عالمی برادری کو بلوچستان کے کشیدہ صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، نور الدین مینگل

کاشفی

محفلین
عالمی برادری کو بلوچستان کے کشیدہ صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے، نور الدین مینگل

noordin-mengal.jpg

کوئٹہ (آن لائن) اقوام متحدہ میں بلوچ نمائندہ میر نوردین مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے کشیدہ صورتحال کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے اس وقت بھی بلوچستان کے لوگوں کا خون بہہ رہا ہیں اور وہاں کے لوگ ماتم میں مبتلا ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے متعلق منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر بلوچ نمائندہ مہران بلوچ، کچکول بلوچ ایڈووکیٹ،سابق معبر یورپی پارلیمنٹ پولو کسکا، جولیا گروننفلدڈربھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ ایک پرزور آپریشن کا سامنا کررہے ہے لیکن ریاستی فورسز کے اس اندھا دھند عمل سے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ممالک پر کوئی فرق نہیں پڑرہا ہیں جس دن سے ریاستی فورسز نے بلوچستان پر زبردستی قبضہ کیا اس دن سے بلوچ قوم کااستحصال کیا جارہا ہے ریاست نے ہمیشہ بلوچ قومی تحریک کو مسلسل دبانے کی کوشش کی اور لوگوں کی حقوق اور آزادی کی جدوجہد کیخلاف ہمیشہ طاقت کی بے دریغ استعمال کی ہیں اور بلوچ سرزمین کو لوٹتے رہے ہے انہوں نے کہا کہ ریاستی فورسزدن دیہاڑے لوگوں کو اٹھا کر مار دیتی ہیں دوسری جانب ریاست کے بنائے ہوئے بنیاد پرست ڈیتھ اسکواڈ بلوچ قوم پرستوں اور ہزارہ کیمونٹی کے لوگوں کو کھلے عام قتل کررہے ہیں اور وہ ہر قسم کی سزا سے مستثنیٰ ہیں ریاست کے سپر اسٹریٹجک اثاثے ہزارہ برادری کی بے رحمانہ نسل کشی کررہے ہے، پرامن مظاہرین کو طاقت سے دبایا جاتا ہے، سیاسی نمائندوں کو غیر قانونی طور پر غائب کیا جاتا ہے، آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے جبکہ دوسری جانب بنیاد پرست تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ چین نے اسلام آباد کے ساتھ گوادر پورٹ کے متعلق معاہدہ کرکے جلتی پر تیل ڈال دی ہے، چین بھی بلوچوں کے حالات زار کرنے میں اہم کردار ادا کی ہے بلوچ قوم امید کرتا ہے کہ چین ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے بلوچوں کے تحفظات کا خیال کریں جبکہ ایران اور ریاست نے ملکر گیس پائپ لائن کا آغاز کیا ہے جو کہ بلوچ قوم کے خواہشات کے برخلاف ہیں اس پائپ لائن کے آڑ میں ریاست بلوچستان میں اپنی کارروائیاں مزید تیز کرکے وہاں عسکری نقل و حرکت میں اضافہ کرے گی ریاست کی سیاسی تنظیمیں ایک طرف دعوے اور دوسری جانب فورسزکی پالیسیاں خاموشی سے قبول کرچکے ہے۔
 
Top