طلباء قوم کا مستقبل

شاہ حسین

محفلین
طلبا قوم کا مستقبل


ہر زمانے میں صرف انُہی اقوام نے ترقی کی جنہوں نے حصول ِعلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا رکھا انُ کی ترقی کا سبب وہ طالبِ علم ہی تھے جنہوں نے علم کے ساتھ ہنر حاصل کیا گو کہ مسلمان طالبِ علموں کی ادب سائنس و مذہب کے حوالے سے گراں قدر خدمات رہی ہیں جسِ وجہ سے امّتِ مسلمہ اکِ عرصہ دراز تک اپنے علم و ہنر کی بنا پر عالمِ اقوام میں اپنی جا بنائے رہی ۔

کسی بھی قوم کی تعمیر میں طلبا کو معمار کی سی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ادھر ملکِ خداداد پاکستان میں محاذ آرائی ہی طلبا کا بنیادی ڈھانچہ ! چناچہ اسی کی بنیادی تربیت کے ساتھ تحصیلِ علم سے فارغ ہونے پر قوم کی بہتر خدمت میں مصروفِ کار یہ قوم کے معمار جب تعمیر میں مصروف کار ہوں تو ان طالبِ علموں کا خیال آتا ہے جو حالیہ زمانے میں قوم کا مستقبل بنے ہوئے ہیں جب انُ کے ماضی پر نظر جاتی ہے تو آئندہ کے حالات جب کہ بنیادی تعلیم میں مزید بہتری آئی ہے تو اس قوم کے روشن مستقبل کا سوچ کے اطمنانِ قلب محسوس ہوتا ہے!

پاکستان میں رائج نظامِ تعلیم اکثر تنقید کی زد میں رہا ہے کبھی طبقاتی اور غیر یکساں نظام کی طرف اشارہ تو کبی فرسوہ اور رجعتی نصاب حالانکہ اس ہی نظام کے تحت پاکستان نے بین الاقوامی معیار کے طلبا متعارف کرائے ہیں ! اگرچہ مروجہ نظامِ تعلیم خامیوں سے مبرّا نہیں پر مکمّل بوگس بھی نہیں ہے ۔ اسُ پر ستم یہ ضرور ہے سیاسی بے قائیدگیوں کی بنا پر اس کے بنیادی ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا اور جا رہا ہے اس ِ صورتِ حال کے پیش ِ نظر کسی درخشاں مستقبل کی امید بے معنی ہے ۔ گو کہ یکساں نظامِ تعلیم نہایت ضروری ہے جس میں غریب و امیر ایک ہی نظام کے تحت علم حاصل کرے سوائے انگریزی کے ! تمام مضامیں خاص کر ٹیکنالوجی کے علوم قومی زبان میں ہی ہوں

اگر ہم یہ کہیں گے صرف تعلیم ہی کسی قوم کے رشن مستقبل کی ضمانت ہے تو یہ بجا نہیں ہو گا اس کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور قوم پرستی ہی کسی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہے اب سری لنکا کی شرح خواندگی پر غور کریں کو جو کہ اٹھانوّے فیصد ہے مگر غربت اور سماجی مسائل بھی ساتھ کچھ کم نہیں ہیں
 
Top