طُور

حیدرآبادی

محفلین
طُور
یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے
یہیں کی جراءتِ اظہارِ حرفِ مدعا میں نے
یہیں دیکھے تھے عشوِ ناز و اندازِ حیا میں نے
یہیں پہلے سنی تھی دل دھڑکنے کی صدا میں نے

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

دلوں میں اژدھامِ آرزو لب بند رہتے تھے
نظر سے گفتگو ہوتی تھی دم الفت کا بھرتے تھے
نہ ماتھے پر شکن ہوتی ، نہ جب تیور بدلتے تھے
خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

وہ کیا آتا کہ گویا دور میں جامِ شراب آتا
وہ کیا آتا رنگیلی راگنی رنگیں رباب آتا
مجھے رنگینیوں میں رنگنے وہ رنگیں شباب آتا
لبوں کی مے پلانے جھومتا مستِ شباب آتا

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

حیا کے بوجھ سے جب ہر قدم پر لغزشیں ہوتیں
فضا میں منتشر رنگیں بدن کی لرزشیں ہوتیں
ربابِ دل کے تاروں میں مسلسل جنبشیں ہوتیں
خفائے راز کی پُر لطف باہم کوششیں ہوتیں

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

بلائے فکرِ فردا ہم سے کوسوں دور ہوتی تھی
سرورِ سرمدی سے زندگی معمور ہوتی تھی
ہماری خلوتِ معصوم رشکِ طُور ہوتی تھی
ملک جھولا جھلاتے تھے غزل خواں حُور ہوتی تھی

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

نہ اب وہ کھیت باقی ہیں نہ وہ آبِ رواں باقی
مگر اُس عیشِ رفتہ کا ہے اک دھندلا نشاں باقی​
 
Top