محمد وارث
لائبریرین
طلسم ہوشربا - صفحہ 81 تا 100
عمرو نے دل میں سوچا کہ اسکے پاس پوشاک عمدہ اور زیور مرصع ہے، دوسرے یہ کہ اس جگہ کی ناظمہ ہے، مکان بھی اسکا آراستہ ہے۔ وہاں چلنا خالی از منفعت نہیں، کچھ نہ کچھ مل رہے گا۔ یہ سمجھ کر چلنے پر راضی ہوا۔ مخمور نے ہر چند چاہا کہ بحیلہ و حوالہ جانے سے محفوظ رہوں مگر عمرو کے لالچ سے ممکن نہ ہوا۔ ناچار یہ بھی ہمراہ ہوئی۔ نور ان کو تختِ سحر پر بٹھا کر روانہ ہوئی اور کوہ و دشت کو طے کر کے اپنے قلعے میں پہنچی۔ عمرو نے دیکھا کہ قلعہ رعایا سے آباد ہے، ہر ایک ساکن یہاں کا دلشاد ہے۔ مکانات عمدہ آراستہ ہیں، دکانیں پیراستہ ہیں۔ دکاندار مرفہ الحال ہیں، مال و دولت سے مالا مال ہیں۔
رشکِ فردوس وہ گلستان تھا
خوشہ چیں اس چمن کا رضوان تھا
کیوں نہ ہو شہر اس طرح آباد
فوج سب خوش ہیں اور رعیت شاد
با قرینہ دو رویہ تھا بازار
نعمتیں سب جہاں کی تیار
تھا دکانوں میں خوب سرمایہ
جس کا ثانی نہ اور جا پایا
لطف بازار نے دکھایا تھا
عجب انداز سے بسایا تھا
بے خطرہ راہِ مستقیم کہو
سیر دیکھو جو واں کی شاد رہو
پختہ تیار سب دکانیں تھیں
عرش کی کرسیوں کی شانیں تھیں
کہیں بازار ایسا بستا تھا
تھی یہ کثرت کہ بند رستا تھا
عمرو سیر کرتا ہوا قریب دارلامارت شاہی کے آیا، اس کو بھی نہایت سجایا پایا۔ ملکہ نور جادو نے اپنے باغ میں لا کر اتارا۔ باغ میں جنت بھی بے نظیر تھا گل و ثمر سے بھرا سر سبز و ہرا بھرا تھا۔ جواہر کے درخت لگے تھے، یک قلم پھولے پھلے تھے۔ روشن پری درس تھی، باغبانی ہر ایک چالاکی و جست تھی۔ جانور ہر ایک زمزمہ پیرا تھا، گلوں سے ہر شجر لدا تھا۔
پھر نظر آیا وہ باغِ دلکشا
دیکھ کر جس کو یہ ششدر رہ گیا
عرض و طول اس کا بے شک بے گماں
مثل طول و عرض وہم عاقلاں
لعل و یاقوت و زمرد کے شجر
روشنی سے جن کی خیز نظر
سیم و زر کی خشت سے اسکی بنا
تعبیہ جس میں جواہر سے ہوا
سنگریزے کی جگہ اس میں گہر
ایسے تاہان تھے کہ خیرہ ہو نظر
ذرے ذرے میں تھی وہ تابندگی
ماہ و خور کو جس سے ہو شرمندگی
بیچ میں اس کے زمرد کا مکاں
گرد اس کے ہر طرف آب رواں
فرش ہر جا مسندس و بفت کا
سب طرف واں مہیا تھی غذا
بیچ باغ میں بارہ دری بنی تھی، ستونوں میں اس کی جواہر کی پچی کاری تھی۔ فرش مکلف بچھا تھا۔ شیشہ آلات لگا تھا۔ مسند پر زر آراستہ تھی۔ تمام اسبابِ عیش عشرت سے وہ جگہ معمور تھی۔ کسی چیز کی احتیاج نہ تھی، نہ ضرورت تھی۔ کہیں میخانہ بجا تھا، کہیں آبدار خانہ تھا۔ نور نے مخمور کو مسند پر بعزت تمام بٹھایا۔ عمرو نے سونے کے میر فرش رکھے دیکھے فوراً پیر پھیلا کر قریب میر فرش اپنے تئیں گرایا اور بچالاکی میر فرش لے کر زنبیل میں رکھا پھر ہائے ہائے کرنے لگا کہ میرے چوٹ لگی۔ خواصوں نے بموجب حکم ملکہ نور اس کو اٹھایا اور کہا "یہاں کا میر فرش کیا ہوا۔"
عمرو نے کہا۔ "گھر میں بلا کر چوری تو نہ لگاؤ، میری تلاشی لے لو۔"
اور اٹھ کر دوسری طرف گیا۔ آنکھ بچا کر ادھر بھی میر فرش اٹھا لیا۔ لونڈیاں غل مچانے لگیں کہ صریحاً فرش کے کونوں پر میر فرش رکھے تھے ابھی ابھی غائب ہو گئے۔
عمرو نے بگڑ کر کہا۔ "اے مخمور اٹھو، یہاں سے چلو ہم کو سب نے چور مقرر کیا ہے۔ ایسی جگہ ٹھہرنے میں چوری لگی، آبرو گئی پھر ہاتھ آنا دشوار ہے۔" نور جادو نے اس وقت کنیزوں کو گھرکا اور عمرو کا اٹھ کر ہاتھ پکڑ لیا، "آپ تشریف رکھیے، کنیزیں بدتمیز ہیں، ان کو بکنے دیجیئے۔"
یہ کہہ کر اس کو بٹھایا اور لونڈیوں سے کہا۔ "دور ہو چپ رہو میر فرش کہیں ہوگا مل جائے گا، کیوں غل مچاتی ہو۔" کنیزیں ناچار خاموش ہو رہیں اور عمرو بیٹھا۔
طولان جادو
ملکہ نور جادو نے جام بھر کر عمرو کو دیا، عمرو نے جام ہاتھ میں لیکر کہا۔ "اے ملکہ، وہ کنیز مجھے گھورتی ہے۔"
نور نے کنیز کی جانب دیکھا، عمرو نے بچالاکی شراب میں سفوفِ بیہوشی تین مثقال ملایا اور کہا۔ "اے ملکہ، میں یہ شراب جب پیوں گا کہ جب آپ پہلے پی لیں گی، کیونکہ یہ جگہ پردازِ دشمناں ہے، مجھے طرح طرح کے شک ہیں۔"
نور نے اس کے کہنے سے وہ جام لیکر بے اندیشۂ انجام بیک جرعہ و رکھشید کیا۔ عمرو وہاں سے اٹھا اور کہا مے خانے سے اپنے لیے شراب تحفہ چکھ کر لاؤں۔
اور میخانے میں جا کر سب شراب کو آغشہ بدا روی بیہوشی کیا۔ جو لوگ وہاں تھے ان سے کہا۔ "قرابے اور بوتلیں لاؤ" کسی سے کہا "تم باغ سے پھول توڑ لاؤ، شراب میں جو خوشبو نہیں میں بساؤں گا۔"
غرض یہ کہ حیلہ کر کے سب کو ہشا کر اپنا کام کیا۔ پھر حکم دیا "یہی شراب صحبت میں لاؤ"۔ وہی شراب کنیزیں لیکر حاضر ہوئیں، ان سے کہا۔ "ایک ایک جام پہلے تم پیو۔" انہوں نے بھی ایک ایک ساغر پیا بعد لمحے کے بیہوشی نے تاثیر کی اور ہر ایک جوتی پیزار لڑ کر بہوش ہو گئی۔
نور جادو کا بھی یہی حال ہوا۔ جب سب بیہوش ہو گئے، عمرو نے نور کے کپڑے اتار کر آپ پہنے اور اسکی صورت بن کر مخمور سے کہا۔ "تم کنیزوں کو ہوشیار کردو" اور آپ نور کو زنبیل میں رکھ کر مسند پر بیٹھا۔
مخمور نے جب لونڈیوں کو ہوشیار کیا، عمرو جو بصورت نور تھا، خفا ہوا۔ "مالزادیوں تم موجود تھیں اور عمرو نے بیہوشی شراب میں ملا کر تم سب کو بیہوش کیا اور آپ بھاگ گیا۔ وہ تو جمشید نے بڑی خیر کی ورنہ سب کو قتل کر ڈالتا۔"
مخمور نے اس گفتگو کو سن کر کہا۔ "بہن اور تو اور میری کئے کی محنت برباد ہو گئی۔ اب میں شہنشاہ کو جا کر منہ اپنا کیا دکھاؤں گی اور اس مفتری کو کہاں پاؤں گی۔" نور نے کہا۔ "یہ تو سب کچھ ہوا اب وہ ایسا نہ ہو کہ قلعہ کو لوٹ لے۔ بہن تم یہاں ٹھہرو میں جاتی ہوں انتظام کرنے۔"
یہ کہہ کر وہاں سے اٹھا اور ایک آدھا کنیز کو وہاں سے لیا وہ انتظام کرتی آگے آگے چلیں، یہ ان کے دارالامارت شاہی میں آیا۔ یہاں امراء و وزراء اراکینِ سلطنت حاضر تھے۔ سب نے تعظیم کی۔ عمرو سر پر جہانیاں پر بیٹھا اور حکم دیا "تمام شہر میں دہل زنی کی جائے یعنی عمرو عیار کو میں قید کر کے لائی تھی، وہ چھوٹ گیا ہے۔ سب اہل شہر اپنی حفاظت کریں، جوہری اور مہاجنانِ شہر اپنا اپنا مال سرکار میں لا کر جمع کردیں، معہ سود اور منافع کے اصل روپیہ فرو ہونے پر اس ہنگامے کے ان کو واپس دیا جائے گا۔ یہاں بحفاظت رہے گا اور لٹ جائے گا تو سرکار کچھ نالش فریاد اسکی نہ سنے گی۔"
الحاصل شہر میں حسب الحکم منادی کر دی، صاحبانِ شہر اور مالدار لوگ دہشت ناک ہو کر مال اپنا سرکار میں فرہام کرنے کو بھیجنے لگے۔ الگ الگ کان اور درجے ہر ایک کو اسباب رکھنے کے لیے خالی کر دیئے گئے۔ دو روز تک یہی انتظام رہا۔ عمرو ہر شب باغ میں جا کر آرام کرتا تھا۔ صبح کو تخت حکومت پر جلوہ گر ہوتا تھا۔ تیسرے دن دوپہر رات گئے عمرو نے خزانہ دار کو طلب کیا اور کہا۔ "آج مجھ کو اندیشۂ عظیم ہے، کنجیاں خزانے کی میرے حوالے کر دو اور میرے ہمراہ چل کر جملہ مال رعایا اور جو ہمارا خزانہ ہو بتلا دو۔"
خزانہ دار نے کنجیاں حوالے کیں اور سب مال بتلا دیا۔ عمرو نے پہرا چوکی کی سب ہٹا دیا۔ ہر ایک کو رخصت کر کے سب مال رعایا کا اور نور جادو کا خزانہ جالِ الیاسی مار کر نذرِ زنبیل کیا۔ پھر وہاں سے باغ میں آیا، مخمور سے کہا "چلنے کی تیاری کرو اور ایسا سحر کرنا کہ سارے شہر میں غلغلۂ عظیم برپا ہو، میں اس ملک کو لوٹ کر صبح کو بیرونِ قلعہ تمھیں ملوں گا، شہر سے باہر نکل جانا۔"
مخمور اس کے ارشاد کے بموجب تیار ہوئی۔ عمرو نے پہلے کنیزوں کو جو باغ میں تھیں پاس اپنے بلایا اور حکم دیا۔ "سب میرے پاس بیٹھو اور پہرا دو، ایسا نہ ہو کہ عمرو آ کر کچھ گزند پہنچائے۔" کنیزیں بموجب حکم بیٹھیں۔ اس نے پروانہ ہائے بیہوشی اڑائے کہ وہ شمعوں پر گر کر جلیں، دھواں نکلا، دماغ میں کنیزوں کے گیا، سب بیہوش ہو گئیں۔ عمرو نے باغ اور بارہ دری کا اسباب معع فرش و آلات وغیرہ لے کر زنبیل میں رکھا۔ پھر کنیزوں کا گہنا اور کپڑے اتار کر نور جادو کو زنبیل سے نکالا اور زبان میں سوزن دے کر ستونِ بارہ دری سے باندھ کر ہوشیار کیا اور کہا۔ "میری اطاعت کر، اسلام کی مطیع ہو، میں سارا شہر تیرا لوٹ چکا اور اب تجھ کو قتل کروں گا۔"
نور نے ماجرا سنکر اشکِ حیرت بہائے اور اشارے سے کہا۔ "ہر گز اطاعتِ اسلام نہ کروں گی۔"
اسکے انکار کرتے ہی عمرو نے سر اسکا جدا کیا۔ العیاذ باللہ، شور اسکے مرنے کا بلند ہوا، آگ پتھر برسنے لگے۔
عمرو نے جلد از جلد کنیزوں کے سر کاٹنا شروع کئے، پھر تو تمام عالم میں تاریکی چھا گئی اور صدائیں مہیب آنے لگیں۔ ملازمانِ نور جادو گھبرا کر جانبِ باغ دوڑے۔ اس تاریکی میں مخمور اڑ کر بروئے ہوا جا کر ٹھہری۔ جو درِ باغ پر سحر آیا، اسنے نارنج مارا کہ اسکے سینے کو توڑ گیا اور اسکے بیروں نے غل مچایا۔ صدا اسکے نام سے مرنے کی بلند ہوئی پھر تو بھگدڑ پڑ گئی۔ باغ میں جانا کیسا، یر ایک اپنی اپنی جگہ پر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مخمور ناریل اور ترنج اور تیر سحر کے مارتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس تاریکی میں عمرو بھی باغ سے نکل کر روانہ ہوا۔ شہر میں رعایا تو آمد عمرو کی نسبت ڈھنڈورا سن چکی تھی، اس وقت بھگدڑ پڑتے ہی بغیر پرسشِ احوال بھاگی۔ عمرو نے گیند روغن میں بھگو کر مکانات پر پھینکے کہ ہر طرف آگ لگ گئی۔ دارالامارت شاہی میں آگ لگا دی، جو کوئی گھر سے نکلا اسنے قیامت برپا دیکھی، آگ لگی ہے، پتھر برستے ہیں، تیر گر رہے ہیں، مار و عقرب کی بارش ہو رہی ہے۔ وہ سب سمجھے کہ عمرو معلوم ہوتا ہے فوج لے کر آیا ہے۔ پس جو منچلے تھے آمادہِ حرب ہوئے، لیکن لڑیں کس سے، وہاں تو صرف مخمور سحر کرتی اڑتی چلی آتی تھی۔ رعایا اور ملازمانِ شاہی حریف کی تلاش میں ایسا گھبرائے کہ جو غول سامنے آیا اسکو عمرو کی فوج سمجھ کر لڑنے لگے اور ادھر کے آنے والے ان کو حریف جان کر ہم نبرد ہوئے۔ صد ہا سر کٹ گئے، گلی کوچے لاشوں سے پٹ گئے، خون کے نالے بہنے لگے، شعلہ ہائے آتش بلند تھے۔ ہنگامہ گیر و دار تھا۔
ادھر مخمور آ کر رہی تھی، ادھر فوج و رعایا باہم لڑ رہی تھی۔ عمرو کہ اس ہنگامے دکانوں میں گھس کر مال تخت و تاراج کرتا تھا اور چھلانگیں کر کے ہر ایک کے سر پر خنجر مارتا تھا، سر جدا ہوتے تھے، لوگ بھاگتے جاتے تھے، مگر مرتے تھے۔ خلاصہ کلام اس ٹھوڑی سی رات میں تیغِ تیز آتش بار تھی۔ خرمن جان ساحران جل کر راکھ کا انبار تھی۔ شمشیر مثل خانہ تقدیر دفترِ ہستی کو محو کرتی تھی، کمند گرہ گیر بسان سلسلہ قضا و قفر ہر ایک کی پا بہ زنجیر تھی۔ اجل گلو گیر تھی۔ جس گلی میں دیکھئے ہنگامۂ جنگ تھا، ہر کوچہ ایک دوسرے سے طالبِ نام و ننگ تھا۔ بہت سے قلعہ کا در کھول کر بھاگ گئے تھے، صحرا اور کوہستان میں پریشان پھرتے تھے۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی، اپنی اپنی جان بچانے پر نظر تھی۔
اندھیرے میں تھی تیغ شعلہ فشاں
طپان ابر میں جیسے ہوں بجلیاں
مچانے لگے شور جادو کے بیر
برستا تھا ہر سمت بارانِ تیر
چلی تیغ چلن کی سن سن ہوا
دیا مشعلِ زندگی کو بجھا
بھڑک اٹھے یوں شعلہ ہائے فساد
کہ در کاخ تن آتش کیں فتاد
ہوا آب تیغ رواں یوں رواں
کہ غرق ہو گئی جس میں کشتیِ جاں
بڑھا قلزمِ مرگ کا ایسا پاٹ
اترنے لگے تیغ کے سوکھے گھاٹ
پسر نے پدر کو کیا تھا ہلاک
کیا بھائی کا بھائی نے سینہ چاک
غرض صبح تک رہا یہ ماجرا
کہ آپس میں ہر ایک لڑتا رہا
درِ قلعہ تو کھلا ہوا ہی تھا، صبح ہوتے ہوتے عمرو قلعہ سے بھاگنے والوں کے ساتھ نکل گیا اور مخمور بھی اڑ کر شہر کے باہر آئی، لیکن عمرو کی فطرت پر حیران تھی کہ اس نے سارا شہر دم بھر میں قتل کر ڈالا اور مال سارا لوٹ کر آپ الگ ہو رہا۔
غرض یہ کہ اسی حیرت میں ایک پہاڑ پر آ کر کھڑی تھی کہ بہت دور عمرو کو ست و خیز کرتے جاتے دیکھا، یہ بھی اڑ کر اسی طرف کو چلی اور قریب پہنچ کر ملاقی ہوئی، دونوں باہم باتیں کرتے روانہ ہوئے۔
ادھر قلعہ نورانیہ میں دمِ سحر ایک کو ایک نے پہچانا اور باہم لڑنا موقوف کیا، لیکن فرطِ خوف سے بھاگ بھاگ کر جا بجا مخفی ہوئے، جو ملازم اور سپاہی لڑنے مرنے سے بچے وہ باغ میں گئے۔ لاش نور جادو کی اٹھائی، بارہ دری الٹی ہوئی پائی۔ یہ سب فریاد کناں سمتِ شاہ جاوداں روانہ ہوئے، لیکن عمرو اور مخمور ہنستے قہقہے لگاتے چلے جاتے تھے کہ یکا یک فلک پر سناٹا ہوا اور ایک ساحر مہیب صورت، کریہہ منظر، بد شعار، اژرد پر سوار، فرستادہ افراسیاب عالی تبار، بلائے جادو، روبرو آیا اور للکارا۔ "اے باد و زر مکار کہاں میرے ہاتھ سے بچ کر جائے گا۔"
مخمور نے نعرہ سن کر عمرو کو پیچھے کیا اور آپ آگے بڑھ کر آمادہِ حرب ہوئی۔ نارنج ترنج چلنے لگے، اژرد و عقرب بننے لگے، ابرِ سحر آ کر برسنے لگے، شور برپا ہوا۔ بلائے جادو نے جب دیکھا کہ میں اس سے سر پر نہیں ہونگا، پس قریب آ کر خاکِ جمشیدی اڑائی۔ مخمور پر بیہوشی چھائی۔ بلائے جادو نے چاہا کہ عمرو کو بھی گرفتار کر لوں اور دونوں کا سر کاٹ کر شہنشاہ کے پاس لے جاؤں، یہ قصد کر کے سحر پڑھتا آگے بڑھا۔
عمرو نے للکارا، "او حرامزادے، لے میرے اس سحر کو رد کر"۔ یہ کہہ کر ایک نارنج کمر سے نکال کر اس کو دکھایا وہ سمجھا کہ عمرو بھی ساحر ہے۔ نارنج دیکھتے ہی ردِ سحر پڑھنے لگا۔ عمرو نے نارنج تاک کر اسکی ناک پر مارا، وہ نارنج نہ تھا، حبابِ بیہوشی تھا کہ ناک پر لگتے ہی بیہوش ہوگیا اور غبارِ بیہوشی دھویں کی طرح نکل کر دماغ میں سرایت کر گیا۔ وہ چھینک کر بیہوش ہو گیا۔ عمرو نے خنجر نکال کر چاہا کہ سر کاٹ لوں کہ ایک برقِ شعلہ بار چمکی، عمرو سمجھا کہ کچھ آفت ہے، مخمور کو کاندھے پر لادا اور وہاں سے بھاگا۔ ادھر وہ بجلی پنجہ بن کر جو گری، بلائے جادو کو اٹھا کر لے گئی۔ ادھر مخمور کچھ عرصہ میں ہوشیار ہوئی۔ عمرو کی گود میں اپنے تئیں پایا، حال پوچھا، عمرو نے سب کیفیت بیان کی۔
مخمور نے کہا۔ "وہ بجلی نہ تھی، پنجۂ سحر ہوگا جو اسکو اٹھا لے گیا۔ افرسیاب نے بہر حفاظت بطور مخفی کے کچھ پنجے بھی اسکے ساتھ کر دیئے ہونگے۔ اب ہم تم یہاں سے جلدی نکل چلیں ایسا نہ ہو کہ کچھ اور آفت آئے۔"
عمرو نے کہا۔ "اگر پنجے اسکے ساتھ تھے تو ہماری بلا سے، جلدی کیا ہے، ہم تو آہستہ آہستہ سیر کرتے چلیں گے۔" یہ کہہ کر تفریخ کرتے دونوں روانہ ہوئے۔
مگر افراسیاب باغ سیب میں متکمن تھا کہ اول ملازمانِ نور جادو لاش نور جادو کی لیے درِ باغ پر نالاں و گریاں آئے، بادشاہ نے غل سنکر رو برو بلایا۔ انہوں نے آ کر لاش سامنے رکھ دیا اور فریاد کی۔
افراسیاب کو حال قلعہ نورانیہ کے قلع قمع کا سنکر غصہ آیا اور چاہتا تھا کہ فوج بہر گرفتاری عمرو روانہ کرے۔
اسی اثنا میں پنجے نے بلائے جادو کو لا کر سامنے ڈال دیا۔ بادشاہِ طلسم اور بھی غضب ناک ہوا اور آبِ سحر پڑھ کر بلائے جادو کو ہوشیار کیا اور کہا۔ "اسی منہ پر عمرو کو گرفتار کرنے کو دعوٰی کر گئے تھے۔" بلائے جادو کو بڑی ندامت ہوئی اور عرض کیا۔ "غلام پھر جاتا ہے۔"
شاہ جاوداں نے کہا۔ "اب جاؤ گے تو کیا بناؤ گے، یقین ہے کہ قتل ہو جاؤ گے۔"
اس نے عرض کیا۔ "کچھ بھی کیوں نہ ہو، میں ضرور جاؤں گا۔" یہ کہہ کر دوبارہ روانہ ہوا۔ شاہ نے لاش نور جادو اسکے ملازموں کو دے کر حکم دیا۔ "بنا بر آئینِ جمشید لاش اٹھا اور مضطرب نہ ہو، میں اس مکار کو گرفتار کرا کے تم لوگوں کو اطلاع دوں گا، اس روز بخوبی بدلہ اپنا لیا، وہ مفسد کہاں تک مجھ سے بچے گا، آخر ایک نہ ایک دن اپنی سزا کو پہنچے گا۔ فی الحال وزرائے سلطنت قلعہ نورانیہ کا انتظام کریں، میں ورثہ وارانِ نور جادو کو تجویز کر کے خلعتِ ریاست دوں گا۔"
غرض یہ کہ اس حکم شاہِ کو سن کر وہ لوگ پھر گئے اور افراسیاب اس فکر میں ہوا کہ ملکہ حیرت کی مدد کو طالان بن قہار کو بھیجا جائے اور کسی کو کچھ فوج دے کر بہر گرفتاری عمرو اور مخمور روانہ کرنا لازم ہے۔ یہ تو اس فکر میں ہے۔ لیکن مسافر فروشت طلسم عمرو اور مخمور سیر کناں منازل و مراحل طے کرتے کوہ و دشت طلسم ملاحظہ فرماتے چلے جاتے تھے۔ مخمور ان راستوں کو کاٹ دیتی تھی جو ساحران نامی کی جگہ رہنے کی تھی۔ اس طرح بعد قطع مسافت وزرا ایک روز ایک کوہ سیاہ کے قریب پہنچے۔ عمرو نے دیکھا کہ پہاڑ کی رنگت مثلِ قلبِ بخیلاں سیاہ ہے بلکہ تاریک تر از گورِ یہوداں پُر گناہ ہے، شامِ فرقتِ عاشقاں کی سیاہی سامنے اسکے خمل تھی، درازی و طولانی اسکی مثلِ شبِ ہجرِ بیدل تھی۔
سرِ کوہ تا پائیں کوہ گھاس اگی ہم شکل ماراں سیاہ تھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ افعی زہر دار پھن اپنے زمین میں گاڑے ہیں۔ کہیں کفچے اٹھائے سانپ کالے اور کوڑیالے ہیں، جا بجا بڑے بڑے غار تھے۔ ان کے اندر سوراخ ہائے مار تھے، اژدر قلابِ آتشیں بیٹھے چھوڑ رہے تھے۔ ناگ پھنی اور تھپڑ کے خاردار درخت لگے تھے۔ جنگل حرارتِ زہر سے تپ رہا تھا۔ ہر پتھر سے زرارہ آتش ناک نکلتا تھا۔ غبار زین سے سیاہ رنگ کا اڑتا تھا، ہر بگولہ بصورتِ دیو سیاہ پیدا ہو کر ڈراتا تھا۔
درے سے نکلتا تھا ایسا غبار
کہ جس طرح دشمن کے دل سے نجار
حرارت نے ایسا کیا تھا ظہور
ہر ایک غار جلتا تھا مثلِ تنور
کوئی شعلہ واں سے جو اڑ جاتا تھا
تو خورشید گردوں پہ تھراتا تھا
بگولے تھے یا کوئی دیو سیاہ
جنہیں دیکھ کر شیطان مانگے پناہ
دل اہلِ عالم کا سب دور آہ
(ختم شد صفحہ 81 تا 100)
۔
عمرو نے دل میں سوچا کہ اسکے پاس پوشاک عمدہ اور زیور مرصع ہے، دوسرے یہ کہ اس جگہ کی ناظمہ ہے، مکان بھی اسکا آراستہ ہے۔ وہاں چلنا خالی از منفعت نہیں، کچھ نہ کچھ مل رہے گا۔ یہ سمجھ کر چلنے پر راضی ہوا۔ مخمور نے ہر چند چاہا کہ بحیلہ و حوالہ جانے سے محفوظ رہوں مگر عمرو کے لالچ سے ممکن نہ ہوا۔ ناچار یہ بھی ہمراہ ہوئی۔ نور ان کو تختِ سحر پر بٹھا کر روانہ ہوئی اور کوہ و دشت کو طے کر کے اپنے قلعے میں پہنچی۔ عمرو نے دیکھا کہ قلعہ رعایا سے آباد ہے، ہر ایک ساکن یہاں کا دلشاد ہے۔ مکانات عمدہ آراستہ ہیں، دکانیں پیراستہ ہیں۔ دکاندار مرفہ الحال ہیں، مال و دولت سے مالا مال ہیں۔
رشکِ فردوس وہ گلستان تھا
خوشہ چیں اس چمن کا رضوان تھا
کیوں نہ ہو شہر اس طرح آباد
فوج سب خوش ہیں اور رعیت شاد
با قرینہ دو رویہ تھا بازار
نعمتیں سب جہاں کی تیار
تھا دکانوں میں خوب سرمایہ
جس کا ثانی نہ اور جا پایا
لطف بازار نے دکھایا تھا
عجب انداز سے بسایا تھا
بے خطرہ راہِ مستقیم کہو
سیر دیکھو جو واں کی شاد رہو
پختہ تیار سب دکانیں تھیں
عرش کی کرسیوں کی شانیں تھیں
کہیں بازار ایسا بستا تھا
تھی یہ کثرت کہ بند رستا تھا
عمرو سیر کرتا ہوا قریب دارلامارت شاہی کے آیا، اس کو بھی نہایت سجایا پایا۔ ملکہ نور جادو نے اپنے باغ میں لا کر اتارا۔ باغ میں جنت بھی بے نظیر تھا گل و ثمر سے بھرا سر سبز و ہرا بھرا تھا۔ جواہر کے درخت لگے تھے، یک قلم پھولے پھلے تھے۔ روشن پری درس تھی، باغبانی ہر ایک چالاکی و جست تھی۔ جانور ہر ایک زمزمہ پیرا تھا، گلوں سے ہر شجر لدا تھا۔
پھر نظر آیا وہ باغِ دلکشا
دیکھ کر جس کو یہ ششدر رہ گیا
عرض و طول اس کا بے شک بے گماں
مثل طول و عرض وہم عاقلاں
لعل و یاقوت و زمرد کے شجر
روشنی سے جن کی خیز نظر
سیم و زر کی خشت سے اسکی بنا
تعبیہ جس میں جواہر سے ہوا
سنگریزے کی جگہ اس میں گہر
ایسے تاہان تھے کہ خیرہ ہو نظر
ذرے ذرے میں تھی وہ تابندگی
ماہ و خور کو جس سے ہو شرمندگی
بیچ میں اس کے زمرد کا مکاں
گرد اس کے ہر طرف آب رواں
فرش ہر جا مسندس و بفت کا
سب طرف واں مہیا تھی غذا
بیچ باغ میں بارہ دری بنی تھی، ستونوں میں اس کی جواہر کی پچی کاری تھی۔ فرش مکلف بچھا تھا۔ شیشہ آلات لگا تھا۔ مسند پر زر آراستہ تھی۔ تمام اسبابِ عیش عشرت سے وہ جگہ معمور تھی۔ کسی چیز کی احتیاج نہ تھی، نہ ضرورت تھی۔ کہیں میخانہ بجا تھا، کہیں آبدار خانہ تھا۔ نور نے مخمور کو مسند پر بعزت تمام بٹھایا۔ عمرو نے سونے کے میر فرش رکھے دیکھے فوراً پیر پھیلا کر قریب میر فرش اپنے تئیں گرایا اور بچالاکی میر فرش لے کر زنبیل میں رکھا پھر ہائے ہائے کرنے لگا کہ میرے چوٹ لگی۔ خواصوں نے بموجب حکم ملکہ نور اس کو اٹھایا اور کہا "یہاں کا میر فرش کیا ہوا۔"
عمرو نے کہا۔ "گھر میں بلا کر چوری تو نہ لگاؤ، میری تلاشی لے لو۔"
اور اٹھ کر دوسری طرف گیا۔ آنکھ بچا کر ادھر بھی میر فرش اٹھا لیا۔ لونڈیاں غل مچانے لگیں کہ صریحاً فرش کے کونوں پر میر فرش رکھے تھے ابھی ابھی غائب ہو گئے۔
عمرو نے بگڑ کر کہا۔ "اے مخمور اٹھو، یہاں سے چلو ہم کو سب نے چور مقرر کیا ہے۔ ایسی جگہ ٹھہرنے میں چوری لگی، آبرو گئی پھر ہاتھ آنا دشوار ہے۔" نور جادو نے اس وقت کنیزوں کو گھرکا اور عمرو کا اٹھ کر ہاتھ پکڑ لیا، "آپ تشریف رکھیے، کنیزیں بدتمیز ہیں، ان کو بکنے دیجیئے۔"
یہ کہہ کر اس کو بٹھایا اور لونڈیوں سے کہا۔ "دور ہو چپ رہو میر فرش کہیں ہوگا مل جائے گا، کیوں غل مچاتی ہو۔" کنیزیں ناچار خاموش ہو رہیں اور عمرو بیٹھا۔
طولان جادو
ملکہ نور جادو نے جام بھر کر عمرو کو دیا، عمرو نے جام ہاتھ میں لیکر کہا۔ "اے ملکہ، وہ کنیز مجھے گھورتی ہے۔"
نور نے کنیز کی جانب دیکھا، عمرو نے بچالاکی شراب میں سفوفِ بیہوشی تین مثقال ملایا اور کہا۔ "اے ملکہ، میں یہ شراب جب پیوں گا کہ جب آپ پہلے پی لیں گی، کیونکہ یہ جگہ پردازِ دشمناں ہے، مجھے طرح طرح کے شک ہیں۔"
نور نے اس کے کہنے سے وہ جام لیکر بے اندیشۂ انجام بیک جرعہ و رکھشید کیا۔ عمرو وہاں سے اٹھا اور کہا مے خانے سے اپنے لیے شراب تحفہ چکھ کر لاؤں۔
اور میخانے میں جا کر سب شراب کو آغشہ بدا روی بیہوشی کیا۔ جو لوگ وہاں تھے ان سے کہا۔ "قرابے اور بوتلیں لاؤ" کسی سے کہا "تم باغ سے پھول توڑ لاؤ، شراب میں جو خوشبو نہیں میں بساؤں گا۔"
غرض یہ کہ حیلہ کر کے سب کو ہشا کر اپنا کام کیا۔ پھر حکم دیا "یہی شراب صحبت میں لاؤ"۔ وہی شراب کنیزیں لیکر حاضر ہوئیں، ان سے کہا۔ "ایک ایک جام پہلے تم پیو۔" انہوں نے بھی ایک ایک ساغر پیا بعد لمحے کے بیہوشی نے تاثیر کی اور ہر ایک جوتی پیزار لڑ کر بہوش ہو گئی۔
نور جادو کا بھی یہی حال ہوا۔ جب سب بیہوش ہو گئے، عمرو نے نور کے کپڑے اتار کر آپ پہنے اور اسکی صورت بن کر مخمور سے کہا۔ "تم کنیزوں کو ہوشیار کردو" اور آپ نور کو زنبیل میں رکھ کر مسند پر بیٹھا۔
مخمور نے جب لونڈیوں کو ہوشیار کیا، عمرو جو بصورت نور تھا، خفا ہوا۔ "مالزادیوں تم موجود تھیں اور عمرو نے بیہوشی شراب میں ملا کر تم سب کو بیہوش کیا اور آپ بھاگ گیا۔ وہ تو جمشید نے بڑی خیر کی ورنہ سب کو قتل کر ڈالتا۔"
مخمور نے اس گفتگو کو سن کر کہا۔ "بہن اور تو اور میری کئے کی محنت برباد ہو گئی۔ اب میں شہنشاہ کو جا کر منہ اپنا کیا دکھاؤں گی اور اس مفتری کو کہاں پاؤں گی۔" نور نے کہا۔ "یہ تو سب کچھ ہوا اب وہ ایسا نہ ہو کہ قلعہ کو لوٹ لے۔ بہن تم یہاں ٹھہرو میں جاتی ہوں انتظام کرنے۔"
یہ کہہ کر وہاں سے اٹھا اور ایک آدھا کنیز کو وہاں سے لیا وہ انتظام کرتی آگے آگے چلیں، یہ ان کے دارالامارت شاہی میں آیا۔ یہاں امراء و وزراء اراکینِ سلطنت حاضر تھے۔ سب نے تعظیم کی۔ عمرو سر پر جہانیاں پر بیٹھا اور حکم دیا "تمام شہر میں دہل زنی کی جائے یعنی عمرو عیار کو میں قید کر کے لائی تھی، وہ چھوٹ گیا ہے۔ سب اہل شہر اپنی حفاظت کریں، جوہری اور مہاجنانِ شہر اپنا اپنا مال سرکار میں لا کر جمع کردیں، معہ سود اور منافع کے اصل روپیہ فرو ہونے پر اس ہنگامے کے ان کو واپس دیا جائے گا۔ یہاں بحفاظت رہے گا اور لٹ جائے گا تو سرکار کچھ نالش فریاد اسکی نہ سنے گی۔"
الحاصل شہر میں حسب الحکم منادی کر دی، صاحبانِ شہر اور مالدار لوگ دہشت ناک ہو کر مال اپنا سرکار میں فرہام کرنے کو بھیجنے لگے۔ الگ الگ کان اور درجے ہر ایک کو اسباب رکھنے کے لیے خالی کر دیئے گئے۔ دو روز تک یہی انتظام رہا۔ عمرو ہر شب باغ میں جا کر آرام کرتا تھا۔ صبح کو تخت حکومت پر جلوہ گر ہوتا تھا۔ تیسرے دن دوپہر رات گئے عمرو نے خزانہ دار کو طلب کیا اور کہا۔ "آج مجھ کو اندیشۂ عظیم ہے، کنجیاں خزانے کی میرے حوالے کر دو اور میرے ہمراہ چل کر جملہ مال رعایا اور جو ہمارا خزانہ ہو بتلا دو۔"
خزانہ دار نے کنجیاں حوالے کیں اور سب مال بتلا دیا۔ عمرو نے پہرا چوکی کی سب ہٹا دیا۔ ہر ایک کو رخصت کر کے سب مال رعایا کا اور نور جادو کا خزانہ جالِ الیاسی مار کر نذرِ زنبیل کیا۔ پھر وہاں سے باغ میں آیا، مخمور سے کہا "چلنے کی تیاری کرو اور ایسا سحر کرنا کہ سارے شہر میں غلغلۂ عظیم برپا ہو، میں اس ملک کو لوٹ کر صبح کو بیرونِ قلعہ تمھیں ملوں گا، شہر سے باہر نکل جانا۔"
مخمور اس کے ارشاد کے بموجب تیار ہوئی۔ عمرو نے پہلے کنیزوں کو جو باغ میں تھیں پاس اپنے بلایا اور حکم دیا۔ "سب میرے پاس بیٹھو اور پہرا دو، ایسا نہ ہو کہ عمرو آ کر کچھ گزند پہنچائے۔" کنیزیں بموجب حکم بیٹھیں۔ اس نے پروانہ ہائے بیہوشی اڑائے کہ وہ شمعوں پر گر کر جلیں، دھواں نکلا، دماغ میں کنیزوں کے گیا، سب بیہوش ہو گئیں۔ عمرو نے باغ اور بارہ دری کا اسباب معع فرش و آلات وغیرہ لے کر زنبیل میں رکھا۔ پھر کنیزوں کا گہنا اور کپڑے اتار کر نور جادو کو زنبیل سے نکالا اور زبان میں سوزن دے کر ستونِ بارہ دری سے باندھ کر ہوشیار کیا اور کہا۔ "میری اطاعت کر، اسلام کی مطیع ہو، میں سارا شہر تیرا لوٹ چکا اور اب تجھ کو قتل کروں گا۔"
نور نے ماجرا سنکر اشکِ حیرت بہائے اور اشارے سے کہا۔ "ہر گز اطاعتِ اسلام نہ کروں گی۔"
اسکے انکار کرتے ہی عمرو نے سر اسکا جدا کیا۔ العیاذ باللہ، شور اسکے مرنے کا بلند ہوا، آگ پتھر برسنے لگے۔
عمرو نے جلد از جلد کنیزوں کے سر کاٹنا شروع کئے، پھر تو تمام عالم میں تاریکی چھا گئی اور صدائیں مہیب آنے لگیں۔ ملازمانِ نور جادو گھبرا کر جانبِ باغ دوڑے۔ اس تاریکی میں مخمور اڑ کر بروئے ہوا جا کر ٹھہری۔ جو درِ باغ پر سحر آیا، اسنے نارنج مارا کہ اسکے سینے کو توڑ گیا اور اسکے بیروں نے غل مچایا۔ صدا اسکے نام سے مرنے کی بلند ہوئی پھر تو بھگدڑ پڑ گئی۔ باغ میں جانا کیسا، یر ایک اپنی اپنی جگہ پر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مخمور ناریل اور ترنج اور تیر سحر کے مارتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس تاریکی میں عمرو بھی باغ سے نکل کر روانہ ہوا۔ شہر میں رعایا تو آمد عمرو کی نسبت ڈھنڈورا سن چکی تھی، اس وقت بھگدڑ پڑتے ہی بغیر پرسشِ احوال بھاگی۔ عمرو نے گیند روغن میں بھگو کر مکانات پر پھینکے کہ ہر طرف آگ لگ گئی۔ دارالامارت شاہی میں آگ لگا دی، جو کوئی گھر سے نکلا اسنے قیامت برپا دیکھی، آگ لگی ہے، پتھر برستے ہیں، تیر گر رہے ہیں، مار و عقرب کی بارش ہو رہی ہے۔ وہ سب سمجھے کہ عمرو معلوم ہوتا ہے فوج لے کر آیا ہے۔ پس جو منچلے تھے آمادہِ حرب ہوئے، لیکن لڑیں کس سے، وہاں تو صرف مخمور سحر کرتی اڑتی چلی آتی تھی۔ رعایا اور ملازمانِ شاہی حریف کی تلاش میں ایسا گھبرائے کہ جو غول سامنے آیا اسکو عمرو کی فوج سمجھ کر لڑنے لگے اور ادھر کے آنے والے ان کو حریف جان کر ہم نبرد ہوئے۔ صد ہا سر کٹ گئے، گلی کوچے لاشوں سے پٹ گئے، خون کے نالے بہنے لگے، شعلہ ہائے آتش بلند تھے۔ ہنگامہ گیر و دار تھا۔
ادھر مخمور آ کر رہی تھی، ادھر فوج و رعایا باہم لڑ رہی تھی۔ عمرو کہ اس ہنگامے دکانوں میں گھس کر مال تخت و تاراج کرتا تھا اور چھلانگیں کر کے ہر ایک کے سر پر خنجر مارتا تھا، سر جدا ہوتے تھے، لوگ بھاگتے جاتے تھے، مگر مرتے تھے۔ خلاصہ کلام اس ٹھوڑی سی رات میں تیغِ تیز آتش بار تھی۔ خرمن جان ساحران جل کر راکھ کا انبار تھی۔ شمشیر مثل خانہ تقدیر دفترِ ہستی کو محو کرتی تھی، کمند گرہ گیر بسان سلسلہ قضا و قفر ہر ایک کی پا بہ زنجیر تھی۔ اجل گلو گیر تھی۔ جس گلی میں دیکھئے ہنگامۂ جنگ تھا، ہر کوچہ ایک دوسرے سے طالبِ نام و ننگ تھا۔ بہت سے قلعہ کا در کھول کر بھاگ گئے تھے، صحرا اور کوہستان میں پریشان پھرتے تھے۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی، اپنی اپنی جان بچانے پر نظر تھی۔
اندھیرے میں تھی تیغ شعلہ فشاں
طپان ابر میں جیسے ہوں بجلیاں
مچانے لگے شور جادو کے بیر
برستا تھا ہر سمت بارانِ تیر
چلی تیغ چلن کی سن سن ہوا
دیا مشعلِ زندگی کو بجھا
بھڑک اٹھے یوں شعلہ ہائے فساد
کہ در کاخ تن آتش کیں فتاد
ہوا آب تیغ رواں یوں رواں
کہ غرق ہو گئی جس میں کشتیِ جاں
بڑھا قلزمِ مرگ کا ایسا پاٹ
اترنے لگے تیغ کے سوکھے گھاٹ
پسر نے پدر کو کیا تھا ہلاک
کیا بھائی کا بھائی نے سینہ چاک
غرض صبح تک رہا یہ ماجرا
کہ آپس میں ہر ایک لڑتا رہا
درِ قلعہ تو کھلا ہوا ہی تھا، صبح ہوتے ہوتے عمرو قلعہ سے بھاگنے والوں کے ساتھ نکل گیا اور مخمور بھی اڑ کر شہر کے باہر آئی، لیکن عمرو کی فطرت پر حیران تھی کہ اس نے سارا شہر دم بھر میں قتل کر ڈالا اور مال سارا لوٹ کر آپ الگ ہو رہا۔
غرض یہ کہ اسی حیرت میں ایک پہاڑ پر آ کر کھڑی تھی کہ بہت دور عمرو کو ست و خیز کرتے جاتے دیکھا، یہ بھی اڑ کر اسی طرف کو چلی اور قریب پہنچ کر ملاقی ہوئی، دونوں باہم باتیں کرتے روانہ ہوئے۔
ادھر قلعہ نورانیہ میں دمِ سحر ایک کو ایک نے پہچانا اور باہم لڑنا موقوف کیا، لیکن فرطِ خوف سے بھاگ بھاگ کر جا بجا مخفی ہوئے، جو ملازم اور سپاہی لڑنے مرنے سے بچے وہ باغ میں گئے۔ لاش نور جادو کی اٹھائی، بارہ دری الٹی ہوئی پائی۔ یہ سب فریاد کناں سمتِ شاہ جاوداں روانہ ہوئے، لیکن عمرو اور مخمور ہنستے قہقہے لگاتے چلے جاتے تھے کہ یکا یک فلک پر سناٹا ہوا اور ایک ساحر مہیب صورت، کریہہ منظر، بد شعار، اژرد پر سوار، فرستادہ افراسیاب عالی تبار، بلائے جادو، روبرو آیا اور للکارا۔ "اے باد و زر مکار کہاں میرے ہاتھ سے بچ کر جائے گا۔"
مخمور نے نعرہ سن کر عمرو کو پیچھے کیا اور آپ آگے بڑھ کر آمادہِ حرب ہوئی۔ نارنج ترنج چلنے لگے، اژرد و عقرب بننے لگے، ابرِ سحر آ کر برسنے لگے، شور برپا ہوا۔ بلائے جادو نے جب دیکھا کہ میں اس سے سر پر نہیں ہونگا، پس قریب آ کر خاکِ جمشیدی اڑائی۔ مخمور پر بیہوشی چھائی۔ بلائے جادو نے چاہا کہ عمرو کو بھی گرفتار کر لوں اور دونوں کا سر کاٹ کر شہنشاہ کے پاس لے جاؤں، یہ قصد کر کے سحر پڑھتا آگے بڑھا۔
عمرو نے للکارا، "او حرامزادے، لے میرے اس سحر کو رد کر"۔ یہ کہہ کر ایک نارنج کمر سے نکال کر اس کو دکھایا وہ سمجھا کہ عمرو بھی ساحر ہے۔ نارنج دیکھتے ہی ردِ سحر پڑھنے لگا۔ عمرو نے نارنج تاک کر اسکی ناک پر مارا، وہ نارنج نہ تھا، حبابِ بیہوشی تھا کہ ناک پر لگتے ہی بیہوش ہوگیا اور غبارِ بیہوشی دھویں کی طرح نکل کر دماغ میں سرایت کر گیا۔ وہ چھینک کر بیہوش ہو گیا۔ عمرو نے خنجر نکال کر چاہا کہ سر کاٹ لوں کہ ایک برقِ شعلہ بار چمکی، عمرو سمجھا کہ کچھ آفت ہے، مخمور کو کاندھے پر لادا اور وہاں سے بھاگا۔ ادھر وہ بجلی پنجہ بن کر جو گری، بلائے جادو کو اٹھا کر لے گئی۔ ادھر مخمور کچھ عرصہ میں ہوشیار ہوئی۔ عمرو کی گود میں اپنے تئیں پایا، حال پوچھا، عمرو نے سب کیفیت بیان کی۔
مخمور نے کہا۔ "وہ بجلی نہ تھی، پنجۂ سحر ہوگا جو اسکو اٹھا لے گیا۔ افرسیاب نے بہر حفاظت بطور مخفی کے کچھ پنجے بھی اسکے ساتھ کر دیئے ہونگے۔ اب ہم تم یہاں سے جلدی نکل چلیں ایسا نہ ہو کہ کچھ اور آفت آئے۔"
عمرو نے کہا۔ "اگر پنجے اسکے ساتھ تھے تو ہماری بلا سے، جلدی کیا ہے، ہم تو آہستہ آہستہ سیر کرتے چلیں گے۔" یہ کہہ کر تفریخ کرتے دونوں روانہ ہوئے۔
مگر افراسیاب باغ سیب میں متکمن تھا کہ اول ملازمانِ نور جادو لاش نور جادو کی لیے درِ باغ پر نالاں و گریاں آئے، بادشاہ نے غل سنکر رو برو بلایا۔ انہوں نے آ کر لاش سامنے رکھ دیا اور فریاد کی۔
افراسیاب کو حال قلعہ نورانیہ کے قلع قمع کا سنکر غصہ آیا اور چاہتا تھا کہ فوج بہر گرفتاری عمرو روانہ کرے۔
اسی اثنا میں پنجے نے بلائے جادو کو لا کر سامنے ڈال دیا۔ بادشاہِ طلسم اور بھی غضب ناک ہوا اور آبِ سحر پڑھ کر بلائے جادو کو ہوشیار کیا اور کہا۔ "اسی منہ پر عمرو کو گرفتار کرنے کو دعوٰی کر گئے تھے۔" بلائے جادو کو بڑی ندامت ہوئی اور عرض کیا۔ "غلام پھر جاتا ہے۔"
شاہ جاوداں نے کہا۔ "اب جاؤ گے تو کیا بناؤ گے، یقین ہے کہ قتل ہو جاؤ گے۔"
اس نے عرض کیا۔ "کچھ بھی کیوں نہ ہو، میں ضرور جاؤں گا۔" یہ کہہ کر دوبارہ روانہ ہوا۔ شاہ نے لاش نور جادو اسکے ملازموں کو دے کر حکم دیا۔ "بنا بر آئینِ جمشید لاش اٹھا اور مضطرب نہ ہو، میں اس مکار کو گرفتار کرا کے تم لوگوں کو اطلاع دوں گا، اس روز بخوبی بدلہ اپنا لیا، وہ مفسد کہاں تک مجھ سے بچے گا، آخر ایک نہ ایک دن اپنی سزا کو پہنچے گا۔ فی الحال وزرائے سلطنت قلعہ نورانیہ کا انتظام کریں، میں ورثہ وارانِ نور جادو کو تجویز کر کے خلعتِ ریاست دوں گا۔"
غرض یہ کہ اس حکم شاہِ کو سن کر وہ لوگ پھر گئے اور افراسیاب اس فکر میں ہوا کہ ملکہ حیرت کی مدد کو طالان بن قہار کو بھیجا جائے اور کسی کو کچھ فوج دے کر بہر گرفتاری عمرو اور مخمور روانہ کرنا لازم ہے۔ یہ تو اس فکر میں ہے۔ لیکن مسافر فروشت طلسم عمرو اور مخمور سیر کناں منازل و مراحل طے کرتے کوہ و دشت طلسم ملاحظہ فرماتے چلے جاتے تھے۔ مخمور ان راستوں کو کاٹ دیتی تھی جو ساحران نامی کی جگہ رہنے کی تھی۔ اس طرح بعد قطع مسافت وزرا ایک روز ایک کوہ سیاہ کے قریب پہنچے۔ عمرو نے دیکھا کہ پہاڑ کی رنگت مثلِ قلبِ بخیلاں سیاہ ہے بلکہ تاریک تر از گورِ یہوداں پُر گناہ ہے، شامِ فرقتِ عاشقاں کی سیاہی سامنے اسکے خمل تھی، درازی و طولانی اسکی مثلِ شبِ ہجرِ بیدل تھی۔
سرِ کوہ تا پائیں کوہ گھاس اگی ہم شکل ماراں سیاہ تھی، یہ معلوم ہوتا تھا کہ افعی زہر دار پھن اپنے زمین میں گاڑے ہیں۔ کہیں کفچے اٹھائے سانپ کالے اور کوڑیالے ہیں، جا بجا بڑے بڑے غار تھے۔ ان کے اندر سوراخ ہائے مار تھے، اژدر قلابِ آتشیں بیٹھے چھوڑ رہے تھے۔ ناگ پھنی اور تھپڑ کے خاردار درخت لگے تھے۔ جنگل حرارتِ زہر سے تپ رہا تھا۔ ہر پتھر سے زرارہ آتش ناک نکلتا تھا۔ غبار زین سے سیاہ رنگ کا اڑتا تھا، ہر بگولہ بصورتِ دیو سیاہ پیدا ہو کر ڈراتا تھا۔
درے سے نکلتا تھا ایسا غبار
کہ جس طرح دشمن کے دل سے نجار
حرارت نے ایسا کیا تھا ظہور
ہر ایک غار جلتا تھا مثلِ تنور
کوئی شعلہ واں سے جو اڑ جاتا تھا
تو خورشید گردوں پہ تھراتا تھا
بگولے تھے یا کوئی دیو سیاہ
جنہیں دیکھ کر شیطان مانگے پناہ
دل اہلِ عالم کا سب دور آہ
(ختم شد صفحہ 81 تا 100)
۔