عالم اسلام کی خود فریبی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
جعفری نے کہا:
مہوش، آپ نے ایکدم سے بہت سے سوالات کر ڈالے ھیں، مگر میری نظر میں، اِن سب کا جواب موجود ہے اور وہ ہے ھماری عدالتوں کے پاس۔(ماسوائے سومنات کے مندرکے)۔

مولوی، علٰماء “سیاستداں“ جتنے مرضی فتوے صادر کردیں، آخری فیصلہ اسلام میں عدالتوں کے پاس ہے۔ آپکے سوالات جو کارٹونز، غازی علم دین، بُدھا اور رُشدی کے بارے میں ھیں اِن کے جوابات اسلامی فقہ (Jurisprudence ) میں موجود ھیں۔ ھمیں اِن کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔

مگر۔۔۔۔۔ اگر تو ھمیں اِس بات کا دعویٰ کہ پاکستان کی عدالتیں سیکولر ھیں تو پھر مولوی، علٰماء کے فتوے برحق ھیں اور اُن پر عمل کروانا بھی اُنہی کا کام ہے۔

مگر فرض کریں پاکستان کی عدالتیں سیکولرنہیں ھیں۔ اور پاکستانی عدلیہ کے ادارے رسول ص کی تضحیک کو اسلام کے خلاف ایک ایکٹ سمجھتے ھیں ، تو کیا وہ اُس کارٹونسٹ یا رُشدی کو پکڑ کر ایک پاکستانی عدالت میں اس لیئے پیش کر سکتے ھیں کہ ھمیں اِنصاف ملے؟ کیا پاکستانی عدلیہ کے ادارے یہ کام کر سکتے ھیں؟ سوال یہ پیدا ھوتا ہے کہ ھمارا اور پاکستانی عدلیہ کے اداروں کا اپنی عدالتوں پر کتنا یقیں ہے۔ اور اسی میں تمام سوالوں کا جواب موجود ہے۔



ویسے ازسرِ راہ ۔۔۔اگر آپ کیرن آرمسٹرونگ کی کتاب محمد کا پہلا باب دیکھیں تو اُس میں رسول ص کی تضحیک کے حوالے سے ایک اسلامی عدالت کا فیصلہ اور واقعہ درج ہے۔






محترم جعفری صاحب،

میرا موضوع مسلمانوں اور ان کے مختلف طبقات کے وہ غلط رویے تھے، جن کی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی تھی۔ اور یقینا پاکستانی عدالتیں میرا موضوع نہیں تھیں۔

اور یقینا عدالتوں کا کردار ان مختلف مسلم طبقات کی نسبت یقیناً بہت بہتر ہو گا اور انصاف کے بہت نزدیک ہو گا۔ اور ہونا بھی یہی چاہیئے کہ لوگ قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیں بلکہ عدالت کو اس کا فیصلہ کرنے دیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں صرف محب کے ایک پوائنٹ پر کمنٹ کرنا چاہ رہا تھا جس میں انہوں نے عیسائیوں کے ہاتھوں دوسو مسلمانوں کی ہلاکتوں کا ذکر کیا تھا۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو شاید ہم یہاں ایک اور موضوع پر بات کر رہے ہیں۔

خون مسلم کی ارزانی کی تو ایک طویل داستان لکھی جا سکتی ہے اور اقوام متحدہ کی بے حیثیتی کی بھی۔ 1995 میں سربیا کی فوج نے صرف ایک دن میں آٹھ ہزار بوسنیا کے مسلمانوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرکے گولی سے اڑا دیا تھا۔ مسلم دنیا اس پر کچھ بھی نہیں کر سکی تھی۔
 

جیسبادی

محفلین
آج سے بیس سال بعد کارٹون سانحے پر آپ لوگوں کی طرح تحقیق کرنے والے مسلمان طلبا، نیویارک ٹائمز سے واقعات کا تذکرہ لے کر پھر اس واقعے میں مولویوں کا قصور ڈھونڈ رہے ہونگے۔ علمی گفتگو ہو رہی ہو گی۔ اصل اسباب کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہو گی۔

پاک و ہند میں کبھی کسی مولوی یا "عالم دین" کی حکومت نہیں رہی۔ پھر عجب ہے کہ قصور وار یہی لوگ ٹھیرتے ہیں۔ کیا آپ میں سے کسی نے کبھی کسی عالم سے فتوٰی لے کر کوئی کام کیا ہے؟ آپ کی طرح کے عالم فاضل لوگ ہوں یا عوام، سب اپنے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ بعد میں قصور وار مدرسہ میں پڑھنے والے غریب ٹھیرتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں بات بہت مختلف ڈائریکشنز میں چلی گئی ہے اور اصل ایشو پس منظر میں جاتا جا رہا ہے۔ اس کا آغاز مہوش کی پوسٹ‌سے ہی ہو جاتا ہے۔ میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ یہاں منافقت کے لفظ کا استعمال کچھ نامناسب ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں، مہوش مسلمان ملکوں میں ناموس مذہب کے نام پر تشدد کو جائز سمجھنے اور اس کو باعث‌ نجات قرار دینے پر تبصرہ کر ہی ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس کے ساتھ ہی مسلمان فاتحین (یا حملہ آوروں) کا تذکرہ کچھ mis-directed ہے۔

(جاری۔۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس پوسٹ‌میں میں ایک اور موضوع کا احاطہ کرنا چاہوں گا۔ مجھے یہاں برادرم فرید کی بات میں کچھ وزن لگتا ہے کہ مولویوں کا یوں اہانت آمیز انداز میں ذکر کرنا تعصب کے ضمن میں آتا ہے۔ میں یہاں مولویوں کا بحیثیت عمومی دفاع نہیں کرنا چاہتا لیکن اس طرح مولویوں کو ہر بات کا ذمہ دار ٹھہرا کر انہیں رگیدنا قرین انصاف نہیں ہے۔

میں اگر صرف حالیہ کارٹونوں کے تنازعے پر نظر دوڑاؤں تو عوام میں نفرت اور مذہبی جنونیت پھیلانے والوں میں مولوی اکیلے نہیں تھے۔ اور پتا نہیں کہ لاہور کی مال روڈ کو خاکستر کرنے میں کتنے مولوی شریک تھے۔

میں یہاں مولویوں یا علما پر تنقید پر پابندی نہیں لگانا چاہتا لیکن آپ سب دوستوں سے درخواست ہے کہ بغیر کسی سیاق و سباق کے ایسا کرنے سے گریز کریں۔

(جاری۔۔)
 

دوست

محفلین
بات تو سب ٹھیک کر رہے ہیں۔ ہر کسی کے پاس دلیلیں‌ہیں‌اپنے موقف کے بارے میں۔۔۔
میں‌صرف ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں‌گا جب سر پر جذبات سوار ہوں‌تو کچھ نظر نہیں‌آتا۔
اور رسول اللہ‌ص کی محبت تو چیز ہی اور ہے۔ اس لیے جب بات توہین رسالت‌ص کی آجاتی ہے تو سب کچھ ختم ہوجاتا ہےصرف یہ یاد رہتا ہے کہ یہ بندہ واجب القتل ہے۔
اب ہوشمند چاہے لاکھ تاویلیں دیں پر کیا کریں‌محبت یہ سب نہیں‌دیکھتی۔
محبان نہیں‌جنونی کہہ لیں‌ اگر سخت الفاظ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
تو عرض‌ہے کہ ہم ایسے ہی بھلے یہ سب حساب دل میں لکھ رہے ہیں‌ جب وقت آئے گا تو ہم بھی کم نہیں کریں‌گے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شاکر، میں پہلے ہی بکھرے ہوئے موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا، آپ نے آ کر مزید گفتگو کو الجھا دیا ہے۔ کارٹون ایک ڈینش اخبار میں چھپا تھا اور چرچ اور مشنری سکول پاکستان میں جلیں، اور یہ سب کچھ ناموس رسالت کے نام پر۔ پتا نہیں کس اسوہ پر عمل کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو کیا سکھایا جا رہا ہے؟

شاکر کی پوسٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ مولویوں کو بلاوجہ بدنام کیا جا رہا ہے۔ ہم سب خود ہی مولوی پنے میں مبتلا ہیں۔ خود ہی قتل کا فتوی دے کر خود ہی اس پر عمل کرنے نکل پڑتے ہیں۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔

یہ گفتگو ابھی بھی ٹریک پر ہو سکتی ہے۔ برائے مہربانی اسے مزید الجھانے کی کوشش نہ کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نبیل نے کہا:
میں یہاں مولویوں یا علما پر تنقید پر پابندی نہیں لگانا چاہتا لیکن آپ سب دوستوں سے درخواست ہے کہ بغیر کسی سیاق و سباق کے ایسا کرنے سے گریز کریں۔

(جاری۔۔)


مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے پیغام کو کبھی بھی صحیح طریقہ سے نہیں پہنچا پاتی ہوں، اور اسی لیے دیگر احباب اکثر میری بات کو اُن معنوں میں نہیں سمجھ رہے ہوتے جس میں میں کسی چیز کو دیکھ رہی ہوتی ہوں۔

میں نے جس سیاق و سباق کے حوالے سے علماء طبقے پر اعتراض اٹھایا تھا، پتا نہیں اس میں میں صحیح ہوں یا نہیں، مگر میں جو بات بھی کہنے کی کوشش کروں، مجھ پر لازم ہے کہ کسی کی دشمنی یا تعصب مجھے اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ میں اُس کے ساتھ انصاف نہ کروں۔


تو میرے سامنے سوالات یہ ہیں کہ کیا واقعی میں علماء طبقے کے خلاف کسی قسم کے تعصب میں مبتلا ہوں؟
اور کیا واقعی میں نے صرف اُن کی دشمنی میں آ کر بغیر کسی سیاق و سباق کے اُن پر اعتراضات کیے ہیں؟

اللہ بہتر جاننے والا ہے اور میری تو دعا یہی ہے کہ اللہ مجھے ایسی کینہ پرور عادات سے محفوظ رکھے۔ امین۔


بہرحال، میری ابتک کی رائے کے مطابق ہمارے مسلم معاشرے کا ہر ہر وہ شخص گناہگار ہے جس نے اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف کوئی بھی کام کیا ہے۔

لیکن ان گناہگاروں میں بھی دو طبقے ہیں، اور میں ان میں گھوڑوں اور گدھوں کے درمیان تمیز کرنے کی قائل ہوں تاکہ ان گھوڑوں اور گدھوں کے ساتھ ان کی صفات کے مطابق انصاف ہو سکے۔

ان گناہگاروں کا پہلا طبقہ تو وہ ہے جو ان پڑھ ہے اور کم علمی کی وجہ سے ان کی اپنی کوئی ذاتی رائے نہیں۔ نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب نے ایسے لوگوں کی مثال یہ دی ہے کہ یہ لوگ اُن سواری کے جانوروں کی طرح ہیں جنہیں چلانے والے ہر اُس طرف ہنکا کر لیجاتے ہیں جہاں وہ چاہیں۔

لیکن ان کی یہ کم علمی کبھی بھی اس بات کا بہانہ نہیں بن سکتی کہ انہیں ان کے غلط کاموں سے مکمل براۃ مل جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے انسانوں کو سب سے پیارا تحفہ عقل ہے۔ اور یہ عقل ہے جو کم علمی کے باوجود انسان کو بغیر کسی شک و شبہ کے یہ بتا دیتی ہے کہ کیا چیز صحیح ہے اور کیا چیز غلط۔


ان گناہگاروں کا دوسرا گروہ ہے وہ صاحبان علم، جنہیں شریعت کے تمام اصولوں کا علم ہے، مگر پھر بھی انہوں نے شریعت کے اس حصے کو چھپا کر رکھا اور عوام الناس تک پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچایا اور نہ اس کی تبلیغ صحیح طریقے سے کی۔

صحیح طریقے سے تبلیغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے عوام الناس تک پیغام صحیح طریقے اور بھرپور طریقے سے پہنچایا ہوتا، تو عوام الناس بھی اس گناہ سے بچ جاتی۔

میں پھر وہی مثال دہراؤں گی کہ علم دین نے جو قتل کیا، اگرچہ کہ وہ دین اسلام کے بالکل خلاف تھا، مگر پھر بھی وہ عوام الناس کا ہیرو بن گیا اور اس کی تقلید میں اور بھی بہت سے علم دین پیدا ہو گئے جو کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا عین عبادت سمجھنے لگے۔

اب اس سلسلے میں عوام الناس کم قصوروار ہیں، جبکہ بہت بڑا کریڈٹ اہل علم پر جاتا ہے جنہوں نے جانتے بوجھتے عوام الناس کو صحیح چیز کی تبلیغ نہیں کی۔

یہ ہے وہ گھوڑے اور گدھے کی تمیز، جو اس معاملے میں انصاف کا تقاضہ ہے۔

اور اس اہل علم دائرے میں صرف علماء ہی نہیں، بلکہ دیگر غیر مولوی اہل علم و دانش بھی موجود ہیں۔ مگر چونکہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے، چنانچہ عوام الناس عام اہل دانش کی بہ نسبت اس معاملے میں علماء کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اس لیے ان گناہوں کی سب سے بڑی ذمہ داری بھی علماء پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اب اگر مولوی حضرات نے اگرچہ کہ خود بھی بلا واسطہ Direct کوئی سفارت خانہ یا گاڑیاں یا دیگر املاک نہیں جلائیں، مگر بالواسطہ Indirectly وہ پھر بھی گناہگار ہیں کیونکہ وہ اپنے فرائض صحیح طور پر نہیں انجام دے رہے۔

اس کی ایک مثال میں آپ کو یوں دوں گی کہ ایک فرقے کے عوام الناس دوسرے فرقے کے بڑوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں، اور عالم دین وہاں موجود ہو اور وہ اپنے فرقے کے عوام الناس کو اس سے منع نہیں کرتا۔
تو اب اگرچہ کہ وہ عالم دین خود ذاتی طور پر برا بھلا نہ بھی کہے، مگر پھر بھی سب سے بڑا ذمہ دار/ گناہگار وہ ہے۔



میں نے اپنے تئیں تو پھر سے بھرپور کوشش کی ہے کہ اپنا پیغام آپ حضرات تک پہنچاؤں۔ اگر آپ لوگ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ مولوی طبقے پر اس معاملے میں تنقید کرنے کے لیے کوئی سیاق و سباق موجود نہیں ہے، تو پھر میری طرف سے معذرت قبول فرمائیے کیونکہ میں آپ کی اس رائے سے شاید متفق نہ ہو پاؤں۔


آخر میں علامہ اقبال کا ایک شعر:

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں مگر ملت کے گناہوں کو معاف



چنانچہ، یہ وہ گناہ ہیں جو کہ انفرادی بنیادوں پر نہیں، بلکہ ملی سطح پر ہو رہے ہیں اور مجھے کوئی ایسا رُجل نظر نہیں آتا جو عوام الناس کو آ کر کبھی حق بات کی تبلیغ بھی کرے۔ مجھے واقعی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں فطرت جلد ہی ہم پر غضبناک نہ ہو جائے۔
 

اظہرالحق

محفلین
اصل میں میں اس مسلئے میں بولنا نہیں چاہتا تھا مگر مہوش نے جب اقبال کا شعر پڑھا تو ۔ ۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ ۔ ۔یہ وہ ہی اقبال تھے “شاید“ جنہوں نے علم دین کی “سولی“ پر کہا تھا کہ “ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا اسی کتاباں ویکھدے رہ گئے “

اور دوسری طرف قانون کا ایک بڑا نام ۔ ۔ جس کی قانونی پاسداری کے گواہ اس وقت کے “حاکم“ بھی تھے وہ ہی اس “قاتل“ علم دین کا مقدمہ لڑتے ہیں یعنی محمد علی جناح ۔ ۔ ۔

یہ دونوں حضرات وہ تھے جن پر سب سے زیادہ کفر کے فتاوٰی لگے ۔ ۔ ۔ مجھے اتنا پتہ ۔ ۔ ۔ ہے ۔ ۔ ۔ کہ اگر آپ لوگ جو کچھ کہ رہے ہیں تو پھر یہ شخصیات ہی غلط تھیں ۔ ۔ ۔ خاص کر اقبال جو یہ بھی تو کہ کر گئے

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔ ۔ ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آج کے جنگ اخبار میں حافظ عبدالرحمان سلفی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جو خالصتاً اُس بات کا آئینہ ہے جس کا میں یہاں رونا رو رہی ہوں۔

ناموسِ رسالت ایک مسلمان کے لیے بہت اہم ہے، لیکن یہ مضمون پڑھ کر آپ کو خود ہی سمجھ آ جائے گا کہ کس طرح غلط بات ان حضرت نے ناموسِ رسالت کی صحیح باتوں کے درمیان سمو کر پیش کیا ہے، کہ جس کے بعد عوام الناس مشرک و مسلم کا فرق کیے بغیر قتل عام کے لیے اٹھ کھڑی ہو گی۔

میرے نزدیک یہ ناموسِ رسالت کی آڑ میں شریعت کے ایک اصول کی ایسی manipulation ہے کہ جس کو عوام الناس کبھی بھی محسوس نہیں کر سکے گی۔

اور انہی Manipulations کیوجہ سے آج عوام الناس میں علم دین ہیرو ہے۔ اور انہی Manipulations کی وجہ سے آج ہزاروں مسلمان سلمان رشدی کو انگلینڈ کی سرزمین پر قتل کرنے کے لیے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں، اور انہیں اس وعدہ خلافی کا ذرہ بھر خیال نہیں کہ وہ اس وعدے پر برطانیہ آئے ہیں کہ وہ اس ملک کے قوانین کی پابندی کریں گے۔


توہین رسالت ایک ناقابل معافی جرم,,,,, حافظ عبدالرحمان سلفی
عزیزان گرامی ! امام کائنات علیہ الصلوة والسلام کا بلند و بالا مقام عظمت رب کائنات نے جو بیان فرمایا وہ اگر سارے جن و انس مل کر بھی بیان کرنا چاہیں تو کبھی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔ ترجمہ۔ کیا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سینہ (مبارک) اپنی معرفت و ہدایت کے لئے) نہیں کھول دیا ۔ اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر سے آپ کا بوجھ اتار دیا۔ (یعنی نبوت کا بار امانت کماحقہ ادا کروا دیا) جس نے آپ کی کمر جھکا دی تھی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر (خیر) بلند فرما دیا۔ (الانشرح آیت 1تا4) قارئین کرام ! رب کائنات نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر اس قدر بلند و بالا فرما دیا کہ جب تک اذانوں میں موذن اللہ تعالیٰ کی کبریائی کی صدائیں بلند کرتے رہیں گے تب تک آقا علیہ السلام کی مصطفائی بھی بلند کرتے رہیں گے لہٰذا کسی کافر ملحد اور دشمن اسلام و خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہفوات بکنے یا شان اقدس میں ہرزہ سرائی کرنے سے نہ تو محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و بزرگی میں کوئی کمی آئی نہ قیامت تک آ سکتی ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کے لئے انا شانئک ہو الابتر کی لعنت ، ربانی وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا اور قیامت تک کے لئے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا ہے اسی طرح اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و عفت کی حرمت وبقا بھی وہی فرمانے والا ہے۔ جس کے لئے وہ ہر دور میں اپنی توحید و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و پاسبانی کے لئے امت محمدیہ میں اپنی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار توحید و شمع رسالت کے پروانوں اور پاسبانوں کو پیدا کرتا رہا ہے، قیامت تک پیدا کرتا رہے گا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شاتم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کعب بن اشرف کو بیت اللہ کے پردوں کے پیچھے چھپ جانے کے باوجود جہنم رسید کر کے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کیا اسی طرح ابو خطل اور ایک عورت کو بھی کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب متحدہ ہندوستان میں انگریزی سامراج کے زیر سر پرستی ایک شاتم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) راج پال نے آقا علیہ الصلوة و السلام کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تو ایک عام محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو نہ عالم تھا اور نہ ہی فاضل بلکہ ایک لوہار خاندان سے تعلق رکھتا تھا، نے اس دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم رسید کر دیا۔ وکیلوں کے مختلف حیلوں بہانوں سے سزا سے بچنے کی ترغیب دلائی تو اس نے آقا علیہ السلام سے اظہار عقیدت و محبت کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ زندگی میں ایک ہی تو نیکی کی ہے اسے ضائع نہیں کر سکتا اور انگریز عدالت سے پھانسی کی سزا پا کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گیا۔ جس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ ہم تو محض باتیں کرتے رہ گئے اور ترخانوں کا بیٹا بازی لے گیا۔ عزیزان ذی وقار! حرمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی اہل ایمان پر اپنی جانوں سے بھی بڑھ کر واجب و لازم ہے۔ جیسا کہ خالق کائنات فرماتا ہے ۔ ترجمہ… نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان پر خود ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔(سورة الاحزاب آیت4)یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث کے احکامات کی روشنی میں اہل ایمان نے شروع سے لیکر آج تک نہ کبھی کسی شاتم رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کو برداشت کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ گزشتہ دنوں ڈنمارک کے ایک اخبار نے ایک متعصب مصنف اور ایڈیٹر کی ایما پر بعض کارٹونسٹوں کے بنائے گئے خاکے شائع کر کے اپنی اسلام دشمنی اور آقا علیہ الصلوة و السلام سے یہود و نصاریٰ کے دیرینہ حسد و بغض اور عناد کا کھل کر اظہار کیا ۔ ان دل آزار خاکوں کو ناروے، جرمنی، فرانس اور بعض دیگر یورپی اخبارات نے مکرر اشاعت کے ذریعے طے شدہ منصوبے کے تحت دنیا بھر کے غیور مسلمانوں کی دینی غیرت کو چیلنج کیا ہے۔ امام خانہ کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے سب سے پہلے ان کارٹونوں کی اشاعت پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے سعودی حکومت و عوام اور تمام مسلمانان عالم کی توجہ اس انتہائی سنگین گستاخی کی جانب مبذول کروائی۔ جس پر خادم الحرمین الشریفین نے دینی جذبے کا اظہار کرتے ہوئے فی الفور سعودی سفیر کو ڈنمارک سے واپس بلایا اور ڈینش سفیر کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ علاوہ ازیں سعودی حکومت و عوام نے ڈینش مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سچی محبت و عقیدت کا اظہار کیا ۔ آئمہ حرم پاک نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ ایسے تمام شاتمین رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) جنہوں نے کارٹون بنائے اور ترغیب دینے والا بد باطن مصنف اور شائع کرنے والے اخبارات کے ایڈیٹر و مالکان سب کے سب واجب القتل ہیں۔ قارئین کرام ! شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کیلئے آج نہ صرف انڈونیشیا سے لیکر مراکش تک پورا عالم اسلام سراپا احتجاج بنا ہوا ہے بلکہ یورپ میں مقیم اہل اسلام بھی شاتمین رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مذمت میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ایسے میں پاکستان جو واحد اسلامی ایٹمی قوت ہونے کے ناتے دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز ہے ۔اسے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دشمنان دین و ملت کے خلاف ٹھوس اقدامات اختیار کرنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے عالم اسلام کو تمام تر وسائل سے نوازا ہے اور ایک سے ایک اعلیٰ دماغ موجود ہیں جو امت مسلمہ کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں کفار کی محتاجی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ مسلم ممالک اپنی علیحدہ اقوام متحدہ قائم کریں اور مضبوط تجارتی و اقتصادی تعلقات کے قیام کے ذریعے ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں۔ عرب ممالک اپنے مالی ذخائر امریکی و یورپی بنکوں سے نکلوا کر مسلم ممالک میں رکھیں تاکہ وہ خوشحال ہوں۔ کس قدر بدنصیبی کی بات ہے کہ یہود ونصاریٰ ہمارے وسائل اور دولت پر قبضے کے ذریعے ہم پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور ہم ان کے دست نگر بنے فوجی واقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں ہم تمام اسلامی ممالک بالخصوص حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں قانون سازی کرتے ہوئے شاتمین رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں اپنے ملکوں میں مقدمات چلا کر عبرتناک سزائیں دیں۔ اسی طرح کسی بھی کافر ملک کی جانب سے کسی مسلم ملک پر حملہ عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے اور سب مل کر اس جارح ملک کے خلاف مشترکہ کارروائی کریں۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرتے ہوئے باہمی دفاعی و اقتصادی سائنسی تعلیمی ثقافتی و تجارتی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔ عامة المسلمین کی بیداری اور عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے احتجاجی سرگرمیاں یقیناً ان کے دین اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ وابستگی اور محبت و عقیدت کا مظہر ہیں تاہم ہمیں جوش میں ہوش نہیں گنوانے چاہئیں چونکہ اپنے ملکی و عوامی مفادات کی تباہی وبربادی کسی صورت اسلامی تعلیمات سے میل نہیں کھاتی ۔حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے ڈنمارک، ناروے، جرمنی و فرانس سے اپنے سفیروں کو واپس بلائے اور ان کے ساتھ تمام تجارتی معاہدات ختم کر کے ان دولت کے پجاریوں کو آگاہ کر دیں کہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اپنے نبی کی حرمت و عزت سے بڑھ کر کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتے۔ مسلم ممالک تیل کا ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سپلائی بند کر دیں تو یہ سب کے سب گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔




توہین رسالت کے ضمن میں چند چیزیں برسبیل تذکرہ نقل کرنا چاہ رہی ہوں:

1۔ توھین رسالت کی سزا موت ہو، اس بات کے حق میں تین واقعات نقل کیے جاتے ہیں۔ پہلا کعب بن اشرف کا، دوسرا اُس شاؑعر کا جو رسول ص کی ہجو بنایا کرتا تھا، اور تیسرا ایک بوڑھی غلام کنیز کا جس نے رسول ص کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کیے تو اُس کے مالک نے اُسے قتل کر دیا۔

2۔ امت میں ان تین واقعات پر اجماع نہیں ہے اور کچھ علماء ایسے ہیں جن کے نزدیک یا تو ان واقعات میں تواتر نہیں، یا پھر یہ Exceptional Cases ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک توہین رسالت آپ کو مسلمان سے مرتد کر دے گی، مگر اس کی سزا قتل نہیں ہے۔ (اگرچہ کہ علماء کی کثیر تعداد اس مسئلہ میں قتل کا ہی فتویٰ دیتی ہے)

3۔ لیکن توھین رسالت اگر کسی کافر کی طرف سے ہوئی ہے، تو اس کا معاملہ مسلمان سے بالکل مختلف ہے۔ خاص طور پر اگر یہ توھین اگر غیر مسلم ملک میں ہوتی ہے، تو اس کے جواب میں دنگے فساد کرنے، یا کسی دوسرے معصوم غیر مسلم، یا غیر ملکی سفارت خانے وغیرہ کو جلا دینا وغیرہ یہ سب روح اسلام کے سراسر خلاف ہے۔


اور اگر مولوی طبقہ اس معاملے میں عوام الناس کو تبلیغ نہیں کرتا، تو واجب کفایہ ہونے کی بنا پر یہ بات ہم پر واجب ہو جاتی ہے ہم جو کچھ صحیح بات خود جانتے ہیں، اسے عوام الناس تک بھی پہنچائیں۔

خود بتائیے، اگر کوئی بھی اس سلسلے میں آگے بڑھ کر سچ نہیں بولتا اور عوام الناس تک مکمل حقیقت نہیں پہنچاتا، تو پھر یہ طوفانِ بدتمیزی مستقبل میں کیسے رکے گا؟ اگرچہ اس کے کرنے والے چند لوگ ہی کیوں نہ ہوں، مگر اس کا الزام مستقل طور پر اسلام پر آتا رہے گا اور دینِ اسلام ہی بدنام ہوتا رہے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اظہرالحق نے کہا:
اصل میں میں اس مسلئے میں بولنا نہیں چاہتا تھا مگر مہوش نے جب اقبال کا شعر پڑھا تو ۔ ۔ مجھ سے رہا نہ گیا ۔ ۔ ۔یہ وہ ہی اقبال تھے “شاید“ جنہوں نے علم دین کی “سولی“ پر کہا تھا کہ “ترکھاناں دا پتر بازی لے گیا اسی کتاباں ویکھدے رہ گئے “

اور دوسری طرف قانون کا ایک بڑا نام ۔ ۔ جس کی قانونی پاسداری کے گواہ اس وقت کے “حاکم“ بھی تھے وہ ہی اس “قاتل“ علم دین کا مقدمہ لڑتے ہیں یعنی محمد علی جناح ۔ ۔ ۔

یہ دونوں حضرات وہ تھے جن پر سب سے زیادہ کفر کے فتاوٰی لگے ۔ ۔ ۔ مجھے اتنا پتہ ۔ ۔ ۔ ہے ۔ ۔ ۔ کہ اگر آپ لوگ جو کچھ کہ رہے ہیں تو پھر یہ شخصیات ہی غلط تھیں ۔ ۔ ۔ خاص کر اقبال جو یہ بھی تو کہ کر گئے

کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔ ۔ ۔


محترم اظہر برادر،

آپ کے مکتوب کا شکریہ۔ آپ یاد رکھیئے آپ کے خیالات مجھے سے متفق ہوں یا نہ ہوں، مگر میری نظر میں آپ کی آراء اور خیالات کی بہت قدر و قیمت ہے۔

جہاں تک علامہ اقبال اور جناح صاحب کا تعلق ہے، تو مجھے علم تھا کہ یہ سوال سامنے آئے گا کہ پھر انہوں نے کیوں علم دین کی وکالت کی۔

ضروری نہیں کہ کوئی میری رائے سے متفق ہو، مگر میری ناقض رائے کے مطابق مجھے چاہیے کہ ان دونوں حضرات سے بھی انصاف کروں۔ اور انصاف مجھے یہی نظر آتا ہے کہ یہ لوگ بہت بلند درجے پر فائز ہیں، مگر پھر بھی انسان ہیں، معصوم عن الخطا نہیں۔ اور ان حضرات نے جس عدالت عالیہ پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کیس لڑا، اُس نے بھی اس معاملے میں ان کے خلاف فیصلہ دیا۔ اور جہاں تک اسلامی شریعت کا تعلق ہے، تو وہ بھی میں یہاں بیان کر چکی ہوں۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں حضرات کی وکالت کی وجہ سے اسلامی شریعت کا قانون تبدیل ہو گیا تھا اور علم دین کو واقعی قتل کرنے کا جواز مل گیا تھا، تو میں شاید آپ سے متفق نہ ہو پاؤں۔

اور جہاں تک تعلق ہے "کی وفا محمد سے تو ہم تیرے ہیں" تو میرے نزدیک "محمد ص سے وفا" کرنے کا مطلب اسلامی شرعی قوانین کی اُن کی اصل روح کے مطابق پابندی ہے، نہ کہ محض عشقیہ نعرے لگاتے ہوئے شرعی قوانین کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور اپنی من مانیاں کرنا۔

میرے نزدیک شریعت اسلامیہ ہمیں بے مہار شتروں کی طرح بھاگنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی، بلکہ ہر صورتحال میں کچھ قاعدے اور قوانین کا پابند رکھتی ہے، جنہیں عشق و جنون کے نام پر بھی نہیں توڑا جا سکتا۔
 

اظہرالحق

محفلین
مہوش شکریہ آپ کے جواب کا ، مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی چلیں میں مان لیتا ہوں کہ جناح صاحب تو ماڈرن تھے مگر اقبال تو شرعیت سے اچھی طرح واقف تھے ۔ ۔ ۔ وہ ایسی بات کیوں کہتے ۔ ۔ ۔ وہ بھی مسلمانوں کو اتحاد کر درس دیتے تھے ۔ ۔

یہاں اس فورم پر بار بار دوست احباب ایک ہی سمت میں بات لے جاتے ہیں کہ آج کل کے مسلمان ہی جزباتیت کا شکار ہیں اپنا گھر جلا کر دوسروں کو خود پر ہنسنے کا موقعہ دیتے ہیں ۔ ۔ اور متشدد لوگ ہیں ، اور لڑائی جھگڑا پسند کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں بہت بڑا پرابلم یہ ہے کہ ہمارا علم کامل نہیں ۔ ۔ ۔ اور ہم عوامل کو دیکھتے ہیں ، وجوہات کو نہیں ۔ ۔ ۔ جیسے ہم حریت پسند اور دھشت گردوں کے درمیان فرق نہیں کر سکتے ہیں ایسے ہی ماڈریٹ اور تشدد پسندوں کے درمیان فرق نہیں کر سکتے ۔ ۔ ۔ یہ کمزوری ہے ہماری سمجھ کی اور علم کی ۔ ۔ ۔

میں نے بہت غور کیا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس بات سے متفق ہوں کہ ایک حدیث کے مطابق “علم اٹھا لیا جائے گا “ تو ایسا کیسے ہو گا جب کہ آج تو علوم پر دسترست تو عوام و خواص سب کی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ علم صرف واقعات کا ہونا نہیں ہوتا بلکہ اسکے پیچھے کے محرکات بھی جاننا ہوتا ہے ، ہم صرف واقعات کو بنیاد بنا کر اپنے فیصلے لے لیتے ہیں ، مگر محرکات کو بھول جاتے ہیں وجوہات پر غور نہیں کرتے ۔ ۔ وہ کیا شعر ہے

زمانہ کرتا ہے اسکی نمو برسوں
کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا

ہمارا سب سے بڑا مسلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے علم واقعات و حادثات کو سمجھ لیا ہے ۔ ۔ ۔ اور انہیں کو بنیاد بنا کر فاعل مفعول دونوں کو رگیدتے پھرتے ہیں ۔ ۔۔

میں جانتا ہوں اس محفل میں میرے خیالات کو ایک جانبدرانہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید میں پرتشدد واقعات کا حامی ہوں اور خود کش حملے وغیرہ کے حق میں ہوں ، نہیں ایسا نہیں ہے مگر میں وجوہات کی بات کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ واقعات کی نہیں ۔ ۔ ۔ اور دنیا میں اس بات پر اب آہستہ آہستہ یہ کام شروع ہو چکا ہے جسکی تازہ مثال “پیراڈائیز ناؤ“ اور “میونخ“ جیسی فلمیں ہیں یا پھر ، کولن پاؤل کی نئی کتاب بھی ہے ۔ ۔ جس میں وجوہات کو دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ ۔

رہی بات مغرب کی تو وہاں مذہب اور ریاست الگ الگ چیزوں کے نام ہیں اور اسلام میں سب کچھ اسلام ہے ۔ ۔ ۔ ہاں اسلام بہت واضح احکامات رکھتا ہے ان لوگوں سے معمالات میں جو اسلام کے خلاف ہیں ۔ ۔ ۔ کہ اگر ہم انہیں اپنا موقف پیش نہ کر سکیں تو انہیں انکے حال پر چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ جو آج ہم نہیں کر پا رہے ۔ ۔

اپنی بات ایک مغربی مصنف جارج لوکس کی بات پر ختم کرتا ہوں یہ صاحب مشہور سٹار وار کے خالق ہیں ۔ ۔ شاید ان الفاظ میں کچھ پوشیدہ ہو

"Being in Washington is more fictional than being in Hollywood"
 

زیک

مسافر
مہوش: میں نے آپ کی پوسٹ میں کالم کا ربط ڈال دیا ہے۔ جب بھی آپ کہیں سے کوئی مواد نقل کریں تو اس کا ربط ضرور دیں۔ شکریہ۔
 

نعمان

محفلین
اظہر بھائی اقبال ایک شاعر تھے آپ غالبا انہیں فلسفی، حکیم، مفکر، مولانا اور بھی کچھ سمجھتے ہونگے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک عام سے انسان تھے کوئی پیغمبر نہیں کہ وہ جو کہیں گے وہ لازمی درست ہی ہوگا۔

اگر ہم اس طرح لوگوں کو قتل پر اکسانے لگیں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں اگر کہیں چار غیرمسلم بیٹھے ہوں اور وہ ایک مسلمان کو آتا دیکھیں تو خوف سے یا تو بھاگ لیں یا فورا اسلام قبول کرلیں کہ بھائی ان سے کیا بعید کہیں توہین رسالت یا توہین قرآن یا توہین فلاں فلاں کا الزام لگا کر قتل ہی کردیں۔

دوسری بات معاشروں کی ترقی، اسلامی معاشرے بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کے لئیے ضروری ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ دوئم یہ کہ مسلمان جس ملک میں بھی رہیں وہاں کہ قانون پر عمل کرنا ان پر فرض ہے۔ اس بارے میں کوئی اگر مگر، کوئی معروضیت کوئی وجوہات کے پیچھے جھانکنے والے پراسرار علوم کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ ایسی ضرورت ہے تو اسے چاہئیے کہ وہ مہذب دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
زکریا، لنک مہیا کرنے کا شکریہ۔

نعمان، آپ نے اُن مسائل کی نشاندھی کی ہے جو کہ اس موضوع سے بلاواسطہ (ڈائریکٹلی) جڑے ہوئے ہیں۔

یورپ میں کارٹون چھپا، مگر یہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ امن اور چین سے جینا چاہتے ہیں۔ لہذا بہت لازمی ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی بھی پروپیگنڈا کے تحت اسلام سے بیزار ہونے سے بچایا جائے۔ دنیا کو تہذیبوں کے تصادم کی پالیسی کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ تہذیبوں کا احترام کرنا سیکھا جائے۔

کارٹون کی اشاعت کے فوراً بعد میرے لیے یہ بات بہت آسان تھی کہ یہاں لوگوں کو اس بات کے لیے Convince کروں کہ ایسے کارٹون بنانا غلط چیز ہے اور نفرتیں پھیلانے کا باعث ہے۔۔۔۔ اور مجھے بہت آسانی سے اپنا مقصد حاصل ہوتا رہا اور بہت سے لوگ یہاں اس بات کو قبول کرتے رہے۔
مگر جب ڈنمارک کے سفارتخانے کو آگ لگی، تو پھر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہو رہی اور لوگ یہ کہہ کر الگ ہو رہے ہیں کہ مسلمان حقیقتاً صرف انتہا پسند ہیں۔ اب میں جتنی بھی چیخ و پکار کر لوں، مگر تیر ترکش سے نکل چکا ہے اور واپسی کی کوئی امید نہیں۔
المختصر، یورپ میں لوگ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں۔

دوسری طرف دینِ اسلام ہمیں بہت سختی سے نظم و ضبط کی تعلیم دیتا ہے اور ہم سے 100 فیصد Disciplined ہونے کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں نظم و ضبط بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے نیک مقاصد حاصل کرنے کے لیے بہت حوصلے، صبر و ضبط، محنت، نظم، اور عقلمندی کی ضرورت ہے۔
 

نعمان

محفلین
یورپ ہی نہیں خود بہت سے مسلمان بھی مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں اور مسلمان ملکوں کی اقلیتیں بھی مسلمانوں سے خاصی خوفزدہ ہیں۔
 

اظہرالحق

محفلین
مہوش بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ مگر پھر بات وہیں آ جاتی ہے ، کہ وجوہات کیا تھیں ؟ کیا ہیں ؟ اور کیا ہونگی ؟ ہم وجوہات کے بجائے پھر واقعات پر جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ دوسری بات میں بہت واضح لفظوں میں کلیر کر دوں (جو بار بار دوستوں کی تحریروں سے لگ رہا ہے ) کہ میں تشدد کو یا سفارت خانے جلانے کو صحیح گردانتا ہوں ، میں نے کسی تحریر میں ایسا نہیں کہا ۔ ۔ ہاں بار بار وجوہات کا ذکر ضرور کیا ہے جسے سب نے بڑے مزے سے اگنور کیا ہے ۔ ۔

آپ کا یہ کہنا بجا ہے کہ یورپ والے ان واقعات کا مطلب صرف از صرف “بیڈ اسلام“ اور “بیڈ مسلمز“ لیتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جب وہ ہمارے بھائی بہنوں کو مارتے ہیں تو ہم کبھی بھی بیڈ کا لفظ استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے قطع تعلق کرتے ہیں ۔

جی ہاں ہمیں جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہو گا ، اور ہوش جب بھی مسلمانوں کو آتا ہے تو ان لوگوں کو بہت مشکل ہوتی ہے جو “امن“ کے داعی ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔

میں کسی معجزے کی توقع تو نہیں کر سکتا مگر اتنا ضرور سمجھ پا رہا ہوں کہ مسلمان چونکہ اسلام کی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں اور انکی “آزاد“ سوچ کی وجہ سے اسلام کا امیج خراب ہو رہا ہے تو اب اللہ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ مسلمان اور اسلام دشمن قوتیں الگ الگ ہو جائیں اور اپنے عزائیم واضح کر دیں ۔ ۔

رہی بات اقبال کی ۔ ۔ جی میں اقبال کو کیا سمجھوں گا ، لفظ خودی کا مطلب ہی نہیں معلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بتان وہم و گماں میں مبتلا ہونے کا کیا پتہ ۔ ۔ ۔ البتہ اقبال سے سیکھا بہت کچھ ہے

ویسے بھی ۔ ۔ ۔ اپنا اور امت کو دیکھ کر ایک دن تو یہ کہے گا ہی کوئی کہ

اقبال تیرے عشق نے سب بل دئیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی

ویسے یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں اقبال عظیم آبادی ہے


-----------------------------------------------------------------------------------------------
اور ایک اور بات کہ تہذیبوں کا تصادم کا جملہ پہلی بار مغرب میں ہی استعمال ہوا تھا ۔ ۔

ہاں نعمان مسلمان بھی مسلمانوں سے ڈر رہے ہیں جیسے میں آپ سے ڈرتا ہوں 8) مگر دوست وجہ کیا ہے ؟ مگر آپ کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ پاکستان یا کسی بھی اسلامی ملک میں زیادہ تر مسلمان “تشدد پسند“ ہیں اور بقول “عزت ماب بش“ کے “ریڈیکل اسلام“ کے داعی ہیں ۔ ۔ ۔ میرے اور آپ کے اردگرد کے زیادہ تر مسلمان صرف از صرف ذاتی زندگی کی آسائش پر یقین رکھتے ہیں (مجھ سمیت) ۔ ۔ ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اسلام رہتا ہے نہیں رہتا ۔ ۔ ۔ ہمیں بس رہنا چاہیے

خیر اگر ہم لوگ واقعات کے بجائے وجوہات پر بات کریں تو شاید ہمیں کچھ بہتر طریقے سے حالات تجزیے کے لئے مل سکیں بلکہ میں تو اس سے کچھ آگے آ کر بات کرنا چاہوں گا کہ سائنسی بنیادوں پر بات کی جائے یہاں سب ماشااللہ بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں اور حالات و واقعات پر انکی نظر بھی ہے اور نظریہ بھی ۔ ۔ کیا ہم تجزیاتی سائینس کو اس جائزہ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ؟

اللہ ہمیں ہدایت دے (آمین) اور ہمیں صحیح راستہ دیکھائے (ثم آمین)
 

نعمان

محفلین
پچھلی چند صدیوں سے توہین رسالت کے نام پر مسلمانوں کو اکثر جوش آتا رہا ہے۔ مگر تنزلی کا یہ سفر ناموس رسالت پر قتل و غارت گری سے رک جائے گا؟

اظہر آپ براہ مہربانی ٹو دی پوائنٹ بات کیا کریں۔ ہم یہاں یورپ کی جنگ و جدل کی بات نہیں کر رہے ہم یہاں عالم اسلام کی خودفریبی ڈسکس کررہے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ واقعات نہ دیکھیں واقعات کیسے ہوئے کیوں ہوئے یہ دیکھیں۔ اور اس بات کو قطعا نظرانداز کردیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط؟
 

اظہرالحق

محفلین
نعمان اسکو نظر انداز مت کریں کہ کیا صحیح ہے کیا غلط مگر یہ بات یاد ریکھیں جسے آپ غلط کہتے ہیں اسے کچھ لوگ صحیح سمجھتے ہیں اور جسے آپ صحح سمجھتے ہیں اسے کچھ غلط ۔ ۔ ۔

یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کسی بھی انقلاب سے پہلے ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ بہت سارے لوگ اسے غلط کہ رہے ہوتے ہیں مگر جب انقلاب آ جاتا ہے تو پھر اسی کے ساتھ ھو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

اور اسلام کی تنزلی کی وجہ خود نبی اکرم (ص) نے بتا دی تھی اور ہم آج واضح طور پر ایسے ہی تنکوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اپنے ہی اسلام کو غلط کہنے سے ذرا بھی نہیں چوکتے

ویسے مہربانی فرما کر مجھے عالم اسلام کی خود فریبی کی وضاحت فرما دیں تو میں شاید ٹو دا پواینٹ بات کر سکوں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top