہ اگر شیر درمان اب تک جیتا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کے آگےسر نہیں جھکایا۔ معلّن نے جھوٹا اعلان کیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ شیر درمان زندہ ہے اور اشتراکی اسے دبا نہیں سکے کیونکہ یہ لڑکا اپنے باپ کا خلف الصدق ہے۔ اس کے علاوہ ہم اشتراکیوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اس کی اطاعت قبول کر لینے کی خبر اس لیے نشر کی ہے کہ جو لوگ ناواقف ہیں وہ اسے سن کر پست حوصلہ ہو جائیں۔ ضرور اس نے بہت


279

سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اشتراکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے بڑی کامیابیاں حاصل نہ کرے جبھی تو انہوں نے ایسی خبر نشر کی ہے۔"

اس پر ایک نوجوان بولا۔ "اگر شیر درمان اب بھی لڑے جا رہا ہے تو ہمیں واپس چل کر اس کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہونا چاہیے۔"

بزرگوں نے اس تجویز کی تائید میں سر ہلائے۔

ان میں سے ایک نے کہا "شاباش! مگر یہ بات تم نے جوش میں کہی ہے۔ بھلا تم وہاں جا کیسے سکتے ہو؟ ہندوستانیوں نے ہم سے ہمارے ہتھیار لے لیے اور تبّت کے لوگوں کو آزاد قازقوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور ان کے ملک میں اشتراکی فوجوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مزید برآں جس راہ سے ہم آئے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی اور راہ سے واپس جانے کا ارادہ کریں تو جو سرحدیں پاکستان، افغانستان اور نیپال کے روبرو ہیں سب کی نگران اشتراکی سپاہی کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم تارکینِ وطن واپس جا کر کوئی نیا فتنہ فساد برپا کر دیں اور ہندوستان بھی اشتراکیوں کے ساتھ اپنی سرحدوں کا پہرہ دے رہے ہیں تا کہ اشتراکی ان پر یہ اتہام نہ لگانے پائیں کہ تم نے قازقوں کو اشارہ دے کر یہ فساد کھڑا کرا دیا۔"

جوشیلے نوجوان نے کہا "جس راستے سے ہم آئے تھے اس پر بہت کم بستیاں ہیں۔ ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن طاقت میں زیادہ ہیں۔ ہم دشمنوں سے بھی بھگت لیں گے اور توتُک اس گہری کُہر اور پہاڑوں اور نئی اور پرانی برف سے بھی نمٹ لیں گے۔"

بزرگوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ "اس کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ اگر دس نے ہمّت کی بھی تو مشکل سے ایک وہاں زندہ


280


پہنچ سکے گا۔ دیکھو نا ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ ہندوستانیوں نے ہم سے ہتھیار رکھوا لیے کیونکہ ہم ان کے ملک میں سیاسی مہاجرین کی حیثیت سے داخل ہوئے ہیں۔ لیکن ایک نہ ایک دن انتقام لینے کا وقت بھی آئے گا اور اس کے لیے ہم کمر بستہ رہیں گے۔"

سنکیانگ کی سرحدیں بلکہ سارے چین کی بالکل بند کر دی گئی ہیں، صرف قازق تارکین وطن کے لیے بلکہ آزاد دنیا کے غیر جانبدار ناظروں کے لیے بھی۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ جاننا ناممکن ہے کہ مہاجروں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے صحیح ہے یا غلط۔ یا یہ کہ چینی اشتراکیوں نے اس دور دراز علاقے کے بسنے والوں کو مطیع کرنے کی دشواری کے پیش نظر واقعی سنکیانگ کو خود مختاری دے دی۔ اگست ؁۱۹۵۵ء میں شائع ہونے والے ایک سرکاری اعلان میں اشتراکیوں نے اسی کا ادّعا کیا ہے۔ یہ اعلان شیر درمان کے صلح کی پیش کش کو قبول کرنے کے اعلان کے پورے دو سال بعد کیا گیا۔ اس کے بعد کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ "خود مختار يوئی‎غر جمہوریت سنکیانگ" کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف گروہوں کو جن میں قازق بھی شامل ہیں اپنی مقامی حکومت بنانے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یوئی‎غر دوسرا نام ہے ترکی کا۔ اگر ہم اس اعلان پر اس کی ظاہری حیثیت سے غور کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مقامی قوموں کو پیکنگ اور ماسکو سے آزاد ہو کر اپنے امور کا انتظام خود کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکں اگر واقعی ایسا ہوا تو ان کا پہلا کام اشتراکیت کو ختم کرنا ہوتا۔ لہٰذا "خود مختاری" کے معنی یقیناً یہ ہوئے کہ جو احکام دئیے جائیں ان کی تعمیل کی جائے۔


281

بہرحال کچھ بھی ہو اگست ؁۱۹۵۳ء کے ریڈیو اعلان سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ یکم فروری ؁۱۹۵۱ء کے اچانک حملے کے بعد خان امبل کے پہاڑوں میں شیر درمان کو اشتراکی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شیر درمان کے ساتھ اتنی قوت تھی کہ اٹھارہ مہینے تک وہ اشتراکیوں کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا۔ اور یہ کانٹا اتنا بڑا تھا کہ انہیں مصالحت کی پیش کش کرنی پڑی۔ حالانکہ انہیں لڑنے والوں، ہتھیاروں اور اسلحۂ جنگ کے لحاظ سے آزاد قازقوں پر بے انتحا فوقیت حاصل تھی۔ صرف اسی ایک واقعے سے قازقوں کے ہتھاری کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ہتھیار، ہر گولی جو شیر درماں اور اس کے ساتھی استعمال کرتے تھے یا تو خانہ ساز ہوتی، یا مردہ دشمنوں یا لوٹے ہوئے رسدی قافلوں سے یہ اسلحہ فراہم کیے جاتے ۔ ہوائی جہاز یہ دیکھنے کے لیے برابر پرواز کرتے رہتے کہ وہاں وہ کہاں چھپا ہوا ہے، اسے نہ صرف لڑنے والے آدمیوں کو یکجا رکھنا پڑتا بلکہ ریوڑوں اور گلوں، خیموں اور آدمیوں اور ان کے خاندانوں کو سمیٹے رہنا پڑتا۔ کیونکہ انہیں سے اسے مدد اور ہر قسم کا آرام ملتا تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں رہ سکتا تھا۔ اچانک حملے سے محفوظ رہنے کے لیے اسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا اور دشمن کے پٹھوؤں سے بھی۔ بہتر زمانہ آنے پر قازق بھاٹ شیر درمان کی رزمیہ کہانی ضرور لکھیں گے۔ جیسے ترکی میں دیویلی کے قریب وسطی اناطولیہ کے میدان میں آ بسنے والے کارا ملّا نے عثمان بطور کی رزمیہ داستان لکھی ہے۔

نہیں کہا جا سکتا کہ قازق نقطۂ نظر سے عثمان بطور کی رزمیہ کوئی عظیم نظم ہے یا نہیں۔ کارا ملّا کے بعض ساتھیوں کا بیان ہے کہ اس میں


282

غلط بیانیاں بھی ہیں، لیکن اس سے قازقوں کے اس طرز فکر کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے جس نے ایسے شدید خطرات میں ان کی ہمت کو پست نہیں ہوئے دیا۔ ایک لحاظ سے یہ نظم عثمان بطور کی لوح مزار کی عبارت ہے۔ شاید وقت آنے پر شیر درمان کا کتبہ لکھا جائے جس کے پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس نے بوکو بطور کی پیشین گوئی کو کس طرح پورا کیا اور اپنے باپ کی توقعات کو بھی۔ حالانکہ قازقوں کے دشمن تکلا مکان کی ریت کے زرّوں سے بھی زیادہ تھے، اس پر بھی اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے پیارے وطن سے نکال باہر کیا اور ان صحراؤں میں انہیں واپس دھکیل دیا جن میں سے نکل کر وہ وطن عریز کو چرانے آ گئے تھے۔

غزکل کی لڑائی جس کا آغاز آزاد قازق کماندارِ اعلیٰ اور اس کے ایک معاون کی گرفتاری سے ہوا۔ تین دن اور تین رات تک مسلسل جاری رہی اور اس کا انجام اس پر ہوا کہ اشتراکی پیچھے ہٹ گئے۔ باقی ماندہ سردار خصوصاً علی بیگ اور اس کے دو مدد گار حمزہ اور قائنیش ادھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے تا کہ قازق سوار یکجا ہو کر حملے کریں، ایک مقام اتصال مقرر کریں کہ پہاڑوں میں کہیں سر جوڑ کر بیٹھیں، جن پر تاخت زیادہ ہو رہی تھی انہیں مدد پہنچائیں۔ اشتراکیوں کے سست رفتار شتر سواروں پر موقع دیکھ کر ٹوٹ پڑیں، اپنے خیمے اُتاریں۔ بکھرے ہوئے ریوڑوں کو سمیٹیں اور چھاپے مارنے کی تجویزیں بنائیں۔

علی بیگ کی بیوی مولیا نے خود اپنی ہمّت سے ایک چھاپہ مارا جس وقت اشتراکیوں کا حملہ شروع ہوا تو اس کے پڑاؤ کی عورتوں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں ملا کہ اپنے خیمے اُتار لیتے۔ بس اتنا موقع ملا کہ


283

پہلے اپنے بچوں کی طرف لپکیں اور پھر اپنے گھوڑوں کی طرف، جب اوروں کی طرح مولیا بھی روانہ ہونے لگی تو کسی کا ایک کم عمر بچّہ اسے دکھائی دیا جو گھبراہٹ میں چھوٹ گیا تھا۔ اپنی زین پر سے جھک کر اس نے ایک ہاتھ سے بچّے کو اٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ چل پڑی۔ اشتراکی گھڑ سوار ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ کچھ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس کے گولی نہیں لگی ورنہ بعد میں اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں گولیوں کے کئی سوراخ تھے۔

دراصل پہاڑوں کی جانب عورتوں کا یوں سرپٹ روانہ ہو جانا کوئی گھبراہٹ کی دوڑ نہیں تھی بلکہ ایک ایسی پسپائی تھی جو بخوبی تکمیل کو پہنچی۔ حالانکہ پہلے سے اس کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔ چکّر کاٹ کر یہ عورتیں اس راستے پر جا نکلیں جہاں پہاڑوں میں ان کے بیشتر جانور چر رہے تھے۔ جب تک تعاقب کرنے والے وہاں پہنچیں مولیا اور ایک چرانے والے لڑکے نے یہ طے کر لیا کہ چپکے سے اپنے پڑاؤ پر پہنچ کر کچھ اپنا سامان نکال لائیں۔ جب وہ خیمے پر پہنچا تو انہوں نے دیکھا کہ دشمن نے ابھی اسے لوٹا نہیں ہے۔ انہیں یہاں دو مشین گنیں اور کچھ کارتوس بھی مل گئے۔ لہٰذا اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ خیمے ہی میں رہیں اور جب دشمن ادھر آئے تو اس کا قرض مع سود چکا دیا جائے۔ دشمن نے پہلے تو تعاقب کیا اور جب ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تو وہ لوٹ مار کے خیال سے پڑاؤ پر واپس آیا۔ موليا اور چرواہے نے دشمنوں کو خیمے کے قریب آ جانے دیا۔ اور جب وہ بالکل پاس آ گیا تو انہوں نے دونوں مشین گئیں چلا دیں۔ دشمن گھبرا کر چھپنے کے لیے بھاگے، اتنے میں اس کے بہت سے آدمی ہلاک ہو چکے تھے۔ اشتراکیوں نے ان


284

دونوں مشین گنیں چلانے والوں پر اندازے سے گولیاں پانچ گھنٹے تک چلائیں اور جب علی بیگ اور اس کے آدمی پڑاؤ پر واپس آئے تو وہاں سے دشمن کھسک گئے۔ مولیا کے ہمّت کر لینے سے ان کا سارا مال و اسباب بچ گیا جس میں علی بیگ کی مشہور دیگ بھی تھی۔

اطمینان ہونے پر جب قازقوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انہیں معلوم ہوا کہ قازق زیادہ نہیں مارے گئے تھے۔ انفرادی کوششوں اور مولیا جیسے حوصلے کے کارناموں کی بدولت انہوں نے اپنے بیشتر خیمے بھی بچا لیے اور گھر کا سامان بھی اور کم از کم پندرہ ہزار جانور بھی بچ گئے۔ اونٹ، مویشی، بھیڑیں اور گھوڑے۔ ان کا اتنا کر لینا کوئی بہت عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ہم جانتے ہی ہیں کہ قازقوں کی ہر عورت اور بچّہ خوب لڑنا جانتا ہے۔ حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ بد حواس نہیں ہوتے۔ مزاج کے لحاظ سے دیہاتی نہیں ہوتے حالانکہ نسلی اعتبار سے چرواہے ہوتے ہیں لیکن تیز دماغ ہوتے ہیں اور مشکل سے رام ہونے والے۔

بے شک یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کا یوں چھوڑ کر چلا جانا اس خیال سے ہو کہ ہم نے ان کے دو سب سے بڑے سرداروں کو گرفتار کر ہی لیا ہے، اب یہ لوگ آپ ہی منتشر ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ہلّے میں انہوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی تھی اس سے زیادہ، انہیں اور کیا چاہیے تھا۔

جب باقی ماندہ قازق سرداروں کو مل کر بیٹھنے کا موقع ملا تو جائزہ لینے پر انہوں نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب ان کے لیے ایک ہی راہِ عمل کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہ تبّت میں پہنچ جائیں اور اگر وہ گزرنے نہ دیں تو ان سے لڑ کر ہندوستان پہنچا جائے۔ اس پر وہ سب متفق الرائے ہوئے کہ سب کا


285

ایک ساتھ سفر کرنا ناممکن ہو گا۔ اب بھی تین ہزار مرد، عورتیں اور بچے تھے۔ جانور اور خیمے الگ رہے کیونکہ انہیں چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ تنگ وادیوں اور پہاڑیوں کی گھاٹیوں میں سے انہیں گزرنا تھا اور اتنے زیادہ آدمیوں کے اکھٹے جانے میں قطار کئی میل بنتی۔ اگر اشتراکیوں کے ہوائی جہاز اس پر حملہ کر دیں یا گھاٹی کی چٹانوں پر سے دشمن گولیاں چلاتا ہے تو یہ لمبی قطار منتشر نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی درّے میں سے گزرتے وقت اس قطار کے ایک سرے کا تعلق دوسرے سرے سے بالکل نہ رہتا۔ یا پھر سب کو بہت آہستہ چلنا پڑتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ابھی فروری کا مہینہ تھا اور تبّت کا بد ترین جاڑا ابھی آنا باقی تھا۔ اگر قافلہ اس سے چھوٹا ہوتا تب بھی کھانے اور چائے کا مسئلہ کسی وقت بھی اندیشہ ناک ہو سکتا تھا اور اتنے بڑے قافلے کے لیے ان مشکلات کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔

لہٰذا آزاد قازق جو بچ رہے تھے انہوں نے اپنے اپنے سردار چنے اور چھوٹے چھوٹے گروہ بنائے اور اشتراکیوں کی اطاعت قبول کرنے کے بجائے ایک بالکل انجانے مستقبل کی جانب روانہ ہو گئے۔ حسین تجی کا قول ایک مرتبہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے یہاں پھر دہرایا جاتا ہے۔ جانور کی طرح زندہ رہنے سے بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔ جانور انسان کی طرف اس طرح دیکھتا ہے جیسے خدا کی طرف دیکھ رہا ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کی طرف اس طرح دیکھے۔

چنانچہ علی بیگ، دلیل خاں، سلطان شریف اور خود حسین تجی نے یکے بعد دیگرے پڑاؤ کو چھوڑا اور اپنے اپنے گردہ اور گلوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جنوب کی جانب الطائن پہاڑوں کے جانے پہچانے راستوں پر


ریختہ صفحہ 286

بھیانک اور عظیم کنلُون پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان پہاڑوں سے یہ لوگ واقف نہیں تھے۔ صرف اتنا جانتے تھے کہ ان کی دوسرے طرف تبت کی اجنبی سرزمین ہے جس پر گزر کر انہیں ہندوستان پہنچنا تھا۔ ہر گروہ نے اپنا راستہ خود انتخاب کیا اور ہر ایک کو نئے نئے واقعات پیش آئے۔ ان کی طرح جو چودہ مہینے پہلے کیوکلوک سے روانہ ہو کر اشتراکی چوکیوں سے بچ نکلے تھے۔ بعض تبت میں خوش نصیب رہے کہ اس میں سے گزرنے میں انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا اور تبت کے رہنے والوں اور تبت کے پہاڑوں سے انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ کچھ ایسے تھے جن کے مرد، عورتیں اور بچے آدھے مر گئے اور ان کے جانور آدھے ضائع ہو گئے۔ سب کو اپنا وطن چھوڑنے سے نفرت تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دوبارہ یہاں واپس آنا نصیب نہیں ہو گا لیکن واپس جانے کا خیال کسی کو خواب میں بھی نہیں آیا۔

علی بیگ کے ذاتی گروہ میں اب کے دو سو چونتیس افراد تھے۔ انہیں میں حمزہ اور قائینش مع اپنی بیوی بچوں کے تھے۔ علی بیگ کی تین بیویاں چھ بچے اور صرف ایک بھائی جو بچ رہا تھا ساتھ تھا۔ باقیوں میں کوئی ایک سو چالیس مرد تھے اور باقی عورتیں اور بچے۔ ان کے ساتھ کئی ہزار بھیڑیں، کئی سو مویشی اور گھوڑے اور کوئی ساٹھ اونٹ تھے۔ جن میں سے ایک پر۔۔۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، علی بیگ کی زبردست دیگ لدی ہوئی تھی۔

یہ قافلہ رول کی شکل کی جھیل سے فروری کے پہلے ہفتے کے آخر میں روانہ ہوا۔ غزکل کی لڑائی ختم ہونے کے چوتھے دن ہی، اور اس سڑک پر چل پڑا جو علی بیگ نے ڈگلس میکیرنن کے لیے تجویز کی تھی۔ ان کا پہلا مقابلہ اشتراکی فوجوں سے روانہ ہونے کے دوسرے دن ہوا اور آخری مقابلہ


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 287

اس وقت ہوا جب کشمیر کی سرحد پر وہ داخلے کی اجازت آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہندوستان کی سرحد پر وہ 8 اگست 1951ء؁ کو پہنچے۔ جھیل غزکل سے روانہ ہونے کے ساڑھے چھ مہینے بعد۔ اس عرصے میں انہوں نے بامِ دنیا کے نہایت بنجر اور غیر متواضع علاقے میں سفر کیا۔ راستے میں انہیں کئی لڑائیاں لڑنی پریں اور کتنی ہی چھوٹی بڑی جھڑپیں بھی ہوئیں اور تقریباً اس سارے عرصے میں انہیں قدرتی رکاوٹوں سے اتنی شدید کش مکش کرنی پڑی کہ شاید ہمالیہ کی چوٹیوں ایورسٹ اور کنچن چنگا کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں ہی کو کرنی پڑی ہو گی۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 288

گیارہواں باب

بامِ دُنیا پر

جو لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔ وہ غزکل سے قازقوں کو نکلتے دیکھ کر سمجھتے کہ حملہ آور انہیں بڑی آسانی سے ہلاک کر ڈالیں گے۔ ہزاروں بھیڑیں جن میں کئی کے ہاں بچے ہونے والے تھے، بے قاعدگی سے راستہ کے دونوں طرف برف میں کہیں کہیں جھانکتی ہوئی زرد گھاس پر مُنہ مارتی چلی جا رہی تھیں۔ بھیڑوں ہی میں بیل اور گائیں گھریلو سامان سے لدی پھندی بکھری ہوئی تھیں۔ بچے دینے والی گھوڑیوں پر بوجھ لدا ہوا نہیں تھا اور وہ خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ بعض گھوڑیوں کے پیچھے ان کے بچے لگے ہوئے تھے۔ گھوڑے بھی بہت سارے تھے اور اپنی گھوڑیوں اور بچوں کی طرف رشک سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے علاوہ دو کوہان والے بالوں دار اونٹ تھے۔ جن کے بال جاڑے کی وجہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک کی نکیل دوسرے کی دُم سے بندھی ہوئی تھی۔ یوں سب ایک قطار میں چل رہے تھے۔ ان پر سامانِ جنگ لدا ہوا تھا۔


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 289

فالتو ہتھیار، نمدے دار خیموں کے حصے، لکڑی کے چوکھٹوں پر احتیاط سے لپٹے ہوئے، لکڑی کے بڑے بڑے صندوق جن پر پیتیلی چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں لباس تھے۔ ضروری کاغذات تھے اور شاید کچھ کتابیں بھی تھیں۔ خصوصاً قرآن شریف اور ایک اونٹ تھا جو سب سے اونچا اور طاقتور تھا، یہ اپنی پیٹھ پر صرف علی بیگ کی زبردست دیگ اٹھائے بڑی فخر سے چل رہا تھا۔

ان جانوروں کی نگرانی گھوڑوں پر سوار مرد، عورتیں اور بچے کر رہے تھے۔ کم سنوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھوں میں ہتھ گولے، رائفلیں، مشین گنیں یا خود کار ہتھیار تھے۔ دس برس کی عمر سے جو بھی اوپر تھا، مرد ہو یا عورت، ہرا یک ان میں سے ہر ہتھیار کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اس پھیلے ہوئے بے ترتیب قافلے کے آگے اور پیچھے اور پہلوؤں میں گھڑ سوار مردوں کا ایک حجاب سا بنا ہوا تھا۔ جانور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور یہ نگراں ان سے کچھ فاصلے پر زمین کی ناہمواری اور برف کی گہرائی کے لحاظ سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔

تارکین وطن کے اس قافلے کے لیے علی بیگ نے ایسا راستہ انتخاب کیا تھا جو آباد شاہروں اور بستیوں سے دُور ہے تاکہ اس قافلے کی اشتراکیوں سے اچانک مڈبھیڑ نہ ہونے پائے۔ اس قافلے کا رُخ جنوب کی طرف تھا۔ انہیں الطائین پہاڑوں میں سے گزر کر تبت کی شمالی سرحد پر کنلُون پہاڑوں میں جانا تھا۔ علی بیگ جانتا تھا کہ ان پہاڑوں کے پیچھے تبت کی عظیم سطح مرتفع ہے جو سطح سمندر سے بارہ پندرہ ہزار فٹ اونچی ہے۔ لیکن غزکل سے نکلنے کے بعد وہ ایسے علاقہ میں آ گیا تھا جس کا نہ تو کبھی


عثمان بطور ۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 290

کوئی نقشہ بنا اور نہ کبھی کسی نے اس علاقے میں سفر کیا تھا۔ علی بیگ کا بیان ہے کہ ہم سے پہلے اس علاقے کو کسی نے طے نہیں کیا۔ اس کا ہمیں یقین ہے۔

یہ بات جلدی ہی کُھل گئی کہ غزکل کی لڑائی کے بعد جب اشتراکی واپس چلے گئے تو انہوں نے دیکھ بھال کرنے والے گشتی دستے متعین کر دیے تاکہ قازقوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ سفر کے شروع ہی میں علی بیگ کا قافلہ ایک ایسے ہی دستے کے پھندے میں پھنسنے سے بال بال بچ گیا۔ خوش قسمتی سے علی بیگ نے اپنی دور بین سے سامنے کی پہاڑیوں کا جائزہ لیا۔ اس وقت ان کے راستے کے دونوں طرف چٹانیں تھیں جہاں آگے جا کر یہ گھاٹی تنگ ہوتی تھی وہاں علی بیگ کو شبہ ہوا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اس نے پتہ لگانے کے لیے چند آدمیوں کو آگے بھیجا۔ جب وہ آگے بڑھ کر ان چٹانوں پر چڑھے تو اچانک کوئی بیس اشتراکیوں کے ایک دستے کے سر پر پہنچ گئے۔ یہ انہیں دیکھتے ہی اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور دونوں طرف سے گولیوں کے چلنے کے بعد اوپر وادی کی طرف فرار ہو گئے۔ علی بیگ نے ان کا پیچھا نہیں کیا۔ اور کچھ دیر بعد وہ بھی رک گئے، تاکہ قازقوں پر نگرانی جاری رکھیں۔

لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ راستہ چھوڑ کر ایک پہلو کی وادی میں مڑ گئے اور علی بیگ کو ان کے پیچھے اپنے آدمی بھیجنے پڑے۔ اس اندیشے سے کہ کہیں قافلے کے ادھر سے گزرنے پر وہ پہلو سے حملہ نہ کر دیں۔ لیکن اشتراکیوں نے اس وقت تک حملہ نہیں کیا جب تک کہ پورا قافلہ گزر نہ گیا۔ اس کے بعد وہ پہلو کی وادی سے نکل "حد ادب" رکھتے ہوئے تعاقب
 
Top