عام انتخابات 2018: حلقہ جاتی سیاست!

فرقان احمد

محفلین
پاکستان میں عام انتخابات 25 جولائی 2018ء کو منعقد ہوں گے۔ پاکستان بھر میں مختلف قومی و صوبائی حلقوں میں جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے۔ جہاں وفاداریاں نبھائی جا رہی ہیں، وہیں پر وفاداریاں تبدیل بھی کی جا رہی ہیں۔ اس لڑی میں زیادہ تر حلقہ جاتی سیاست کو زیر بحث لایا جائے گا۔ مدمقابل امیدواروں اور حلقے میں ان کی پوزیشن اور جیتنے یا ہارنے کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔

ابتدا ہم کیے دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر لاہور میں یوں تو ہر چھوٹی بڑی پارٹی نے ہر حلقے سے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں تاہم اصل میدان پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریکِ انصاف کے مابین سجے گا۔

عام انتخابات میں جنون اور نون نے قومی اسمبلی کی14 نشستوں پر نظریں جمالیں، دونوں جماعتوں نے باغوں کے شہر سے مضبوط امیدوار میدان میں اتار دیے۔

این اے 131 میں بڑا مقابلہ ہوگا جس میں عمران خان اور خواجہ سعد رفیق میں جوڑ پڑے گا

جبکہ نواز شریف کی آبائی نشست این اے 125 پر مریم نواز، پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کا مقابلہ کریں گی۔

این اے 129 میں سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور عبدالعلیم خان آمنے سامنے ہوں گے۔

اسی طرح این اے 134 میں پی ٹی آئی کے ظہیر عباس کھوکھر، شہباز شریف کے مدمقابل ہوں گے۔

این اے 124 میں لیگی رہنما حمزہ شہباز، تحریک انصاف کے ولید اقبال کا مقابلہ کریں گے۔

شاہدرہ کے حلقہ این اے 123 میں ن لیگ کے ملک ریاض اور پی ٹی آئی کے مہر واجد عظیم آمنے سامنےہوں گے۔

ن لیگ کے پرویز ملک اور پی ٹی آئی کے جمشید اقبال چیمہ این اے 127 میں قسمت آزمائی کریں گے۔

این اے 128 سے ن لیگ کے شیخ روحیل اصغر کا مقابلہ پی ٹی آئی کے اعجاز ڈیال کریں گے۔

این اے 130 پر پی ٹی آئی کے شفقت محمود کا مقابلہ ن لیگ کے خواجہ احمد حسان سے ہوگا۔

این اے 133 سے ن لیگ کے زعیم قادری اور پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری مدمقابل ہوں گے۔

ن لیگ کے سیف الملوک کھوکھر اور پی ٹی آئی کے کرامت کھوکھر این اے 135 میں ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے۔

این اے 136 پر افضل کھوکھر ن لیگ کی جانب سے، خالد گجر پی ٹی آئی کی جانب سے قسمت آزمائی کریں گے۔این اے 135 اور این اے 136 سے ن لیگ نے دو بھائیوں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ربط
 

یاز

محفلین
کیا یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ کا اہم ترین الیکشن کس حلقے میں ہونے جا رہا ہے۔
 
کیا یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ کا اہم ترین الیکشن کس حلقے میں ہونے جا رہا ہے۔

اور ایسے کونسے حلقے ہیں جن کے نتائج سے مجموعی رجحان کا اندازہ ہو سکتا ہے؟
ہمیشہ کی طرح سب سے زیادہ نظریں جی ٹی روڈ پر ہونی ہیں۔ اور اگر شہر کا پوچھیں، تو لاہور۔
 

فرقان احمد

محفلین
کیا یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ اس دفعہ کا اہم ترین الیکشن کس حلقے میں ہونے جا رہا ہے۔

اور ایسے کونسے حلقے ہیں جن کے نتائج سے مجموعی رجحان کا اندازہ ہو سکتا ہے؟
شمالی پنجاب میں مسلم لیگ نون کی پوزیشن مضبوط ہے۔ تحریکِ انصاف میں بڑے بڑے ناموں کی شمولیت کے بعد، وسطی پنجاب میں برابر کا مقابلہ ہے جب کہ جنوبی پنجاب میں تحریکِ انصاف کا پلڑہ بھاری معلوم ہوتا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں شاید تحریکِ انصاف کے لیے پہلے سی پذیرائی موجود نہیں ہے تاہم اکثریتی جماعت اس کے باوجود شاید تحریکِ انصاف ہی رہے گی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے اقتدار کا جانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ بلوچستان میں کھچڑی پکی ہوئی ہے۔ آزاد امیدوار کثرت سے کامیاب ہوں گے اور ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنے مستقبل کا تعین کریں گے۔ فی الوقت یہی صورت حال ہے تاہم عین وقت پر اگر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف کوئی خاص لہر چل پڑے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
 
اسلام آباد کے تین حلقہ جات ہیں۔
این اے 52
اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ہیں، جو پہلے بھی ایم این اے تھے۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار خرم نواز ہیں، پچھلے انتخابات میں یہاں سے الیاس مہربان تھے۔
پچھلے انتخابات میں ن لیگ کافی مارجن سے جیتی تھی۔ مگر اس بار ن لیگ کا ایک مضبوط علاقہ بہارہ کہو اس حلقہ سے نکل گیا ہے۔ جس کے سبب مقابلہ زور دار ہونے کا امکان ہے۔ بہارہ کہو نکلنے سے پیپلزپارٹی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کا امیدوار افضل کھوکھر ہے، اور کھوکھر برادری کا اس حلقہ میں کافی ووٹ ہے۔

این اے 53
یہ حلقہ اب اس لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یہاں سے تحریکِ انصاف کے سربراہ خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہاں سے لڑنے کا منصوبہ نہیں تھا، لیکن تین چار بڑے گروپس میں شدید اختلاف ہونے کی وجہ سے عمران خان کو آنا پڑا، کیونکہ تحریکِ انصاف کسی صورت اسلام آباد کو کمزور نہیں چھوڑنا چاہتی۔
جواب میں مسلم لیگ، کہ جس کے پاس اس حلقہ کے لیے کو مناسب نام موجود نہیں تھا، اور کچھ لوکل رہنماؤں نے کاغذات جمع کروائے تھے۔ مگر عمران خان کے اس حلقہ میں آنے پر اب غالباً سردار مہتاب عباسی کو یہاں سے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تیسرا اہم نام اس حلقہ میں ایم ایم اے سے میاں محمد اسلم صاحب کا ہے، جو یہاں سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں، مگر 2008 میں بائیکاٹ اور پھر 2013 میں ن اور پی ٹی آئی کے درمیان پولرائزیشن کے سبب تیسرے نمبر پر رہے۔ مگر اب سابقہ ایم این اے اسد عمر کی حلقہ میں عدم موجودگی اور پارلیمنٹ میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہ کرنے کے سبب ان کے پاس الیکشن مہم کے لیے ایک بڑا ہتھیار اپنے دور کی کارکردگی یے، کہ جس کے مقابلے میں سابقہ ن کے ایم این اے انجم عقیل اور اسد عمر کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے۔

این اے 54
اس حلقہ سے اہم امیدوار تحریکِ انصاف کے اسد عمر ہیں، مقابلہ پر ن کے دو امیدواروں میں مقابلہ ہے، ایک تو سابق ایم این اے انجم عقیل خان ہے، اور دوسرا ایک یو سی کا چئرمین حفیظ الرحمٰن ٹیپو ہے۔ اس کو بلدیاتی نمائندگان کی حمایت حاصل ہے۔ انجم عقیل اپنے مقدمات کی وجہ سے بھی کافی بدنام ہو چکا ہے۔ اور یہاں سے بھی تیسرے امیدوار ایم ایم اے کے میاں اسلم ہیں، اس حلقہ میں آنے والے دیہی علاقہ میں انھوں نے بہت کام کروایا تھا، جس کے ابھی تک لوگ معترف ہیں۔ اور سابقہ الیکشن میں بھی ان کو زیادہ ووٹ اسی علاقہ سے ملے تھے۔

لیکن اسلام آباد کے شہری علاقہ سے بالخصوص پی ٹی آئی سے وابستہ ووٹر برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے پارٹی کو ووٹ دینا ہے، کام کی اتنی اہمیت نہیں۔

اب ایک دلچسپ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کو ہرانے کی خاطر ن لیگ ایم ایم اے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہے، اس صورت میں مقابلہ بہت دلچسپ ہو جائے گا۔

بادی النظر میں 52 سے ن لیگ، اور 53 ،54 سے پی ٹی آئی ہی فیورٹ ہیں۔


یہ سراسر میرا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ ہے، اختلاف کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
اسلام آباد کے تین حلقہ جات ہیں۔
این اے 52
اس حلقہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ہیں، جو پہلے بھی ایم این اے تھے۔ تحریکِ انصاف کے امیدوار خرم نواز ہیں، پچھلے انتخابات میں یہاں سے الیاس مہربان تھے۔
پچھلے انتخابات میں ن لیگ کافی مارجن سے جیتی تھی۔ مگر اس بار ن لیگ کا ایک مضبوط علاقہ بہارہ کہو اس حلقہ سے نکل گیا ہے۔ جس کے سبب مقابلہ زور دار ہونے کا امکان ہے۔ بہارہ کہو نکلنے سے پیپلزپارٹی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کا امیدوار افضل کھوکھر ہے، اور کھوکھر برادری کا اس حلقہ میں کافی ووٹ ہے۔

این اے 53
یہ حلقہ اب اس لیے اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ یہاں سے تحریکِ انصاف کے سربراہ خود الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہاں سے لڑنے کا منصوبہ نہیں تھا، لیکن تین چار بڑے گروپس میں شدید اختلاف ہونے کی وجہ سے عمران خان کو آنا پڑا، کیونکہ تحریکِ انصاف کسی صورت اسلام آباد کو کمزور نہیں چھوڑنا چاہتی۔
جواب میں مسلم لیگ، کہ جس کے پاس اس حلقہ کے لیے کو مناسب نام موجود نہیں تھا، اور کچھ لوکل رہنماؤں نے کاغذات جمع کروائے تھے۔ مگر عمران خان کے اس حلقہ میں آنے پر اب غالباً سردار مہتاب عباسی کو یہاں سے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تیسرا اہم نام اس حلقہ میں ایم ایم اے سے میاں محمد اسلم صاحب کا ہے، جو یہاں سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں، مگر 2008 میں بائیکاٹ اور پھر 2013 میں ن اور پی ٹی آئی کے درمیان پولرائزیشن کے سبب تیسرے نمبر پر رہے۔ مگر اب سابقہ ایم این اے اسد عمر کی حلقہ میں عدم موجودگی اور پارلیمنٹ میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہ کرنے کے سبب ان کے پاس الیکشن مہم کے لیے ایک بڑا ہتھیار اپنے دور کی کارکردگی یے، کہ جس کے مقابلے میں سابقہ ن کے ایم این اے انجم عقیل اور اسد عمر کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی ہے۔

این اے 54
اس حلقہ سے اہم امیدوار تحریکِ انصاف کے اسد عمر ہیں، مقابلہ پر ن کے دو امیدواروں میں مقابلہ ہے، ایک تو سابق ایم این اے انجم عقیل خان ہے، اور دوسرا ایک یو سی کا چئرمین حفیظ الرحمٰن ٹیپو ہے۔ اس کو بلدیاتی نمائندگان کی حمایت حاصل ہے۔ انجم عقیل اپنے مقدمات کی وجہ سے بھی کافی بدنام ہو چکا ہے۔ اور یہاں سے بھی تیسرے امیدوار ایم ایم اے کے میاں اسلم ہیں، اس حلقہ میں آنے والے دیہی علاقہ میں انھوں نے بہت کام کروایا تھا، جس کے ابھی تک لوگ معترف ہیں۔ اور سابقہ الیکشن میں بھی ان کو زیادہ ووٹ اسی علاقہ سے ملے تھے۔

لیکن اسلام آباد کے شہری علاقہ سے بالخصوص پی ٹی آئی سے وابستہ ووٹر برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے پارٹی کو ووٹ دینا ہے، کام کی اتنی اہمیت نہیں۔

اب ایک دلچسپ صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کو ہرانے کی خاطر ن لیگ ایم ایم اے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہے، اس صورت میں مقابلہ بہت دلچسپ ہو جائے گا۔

بادی النظر میں 52 سے ن لیگ، اور 53 ،54 سے پی ٹی آئی ہی فیورٹ ہیں۔


یہ سراسر میرا اپنی معلومات کے مطابق تجزیہ ہے، اختلاف کی مکمل گنجائش موجود ہے۔ :)
حلقہ 54 سے مسلم لیگ نون، مریم نواز کو بھی میدان میں اتار سکتی تھی۔ انجم عقیل خان کا جیتنا واقعی بہت مشکل ہے۔
 
حلقہ 54 سے مسلم لیگ نون، مریم نواز کو بھی میدان میں اتار سکتی تھی۔ انجم عقیل خان کا جیتنا واقعی بہت مشکل ہے۔
یہ خبر بھی کافی گھومتی رہی، مگر امکانات معدوم ہیں۔
ن لیگ مین لیڈرز کو کچے حلقہ جات میں نہیں اتارے گی
 

زیک

مسافر
اسلام آباد کا شہر دو حلقوں میں تقسیم ہے؟ کونسے سیکٹر کا حلقے میں ہیں؟
 

فرقان احمد

محفلین
یہ خبر بھی کافی گھومتی رہی، مگر امکانات معدوم ہیں۔
ن لیگ مین لیڈرز کو کچے حلقہ جات میں نہیں اتارے گی
راولپنڈی اور اسلام آباد میں مسلم لیگ نون اچھے امیدواروں کے نہ ہونے کے باعث کافی نقصان اٹھاتی رہی ہے اور ابھی شاید مزید نقصانات بھی اٹھائے گی۔
 
اسلام آباد کا شہر دو حلقوں میں تقسیم ہے؟ کونسے سیکٹر کا حلقے میں ہیں؟
ویسے تو تینوں حلقوں میں ہی شہری اور دیہی علاقہ آتا ہے۔
لیکن مین سیکٹرز والا شہر 53 اور 54 میں تقسیم ہے۔
جی 6،ایف 6 سے لے کر جی 9، آئی 9 تک 53 میں آتا ہے۔ جبکہ آئی 10،جی 10، ایف 10 اور اس سے آگے کا علاقہ 54 میں۔

52 میں سوسائٹیز، ڈی ایچ اے فیز 2، ہمک ماڈل ٹاؤن شہری علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ ویسے تو اب دیہی علاقہ بھی کم شہری نہیں ہے۔
 
یہاں سے عمران خان کو ہرانا واقعی بہت مشکل ہے۔ رہی سہی کسر انجم عقیل خان کو ٹکٹ دینے سے پوری ہو جائے گی۔
جی، اسی لیے کہا کہ دلچسپ صورتحال اس وقت ہی بن سکتی ہے، اگر ن لیگ اور ایم ایم اے کے درمیان اسلام آباد کی سیٹس پر ایڈجسٹمنٹ ہو۔ ورنہ دونوں سیٹیں تقریباً تحریکِ انصاف کی ہی ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
جی، اسی لیے کہا کہ دلچسپ صورتحال اس وقت ہی بن سکتی ہے، اگر ن لیگ اور ایم ایم اے کے درمیان اسلام آباد کی سیٹس پر ایڈجسٹمنٹ ہو۔ ورنہ دونوں سیٹیں تقریباً تحریکِ انصاف کی ہی ہیں۔
شاید اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے این اے 54 کی حد تک فائدہ ہو جائے۔ این اے 53 تو غالباََ عمران خان صاحب کی جیب میں ہے۔
 
شاید اس سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے این اے 54 کی حد تک فائدہ ہو جائے۔ این اے 53 تو غالباََ عمران خان صاحب کی جیب میں ہے۔
اس میں موجود دیہی علاقہ، خاص طور پر بہارہ کہو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
امیدواران سے قطع نظر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں، کہ ن لیگ بھی ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتظامیہ ن لیگ کے پاس ہی ہے۔ لہٰذا بالکل رائٹ آف بھی نہیں کیا جا سکتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس میں موجود دیہی علاقہ، خاص طور پر بہارہ کہو ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
امیدواران سے قطع نظر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں، کہ ن لیگ بھی ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلدیاتی انتظامیہ ن لیگ کے پاس ہی ہے۔ لہٰذا بالکل رائٹ آف بھی نہیں کیا جا سکتا۔
بالکل یہی بات ہے تاہم عمران خان صاحب کا بذاتِ خود میدان میں اتر آنا اور مسلم لیگ نون کی جانب سے کمزور امیدوار کا میدان میں اتارا جانا ظاہر کرتا ہے کہ خان صاحب بہ آسانی جیت جائیں گے۔ 2013ء میں راولپنڈی میں حنیف عباسی نے خان صاحب کو ٹف ٹائم دیا تھا تاہم این اے 53 میں شاید زیادہ کانٹے دار مقابلہ دیکھنے میں نہ آئے گا۔ ہاں، اگر عمران خان صاحب کی جگہ تحریکِ انصاف کوئی اور امیدوار میدان میں اتارتی تو نون لیگ میدان مار سکتی تھی یا کم از کم زبردست معرکہ دیکھنے کو مل سکتا تھا۔
 

فرقان احمد

محفلین
این اے 53

عمران خان بمقابلہ عائشہ گلالئی بمقابلہ شاہد خاقان عباسی

عباسی صاحب کے لئے خبریں گردش کرنا شروع ہوئی ہیں۔

Gulalai faces off Imran Khan in NA-53
شاہد خاقان عباسی تو عمران خان کو واقعی ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ گلالئی صاحبہ تو شاید یہاں سے ایک ہزار ووٹ بھی نہ لے پائیں گی۔
 
Top