طوطا کہانی باتصویر

شمشاد

لائبریرین
اُنیسویں داستان کہ ایک گیدڑ رات کو رنگریز کے گھر نیل کی مٹھور میں گر کر سیاہ ہو گیا تھا

جب دن گزرا اور رات آئی، تب خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی۔ اور اُسے متفکر دیکھ کر کہنے لگی کہ اے عقلمند طوطے تو کس واسطے غم کھاتا ہے اور کیوں چپکا بیٹھا ہے۔ طوطے نے کہا اے خجستہ تو بڑے گھر کی بہو بیٹی کہلاتی ہے اور نہیں معلوم کہ معشوق تیرا تجھ سا ہے یا اور کسی قوم سے ہے۔ اگر تجھ سا ہے تو اُس سے ملنا مضائقہ نہیں اور نہیں تو اُس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔

دوھرا

اُتم سے اُتم ملے، ملے نیچ سے نیچ
پانی سے پانی ملے، ملے کیچ سے کیچ​

فرد

کبوتر با کبوتر باز با باز
کند ہمجنس باہمجنس پرواز​

خجستہ نے کہا اے محرم راز یہ تو سچ ہے پر میں احوال اُس کا کیونکر بیان کروں۔ طوطا بولا کہ عیب و ہُنر آدمی کا زبان سے معلوم ہوتا ہے۔ تو نے شاید گیدڑ کا قصہ نہیں سُنا۔ خجستہ نے کہا کہ اے شیریں سخن وہ کیونکر ہے۔ کہہ میری جان خدا کے لیے۔

حکایت

طوطے نے کہا کہ ایک گیدڑ تھا وہ ہمیشہ شہر میں جاتا اوور ہر ایک آدمی کے باسنوں میں منہ ڈالتا۔ چنانچہ اسی اپنی عادت سے ایک رات کسی نیل کے گھر گیا اور اُس کے نیل کے باٹھ میں منہ ڈالتے ہی اُس میں گر پڑا اور تمام بدن اُس کا نیلا ہو گیا۔ غرض بہزار خرابی اُس میں سے نکلا اور جنگل کا راستہ پکڑا اورو وہاں کے حیوانوں نے اُس رنگ کو کچھ بہتر جان کر سب نے اُس کو بادشاہ کیا اوراُس کے حکم میں بخوبی در آئے اور وہ سردار گیدڑ اس واسطے کہ کوئی آواز اُس کی سُنکر نہ پہچانے، چھوٹے چھوٹے جانوروں کو دربار کے وقت اپنے پاس کھڑا کرتا۔ چنانچہ دربار کے وقت اُس قوم کو صف اول میں جگہ دیتا اور لومڑیوں کو دوسری میں، ہرنوں اور بندروں کو تیسری میں، بھیڑیوں کو چوتھی میں، شیروں کو پانچویں میں، ہاتھیوں کو چھٹی میں اور کہتا کہ تم سب اپنے اپنےقرینے سے حاضر رہو اور شام کو جس وقت گیدڑ بولتے، وہ آپ بھی ان کے ساتھ بولتا۔ اسی سبب سے اُس کو کوئی نہ پہچانتا۔ بعد کتنے دنوں کے وہ سردار ان سب گیدڑوں پر خفا ہوا اور رات کو اپنے پاس سے سرکا دیا اور اُن کی جگہ پر اور جانور درندے بلائے۔ جو اُس کے پاس کھڑے تھے۔ وہ اُس کی آواز پہچان گئے کہ یہ گیدڑ ہے اور آپ شرمندہ ہوئے اور اُسی گھڑی اُسے تکا بوٹی کیا۔ یہ کہہ کر طوطے نے خجستہ سے کہا کہ اے کدبانو ہر ایک شخص کا عیب و ہُنر گفتگو سے معلوم ہوتا ہے۔

اشعار

کہاں نقط فصیح اور طبع ناہنجار ہو پیدا
فغانِ زاغ سے طوطی کی کیا گفتار ہو پیدا

اگر ملکِ عراق اک مادہ خر سو بار ہو آوے
عراقی کی پر اُسمیں کاہیکو رفتار ہو پیدا​

اب اپنےمعشوق کے پاس جا اور اس سے بات چیت کر، تا عیب و ہنر اُس کا تجھے معلوم ہو۔ یہ سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ جاوے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھنے لگی اور رونے لگی۔

بیت

اے سحر کیا کیا تو نے
وصل کی شب کو کھو دیا تو نے​
 

شمشاد

لائبریرین
بیسویں داستان ایک اعرابی نے بشیر نامی ایک شخص سے دوستی خرچ کر کے مارپیٹ کھائی۔ اور زندگانی کاحظ اُٹھایا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا تب خجستہ رخصت لینے کے واسطے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے میں تیرے پاس ہر ایک شب رخصت لینے آتی ہوں یا نصیحت سننے جو تو جھوٹ موٹ اِدھر اُدھر کی باتیں بناتا ہے اور اپنی دانائی دکھاتا ہے۔ کیا خوب اُس کو کیا کروں۔

فرد

اشک اُمنڈا ہوا پھر ضبط سے کم رُکتا ہے
ناصحا اُٹھ مری بالیں سے کہ دم رکتا ہے​

طوطا کہنے لگا اے خجستہ خاطر جمع رکھ۔ اب جلد اپنے یار سے ملے گی جیسے کہ ایک اعرابی نے پہلے مصیبت اُٹھائی پھر پیچھے راحت پائی۔

بیت

اُٹھاتا نہیں جب ملک کوئی رنج
تو ملتا نہیں تب تلک اُسکو گنج​

یہ سخن سنتے ہی خجستہ نے کہا کہ اے طوطے تیرے منہ میں شکر، میں واری، وہ کیونکر مجھ سے ملے گا۔ سچ کہ مثل مشہور ہے۔ آسا جیئے نراسا مرے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کشی شہر میں بشیر نامی ایک جوان خوبصورت رہتا تھا۔ چندو نام ایک عورت صاحب جمال سے اُس نے دوستی کی۔ بعد ایک مدت احوال اُن دونوں کی دوستی کا ظاہر ہوا۔ جب اُس کے خصم نے اپنی جورو کو اُس کے میکے میں لے جا کر رکھا، تب بشیر اُس کی جدائی میں دن رات روتا تھاق اور اُسی طرح سے آہ و زاری میں اوقات بسر کرتا تھا۔ کسی ایک اعرابی سے کہ وہ قدیم اُس کے دوستوں میں تھا۔ جا کر کہا کہ اے دوست جانی میں چندو کے گھر جاتا ہوں۔ اگر تو بھی میرے ساتھ چلے تو بہتر ہے کہ لوگ کہتے ہیں ایک اور ایک گیارہ۔ اعرابی نے اُس کا کہنا قبول کیا، اور اُس کے ساتھ ہو لیا۔ بعد دو چار دن کے اُس شہر کے نزدیک پہنچکر بشیر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اور اُس اعرابی کو اپنی خبر پہنچانے کے لئے چندو کے گھر بھیجا۔ آخر وہ شخص اُس کے گھر جا کر چندو معشوق بشیر سے کہنے لگا کہ اے چندو بشیر نے تجھے سلام کہا ہے۔ یہ سنتے ہی چندو بے اختیار خوش ہو کر کہنے لگی اے شخص تو ابھی جا اور میری طرف سے بھی اُسے سلام پہنچا اور یہ پیغام دے کہ رات کو تیرے پاپس اُس درخت کے نیچے آؤنگی اور جو کچھ کہنا ہے سو ملاقات پر موقوف ہے جب ملوں گی تب کہوں گی۔ آخر وہ اعرابی اُس کا پیغام لیکر بشیر کے پاس گیا اور جو جو اُس نے کہا تھا سو سو بخوبی اُسے سُنا دیا۔ جب رات ہوئی تب چندو ایک نہایت آراستگی سے آئی اور اُس کو گلے لگا کر رونے لگی اور وہ بھی اُسے چھاتی سے لگا کر بے اختیار رو اُٹھا۔

حسن

کہوں کیا میں اُس وقت کا ماجرا
کہ جس طرح روتے تھے وہ غل مچا

وہ رو رو کے دونوں بہم یوں ملے
کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے​

بعد رونے کے بشیر نے کہا اے چندو آج کی رات تو یہاں رہے گی۔ چندو کہنے لگی کہ ایک صورت سے اگر یہ اعرابی ایک کام کرے تو البتہ رہوں۔ اعرابی نے پوچھا کہ وہ کیا کام ہے۔ چندو نے کہا کہ تو میرے کپڑے پہن کر میرے گھر جا اور گھونگھٹ سے منہ چُھپا کر انگنائی میں بیٹھ رہ۔ میرا خاوند آویگا اور دودھ کا پیالہ دے گا، اوور تجھے دے کر پینے کو کہے تو تو اُسے نہ لینا نہ اپنا گھونگھٹ کھولنا۔ آخر کار وہ پیالہ دودھ سے بھرا ہوا تیرے پاس رکھ دیگا اورباہر چلا جاوے گا۔ پھر تو اُسے اُس وقت مزے سے پینا اوراپنا پیٹ بھرنا۔ اعرابی نے یہ سخن قبول کیا اور اُس کے گھر جا کر اسی طرح سے گھونگھٹ سے منہ چھپا کر چپکا ہو کر بیٹھ رہا۔ اتنے میں اُس کا خاوند ایک پیالہ دودھ کا لئے ہوئے آیا اوور اس سے کہنے لگا۔ جانی یہ پیالہ میں تمہارے واسطے لایا ہوں۔ گھونگھٹ کھولو۔ اور دودھ پیؤ۔ غرج اُس نے گھونگھٹ نہہ کھولا نہ وہ پیالہ لیا۔ وہ غصہ ہو کر کوڑے بازی کرنے لگا اور کہنےے لگا۔ کہ میں جسقدر منت کرتا ہوں اورر تعشق جتاتا ہوں تو نہ تو منہ کھولتی ہے نہ بولتی ہے۔ حاصل کلام یہاں تک کوڑے مارے کہ پیٹھ اُس کی نیلی ہو کر اُدھڑ گئی اورآپ چلا گیا۔ جب وہ باہر نکلا تب اعرابی کبھی اپنے حال کو روتا تھا اور کبھی ہنستا تھا۔ اتنے میں چندو کی ماں نے آ کر سمجھایا کہ بی بی میں تجھے ہمیشہ نصیحت کرتی ہوں کہ ہر گھڑی کا نکٹورا چھا نہیں جانی۔ تو اُس کی اطاعت کیوں نہیں کرتی۔ اگر بشیر کا غم کرتی ہے تو پھرخاوند کا منہ نہ دیکھے گی۔ یہ کہہ کر اُس کی بہن کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ ماں واری تو جا کر اُس کو سمجھا کہ کیوں اپنے خاوند سےسلوک نہیں کرتی۔ یہ بات سنتے ہی چندو کی بہن کہ سچ مچ کی چندرمان سے خوبصورت تھی، آئی اور اعرابی کو گلے لگا کر کہنے لگی۔ بوا تو اپنے خاوند سے مت روٹھ۔ اعرابی نے اُس کا مکھڑا دیکھا تو اپنا دکھ کھوا اور چادر منہ سے اُٹھا کر کہنے لگا کہ تیری بہن بشیر کے پاس گئی ہے اور مجھے یہاں بھیجا ہہے۔ دیکھ تو میں نے اُس کے واسطے کیا آفت سہی ہے۔ اب تجھے لازم ہے کہ تو میرے پاس سو رہے کہ یہ راز فاش نہ کرے۔ نہین تو میں اور تیری بہن دونوں رسوا ہوں گے۔ یہ بات سُن کر وہ ہنسی اور اُس کے ساتھ سو رہی۔ قریب صبح کے وہ اعرابی چندو کے پاس گیا اورچندو نے پوچھا شب کیونکر گزری۔ اُس نے سب احوال اُس کے شوہر اوربہن کا کہا اور اپنی پیٹھ دکھا کر رو دیا۔ چندو نہایت شرمندہ ہوئی۔ پھر یہ بات سمجھی کہ رات میری بہن کے ساتھ اُس نے رنگ رلیاں مچائیں اور گلچھڑیاں اپنے دل کی کھولی ہیں۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے خجستہ اب سدہارو اور اپنے معشوق سے لطف اُٹھاؤ۔ خجسہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے معشوق کے پاس اپنے آپ کو پہنچا دے۔ اتنے میں فجر ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھ کر زار زار روے لگی۔

فرد

مجھے جس سحر نے جدا یار سے
کیا تھا وہی پھر وہ آئی سحر​
 

شمشاد

لائبریرین
اکیسویں داستان کہ ایک سوداگر اپنے گھر میں کھانا کھاتا تھا اورایک سوار آ کر شریک ہوا اور گھوڑا اُس کا مرا تو قاضی کےے پاس جا کے خود مقدمہ ہارا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ اچھےکپڑے پہن کر رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی، آج فرقت کےباعث کچھ دل کو نہایت بیقراری معلوم ہوتی ہے۔

فرد

پہنچا دے یہ پیام مرا کوئی یار تک
بے اختیاری تھام چکی اختیار تک​

اگرچہ میں اپنے محبوب کےے پاس جا سکتی ہوں مگر بغیر رخصت کے تیرے مصلحت نہیں دیکھتی کیونکہ میں تیری عقل پر اعتماد تمام رکھتی ہوں۔ اگر آج کی شب رخصت دے تو تمام عمر تیری احسانمند رہوں گی اور دعائیں دیا کروں گی۔ طوطے نے کہا کہ اے کدبانو جو عقلمند ہوتے ہیں سو بے مصلحت کام نہیں کرتے۔ تو خود دانشمند ہےے کہہ بے مشورت کے کبھی کچھ کام نہیں کرتی۔ یہ سچ ہے کہ اگر کوئی خدانخواستہ تجھ سے دشمنی کرے گا تو ہرگز اپنے شعور کے سبب اور تدبیر کی راہ سے کسی بلا میں نہ پڑے گی جس طرح ایک سوداگر نے اپنے علم اوردانائی کی راہ سے ایسا حیلہ کیا کہ پشیمان نہ ہوا۔

فرد

دانا کو کسی طرح سےذلت نہیں حاصل
حرمت نہیں رکھتا ہے کسی طرح سے جاہل​

خجستہ نے پوچھا اُس کی حکایت کیونکر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ اگلے زمانے میں ایک سوداگر نہایت عقلمند ایک گھوڑا بدخو رکھتا تھا۔ایک دن وہ اپنی ڈیوڑہی میں بیٹھا ہوا کھانا کھاتا تھا۔ اسی عرصہ میں ایک شخص گھوڑے پر سوار وہاں آیا۔ اُتر کر اُس کوسوداگر کے گھوڑے کے پاس باندہنے گا اور مستعد کھانا کھانے کو ہوا۔ سوداگر نے اُس سے کہا کہہ میرے گھوڑے کے پاس نہ باندھ خطا پاؤ گے اورمیرے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، شرمندگی اُٹھاؤ گے۔ اُس نے یہ بات نہ سُنی، گھوڑے کو وہیں باندھا اور آپ سوداگر کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ اُس نے کہا تو کون ہے کہ بے میرے کہے میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ اُس نے اپنے تئیں بہرا بنایا اور کچھ جواب نہ دیا۔ جب سوداگر نے جانا کہ یہ بہرا ہےے یاگونگا، یہ سمجھ کر چپکا ہو رہا۔ اتنے میں سوداگر کے گھوڑے نے ایسی لات دی کہ اُس کے گھوڑے کا پیٹ پھٹ گیا اوروہ مر گیا۔ تب اُس سوداگر سے قضیہ شروع کیا اور کہا کہ قیمت اُسکی میں تجھ سے لا کلام لوں گا۔ تیرے گھوڑے نے میرے گھوڑے کو مار ڈالا ہے۔ پھر اُس شخص نے قاضی کے پاس جا کرفریاد کی۔ قاضی نے اُس سوداگر کو بلوایا۔ اُس نے دربار میں حاضر ہو کر اپنے تئیں گونگا بنایا ۔ جو بات قاضی نے اُس سے پوچھی کچھ جواب نہ دیا۔ قاضی نے کہا یہ گونگا ہے۔ اس کی کچھ خطا نہیں۔ مدعی نے عرض کی کہ حضرت سلامت، آپ نے کیونکر معلوم کیا یہ گونگا ہے۔ اُس نے پہلے ہی مجھ سے کہا تھا کہ یہ گھوڑا شوخ ہے، اس کے پاس اپنے گھوڑے کو نہ باندھ، اب اُس نے اپنے تئیں گونگا کیا ہے۔ قاضی نے کہا ابے تو بڑا احمق ہے۔ آپ ہی اس کے منع کرنے کی گواہی دیتا ہے اور آپ ہی گھوڑے کا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس میں اس کی کیا تقصیر ہے۔ چل دور ہو سامنے سے۔ غرض قاضی نے اُس کو نکلوا دیا اور سوداگر کو رخصت کیا۔ یہ کہہ کر طوطے نے خجستہ سےکہا اچھا اب دیر نہ کرو۔ جاؤ اور اپنے معشوق کو گلے لگاؤ۔ کدبانو نے یہ سُنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُس محبوب کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

اے سحر ہاتھ سے ترے اب میں
شب امید اپنی کھو بیٹھی​
 

شمشاد

لائبریرین
بائیسویں داستان کہ ایک عورت نے شیر سے حیلہ کر کے اپنی جان بچائی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے محرم راز میرے اوپر رحم کر اور آج کی رات تو رخصت دے اور جوج مجھ سے کہنا ہے جلد کہدے۔ طوطے نے کہا اے کدبانو میں نےتجھے بارہا آزمایا، عاقل ہی پایا ہے۔ نصیحت میری کچھ درکار نہیں۔ خدانخواستہ اگر تجھ پر کوئی حادثہ پڑے تو تو بھی ایسا ہی حیلہ کرنا جیسا کہ ایک عورت نے شیر کیساتھ جنگل میں کیا تھا۔ کہ جس کے سبب کوئی آفت نہ پہنچی۔ خجستہ نے پوچھا وہ حکایت کون سی ہے۔ کہہ :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک شخص تھا۔ اُسکی جورو نہایت بدخو اور زبان دراز تھی۔ ایک دن اُس کے شوہر نے کسی تقصیر پر کئی کوڑے اُس کو مارے۔ وہ عورت اپنے دونوں لڑکوں کو لیکر جنگل میں چلی گئی۔ اتفاقاً اُس کو شیر نظر آیا۔ اُس کو دیکھ کر ڈری اور ہراساں ہو کر کہنے لگی کہ میں نے بُرا کیا جو شوہر کی

تصویر عورت بدزبان کی مع اُس کے دونوں لڑکوں کی شوہر سے ناراض ہو کر جنگل میں جانا اور شیر کا نظر آنا

TotaKahani5-1.jpg

بے مرضی باہر آئی۔ اگر اب کچھ آفت اس شیر کے ہاتھ سے مجھ پر نہ پڑی تو پھر گھر سے نہ نکلوں گی اور اُس کی فرمانبرداری میں رہا کروں گی۔ آخر اُس عورت نے بہانہ کر کے شیر سے کہا۔ اے شیر میرے پاس آ اور ایک بات میری سُن۔ شیر نے متعجب ہو کر کہا۔ اے عورت کہہ۔ وہ بولی کہ اس جنگل میں ایک ایسا بڑا شیر ہے کہ جس سے آدم حیوان سب ڈرتے ہیں اور بادشاہ بھی اُس کے کھانے کے واسطے دوچار آدمی روز بھیجا کرتا ہے۔ جس طرح سے کہ آج میرے دونوں لڑکوں کی باری ہے۔ اگر تیرا جی چاہے تو ان لڑکوں کو مجھ سے لے اور کھا کر اس جنگل سے بھاگ جا، تا کہ میں بھی اکیلی ہو کر اپنی راہ پکڑوں۔ یہ بات سُن کر شیر نے کہا اچھا جب تو نے تمام احوال اپنامجھ سے کہا تو مجھے لازم نہیں کہ تجھے یا تیرے لڑکوں کو کھاؤں، کسواسطے کہ مجھے بھی بھاگنے کی فرصت نہیں۔ یہ کہہ کر شیر نے ایک طرف کی راہ لی اور یہ بچوں سمیت گھر آئی۔ پھر تمام عمر اپنے خاوند کی فرمانبرداری میں رہنے لگی۔ یہ کہکر خجستہ سے کہا کہ اب دیر مت کر۔ اپنے معشوق کے پاس جا۔

دوھرا

جا کر اپنے یار کے سینے سے لگ کر سو
ماریں ونا کے ہر کو دونوں کرے وہو​

یہ سنتے ہی خجستہ نے چاہا کہ اُس کے پاس جائے اور زندگانی کا مزا اُٹھائے، اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے باگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف ہوا۔ تب یہ دوہرا پڑھا اور رونےلگی۔

دوہرا

پیتم یہ مت جانیو کہ تم بچھڑے موہے چین
جیسے بن کی لاکڑی سُلگت ہوں دن رین​
 

شمشاد

لائبریرین
تیئسویں داستان کہ خالص اور مخلص نےشاہزادے سے دوستی کی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے وہ کونسا وقت ہو گا کہ اُس کے پاس پہنچوں گی اور چاہتی ہوں کہ جاؤں پر جا نہیں سکتی۔

شعر

اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
آخر اس بیماری دل نے اپنا کام تمام کیا​

اور نہیں جانتی کہ میرے نصیب کیسے ہیں، جو اُس سے جُدا رکھتے ہیں۔ طوطے نے کہا اے خجستہ اب دل میرا گواہی دیتا ہے کہ تو جلد اپنے معشوق سے جا ملے گی۔ لیکن اُس سے مل کے شرطیں تمام دوستی کی بجا لانا اور کوئی بات باقی نہ رکھنا۔ جس طرح سے کہ خدمت شہزادے کی خالص اور مخلص نے کی بھی۔ کدبانو نے کہا حکایت اُن کی کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطے نے کہا کہ کسی وقت میں ایک بڑا بادشاہ تھا۔ اُس کے دو بیٹے تھے۔ جب بادشاہ نے اس دنیا سے کوچ کیا۔ تب تاج اور تخت کا مالک بڑا بیٹا ہوا اور اُس نے چاہا کہ چھوٹے بھائی کو مار ڈالے۔ تب وہ بیچارہ ڈرا اور اُس شہر سے بھاگا۔ بعد کئی روز کے ایک تالاب پر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک مینڈک کو سانپ پکڑے ہے اور مینڈک غل مچاتا ہے۔ اور یہ دوہا پڑھتا ہے۔

دوھا

یا رب ایسے وقت میں ایسا کوئی آئے
منہ سے جو اس سانپ کے میری جان بچائے​

یہ دوہا اُس مینڈک سے سنتے ہی شاہزادے نے ایسا ڈانٹا کہ مارے ڈر کے سانپ نے مینڈک کو چھوڑ دیا۔ مینڈک پانی میں چلا گیا اور سانپ وہیں کھڑا رہا۔ تب شہزادے نے سانپ سے شرمندگی کھینچی اور یہ بات اپنے جی میں کہی کہ کس واسطے میں نے نوالہ اُس کا اُس کے منہ سے چھڑایا۔ یہ کہہ کر تھوڑا گوشت اپنے بدن کا کاٹ کر شہزادے نے سانپ کے آگے ڈال دیا۔ وہ گوشت کی بوٹی منہ میں ڈال کر اپنی مادہ کے پاس گیا اور اُس کی مادہ نے جس وقت اُس گوشت کو کھایا۔ وہ اُس سے کہنے لگی کہ تو یہ گوشت مزیدار کہاں سے لایا۔ سانپ نے سب احوال اُس سے کہا۔ ساپن نے کہا کہ جو شخص تیرے ساتھ احسان کرے، پس تجھ کو بھی لازم ہے کہ تو بھی شکر اُس کا بجا لاوے اور اُس کی خدمت میں حاضر رہے۔ غرض سانپ آدمی کی صورت ہو کر شاہزادے کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ نام میرا خالص ہے۔ یہ چاہتا ہوں کہ خدمت میں آپ کی حاضر رہوں۔ شہزادے نے قبول کیا اور وہ مینڈک جو سانپ کے منہ سے چھوٹا تھا، لہو لہان اپنی مادہ کے پاس گیا اور یہ سب احوال اپنی مادہ سے کہا۔ تب اُسکی مادہ نے سنتے ہی اس احوال کے کہا کہ تو اب اُس شخص کی خدمت میں جا کر حاضر رہ۔ آخر مینڈک بھی سانپ کی طرح آدمی کی صورت ہو کر شاہزادے کی خدمت میں گیا اور کہا کہ نام میرا مخلص ہے۔ آرزو رکھتا ہوں کہ میں آپ کی خدمت میں نوکروں کی طرح حاضر رہوں۔ شاہزادے نے اُس کو بھی اپنی خدمت میں رکھا۔ پھر وہ تینوں وہاں سے چلے اور کسی شہر میں پہنچے۔ شاہزادے نے وہاں کے بادشاہ سے جا کر عرض کی کہ میں ایسی شجاعت رکھتا ہوں کہ اکیلا سو آدمی سے لڑ سکتا ہوں۔ ہزار روپے روز پاؤں تو خدمت عالی میں حاضر رہوں اور جس وقت جو کام فرمائیے گا وہیں اُسے سر انجام کو پہنچاؤں گا۔ بادشاہ نے اُس کو نوکر رکھا اور ہزار روپے کا روزانہ مقرر کیا۔ شہزادہ ہزار روپے لیکر سو آپ خرچ کرتا اور ۔۔۔۔۔ ان دونوں کو دیتا، باقی خدا کی راہ میں صرف کرتا اور خیرات کرتا۔ ایکدن بادشاہ مچھلی کے شکار کو گیا۔ اتفاقاً اُس کی انگوٹھی دریا میں گر پڑی۔ ہر چند جستجو کی ہاتھ نہ آئی۔ تب شہزادے سے کہا کہ میری انگوٹھی دریا سے نکال لا۔ شہزادے نے اپنے ہمراہیوں کو کہا کہ بادشاہ نے ارشاد کیاہے۔ اُنہوں نے عرض کی کہ یہ کون سا بڑا کام ہے جو بادشاہ نے فرمایا ہے۔ پھر مخلص نے کہا خاطر جمع رکھیے یہ کام میرا ہے۔ میں بجا لاؤں گا۔ وہیں مینڈک کی صورت بنکر دریا میں گیا اور غوطہ مار کر انگوٹھی لے آیا۔ شہزادہ اُس انگوٹھی کو لیکر بادشاہ کے پاس گیا اور انگوٹھی پیش کی۔ بادشاہ نے لیکر اُس پر بہت مہربانی فرمائی۔ بعد کئی دن کے بادشاہ کی بیٹی کو سانپ نے کاٹا۔ حکیموں نے بہت سی دوا کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تب بادشاہ نے شہزادے کو کہا کہ میری لڑکی کو اچھا کر۔ شاہزادہ اس بات سے حیران ہوا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ یہ کام میرا نہیں۔ خالص نے اپنی عقل سے دریافت کیا اور کہا کہ مجھے اُس لڑکی کے پاس لے چلو اور ایک خلوت خانہ میں ہم دونوں کو بٹھلا دو۔ خدا کے فصل سے میں اُسے اچھا کروں گا۔ شاہزادہ اُسے لیکر اور ایک حجرے میں دونوں کو بٹھلا کر نکل آیا۔ خالص نے اپنے منہ کو اُس سانپ کے زخم پر رکھا اور زہر سب چوس لیا۔ لڑکی اُسی وقت اچھی ہو گئی۔ تب بادشاہ شہزادے سے یہاں تک خوش ہوا کہ اُس لڑکی کا بیاہ اُس کے ساتھ کر دیا اور اپنا ولی عہد کیا۔۔ کتنے دنوں کے بعد خالص اورو مخلص نے عرض کی اب ہم رخصت چاہتے ہیں۔ شاہزادے نے کہا کہ یہ کون سا وقت ہے کہ رخصت مانگتے ہو۔ خالص نے کہا کہ میں وہی سانپ ہوں کہہ مجھے گوشت آپ نے اپنے بدن کا کھلایا تھا۔ اور مخلص نے کہا کہ میں وہی مینڈک ہوں کہ مجھے سانپ کے منہ سے چھڑایا۔ اب ہم امیدوار ہیں کہ اپنے اپنے گھر جائیں۔ شاہزادے نے دونوں کو رخصت کیا۔ یہ کہانی خجستہ سے طوطے نے کہہ کر کہا اچھا اب جا اور دیر نہ لگا۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اپنے یار کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ دوہا پڑھ کر رونے لگی۔

دوھا

نین بھئے ہیں دھونھنے نیر رہو بھر پور
انجن کارن بھیجیو تنک چرن کی دھور​
 

شمشاد

لائبریرین
چوبیسویں داستان گم ہونا سوداگر کی لڑکی کا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور متفکر ہو کر بیٹھی۔ طوطے نے اُس کو حیران دیکھ کر کہا کہ اے کدبانو آج کی شب تو کیوں اِسقدر متفکر ہے۔

تجھے دیکھنا یوں گوارا نہیں
اس اندوہ کامجھ کو چارا نہیں​

بی بی خدا کے لیے کسی چیز کا غم نہ کھا اور کچھ اندیشہ اپنے جی میں نہ لا۔

حسن

یہ حُسن و جوانی اور اُسپر یہ غم
ستم ہے ستم ہے ستم ہے ستم​

جب خجستہ نے یہ مضمون طوطے کی زبان سے سُنا، تب اُس نے اُسی ڈھب کے شعر پڑھے۔

اشعار

کیاکہوں کچھ کہا نہیں جاتا
ہائے چب بھی رہا نہیں جاتا

بےملے اُسکے گل نہیں پڑتی
اور ملوں تو ملا نہیں جاتا​

پھر کہنے لگی کہ اے طوطے میں رات سے اسی فکر میں ہوں کہ معشوق میرا دانا ہے یا نادان عالم ہے یا جاہل۔ اگر چتر ہے تو اُس سے دوستی کرنا بہتر ہے اور اگر مورکھ ہے تو اُس سے دور ہی رہنا چاہیے۔ کیونکہ بیوقوف سے دوستی کرنا ایسا ہے جیسا کوئی اپنے جی سے دشمنی کرے۔ طوطے نے کہا اے خجستہ تو جا اور یہ نقل سوداگر کی بیٹی کے گُم ہونے کی اُس سے کہہ۔ اگر وہ عقلمند ہے اور ہوشیار، تو اس کا تجربہ کر۔ اگر تیرے سوال کا جواب دے دے تو دانا جانیو نہیں تو نادان سمجھیو۔ خجستہ نے پوچھا کہ وہ حکایت کیونکر ہے۔ کہہ :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کابل میں ایک سوداگر مالدار تھا اور اُس کی زہرا نام بیٹی بہت خوبصورت تھی۔ تمام شہر کے عمدہ لوگ اُس کی آرزو کہتے تھے پر وہ کسی کو قبول نہ کرتی تھی اور اپنے باپ سے یہی کہتی تھی کہ میں اُس شخص سے شادی کروں گی جو دانشمند کامل ہو گا۔ اور ہنرمند بے بدل۔اس بات کا شہرہ ہر ایک شہر میں پہنچا۔ غرض کسی ملک میں تین جوان تھے۔ وہ تینوں کابل میں جا کر اُس سوداگر سے کہنے لگے اے شخص اگر تیری لڑکی شوہر ہُنر مند چاہتی ہے تو ہم تینوں آدمی حاضر ہیں کہ بالفعل اس جہان میں ہمارے برابر ہنرمند کوئی نہیں ہے۔ اُس نے پوچھا کیا ہنر رکھتے ہو۔ اُن ہی میں سے پہلے ایک نے کہا میں یہ ہنر رکھتا ہوں کہ جو چیز گم ہو بتا دیتا ہوں اور جس جگہ ہو نکال دیتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میں کل کا گھوڑا ایسا بناؤں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت سے بھی آگے اُڑاؤں۔ تیسرے نے کہا کہ میں وہ تیر انداز ہوں۔ جو میرے تیر کا پھل کھاوے سو کھیت چھوڑ باہر نہ جاوے۔ یہ سخن سُنکر وہ تاجر اپنی بیٹی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بیٹی آج تین شخص ایسے ہنر مند آئے ہیں۔ اب کیاکہتی ہے۔ اُس نے تعریف سُنکر کہا۔ بابا جان میں اپنے جی میں سوچ کر کل اس بات کا جواب دوں گی۔ اور اُن میں سے ایک کو پسند کر لوں گی۔ یہ بات کہہ کر آپ رات کے وقت گُم ہو گئی۔ صبح کو اُس کے باپ نے ہر چند ڈھونڈا، کہیں نہ پایا۔ خدا جانے کہاں گئی۔ صبح کو سوداگر پہلے شخص کے پاس گیا اور پوچھا۔ سچ کہہ کہ میری لڑکی یہاں سے کہاں گئی اور کہاں ہے؟ اُس نے یہ بات سنتے ہی تامل کیا اور بعد ایک گھڑی کے کہا کہ اُس کو ایک پری فلاں پہاڑ پر لے گئی ہے کہ وہاں نہ تو کوئی جا سکتا ہے نہ کوئی اُس کی خبر لا سکتا ہے۔ تب اُس سوداگر نے دوسرے سے کہا کہ تو کاٹھ کا گھوڑا بنا کر اُس تیسرے جوان تیر انداز کو دے کہ وہ اُس گھوڑے پر سوار ہو کر جاوے اور اُس پری کو تیر سے مار کر میری لڑکی کو اپنے پیچھے چڑہاکر لے آؤئے۔ آخر کار اُس نے کاٹھ کا گھوڑا اُس تیر انداز کو دیا۔ وہ اُس گھوڑے پر سوار ہو کر اُس پہاڑ پر گیا اور ایک تیر اُس پری کو مار کر اُسے لے آیا۔ پھر وہ تینوں جوان اُس لڑکی پر عاشق ہو کر آپس میں قصہ کرنے لگے۔ ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں ہی اپنی شادی اس کے ساتھ کروں۔ طوطے نے جس گھڑی یہ سخن یہاں تک پہنچایا۔ خجستہ سے کہا یہ حکایت اپنے معشوق سے پوچھ کہ وہ لڑکی اُن تینوں سے کس کو دینی پہنچتی ہے۔ اگر جواب باصواب دے تو جانیو کہ ہشیار ہے اور نہیں تو نالایق و نابکار۔ خجستہ نے کہا اے طوطے پہلے تو مجھ سے تو کہہ دے کہ وہ کسے پہنچتی ہے۔ بھلا میں دریافت کر رکھوں۔ طوطے نے نے کہا۔ اُسے پہنچتی ہے جو پری کو مار کر اُسے لے آیا ہے۔ کیونکہ اُن دونوں نے اپنا ہنر دکھلایا اور وہ اپنے جی پر کھیلا جو ایسے خوف کے مکان پر گیا اور اُس کو لے آیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے خجستہ اب جا اور اُس سے مل۔

فرد

کہاں پھر یہ موسم جوانی کہاں
غنیمت سمجھ صحبتِ دوستاں​

خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُس گلرو کو گلے لگاوے، اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ دوہا پڑھا اور رونے لگی۔

دوھا

آؤ پیارے نین میں پلک ڈہانب تو ہے لُوں
نا میں دیکھوں اور کو نہ تو ہے دیکھن دُوں​
 

شمشاد

لائبریرین
پچیسویں داستان کہ برہمن نے بابل کے بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہو کر اپنی دانائی سے مع مال اور اسباب اُس کو پایا

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا، تب خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے عقلمند بھلی بات کی نصیحت کرنے والے اور اے وفادار حرمت کے رکھنے والے بہتر یہی ہے کہ آج مجھے جلد رخصت کر۔

فرد

ساقی خبر شتاب لے میرے خمار کی
طاقت نہیں رہی مجھے اب انتظار کی​

اور نہیں تو صاف جواب دے کہ صبر کر کے بیٹھ رہوں، اور یہ فرد پڑھا کروں۔

فرد

بلبلو جاؤ تمہیں گل کے گلے سے لگ لو
دستِ صیاد سے گلشن کو میں رو بیٹھی ہوں​

طوطا کہنے لگا اے خجستہ میں تجھے ہر ایک شب رخصت کرتا ہوں، پر کہا نہیں جاتا کہ نصیب تیرے کیسے ہیں کہ تجھ سے یاری نہیں کرتے۔ بہتر ہے کہ آج شتاب جا اور اپنے معشوق سے جا کر ملاقات کر۔ لیکن یہہ نصیحت میری یاد رکھیو کہ جو کام کرنا سو ایسا کرنا جس کے سبب سے کسی آفت میں نہ پڑو۔ بلکہ کچھ فائدہ اُٹھاؤ۔ جیسا ایک برہمن رائے بابل کی بیٹی پر عاشق ہوا اور ایک تدبیر سے معشوق اور مال و اسباب اُس کے ہاتھ آیا اور کسی آفت میں نہ پھنسا۔

شعر

شرط سلیقہ ہے ہر ایک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہُنر چاہیے​

خجستہ نے پوچھا وہ حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک برہمن خوبصورت عقلمند گردش فلکی سے اپنے شہر کو چھوڑ کر رائے بابل کے ملک میں گیا اور ایک دن کسی باغ میں جا کر سیر گل و غنچہ کی کرنے لگا۔ قضا رائے بابل کی بیٹی بھی اُس چمنستان میں بہار لالہ و گل کی دیکھتی پھرتی تھی۔ اتفاقاً نظر اُس برہمن کی اُس مہ جبین پر پڑی اور اُس لڑکی کی آنکھ بھی اُس برہمن مہر طلعت کی آنکھ سے لڑی۔ جوانی کی اُمنگ نے اپنی قوت دکھائی اورشعلہ عشق نے آتش محبت دونوں طوف سے بھڑکائی۔ حاصل کلام یہ ہے۔

حسن

ہوئے دونوں وے عشق کے دستگیر
مقید یہ اُس کا وہ اُس کی اسیر​

بعد دو چار گھڑی کے دونوں اپنے اپنے گھر آئے۔ وہ دیوانی ہوئی اور یہ بیمار پڑا۔ آخر یہ برہمن ایک جادوگر کے پاس جا کر اُس کے قدم پر گرا ور یہ قطعہ پڑھنے لگا۔

قطعہ

رنج کھینچے ہیں داغ کھائے ہیں
دل نے صدمے بڑے اٹھائے ہیں

اب قدم آپ کے نہ چھوڑوں گا
بڑی محنت سے میں نے پائے ہیں​

اور اُس جادوگر کی یہاں تک خدمت کی کہ وہ اُسکی جانفشانی دیکھ کر شرمندہ ہوا۔ اور ایک دن مہربان ہو کر پوچھنے لگا۔ اے غریب آشفتہ طلعت تو آزمائش چاہتا ہے یا کچھ کام دنیوی رکھتا ہے۔ جو کچھ درکار ہو اُس کا انجام یہ فقیر کردے۔ برہمن نے یہ سخن سُن کر اُس جادوگر کے سامنے ہاتھ باندھ کر اپنا احوال بخوبی تمام ظاہر کیا۔ تب اُس نے کہا خیر میں جانتا تھا کہ مجھ سے کان زر چاہے گا یا کچھ ایسا کام کہے گا کہ وہ مجھ سے نہ ہ سکے گا اور آدمی کو آدمی سےے ملانا کیا بڑی بات ہے۔ یہ کہہ کر اُس گھڑی ایک مُہرہ حکمت کا بنا کر اُس برہمن کو دیا اور کہنے لگا کہ یہ مہرہ اگر اپنے منہ میں رکھے تو عورت معلوم ہووے اور اگر عورت رکھے تو مرد معلوم ہووے۔ یہ کہہ کر ایک دن وہ جادوگر اُس برہمن کی شکل ہو اور اُس برہمن کو برہمنی کی صورت بنا کر رائے بابل کے پاس جا کر کہنے لگا۔ کہ مہاراج کی جے ہو۔ میں برہمن ہوں۔ میرا لڑکا دیوانہ ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ یہ اُسکی جورو ہے۔ اگر اس کو اپنے پاس گھر میں دو چار دن کے واسطے جگہ دو گے تو اس عرصہ میں میں اپنے لڑکے کو ڈھونڈھ نکالوں گا۔ رائے بابل نے یہ بات اُس کی قبول کی اور اُس برہمنی کو اپنے گھر میں جگہ رہنے کو دی۔ اور برہمن جادوگر کو کچھ خرچ راہ دلوا کر رخصت کیا۔ پھر اُس برہمنی کو اپنی بیٹی کے پاس رکھا۔ دونوں بخوبی آپسمیں عاشق اور معشوق ملے۔ خجستہ تو نے دیکھا کہ کس حکمت سے اُس جادوگر نے برہمن کو اُسکی آشنا کے پاس پہنچا دیا اور آپ بھی کچھ روپیہ لیکر اپنے گھر گیا۔ غرض وہ لڑکی برہمنی کو بہت سا پیار کرنے لگی۔ تب ایک دن برہمنی نے پوچھا کہ رنگ تیرا دن بدن زرد ہوتا جاتا ہے اور آنکھوں سے رات دن آنسو جاری ہیں۔ بیماروں کا سا حال بنایا ہے۔ سچ کہہ کیا کسی سے دل لگایا ہے۔ اُس لڑکی نے چاہا کہ اپنا احوال اُس سے چھپاوے۔ پر برہمنی نے اُس سے چالاکی کر کے کہا میں جانتی ہوں کہ تو کسی پر عاشق ہے۔ اگر راز اپنا مجھ سے کہے گی تو کارسازی تیری کروں گی۔ تب اُس لڑکی نے تمام حقیقت موبمو اس طور سے کہہ سُنائی کہ میں ایک برہمن بچے پر مرتی ہوں اور اُس کے غم میں اپنی جوانی کے دن بھرتی ہوں۔ وہ برہمن جو برہمنی کے بھیس میں تھا کہنے لگا کہ سچ کہہ۔ اگر تو اُس برہمن کو دیکھے تو پہچانے۔ اُس نے کہا البتہ اگر اُس کو دیکھوں گی تو پہچان لوں گی۔ اُس نے مُہرہ اپنے منہ سے اُگل دیا، وہیں اپنی صورت پر آ گیا اوور اُس نے اُسے پہچان کر خوب گلے سے لگایا اور ایک عجیب طرح پر چین اُٹھایا۔ بعد کتنے دنوں کے آپس میں مشورت کر کے کہنے لگا۔ کہ اب یہاں کا رہنا اچھا نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس ملک سے نکلیے اورکسی شہر میں چل کر بے کھٹکے رہیے۔ یہ ٹھہرا کر رائے بابل کی بیٹی بہت سا زر و جواہر اپنے باپ کے خزانے سے لیکر برہمن کے ساتھ آدہی رات کو اپنے گھر سے باہر نکلی اور کسی اور ملک کی راہ لی۔ کتنے دن میں کسی اور بادشاہ کے شہر میں جا کر داخل ہوئی، اور ایک مکان سر بازار اچھا سا بنا کر رہنے لگی۔ اور راپنے دل کی تمنا بیدھڑک ہو کر نکالنے لگی۔ اور اگر کبھی اختلاط کے وقت شعر خوانی پر جی چلتا تو یہ قطعہ پڑتی۔

قطعہ

صبح تو جام سے گزرتی ہے
شب دلآرام سے گذرتی ہے

عاقبت کی خبر خدا جانے
اب تو آرام سے گذرتی ہے​

جب اُس لڑکی کے باپ نے وہاں اُن دونوں کو نہ دیکھا، نہایت فکر مند ہوا اور ہر چند ڈھونڈا، کچھ سراغ نہ پایا۔ کیونکہ اُس کے ملک سے نکل کر کسی اور سرحد میں گئے تھے۔ جب طوطے نے یہ کہانی کہہ کر کہا۔ اے بی بی جلدی سدہارو اور حسرتیں دل کی اُس سے مل کر نکالو۔ تو کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور لذت زندگانی کی اُس سے مل کر اٹھاوے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مُرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑہا اور رونے لگی۔

چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں
خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں​
 

شمشاد

لائبریرین
چھبیسویں داستان جانا رائے بابل کے بیٹے کا بتخانے میں پوجا کو اور عاشق ہونا ایک عورت پر، پھر اُسے پانا پھر مارنا اپنے تئیں پھر زندہ ہونا اور جھگڑا سر اور تن کا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ میں چاہتی ہوں کہ اپنے معشوق کے پاس جاؤں اوور پہلے اُسکی عقلمندی دریافت کروں۔ اگر عقلمند پاؤں گی تو دوستی کروں گی اور نہیں تو باز رہوں گی۔ اور صبر کروں گی۔ کس واسطے کہ شعور مندوں نے کہا ہے کہ تابمقدور تین شخصوں سے آشنائی نہ کیا چاہیے اور اُن کی آشنائی کا اعتماد نہ کریئے۔ اول 1 عورتوں کی دوستی کا، دوسرے 2 لڑکوں کے اخلاص کا، تیسرے 3 احمقوں کے ساتھ کا۔ نقل مشہور ہے۔ دانا کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے۔ طوطے نے کہا کہ اے بی بی تو جو کہتی ہے سچ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس رات ایک حکایت اپنے دوست کے سامنے بیان کرے اور اُس سے پوچھے۔ اگر جواب ایسا دے کہ جو پسندیدہ ہو تو اُسے عاقل اور ہوشیار سمجھو اوراگر جواب اچھا نہ دے تو نادان جانیو۔ خجستہ نے پوچھا وہ نقل کون سی ہے جو اُس سے پوچھوں۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت رائے بابل کا بیٹا ایک بتخانے میں پوجا کرنے گیا۔ اوروہاں ایک لڑکی کو دیکھا کہ وہ اتنی خوبصورت تھی۔ کہ بیان نہیں کیا جاتا۔ عجب حُسن اُسے خدا نے دیا تھا۔ سبحان اللہ چودہویں رات کا چاند اُس کے مکھڑے سے شرمائے۔ اور سیاہی اُس کی زلف کی رات کو آٹھ آٹھ آنسو رولائے۔ قد اُس کا اگر سرو دیکھے تو مارے خجالت کے زمین میں گڑ جائے۔ اور کبک اُس کی رفتار کو نہ پائے۔

شعر

غضب جوڑے کی بندش ہے قیامت قد بالا ہے
ستم چتون پری مکھڑا بدن سانچے میں ڈھالا ہے​

وہیں اُس کا عاشق ہوا اور دل نے بیقراری جو کی تو گھبرا کر اُس بُت کے پاؤں میں سر جھکا کر گِر پڑا اور دعا عاجزی سے مانگی کہ اگر یہ لڑکی میرے ساتھ بیاہی جاوے تو سر اپنے تن سے جدا کروں اور تمہارے قدم پر چڑہاؤں۔ آخر کار یہ کہہ کر اپنے گھر گیا اوراُسکےباپ کو اُس نے یہ پیغام دیا کہ مجھے اپنی غلامی میں لیجیے اور راپنی لڑکی کو بیاہ دیجیے۔ جس گھڑی یہ پیغام اُس کے باپ نےے سُنا، اُسی گھڑی اپنی لڑکی کا بیاہ اور گونا اُس کےساتھ کر دیا۔ پھر وہ دونوں بطور عاشق و معشوق کے آپس میں رہنے لگے۔ یہ اپنے گھر اُس کے ساتھ چین کرتی اور کبھی وہ اپنے مکان میں اُس کے ساتھ آرام کرتا۔ اسی طرح ایک مہینہ گزرا۔ اتفاقاً وہ لڑکی اپنی سسرال میں تھی کہ اُس کے ماں باپ نے اُسے اور اُس کے دولہا کو اپنے گھر بلوایا۔ وہ لڑکا اپنی دولہن کو ساتھ لئے ہوئے چلا اور ایک برہمن بھی قدیم اُس کے مصاحبوں میں تھا۔ وہ بھی اُس کے ساتھ پیچھے پیچھے ہو لیا۔ جس وقت وہ لڑکا اُس بُت خانے کے پاس پہنچا جہاں اُس لڑکی کو دیکھا تھا اور وہ اقرار جو کیا تھا سو یاد آیا اور وعدہ وفا کرنے کو بتخانے میں اکیلا گیا اور سر کاٹ کر اُس بُت کے پاؤں پر دہر دیا۔

فرد

نام پر اپنے مرد جاتے ہیں
عیش کھوتے ہیں جی گنواتے ہیں​

بعد ایک دم کے جو برہمن اُس بتخانے میں گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رائے بابل کا لڑکا مردہ پڑا ہے۔ اور اُس کے تن سے سر بھی جُدا ہو رہا ہے۔ یہ ماجرا دیکھ کر برہمن ڈرا اور جی میں کہنے لگا کہ میں اگر یہاں سے جیتا جاؤں گا تو لوگ یہی معلوم کریں گے کہ یہ لڑکا اس جگہ اس نے مارا ہے۔ کیونکہ اب تک اس مکان پر سوائے اُس کے اور کوئی بھی نہیں آیا۔ غرض اُس نے بہت سا اندیشہ اپنے دل میں کر کے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ میں بھی اپنا سر تن سے اُتاروں اور اُس بُت کے قدم پر چڑہاؤں۔ یہ کہہ کر اُس نے بھی اپنا سر اتارا اور اُس بُت کے قدم پر گر پڑا۔ بعد ایک گھڑی کے وہ لڑکی بھی اُس بتخانے میں گئی اور اُن دونوں کو مردہ دیکھ کر متعجب ہوئی اور کہنے لگی کہ ہے ہے دونوں سر کٹے لہو لہان پڑے ہیں۔ یہ کیا غضب ہوا۔ یہ کہہ کر چاہتی تھی کہ اپنا سر کاٹے یا شوہر کی لاش کو گلے لگا کر ستی ہو جاوے۔ اتنے میں اُس ڈیوڑہی سے آواز آئی۔ کہ اے لڑکی یہ سر کٹے ہوئے تو اُن کے تنوں سے لگا دے۔ رام کی کرپا سے یہ دونوں ابھی جی اُٹھتے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ خوش ہوئی اور جلدی سے اپنے شوہر کا سر برہمن کے تن پر اوربرہمن کا سر اپنے خاوند کے تن پر رکھ دیا۔ دونوں جی اُٹھے اور اُس عورت کے آگے کھڑے ہو گئے۔ رائے بابل کے بیٹے کے سر سے اور برہمن کے تن سے قصہ ہونے لگا۔ کہ یہ میری جورو ہے اور تن نے کہا کہ یہ میری قبیلہ ہے۔ طوطے نے یہ حکایت تمام کی اورخجستہ سے کہا اگر اُسکی عقل آزمانا چاہتی ہے تو یہی بات ہے۔ اُس سے پوچھ کہ وہ عورت سر کو پہنچتی ہے یا دھڑ کو۔ خجستہ نے کہا کہ اے طوطے پہلے تو ہیی کہہ کہ مستحق اس کا کون ہے۔ طوطا بولا کہ ذیحق اُس کا سر ہے۔ کس واسطے کہ سر عقل کی جگہ ہے اور بدن کا سردار۔ خجستہ نے جو یہ قصہ سنا۔ قصد اپنے یار کے پاس جانے کا کیا۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ اور یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

وصل کی شب پر اے صباح فراق
روز نو روز بھی تصدق ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
ستائیسویں داستان کہ عیاری اور سخن سازی سے ایک عورت اپنے خاوند سے سرخرو رہی

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی اے طوطے میں اس بات سے ڈرتی ہوں اور شرمندہ ہوئی جاتی ہوں کہ جب اُس سے ملوں اور وہ دیر ہونے پر غصہ کرے تو میں نہیں جانتی کہ تب میں کون سا بہانہ کروں۔ طونے نے کہا اے کدبانو تو کچھ اندیشہ نہ کر۔ اس واسطے کہ عورتیں بہت سی باتیں کر جانتی ہیں۔ کیسے کیسے فریب بناتی ہیں اور کیا کیا مکر یاد رکھتی ہیں اور حاضر جواب ہوتی ہیں۔ میں نے آپ کی زبان سے بہت عذر سُنے ہیں اور پسند کیے ہیں۔ تو ایسی بھولی بھالی نہیں کہ کچھ نہیں جانتی۔ کیا خوب مثل مشہور ہے۔

اشعار

چرتر پہ عورت اگر اپنے آئے
تو ہاتھی کو پیڑ ہی کے نیچے چھپائے

کف دست پر کب نکلتے ہیں بال
وہ چاہے تو اُس پر بھی سرسوں جمائے​

ایسے ایسے سخن کی فکر کرتی ہے۔ کچھ خیر ہے۔ دم بھر ٹھہر۔ جی سنبھال جی کو ڈھارس دے۔ قدرے توقف کر کہ ایک عورت نے حوصلہ اور عیاری اپنے شوہر کے ساتھکی وہ بھی تجھے سُناؤں۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک شخص نے اقپنے قبیلہ کو کئی ایک پیسے کر لانے کو دیئے اور وہ شکر لانے بازار میں بنیئے کی دوکان پر گئی۔ بنیا اُسے دیکھتے ہی عاشق ہوا۔ پھر اُس عورت نے سیر بھر شکر مول لے کر اپنی چادر کے کونے میں باندی۔ اتنے میں وہ بنیا اُس سے لگاوٹ کرنے لگا۔ اور باتیں خوش طبعی کی کیں۔ وہ بھی راضی ہو گئی۔ بعد اس راز و نیاز کے وہ اُس عورت کو اپنے گھر لے گیا اور وہ چادر گرہ باندھی ہوئی بنیئے کی دوکان پر رکھ کر اُس کے ساتھ چلی گئی۔ تب اُس بنیئے کے گماشتہ نے اپنی چالاکی سے اتنے عرصہ میں جھٹ پٹ شکر اُس کی چادر کے کونے سے کھول لی اور اتنی ریت اُس کی جگہ باندھ دی۔ اتنے میں وہ رنڈی اُس کے مکان سے نکلی اور جھٹ پٹ چادر اُٹھا اپنے گھر کی طرف راہی ہوئی اور اپنے خاوند کے آگے بیدھڑک چلی گئی اور وہ پوٹلی اُس کے آگے دہر دی۔ اُس نے گرہ کھول کر جو دیکھا تو شکر کے بدلے ریت نظر آئی۔ حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کیا مسخرہ پن ہے جو تو مجھ سے کرتی ہے۔ میں نےشکر کو بھیجا تھا تو ریت لائی۔ اُسنے یہ سنتے ہی بے تامل کہا۔

فرد

اگر یوہیں شکر میں لاتی رہوں گی
تو اکدن میں جی ہی سے جاتی رہونگی​

تب اُس مرد نے گھبرا کے پوچھا بی بی یہ کیا سبب ہے جو کچھ آج تو بدحواس معلوم ہوتی ہے۔

فرد

شکر کی جگہ ریت لائی ہے کیوں
یہ رونی سی صورت بنائی ہے کیوں​

تب اُس نے مسکرا کر کہا، اجی کیا کہوں جس وقت میں گھر سے باہر نکلی، اُس وقت میرے پیچھے ایک بیل ڈکارتا ہوا دوڑا۔ اُس کے ڈر سے میں بھاگی۔ اُسی صدمے سے میں گری۔ پیسے بھی زمین پر گر پڑے۔ لوگوں کی شرم سے ڈھونڈھ نہ سکی۔ یہ ریت اُٹھا کر لے آئی ہوں۔ پیسے اس میں ہوں گے۔ تم نکال لو۔ میں نہایت تھکی ماندی ہوں۔ کہو تو قدرے سو رہوں۔ یہ بات سنتے ہی اُس کے خاوند نے اُس کو گلے لگایا اور مچھیاں لیکر کہا اگر پیسے گر پڑے تھے تو تم ریت کیوں اُٹھا لائیں۔ حاصل کلام عورت نے ایسا بے تامل اپنے خاوند کو جواب دیا کہ مطلق وہ اُس پر خفا نہ ہوا۔ بلکہ اور مہربانی کرنے لگا۔ طوطے نے جب تک یہ کہانی تمام کی، خجستہ سے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ تو اُس سے بھی زیادہ کر سکتی ہے۔ کچھ خطرہ نہیں بی بی اب شتاب جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا۔ اگر وہ تجھ پر غصہ کرے گا تو البتہ اس وقت تجھے جواب معقول سوجھے گا۔ طوطے کی اس شیریں سخنی سے خجستہ کی تسلی ہوئی۔ مغرق کفش جھمجھماتی ہوئی پاؤں میں پہن کر چاہتی تھیی کہ اُٹھے۔ اتنے میں مرغ بولا اور صبح ہوئی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

کون سی شب کو ہو گا وصل نگار
ہر سحر ہے ہماری دشمن کار​
 

شمشاد

لائبریرین
اٹھائیسویں داستان کہ بادشاہ سوداگر کی لڑکی پر عاشق ہوا اور اہلکاروں کی تدبیر سے وہ لڑکی بادشاہ تک نہ پہنچی۔ اور بادشاہ اُس کے فراق میں مر گیا​

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ شرمندوں کی سی صورت بنائے ہوئے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے محرم راز تیرے مین واری۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ جسے شرم نہیں ہوتی وہ کسی قوم میں حرمت نہیں رکھتی اور وہ عورت مستوراتوں میں بد ہے۔ اب بھی چاہتی ہوں کہ صبر کروں اور اپنے گھر میں بیٹھ رہوں۔ کسی غیر مرد سے آشنائی نہ کروں اور نہ کسی کے گھر جاؤں۔

فرد

گھر سے نکلوں غیر کی میں جستجو کے کے واسطے
لوگ جی دیتے ہیں اپنی آبرو کے واسطے​

طوطا کہنے لگا۔ اے خجستہ حق تو یہی ہے کہ تجھ سی عورت عقلمند اور ہوشیار آجتک نہیں دیکھی ہے۔ سچ کہتے ہیں۔

دوھا

نیناں وہی سراہیے کہ جن نینن میں لاج
بڑے بھئے اور بکھ بھرے سو آویں کونےکاج​

لیکن ڈر یہ ہے کہ اگر صبر کرے گی تو جان تیری بھی اُس بادشاہ کی طرح سے نکل جاویگی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُسکی نقل کیونکر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار اور صاحب وقار تھا اور بہت سے گھوڑے اور ہاتھی اپنے پاس رکھتا تھا اور اُس کی بیٹی بہت خوبصورت اور حسین تھی۔

فرد

وہ نقشہ جسے دیکھ مہ داغ کھائے
وہ صورت کہ تصویر کو حیرت آئے​

اور شہرہ اُس کی خوبصورتی کا ہر ایک شہر میں پہنچا تھا۔ اور ہر شخص دیدہ و نادیدہ اُس کے دیکھنے کا مشتاق تھا۔ اور ہر ایک یہی چاہتا تھا۔ کہ اپنی شادی اُس کے ساتھ کرے لیکن باپ اُس کا مارے غرور کے کسی کو قبول نہ کرتا تھا۔ اس عرصہ میں اُس کا عہد شباب قریب پہنچا اور نخل جوانی ثمر کامرانی سے پھلنے لگا۔ اور کچھ کچھ جوبن اُبھرا تب اُس کے باپ نے اس ملک کے بادشاہ کی خدمت میں جا کر اس مضمون کی عرضی گذاری کہ یہ غلام ایسی حسین لڑکی رکھتا ہے کہ گفتگو اپس کی رشک بلبل ہزار اور چال اُس کی غیرت کبک کوہسار ہے۔ جانور اُس کی باتیں سننے کے واسطے ہوا پر سے اُترتے ہیں اور مست و بیہوش ہوتے ہیں۔ جس نے اُس کے سخن کو سُنا ہے، اُس نے غش کھایا ہے۔ اگر وہ لڑکی حضور میں مقبول ہو اورخدمت میں کنیز کی طرح مشغول رہے کہ لایق حضور کے ہے۔ تو یہ فدوی ہم قوم میں اور بھی بزرگی پیدا کرے اور اس قدر اُس کی زیادہ ہو۔ بادشاہ نے جو عرضی ملاحظہ کی تو خوش و خرم ہوا اور اپنے دل میں کہنے لگا کہ جو کوئی نصیب اچھے رکھتا ہے تو ایک چیز خود بخود آ رہتی ہے۔ یہ کہہ کر اپنے چاروں وزیروں کو اشارہ کیا کہ تم اس تاجر کے گھر جاؤ اور اس کی بیٹی کو دیکھو اور احوال کماحقہ دریافت کرو۔ اگر وہ قابل حضور عالی ہو، جلدی آ کر خبر کرو۔ غرض وہ چاروں وزیر بادشاہ کے فرمانے کے بموجب اُس سوداگر کے گھر گئے۔ اُس لڑکی کی صورت دیکھتے ہی عاشق ہوئے۔

تصویر چاروں وزیر مرسلہ بادشاہ کے و بیٹی سوداگر کی کہ نہایت حسین اور صاحب جمال تھی

TotaKahani6-1.jpg

اور آپس میں مشورت کرنے لگے کہ اگر اس صاحبِ حسن کو بادشاہ دیکھے گا، تو دیوانہ ہو جائے گا۔ رات دن اُسی کے پاس رہے گا، ملک کی طرف متوجہ نہ ہو گا۔ پس ہر ایک کام تباہ ہو گا اور ملک کے بندوبست میں خلل پڑے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اُس کی تعریف اُس کے سامنے نہ کی جائے اور اس لڑکی کے لینے کی صلاح بادشاہ کو نہ دی جائے۔ یہ بات اُنہوں نے اپنے جی میں ٹھہرا کر بادشاہ سے جا کر عرض کی کہ خداوندا، اُس کی خوبصورتی کی خبر جو حضور میں پہنچی سو غلط ہے۔ اُس سے بہتر بہتر لونڈیاں محل مبارک میں بہت ہیں۔ بادشاہ نے یہ سُن کر کہا خیر اگر وہ ایسی ہے جو تم کہتے ہو تو میری بھی مرضی نہیں۔ کہ اُس کے ساتھ شادی کروں اور اپنے اوپر خواہ مخواہ کا عذاب لوں۔ آخر بادشاہ نے اُس سوداگر بچی کو قبول نہ کیا اور وہ سوداگر جب وہاں سے مایوس ہو کر پھرا، تب اُس نے شہر کے کوتوال سے اُس کی شادی کر دی۔ ایکدن اُس لڑکی نے اپنے دل میں کہا کہ میں اس قدر خوبصورت و حسین ہوں۔ تعجب ہے کہہ مجھے بادشاہ نے قبول نہ کیا۔انشاء اللہ تعالٰی ایکدن اپنے تئیں اُس کو دکھلاؤں گی۔ القصہ ایک دن وہ بادشاہ اُس کوتوال کی حویلی کیطرف سے کسی باغ کی سیر کو جاتا تھا کہ جلدی سے وہ لڑکی کوٹھے پر چڑھ گئی اوربادشاہ کو اپنے حُسن کا جلوہ دکھایا اوردیکھتے ہی وہ عاشق ہو گیا۔ اور وزیروں کی طرف غضب سے نگاہ کر کے یہ فرد پڑھی۔اور کہنے لگا۔

فرد

دشمنی میں بھی یہ نہیں کرتے
دوستی میں جو تم نے دکھلایا​

یہ کیا سبب تھا جو تم نے مجھے سے جھوٹ کہا۔ تب اُنہوں نے عرض کی کہ خداوندا اُس وقت ہم گنہگاروں نے یہ مشورت کی تھی کہ اگر بادشاہ ایسی عورت صاحب جمال کر دیکھے گا تو اُس کے عشق میں بالکل ملک کے کاروبار سے غافل ہو جائے گا۔ سلطنت خاک میں ملے گی اور رعیت تباہ ہو جائے گی۔ بادشاہ کو یہ بات اُن کی پسند آئی اور خطا اُن کی معاف کی۔ مثل مشہور ہے۔ بات ہاتھی پائیےبات ہاتھی پانؤں، آخر اُس کے عشق میں بیمار پڑا اور یہ قطعہ پڑھنے لگا۔

قطعہ

یہی پیغام درد کا کہنا اگر صبا کوئے یار میں گزرے
کونسی رات آن ملیے گا، دن بہت انتظار میں گزرے​

تب وزیروں نے معلوم کیا کہ یہ کوئی دن میں جان سے جاتا ہے۔ عرض کی کہ کوتوال سے اُس عورت کو لے لیں اور حضور شربت وصال نوش جان فرمائیں۔ اگر وہ اُس کے بھیجنے پر راضی ہو تو بہتر، نہیں تو بزور چھین لیں ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں ملک کا بادشاہ ہوں، ہرگز ایسا کام نہ کروں گا۔ یہ بات بادشاہوں کو لازم نہیں جو اس قدر ظلم و ستم نوکروں اور رعیت پر کریں اور اپنی قوت انہیں دکھلاویں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ سوائے اُس کے جو ظلم کرتا ہے۔ سو آپ ہی آپ خراب ہوتا ہے۔

فرد

جو کہ ظالم ہے وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں
سبز ہوتا کھیت ہے دیکھا کہیں شمشیر کا​

بالفعل اس بیت پر عمل کرتا ہوں۔

فرد

جی گنوانا سہل ہے آگے مرے
پر نہ دونگا اپنے ہاتھ سے​

آخر کار بادشاہ کی اُس کے غم میں یہ حالت پہنچی کہ تمام ہو گیا۔ طوطے نے جب یہ کہانی تمام کی تب خجستہ سے کہا۔ صبر کرنا تیرے حق میں اچھا نہیں۔ اگر تو بھی صبر کرے گی تو اُس بادشاہ کی طرح سے مر جائے گی۔ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ اب جا اور اُس سے ملاقات کر۔

حسن

خوشی سے مے وصل کو نوش کر
غم دین و دنیا فراموش کر​

خجستہ نے یہ سُن کر چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچا دے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

دن یہ کیسا فلک دکھاتا ہے
شبِ امید سے چُھڑاتا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
اُنتیسویں داستان ایک کمہار کی کہ بادشاہ نے اپنے لشکر کا اُسے سردار کیا​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ آہ و زاری کرتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے دل پُردرد سے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے سُنا ہے کہ ایک غریب اعرابی نے کسی دولتمند سے جا کر کہا میں کعبہ کو جاتا ہوں۔ اُس نے کہا بہت بہتر۔ دیر نہ کیجیے، بلکہ جلد سدہاریئے۔ اُس نے کہا میں کچھ خرچ نہیں رکھتا ہوں۔ دولتمند نے کہا اگر تیرے پاس خرچ نہیں ہے تو مت جا۔ میں کتاب کی رو سے کہتا ہوں کہ جو مفلس ہو، اُس پر کعبہ کا جانا فرض نہیں کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر عذاب اُٹھاوے اور مکہ جاوے۔ خدا نے محتاج کو نہیں کہا کہ تو مکے کو جا۔ اعرابی نے کہا کہ میں تیرے پاس کچھ زر مانگنے آیا ہوں، مسئلہ پوچھنے نہیں آیا۔ جو تو کتاب کی رو سے باتیں بتاتا ہے۔ اے طوطے میں تجھ سے ہر شب صرف رخصت لینے آتی ہوں اور تو بے فائدہ اِدھر اُدھر کی باتیں بکا کتا ہے۔ نصیحت تو سننے میں نہیں آتی۔ انہیں باتوں سے تجھ پر خفا ہونگی۔ یہ سُنکر طوطا ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے بھی کسی طرح مار ڈالے۔ یہ سمجھ کر خوشامدییوں کی طرح باتیں کرنے لگا اور یہ شعر پڑھا۔

فرد

عجب نصیب اور ہماری قسمت خفا جو ہم سے تو بے سبب ہے
یہ کیا غضب ہے، جو تو غضب ہے بڑا غضب ہے، بڑا غضب ہے​

اور کہنے لگا اے خجستہ میری نصیحت سے دل تنک نہ ہو اور بُرا مت مان۔ کس واسطے جو کوئی کسی کی اچھی بات قبول کرتا ہے تو وہ بات کچھ دنوں میں کام آتی ہے۔ کدبانو کہنے لگی اے طوطے جو تو کہتا ہے سو میں سنتی ہوں لیکن آج کی رات نہایت تاریک ہے اور میں اکیلی جاتی ڈرتی ہوں۔ اگر تو کہے تو اپنے غلام کو ساتھ لے کر جاؤں اور اُس اُمیدوار سے ملوں۔ یہ سُنتے ہی طوطا اپنے پروں سے چھاتی پیٹ کر کہنے لگا کہ ہے ہے خدا کے واسطے کہیہں ایسا نہ کرنا۔ خبردار غلام کو لیکر ہرگز نہ جانا۔ عقلمندوں نے کہا ہے کہ کمینہ ہرگز وفادار نہیں اور یہ قوم کم ظرف ہوتی ہے۔ شاید اُس کمہار کی کہانی نہیں سُنی جو ایسی باتیں نادانی کی کرتی ہے۔ خجستہ نے اُس سے پوچھا کہ اُس کی حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ ایک کمہار نے کسی دن بہت شراب پی اور بدمست ہوا۔ کوزے اور قرابے شیشے کے جو باسن شراب کے تھے، اُن پر گرا اور تمام بدن زخمی ہوا۔ مدت میں وہ زخم اچھے ہوئے۔ مگر نشان ان زخموں کے اس طرح سے معلوم ہوتے تھے کہ شاید زخم تیر و تلوار کے ہیں۔ اتفاقاً اُس کے شہر میں کال پڑا اور وہاں سے نکل کر اور شہر میں گیا تو نوکری کی تلاش کرنے لگا۔ اس شہر کے بادشاہ نے جو اُس کے تن پر اس طرح کے زخم دیکھے تو معلوم کیا کہ شاید یہ بڑا سپاہی ہے جو اسقدر زخم بدن پر اُٹھائے ہیں۔ یہ سمجھ کر بادشاہ نے اُسے نوکر رکھا اور مرتبہ اُس کا زیادہ کیا اور اپنے دل میں کہا یہ بڑا سورما ہے، جو ایسا اُس کا بدن زخموں سے چوور ہے۔ اور کئی دن کے ایک غنیم بادشاہ پپر چڑھا اور گاؤں اطراف کے لوٹنے لگا۔ تب بادشاہ نے اُسے اپنی فوج کاسردار کیا اور چاہا کہ دشمن سے لڑنے کو بھیجے۔ جب یہ احوال اُس کمہار کو معلوم ہوا تو وہ ڈرا اور بیمار پڑا۔ حضور میں آ کر عرض کیا کہ خداوندا میں ذات کا کمہار ہوں۔ مجھ سے سر انجام لڑائیی کا نہ ہو سکے گا۔ مثل مشہور ہے تیلی کیا جانے مشک کا بھاؤ۔ یہ سنتے ہی بادشاہ ہنسا اور اپنے دل میں شرمندہ ہوا۔اور کسی سردار کو اُس غنیم پر بھیجا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا کہ غلام کو ساتھ مت لیجا۔ اُس سے کام بھلائی کا نہ ہو گا بلکہ اور رسوائی کرے گا۔ تو اکیلی جا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اکیلی اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے اور حظ زندگانی کا اُٹھاوے کہ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونےلگی۔

بیت

روز و شب ہجر کے یکساں ہی چلے جاتے ہیں
نہ ہمیں صبح سے مطلب نہ ہمیں شام سے کام​
 

شمشاد

لائبریرین
تیسویں داستان ایک شیر اور شیرنی اور بچوں کی گیدڑ کے بچے کے ساتھ

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ مردانہ لباس پہن ہتھیار لگا لٹ پٹی پگڑی باندھ طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور اُس نے جو اُسے بانکپن سے دیکھا تو بے اختیار ہنسا اور کہنے لگا اے خجستہ مرحبا خوب کیا۔ کہ ایسی اندھیاری رات میں مردانہ لباس پہنکر تنہا آئی اور غلام کو ساتھ نہ لائی۔ کیا ہی اچھا کیا۔ سبحان اللہ۔ بی بی ماں تجھی کو جنی، حق تو یہ ہے کہ اس تیری ہوشیاری کے صدقے کس واسطے کہ ایک طوطا آج میرے قدیم دوستوں میں اڑا جاتا تھا۔ مجھے اس قید خانہ میں دیکھ کر اوپر سے نیچے اُترا اور میرے پاس آ کر بیٹھا۔ یہ نقل میں نے اُس سے سُنی تھی اور یہ حکایت بھی اُسی طرح کی ہے جو شب کو میں نے تجھ سے کہی تھی۔ سو طوطے نے بھی اس کے بموجب کہا۔ یقین ہے کہ اب کہیں خطا نہ پاؤ گی۔ خجستہ نے پوچھا کہ یہ نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں ایک شیر مع شیرنی دو بچوں سمیت کسی جنگل میں رہا کرتا تھا۔ اتفاقاً ایک دن مارے بھوک کے بوکھلایا اور اُس صحر میں شکار ڈھونڈنے لگا۔ حق تو یہ ہے کہ مشقت بہت سی اُٹھائی اور محنت بہت سی کی مگر شکار نہ پایا۔ تب بنا چاری گھر کی طرف پھرا۔ ناگاہ رستے میں اُس نے دیکھا کہ ایک بچہ ننھا سا گیدڑ کا آنکھیں بند کئے دو چار دن کا پڑا ہے اور بلبلاتا ہے۔ تب یہ اپنے جی میں خوش ہوا اور اُس کو اُٹھا کر اپنی مادہ کے پاس لے آیا اور کہنے لگا کہ میں نر ہوں۔ اگر دو چار دن اور بھی نہ کھاؤں گا تو رہ سکتا ہوں اور کچھ نہ ہو گا اور تو مادہ ہے۔ اگر تو آج فاقہ کرے گی تو شام ہی تک مر جائے گی۔ اس واسطے اس بچے کو لے آیا ہوں۔ تو اسے کھا اور اپنے بچوں کو دودھ پلا۔ اُس نے کہا کہ مجھکو ایسا نہ چاہیے۔ کیونکہ میں بچے ننھے اپنے آگے رکھتی ہوں۔ بھلا کس طرح سے اسے کھاؤں اور انہیں دودھ پلاؤں۔

کوکھ کو مت کسی کی آتش ۔۔۔۔۔ اپنی چھاتی پہ ہاتھ دھر دیکھو​

اور سوائے اس کے تم نر ہو اور دل سخت رکھتے ہو۔ تم تو کھا نہیں سکتے، میں مادہ نرم دل ہوں کیونکر کھاؤں۔ اگر کہو تو اس یتیم کو بھی ان بچوں کی طرح سے پال لوں۔ شیر نے کہا بہتر۔ آخر شیرنی نے اُس بچے کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ پالا۔ بعد کتنے دنوں کے وہ تینوں بڑے ہوئے۔ اور بچے شیر کے اُس کو بڑا بھائی جانتے تھے اورو بھائیوں کی طرح آپس میں کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کسی طرف کو گئے اور شکار کی تلاش کرنے لگے۔ ناگاہ ایک ہاتھی کسی سمت سے اُنہیں نظر آیا۔ وہ دونوں بچے شیر کے بے اختیار ہاتھی پر جھپٹے اورو وہ مارے ڈر کے پچھلے ہیی پاؤں ہٹا اور بھاگا۔ پھر کسی درخت کے تلے جا کر چھپ رہا۔ شیر کے بچوں نے اپنے بڑے بھائی کو بھاگتے دیکھا۔ آپ بھی بھاگے۔ بعد ایکدم کے آپس میں مل کر گھر میں آئے اور ماں سے وہاں کا ماجرا کہنے لگے۔ تب ماں اُن کی نے کہا کہ یہ بیٹا گیدڑ کا بچہ ہے۔ بہادری کب کر سکتا ہے۔

فرد

زاغ کب پہنچے ہے بیٹا کبک کی رفتار کو
بےتمہارے کون مارے پیل بدخونخوار کو​

طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے خجستہ سے کہا، اب اُٹھ اپنے معشوق کے پاس جا اور اُس سے ملکر حظ زندگانی اُٹھا۔ کدبانو نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اپنے جانی کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح صادق ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی یونہیں رہا۔ تب یہ بیت پڑھا اور رونے لگی۔

بیت

صبحدم کرتا ہے یہ دل اشکباری بیشتر
ہو سحر کو خانہ ماتم میں زاری بیشتر​
 

شمشاد

لائبریرین
اکتیسویں 31 داستان ایک امیر زادے اور سانپ کی​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ چاک گریبان و حال پریشان آنکھونمیں آنسو بھرے سر کھلے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے یار وفاداروائے محرم راز دل افگار

فرد

آتشِ عشق سے جلے ہے دل
آہ یہ آگ کس نے بھڑکائی​

اے طوطے اب تو میرا دل اُسکی جدائی سے جلا جاتا ہے اور کلیجہ منہ کو چلا آتا ہے۔ جگر کباب ہو گیا۔۔ سچ جان آج کسی صورت سے اس گھر میں نہ رہوں گی اور اپنے جانی کے پاس خواہ مخواہ جاؤنگی۔۔ تو بھی جلد رخصت کر۔ طوطا اپنے جی میں ڈرا اور کہنے لگا۔ خدا حافظ۔ یقین ہے کہ یہ اب اس گھڑی کسی طرح سے نہ رہے گی۔ کیونکہ نہایت بیقراری رکھتی ہے۔ اورر میری بات نہ سنے گی۔ ازبسکہ مضطر ہے۔ یہ سوچ کر بنا چاری کہنے لگا کہ اے کدبانو تجھے ہر شب رخصت کرتا ہوں اور خدا سے چاہتا ہوں کہ تو اپنے یار غمگسار سے ملے۔ تو آپ ہی توقف کرتی ہے جو نہیں جاتی اور نہیں معلوم کہ نصیب تیرے کیسے ہیں۔ جو برگشتہ رہتے ہیں۔ لے بسم اللہ دیر نہ کر جا اور اپنے یار کو گلے لگا۔ پر یہ بات یاد رکھنا کہ کسی دشمن کاا عتبار نہ کرنا۔ نہیں تو وہ صدمہ گزرے گا جو اُس امیر زادے پر اُس سانپ کے سبب سے گذرا۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی حکایت کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی دن ایک امیر کسی جنگل میں شکار کھیلنے گیا تھا اور کالا سانپ کہیں سے بھاگا ہوا نہایت بدحواسی سے اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ اے امیرزادے خدا کیواسطے مجھے جگہ دے کہ میں چُھپ رہوں اور تجھے دعا دوں۔ امیر نے پوچھا اس قدر کیوں گھبراتا ہے۔ خیر تو ہے؟ سانپ نے کہا کہ دشمن میرا مجھے مارنے کو ہاتھ میں لاٹھی لئے وہ چلا آتا ہے۔ تو مجھے چُھپا رکھ۔ یہ بات سُنتے ہی امیر کو اُس پر رحم آیا۔ اور اُس نے اپنی آستین میں چھپایا۔ بعد ایک دم کے وہ شخص بھی ایک موٹا سا بانس لئے ہوئے آیا اور کہنے لگا۔ ایک کالا سانپ ابھی میرے آگے ادھر کو آیا ہے۔ کسی نے اُسے دیکھا ہو تو مجھے بتا دے۔ میں اُس کا اس بانس سے سر پھوڑوں اور اپنے گھر کی راہ لوں۔ اتنے میں امیر نے کہا اے بھائی میں یہاں بڑی دیر سے کھڑا ہوں۔ لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔ خدا جانے کہاں گیا ۔ اور اُس نے بھی اُسے خوب سا ڈھونڈا۔ جب کہیں نہ پایا، تب اپنے گھر کا راستہ پکڑا۔ بعد ایک گھڑی کے امیر نے کہا اے سانپ دشمن تیرا گیا۔ اب تو بھی جا۔ تب سانپ ہنسا اور کہنے لگا، اے امیر اب میں تجھے بے ڈسے تو نہیں جاتا۔ اور تیری بات کب سنوں گا۔ اب بے مارے کب یہاں سے ٹلتا ہوں۔ تو نہیں جانتا احوال میرا کہ میں دشمن ہوں تیرا۔ جب کہ تجھ کو ماروں گا، تب جاؤں گا۔ تو نہایت احمق معلوم ہوا جو تو نے مجھ پر رحم کھایا اور میرے کہنے پر اعتبار کیا اور اپنی آستین میں رہنے کو مکان دیا۔ امیر نے کہا اے سانپ میں نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے اور تو میرے ساتھ بُرائی کیا چاہتا ہے۔ یہ بات نامناسب ہے۔ سانپ نے کہا میں نے عقلمندوں سے سُنا ہے کہ بدوں کے ساتھ نیکی کرنا ایسا ہے جیسا نیکوں کے ساتھ بدی۔ یہ سُن کر وہ ڈرا اور اپنے جی میں کہنے لگا، اے مار سیاہ ایک اور سانپ آتا ہے۔ تو میری آستین سے نکل۔ ہم اور تو دونوں چل کر اُس سے پوچھیں۔ اگر وہ تیری بات پسند کرے تو پھر جو چاہنا سو کرنا۔ بارے یہ سخن اُس نے اُس کا سُنا اور اُس کی آستین سے نکل کر اُس سانپ کی طرف چلا۔ تب اُس نے فرصت پا کر ایک ایسا پتھر اُس کے سر پر مارا کہ وہ مر گیا اور امیر جیتا اپنے گھر گیا۔ خجستہ نے یہ نقل سُن کر کہا اے طوطے میں نے تیرا کہنا قبول کیا اور نصیحت مانی۔ پر تو بھی اس وقت یہ سخن میرا سُن اور مجھے جلد رخصت دے۔ طوطے نے کہا۔ بہتر اب دیر مت کر اوور جا اپنے دوست سے مل اور خوشیاں کر۔ کدبانو یہ سُن کر چاہتی تھی کہ جاوے اور اُس کو گلے لگاوے۔ اتنے میں صبح ہو گئی اور مرغ نے بانگ دی۔ خجستہ مرغ کو گالیاں دے کر کہنے لگی کہ اب صبح ہوئی۔ میں کیونکر جاؤں۔ آخر کار جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھا اور رونے لگی۔

بیت

اے مرغ سحر آج اگر تجھ کو میں پاؤں
تو کچا ہی دانتوں سے ترا گوشت چباؤں​
 

شمشاد

لائبریرین
بتیسویں داستان سپاہی اور سُنار کی

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا خجستہ نہا دھو اور تھوڑا سا میوہ کھا۔ اطلس کا پائجامہ نقیش کا ازار بند جالی کا کلیوں دار کرتہ، سنجاف لگا کر جالی کی کرتی، بنت کی انگیا بنارسی دوپٹہ، مستی کی دہڑی، پاؤں کا لکھوٹا، آنکھوں میں سرمہ، بالوں میں کنگھی، اس طرح بناؤ ٹھناؤ کر جواہر کے گہنے پاتے سے آراستہ ہو، ایسی بنی ٹھنی کہ احوال اُس کی سگھڑائی کا بیان نہیں کیا جاتا۔ موافق اس کے تھا۔

حسن

وہ کنگھی کھچی اس صفائی کے ساتھ
کہ ہو رشک سے جس کے دو ٹکڑے رات

صفائی یہ پوشاک کی دیکھیو
نظر سوچ میں ہے کہ سیلی نہ ہو​

اس بانکپن سے اُٹھی اور طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی، اے محرم راز، وائے میرے دمساز اگر آج میرے احوال پر رحم کرے اور رخصت دے۔ میں جبتک جیتی رہوں گی تب تک تیرے بار احسان سے سر نہ اُٹھاؤں گی۔ کیونکہ ایک دور ایسا بیقراری کا پہلو سے اُٹھتا ہے کہ حال میرا بیحال ہوا جاتا ہے۔

اشعار

آنکھیں نہیں منڈتی ہیں میر بدل کو تعب ہے
یا رب دلِ حیران کو مرے کس کی

طلب ہے، بیتابی پیہم سے نہیں دین جو دم بھر
کیا جانیے کیا دل کو مرے درد کڈہب ہے​

طوطے نے کہا۔ مبارک ہو تشریف لے جا پر یہ بات یاد رکھنا کہ جس سے چاہنا اُس سے آشنائی کرنا مگر اپنے دل کا راز کسی سے مت کہنا، نہیں تو یہ بات تیری کُھل جاوے گی اور ہلاکت کو پہنچے گی۔ جس صورت سے اُس زرگر نے اپنی جورو سے احوال کہا اور مارا گیا۔ خجستہ نے پوچھا اُس کی حقیقت کیونکر ہے۔ آگاہ کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کبھی کسی شہر میں ایک سُنار نہایت مالدار تھا اور ایک سپاہی اُس سے بدل دوستی رکھتا تھا۔ اُس کی آشنائی کو سچ جانتا تھا۔ اتفاقاً اُس سپاہی نے ایک تھیلی اشرفیوں سے بھری ہوئی کہیں سے پائی اور نہایت خوشی حاصل ہوئی اور اُس کو کھول کر گنا تو وہ سو اشرفیاں تھیں۔ وہ سپاہی تھیلی لئے ہوئے خوشی سے سُنار کے پاس گیا اور کہنے لگا۔ میرے بخت اچھے تھے جو بے رنج و محنت اس قدر زر راہ سے میں نے پایا۔ حاصل کلام وہ تھیلی اُس سُنار کو سونپی اور یہ بات کہی کہ بھائی یہ میری امانت ہے۔ اپنے پاس رہنے دے۔ جب چاہوں گا لے لوں گا۔ بعد کئ دن کے اُس تھیلی کو سُنار سے سپاہی نے طلب کیا۔ تب وہ کہنے لگا، اے سپاہی تو نے مجھ سے اس واسطے آشنائی کی تھی کہ تہمت لگا ددے اور مجھےچور بنا دے۔ بھلا تھیلی تو نے مجھے کب دی تھی۔ تو جھوٹ کہتا ہے۔ کیا خوب اب تو یہاں سے جا اور کسی بڑی مالدار پر تہمت لگا۔ جس کے سبب سے کچھ مزہ اُٹھاوے اور غریب کے ستانے سے کیا پاوے گا۔ میں تجھے اپنا دوست جانتا تھا اور یہ کب معلوم تھا کہ تودشمن ہو گا۔ اب جھوٹ سچ لگا کر مجھ سے مال چاہتا ہے۔ مثل مشہور ہے۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ جھوٹے کے آگے سچا رو مرے آخر کار اُس سپاہی نے بنا چاری قاضی کے پاس جا کر فریاد کی اور یہ حقیقت اُس سے موبمو کہی۔ جب قاضی نے اُس سے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ۔ اُس نے کہا حضرت سلامت ساکھی کوئی نہیں۔ قاضی نے عقل سے معلوم کیا کہ یہ قوم سُنار کی دغاباز ہوتی ہے۔کچھ تعجب نہیں کہ اس سُنار نے خواہ مخواہ دغابازی کی ہو گی۔ اس احتمال پر قاضی نے سُنار اور اُسکی جورو کو بلا بھیجا اور ہر چند دلاسا دے کر پوچھا۔ اُنہوں نے سوائے انکار کے ہرگز اقرار نہ کیا۔ تب قاضی نے کہا کہ میں خوب جانتا ہوں کہ مقرر تو نے اُس کی تھیلی اُڑائی ہے۔ جب تک اُس کی تھیلی نہ دے گا، تب تک میں تجھ کو نہ چھوڑوں گا۔ یہ کہہ کر قاضی گھر گیا اوردو شخصوں کو ایک صندوق میں بند کیا اور اُس صندوق کو کوٹھڑی میں دہر دیا۔ پھر باہر نکل کر سُنار سے کہا کہ اگر زر دینا قبول نہ کرے گا تو میں صبح کو تجھے مار ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر اُن دونوں کو اُس کوٹھڑی میں بند کیا اور فرمایا کہ صبح کو بعد نماز کے تمہیں قتل کروں گا۔ یہ کہہ کر قاضی اندر گئے اور وہ دونوں اُسی جگہ قید رہے۔ جب آدھی رات گزری، تب اُس کی جورو نے کہا، اگر تو نے اُس کی تھیلی لی ہے، تو مجھے بتا دے کہاں رکھی ہے اور نہیں تو اُس تھیلی کے ساتھ ہماری جان جاوے گی۔ یہ قاضی بغیر تھیلی لئے تم کو ہرگز جیتا نہ چھوڑے گا۔ تب اُس سنار نے کہا کہ فلانی جگہ جہاں میری چارپائی بچھی ہے، وہیں وہ تھیلی گڑی ہے۔ یہ بات اُن دونوں شخصوں نے کی کہ جو قاضی جی نے واسطے دریافت کرنے کے اس سنار سنارن کی کوٹھڑی میں سپاہی اور سپاہی کی جورو کو بند کیا تھا۔ سو اُنہوں نے سُنار اور سُنارن کی باتیں اپنے کانوں سے سُنی تھیں۔ اتنے میں صبح ہوئی۔ جب قاضی نے اُن چاروں کو کچہری میں بلوایا اور اُن دونوں شخصوں سے پوچھا کہ سچ کہو رات کو اُن دونوں نے کیا باتیں کیں۔ تب قسم کھا کر سپاہی نے جو سُنا تھا کہہ سُنایا۔ قاضی نے اُس جگہ سے وہ تھیلی اپنے لوگوں کے ہاتھ منگوا کر سپاہی کے حوالے کی۔ اور سُنار کو سوئی دی۔ طوطے نے تب یہ خجستہ سے کہا۔ اگر زرگر اپنا حال جورو سے نہ کہتا تو مارا نہ جاتا۔ خیر اب سدہاریئے اور اپنے معشوق سے مل کر مزا جوانی کا اُٹھائیے۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اور اُس کو گلے لگاوے۔ اتنے میں نور کا تڑکا ہوا اورمرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اور رمنہ ڈھانپ کر رونے لگی۔

فرد

وصل کی جس سحر سے چھوٹی شب
اُس سحر کو خدا نہ دکھلائے​
 

شمشاد

لائبریرین
تنتیسویں داستان سوداگر مالدار کی اور بسبب خیرات کے حاصل ہونا اُس کے مقصد کا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ پوشاک بدل جواہر پہن طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی، اے طوطے تیرے قربان جاؤں، مجھ پر رحم کرر اور رخصت دے۔ کیونکہ آج کچھ پھر جی گھبراتا ہے اوردل ٹکڑے ہوا جاتا ہے۔

فرد

یاد میں تڑپے ہے دل کس ابروئے خمدار کے
آج کچھ ناحق بدل ہے آہ اُس بیمار کے​

چاہتی ہوں کہ آدھی رات کو اُس کے پاس جاؤں، تو بھی اس وقت ایک حکایت چھوٹی سے بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا اے خجستہ کسی شہر میں ایک سوداگر نہایت مالدار تھا لیکن بے اولاد تھا۔ ایکدن یہ اُس کے دل میں خیال گزرا اور اپنے جی میں کہنے لگا۔ اگرچہ میں نے اس جہان میں دولت بے شمار پیدا کی۔ پر بے حاصل کیواسطے کہ ایک بھی لڑکا نہ ہوا جو میرے اس گھر کو روشن کرتا اور اس دولت کو اپنے قبضے میں لاتا۔ جد و آبا کا نام روشن کرتا۔ افسوس صد افسوس۔

حسن

کسی کی طرف سے نہیں مجھ کو غم
مگر ایک اولاد کا ہے الم​

خیر اب بہتر یہی ہے کہ اپنے جیتے جی اُس زر بے بنیاد کو بنام مولا لٹائیے۔ اور فقیر و فقراء ، غریب و غرباء، یتیموں کو کھلائیے، اور آپ فقیر ہو کر یاد الٰہی میں مشغول رہیے۔

فرد

اہل فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
لوح مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے​

یہ بات جی میں ٹھہرا کر گریبان مثل گل چاک کر ڈالا، اور یہاں تک زر نقد صبح سے شام تک لٹایا کہ ہر ایک غریب غنی ہو گیا۔ آپ ایک ٹوٹے سے بوریے پر لنگوٹا کھینچ اُسی طرح بھوکا پیاسا پڑا رہا۔ اُسی شب کو بعد آدھی رات کے کیا خواب دیکھتا ہے کہ ایک شخص اجنبی سا اُس کے سامنے کھڑا ہے۔ اُس نے پوچھا اے عزیز تو کون ہے۔ وہ بولا میں اصل صورت تیرے بخت کی ہوں۔ تو نے جو آج مال و اسباب خدا کی راہ میں خیرات کیا اور کچھ اپنے واسطے نہ رکھا۔ اس واسطے میں کہنے کو آیا ہوں کہ میں صبح کو برہمن کی صورت بنکر تیرے پاس آؤنگا۔ تو مجھے مارے لاٹھیوں کے مار ڈالیو۔ جس گھڑی میرا دم بدن سے نکلے گا، تمام سونے کا ہو جاؤں گا۔ جس عضو کو تو چاہے گا،کاٹ لینا۔ وہ عضو پھر اُسی وقت درست ہو جاوے گا اور تیرے ہاتھ بہت سا سونا لگے گال۔ یہ بات اُس کا نصیب کہہ کر اُدھر گیا اور اِدہر صبح کا تارا نمودار ہوا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی، سوائے اُس بوریے کے کچھ نہ دیکھا۔ اپنے جی میں متعجب ہو کر کہنے لگا۔ الٰہی میں نے یہ کیا سفنہ دیکھا۔ تعبیر اُس کی کیا ہے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ تو کریم ساز ہے جو چاہے سو کرے۔ اسی حیرانی میں تھا کہ ایک حجام کِسوت بغل میں دبائے ہوئے اُس کی طرف سے ہو نکلا۔ اُس نے پکار لیا اور اپنا سر منڈوانے لگا۔ بعد ایک دم کے ایک برہمن اُس کے سامنے سے آیا۔ تب اُسے وہ اپنا رات کا خواب یاد پڑا۔ اُسی گھڑی سر منڈوانا موقوف کیا اور اُس برہمن کو لاٹھیاں مارنے لگا اور یہاں تک مارا کہ وہ اپنے جی سے گزرا، زمین پر گر کے ایک پُتلا زر سرخ کا ہو گیا۔ سوداگر نے اُس پُتلے کو اپنے گھر میں رکھا اور تھوڑا سا سونا حجام کو دے کر کہا کہ یہ بات تو کسی سے نہ کہنا۔ اور وہ اُستاد اپنے جی میں بہت سا خوش ہوا کہ یہ نسخہ کیمیا کا ہے۔ حق تعالٰی نے اچھا دیا۔ غرض اُس سونے کو بغل میں دبا کر جلدی جلدی اپنے گھر آیا اورایک لاٹھی موٹی سی اپنے ہاتھ میں لے کر دروازے پر اُس کی تاک میں بیٹھ رہا کہ کوئی برہمن اس طرف سے آوے تو اُس کو مارے اور سونا بنائے۔ اتنے میں گروہ برہمنوں کا اُدھر سے آ نکلا۔ اُس نے اُن کو اپنے گھر میں بلایا اور اُن کی ضیافت میں دل لگایا۔ بعد ایک گھڑی کے ایک لاٹھی موٹی سے اُٹھا کر اُن کو بے اختیار پیٹنے لگا۔ اور یہاں تک مارا کہ سر اُن کےے پُھوٹ گئے اور لہو لہان ہو گئے۔ تب وہ سب کے سب غل مچانے لگے کہ کوئی واسطے گسیان کے آؤے، نہیں تو ہم اس حجام کے ہاتھ سے مفت مارے جاتے ہیں۔ یہ سُنکر محلے والے دوڑے اور نائی کو باندھ کر حاکم کے پاس لے گئے اور کہنے لگے خداوندا دیکھیے ہم تو اس زمانے میں مرتے ہیں کہ آپ کے عمل میں نائی برہمنوں کا خون کرتے ہیں۔ حاکم نے حجام سے پوچھا کہ تو نے کس تقصیر پر اُن غریبوں کو مارا اور کس خطا پر ان بیچاروں کا سر پھوڑا۔ اُس نے کہا حضرت سلامت، میں آج فجر کو فلانے سوداگر کی اصلاح بنانے گیا تھا۔ میرے سامنے ایک برہمن اُس کے پاس آیا۔ اُس نے دوچار لاٹھیاں ماریں، وہ مرتے ہی سونا ہو گیا۔ میں نے معلوم کیا کہ اگر کوئی برہمن ک لکڑیاں مارے تو سونا ہو جاوے۔ میں نے بھی اپنی اُس طمع پر ان برہمنوں کو مارا کہ یہ شاید زر ہو جاویں گے۔ افسوس یہی ہے کہ کوئی برہمن زر نہ ہوا۔ بلکہ اور فتنہ برپا ہوا۔ یہ خطا مجھ سے ہوئی۔ جو چاہے سو کیجیے۔ تب حاکم نے سوداگر کو بلوا کر کہا کہ یہ حجام کیا کہتا ہے سنو اور جو احوال ہو سچ بیان کرو۔ ہم نے یوں سُنا ہے کہ تم نے آج ایک برہمن کو مار کر سونا بنایا ہے اور یہ نائی بھی کئی برہمنوں کو ادھ مرا کر کے کشتہ کیا چاہتا ہے۔ سوداگر نے کہا بندہ نواز یہ میرا نوکر ہے۔ آج کئی دن سے دیوانوں کی طرح پڑا پھرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اُسے مارتا ہے اور تمام شہر میں غل مچاتا ہے۔ مجھ کو کیا، مثل مشہور ہے "جس کا خون اُس کی گردن پر" آپ حاکم ہیں، جو مناسب جانیے کیجیے۔ میں کس واسطے کسی کو ماروں گا۔ حاکم نے اُس کا کہنا باور کیا اور اُن سب کو دم دلاسا دیکر رخصت کیا۔ پھر اُس حجام کو سزا دی۔ طوطے نے یہ بات کہہ کر خجستہ سے کہا۔ اگر جانا ہے تو جا۔ کیونکہ اب وقت اخیر ہے اور نہیں تو کل سرِ شام ہی چلی جانا۔ کدبانو نے یہ بات سُنتے ہیں چاہا کہ جاوے اور اپنے دلبر سے ملے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

ہجران کے شب و روز کا طرفہ الم ہے
شب گذری ہے اندوہ میں اور دن کو بھی غم ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
چونتیسویں داستان مینڈک زنبور اور مرغ کی جنہوں نے متفق ہو کر ہاتھی کو مار ڈالا

جب سورج چھپا اور چاند نکلا۔ خجستہ رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے تو کچھمیرے بھی حال سے واقف ہے کہ اب دن بدن ناتوان ہوتی جاتی ہوں اور رنگ نقاہت سے زرد ہوا جاتا ہے۔ اور جہان کی کسی چیز پر دل نہیں لگتا اور کسی سے بولنے کو جی نہیں چاہتا ہے۔

فرد

تجھ بن اب تو غم سے فرصت ایک ذرا ہیہات نہیں
دامن سے منہ ڈہانپ کے رہنا رونا بھی کچھ بات نہیں​

حسن

سبب کیا کہ دل سے تعلق ہے سب
نہو دل تو پھر بات بھی ہے غضب​

طوطا کہنے لگا۔ اے کدبانو تو کچھ اندیشہ نہ کر اور دل میں راہ ناامیدی کو نہ دے۔ خدا پر نظر رکھ کہ وہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔ دعا تیری قبول کرے گا۔ اور تمنائے دل بر لاویگا۔

فرد

نہ کرنا کبھی یاس کی گفتگو
کہ آیا ہے قرآن میں لاتقنطو​

اب تیرے کام میں سعی کرتا ہوں۔ کس واسطے تو اپنی جوانی کو جلاتی ہے۔ اور کیوں نہ کہوں میں کہ آنسو دم بدم بھرے لاتی ہے۔ مقرر تیرے دوست کے پاس تجھے پہنچاؤں گا۔ خجستہ کہنے لگی اے پیارے کیا تعجب ہے کہ ہم دونوں ایکدل ہو کر کوشش کرتے ہیں۔ تِس پر بھی یہ کام سرانجام نہیں ہوتا۔ یہ کیا حکمت الٰہی ہے اور کیسے برگشتہ نصیب ہیں کہ آٹھوں پہر پہرے ہی رہتے ہیں۔ ہیہات ہیہات۔ طوطا کہنے لگا اے خجستہ یہ کیا کٹھن ہے۔ تو نے نہیں سُنی کہ مینڈک، زنبور اور مرغ ہر ایک آپس میں متفق ہوئے اور ہاتھی کو مار ڈالا، باوجود اس کے کہ وہ برا جانور ہیبت ناک تھا۔ اورو یہ کون سا بڑا کام ہے۔ کہ وہ ہم سے اورر تم سے نہ ہو گا۔ انشاء اللہ تعالٰی قریب ہے کہ تو اپنے یار سے ملے اور چین کرے۔ خجستہ نے یہ سُنکر کہا کہ تیرے منہ میں گھی شکر، خدا تجھے خوش رکھے۔ جوتو ایسی باتیں کر کے میرا جی بہلاتا ہے۔ پر اُنکی نقل کیونکر ہے۔

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی شہر میں ایک درخت تھا اور اُس کی ڈالیاں گنجان تھیں۔ اُس پر ایک شکر خورے نے اپنا گھونسلا بنا کر انڈے دیئے تھے۔ اتفاقاً ایک فیل مست اُس جگہ پہنچا۔ اُس درخت سے پیٹ رگڑنے لگا۔ اُس کے صدمے سے درخت ہلا۔ بیضے گر پڑے۔ تب وہ شکر خورہ ڈر کے مارے اپنی مادہ کو چھوڑ کر ایک درخت پر جا بیٹھا اور آہ و زاری کرنے لگا۔ مثل مشہور ہے کہ بلی آگے چوہے کا کیا بس ہے۔ لیکن اپنے جی میں کہتا تھا۔ کہ اس دشمن زبردست سے بدلہ کس طرح لینا چاہیے۔ یہ خیال کر کے اپنے دوست کے پاس گیا۔ کہ جسے مرغ دراز نوک کہتے ہیں۔ احوال گذرا ہوا سب اُس کے آگے کہا کہ ناحق ایک فیل نے میرے اوپر ظلم کیا۔ کچھ ایسی تدبیر کر کہ وہ مارا جاوے اور میں اپنی داد کو پہنچوں۔ میرا بدلہ اُس ےس لے، کیونکہ تو میرا دوست ہے۔ اور دوست ہی وقت پر کام آتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ بھائی ہاتھی کا مارنا بہت دشوار ہے۔ مجھ اکیلے سے نہ ہو سکے گا۔ مگر ایک زنبور ہے۔ میں اُس کو نہایت دوست سمجھتا ہوں اور وہ مجھ سے نہایت دانا ہے۔ اُس سے مشورت کیا چاہیے جو وہ کہے سو کیجیے۔ غرض اُن دونوں نے اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچایا۔ اور یہ احوال ظاہر کیا۔ یہ ماجرا اُس نے سُنکر ترس کھایا اور کہا کہ میں ایک مدت سے دوستوں کے کام پر کمر باندھے رہتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک غوک بخوبی آشنائی رکھتا ہے اور اپنی قوم کے لشکر کا سردار ہے۔ اُس سے اس بات کو جا کر کہہ سُنائیے۔ وہ جو کہے، اُس پر عمل کیجیے۔ کیونکہ تدبیر اُس کی خطا نہیں کرتی۔ بہر صورت اُن تینوں نے اپنے تئیں اُس مینڈک کے پاس پہنچایا اور اُس سے مدد چاہی۔ تب غوک نے شکر خورے کےاحوال پر اور انڈوں کے پھوٹنے پر رحم کھایا اور کہا اے شکر خورے تو خاطر جمع رکھ۔ مجھ کو بھی اُس کے مارنے کی ایسی حکمت سوجھی ہے کہ جس سے پہاڑ کو پست کرتے ہیں۔ وہ کیا چیز ہے۔ چلیے اور وہ تدبیر یہ ہے۔ کہ پہلے زنبور اُس کے پاس جائے اور اپنی آواز دلچسپ سُنا دے۔ اور اُس کو مست کرے۔ جب وہ مستی پر آوے، تب یہ مرغ دراز نوک اپنی چونچ سے اُس کی آنکھیں نکالے کہ جہان روشن اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو جاوے۔ پھر بعد کئی دن کے جب یہ مارے پیاس کے نہایت تنگ ہو گا، تب اُس کے سامنے میں بولنا شروع کروں گا۔ اور وہ معلوم کرے گا کہ جس جگہ مینڈک بولتا ہے، وہاں مقرر پانی ہوتا ہے۔ اس شبہ پر وہ اٹکل سے آئے گا اور آگے قدم بڑہائے گا اور میں پچھلے قدم ہٹوں گا۔ اسی طرح سے آہستہ آہستہ بہلاتے بہلاتے لے جاؤں گا اور ایک ایسے غار میں گرا دوں گا۔ پھر اُس کی آواز کوئی نہ سنے گا۔ وہاں سے قیامت تک نہ نکل سکے گا۔ آپ ہی آپ یک بیک مارے بھوک کے مر جاوے گا۔ آخر کار اُسی بات پر وہ ہر ایک آپس میں متفق ہوئے اور اُسی حکمت سے ہاتھی کو ہلاک کیا۔ طوطے نے یہ سخن یہاں تک پہنچا کر کہا کہ اے خجستہ۔ ان دو تین ضعیف جانوروں نے ہمت باندھی اور ایسے ہاتھی کو ہلاک کیا اور اپنا بدلہ لیا۔ تو کیوں ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے۔ ہم بھی دونوں شخص ہمت باندھیں تو کیا دخل جو کام نہ ہو۔ تو نے نہیں سُنا، ہمت کا رہا دارو جو ڈھونڈہے گا سو پاویگا۔ بی بی خوش ہو۔ اب جا اور اُس سے مل۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ جاوے اور اُسے گلے لگاوے کہ اتنے میں پَو پھٹی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ یہ فرد زبان پر لائی اور بے اختیار رو کر چلائی۔

فرد

اس سحر کی دلا عداوت سے
شام ہوتے نظر نہیں آتی​
 

شمشاد

لائبریرین
پنتیسویں داستان بادشاہ چین کا روم کی شہزادی پر عاشق ہونا اور اُسے اپنے نکاح میں لا کر شادی کرنا​

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، تب خجستہ آنکھیں سرخ رنگ زرد، ہونٹ نیلے، پریشان چاک گریبان، آہ سرد، کپڑے میلے، سوگواروں کی صورت بنائے ہوئے طوطے کے پاس رخصت لینے گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے اکثر بزرگوں کی زبانی سُنا ہے کہ ایک شخص نے کسی دانا سے جا کر پوچھا کہ عشق کیا چیز ہے۔ تب اُس نے کہا کہ عشق کو ملک الموت کہتے ہیں۔ اور جاننے والے اُس کو آفتِ ناگہانی سمجھتے ہیں۔

عشق جس کے تئیں ستاتا ہے
وہ بیچارہ جہان سے جاتا ہے​

اور میرا بھی احوال اس کم بخت نے یہاں تک پہنچایا ہے کہ جی ہی جانتا ہے۔ اب یہ دل میں آتا ہے کہ اس کو موقوف کروں اور صبر کر کے بیٹھ رہوں۔ مثل مشہور ہے کہ بھٹ پڑے وہ سونا کہ جس سے ٹوٹے کان۔ طوطا کہنے لگا کہ اے خجستہ کہنے سے اور کرنے سے بڑا فرق ہے۔ یہ کیا کہتی ہے۔ عاشق کو صبر سے کیا نسبت اور بیمار کو آہ و زاری سے کب فرصت۔

فرد

جسے عشق کا تیر کاری لگے
اُسے زندگی جگ میں بھاری لگے​

اگر عاشق و معشوق رہتا تو کوئی کسی پر نہ مرتا اور وہ بھی بادشاہزادی اپنا بیاہ نہ کرتی، کس واسطے کہ وہ ایک مدت تک مرد کے نام سے بیزار تھی۔ آخر بے شوہر نہ رہ سکی اور خصم کر بیٹھی۔ خجستہ نے پوچھا کہ اُس کی داستان کیوں کر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کسی وقت میں چین کا بادشاہ نہایت عمدہ تھا۔ اور ایک وزیر بھی عقلمند رکھتا تھا۔ اتفاقاً وہ ایک دن اپنے محل میں بے خبر سوتا تھا۔ اتنے میں اُس کے وزیر کو کچھ ایسی کارِ مملکت میں مصلحت کرنی ضرور تھی۔ کہ آن کر اُس نے بادشاہ کو بیدار کیا اور وہ چونکتے ہی نمچہ کھینچ کر اُس کے پیچھے پڑا اور وہ اُس کے آگے سے بھاگ کر کسی گھر میں جا کر چھپ رہا۔ تب بادشاہ طیش میں بھرا ہوا اپنے تخت پر جا بیٹھا اور مونچھوں پر تاؤ دینے لگا اور ہاتھ زانو پر مارتا تھا اور جامہ گلے کا پھاڑتا تھا۔ بے اختیار ہو ہو کر غل مچاتا تھا۔ ارکانِ دولت نے عرض کی۔ جہاں پناہ آپ کو کیا ہوا ہے۔ ان خانہ زادوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا اور وزیر نے ایسی کیا تقصیر کی ہے کہ جس کے واسطے قبلہ عالم نے اتنی تکلیف کھینچی۔ کچھ ارشاد ہو تاکہ ہم بھی اُس بے ادبی سے باز رہیں اور نمک حلالی پر کمر باندہیں۔ تب بادشاہ نے ان پر رحم کھایا اور یہ فرمایا کہ بھائی میں ابھی سوتے سوتے کیا خواب دیکھتا ہوں کہ میں کسی بادشاہت میں گیا ہوں اور وہاں کی شہزادی سےاختلاط کرتا ہوں۔ وہ کبھی میرے ہاتھ کی بلائیں لیتی ہے اور کبھی میں اپنے پاؤں پر سر رکھتا تھا اور چاہتا تھا کہ حظِ دنیاوی اُٹھاؤں، اتنے میں اُس وزیر کمبخت نے مجھے آ کر خواہ مخواہ جگا دیا اورزندگی سے بے مزہ کیا۔ اس بات کو سُنکر اُنہوں نے عرض کی کہ خداوندا، شہزادی کسی مائل ہے۔ تب بادشاہ نے ایک آہ کھینچی اور یہ قطعہ پڑھا۔

قطعہ

تعلق سے چُھڑا دے شاد کر دے
الٰہی اب مجھے آزاد کر دے

میرے شیریں دہن کو کچھ نہ پوچھو
جسے چاہے اُسے فرہاد کر دے​

اتفاقاً اُن وزیروں میں ایک وزیر جو کہ کار مصوری خوب جانتا تھا۔ اُس نے بموجب فرمائش بادشاہ کے اُس شہزادی کے شکل کے موافق تصویر کھینچی اور آپ ایک گذرگاہ میں جا بیٹھا اور جو کوئی اِدھر اُدھر سے مسافر دور دراز کے راستے سے آتا تھا، تو یہ اس سے یہی پوچھتا تھا کہ تو نے اس صورت کی عورت کہیں دیکھی ہے تو مجھے خبر دے، یا سُنی ہو تو کہہ دے۔ پر کوئی شخص اُس کا جواب نہ دیتا تھا۔ اتفاقاً بعد ایک مدت کے کسی طرف سے ایک سیاح وہاں آ نکلا اور اُس کےپاس بیٹھ کر کچھ ناشتا کرنے لگا۔ جب اُس وزیر نے اُسے وہ تصویر دیکھلائی اور یہ بات کہی کہ اے سیاح سچ کہہہ کہ تو نے کہیں اس شکل کی رنڈی دیکھی ہے۔ تب اُس درویش نے کہا بابا اس سے میں خوب واقف ہوں۔ یہ روم کی شہزادی ہے، باوجود اس حسن کے آجتک اُس نے کسی شوہر کو نہیں کیا، بلکہ مرد کے نام سے خفا ہوتی ہے۔ تب اُس وزیر نے پوچھا کہ وہ کس واسطے خانہ داری نہیں کرتی۔ تب اُس نے کہا میں اس بات کو خوب جانتا ہوں۔ وہ یہ سبب ہے کہ کسی وقت وہ شاہزادی بارہ دری میں بیٹھی ہوئی ایک باغ کی سیر کرتی تھی۔ اوراُس باغ میں ایک طاؤس کے جوڑنے کسی درخت پر انڈے دیئے تھے اور آپس میں ملے ہوئے اُن انڈوں کو سے رہے تھے۔ اتنے میں اُس گلستان میں آگ لگی۔ یہانتک کہ تمام درخت و گل جل گئے۔ اُس طاؤس کو آگ کی برداشت نہ رہی۔ تب ناچار مادہ کو چھوڑ کر آپ اُس آشیانے سے پرواز کر گیا اوراُس کی مورنی نےہرچند کہا اے مور اس وقت مجھے اس آفت میں نہ چھوڑ۔ اگر تو میری الفت سے نہیں رہتا تو ان انڈوں پر بھی رحم نہیں کرتا۔ اُس نے ہرگز اُس کا کہنا نہ مانا اورو وہاں سے اڑ ہی گیا۔ مورنی مارے محبت کے اُن انڈوں پر سے نہ اُٹھی اور وہیں جل کر راکھ ہو گئی۔

تصویر شاہزادی روم اور باغ پر فضا اور جوڑا طاؤس کا ایک درخت پر انڈے سینا​

TotaKahani7-1.jpg

شاہزادی نے جس روز سے یہ بیوفائی نر کی دیکھی ہے۔ اُس دن سے تا حال مرد سے نفرت کرتی ہے اور مرد کا نام بھی نہیں لیتی۔ وزیر اس بات کے سنتے ہی نہایت خوش ہوا اور جا کر اپنے بادشاہ سے عرض کرنے لگا کہ جہاں پناہ نے جس شہزادی کو خواب میں دیکھا تھا اورر میں اُس کی تصویر کاغذ پر کھینچ کر برسرِ راہ بیٹھ رہا تھا۔ جو کوئی اُدھر سے گزرتا تھا، میں اُسے یہ تصویر دکھاتا تھا۔ اور اُس کا نشان پوچھتا تھا۔ بارے آج ایک فقیر سیاح کہیں سے آیا۔ میں نے یہ تصویر اُسے دکھائی۔ اُس نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ تصویر شاہزادی روم کی ہے۔ بادشاہ اس مژدہ سے بہت خوش ہوا۔ اور کہنے لگا، اے وزیر آج ہی کسی آدمی کو شہر روم میں بھجوا کہ وہ اس ملکہ کی جواب نگاری کرے۔ وزیر نے جناب بادشاہ میں عرض کی۔ اگر حکم ہو تو میں جاؤں اور تصویر خاوند کی اُسے دکھلاؤں۔ جس صورت سے آپ اُسکی صورت خواب میں دیکھ کر عاشق ہوئے ہیں وہ بھی اسی طرح ظاہراً آپ کی تصویر دیکھ کر آشفتہ ہو۔ آخر کار وزیر حضور سے رخصت ہوا۔ اور اُس ملک میں پہنچا اور اپنے تئیں مصوروں میں مشہور کیا۔ یہ خبر اُس ملکہ کو پہنچی کہ ایک مصور تمہارے شہر میں لاثانی آیا ہے کہ نہ ایسا دیکھا ہے نہ سُنا۔ تب شہزادی نے کہا کہ اُس کو ہمارے پاس لے آؤ کہ وہ ہمارے محل میں کچھ نقش و نگار کرے اورجیسی تصویریں اُس کا جی چاہے ویسی کھینچے۔ حاصل کلام وزیر اُس کے محل میں گیا اور اپنے بادشاہ کی تصویر مع شکار گاہ اُسکے محل میں کھینچی۔ شہزادی نے جو نقش و نگار اور تصویرات کو دیکھا تو متعجب ہو کر کہنے لگی، یہ تصویر کس کی ہے اور یہ کس کی جگہ ہے۔ اُس نے عرض کی کہ اے بادشاہزادی یہ تصویر چین کے بادشاہ کی ہے۔ اور یہ شکار گاہ اُس کے رہنے کے مشابہ ہے۔ اوریہ جانور اور یہ ہرن اور بچے ہرن کے انہیں چاروں کی ہیئت رکھتے ہیں۔ ایکدن بادشاہ اپنے بالاخانہ پر بیٹھا ہوا صحرا کی سیر کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک طرف سے ایسا سیلاب آیا کہ بس اتفاقاً ایک جوڑا ہرن کا اپنے بچوں کو لئے کسی درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ سیل کو دیکھتے ہی ہرنی اپنی جان کی دہشت سے بچوں سمیت ہرن کو چھوڑ بے دردوں کی طرح بھاگی۔ ہرن نے اُسے ہر چند پکارا۔ اے ہرنی یہ بے وفائی کا وقت نہیں۔ ایک دم ٹھہر، مجھے مت چھوڑ اور ان بچوں پر رحم کر۔ ان سے منہ نہ موڑ۔ اُس نے یہ بات ہرن کی نہ سُنی اور کیا جانیے آپ کہاں گئی۔ اور وہ ہرن مارے الفت کے اپنے بچوں سے جُدا نہ ہوا۔ آخر اسی سیل میں بچوں سمیت ڈوب گیا۔ اے ملکہ جس روز سے بادشاہ نےے یہ بے مروتی مادہ کی دیکھی ہے۔ اُسی دن سے اپنی شادی نہیں کرتا۔ بلکہ عورت کے نام سے سو سو کوس بھاگتا ہے۔ ملکہ نے جو یہ بات سُنی تو قصہ فغفور کا اپنے ہی مطابق جانا اور رکہا کہ اے مصور احوال میرا اور اُس کا یکساں ہے۔ کیونکہ میں نے مور کو بیرحم دیکھا۔ اس واسطے مرد سے ہاتھ اُٹھایا۔ اُس نے ہرنی کو بیدرد سمجھ عورت سے کنارہ کیا۔ اگر ہماری شادی اُس کے ساتھ ہو تو کیا عجب ہو۔ آخر کار دوسرے دن شاہزادی نے اپنا وکیل اُس کے پاس بھیجا اور اپنا نکاح کرنے پر راضی ہووئی۔ طوطے نے جب یہ کہانی تمام کی۔ خجستہ سے کہا اے بی بی تو کہتی ہے کہ میں اُس سے دوستی ترک کروں گی۔ یہ بات کسی سے ہو سکتی تو وہ ملکہ اپنی شادی چین کے بادشاہ سے نہ کرتی۔ خیر اس سخن سے ہاتھ اُٹھائیے اور اپنے معشوق سے صحبتِ عیش گرم کیجیے۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے اور اُسے گلے لگاوے۔ اتنے میں گجر بجا اور مرغ بولا۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب یہ بیت پڑھی اور بے تحاشا رونے لگی۔

کاش کے رات جی نکل جاتا
اور اس سحر کو خدا نہ دکھلاتا​
 

شمشاد

لائبریرین
چھتیسویں داستان دوستی گدھے اور بارہ سنگے کی اور گرفتار ہونا دونوں کا باغبان کے ہاتھ سے

جب سورج چھپا اور چاند نکلا، خجستہ نے پتلی کمر، بازو اُبھر ۔۔۔۔۔ نرم لب قد و قامت سرو کا سا، گول سُرین چمکتی رانیں، سنہری ساقیں بلوریں اشتیاق میں آئی ہوئی۔

حسن

قد و قامت آفت کا ٹکڑا تمام
قیامت کرے جس کو جھک کر سلام​

طوطے کے پاس رخصت لینے کو آئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں نے بارہا صاحب عربوں کی زبان سے سُنا ہے کہ عبد العزیز نام ایک بادشاہ نہ شب کو سوتا تھا نہ دن کو آرام کرتا تھا۔ کسی شخص نے پوچھا کہ جہاں پناہ کیا سبب ہے کہ نہ شب کو سوتے ہو نہ دن کو آرام کرتے ہو۔ اُس نے کہا اے عزیز اگر شب کو سوؤں تو عبادت خدا نہ ہو سکے اوراگر دن کو آرام کروں تو رعیت تباہ ہو جاوے۔ اس واسطے میں نے سونا شب و روز کا اپنے اوپر حرام کیا ہے۔ وہی حال میرا ہوا ہے اور اسی اندیشہ میں پڑی رہتی ہوں ۔ اگر یار کے پاس جاؤں تو خاوند سے ہاتھ اُٹھاؤں اور اگر خاوند کے گھر رہوں تو یار کی دوستی سے باز آؤں۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ ان دونوں سے کنارہ کروں اور آبروں اور عصمت سے ایک گوشے میں بیٹھ رہوں۔

دو رنگی چھوڑے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا​

یہ سنتے ہی طوطا ایک قہقہہ مار کر ہنسا اور کہنے لگا، اے خجستہ حرمت ڈھونڈھتی ہے۔ کیا خوب ہر ایک چیز کا ایک وقت ہے۔ سُن بی بی مثل مشہور ہے۔ جب لاگ لگی تب لاج کہاں۔

سودا ہوئے عاشق کیا پاس آبرو کا۔

سنتا ہے اے دیوانے جب دل دیا تو پھر کیا​

اے بی بی اب کیا سوچتی ہے، خیر تیرا کلام بھی اُس درازگوش کی طرح ہوا کہ بے محل گا اٹھا اور آپ پکڑا گیا۔ خجستہ نے پوچھا، اُس کی نقل کیونکر ہے۔ بیان کر :

حکایت

طوطا کہنے لگا کہ کہنے والوں نے یوں کہا ہے کہ کسی وقت میں ایک گدھا کسی بارہ سنگے سے دوستی رکھتا تھا۔ اور وہ دونوں ایک ہی جنگل میں چرا کرتے تھے۔ اتفاقاً کسی رات دونوں مل کر بہار کے موسم میں کسی باغ میں چرنے گئے۔ جب پیٹ بھر چکا، تب گدھا بارہ سنگے سے کہنے لگا۔ اے بھائی اب جی چاہتا ہے کہ دل کھول کر گایئے اور خوشی کیجیے۔ کیونکہ باد بہار سے مغز معطر ہو رہا ہےہ اور ہوئے سرد نے دل کو سرور بخشا ہے۔ یہ سُن کر گوزن کہنے لگا کیا خوب یہ وہی بات ہے کہ گدھے کو خشکہ۔ بھائی اپنی فکر کر اور اگر کچھ کہتا ہے تو اپنے پالان اور دھوبی کے باندھنے کا کہہ یہ کیا بکتا ہے۔ یقین جان کہ کوئی آواز تیری آواز سے بدتر نہیں۔ گدھے کو گانے سے کیا کام۔ اس باغ میں ہم تم چوری سے آئے ہییں۔ اگر تو اس وقت ملہار گائے گا تو باغبان چونک اُٹھے گا اورکتنے لوگوں کو بھی پکارے گا۔ تو پھر تو آپ بھی باندھا جاوے گا اور مجھے بھی نتھوا دیگا۔ یہ بھی ویسا ہی قصہ ہے کہ جیسا اُن چوروں نے نادانی سے صدمہ اُٹھایا اورپکڑے گئے۔

نقل

سُنا ہے کہ کسی شب کو کئی چور باہم ہو کر ایک دولتمند کے گھر چوری کرنے گئے۔ اُس کے مکان دلچسپ میں ایک قرابہ شراب سے بھرا ہوا پا کر آپس میں کہنے لگے۔ اب جو ہو گی سو ہو، بالفعل اس جگہ شراب پیجیے۔ تاکہ چوری کا وقت بھی قریب پہنچے۔ بعد اُس کے اسباب موافق اپنی باربرداری کے چرائیے اور گھر جا کر اُس اسباب دزدی کو غنیمت سمجھیے۔ یہ بات ٹھہرا کر آدھی رات تک میخواری کیا کئے اور خوش خوش جوہیں نشہ میں آ کر غوغا کرنے لگے اور اسباب چرانے لگے۔ غرض عالم نشہ میں چوری کچھ کرتے تھے اور کچھ باندھتے تھے۔ اتنے میں صاحب خانہ چونکا اور اپنے لوگوں کو جمع کر کے اُن سبھوں کو باندھ لیا۔ یہ سنکر دراز گوش نے کہا استغفراللہ، تو کیا جانتا ہے، میں شہر کا رہنے والا ہوں گا، گانے پر مرتا ہوں اور تو بیچارہ جنگلی، اس مزے سے کیا واقف ۔ جو کچھ ہو میں گیت گاؤں گا۔ تجھے سننے سے کیا فائدہ ہو گا، باوجود اس حکایت سننے کے گدھے نے اُس کا کہنا نہ مانا اور منہ آسمان کی طرف پسار کر ملار بے تال گانے لگا۔ اتنے میں باغبان چونکا اور کئی شخصوں کو بلوا کر اُن دونوں کو چومیخا کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کی اورکہا، اے کدبانو جو کوئی وقت کے موافق کام نہیں کرتا سو یہی دیکھتا ہے۔

تصویر گدھے اور دراز گوش کی اور گدھے کا آسمان کی طرف منہ اٹھا کر الاپنا اور باغبان کا چونکنا اور اُن دونوں کو چومیخا کرنا

TotaKahani8.jpg

بی بی لازم ہے کہ ہر کوئی ہر ایک وقت کو دریافت کرتا رہے۔ بہتر یہی ہہے کہ اب جا اور اپنے ان ناامید کی اُمید بر لا۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچا دے۔ اتنے میں صبح ہوئی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس روز بھی موقوف رہا۔ تب اُس نے یہ بیت پڑھی اور رونے لگی۔

فرد

اس مہ جبین سے میرے مجھے کیوں جدا کیا
اے صبح کینہ جو یہ ستم تو نے کیا کیا​
 

شمشاد

لائبریرین
سینتیسویں داستان عاشق ہونا ایک بادشاہ کا شاہ روم کی لڑکی پر اور حکم قتل دینا اُس کی لڑکی کو​

جب آفتاب چھپا اور ماہتاب نکلا۔ خجستہ یاس سے بھری ہوئی رخصت لینے طوطے کے پاس گئی اور کہنے لگی۔ اے طوطے میں ہر ایک شب تیرے پاس آتی ہوں اور احوال اپنی بیقراری کا سُناتی ہوں۔ پر کچھ نمک کا حق ادا نہیں کرتا۔ اور مجھے ٹھنڈے جی سے رخصت نہیں کرتا۔ اے وائے نصیب۔

رباعی

کہتی ہوں جناب حق میں ڈرتے ڈرتے
مدت گذری دعائیں کرتے کرتے

قدرت ہے اُسی کو یہ کہ مجھ سا محروم
منہ یار کا دیکھ لیوے مرتے مرتے​

اور اس قدر نمک میرے دل ریش پر مت چھڑک اور اتنا مجھ ستائی ہوئی کو نہ ستا۔ لازم ہے کہ اب رخصت دے۔ طوطا کہنے لگا کہ خجستہ آج کی شب جس طرح سے بنے، اُس طرح سے جا اور اپنے معشوق کو گلے لگا۔

ابیات

جہاں کے یوہیں ہیں سبھی کاروبار
ولے حاصل عمر ہے وصل یار

شب و روز پی مل کے باہم شراب
مہ و مہر کو رشک کر کر کباب​

اگر سوائے میرے اس احوال سے اور کوئی آگاہ ہو تو تو بھی ویسی ہی تدبیر کرنا۔ جیسے روم کی شہزادی نے ساتھ اُس پاکدامنی کے کی تھی۔ کدبانو نے پوچھا کہ اس کی حکایت کیوں کر ہے :

حکایت

طوطا کہنے لگا۔ ایک بادشاہ روم کی بادشاہت کے قریب رہتا تھا۔ اتفاقاً ایکدن اُس کے وزیر نے کہا اے جہاں پناہ روم کا بادشاہ ایسی ایک لڑکی خوبصورت رکھتا ہے۔

فرد

عجب طرح کا نور ہے جانفزا
کہ مہ روبرو جس کے ہو تھک رہا​

اگر وہ اپنی بیٹی جناب عالم پناہ کو بیاہ دے تو کیا خوب ہو۔ بادشاہ نے وزیر کے اس سخن کو سُن کر نہایت پسند کیا اور ایک ایلچی کے ہاتھ مع سوغات اُس لڑکی کی طلب کا پیغام روم کے بادشاہ کو بھیجا۔ جس وقت اُس نامہ بر نے یہ پیغام پہنچایا اور اُس بادشاہ سے جا کر کہا، اُسی وقت وہ ایلچی پر خفا ہوا اور کہنے لگا کہ اے نامہ بر تیرے بادشاہ نے مجھ کو کیا سمجھا جو اس ڈھب کا پیغام بھیجا۔ اگر میں اپنی بات پر آتا ہوں تو اُس کی سلطنت خاک میں ملاتا ہوں۔ تجھے کیا کہوں۔ دور ہو سامنے سے۔ بہتر یہی کہ پھر اِدھر منہ نہ کرنا۔ خبردار خیر اسی میں ہے۔ وہ بیچارہ اُس کی خفگی سے تھرا گیا اور وہاں سے نااُمید پھرا۔

حسن

اُسے دیکھ غصہ میں یہ ڈر گیا
کہے تو جیتے جی مر گیا​

اُسی طرح پچھلے پاؤں بھاگ کر اپنے بادشاہ کے پاس آیا اور وہاں کی واردات بیان کرنے لگا۔ یہ بات بادشاہ کو نہایت ناگوار معلوم ہوئی۔ اُسی گھڑی ایک فوج قہار اپنے ہمراہ لے کر چڑھ گیا اور اُس کے ملک کو ایک آن میں تاخت و تاراج کیا۔

تصویر اس جگہ کی کہ بادشاہ روم نے اپنی لڑکی اُس سے بیاہ دی اور رسم آرسی مصحف ہو رہا ہے

TotaKahani9-1.jpg

جب وہ تنگ آیا، ناچار اپنی لڑکی بیاہ دی اور اُس لڑکی کو خاوند کے ساتھ رخصت کیا۔ غرض وہ بادشاہ اُس شاہزادی کو لیکر اپنے شہر گیا اور اُس سے عیش و عشرت کرنے لگا۔ بعد کتنے دنوں کے شہزادی اپنے بیٹے کی جدائی سے کہ پہلے خاوند سے ایک لڑکا رکھتی تھی اور اُس کو نانا پاس چھوڑ آئی تھی۔ بن دیکھے اُس کے بیقرار ہوئی اور رونے لگی اور بہت غم کرنے لگی۔ آخر یہ بات اپنے جی میں ٹھہرائی کہ کسی بہانہ سے اس کو اپنے پاس بلوائیے۔ اسی خیال میں رہتی تھی کہ اتنے میں بادشاہ نے اُسے ایک ڈبہ جواہر کا نہایت بیش قیمت بھرا ہوا دیا۔ تب اُس نے تجویز کی کہ اب اس بہانے سے بادشاہ کے روبرو ذکر کر کے لڑکے کو بلوائیے۔ تب بادشاہ سے کہنے لگی کہ آپ نے سُنا ہو گا کہ میرے باپ کے پاس ایک ایسا غلام عقلمند ہے۔ دانا جواہر شناس کہ تعریف سے باہر ہے۔ وہ عیب و ہنر جواہر کا خوب جانتا ہے۔ اگر وہ اس وقت یہاں ہوتا تو اس جواہر کو دریافت کرتا اور اچھا پہچان دیتا۔ بادشاہ نے کہا کہ اگر اُس غلام کو تیرے باپ سے مانگوں تو وہ مجھے دے یا نہ دے۔ کہا بابا جان نے اُسکو بچپن سے فرزند کی طرح پرورش کیا ہے۔ اگر تم کو اس کی تمنا ہے اور اُسے بلوانا منظور ہے تو ایک سوداگر میں اپنی طرف سے بھیجوں اور کچھ اپنی نشانی دوں اور بہتری کا امیدوار اُس لڑکے کو کروں تو اس سبب سے شاید جہاں پناہ اُسے بھیجدیں۔ اور وہ خوشی سے آوے۔ چنانچہ بادشاہ نے اُس کے کہنے کے بموجب ایک سوداگر نہایت مالدار کو واسطے تجارے کے روم کی طرف بھیجا۔ جس وقت وہ تاجر بادشاہ سے بموجب فرمانے کے مال و اسباب واسطے سوداگری کے لیکر چلا، اُس وقت شہزادی نے بادشاہ سے چھپ کر کہا اے سوداگر وہ لڑکا غلام نہیں ہے۔ میرا بیٹا ہے۔ ایک خط میرا اُسے دیجیو اور بادشاہ روم سے میرا پیغام کہیو کہ میں لڑکے کی جدائی سے نہایت غم میں ہوں۔ بہانے سے غلام کے اُ س کو بھیج دو۔ جب تیرے ساتھ آوے، بخوبی لے آئیو۔ مگر یہ پردہ نہ کھولیو۔ آخر کار وہ سوداگر گیا اور کتنے دن کے بعد اُس لڑکے کو لے آیا۔ اور اُس بادشاہ کے حوالے کیا۔ بادشاہ نے جو اُس لڑکے کو خوبصورت اور ہنرمند پایا تو نہایت خوش ہوا۔ اور اُس تاجر کو ایک خلعتِ فاخرہ بخشا اور اُس غلام کو اپنے پاس رکھا اور ماں اُس کی اُسے دور سے دیکھ لیتی۔ اور اُس کے سلام پیام سے اپنا جی خوش کرتی۔

تصویر سوداگر کا شاہزادی کے لڑکے کو روم سے لا کر بادشاہ کے حوالے کرنا

TotaKahani10.jpg

اتفاقاً ایک دن بادشاہ شکار کھیلنے گیا اور شہزادی نے فرصت پا کر اُس لڑکے کو محل میں بلوا کر اپنے گلے لگایا اور اُس کا سر اور منہ چُوما اور گذشتہ جُدائی کا غم اپنا اُس سے کہا۔ یہ خبر خبرداروں نے اُسی گھڑی بادشاہ کو پہنچائی۔ کہ آج شہزادی نے جہاں پناہ کے پیچھے اُس غلام کو محل میں طلب کیا اور اپنے برابر بٹھلایا۔ یہ خبر وحشت اثر سنتے ہی بادشاہ نہایت اپنے جی میں آزردہ ہوا اور کہنے لگا ایسی عورت سے ڈرئیے کہ دیدے پر دیوار بناتی ہے۔ مکر کر کے اپنے یار کو روم سے بلایا۔ اللہ رے کلیجہ۔ پھر آپ جلد شکار گاہ سے محل میں داخل ہوا۔ اور ایک کرسی جواہر نگار پر متفکر ہو کر بیٹھ رہا۔ اس حالت میں شہزادی نے جو بادشاہ کو دیکھا تو اپنے فہم سے دریافت کیا اور کہا کہ آج مزاج مُبارک پر ملال معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیا سبب ہے۔ تب بادشاہ نے کہا کیا خوب تم اپنے معشوق کو روم سے بلوا کر ہم بستر ہو اور مجھ سے بیوفائی کرو۔ یہ کیا شوخی اور بے شرمی ہے۔ چاہتا تھا کہ اُسے ہلاک کرے پر عاشق معشوق کو کب مار سکے۔ پھر اپنے جی میں کہنے لگا کہ بی بی کے بدلے غلام کو مارے۔ یہ ٹھہرا کر ایک جلاد کو اشارہ کیا اور کہا کہ اسی گھڑی اس کے سر کو جُدا کر۔ یہ سنتے ہی اُس لڑکے کو جلاد نے پکڑا اور قتل گاہ میں بٹھلا کر پوچھا۔ کہ اے اجل گرفتہ تو جانتا تھا کہ بادشاہ کی بیگم ہے۔ اس سے دوستی کروں گا تو کیونکر بچوں گا۔ اور تیرا قدم کیونکر بڑھا جو تو محل بادشاہی میں گیا۔ اُس نے کہا تو ایسی بات نہ کہہ۔ وہ میری سگی ماں ہے۔ جب میرا باپ فوت ہوا، تب اُس نے اسے شوہر کیا اور مارے شرم کے میرا احوال اُس سے نہ کہا۔ میں جھوٹ نہ کہوں گا، مار یا چھوڑ۔

بیت

قابو میں ہوں میں تیرے گو اب جیا تو پھر کیا
خنجر تلے کسی نے ٹُک دم لیا تو پھر کیا​

اس بات کے سنتے ہی جلاد کو رحم آیا اور اُس کے قتل سے باز رہا اور اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ بات بادشاہ پر کُھلی کہ وہ اُس کا بیٹا ہے، تو نے کیوں مارا اور شاہزادی کی خاطر اُس لڑکے کو مجھ سے وہ طلب کرے اور میں اُس کو اُس کے پاس جیتا نہ پہنچاؤں گا تو میں اسی طرح دوسرے کے ہاتھ سے مارا جاؤں گا۔ اسی اندیشہ کو دل میں جگہ دے کر بادشاہ سے عرض کی جہاں پناہ سلامت۔ اُس کشتنی کو وہاں جا کے ماروں گا جہاں پانی کا نام بھی نہ ہو گا۔ غرض اس بہاہنے سے وہ اُس کو بادشاہ سے لے کر اپنے گھر گیا اور چُھپا رکھا۔ بعد دو دن کے بادشاہ کی جناب میں عرض کی۔ عالم پناہ سلامت۔ اُس کا سر قدم مبارک پر نثار ہوا۔ بارے اس بات کے سُنتے ہی تھوڑی سی آتش غضب بادشاہ کی ٹھنڈی ہوئی، پر شہزادی کا اعتبار اُٹھ گیا۔ اور اُس کی کوکھ میں اور بھی محبت کی آگ بھڑکی۔

حسن

کلیجہ پکڑ ماں تو بس رہ گئی
کلی کی طرح سے بیکس رہ گئی​

بے اختیار ہو کر جی سے کہنے لگی، یہ کیا ہوا۔ ادھر بیٹا موا، اُدھر خاوند چھوٹا۔ قضائے کار ایک دن ایک بڑھیا جو اُس کے محل میں رہتی تھی، اُس نے پوچھا اے بی بی اس جوانی پر یہ کس کا غم کھاتی ہے۔ جو اس طرح سے آٹھویں پہر مسند پر منہ ڈہانپ کے پڑی رہتی ہے۔ تب اُس نے سارا احوال اُس سے کہا کہ یہ کیا ماجرا مجھ پر گزرا۔ اُس نے عرض کی اے شہزادی خاطر جمع رکھ۔ میں ایک بہانے سے تیرے بادشاہ کو تجھ پر مہربان کر دوں گی اور محل میں لے آؤں گی۔ شہزادی نے کہا اے مادر مہربان اگر اس درد کی دوا کرے گی تو میں تیرے دامن و جیب کو جواہر سے بھر دوں گی۔ آخر کار ایک دن اُسی پیرزال نے بادشاہ کو تنہا دیکھ کر پوچھا اے شہنشاہ میں تجھے کچھ اور دنوں سے آج دبلا دیکھتی ہوں۔ کیوں، واری جاؤں، خیر تو ہے۔

بیت

تجھے نت رکھے خوش میرا کردگار
تری اس جوانی پہ بڑھیا نثار​

بادشاہ نے کہا، اے ماما نیک بخت، میں وہ درد بے درمان رکھتا ہوں کہ جس کا بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ وہ درد یہ ہے کہ شہزادی نے روم سے اُس کو بلایا کہ جس پر عاشق ہوئی تھی اور میں نے اُسے قتل کیا۔ پر شہزادی نہیں مار سکتا۔ خدا جانے یہ بات جھوٹ ہے یا سچ۔ اور وہ میری معشوقہ ہے۔ اگر بے تصفیہ مار ڈالوں اور پھر جھوٹ نکلے، تو بدنامی اور جی کی بے قراری علاوہ ہو۔ یہ عقدہ باعث دلبستگی میری کا ہے۔ یہ بات سنتے ہی وہ پیرزال کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت تم اس کی فکر نہ کرو۔ میرے پاس ایک ایسا تعویذ ہے کہ اُس کو سوتے کی چھاتی پر رکھ دو۔ وہ اپنا سب جی کا احوال خود بخود کہہ دے۔۔ سو وہ نقش میں تمہیں لکھ دیتی ہوں۔ تم شہزادی کے سینے پر دھر دیکھو۔ اُس کے جی میں جو ہو گا، سو سب آپ سے آپ کہہ دے گی۔ بادشاہ نے کہا کہ تعویذ جلد لا۔ بڑھیا نے وہ تعویذ اُسی گھڑی بادشاہ کو لا دیا۔ اورآپ شہزادی کے پاس جا کر کہا کہ آج تو سرِ شام جھوٹ موٹ سو رہیو۔ اے ملکہ جس وقت بادشاہ تیری چھاتی پر تعویذ کو رکھے، تو اُس وقت سوتوں کی طرح سے جو تیرا احوال ٹھیک ہو سو بخوبی کہہ دینا۔ حاصل کلام جب پہر رات گئی۔ بادشاہ نے اُس نقش کو بادشاہزادی کے سینے پر جونہی رکھا، وہیں اُس نے اپنے خاوند سے پہلے خاوند کا اور اُس لڑکے کا احوال ایک ایک کہہ دیا۔ بادشاہ نے جو یہ بات سُنی، اُسے جگا کر نہایت مہربانی کی اورسینے سے لگا کر شہزادی سے کہا جانی کس واسطے یہ راز پہلے ہی مجھ سے نہ کہا۔ وہ گھبرا کر بولی، میں نے کون سی بات چُھپائی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ تیرا سگا بیٹا تھا۔ تو نے غلام کیوں بتلایا۔ تب اُس نے آنکھیں نیچی کر کے عرض کی کہ مجھے شرم معلوم ہوتی ہے۔کہتی کیوں کر۔ یہ سنتے ہی بادشاہ نے اُسی گھڑی اُس جلاد کو بلا کر کہا کہ جلدی اُس لڑکے کو میرے پاس لے آ۔ اگر مار ڈالا ہے تو اس کی گور کہاں ہے بتلا۔ اُس نے کہا جہاں پناہ میں نے اُسے تاحال نہیں مارا۔ وہ خدا کے فضل سے جیتا جاگتا موجود ہے۔ یہ بات سنتے ہی بادشاہ نہایت خوش ہوا اور اُسی وقت لڑکے کو بلوا کر اُس کی ماں کے حوالے کیا۔ اُس ناامید نے لڑکے کو گود میں لے کر درگاہ الٰہی میں سجدہ شکر ادا کیا۔ طوطے نے یہ کہانی تمام کر کے کہا۔ اے کدبانو اگر تجھ کو بھی کوئی کام مشکل پڑے تو تو بھی اسی طرح سے بیان کرنا۔ خیر اب جا اور اپنے معشوق سے مل۔ خجستہ نے یہ سنتے ہی چاہا کہ اپنے تئیں اُس کے پاس پہنچاوے۔ اتنے میں پَو پھٹی اور مرغ نے بانگ دی۔ جانا اُس کا اُس رور بھی موقوف رہا۔ تب یہ فرد پڑھی اوررونے لگی۔

اے سحر یہ یقین ہُوا مجھ کو
وصل کی شب میں اب نہ دیکھوں گی​
 

شمشاد

لائبریرین
اڑتیسویں داستان آنا میمون کا گھر میں اور مارا جانا خجستہ کا

اتنےمیں میمون شوہر اُس کا سفر سے آیا اور مینا کے پنجرے کو خالی دیکھ کر کہنے لگا کہ میری مینا کہاں اُڑ گئی۔ خجستہ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ طوطے نے عرض کی۔ پیر و مرشد ہماری بندگی لیجیے۔ اور آپ اِدہر تشریف لائیے اور ہم جو کچھ کہیں، آپ اُس پر دھیان لگائیے۔ احوال مینا اوربی بی خجستہ کا مجھ سے پوچھیے۔ میمون نے کہا کیا کہتا ہے۔ طوطا بولا۔ مینا کو آپ کی بیگم صاحبہ نے گردن مروڑ کے یارکے واسطے مار ڈالا اور مجھے بھی وہی راہ دکھایا چاہتی تھیں۔ خدا کے فضل سے میں نے ایک تدبیر سے اپنی جان اورآپ کی بی بی کی عصمت بچائی۔ وہ بیچاری خیر خواہی سے نثار ہو گئی۔ کس واسطے کہ آپ کی بی بی صاحبہ نے ایک جوان یارکیا تھا۔ اور اُس کے پاس جانا چاہتی تھیں۔ اُس نے بے تامل نصیحت کر کے منع کیا۔ اس واسطے وہ ماری گئی۔ میں نے حکایت اور داستان میں آج تک لگا رکھا۔ اپنی جان بھی بچائی اور اُس کو بھی جانے نہ دیا۔ اب آپ مالک ہیں۔ میموں نے کہا سچ ہے ۔ طوطا کہنے لگا۔ مجھے اپنے پیدا کرنے والے کی قسم ہے۔ بی بی جی نے ایک نوجوان یار کیا تھا۔ اُس کے واسطے وہ مرتی تھی۔ اس بات کے سنتے ہی وہ تاب نہ لا سکا۔ ایک ہی تلوار میں خجستہ کا کام تمام کیا۔ قصہ میمون اور خجستہ کا تمام ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ جھوٹ سچ کہنے والا جانے۔ اللہ تعالٰی نے جیسی میری حرمت رکھی ویسی ہی سب کی رکھے۔ آمین۔
 
Top