طُوفانِ غم شدید تھا ، دِل ننّھا سا دِیا۔ شہزاد قیس

شیزان

لائبریرین
طُوفانِ غم شدید تھا ، دِل ننّھا سا دِیا
جو کرنا تھا ہواؤں نے ، دِل کھول کر کیا

بنجر ترین ذات پہ ، کچھ ترس آ گیا
اُس نے مرے وُجود کو ، اشکوں سے بھر دیا

جس شخص کے ، میں نام سے لا علم تھا ابھی
گھر میں بٹھا لیا اُسے ، یہ دل نے کیا کِیا

محشر سے بھی طویل تھی ، شامِ فراق دوست!
گویا تمہارا نام قیامت تلک لیا

زخموں کا اَندمال ہیں ، دیپک نِگاہ کے
شبنم پرو کے پلکوں میں صد بار دِل سِیا

اب صورِ حشر پُھونک دے ، مُورت میں قلب کی
منصور بن کے بیٹھے ہیں ، ہم "کن" سے ساقیا

نفرت کے لفظ اِتنے ہوا میں اُڑا دئیے
سانسوں میں زَہر بھر گیا ، بچوں نے بھی پیا

سارے گناہ گار ، مخالف فریق ہیں
اپنے قلعے میں پھرتے ہیں ہر سمت اولیا


اِک حسنِ پارسی جو مسیحائے لمس تھا
ماتھے کو لب سے چُھو کے ، سکھاتا تھا کیمیا

مجنوں تو جانے کتنے ہی گمنام مر گئے
برکت ہے اسمِ لیلیٰ کی ، قیس آج تک جیا



شہزاد قیس
 
آخری تدوین:
Top