طفل مکتب کی کاوِش غزل (اساتذہ کرام کی اصلاح اور حوصلہ افزائی کی طلبگار)

معجزہءِ صبر ہے زندہ ہوں جو اُس کے بغیر
برسوں ہوئے دیکھا اُسے بیتے نہ پَل جِس کے بغیر
مشقتوں کی کھاد اور دے پانی استقلال کا
گلشنِ حیات میں آئے نہ پھَل جس کے بغیر
پیار ہے مکینوں میں جو جھونپڑی آباد ہے
بادشاہِ وقت کا سُونا محل جس کے بغیر
بندگی خدا کی اور خلقِ خدا سے پیار کر
رائیگاں سب جائے گا فِکروعمل جس کے بغیر
سُنا جہنم جائیں گے سارے جو رشوت خور ہیں
کسی کا کوئی کام ہو نہ آج کل جس کے بغیر
صعوبتوں کو زیر کر نگاہ کو بلند رکھ
امتحانِ زندگی نہ ہو گا حَل جس کے بغیر
خورشید اچھے کام کر تقویٰ بھی اختیار کر
ڈھیروں تیرے اعمال بھی جائیں نہ جل جس کے بغیر
 

الف عین

لائبریرین
جیسے بھائی سید عاطف علی نے ذاتی مکالمے میں مشورہ دیا تھا، اس طرح بحر و اوزان درست کر لیں۔ لیکن انہوں نے صرف بحر درست کی ہے، زمین نہیں۔ یہاں ردیف جس کے بغیر بھی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ بلکہ قافیہ حل، جل وغیرہ بھی ہیں۔ یعنی مطلع کا پہلا مصرع ہی غلط ہے!
معذرت کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی کہ فورم میں یہ باتیں لکھ چکا ہوں
 
اصلاح شدہ غزل پیشِ خدمت ہے مزید اصلاح کی گزارش کے ساتھ


چھیڑ دی ہے آج میں نے پھر غزل جس کے بغیر
سال گذرے ان گنت بیتے نہ پل جس کے بغیر
بیج بو محنت کا اور پانی دے استقلال کا
زندگی کے باغ میں آئے نہ پھل جس کے بغیر
پیار سے رہتے ہو تم جو جھونپڑی آباد ہے
بادشاہِ وقت کا سونا محل جس کے بغیر
بندگی اللہ کی اور خلقِ خدا سے پیار کر
رائیگاں سب جائے گا فکرو عمل جس کے بغیر
نار میں جل جائیں گے سارے جو راشی مرتشی
کام پھر نا ہو کسی کا آج کل جس کے بغیر
اونچی رکھ پرواز اپنی مشکلوں کو زیر کر
امتحانِ زندگی ہوگا نہ حل جس کے بغیر
کام کر خورشید اچھےکبریا سے پھر بھی ڈر
آخرت میں یہ عمل جائیں نہ جل جس کے بغیر
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب بحر و اوزان درست ہو گئے ہیں
چھیڑ دی ہے آج میں نے پھر غزل جس کے بغیر
سال گذرے ان گنت بیتے نہ پل جس کے بغیر
.. دوسرا مصرع واضح نہیں

بیج بو محنت کا اور پانی دے استقلال کا
زندگی کے باغ میں آئے نہ پھل جس کے بغیر
.. کون پانی دے؟ پانی دیا جائے کا محل ہے
دوسرا مصرع 'آئے' کے صیغے سے غلط ہی ہے
باغ ہستی میں نہیں آتا ہے پھل...

پیار سے رہتے ہو تم جو جھونپڑی آباد ہے
بادشاہِ وقت کا سونا محل جس کے بغیر
... دوسرا مصرع مکمل نہیں۔ 'ہے' کے بغیر
جو جھونپری.. میں تنافر بھی ہے، اس مصرعے کے دونوں ٹکڑوں میں ربط بھی نہیں لگتا۔ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جھونپری میں رہنے پر بھی پیار ہے اس میں رہنے والوں کے درمیان، لیکن محل میں یہ نہیں! یہ مضمون الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا ہے

بندگی اللہ کی اور خلقِ خدا سے پیار کر
رائیگاں سب جائے گا فکرو عمل جس کے بغیر
.. چل سکتا ہے

نار میں جل جائیں گے سارے جو راشی مرتشی
کام پھر نا ہو کسی کا آج کل جس کے بغیر
.. مفہوم واضح نہیں، یعنی قیامت کے بعد جا شکر ہے کہ جب رشوت کے مجرمین جہنم رسید ہو چکیں گے تو کوئی کام نہ بن سکے گا؟ الفسے تو کچھ ایسا ہی مفہوم ظاہر ہو رہا ہے
'نا' بجائے 'نہ' کے غلط استعمال ہے

اونچی رکھ پرواز اپنی مشکلوں کو زیر کر
امتحانِ زندگی ہوگا نہ حل جس کے بغیر
... کس کے بغیر؟ واضح نہیں

کام کر خورشید اچھےکبریا سے پھر بھی ڈر
آخرت میں یہ عمل جائیں نہ جل جس کے بغیر
.. عمل جل جانا محاورہ کے خلاف ہے
 
استادِمحترم ایک بار پھر شکریہ نہایت ادب سے عرض ہے کہ
سر ہر شعر میں پہلا اور دوسرا مصرعہ آپس میں جڑے ہیں جیسے
نار میں جل جائیں گے سارے جو راشی مرتشی
کام پھر نہ ہو کسی کا آج کل جس کے بغیر
مہلے مصرعہ میں قیامت کا ذکر ہے اور دوسرے مصرعے میں آجکل کا ذکر ہے
یہ جانتے ہوئے کہ نار میں جلیں گے اس کے با وجود آجکل رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا
اسی طرح
اونچی رکھ پرواز اپنی مشکلوں کو زیر کر
امتحانِ زندگی ہوگا نہ حل جس کے بغیر
امتحانِ زندگی جو کچھ پہلے مصرعہ میں کہا گیا ہے اس کے بغیر حل نہ ہوگا
 

الف عین

لائبریرین
استادِمحترم ایک بار پھر شکریہ نہایت ادب سے عرض ہے کہ
سر ہر شعر میں پہلا اور دوسرا مصرعہ آپس میں جڑے ہیں جیسے
نار میں جل جائیں گے سارے جو راشی مرتشی
کام پھر نہ ہو کسی کا آج کل جس کے بغیر
مہلے مصرعہ میں قیامت کا ذکر ہے اور دوسرے مصرعے میں آجکل کا ذکر ہے
یہ جانتے ہوئے کہ نار میں جلیں گے اس کے با وجود آجکل رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا
اسی طرح
اونچی رکھ پرواز اپنی مشکلوں کو زیر کر
امتحانِ زندگی ہوگا نہ حل جس کے بغیر
امتحانِ زندگی جو کچھ پہلے مصرعہ میں کہا گیا ہے اس کے بغیر حل نہ ہوگا
دو لختی کی بات تو میں نے نہیں کہی! صیغے کی بات کہی ہے۔ پہلے میں مستقبل ہے، دوسرے میں 'کام نہ ہو' کی وجہ سے تمنائی لگ رہا ہے۔ 'نا ہو' بھی 'نہ ہو' ہونا چاہئے۔
دوسرے شعر کے پہلے مصرعے میں دو باتوں کا ذکر ہے، پرواز اور مشکلیں۔ دوسرے مصرعے کا ضمیر جس کس طرف اشارہ کرتا ہے، اس کا کوئی واضح اشارہ نہیں
 
Top