عارضی سی زندگی میں مت سدا کی بات کر------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
-----------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
----------
عارضی سی زندگی میں مت سدا کی بات کر
ہو سکے تو ہر کسی سے تُو وفا کی بات کر
-----
بچپنے کو چھوڑ کر ہے پچپنے میں آ گیا
چھوڑ دنیا کی یہ باتیں اب خدا کی بات کر
-------------
کام لوگوں کو ستانا تھا ہمیشہ ہی ترا
تیری دنیا کو جو بھائی اس ادا کی بات کر
------
خود ہی مجرم خود ہی منصف اس طرح ہوتا نہیں
ہاتھ تیرے صاف ہیں گر تب سزا کی بات کر
--------------
جل رہے انسان کیوں ہیں نفرتوں کی آگ میں
جو محبّت کو ابھارے اس صدا کی بات کر
------------------
جو پرانی ہو چکی ہیں وہ خطائیں بھول جا
آج تجھ سے جو ہوئی ہے اس خطا کی بات کر
---------
بات کرتے ہو وفا کی ہاتھ میں خنجر لئے
گر جفائیں چھوڑ دیں ہیں ، تب وفا کی بات کر
-----------
جانتا تھا یہ گنہ ہے پھر بھی کرتا ہی رہا
اب تلافی ہو نہ پائے اب سزا کی بات کر
-----------
زندگی میں جو کیا ہے اس پہ ہو گا فیصلہ
وقت باقی اب کہاں ہے اب قضا کی بات کر
-------
وہ خدا ہے بخش دے گا سب خطاؤں کو تری
گر تُو توبہ کر چکا ہے پھر عطا کی بات کر
-------------
دل دکھانے کی یہ باتیں اب تو ارشد چھوڑ دے
جو مٹائے غم سبھی کے اس ہوا کی بات کر
----------
 

الف عین

لائبریرین
خواہ مخواہ کی قافیہ بندی لگ رہی ہے مجھے یہ غزل، اسے خود ہی غور سے پڑھیں اور ہر شعر کی خامیاں تلاش کریں، یقین ہے کہ خود ہی اسے دیکھ سکیں گے
 
Top