عبدالرحمٰن جامی کی شناخت میں دارا شکوہ کی 'سفینۃ الاولیاء' کا مقام

حسان خان

لائبریرین
ادبیاتِ فارسی کے بے نظیر چہروں میں سے ایک عبدالرحمٰن جامی ہیں جنہوں نے گراں مایہ ادبی و عرفانی تصنیفات کی تخلیق سے شہرت پیدا کی ہے۔ اس حکیمِ فرزانہ، عارف و شاعرِ بے نظیر اور معلمِ اخلاق کی شناخت میں متبحر عالم، نکتہ سنج دانشمند اور صاحبِ مکتب متن شناس اعلا خان افصح زاد کا حصہ قابلِ قدر ہے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب 'روزگار و آثارِ عبدالرحمٰن جامی' کے باب 'جامی اور پندرہویں صدی کے دوسرے نصف کا تمدن' میں لکھا ہے: "نہ تنہا خراسان میں، بلکہ تمام فارسی گو ممالک میں عبدالرحمٰن جامی استاد، پیشوا، اور رہنمائے اہلِ ادب و اہلِ عرفان کے طور پر معروف ہو گئے تھے۔" اس نوشتہ بات پر تکیہ کرتے ہوئے یہ یاد آوری کی جا سکتی ہے کہ مترجم اور صاحبِ دیوان شاعر شاہزادہ محمد دارا شکوہ (۱۶۱۵-۱۶۵۹ء) نے اپنے تذکرے 'سفینۃ الاولیاء' میں، کہ جس کا شمار فارسی کے بزرگ ترین عرفانی تذکروں میں ہوتا ہے اور جس کی تالیف ۱۰۴۹ھ/۱۶۴۰ء میں ہوئی تھی، عبدالرحمٰن جامی سے متعلق معلومات کا ذکر کیا ہے۔
محمد داراشکوہ نے عبدالرحمٰن جامی سے متعلق اپنی معلومات کا آغاز اُن کے اصل و نسب اور مکانِ ولادت کے بیان سے کیا ہے: "اُن کا اصلی لقب عماد الدین ہے اور مشہور لقب نورالدین اور تخلص جامی۔ اور اُن کے والد کا نام احمد بن محمود دشتی تھا اور دشت اصفہان کے محلّات میں سے ایک محلّہ ہے۔ وہ حنفی المذہب تھے اور جو عوام میں مشہور ہے کہ وہ امام شافعی کے مذہب کے مطابق نقل کرتے تھے، نادرست ہے۔ حضرتِ مولانا عالمِ عامل، عارفِ کامل اور فنونِ علمِ ظاہری و باطنی میں جامع اور مقبولِ عالم اور اہلِ ماوراءالنہر و خراسان کے مقتدا اور پیشوائے زماں تھے۔ اور سلطان حسین میرزا کو ان کے محضر میں کمالِ عقیدت و نیازمندی تھی اور وہ سعدالدین کاشغری رح کے اکمل و افضل مریدوں میں سے تھے۔" اپنی گفتار کے تسلسل میں داراشکوہ نے طریقۂ نقشبندیہ کے بزرگوں میں سے ایک خواجہ احرار ولی کے ساتھ عبدالرحمٰن جامی کے پیوند و مناسبت اور اُن کے جامی کی جانب احترامِ زیاد کے بارے میں اظہارِ نظر کیا ہے: "اور خواجہ احرار قدس اللہ سرہ اُن کا کمالِ تعظیم و احترام کیا کرتے تھے، اس انداز سے کہ وہ نہایت محبت سے اپنے مکاتیب میں لفظ عرضداشت لکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ایک آفتاب خراسان میں موجود ہے، لوگ چراغ کی روشنی کے لیے کیوں ماوراءالنہر آتے ہیں؟ اس بزرگی کے باوجود حضرتِ مولانا کا حال اس طریق پر تھا کہ وہ ہرگز درویشی و کرامات کا اظہار نہیں فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ کشف و کرامات پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ اور وہ خود کو کبھی لباسِ عالًمِ ظاہری اور کبھی صفتِ شعر و شاعری میں پنہاں رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ سترِ حال اس طریقے کی شرط ہے۔ لیکن حاشا کہ اُن کی فکر و خیال (محض) پیشۂ شعر ہو، (بلکہ) وہ ہرگز کسی دم شغلِ باطنی سے خالی نہیں رہتے تھے اور وہ فضیلت میں ایک بحرِ موّاج تھے۔" ان ملاحظات سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ دارا شکوہ نے عرفان و تصوف میں جامی کے مقام کو بلند درجے پر شمار کرتے ہوئے، (اُن کی) شاعری کو عرفانی مفکرات کے بیان کا وسیلہ جانا ہے۔
عبدالرحمٰن جامی کے اشعار پر تبصرے کے ساتھ محمد دارا شکوہ نے اُن اشعار کے بارے میں اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا ہے اور مذکور کردہ اشعار کی اس انداز سے تشریح کی ہے کہ ایسی عملی روش دیگر شعراء کے ذکر میں نظر نہیں آتی۔ مثلاً، وہ ایک جگہ ذکر کرتا ہے: "اگرچہ وہ ظاہرِ جمال کی طرف مائل تھے لیکن اس کے طعن سے کوئی باک نہیں رکھتے تھے۔
بیت:
کارِ جامی عشقِ خوبان است هر سو عالمی
در پیِ انکارِ او، او همچنان در کارِ خویش
"
اس کے بعد، مولفِ تذکرہ کی زبان سے مسئلۂ مذکور اور جامی کے اوپر ذکر یافتہ شعر میں موجود بات کی تشریح بیان کی گئی ہے۔ البتہ دارا شکوہ کی تشریح ہر چیز سے پہلے خود جامی کے الفاظ کی اساس میں ظاہر ہوتی ہے: "اور یہ اس جہت سے تھا کہ وہ فرمایا کرتے تھے ہرچند عارفِ کاملِ واصل حبِ ازلی تک رسائی اور محبوبِ لم یزلی سے اتصال کے بعد جس شے پر نظر ڈالتا ہے، سوائے ایک چیز کے کچھ نہیں دیکھتا اور جس شے سے بھی متمسک ہوتا ہے، بجز ایک چیز کے کچھ اور نہیں ڈھونڈتا، لیکن اواخر میں وہ تمام تعلقات کو ترک کر دیتا ہے۔ وہ فرماتے تھے، کہ محب وہ ہے جو سب چیزوں سے قطعِ تعلق کر لے اور اُس کی خواہش محبوب کی خواہش بن جائے۔
رباعی:
با عشقِ توام هوا نمانده‌ست و هوس
با آتشِ سوزنده چسان ماند خس
خواهد ز تو مقصودِ دلِ خود همه کس
جامی از تو ترا، همین خواهد و بس
"
دارا شکوہ نے اپنے بیان کے تسلسل میں جامی کے ان اشعار کے معنی کی تفسیر اس انداز سے قلم بند کی ہے: "وہ طلبِ الٰہی کے بجز کوئی خواہش اور مراد نہیں رکھتے تھے اور فرماتے تھے:
بیت:
هست مرادِ هر کسی، چیزِ دگر ازین جهان
نیست مراد غیرِ تو جامیِ نامراد را
"
ان نکات کے بیان کے بعد دارا شکوہ عبدالرحمٰن جامی کے عارفانہ حالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے یہ لکھتا ہے: "وہ ہمیشہ وجد و ذوق کی حالت میں رہتے تھے، چنانچہ کچھ مدت سماع فرماتے تھے اور اواخرِ حال میں جب کمال تک پہنچ جاتے تھے تو کہتے تھے:
رباعی:
خوش وقت کسی که می درین خمخانه
از خم به سبو کشد نه از پیمانه
صد بار اگر نیست شود عالم هست
واقف نشود که هست عالم یا نه
"
ادبی تذکروں کے مؤلفوں کی روشِ کار کے مطابق دارا شکوہ نے اپنی 'سفینۃ الاولیاء' میں عبدالرحمٰن جامی کی اہم ترین تصنیفات کے بارے میں خبر دی ہے، حتیٰ اُن تصنیفات کی تعداد کو دقیقاً معیّن کرتے ہوئے، اُس نے ان کتابوں میں سے کچھ کے بارے میں معلومات کا ذرا شرح و توضیح کے ساتھ مندرجہ ذیل انداز میں ذکر کیا ہے: "اُن کی تصانیف کی تعداد چوالیس ہے۔۔۔ 'شواہد النبوۃ' اور 'نفحات الانس' کہ جن میں سخنانِ لطیف اور نکتہ ہائے دقیق مندرج ہیں۔۔۔ اور مثنوی 'یوسف و زلیخا' میں اور دیوانِ اول کی غزلیات میں، کہ جو اُن کے بہترین اشعار ہیں، وہ اپنا مثل نہیں رکھتے۔" مؤلفِ تذکرہ نے اُن کی معنوی شخصیت اور تاریخِ تصوف میں اُن کے مقام کی قدردانی کے ساتھ ساتھ اُن کے اشعار کی حیثیت اور اُن کے فنی درجے کے بارے میں بھی گفتگو کی ہے۔ مثلاً، اس سلسلے میں اُس نے ایسا کہا ہے: "حضرتِ مولانا کے سوزِ حال میں فصاحت و بلاغت اُن کے کلام سے ہے۔"
دارا شکوہ نے جامی کے ابتدائی حالاتِ زندگی اور مدتِ عمر کے بیان کو اس طرح رشتۂ تحریر میں پرویا ہے: "اُن کی ولادت جام کے قصبے خرجرد میں آٹھ سو سترہ ہجری میں بائسویں شعبان کے دن ہوئی تھی اور اُن کی مدتِ عمرِ شریف اکیاسی سال تھی اور اُن کی وفات حضرتِ خواجہ احرار کی وفات کے تین سال بعد آٹھ سو اٹھانوے ہجری میں تئیس محرم، جمعے کے دن اور اذانِ سنت کے وقت ہوئی تھی۔ اور اُن کی قبر، اپنے پیر کی قبر سے متصل، خیابانِ ہرات میں ہے اور اُن کے جنازے کو سلطان حسین میرزا نے خراسان کے تمام اہالی کے ہمراہ اٹھایا تھا۔"
اس نوع کی اخبار و روایات کا ذکر تذکرهٔ مذکور کو سوانحِ عمری کی صفت رکھنے والی ایک بزرگ کتاب کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور عبدالرحمٰن جامی کی شناخت میں ان کا شمار معتمد سرچشمے کے طور پر ہوتا ہے۔

(کبریاخان عطا)

ماخذ: یہ مضمون تاجکستان کے سرکاری نشریے جمہوریت میں 'مقامِ سفینۃ الاولیاء در شناختِ عبدالرحمٰن جامی' کے نام سے شائع ہوا تھا۔

محمد وارث محمود احمد غزنوی تلمیذ
 
Top