عبداللہ محمد کے کمالات

یاز بھائی کا اور عبداللہ بھائی کا ایک ہی جگہ پر انٹرویو تھا۔ دونوں ایک ساتھ ہی انٹرویو کے لیے چلے ۔راستے میں یاز بھائی نے عبداللہ بھائی سے کہا کہ جو سوال مجھ سے ہو نگے وہی تم سے پوچھے جائیں گے۔ اس لیے میں جو جواب دوں گا وہ تم اچھی طرح سے رٹ لینا اور پھر تم بھی اپنے سوالوں کا وہی جواب دینا جو میں دوں گا۔ عبداللہ بھائی نے رضا مندی ظاہر کردی۔

وہ جب وہاں پہنچے تو سب سے پہلے یاز بھائی کی باری آئی ۔۔۔ اس سے سوالات شروع ہوئے۔

پہلا سوال تھا: پاکستان کب وجود میں آیا؟

اس کا جواب تھا: ویسے تو 1930 سے کوششیں جاری تھیں لیکن 1947 میں آ کر وجود میں آیا۔

دوسرا سوال: ہندوستان کے وزیر اعظم کا نام کیا ہے؟

جواب: ویسے تو بدلتے رہتے ہیں لیکن فی الحال منموہن سنگھ ہیں۔

تیسرا سوال: مریخ پر آبادی ہے یا نہیں؟

جواب: سائنسدان تحقیق تو کررہے ہیں لیکن ثابت نہیں کرسکے۔

انٹرویو لینے والے نے اس کو جانے کی اجازت دے دی۔۔

اب عبداللہ بھائی کی باری آئی۔

اس سے پہلا سوال تھا:۔

تم کب پیدا ہوئے؟

عبداللہ بھائی کا جواب: ویسے تو 1930 سے کوششیں جاری تھیں لیکن 1947 میں آکر وجود میں آیا۔

دوسرا سوال: تمہارا نام کیا ہے؟

جواب:ویسے تو بدلتے رہتے ہیں لیکن فی الحال منموہن سنگھ ہے۔

انٹرویو لینے والا (غصے سے):

کیا تم پاگل ہو؟

عبداللہ بھائی : سائنسدان تحقیق تو کررہے ہیں لیکن ثابت نہیں کرسکے۔
 

ربیع م

محفلین
عبداللہ محمد صاحب کی ایک دوست نے مرغ چوری کر کے دعوت کی۔
عبداللہ بھائی جب دعوت کو پہنچے تو دوست نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ عبداللہ صاحب یہ مرغ چوری کا تھا۔
عبداللہ صاحب نے جلال میں کہا یہ بالکل حرام ہے۔
خیر دوست سہم کر بیٹھ گیا۔
گپ شپ شروع ہو گئی، تھوڑی دیر بعد بھوک نے ستایا تو پوچھا گھر میں کھانے کو کچھ اور ہے؟
دوست نے کہا جناب وہی مرغ کا سالن ہے۔
عبداللہ صاحب نے پوچھا: اچھا یار اس میں شوربہ تو گھر کے پانی سے ہی ڈالا تھا نا؟
دوست نے کہا: ہاں
عبداللہ صاحب کہتے پھر صرف شوربا ہی لے آؤ۔
دوست دیگچی سے پلیٹ میں شوربہ ڈالنے لگا،کوئی بوٹی گرنے لگتی تو اسے ہاتھ سے روک دیتا۔
عبداللہ صاحب کہنے لگے یار جو خود آتی ہیں انھیں مت روکو وہ حلال ہی ہیں!!!
 
عبد اللہ بھائی یاز بھائی کی شادی پر گئے.
ہال کے دو دروازے تھے. ایک طرف دلہن کے مہمان اور دوسری طرف دلہا کے.
عبداللہ بھائی دلہا والی طرف چلے گئے.
آگے پھر دو دروازے تھے. ایک طرف مرد اور ایک طرف خواتین.
عبد اللہ بھائی مردوں والی طرف چلے گئے.
آگے پھر دو دروازے تھے. ایک طرف گفٹ لانے والے اور ایک طرف گفٹ نہ لانے والے.
عبد اللہ بھائی گفٹ نہ لانے والی طرف گئے تو دوبارہ وہیں پہنچ گئے. جہاں سے ہال میں داخل ہوئے تھے.
 
آخری تدوین:
ایک دفعہ حمیرا بہن نے عبد اللہ بھائی کی دعوت کی.
کھانے میں سالن پیش کیا گیا.
کافی دیر بعد عبد اللہ بھائی نے پوچھا کہ بہن پکایا کیا ہے؟
حمیرا بہن نے فخر سے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب دریا سے مچھلی پکڑ کر لائے تھے،وہ پکائی ہے.
عبد اللہ بھائی نے جواب دیا. کیا بات ہے. ڈاکٹر صاحب نے مچھلی دریا سے پکڑ لی اور مجھ سے ڈونگے میں سے نہیں پکڑی جا رہی.
 

ابن توقیر

محفلین
عبداللہ جی کو لاوارث بندر ملا۔
وہ بندر کو لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئے، جہاں ایس ایچ او نے انہیں کہا:۔
"بندر کو چڑیا گھر لے جاو۔"
اگلے دن ایس ایچ او نے عبداللہ کو بندر کے ساتھ بس اسٹاپ پر دیکھا تو حیرانی سے پوچھا:۔
"تم اسے چڑیا گھر لیکر نہیں گئے؟"
عبداللہ جی بولے : "کل گیا تھا بہت مزا آیا۔ آج مینار پاکستان جارہا ہوں۔"

ہم بھی حصہ ڈالتے جائیں جی۔سمائلس
 
عبداللہ بھائی کی دوران فلائیٹ طبیعت خراب ہوگئی
ایئر ہوسٹس نے پوچھا " آر یو سک سفرنگ فرام فیور"

عبداللہ بھائی :
















نو آئی ایم مسلم سفرنگ فرام لاہور
 

ابن توقیر

محفلین
ہاسٹل میں رہنے والے ایک دوست نے عبداللہ بھائی سے پوچھا:۔
"کیا بات ہے، تم بہت پریشان ہو؟"
عبداللہ بھائی نے جواب دیا:۔
"کیا بتاوں یار، میں نے گھر والوں کو خط لکھا تھا کہ ٹیبل لیمپ خریدنے کے لئے 500 روپے بھیج دیں، انھوں نے ٹیبل لیمپ بھیج دیا۔"
 
‏عبداللہ بھائی آرمی میں سیلیکٹ ہو گئے.
جنگ کے دوران ایک گولی عبداللہ بھائی کے ہیلمٹ کو سائیڈ سے چھو کے گزری تو وہیں اپنی بندوق پھینک کے بولے:
"‏عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے"
 
آخری تدوین:
پُر مزاح وغیرہ جی ۔ایسا کچھ نہیں ہے۔
اصل میں، میں صرف موقع کا انتظار کر رہا ۔:پ :battingeyelashes:
لگتا ہے قبلہ یاز پاء جی اور آؤنٹی حمیرا عدنان اپنے حصے کی تمام تر پھلجڑیاں چھوڑ چُکے۔
کیا خیال ہے محمد وارث بھائی ہم اپنے اناروں کو لے آئیں اب مارکیٹ میں؟
 
مجھے بہت سے محفلین کے باہمی تعلقات کا علم نہیں ہے بہرحال کسی محفلین کے نام سے اس طرح کا دھاگہ گراں گزرتا ہے
 
عبداللہ صاحب اور یاز صاحب کی فون پر گفتگو ہو رہی تهی۔ یاز صاحب نے پوچها بهائی صاحب کیا کر رہے تهے
؟
فرمانے لگے "میں سیرامک، سٹیل اور ایلومینیم کا ایکوا تھرمل ٹریٹمنٹ کر رہا تها."
یاز صاحب کو صحیح سے سمجھ تو نا آئی لیکن بہت متاثر ہوئے بالکل اس طرح جیسے اکمل زیدی صاحب کے کولیگ کو 'ایمیچور فرائیڈ چکن' کی سمجھ نا آئی تهی تو آفس میں لنچ کرنے کو تیار ہوگئے تهے۔
یاز صاحب نے پهر حمیرا عدنان صاحبہ سے پوچها تو انهوں نے وضاحت کی کہ موصوف بهانڈے مانج رہے تهے۔ :heehee:
 
ایک دفعہ حمیرا بہن نے عبد اللہ بھائی کی دعوت کی.

یاز صاحب نے پهر حمیرا عدنان صاحبہ سے پوچها تو انهوں نے وضاحت کی کہ موصوف بهانڈے مانج رہے تهے
ایسی دعوت سے اللہ محفوظ رکھے۔ آمین۔ :)
 
‏ عبداللہ بھائی بیمار ہو گیے۔ گاؤں کے ڈاکٹر یاز کے پاس گیا تو اس نے بہت زیادہ فیس مانگی۔ بڑی منتیں کرنے پر بھی ڈاکٹر نے اسے رعایت نہ دی اور پورے پیسے لئے۔
جب وہ صحت یاب ہوگیا تو ڈاکٹر کی زیادتی پر عبداللہ کو بہت زیادہ غصہ آیا اس نے ڈاکٹر کا ایک جھوٹا قصہ بنایا اور گاؤں کی چوپال میں سنانے لگ گیا۔۔
عبداللہ کہنے لگا کہ جب میں بیمار ہوا تھا اور ڈاکٹر یاز سے علاج کروا رہا تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور مر کر اوپر پہنچ گیا ہوں ، وہاں بہت سے لوگ جو اس دن فوت ہوئے تھے پہنچے ہوئے تھے ۔ وہاں پر جنتیوں اور دوزخیوں کے ناموں کی لسٹ لگی ہوئی تھی لوگ اپنا نام پڑھ پڑھ کر جنت اور دوزخ میں جا رہے تھے ، میں بھی لسٹ کی طرف گیا ، مجھے پتہ تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی نیک کام نہیں کیا اس لیے میں نے دوزخ والی لسٹ میں اپنا نام تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے اپنا نام عبداللہ کہیں بھی نظر نہ آیا ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں دوزخی نہیں ہوں اب میں خوشی خوشی جنتیوں والی لسٹ پڑھنے لگا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرا نام وہاں بھی موجود نہیں ، میں بہت پریشان ہوا
اسی پریشانی میں مجھے گاؤں کے عبدالقیوم چوہدری صاحب ملے جو کافی عرصہ پہلے فوت ہوگئے تھے انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا اوئے عبداللہ تم یہاں کیا کر رہے ہو
میں نے انہیں سارا ماجرا بتایا کہ میں آج ہی مر کر یہاں آیا ہوں لیکن میرا نام نہ جنت والوں کی لسٹ میں ہے اور نہ دوزخ والوں کی میں بہت پریشان ہوں
چوہدری جی نے کہا اوئے عبداللہ تم بھی گاؤں کے ڈاکٹر یاز سے علاج تو نہیں کروایا ، وہ وقت پورا ہونے سے چار سال پہلے ہی بندہ مار دیتا ہے ، مجھے خود دو سال ہوگئے باہر پھرتے ہوئے ابھی تک میرا نام لسٹ میں نہیں آیا..
:laughing::laughing:
 
‏ عبداللہ بھائی بیمار ہو گیے۔ گاؤں کے ڈاکٹر یاز کے پاس گیا تو اس نے بہت زیادہ فیس مانگی۔ بڑی منتیں کرنے پر بھی ڈاکٹر نے اسے رعایت نہ دی اور پورے پیسے لئے۔
جب وہ صحت یاب ہوگیا تو ڈاکٹر کی زیادتی پر عبداللہ کو بہت زیادہ غصہ آیا اس نے ڈاکٹر کا ایک جھوٹا قصہ بنایا اور گاؤں کی چوپال میں سنانے لگ گیا۔۔
عبداللہ کہنے لگا کہ جب میں بیمار ہوا تھا اور ڈاکٹر یاز سے علاج کروا رہا تھا تو میں نے خواب دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور مر کر اوپر پہنچ گیا ہوں ، وہاں بہت سے لوگ جو اس دن فوت ہوئے تھے پہنچے ہوئے تھے ۔ وہاں پر جنتیوں اور دوزخیوں کے ناموں کی لسٹ لگی ہوئی تھی لوگ اپنا نام پڑھ پڑھ کر جنت اور دوزخ میں جا رہے تھے ، میں بھی لسٹ کی طرف گیا ، مجھے پتہ تھا کہ میں نے زندگی میں کوئی نیک کام نہیں کیا اس لیے میں نے دوزخ والی لسٹ میں اپنا نام تلاش کرنا شروع کیا تو مجھے اپنا نام عبداللہ کہیں بھی نظر نہ آیا ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں دوزخی نہیں ہوں اب میں خوشی خوشی جنتیوں والی لسٹ پڑھنے لگا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرا نام وہاں بھی موجود نہیں ، میں بہت پریشان ہوا
اسی پریشانی میں مجھے گاؤں کے عبدالقیوم چوہدری صاحب ملے جو کافی عرصہ پہلے فوت ہوگئے تھے انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا اوئے عبداللہ تم یہاں کیا کر رہے ہو
میں نے انہیں سارا ماجرا بتایا کہ میں آج ہی مر کر یہاں آیا ہوں لیکن میرا نام نہ جنت والوں کی لسٹ میں ہے اور نہ دوزخ والوں کی میں بہت پریشان ہوں
چوہدری جی نے کہا اوئے عبداللہ تم بھی گاؤں کے ڈاکٹر یاز سے علاج تو نہیں کروایا ، وہ وقت پورا ہونے سے چار سال پہلے ہی بندہ مار دیتا ہے ، مجھے خود دو سال ہوگئے باہر پھرتے ہوئے ابھی تک میرا نام لسٹ میں نہیں آیا..
:laughing::laughing:
حد ہو گئی ہے۔ :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

یاز

محفلین
ایک دفعہ دولہا بھائی (یعنی ڈاکٹر صاحب) نے حمیرا عدنان جی سے فرمائش کی کہ حلوہ کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔ شومئی قسمت کہ حمیرا جی کو حلوہ بنانا نہیں آتا تھا۔ رات کے اس پہر کسی دکان یا بیکری سے ملنے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ ایسے میں سوچا کہ اردو محفل پہ ہی کسی سے پوچھ کر بنانا بھی ایک ممکنہ آپشن ہے۔ لیکن اس میں خدشہ بھی تھا کہ کہیں سب پہ راز نہ کھل جائے کہ کھانا بنانا نہیں آتا۔ خیر ایک شاندار ترکیب ذہن میں آئی اور اپنی ذہانت کو داد دیتے ہوئے فوراً فورم کا رخ کیا۔ برگشتہ طالعی کا کیا مذکور کہ اس وقت فورم پر فقط عبداللہ محمد صاحب ہی متمکنِ واحد تھے۔ خیر چاروناچار انہی سے رجوع کیا۔ اس پہ درج ذیل پیغامات کا تبادلہ ہوا۔

حمیرا عدنان: عبداللہ بھائی مجھے حلوہ بنانا تھا۔ ویسے تو مجھے آتا ہے، لیکن سوچا کہ آپ سے بھی مشورہ کر لوں کہ شیخوپورہ کے حلوے ویسے بھی مشہور ہیں۔ کیا آپ مدد کریں گے؟
عبداللہ محمد (جنہوں نے زندگی میں حلوہ صرف کھایا تھا): جی جی بالکل۔ بندہ حاضر است وغیرہ

حمیرا عدنان: جی تو پھر بتائیے کہ شیخوپورہ میں حلوہ کیسے بناتے ہیں۔
عبداللہ محمد: پہلے تو ایک پتیلی میں پانی گرم ہونے کے لئے رکھ دیں۔
حمیرا عدنان: جی یہ تو مجھے بھی پتا ہے۔ آپ آگے بتائیں۔
عبداللہ: اس کے بعد اس میں سوجی اور گھی ڈال دیں۔
حمیرا عدنان: جی یہ تو مجھے بھی پتا ہے۔ آپ آگے بتائیں۔
عبداللہ: جب گرم ہو جائیں تو اس میں بادام اور چینی وغیرہ ڈال دیں۔
حمیرا عدنان: جی یہ تو مجھے بھی پتا ہے۔ آپ آگے بتائیں۔

عبداللہ (جل بھن کر): اس کے بعد اس میں آدھی پیالی سرخ مرچیں ڈال دیں۔
حمیرا عدنان: جی یہ تو مجھے بھی پتا ہے۔ آپ آگے بتائیں۔
 
عبداللہ محمد (جنہوں نے زندگی میں حلوہ صرف کھایا تھا): جی جی بالکل۔ بندہ حاضر است وغیرہ
جناب اگرچہ آپ جیسا تجربہ شیف گیری نہیں ہے لیکن یہ دو دھاگے گواہ ہیں کہ بندہ "آدھا نائی بھی ہے"!!! آھو
چائے نہ بنانے کا آسان طریقہ
کھانا نہ بنانے کا آسان طریقہ
 
Top